آجکل رجائیتپسندی کی ٹھوس بنیاد
مؤرخ اور ماہرِعمرانیات ایچ. جی. ویلز نے جو ۱۸۶۶ میں پیدا ہوا، ۲۰ ویں صدی کے اندازِفکر پر زوردار اثر ڈالا۔ اپنی تصانیف کے ذریعے، اُس نے اپنے اس یقینِکامل کو پیش کِیا کہ ملینیئم (انسانی کاملیت اور مرفہالحالی کا دَور) سائنسی ترقی کیساتھ ساتھ آئیگا۔ لہٰذا، کولیئرز انسائیکلوپیڈیا ویلز کی ”بےپناہ رجائیتپسندی“ کو بیان کرتا ہے کہ اُس نے اپنے نظریے کو فروغ دینے کے لئے مسلسل کام کِیا۔ تاہم یہ اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ چھڑنے کے ساتھ ہی اُس کی رجائیتپسندی کا شیرازہ بکھر گیا۔
جب ویلز کو اس حقیقت کا احساس ہو گیا کہ ”سائنس سے بدی اور نیکی دونوں کی توقع کی جا سکتی ہے تو اُسکا ایمان جاتا رہا اور وہ قنوطیت کا شکار ہو گیا،“ چیمبرز بائیوگرافیکل ڈکشنری بیان کرتی ہے۔ ایسا کیوں واقع ہوا؟
ویلز کے ایمان اور رجائیتپسندی کی بنیاد محض انسانی کامرانیوں پر تھی۔ جب اُسے یہ احساس ہو گیا کہ نوعِانسان اُسکے یوٹوپیا [خیالی دُنیا] کو حاصل کرنے کے قابل نہیں تو وہ اَور کسی طرف بھی رجوع نہیں کر سکتا تھا۔ مایوسی جلد ہی قنوطیت میں بدل گئی۔
آجکل، بہتیرے لوگوں کو اسی وجہ سے ایسا ہی تجربہ ہوتا ہے۔ وہ جوانی میں رجائیتپسندی سے سرشار ہوتے ہیں لیکن بڑھاپے میں سخت قنوطیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے نوجوان بھی ہیں جو نامنہاد نارمل طرزِزندگی کو ترک کر کے منشیات کے ناجائز استعمال، آزادانہ جنسی تعلقات اور دیگر نقصاندہ اطوارِزندگی میں پڑ جاتے ہیں۔ اسکا حل کیا ہے؟ بائبل وقتوں کی مندرجہذیل مثالوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ ماضی، حال اور مستقبل میں رجائیتپسندی کی کیا بنیاد موجود ہے۔
ابرہام کی رجائیتپسندی بااجر ثابت ہوئی
ابرہام ۱۹۴۳ ق.س.ع. میں حاران سے روانہ ہوا، دریائےفرات کو پار کرنے کے بعد ملکِکنعان میں داخل ہو گیا۔ ابرہام کو ”اُن سب کا باپ“ کہا گیا ہے جو ”ایمان لاتے ہیں“ اور اُس نے کیا ہی عمدہ نمونہ قائم کِیا!—رومیوں ۴:۱۱۔
ابرہام کیساتھ، ابرہام کے بھائی کا یتیم بیٹا، لوط اور لوط کا خاندان تھا۔ بعدازاں، جب ملک میں قحط پڑ گیا تو دونوں خاندان مصر کو چلے گئے اور کچھ عرصے کے بعد اکٹھے واپس آ گئے۔ اس وقت تک ابرہام اور لوط دونوں نے کافی مالودولت، گلّے اور ریوڑ جمع کر لئے تھے۔ جب اُن کے چرواہوں میں جھگڑا شروع ہوا تو ابرہام نے پہل کی اور کہا: ”میرے اور تیرے درمیان اور میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہؤا کرے کیونکہ ہم بھائی ہیں۔ کیا یہ سارا مُلک تیرے سامنے نہیں؟ سو تُو مجھ سے الگ ہو جا۔ اگر تُو بائیں جائے تو مَیں دہنے جاؤنگا اور اگر تُو دہنے جائے تو مَیں بائیں جاؤنگا۔“—پیدایش ۱۳:۸، ۹۔
ابرہام بڑا ہونے کے ناطے اپنے حق میں فیصلہ کر سکتا تھا اور لوط نے اپنے چچا کیلئے احترام کے پیشِنظر ابرہام کے انتخاب کو ضرور تسلیم کِیا ہوتا۔ اسکی بجائے، ”لوؔط نے آنکھ اُٹھا کر یرؔدن کی ساری ترائی پر جو ضغرؔ کی طرف ہے نظر دوڑائی کیونکہ وہ اِس سے پیشتر کہ خداوند نے سدؔوم اور عموؔرہ کو تباہ کِیا خداوند کے باغ اور مصرؔ کے ملک کی مانند خوب سیراب تھی۔ سولوؔط نے یرؔدن کی ساری ترائی کو اپنے لئے چن لیا۔“ ایسے انتخاب سے لوط کے پاس رجائیتپسند ہونے کی ہر وجہ موجود تھی۔ تاہم ابرہام کی بابت کیا ہے؟—پیدایش ۱۳:۱۰، ۱۱۔
کیا ابرہام اپنے خاندان کی فلاح کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ناعاقبتاندیشی سے کام لے رہا تھا؟ نہیں۔ ابرہام کا مثبت میلان اور فراخدلی بڑے اجر کا باعث بنی۔ یہوواہ نے ابرہام سے کہا: ”اپنی آنکھ اُٹھا اور جس جگہ تُو ہے وہاں سے شمال اور جنوب اور مشرق اور مغرب کی طرف نظر دوڑا۔ کیونکہ یہ تمام ملک جو تُو دیکھ رہا ہے مَیں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دُونگا۔“—پیدایش ۱۳:۱۴، ۱۵۔
ابرہام کی رجائیتپسندی کی بنیاد ٹھوس تھی۔ یہ خدا کے وعدے پر مبنی تھی کہ وہ ابرہام سے ایک بڑی قوم برپا کرے گا اور ”زمین کے سب قبیلے [ابرہام کے] وسیلہ سے برکت پائیں گے۔“ (پیدایش ۱۲:۲-۴، ۷) یہ جانتے ہوئے کہ ”سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں،“ ہمارے پاس بھی پُراعتماد ہونے کی وجہ ہے۔—رومیوں ۸:۲۸۔
دو رجائیتپسند جاسوس
کوئی ۴۰۰ سال سے زائد عرصہ بعد، اسرائیلی قوم کنعان کے ”ملک میں جہاں دُودھ اور شہد بہتا ہے“ داخل ہونے کیلئے بالکل تیار کھڑی تھی۔ (خروج ۳:۸؛ استثنا ۶:۳) موسیٰ نے ۱۲ سرداروں کو یہ ذمہداری سونپی کہ ’اُس ملک کا حال دریافت کریں اور آکر بتائیں کہ اُنہیں کس راہ سے جانا چاہئے اور کون کونسے شہر اُن کے راستے میں پڑینگے۔‘ (استثنا ۱:۲۲؛ گنتی ۱۳:۲) تمام کے تمام ۱۲ جاسوس مُلک کی خوشحالی کو بیان کرنے میں متفقالرائے تھے لیکن اُن میں سے ۱۰ نے قنوطیتپسندانہ رپورٹ پیش کی جس نے لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا۔—گنتی ۱۳:۳۱-۳۳۔
دوسری جانب، یشوع اور کالب نے لوگوں کے سامنے رجائیتپسندانہ پیغام پیش کِیا اور اُن کے خدشات کو دُور کرنے کی حتیالوسع کوشش کی۔ اُنکے میلان اور رپورٹ نے یہوواہ کی اس صلاحیت پر مکمل اعتماد کو ظاہر کِیا کہ وہ اُنہیں ملکِموعود میں پہنچانے کی بابت اپنے کلام کو پورا کر سکتا ہے—لیکن بیکار۔ اسکی بجائے، ”ساری جماعت بول اٹھی کہ اِنکو سنگسار کرو۔“—گنتی ۱۳:۳۰؛ ۱۴:۶-۱۰۔
موسیٰ نے لوگوں کو یہوواہ پر توکل رکھنے کی تاکید کی لیکن اُنہوں نے سننے سے انکار کر دیا۔ چونکہ اُنہوں نے اپنے قنوطیتپسندانہ میلان کو قائم رکھا لہٰذا پوری قوم کو ۴۰ سال تک بیابان میں بھٹکنا پڑا۔ صرف یشوع اور کالب کو ۱۲ جاسوسوں میں سے رجائیتپسندی کے اجر کا تجربہ ہوا۔ بنیادی مسئلہ کیا تھا؟ ایمان کی کمی کیونکہ لوگوں نے اپنی حکمت پر تکیہ کِیا تھا۔—گنتی ۱۴:۲۶-۳۰؛ عبرانیوں ۳:۷-۱۲۔
یوناہ کا تذبذب
یوناہ نویں صدی ق.س.ع. میں رہتا تھا۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ وہ یربعام دوئم کے دورِحکومت کے کسی وقت میں اسرائیل کی دس قبائلی سلطنت کیلئے یہوواہ کا وفادار نبی تھا۔ تاہم اُس نے نینوہ جا کر لوگوں کو آگاہی دینے کی ذمہداری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مؤرخ جوزیفس بیان کرتا ہے کہ یوناہ نے ”راستے سے ہی بھاگ جانا مناسب سمجھا“ اور یافا کو چلا گیا۔ وہاں وہ ترسیس، غالباً موجودہ سپین کو جانے والی کشتی پر سوار ہو گیا۔ (یوناہ ۱:۱-۳) یوناہ ۴:۲ میں وضاحت کی گئی ہے کہ یوناہ نے اپنی اس تفویض کے لئے ایسا قنوطیتپسندانہ نظریہ کیوں اختیار کِیا۔
یوناہ بالآخر اپنے کام کو پورا کرنے پر راضی ہو گیا مگر جب نینوہ کے لوگوں نے توبہ کر لی تو وہ بہت ناراض ہوا۔ پس یہوواہ نے کدو کی اُس بیل کو جس کے سائے میں یوناہ بیٹھا تھا کاٹنے اور سُکھانے سے اُسے رحم کا ایک عمدہ سبق سکھایا۔ (یوناہ ۴:۱-۸) بیل کے سوکھ جانے کیلئے یوناہ کے غم کے احساسات کو بجا طور پر نینوہ کے اُن ۱،۲۰،۰۰۰ لوگوں کی طرف مائل ہونا چاہئے تھا جو ”اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے“ تھے۔—یوناہ ۴:۱۱۔
ہم یوناہ کے تجربے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ پاک خدمت میں قنوطیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ہم یہوواہ کی ہدایت پر دھیان دیتے اور پورے اعتماد کیساتھ اُسکی پیروی کرتے ہیں تو ہم کامیابی سے ہمکنار ہونگے۔—امثال ۳:۵، ۶۔
مشکلات میں بھی رجائیتپسندی
”تُو بدکرداروں کے سبب سے بیزار نہ ہو،“ بادشاہ داؤد نے بیان کِیا۔ ”بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔“ (زبور ۳۷:۱) یہ واقعی دانشمندانہ مشورت ہے کیونکہ آجکل ہم ناانصافی اور کجروی سے گِھرے ہوئے ہیں۔—واعظ ۸:۱۱۔
اگرچہ ہم بدکار پر رشک نہ بھی کریں توبھی جب ہم بدکرداروں کے ہاتھوں بیگناہوں کو دُکھ اُٹھاتے ہوئے دیکھتے ہیں یا جب خود ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو مایوس ہو جانا بہت آسان ہوتا ہے۔ ایسے تجربات ہمارے لئے نومید یا قنوطیتپسندانہ میلان پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب ہم ایسا محسوس کرتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اوّل، ہم یہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ بدکردار بڑے اطمینان سے یہ فرض نہیں کر سکتے کہ اُنہیں کبھی بھی اپنے کئے کی سزا نہیں ملیگی۔ زبور ۳۷ ہمیں ۲ آیت میں مزید یقیندہانی کراتا ہے: ”وہ [بدکردار] گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائینگے اور سبزہ کی طرح مُرجھا جائینگے۔“
اسکے علاوہ، ہم نیکی کرنا جاری رکھ سکتے ہیں، رجائیتپسند اور یہوواہ کے منتظر رہ سکتے ہیں۔ ”بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر اور ہمیشہ تک آباد رہ،“ زبورنویس مزید کہتا ہے۔ ”کیونکہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] انصاف کو پسند کرتا ہے اور اپنے مُقدسوں [”وفاداروں،“ اینڈبلیو] کو ترک نہیں کرتا۔“—زبور ۳۷:۲۷، ۲۸۔
حقیقی رجائیتپسندی فتح پاتی ہے!
تاہم، ہمارے مستقبل کی بابت کیا ہے؟ بائبل کی مکاشفہ کی کتاب ہمیں ایسی ”باتیں“ بتاتی ہے ”جنکا جلد ہونا ضرور ہے۔“ ان کے درمیان جنگ کی نشاندہی کرنے والا ایک لال رنگ کا گھوڑا ہے جو ”زمین پر سے صلح اُٹھا لے“ جانے کیلئے نمودار ہوتا ہے۔—مکاشفہ ۱:۱؛ ۶:۴۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانیہ میں ایک مقبول—اور رجائیتپسندانہ—رائے یہ تھی کہ یہ آخری بڑی جنگ ہوگی۔ سن ۱۹۱۶ میں، برطانوی مدبر ڈیوڈ لائیڈ جارج کچھ زیادہ حقیقتپسند تھا۔ اُس نے کہا: ”یہ جنگ، اگلی جنگ کی طرح، جنگ کو ختم کرنے والی جنگ ہے۔“ (نسخ ہمارا) اُس نے درست کہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی کے نہایت سفاکانہ طریقوں کی ایجاد کو تیز کر دیا تھا۔ پچاس سال سے زائد عرصہ کے بعد بھی جنگ کا خاتمہ دُور دُور تک کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
مکاشفہ ہی کی کتاب میں، ہم دوسرے گھڑسواروں کی بابت پڑھتے ہیں جو قحط، وبا اور موت کی علامت پیش کرتے ہیں۔ (مکاشفہ ۶:۵-۸) یہ آخری زمانے کے نشان کے اضافی پہلو ہیں۔—متی ۲۴:۳-۸۔
کیا یہ قنوطیت کے اسباب ہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ رویا یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ”ایک سفید گھوڑا ہے اور اُسکا سوار کمان لئے ہوئے ہے۔ اُسے ایک تاج دیا گیا اور وہ فتح کرتا ہؤا نکلا تاکہ اور بھی فتح کرے۔“ (مکاشفہ ۶:۲) یہاں ہم یسوع مسیح کو آسمانی بادشاہ کے طور پر تمام بدکاری کا خاتمہ کرتے ہوئے، عالمی امن اور اتحاد قائم کرنے کیلئے گھوڑے پر سوار دیکھتے ہیں۔a
مُتعیّنہ بادشاہ کی حیثیت سے، یسوع مسیح نے جب وہ زمین پر تھا تو اپنے شاگردوں کو اس بادشاہت کیلئے دُعا کرنا سکھایا تھا۔ شاید آپ کو بھی ”اے ہمارے باپ“ یا خداوند کی دُعا سکھائی گئی ہے۔ اس میں ہم خدا کی بادشاہت کے آنے، آسمان کی طرح زمین پر اُسکی مرضی پوری ہونے کیلئے دُعا مانگتے ہیں۔—متی ۶:۹-۱۳۔
موجودہ نظامالعمل کی اصلاح کرنے کی بجائے، یہوواہ، اپنے مسیحائی بادشاہ، یسوع مسیح کے ذریعے کارروائی کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ختم کر دیگا۔ اسکی جگہ، یہوواہ فرماتا ہے، ”مَیں نئے آسمان اور نئی زمین کو پیدا کرتا ہوں اور پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئینگی۔“ آسمانی بادشاہتی حکمرانی کے تحت، زمین نوعِانسان کا پُراَمن، خوشحال گھر بن جائیگی جہاں زندگی اور کام دائمی خوشی کا باعث ہونگے۔ ”میری اس نئی خلقت سے ابدی خوشی . . . کرو،“ یہوواہ فرماتا ہے۔ ”میرے برگزیدے اپنے ہاتھوں کے کام سے مدتوں تک فائدہ اُٹھائینگے۔“ (یسعیاہ ۶۵:۱۷-۲۲) اگر آپ اپنے مستقبل کی بنیاد اس لازوال وعدے پر رکھتے ہیں تو آپ کے پاس اب اور ہمیشہ تک رجائیتپسند رہنے کی ہر وجہ ہوگی!
[فٹنوٹ]
a اس رویا پر مفصل گفتگو کیلئے، براہِمہربانی واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ کتاب ریویلیشن—اٹس گرینڈ کلائمکس ایٹ ہینڈ!، کے باب ۱۶ کو دیکھیں۔
[صفحہ 4 پر تصویر]
ایچ. جی. ویلز
[تصویر کا حوالہ]
Corbis-Bettmann