ایوب
37 اِس پر میرا دل زور زور سے دھڑکتا ہے
اور اپنی جگہ سے اُچھل پڑتا ہے۔
2 غور سے اُس کی آواز کی گڑگڑاہٹ سنو
اور اُس کے مُنہ سے نکلنے والی گرج پر دھیان دو۔
3 وہ اِسے آسمان سے کھول دیتا ہے
اور زمین کے کونے کونے تک بجلی چمکاتا ہے۔
4 اِس کے بعد دھاڑنے کی آواز سنائی دیتی ہے؛
وہ اپنی زوردار آواز میں گرجتا ہے
اور جب وہ بولتا ہے تو بجلی کڑکتی رہتی ہے۔
5 خدا کی آواز کی گرج حیرتانگیز ہے؛
وہ ایسے عظیم کام کرتا ہے جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔
6 وہ برف سے کہتا ہے: ”زمین پر پڑ“
اور بارش کی بوچھاڑ سے کہتا ہے: ”زوروشور سے برس۔“
8 جنگلی جانور اپنی کھوؤں میں گُھس جاتے ہیں
اور اپنے ٹھکانوں سے باہر نہیں نکلتے۔
9 طوفانی ہوا اپنی کوٹھڑی سے نکلتی ہے
اور شمالی ہوائیں ٹھنڈ لاتی ہیں۔
10 خدا کے دم سے پانی برف بن جاتا ہے
اور سارا پانی جم جاتا ہے۔
11 وہ بادلوں کو نمی سے بھرتا ہے
اور اِن میں بجلی چمکاتا ہے۔
12 وہ اُس کے اِشارے پر اِدھر اُدھر لہراتے ہیں
اور ساری زمین* پر اُس کا حکم بجا لاتے ہیں۔
13 وہ لوگوں کو سزا دینے کے لیے،* زمین کو سیراب کرنے کے لیے
یا اپنی اٹوٹ محبت ظاہر کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔
14 میری بات سنیں ایوب!
ذرا رُکیں اور خدا کے حیرانکُن کاموں پر غور کریں۔
15 کیا آپ کو معلوم ہے کہ خدا بادلوں کو قابو میں کیسے رکھتا ہے*
اور بادلوں میں سے بجلی کیسے چمکاتا ہے؟
16 کیا آپ جانتے ہیں کہ بادل کیسے تیرتے ہیں؟
یہ اُس ہستی کے شاندار کام ہیں جس کے پاس کامل علم ہے۔
17 جب جنوبی ہوا کی وجہ سے زمین پر سناٹا ہو جاتا ہے
تو آپ کے کپڑے کیوں تپنے لگتے ہیں؟
18 کیا آپ خدا کے ساتھ آسمان کو پھیلا* سکتے ہیں
اور اِسے دھات کے آئینے جتنا مضبوط بنا سکتے ہیں؟
19 ہمیں بتائیں کہ ہمیں اُس سے کیا کہنا چاہیے؛
ہم اُسے کوئی جواب نہیں دے سکتے کیونکہ ہم تاریکی میں ہیں۔
20 کیا کوئی اُس سے کہہ سکتا ہے کہ مَیں کچھ بولنا چاہتا ہوں
یا کیا کسی نے کوئی ایسی خاص بات کہی ہے جو اُسے بتائی جانی چاہیے؟
21 چاہے آسمان جتنا بھی روشن ہو،
لوگ تب تک روشنی* نہیں دیکھ سکتے
جب تک ہوا نہ چلے اور بادلوں کو اُڑا نہ لے جائے۔
22 شمال سے سنہری روشنی چمکتی ہے؛
خدا کی شانوشوکت اِنسان کو دنگ کر دیتی ہے۔
23 لامحدود قدرت کے مالک کو سمجھنا ہمارے بس سے باہر ہے؛
وہ اِنتہائی طاقتور ہے؛
وہ کبھی نااِنصافی نہیں کرتا اور نیکی کے اپنے اعلیٰ معیاروں کے خلاف نہیں جاتا۔
24 اِس لیے لوگوں کو اُس کا خوف رکھنا چاہیے
کیونکہ وہ اُن پر مہربانی نہیں کرتا جو خود کو دانشمند سمجھتے ہیں۔“*