یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م25 مارچ ص.‏ 26-‏31
  • یہوواہ کا ہاتھ کبھی چھوٹا نہیں ہوتا!‏

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • یہوواہ کا ہاتھ کبھی چھوٹا نہیں ہوتا!‏
  • مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے (‏مطالعے کا ایڈیشن)‏—‏2025ء
  • ذیلی عنوان
  • ملتا جلتا مواد
  • موسیٰ اور بنی‌اِسرائیل سے سیکھیں
  • جب ہمیں پیسوں کی تنگی کا سامنا ہوتا ہے
  • جب ہمیں مستقبل کے لیے کچھ پیسے بچا کر رکھنے کے حوالے سے منصوبے بنانے ہوتے ہیں
  • خدا کے وفادار بندوں کے آخری الفاظ سے سیکھیں
    مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے (‏مطالعے کا ایڈیشن)‏—‏2024ء
  • ایسے فیصلے کریں جن سے ثابت ہو کہ آپ یہوواہ پر بھروسا کرتے ہیں
    مسیحی زندگی اور خدمت—‏اِجلاس کا قاعدہ 2023ء
  • خاکساری سے تسلیم کریں کہ آپ سب باتوں کو نہیں جانتے
    مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے (‏مطالعے کا ایڈیشن)‏—‏2025ء
  • کبھی نہ بھولیں کہ یہوواہ ”‏زندہ خدا“‏ ہے!‏
    مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے (‏مطالعے کا ایڈیشن)‏—‏2024ء
مزید
مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے (‏مطالعے کا ایڈیشن)‏—‏2025ء
م25 مارچ ص.‏ 26-‏31

مطالعے کا مضمون نمبر 13

گیت نمبر 4‏:‏ یہوواہ میرا چوپان ہے

یہوواہ کا ہاتھ کبھی چھوٹا نہیں ہوتا!‏

‏”‏کیا[‏یہوواہ]‏کا ہاتھ چھوٹا ہو گیا ہے؟“‏‏—‏گن 11:‏23۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

اب ہمیں پہلے سے بھی زیادہ اِس بات پر بھروسا کرنے کی ضرورت کیوں ہے کہ یہوواہ ہمیشہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرے گا۔‏

1.‏ جب موسیٰ نے بنی‌اِسرائیل کی مصر سے آزاد ہونے میں رہنمائی کی تو اُنہوں نے یہوواہ پر بھروسا کیسے ظاہر کِیا؟‏

عبرانیوں کی کتاب میں ہمیں ایسے بہت سے لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ اِن میں سے ایک موسیٰ تھے جنہوں نے ایمان کی شان‌دار مثال قائم کی۔ (‏عبر 3:‏2-‏5؛‏ 11:‏23-‏25‏)‏ اُنہوں نے اُس وقت یہوواہ پر ایمان ظاہر کِیا جب اُنہوں نے بنی‌اِسرائیل کی مصر سے آزاد ہونے میں پیشوائی کی۔ وہ مصر کے فِرعون اور اُس کی طاقت‌ور فوج سے نہیں ڈرے۔ اِس کی بجائے موسیٰ نے یہوواہ پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے اُس کے بندوں کی پہلے بحیرۂ‌احمر کو پار کرنے میں رہنمائی کی اور پھر بیابان میں اُن کی رہنمائی کی۔ (‏عبر 11:‏27-‏29‏)‏ بنی‌اِسرائیل میں سے بہت سے لوگوں نے اِس بات پر بھروسا کرنا چھوڑ دیا تھا کہ یہوواہ اُن کی ضرورتیں پوری کرے گا لیکن موسیٰ پھر بھی یہوواہ پر بھروسا کرتے رہے۔ اور یہوواہ نے بھی اُنہیں کبھی مایوس نہیں کِیا۔ وہ بنی‌اِسرائیل کو خشک اور بنجر ویرانے میں معجزہ کر کے کھانا اور پانی دیتا رہا۔‏a‏—‏خر 15:‏22-‏25؛‏ زبور 78:‏23-‏25‏۔‏

2.‏ خدا نے موسیٰ سے یہ کیوں پوچھا:‏ ”‏کیا[‏یہوواہ]‏کا ہاتھ چھوٹا ہو گیا ہے؟“‏ (‏گنتی 11:‏21-‏23)‏

2 حالانکہ موسیٰ یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے تھے لیکن بنی‌اِسرائیل کے مصر سے آزاد ہونے کے تقریباً ایک سال بعد وہ یہ سوچنے لگے کہ کیا یہوواہ واقعی اپنے کہنے کے مطابق اُن لوگوں کو کھانے کے لیے گوشت دے پائے گا۔ موسیٰ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسے بنجر ویرانے میں جہاں کوئی چرندپرند نہیں، یہوواہ لاکھوں لاکھ اِسرائیلیوں کے لیے اِتنا زیادہ گوشت کیسے فراہم کرے گا جس سے وہ سب اِسے پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ خدا نے موسیٰ سے پوچھا:‏ ”‏کیا[‏یہوواہ]‏کا ہاتھ چھوٹا ہو گیا ہے؟“‏ ‏(‏گنتی 11:‏21-‏23 کو پڑھیں۔)‏ اِصطلا‌ح ”‏یہوواہ کا ہاتھ“‏ یہوواہ کی پاک روح یا طاقت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو وہ اپنی مرضی پوری کرنے کے لیے اِستعمال کرتا ہے۔ ایک طرح سے یہوواہ موسیٰ سے یہ پوچھ رہا تھا:‏ ”‏آپ کے خیال میں کیا مجھ میں اِتنی طاقت نہیں کہ مَیں وہ کام کر سکوں جو مَیں کرنا چاہتا ہوں؟“‏

3.‏ ہمارے لیے اُس واقعے پر سوچ بچار کرنا اِتنا اہم کیوں ہے جس میں موسیٰ اور بنی‌اِسرائیل اِس بات پر بھروسا کرنے میں ناکام ہو گئے کہ یہوواہ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرے گا؟‏

3 کیا کبھی آپ کو یہ سوچ کر فکر ہوئی کہ ”‏پتہ نہیں، یہوواہ میری اور میرے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرے گا یا نہیں؟“‏ چاہے آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو یا نہیں، آئیے موسیٰ اور بنی‌اِسرائیل کی مثال پر غور کرتے ہیں جو اِس بات پر بھروسا کرنے میں ناکام ہو گئے کہ یہوواہ اُنہیں ضرورت کی چیزیں دے گا۔ ہم کچھ ایسی آیتوں پر بھی غور کریں گے جن سے ہمارا اِس بات پر یقین مضبوط ہو جائے گا کہ یہوواہ کا ہاتھ چھوٹا نہیں کہ یہ ہماری ضرورتیں پوری نہ کر سکے۔‏

موسیٰ اور بنی‌اِسرائیل سے سیکھیں

4.‏ بہت سے اِسرائیلی اِس بات پر شک کیوں کرنے لگے کہ یہوواہ اُنہیں ضرورت کی چیزیں دے گا؟‏

4 لیکن بہت سے اِسرائیلیوں کے دل میں یہ شک کیوں آیا کہ یہوواہ اُن کا خیال رکھے گا؟ جب بنی‌اِسرائیل مصر سے وعدہ کیے ہوئے ملک میں جا رہے تھے تو اِس دوران اُنہیں اور اُن کے ساتھ شامل ”‏ایک ملی‌جلی گروہ“‏ کو کچھ وقت کے لیے ایک بہت بڑے ویرانے میں رہنا پڑا۔ (‏خر 12:‏38؛ اِست 8:‏15)‏ وہ ملی‌جلی گروہ اور بہت سے اِسرائیلی من کھا کھا کر تنگ آ گئے تھے اور موسیٰ سے شکایتیں کرنے لگے تھے۔ (‏گن 11:‏4-‏6)‏ اِن لوگوں کو کھانے کی وہ چیزیں یاد آ رہی تھیں جو وہ مصر میں کھایا کرتے تھے۔ اِس لیے جب اُنہوں نے موسیٰ سے اِس بارے میں شکایت کی تو موسیٰ یہ دباؤ محسوس کرنے لگے کہ اُنہیں اِن سب لوگوں کو کھانے کے لیے گوشت دینا ہوگا۔—‏گن 11:‏13، 14۔‏

5-‏6.‏ بنی‌اِسرائیل کے ساتھ مصر سے جانے والے غیراِسرائیلیوں نے اُن میں سے بہت سے اِسرائیلیوں پر جس طرح سے اثر ڈالا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

5 بنی‌اِسرائیل کے ساتھ مصر سے جانے والے غیراِسرائیلی اُن چیزوں کے لیے شکرگزار نہیں تھے جو یہوواہ اُنہیں دے رہا تھا۔ اُن کے اِس بُرے رویے کا اثر بنی‌اِسرائیل پر بھی پڑ رہا تھا اور وہ بھی اُنہی کی طرح سوچنے لگ گئے تھے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اگر ہمارے اِردگِرد لوگ اُن چیزوں کے لیے قدر نہیں دِکھاتے جو یہوواہ ہمیں دے رہا ہے تو ہم پر بھی اُن کی بُری سوچ کا اثر ہو سکتا ہے۔ اِس طرح ہم بڑی آسانی سے اُن چیزوں کو پانے کی خواہش کرنے لگ سکتے ہیں جو پہلے ہمارے پاس ہوا کرتی تھیں یا پھر اگر کسی اَور کے پاس وہ چیزیں ہیں تو ہم اُن سے حسد کرنے لگ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اُن چیزوں پر مطمئن رہیں گے جو ہمارے پاس ہیں تو ہم زیادہ خوش رہ پائیں گے پھر چاہے ہمارے حالات جیسے بھی ہوں۔‏

6 بنی‌اِسرائیل کو یہ یاد رکھنا چاہیے تھا کہ یہوواہ نے اُنہیں یقین دِلایا ہے کہ جب وہ اپنے نئے ملک میں پہنچ جائیں گے تو اُنہیں اُن کی ضرورتوں سے بھی بڑھ کر چیزیں ملیں گی۔ لیکن یہ وعدہ ملک کنعان میں پہنچ کر ہی پورا ہونا تھا نہ کہ اُس وقت جب وہ ویرانے میں سفر کر رہے تھے۔ اِسی طرح ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں اِس دُنیا میں رہتے ہوئے کیا کچھ نہیں مل رہا بلکہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہوواہ نے نئی دُنیا میں ہمیں کون کون سی چیزیں دینے کا وعدہ کِیا ہے۔ ہم ایسی آیتوں پر بھی غور کر سکتے ہیں جن سے یہوواہ پر ہمارا بھروسا اَور زیادہ بڑھ جائے۔‏

7.‏ ہم اِس بات کا پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کا ہاتھ کبھی چھوٹا نہیں پڑتا؟‏

7 لیکن اِن سب باتوں پر غور کرنے کے بعد بھی شاید آپ سوچیں کہ خدا نے موسیٰ سے یہ کیوں پوچھا:‏ ”‏کیا[‏یہوواہ]‏کا ہاتھ چھوٹا ہو گیا ہے؟“‏ یہوواہ غالباً موسیٰ کو یہ سمجھانا چاہ رہا تھا کہ وہ صرف یہی نہ سوچیں کہ یہوواہ کے ہاتھ میں کتنی زیادہ طاقت ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ موسیٰ یہ بھی جان جائیں کہ یہوواہ کے ہاتھ کی پہنچ کہاں تک ہے۔ تو بھلے ہی بنی‌اِسرائیل ویرانے کے بیچ و بیچ رہ رہے تھے لیکن یہوواہ وہاں بھی اُن کے لیے ڈھیر سارا گوشت فراہم کر سکتا تھا۔ اور یہوواہ نے واقعی ثابت کر دیا کہ ”‏وہ اپنے زورآور ہاتھ اور پھیلائے ہوئے بازو سے“‏ کیا کچھ کر سکتا ہے۔ (‏زبور 136:‏11، 12‏، فٹ‌نوٹ)‏ جب ہم کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہوواہ کا ہاتھ ہم تک نہیں پہنچ سکتا۔—‏زبور 138:‏6، 7‏۔‏

8.‏ ہم وہ غلطی کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں جو ویرانے میں رہنے والے بہت سے لوگوں نے کی تھی؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

8 پھر جلد ہی یہوواہ نے اپنے وعدے کے مطابق بنی‌اِسرائیل کو گوشت کھانے کے لیے دیا۔ اُس نے معجزہ کر کے اُن لوگوں کو بہت زیادہ بٹیریں دیں۔ لیکن بنی‌اِسرائیل نے صبر اور شکر سے کام لینے کی بجائے لالچ کِیا اور وہ بٹیروں پر ٹوٹ پڑے۔ وہ سارا دن اور ساری رات اور اُس کے دوسرے دن بھی جتنی زیادہ بٹیریں جمع کر سکتے تھے، کرتے رہے۔ یہوواہ کو اُن لوگوں پر بہت غصہ آیا ”‏جنہوں نے حرص کی تھی“‏ اور اُس نے اُنہیں سزا دی۔ (‏گن 11:‏31-‏34)‏ اِس واقعے سے ہم ایک خاص سبق سیکھتے ہیں۔ ہمیں ضرورت سے زیادہ چیزیں حاصل کرنے کا لالچ نہیں کرنا چاہیے۔ چاہے ہم امیر ہوں یا غریب، ہمیں یہوواہ اور یسوع کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے کو اہمیت دینی چاہیے اور یوں”‏آسمان پر خزانے جمع“‏ کرنے چاہئیں۔ (‏متی 6:‏19، 20؛‏ لُو 16:‏9‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمارا خیال رکھے گا۔‏

بنی‌اِسرائیل رات کے وقت ویرانے میں ڈھیر ساری بٹیریں جمع کر رہے ہیں۔‏

جب یہوواہ نے ویرانے میں بنی‌اِسرائیل کو گوشت کھانے کے لیے دیا تو اُنہوں نے کیا کِیا اور اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔)‏


9.‏ ہم خدا کی طرف سے ملنے والی مدد کے حوالے سے کس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

9 یہوواہ آج بھی ہاتھ بڑھا کر اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ لیکن کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں کبھی پیسے کی تنگی نہیں ہوگی یا ہمارے پاس کبھی کھانے پینے کی کمی نہیں ہوگی؟‏b نہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ وہ ہمیں ہر طرح کی مشکل میں سہارا دے گا۔ اِس بات کی سچائی کو سمجھنے کے لیے ہم اِن دو صورتحال پر غور کر سکتے ہیں:‏ (‏1)‏جب ہمیں پیسوں کی تنگی کا سامنا ہوتا ہے اور (‏2)‏جب ہمیں اپنے بڑھاپے کے لیے کچھ پیسے بچا کر رکھنے کے حوالے سے منصوبے بنانے ہوتے ہیں۔ اِن صورتحال میں ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم اِس بات پر بھروسا رکھتے ہیں کہ یہوواہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اپنے بندوں کو وہ چیزیں دے گا جن کی اُنہیں ضرورت ہوگی۔‏

جب ہمیں پیسوں کی تنگی کا سامنا ہوتا ہے

10.‏ ہمیں کن باتوں کی وجہ سے پیسے کی تنگی ہو سکتی ہے؟‏

10 جیسے جیسے ہم اِس دُنیا کے خاتمے کے قریب ہوتے جائیں گے، ہماری زندگی اَور مشکل ہو جائے گی اور ہمارے مالی حالات بھی اَور بگڑ جائیں گے۔ بدلتی حکومتوں، جنگوں، قدرتی آفتوں اور نئی نئی وباؤں کی وجہ سے ہماری زندگی پَل بھر میں بدل سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ ہماری نوکری بھی اچانک سے جا سکتی ہے، ہم اُن چیزوں کو بھی اچانک سے کھو سکتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں یا پھر ہمیں اپنے گھروں کو اچانک سے چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں شاید ہمیں اپنے گھرانے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نئی نوکری تلاش کرنے اور اپنے گھرانے کو نئی جگہ لے جا کر شفٹ ہونے کے بارے میں سوچنا پڑے۔ کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم اِن معاملوں کے حوالے سے فیصلے لیتے وقت یہوواہ کے طاقت‌ور ہاتھ پر بھروسا کر سکیں؟‏

11.‏ کیا چیز پیسے کی تنگی کے مسئلے سے نمٹنے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے؟ (‏لُوقا 12:‏29-‏31‏)‏

11 اپنے مسئلوں سے نمٹنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں کے بارے میں یہوواہ کو بتائیں۔ (‏اَمثا 16:‏3‏)‏ اُس سے مدد مانگیں کہ وہ اچھے فیصلے لینے کے لیے آپ کو دانش‌مندی دے اور آپ کے دل کو سکون دے تاکہ آپ اپنی صورتحال کی وجہ سے ’‏زیادہ پریشان نہ ہوں۔‘‏ ‏(‏لُوقا 12:‏29-‏31 کو پڑھیں۔)‏ یہوواہ سے اِلتجا کریں کہ وہ آپ کو ضرورت کی اُن چیزوں پر ہی مطمئن رہنے کے قابل بنائے جو آپ کے پاس ہیں۔ (‏1-‏تیم 6:‏7، 8‏)‏ اِس کے علاوہ ہماری تنظیم کی کتابوں میں تحقیق کریں کہ آپ اُس وقت کیا کر سکتے ہیں جب آپ کو پیسوں کی تنگی کا سامنا ہوتا ہے۔ بہت سے بہن بھائیوں کو ویب‌سائٹ jw.org پر اُن ویڈیوز کو دیکھنے اور مضامین کو پڑھنے سے بہت فائدہ ہوا ہے جن میں مالی مسئلوں سے نمٹنے کے حوالے سے مشورے دیے گئے ہیں۔‏

12.‏ کون سے سوال ایک مسیحی کی مدد کریں گے تاکہ وہ اپنے گھرانے کے لیے صحیح فیصلے کر سکے؟‏

12 کچھ بہن بھائیوں نے ایسی نوکری کرنے کا فیصلہ کِیا جس کی وجہ سے اُنہیں اپنے گھر والوں سے دُور کسی اَور جگہ جا کر رہنا پڑا۔ لیکن بعد میں اُن میں سے بہت سے بہن بھائیوں کو احساس ہوا کہ اُن کا یہ فیصلہ کتنا غلط تھا۔ تو کوئی بھی نوکری قبول کرنے سے پہلے صرف یہ نہ سوچیں کہ اِسے کرنے سے آپ کو کتنا مالی فائدہ ہوگا بلکہ اِس بارے میں سوچیں کہ اِسے کرنے سے یہوواہ کے ساتھ آپ کی دوستی کو کتنا نقصان ہوگا۔ (‏لُو 14:‏28‏)‏ اِس لیے خود سے یہ سوال پوچھیں:‏ ”‏اگر مَیں نوکری کی وجہ سے اپنے جیون ساتھی سے دُور رہوں گا تو اِس کا میری شادی‌شُدہ زندگی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ کیا اِس نوکری کی وجہ سے مَیں سب اِجلاسوں میں اور باقاعدگی سے مُنادی میں جا سکوں گا اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکوں گا؟“‏ اور اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ کو خود سے یہ اہم سوال بھی پوچھنا چاہیے:‏ ”‏اگر مَیں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں رہوں گا تو کیا مَیں ”‏یہوواہ کی طرف سے اُن کی تربیت اور رہنمائی کرتے ہوئے اُن کی پرورش“‏ کر پاؤں گا؟“‏ (‏اِفِس 6:‏4‏)‏ یہوواہ کی سوچ کو ذہن میں رکھ کر فیصلے لیں۔ یہ سوچ کر کوئی فیصلہ نہ لیں کہ آپ کے وہ دوست اور رشتے‌دار کیا چاہتے ہیں جو پاک کلام کے اصولوں کا احترام نہیں کرتے۔‏c ذرا مغربی ایشیا میں رہنے والے ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جن کا نام ٹونی ہے۔ اُنہیں کئی ایسی نوکریوں کی پیشکش ہوئی جن کے لیے اُنہیں باہر کے ملک جانا تھا۔ بھائی ٹونی نے اِس بارے میں یہوواہ سے دُعا کرنے اور اپنی بیوی سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کِیا کہ وہ اِن نوکریوں کو قبول نہیں کریں گے۔ اِس کی بجائے وہ اور اُن کا گھرانہ اپنے خرچوں کو کم کرے گا۔ آج جب بھائی ٹونی اپنے اِس فیصلے کے بارے میں سوچتے ہیں تو اُنہیں کیسا لگتا ہے؟ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں بہت خوش ہوں کہ مَیں نے صحیح فیصلہ لیا۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ مَیں نے بہت سے لوگوں کی مدد کی تاکہ وہ یہوواہ کے بارے میں سیکھ سکیں۔ مَیں اِس بات سے بھی بہت خوش ہوں کہ میرے بچے یہوواہ سے محبت کرتے ہیں اور لگن سے اُس کی خدمت کر رہے ہیں۔ میرے گھرانے نے دیکھا ہے کہ اگر ہم متی 6:‏33 میں لکھی بات پر عمل کرتے ہیں تو یہوواہ واقعی ہمارا خیال رکھتا ہے۔“‏

جب ہمیں مستقبل کے لیے کچھ پیسے بچا کر رکھنے کے حوالے سے منصوبے بنانے ہوتے ہیں

13.‏ ہم ابھی کون سے قدم اُٹھا سکتے ہیں تاکہ ہمارے پاس اپنے بڑھاپے میں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے تھوڑے بہت پیسے ہوں؟‏

13 یہوواہ پر ہمارے بھروسے کا اِمتحان تب بھی ہو سکتا ہے جب ہم مستقبل کے حوالے سے منصوبے بناتے ہیں تاکہ ہمیں اپنے بڑھاپے میں مسئلوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بائبل میں ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ ہم محنت سے کام کریں تاکہ ہمارے پاس مستقبل میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تھوڑا بہت پیسہ ہو۔ (‏اَمثا 6:‏6-‏11‏)‏ اگر ممکن ہے تو اچھا ہوگا کہ ہم آنے والے وقت کے لیے تھوڑا پیسہ بچا کر رکھیں۔ بے‌شک پیسہ کسی حد تک تحفظ دیتا ہے۔ (‏واعظ 7:‏12‏)‏ لیکن ہمیں کبھی بھی پیسے کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے اور نہ ہی اِسے اپنی زندگی میں حد سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔‏

14.‏ ہمیں مستقبل کے لیے اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے حوالے سے منصوبے بناتے وقت عبرانیوں 13:‏5 پر کیوں غور کرنا چاہیے؟‏

14 یسوع مسیح نے ایک امیر آدمی کی مثال دی جس کے ذریعے اُنہوں نے سمجھایا کہ وہ شخص کتنا بے‌وقوف ہوتا ہے جو اپنا دھیان پیسہ جمع کرنے پر رکھتا ہے لیکن ”‏خدا کی نظر میں امیر ہونے کی کوشش نہیں“‏ کرتا۔ (‏لُو 12:‏16-‏21‏)‏ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ (‏اَمثا 23:‏4، 5؛‏ یعقو 4:‏13-‏15‏)‏ اور مسیح کا شاگرد ہونے کی وجہ سے تو ہمیں ایک اَور مشکل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ اُن کا شاگرد بننے کے لیے ہمیں اپنے سارے مال‌ودولت کو ’‏چھوڑ دینے‘‏ کو تیار ہونا چاہیے۔ (‏لُو 14:‏33‏، فٹ‌نوٹ)‏ پہلی صدی عیسوی میں یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں نے خوشی خوشی اپنے مال‌ودولت کو قربان کر دیا۔ (‏عبر 10:‏34‏)‏ آج بھی بہت سے مسیحیوں کو اِس وجہ سے اپنا پیسہ اور نوکری کھونی پڑتی ہے کیونکہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں کرتے۔ (‏مُکا 13:‏16، 17‏)‏ وہ اِن چیزوں کو قربان کرنے کو تیار کیوں ہوتے ہیں؟ اِس لیے کیونکہ وہ یہوواہ کے اِس وعدے پر پکا بھروسا رکھتے ہیں:‏ ”‏مَیں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ مَیں تمہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔“‏ ‏(‏عبرانیوں 13:‏5 کو پڑھیں۔)‏ تو ہمیں آنے والے وقت میں اپنے بڑھاپے کے لیے تھوڑے بہت پیسے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔ لیکن ہمیں یہوواہ پر پورا بھروسا رکھنا چاہیے کہ وہ ہمیں اُس وقت سنبھالے گا جب ہم پر کوئی ایسا وقت آئے گا جس کی ہم نے توقع نہیں کی ہوگی۔‏

15.‏ مسیحی والدین کو اپنے بچوں کے حوالے سے کون سی صحیح سوچ رکھنی چاہیے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

15 کچھ ملکوں میں میاں بیوی یہ سوچ کر بچے پیدا کرتے ہیں کہ اُن کے بچے بڑھاپے میں اُن کا سہارا بنیں گے اور اُن کی مالی ضرورتوں کا خیال رکھیں گے۔ ایک طرح سے وہ اپنے بچوں کو اپنی پینشن سمجھتے ہیں جس سے اُن کی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں گی۔ لیکن بائبل میں والدین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ (‏2-‏کُر 12:‏14‏)‏ بے‌شک ماں باپ کو اپنے بڑھاپے میں پیسے اور دوسری چیزوں کے حوالے سے تھوڑی بہت مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت سے بچے بھی خوشی سے اپنے ماں باپ کی اِن ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ (‏1-‏تیم 5:‏4‏)‏ لیکن مسیحی والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اُنہیں یہ سوچ کر اپنے بچوں کی پرورش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ بڑے ہو کر اُنہیں خوب پیسہ کما کر دیں۔ اِس کی بجائے اُنہیں یہ سوچ کر اپنے بچوں کی پرورش کرنی چاہیے کہ وہ بڑے ہو کر یہوواہ کی خدمت کریں۔ ایسی سوچ رکھنے سے اُنہیں زیادہ خوشی ملے گی۔—‏3-‏یوح 4‏۔‏

ایک میاں بیوی بڑی خوشی سے ویڈیو کال کے ذریعے اپنی بیٹی اور داماد سے بات کر رہے ہیں۔ اُن کی بیٹی اور داماد تنظیم کے تعمیراتی کام میں حصہ لے رہے ہیں۔‏

جو میاں بیوی یہوواہ پر بھروسا کرتے ہیں، وہ فیصلے لیتے وقت خدا کے کلام سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 15 کو دیکھیں۔)‏d


16.‏ ماں باپ اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنے اخراجات اُٹھا سکیں؟ (‏اِفِسیوں 4:‏28‏)‏

16 والدین!‏ جب آپ اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر اپنی ضرورتوں کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں تو اُنہیں اپنی مثال کے ذریعے یہوواہ پر بھروسا کرنا سکھائیں۔ اُنہیں اُن کے بچپن سے ہی محنت سے کام کرنے کی اہمیت بتائیں۔ (‏اَمثا 29:‏21؛‏ اِفِسیوں 4:‏28 کو پڑھیں۔)‏ اور پھر جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں، اُن کی مدد کریں تاکہ وہ سکول میں دل لگا کر پڑھیں۔ آپ پاک کلام سے تحقیق کر کے کچھ ایسے اصول بھی ڈھونڈ سکتے ہیں جن سے آپ اپنے بچوں کی مدد کر سکیں تاکہ وہ تعلیم کے حوالے سے صحیح فیصلے کریں۔ اپنے بچوں کی مدد کرتے وقت آپ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بچے آگے چل کر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل بنیں اور اِس کے ساتھ ساتھ مُنادی میں زیادہ وقت لگا سکیں، یہاں تک کہ پہل‌کار بھی بن سکیں۔‏

17.‏ ہم کس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

17 یہوواہ کے بندے اِس بات پر پکا بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور خواہش بھی۔ جیسے جیسے اِس دُنیا کا خاتمہ قریب آ رہا ہے، یہوواہ پر ہمارے بھروسے کا اَور زیادہ اِمتحان ہوگا۔ لیکن چاہے کچھ بھی ہو جائے، آئیے یہ عزم کریں کہ ہم اِس بات پر بھروسا کرتے رہیں گے کہ یہوواہ اپنی طاقت کے ذریعے ہماری ضرورتوں کو پورا کرتا رہے گا۔ یقین مانیں کہ یہوواہ کا طاقت‌ور ہاتھ کبھی چھوٹا نہیں ہوگا اور ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ اُس کے پھیلائے ہوئے بازو ہماری مدد کرنے کے لیے ہم تک نہ پہنچ سکیں۔‏

آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے:‏

  • موسیٰ اور بنی‌اِسرائیل کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

  • جب ہمیں پیسے کی تنگی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم یہوواہ پر بھروسا کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

  • ہمیں مستقبل کے لیے اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے حوالے سے منصوبے بناتے وقت کس بات پر غور کرنا چاہیے؟‏

گیت نمبر 150‏:‏ مخلصی کے لیے یہوواہ پر آس لگائیں

a اکتوبر 2023ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں ”‏قارئین کے سوال‏“‏ کو دیکھیں۔‏

b 15 ستمبر 2014ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں ”‏قارئین کے سوال‏“‏ کو دیکھیں۔‏

c 15 اپریل 2014ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں مضمون ”‏کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا‏“‏ کو دیکھیں۔‏

d تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک ماں باپ اپنی بیٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ ایک عبادت‌گاہ کی تعمیر کے کام میں حصہ لے رہی ہے۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں