یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م94 1/‏11 ص.‏ 14-‏19
  • معقولیت پیدا کریں

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • معقولیت پیدا کریں
  • مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1994ء
  • ذیلی عنوان
  • ملتا جلتا مواد
  • ‏”‏معاف کرنے کو تیار“‏
  • بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرتے وقتلچک
  • اختیار کے استعمال میں معقولیت
  • یہوواہ کی طرح لچک‌دار بنیں
    مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے (‏مطالعے کا ایڈیشن)‏—‏2023ء
  • یہوؔواہ معقولیت پسند ہے!‏
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1994ء
  • یہوواہ فراخ‌دل ہے اور ہماری صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے
    مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے—2013ء
  • یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیائیں منظم طریقے سے کیسے کام کرتی ہیں؟‏
    اب اور ہمیشہ تک خوشیوں بھری زندگی!‏—‏ایک فائدہ‌مند بائبل کورس
مزید
مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1994ء
م94 1/‏11 ص.‏ 14-‏19

معقولیت پیدا کریں

‏”‏اپنی معقولیت سب آدمیوں پر ظاہر ہو نے دو۔ خداوند قریب ہے۔“‏—‏فلپیوں ۴:‏۵‏، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔‏

۱.‏ آجکل کی دنیا میں معقول ہونا ایک چیلنج کیوں ہے؟‏

‏”‏معقولآدمی“‏—‏انگریز صحافی سر ایلنؔ پیٹرک ہربٹ نے اِسے ایک فرضی آدمی کہا۔ بے‌شک، بعض اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس فساد سے پاش پاش دنیا میں معقول لوگ موجود ہی نہیں ہیں۔ بائبل نے پیشینگوئی کی کہ اس تشویشناک ”‏اخیر زمانہ“‏ میں لوگ ”‏تُندمزاج،“‏ ”‏ڈھیٹھ،“‏ اور ”‏سنگدل“‏—‏باالفاظِ‌دیگر ہرگز معقول نہیں ہونگے۔ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ تاہم، سچے مسیحی معقولیت کی بڑی قدر کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ الہٰی حکمت کا ایک نشان ہے۔ (‏یعقوب ۳:‏۱۷‏)‏ ہم یہ محسوس نہیں کرتے کہ ایک غیرمعقول دنیا میں معقول ہونا ناممکن ہے۔ بلکہ، ہم فلپیوں ۴:‏۵ میں پائی جانیوالی پولسؔ رسول کی الہامی مشورت کے چیلنج کو بِلاشرط قبول کرتے ہیں:‏ ”‏اپنی معقولیت سب آدمیوں پر ظاہر ہونے دو۔“‏

۲.‏ اس بات کا تعیّن کرنے کیلئے فلپیوں ۴:‏۵ میں پولسؔ کے الفاظ کیسے ہماری مدد کرتے ہیں کہ آیا ہم معقول ہیں؟‏

۲ غور کریں کہ پولسؔ کے الفاظ یہ جائزہ لینے میں کس طرح ہماری مدد کرتے ہیں کہ آیا ہم معقول ہیں۔ زیادہ سوال اس بات کا نہیں کہ ہم خود کو کیسے دیکھتے ہیں؛ سوال تو اس بات کا ہے کہ دوسرے ہمیں کیسے دیکھتے ہیں، ہم کیسے پہچانے جاتے ہیں۔ فلپسؔ کا ترجمہ اس آیت کو یوں پیش کرتا ہے:‏ ”‏معقول ہونے کی شہرت رکھیں۔“‏ ہم میں سے ہر ایک پوچھ سکتا ہے، ’‏میں کیسے پہچانا جاتا ہوں؟ کیا میں معقول، لچکدار اور نرم مزاج ہونے کی شہرت رکھتا ہوں؟ یا میں سخت، ظالم، یا ڈھیٹھ ہونے کے طور پر پہچانا جاتا ہوں‘‏؟‏

۳.‏ (‏ا)‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏معقولیت“‏ کِیا گیا ہے اُس کا مطلب کیا ہے اور یہ خوبی دلکش کیوں ہے؟ (‏ب)‏ ایک مسیحی مزید معقول ہونا کس طرح سیکھ سکتا ہے؟‏

۳ اس معاملے میں ہماری شہرت اس بات کی عکاسی کریگی کہ ہم کس حد تک یسوؔع مسیح کی تقلید کرتے ہیں۔ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱‏)‏ جب یسوؔع یہاں زمین پر تھا تو اُس نے کامل طور پر معقولیت کے اپنے باپ کے اعلیٰ نمونے کو منعکس کِیا۔ (‏یوحنا ۱۴:‏۹‏)‏ دراصل، جب پولسؔ نے ”‏مسیح [‏کے]‏ حلم اور نرمی“‏ کے متعلق لکھا تو نرمی (‏ایپی‌ایکیاس)‏ کیلئے جو یونانی لفظ اُس نے استعمال کِیا اُسکا مطلب ”‏معقولیت“‏ یا لفظی معنوں میں، ”‏لچک“‏ بھی ہے۔ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱‏)‏ دی ایکسپوزیٹرز بائبل کومینٹری اسے ”‏نئے عہدنامہ میں سیرت نگاری کے بڑے بڑے الفاظ میں سے ایک“‏ کہتی ہے۔ یہ ایک ایسی دلکش خوبی کو بیان کرتا ہے کہ ایک عالم اسکے لئے ”‏شیریں معقولیت“‏ کا لفظ پیش کرتا ہے۔ اسلئے، آئیے ہم تین ایسے طریقوں پر گفتگو کریں جن سے یسوؔع نے اپنے باپ یہوؔواہ کی طرح معقولیت پسندی کا مظاہرہ کِیا۔ یوں ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ہم خود بھی زیادہ معقول کیسے بنیں۔—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏۔‏

‏”‏معاف کرنے کو تیار“‏

۴.‏ یسوؔع نے اپنے ”‏معاف کرنے کو تیار“‏ ہونے کو کیسے ظاہر کِیا کہ وہ ہے؟‏

۴ اپنے باپ کی طرح یسوؔع نے بار بار ”‏معاف کرنے کو تیار“‏ ہونے سے معقولیت ظاہر کی۔ (‏زبور ۸۶:‏۵‏)‏ اس وقت پر غور کریں جب ایک قریبی ساتھی پطرؔس نے یسوؔع کی گرفتاری اور مقدمے کی سماعت کی رات تین مرتبہ یسوؔع کا انکار کِیا۔ یسوؔع خود پہلے بیان کر چکا تھا:‏ ”‏جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا انکار کریگا میں بھی اپنے باپ کے سامنے .‏ .‏ .‏ اُسکا انکار کرونگا۔“‏ (‏متی ۱۰:‏۳۳‏)‏ کیا یسوؔع نے سختی اور بے‌رحمی سے پطرؔس پر اس اصول کو لاگو کِیا؟ نہیں؛ اپنی قیامت کے بعد، یسوؔع بذاتِ‌خود پطرؔس سے ملا، بلا‌شُبہ اس تائب، دل شکستہ رسول کو تسلی اور حوصلہ دینے کیلئے۔ (‏لوقا ۲۴:‏۳۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵‏)‏ اسکے تھوڑی ہی دیر بعد یسوؔع نے پطرؔس کو ایک بھاری ذمہ‌داری اُٹھانے کی اجازت دی۔ (‏اعمال ۲:‏۱-‏۴۱‏)‏ یہاں پر شیریں معقولیت اپنے عروج پر تھی!‏ کیا یہ سوچنا اطمینان بخش نہیں ہے کہ یہوؔواہ نے یسوؔع کو تمام نوعِ‌انسان پر بطور منصف مقرر کِیا ہے؟—‏یسعیاہ ۱۱:‏۱-‏۴؛‏ یوحنا ۵:‏۲۲‏۔‏

۵.‏ (‏ا)‏ بھیڑوں کے درمیان بزرگوں کو کیسی شہرت حاصل ہونی چاہئے؟ (‏ب)‏ عدالتی مقدمات کا فیصلہ کرنے سے پہلے بزرگوں کو کونسے مواد کا اعادہ کرنا چاہئے اور کیوں؟‏

۵ جب بزرگ کلیسیا میں منصفین کے طور پر کام کرتے ہیں تو وہ یسوؔع کے معقول نمونے کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ بھیڑیں اُن سے ایسے ڈریں جیسے کہ سزا دینے والوں سے۔ اسکی بجائے، وہ یسوؔع کی تقلید کرنے کے طالب ہوتے ہیں تاکہ بھیڑیں اُنکے ساتھ پُرمحبت چرواہوں کے طور پر محفوظ محسوس کریں۔ عدالتی معاملات میں وہ معقول ہونے، معاف کرنے کو تیار رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ایسے معاملے کا فیصلہ کرنے سے پہلے، بعض بزرگوں نے یکم جولائی، ۱۹۹۲ کے مینارِنگہبانی (‏انگریزی)‏ کے مضامین ”‏یہوؔواہ، ’‏تمام زمین کا غیرجانبدار منصف‘‏“‏ اور ”‏اے بزرگو، راستی سے عدالت کرو“‏ کے اعادے کو مددگار پایا ہے۔ لہٰذا وہ یہوؔواہ کے عدالت کرنے کے طریقے کے نچوڑ کو ملحوظِ‌خاطر رکھتے ہیں:‏ ”‏جہاں ضروری ہو استقامت، جہاں ممکن ہو رحم۔“‏ جب ایسا کرنے کیلئے معقول بنیاد ہو تو فیصلہ کرنے میں رحم کرنے کی طرف مائل ہونے میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ (‏متی ۱۲:‏۷‏)‏ سخت اور بے‌رحم ہونا سنگین غلطی ہے۔ (‏حزقی‌ایل ۳۴:‏۴)‏ اس طرح بزرگ انصاف کی حدود میں رہتے ہوئے ممکنہ پُرمحبت، رحمانہ روش کے مستعدی سے خواہاں ہوتے ہوئے غلطی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔—‏مقابلہ کریں متی ۲۳:‏۲۳؛‏ یعقوب ۲:‏۱۳‏۔‏

بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرتے وقتلچک

۶.‏ یسوؔع نے اُس غیرقوم عورت کے ساتھ برتاؤ میں معقولیت کیسے ظاہر کی جسکی بیٹی بدروحوں کے زیرِاثر تھی؟‏

۶ یہوؔواہ کی طرح یسوؔع نے روش بدلنے یا نئی حالتوں کے رونما ہونے پر اُنکے مطابق بننے کیلئے خود کو مستعد ثابت کِیا۔ ایک موقع پر ایک غیرقوم عورت نے بدروحوں کے شدید اثر میں پڑی ہوئی اپنی بیٹی کو شفا دینے کیلئے اُس سے التجا کی۔ تین مختلف طریقوں سے یسوؔع نے پہلے یہ ظاہر کِیا کہ وہ اُسکی مدد نہیں کرنے کا—‏اوّل، اُسے جواب نہ دینے سے؛ دوئم، براہِ‌راست یہ بیان کرنے سے کہ اُسے غیرقوموں کے پاس نہیں بلکہ یہودیوں کے پاس بھیجا گیا ہے اور سوئم، ایک تمثیل دینے سے جس نے مہربانہ انداز میں اسی نکتے کو واضح کِیا۔ تاہم، ایک غیرمعمولی ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت اس سب میں ثابت‌قدم رہی۔ اس شاذ صورتحال کے پیشِ‌نظر یسوؔع یہ دیکھ سکتا تھا کہ یہ عام قانون لاگو کرنے کا وقت نہیں ہے؛ یہ اعلیٰ اصولوں کی اثر پذیری میں جھک جانے کا وقت تھا۔‏a لہٰذا، یسوؔع نے بالکل وہی کام کِیا جسکے لئے وہ تین بار ظاہر کر چکا تھا کہ وہ نہیں کریگا۔ اُس نے عورت کی بیٹی کو شفا دی!‏—‏متی ۱۵:‏۲۱-‏۲۸‏۔‏

۷.‏ والدین کن طریقوں سے معقولیت دکھا سکتے ہیں اور کیوں؟‏

۷ جب مناسب ہو تو کیا ہم بھی اسی طرح جھک جانے کیلئے اپنی رضامندی کیلئے مشہور ہیں؟ والدین کو اکثر ایسی ہی معقولیت پسندی دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے اسلئے ایسے طریقے جو ایک کیلئے مناسب ہوں وہ دوسرے کیلئے نامناسب ہو سکتے ہیں۔ مزیدبرآں، جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں اُنکی ضروریات بدل جاتی ہیں۔ کیا بچے کے گھر واپس لوٹنے کے اوقات کا تعیّن کر دینا چاہئے؟ کیا خاندانی مطالعے کو پُرلطف بندوبست سے فائدہ ہوگا؟ جب ایک ماں یا باپ کسی چھوٹی سی غلطی کیلئے حد سے زیادہ غصے کا اظہار کرتا ہے تو کیا وہ ماں یا باپ فروتن ہونے اور معاملات کو سلجھانے کیلئے رضامند ہے؟ وہ والدین جو ایسے طریقوں سے لچکدار ہیں بِلاوجہ اپنے بچوں کو دِق کرنے اور اُنہیں یہوؔواہ سے دُور کرنے سے گریز کرتے ہیں۔—‏افسیوں ۶:‏۴‏۔‏

۸.‏ علاقے کی ضروریات کے مطابق بننے میں کلیسیا کے بزرگ کسطرح پیشوائی کر سکتے ہیں؟‏

۸ جب نئے حالات پیدا ہوتے ہیں تو بزرگوں کو بھی اُنکے مطابق بننے کی ضرورت ہے، گو خدا کے واضح قوانین کے ساتھ کبھی بھی مصالحت نہیں کرتے۔ منادی کے کام کی نگرانی کرنے میں کیا آپ علاقے میں تبدیلیوں کے لئے چوکس ہیں؟ جب علاقے کی آبادی کے اطوارِزندگی بدلتے ہیں تو شاید شام کی گواہی، گلی‌کوچوں کی گواہی، یا ٹیلی‌فون پر گواہی دینے کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ ایسے طریقوں کے مطابق بننا اپنے منادی کرنے کے حکم کو زیادہ مؤثر طور پر پورا کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ (‏متی ۲۸:‏۱۹، ۲۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۶‏)‏ پولسؔ نے اپنی خدمتگزاری میں تمام طرح کے لوگوں کے مطابق بننے کے نکتے کو بھی واضح کِیا۔ مثال کے طور پر، لوگوں کی مدد کرنے کیلئے مقامی مذاہب اور تہذیبوں کی بابت کافی کچھ سیکھنے سے کیا ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں؟—‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۹-‏۲۳‏۔‏

۹.‏ ایک بزرگ کو ہمیشہ اُسی طریقے سے مسائل حل کرنے پر اصرار کیوں نہیں کرنا چاہئے جس سے وہ ماضی میں کرتا تھا؟‏

۹ جبکہ یہ آخری ایام زیادہ تشویشناک ہوتے چلے جاتے ہیں، چرواہوں کو بھی بعض ایسے مسائل کی پریشان‌کُن پیچیدگی اور ناخوشگواری کے مطابق تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جنکا اب اُنکے گلّے کو سامنا ہے۔ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ اے بزرگو!‏ یہ سختی کا وقت نہیں ہے۔ یقیناً اگر کسی بزرگ کے طریقے غیرمؤثر ہو گئے ہیں یا ”‏عقلمند اور دیانتدار نوکر“‏ نے ایسے موضوعات پر نیا مواد شائع کرنا مناسب سمجھا ہے تو ایک بزرگ مسائل کو ویسے ہی حل کرنے پر اصرار نہیں کریگا جیسے کہ وہ ماضی میں کیا کرتا تھا۔ (‏متی ۲۴:‏۴۵‏؛ مقابلہ کریں واعظ ۷:‏۱۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۱‏۔)‏ ایک وفادار بزرگ نے خلوصدلی کیساتھ ایک افسردہ بہن کی مدد کرنے کیلئے کوشش کی جس کو ایک اچھے سامع کی اشد ضرورت تھی۔ تاہم، اُس نے اُسکی افسردگی کو اتنا سنجیدہ خیال نہ کِیا اور اُسے سادہ سے حل پیش کئے۔ پھر واچ‌ٹاور سوسائٹی نے بائبل پر مبنی کچھ معلومات شائع کیں جنہوں نے اُسکے مسئلے کا حل پیش کِیا۔ بزرگ نے نئے مواد کا اطلاق کرتے ہوئے اور اُسکی بُری حالت کیلئے ہمدردی دکھاتے ہوئے دوبارہ اُسکے ساتھ گفتگو کرنے کو یقینی بنایا۔ (‏مقابلہ کریں ۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴، ۱۵‏۔)‏ معقولیت کی کیا ہی عمدہ مثال!‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ بزرگوں کو ایکدوسرے کیلئے اور مجموعی طور پر بزرگوں کی جماعت کیلئے لچکدار روّیہ کیوں دکھانا چاہئے؟ (‏ب)‏ بزرگوں کی جماعت کو ایسے لوگوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے جو خود کو نامعقول ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۰ بزرگوں کو ایکدوسرے کیساتھ بھی لچکدار روّیہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ جب بزرگوں کی جماعت اکٹھی ہوتی ہے تو کتنا اہم ہے کہ کوئی بھی بزرگ کارروائی پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کرے!‏ (‏لوقا ۹:‏۴۸‏)‏ اس سلسلے میں صدارت کرنے والے کو خاص طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اور جب ایک یا دو بزرگ باقی بزرگوں کی ساری جماعت کے فیصلے سے متفق نہیں ہوتے تو وہ اپنے طریقے سے کام کروانے پر اصرار نہیں کریں گے۔ اسکی بجائے، جبتک کہ کسی صحیفائی اصول کی خلاف‌ورزی نہیں کی جاتی، وہ اس بات کو یاد رکھتے ہوئے جھک جائینگے کہ بزرگوں سے معقولیت کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۲، ۳‏)‏ دوسری طرف، بزرگوں کی جماعت کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پولسؔ نے کرنتھیوں کی کلیسیا کو ایسے ’‏نامعقول اشخاص کی برداشت‘‏ کرنے کیلئے تادیب کی تھی جنہوں نے خود کو ”‏افضل رسولوں“‏ کے طور پر پیش کِیا تھا۔ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۵،‏ ۱۹، ۲۰‏)‏ لہٰذا اُنہیں ایسے ساتھی بزرگ کو مشورہ دینے کیلئے تیار ہونا چاہئے جو ہٹ‌دھرم، نامعقول انداز سے پیش آتا ہے مگر ایسا کرنے میں اُنہیں خود فروتن اور مہربان ہونا چاہئے۔—‏گلتیوں ۶:‏۱‏۔‏

اختیار کے استعمال میں معقولیت

۱۱.‏ یسوؔع کے زمانے کے یہودی مذہبی راہنماؤں نے جس طریقے سے اختیار کو استعمال کِیا اور جس طریقے سے یسوؔع نے کِیا اُس میں کیا فرق پایا جاتا تھا؟‏

۱۱ جب یسوؔع زمین پر آیا تو جس طریقے سے اُس نے اپنے خداداد اختیار کو استعمال کِیا اُس میں اُسکی معقولیت واقعی صاف ظاہر ہوئی۔ وہ اپنے زمانے کے مذہبی راہنماؤں سے کتنا مختلف تھا!‏ ایک مثال پر غور کریں۔ خدا کی شریعت نے حکم دیا تھا کہ سبت پر کوئی بھی کام نہ کِیا جائے حتیٰ‌کہ لکڑی کا جمع کرنا بھی نہیں۔ (‏خروج ۲۰:‏۱۰؛ گنتی ۱۵:‏۳۲-‏۳۶)‏ لوگ جس طریقے سے اس قانون کا اطلاق کرتے تھے مذہبی راہنما اُس پر قابو رکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے حکم جاری کرنے کی ذمہ‌داری خود سنبھال لی کہ ایک شخص سبت کے دن بجا طور پر کیا کچھ اُٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے قانون بنا دیا:‏ دو خشک انجیروں سے وزنی کوئی چیز نہ ہو۔ انہوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کیل والے جوتوں پر ممانعت کا حکم بھی دیا کہ کیلوں کا اضافی بوجھ اُٹھانا بھی کام ہوگا!‏ یہ کہا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر، ربیوں نے سبت کی بابت خدا کی شریعت میں ۳۹ قوانین کا اضافہ کر دیا اور پھر اُن قوانین میں غیرمختتم اضافی باتیں بھی شامل کر دیں۔ دوسری جانب یسوؔع نے غیرمختتم پابندیاں عائد کرنے والے قوانین وضع کرنے سے یا سخت، ناقابلِ‌رسائی معیار قائم کرنے سے شرم دلا کر لوگوں کو قابو میں کرنے کی کوشش نہ کی۔—‏متی ۲۳:‏۲-‏۴؛‏ یوحنا ۷:‏۴۷-‏۴۹‏۔‏

۱۲.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ جب یہوؔواہ کے راست معیاروں کی بات آئی تو یسوؔع نے پس‌وپیش نہ کی؟‏

۱۲ کیا ہمیں پھر یہ فرض کرنا چاہئے کہ یسوؔع نے خدا کے راست معیاروں کی سختی سے پابندی نہ کی؟ یقیناً اُس نے کی!‏ وہ سمجھتا تھا کہ قوانین اسی صورت میں مؤثر ہوتے ہیں جب انسان اُن قوانین کے پیچھے چھپے ہوئے اصولوں کو دلنشین کرتے ہیں۔ جبکہ فریسی بے‌شمار قوانین سے لوگوں کو قابو میں کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، یسوؔع دلوں تک پہنچنے کا خواہاں ہوا۔ مثال کے طور پر، وہ خوب جانتا تھا کہ جب ”‏حرامکاری سے بھاگو“‏ جیسے الہٰی قوانین کی بات آتی ہے تو پھر کوئی لچک نہیں ہے۔ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۸‏)‏ پس یسوؔع نے لوگوں کو ایسے خیالات کی بابت آگاہ کِیا جو بداخلاقی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ (‏متی ۵:‏۲۸‏)‏ ایسی تعلیم محض سخت، بے‌لوچ قوانین وضع کرنے سے کہیں زیادہ حکمت اور سمجھداری کا تقاضا کرتی ہے۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ بزرگوں کو بے‌لوچ قوانین اور اصول وضع کرنے سے گریز کیوں کرنا چاہئے؟ (‏ب)‏ بعض حلقے کونسے ہیں جن میں کسی شخص کے ضمیر کا احترام کرنا اہم ہوتا ہے؟‏

۱۳ آجکل ذمہ‌دار بھائیوں کو دلوں تک پہنچنے کیلئے اتنی ہی دلچسپی لینی چاہئے۔ یوں، وہ ظالمانہ، بے‌لوچ اصول وضع کرنے یا اپنے ذاتی نظریات اور آراء کو قانون کی شکل دینے سے گریز کرتے ہیں۔ (‏مقابلہ کریں دانی‌ایل ۶:‏۷-‏۱۶۔)‏ وقتاًفوقتاً، لباس اور آرائش‌وزیبائش جیسے معاملات پر پُرمحبت یاددہانیاں مناسب اور بروقت ہو سکتی ہیں لیکن ایک بزرگ معقول شخص ہونے کے طور پر اپنی شہرت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اگر وہ ایسے معاملات کو دہراتا یا ایسی باتیں عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اوّلین طور پر اُسکے ذاتی ذوق کی علامت ہیں۔ درحقیقت، کلیسیا میں سب کو دوسروں پر قبضہ جمانے کی کوشش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔—‏مقابلہ کریں ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۴؛‏ فلپیوں ۲:‏۱۲‏۔‏

۱۴.‏ یسوؔع نے کیسے ظاہر کِیا کہ جس بات کی اُس نے دوسروں سے توقع کی اُس میں وہ معقول تھا؟‏

۱۴ بزرگ شاید ایک دوسرے معاملے میں بھی خود کو پرکھنا چاہیں:‏ ’‏جس بات کی میں دوسروں سے توقع کرتا ہوں کیا میں اُس میں معقول ہوں؟‘‏ یسوؔع یقیناً معقول تھا۔ اُس نے بااصول طور شاگردوں پر ظاہر کِیا کہ اُس نے اُنکی مخلصانہ کوششوں سے زیادہ کی توقع کبھی نہیں کی اور یہ کہ اُس نے اُنکی بڑی قدر کی ہے۔ اپنے کم مالیت کے سکے دے ڈالنے کیلئے اُس نے غریب بیوہ کی تعریف کی۔ (‏مرقس ۱۲:‏۴۲، ۴۳‏)‏ جب شاگردوں نے مریمؔ کے قیمتی عطیے پر نکتہ‌چینی کی تو اُس نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے جھڑکا:‏ ”‏اُسے چھوڑ دو۔ .‏ .‏ .‏ جو کچھ وہ کر سکتی تھی اُس نے کِیا۔“‏ (‏مرقس ۱۴:‏۶،‏ ۸‏)‏ وہ اُسوقت بھی معقول رہا جب اُسکے پیروکاروں نے اُسے مایوس کر دیا۔ مثال کے طور پر، اُس نے اپنی گرفتاری کی رات اپنے تین قریبی رسولوں کو اپنے ساتھ جاگتے اور ہوشیار رہنے کی تاکید کی تو بھی اُنہوں نے بار بار سونے سے اُسے مایوس کِیا۔ پھر بھی اُس نے ہمدردی سے کہا:‏ ”‏روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔“‏—‏مرقس ۱۴:‏۳۴-‏۳۸‏۔‏

۱۵، ۱۶.‏ (‏ا)‏ بزرگوں کو اس بات میں محتاط کیوں ہونا چاہئے کہ نہ گلّے پر دباؤ ڈالیں نہ اُسے دھمکائیں؟ (‏ب)‏ ایک وفادار بہن نے خود کو اُس بات کے ساتھ کیسے ہم‌آہنگ کِیا جس کی وہ دوسروں سے توقع کرتی تھی؟‏

۱۵ سچ ہے، یسوؔع نے ’‏جانفشانی‘‏ کرنے کے لئے اپنے پیروکاروں کی حوصلہ‌افزائی کی۔ (‏لوقا ۱۳:‏۲۴‏)‏ لیکن اُس نے کبھی بھی ایسا کرنے کے لئے اُن پر دباؤ نہیں ڈالا تھا!‏ اُس نے اُن میں جوش پیدا کِیا، نمونہ قائم کِیا، پیشوائی کی اور اُن کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش کی۔ باقی کام کرنے کیلئے اُس نے یہوؔواہ کی روح پر بھروسہ کِیا۔ اسی طرح آجکل بزرگوں کو خلوصدلی سے یہوؔواہ کی خدمت کرنے کیلئے گلّے کی حوصلہ‌افزائی کرنی چاہئے لیکن جرم یا ندامت سے اُنہیں دھمکانے اور اس بات کی دلالت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے کہ وہ یہوؔواہ کی خدمت میں اب جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ناکافی یا نامقبول ہے۔ ایک سخت، ”‏اور زیادہ، اور زیادہ، اور زیادہ کرو!‏“‏ کی تحریک دینے والی رسائی اُن لوگوں کو بے‌حوصلہ کر سکتی ہے جو ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی اگر کوئی بزرگ ”‏بدمزاج“‏ ہونے کی شہرت حاصل کر لیتا ہے—‏معقول ہونے سے نہایت مختلف!‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۸‏۔‏

۱۶ جس بات کی ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں اُس میں ہم سب کو معقولیت پسند ہونا چاہئے!‏ ایک بہن نے اپنی بیمار ماں کی دیکھ‌بھال کرنے کیلئے اپنے اور اپنے شوہر کے اپنے مشنری کام کو چھوڑنے کے بعد لکھا:‏ ”‏یہاں کلیسیاؤں میں ہم پبلشروں کیلئے یہ اوقات واقعی مشکل ہوتے ہیں۔ سرکٹ اور ڈسٹرکٹ کے کام کے تحت ہم ایسے بہت سے بوجھوں سے محفوظ تھے، ہمیں اچانک اور غم کی حالت میں اسکی خبر ہوئی۔ مثال کے طور پر، میں خود سے کہا کرتی تھی کہ ’‏وہ بہن اس مہینے کا صحیح لٹریچر کیوں پیش نہیں کرتی؟ کیا وہ بادشاہتی خدمتگزاری نہیں پڑھتی‘‏؟ اب میں وجہ جانتی ہوں۔ بعض محض اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ باہر [‏خدمت میں]‏ جائیں۔“‏ یہ کتنا زیادہ اچھا ہے کہ ہمارے بھائی جو کچھ نہیں کرتے ہیں اُسکے لئے اُنکی عیب‌جوئی کرنے کی بجائے جو کچھ وہ کرتے ہیں اُس کے لئے اُنہیں شاباش دی جائے!‏

۱۷.‏ معقول ہونے کے معاملے میں یسوؔع نے ہمارے لئے کس طرح نمونہ قائم کِیا؟‏

۱۷ جس طرح یسوؔع اپنے اختیار کو ایک معقول طریقے سے استعمال کرتا ہے اُسکی ایک آخری مثال پر غور کریں۔ اپنے باپ کی طرح یسوؔع بھی حسد سے اپنے اختیار کی حفاظت نہیں کرتا۔ وہ بھی یہاں زمین پر ”‏اپنے سارے مال“‏ کی نگرانی کیلئے دیانتدار نوکر جماعت کو نامزد کرنے والا عظیم اختیار دہندہ ہے۔ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ وہ دوسروں کے نظریات کو سننے سے بھی نہیں گھبراتا۔ اُس نے اکثر اپنے سامعین سے پوچھا:‏ ”‏تم کیا سمجھتے ہو؟“‏ (‏متی ۱۷:‏۲۵؛‏ ۱۸:‏۱۲؛‏ ۲۱:‏۲۸؛‏ ۲۲:‏۴۲‏)‏ آج مسیح کے تمام پیروکاروں میں بھی یہی بات ہونی چاہئے۔ اختیار کی کسی بھی مقدار کو اُنہیں سننے کیلئے غیرآمادہ نہیں بنا دینا چاہئے۔ والدین، سنیں!‏ شوہر، سنیں!‏ بزرگ، سنیں!‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ ہمیں کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ آیا ہم معقولیت پسندی میں شہرت رکھتے ہیں؟ (‏ب)‏ پُختہ عزم کرنے میں ہم سب کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ یقیناً، ہم میں سے ہر ایک ”‏معقول ہونے کی شہرت رکھنا“‏ چاہتا ہے۔ (‏فلپیوں ۴:‏۵‏، فلپس)‏ لیکن ہم کیسے جانتے ہیں کہ آیا ہم ایسی شہرت رکھتے ہیں؟ جب یسوؔع یہ جاننا چاہتا تھا کہ لوگ اُسکی بابت کیا کہہ رہے ہیں تو اُس نے اپنے وفادار ساتھیوں سے پوچھا تھا۔ (‏متی ۱۶:‏۱۳‏)‏ کیوں نہ اُسکے نمونے کی تقلید کریں؟ جس شخص پر آپ صاف گوئی کیلئے بھروسہ کر سکتے ہیں اُس سے پوچھیں کہ آیا آپ معقول، لچکدار شخص ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ بے‌شک یسوؔع کی معقولیت کے کامل نمونے کی احتیاط سے تقلید کرنے کیلئے ہم سب بہت کچھ کر سکتے ہیں!‏ بالخصوص اگر ہم دوسروں پر کسی حد تک اختیار رکھتے ہیں تو آئیے ہمیشہ یہوؔواہ اور یسوؔع کے نمونے کی تقلید میں اسے ہمیشہ معقول طریقے سے استعمال کریں، جب مناسب ہو، ہمیشہ معاف کرنے، جھک جانے یا لچکدار بننے کو تیار رہیں۔ یقیناً، دعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ”‏معقول ہونے“‏ کی کوشش کرے!‏—‏ططس ۳:‏۲‏، این‌ڈبلیو۔ (‏۱۵ ۸/۱ w۹۴)‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

a کتاب نیو ٹسٹامنٹ ورڈز تبصرہ کرتی ہے:‏ ”‏ایک شخص جو ایپی‌ایکس [‏معقول]‏ ہوتا ہے جانتا ہے کہ ایسے اوقات ہوتے ہیں جب کوئی کام قانوناً بالکل جائز ہوتا ہے لیکن اخلاقاً بالکل غلط ہوتا ہے۔ ایک شخص جو ایپی‌ایکس ہے یہ بھی جانتا ہے کہ ایسی قوت کے دباؤ کے تحت قانون میں کب نرمی کی جائے جو قانون سے بالاتر اور زورآور ہوتی ہے۔“‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

▫ مسیحی کیوں معقول ہونا چاہتے ہیں؟‏

▫ معاف کرنے کو تیار ہونے میں بزرگ یسوؔع کی کس طرح تقلید کر سکتے ہیں؟‏

▫ ہمیں یسوؔع کی مانند لچکدار ہونے کیلئے کیوں کوشش کرنی چاہئے؟‏

▫ جس طریقے سے ہم اختیار کا استعمال کرتے ہیں اُس میں ہم معقولیت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

▫ ہم اپنی جانچ کیسے کر سکتے ہیں کہ آیا ہم واقعی معقول ہیں؟‏

‏[‏تصویر]‏

یسوؔع نے تائب پطرؔس کو بخوشی معاف کر دیا

‏[‏تصویر]‏

جب ایک عورت نے غیرمعمولی ایمان ظاہر کِیا تو یسوؔع نے یہ دیکھ لیا کہ یہ عام قانون لاگو کر نے کا وقت نہیں ہے

‏[‏تصویر]‏

والدین سنیں!‏

‏[‏تصویر]‏

شوہر سنیں!‏

‏[‏تصویر]‏

بزرگ سنیں!‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں