یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م95 1/‏5 ص.‏ 18-‏23
  • یہوؔواہ کے خوف میں شادمانی حاصل کرنا سیکھنا

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • یہوؔواہ کے خوف میں شادمانی حاصل کرنا سیکھنا
  • مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
  • ذیلی عنوان
  • ملتا جلتا مواد
  • جس وجہ سے بعض اسے رکھتے ہیں اور دوسرے نہیں رکھتے
  • ایک دلکش دعوت
  • کیا آپ کوشش‌کرینگے؟‏
  • آپکا دل شامل ہے
  • خدائی خوف جس طرح ہمارے دلوں میں جاگزین ہوتا ہے
  • یہوواہ کا خوف ماننے والا دل پیدا کریں
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏2001ء
  • خدائے برحق کا خوف ماننے کے فوائد
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
  • یہوواہ سے ڈر اور اُسکے حکموں کو مان
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏2001ء
  • یہوواہ سے ڈرو اور اس کے پاک نام کی تمجید کرو
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—1992ء
مزید
مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
م95 1/‏5 ص.‏ 18-‏23

یہوؔواہ کے خوف میں شادمانی حاصل کرنا سیکھنا

‏”‏اَے بچو!‏ آؤ میری سنو۔ مَیں تمکو خدا ترسی سکھاؤنگا۔“‏—‏زبور ۳۴:‏۱۱‏۔‏

۱.‏ خدا کی بادشاہت کے ذریعے خوف کیسے دُور کر دیا جائیگا، لیکن کیا اسکا مطلب ہر قسم کا خوف ہے؟‏

لوگ ہر جگہ خوف سے آزادی کے آرزومند ہیں—‏جُرم اور تشدد کا خوف، بیروزگاری کا خوف، تشویشناک علالت کا خوف۔ وہ دن کتنا شاندار ہوگا جب یہ آزادی خدا کی بادشاہت کے تحت ایک حقیقت بنے گی!‏ (‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴؛‏ ۶۵:‏۲۱-‏۲۳؛‏ میکاہ ۴:‏۴)‏ تاہم، اس وقت تمام خوف دُور نہیں ہوگا، نہ ہی ہم اب اپنی زندگیوں سے تمام خوف کو دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ایسا خوف ہے جو اچھا ہے اور ایک ایسا خوف ہے جو بُرا ہے۔‏

۲.‏ (‏ا)‏ کس قسم کا خوف بُرا ہے، اور کس قسم کا پسندیدہ ہے؟ (‏ب)‏ خدائی خوف کیا ہے، اور حوالہ‌شُدہ صحائف اسے کیسے ظاہر کرتے ہیں؟‏

۲ خوف کسی شخص کی استدلالی صلاحیت کو مفلوج کرنے والا ذہنی زہر ہو سکتا ہے۔ یہ حوصلے کو پست اور اُمید کو توڑ سکتا ہے۔ ایسے خوف کا تجربہ کسی ایسے شخص کو ہو سکتا ہے جسے جسمانی طور پر کسی دشمن نے دھمکی دی ہو۔ (‏یرمیاہ ۵۱:‏۳۰‏)‏ اسکا تجربہ کسی ایسے شخص کو ہو سکتا ہے جو بعض اثرورسوخ والے انسانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ (‏امثال ۲۹:‏۲۵‏)‏ لیکن ایسا خوف بھی ہے جو خوشگوار ہے، ایک ایسی قسم جو ہمیں کوئی ناعاقبت‌اندیش کام کرنے، خود کو مجروح کرنے سے روکتا ہے۔ خدائی خوف میں اس سے بھی زیادہ کچھ شامل ہے۔ یہ یہوؔواہ کیلئے جذبۂ‌احترام، اس کیلئے گہری تعظیم، بشمول اسے ناراض کرنے کی خوشگوار دہشت ہے۔ (‏زبور ۸۹:‏۷‏)‏ خدا کی ناراضگی مول لینے کا یہ خوف اسکی شفقت اور نیکی کیلئے قدردانی سے پیدا ہوتا ہے۔ (‏زبور ۵:‏۷؛‏ ہوسیع ۳:‏۵)‏ اس میں یہ آگاہی بھی شامل ہے کہ وہ منصف‌اعلیٰ اور قادرِمطلق ہے، جو ان کو سزا دینے، حتیٰ‌کہ مارنے کی بھی طاقت رکھتا ہے، جو اسکی فرمانبرداری کرنے سے انکار کرتے ہیں۔—‏رومیوں ۱۴:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۳.‏ بعض جھوٹے معبودوں سے وابستہ خوف یہوؔواہ کے خوف سے کیسے مختلف ہے؟‏

۳ خدائی خوف صحت‌افزا ہے، غیرصحتمندانہ نہیں۔ یہ جو کچھ درست ہے اس کیلئے کسی کو مستحکم ہونے، غلط‌کاری کرنے سے مصالحت نہ کرنے کی تحریک دے سکتا ہے۔ یہ قدیم یونانی دیوتا فوؔبوس سے وابستہ خوف کی مانند نہیں ہے، جسے شرانگیز دیوتا کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس نے دہشت کو تحریک دی۔ اور یہ ہندو دیوی کاؔلی سے وابستہ خوف کی مانند نہیں ہے، جسے بعض اوقات نعشوں، سانپوں، اور کھوپڑیوں کو زیورات کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، خون کی پیاسی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ خدائی خوف اپنی طرف کھینچتا ہے؛ یہ دھکیلتا نہیں۔ یہ محبت اور قدردانی کے ساتھ باہم پیوستہ ہے۔ یوں، خدائی خوف ہمیں یہوؔواہ کے قریب لاتا ہے۔—‏استثنا ۱۰:‏۱۲، ۱۳؛‏ زبور ۲:‏۱۱‏۔‏

جس وجہ سے بعض اسے رکھتے ہیں اور دوسرے نہیں رکھتے

۴.‏ جیسے کہ پولسؔ رسول نے بیان کیا، نوعِ‌انسان کس حالت کو پہنچ گیا ہے، اور کیا چیز اسکا سبب بنی ہے؟‏

۴ نوعِ‌انسان نے مجموعی طور پر خدائی خوف کی خوبی سے تحریک نہیں پائی ہے۔ رومیوں ۳:‏۹-‏۱۸ میں، پولسؔ رسول بیان کرتا ہے کہ انسان اصل کاملیت سے کتنی دُور چلے گئے ہیں۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ سب گناہ کے ماتحت ہیں، پولسؔ یہ کہتے ہوئے زبور سے حوالہ دیتا ہے:‏ ”‏کوئی راستباز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔“‏ (‏دیکھیں زبور ۱۴:‏۱‏۔)‏ اسکے بعد وہ خدا کے طالب ہونے میں نوعِ‌انسان کی غفلت، انکی طرف سے بھلائی کی کمی، انکی مکارانہ بات‌چیت، لعنت‌ملامت کرنا، اور خونریزی جیسی چیزوں کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ یہ آجکل کی دنیا کو کیسے صحیح طور پر بیان کرتا ہے!‏ لوگوں کی اکثریت خدا اور اسکے مقاصد میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مہربانی کی کوئی بھی ظاہری صورت، اکثروبیشتر ان مواقع کیلئے محفوظ رکھی جاتی ہے جب اس کے عوض کچھ حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ دروغگوئی اور بیہودہ‌گوئی عام باتیں ہیں۔ خونریزی کو نہ صرف خبروں میں بلکہ کھیل تماشے میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔ کیا چیز ایسی صورتحال کا سبب ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہم سب گنہگار آؔدم کی اولاد ہیں، لیکن جب لوگ ان چیزوں کو اپنی طرزِزندگی کے طور پر اختیار کر لیتے ہیں جنکا پولسؔ نے ذکر کیا تو اس میں اس سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ ۱۸ آیت یہ کہتے ہوئے، وضاحت کرتی ہے کہ وہ کیا ہے:‏ ”‏انکی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔“‏—‏دیکھیں زبور ۳۶:‏۱‏۔‏

۵.‏ بعض لوگ خدائی خوف کیوں رکھتے ہیں، جبکہ دوسرے نہیں رکھتے؟‏

۵ تو پھر، ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ تو خدائی خوف رکھتے ہیں، جبکہ دوسرے نہیں رکھتے؟ سادہ سی بات ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ بعض لوگ اسے پیدا کر لیتے ہیں، جبکہ دوسرے نہیں کرتے۔ ہم میں سے کوئی بھی اسکے ساتھ پیدا نہیں ہوا، لیکن ہم سب اسے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خدائی خوف ایسی چیز ہے جسے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ہماری زندگیوں میں ایک طاقتور قوتِ‌متحرکہ ہو۔‏

ایک دلکش دعوت

۶.‏ ہمیں زبور ۳۴:‏۱۱ میں مرقوم دعوت کون پیش کرتا ہے، اور یہ آیت کیسے ظاہر کرتی ہے کہ خدائی خوف ضرور سیکھا جائے؟‏

۶ زبور ۳۴ میں ہمیں یہوؔواہ کے خوف کو سیکھنے کے لئے ایک دلکش دعوت دی گئی ہے۔ یہ داؔؤد کا زبور ہے۔ اور داؔؤد کس کی عکاسی کرتا ہے؟ وہ خداوند یسوؔع مسیح کے علاوہ کسی دوسرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ ایک پیشینگوئی جسکا اطلاق یوؔحنا رسول نے خصوصی طور پر یسوؔع پر کیا وہ اس زبور کی ۲۰ آیت میں درج ہے۔ (‏یوحنا ۱۹:‏۳۶‏)‏ ہمارے زمانے میں، یسوؔع ہی ہے جو ۱۱ آیت کی طرح کی دعوت دیتا ہے:‏ ”‏اَے بچو!‏ آؤ میری سنو۔ میں تمکو خدا ترسی سکھاؤنگا۔“‏ یہ صاف طور پر ظاہر کرتی ہے کہ خدائی خوف ایسی چیز ہے جسے سیکھا جا سکتا ہے، اور ہمیں سکھانے کیلئے یسوؔع مسیح بہت ہی لائق ہے۔ ایسا کیوں ہے؟‏

۷.‏ کیوں یسوؔع ہی خاص طور پر وہ ہستی ہے جس سے خدائی خوف سیکھا جائے؟‏

۷ یسوؔع مسیح خدائی خوف کی اہمیت سے واقف ہے۔ عبرانیوں ۵:‏۷ اسکی بابت کہتی ہے:‏ ”‏’‏[‏مسیح]‏ نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اسی سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اسکو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا ترسی کے سبب سے اسکی سنی گئی۔“‏ ایسی خدا ترسی وہ خوبی تھی جسے یسوؔع مسیح نے سولی پر موت کا سامنا کرنے سے بھی پہلے ظاہر کیا۔ یاد رکھیں، امثال ۸ باب میں، خدا کے بیٹے کو تجسمِ‌حکمت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اور امثال ۹:‏۱۰ میں، ہمیں بتایا گیا ہے:‏ ”‏خداوند کا خوف حکمت کا شروع ہے۔“‏ پس یہ خدائی خوف خدا کے بیٹے کی شخصیت کا اسکے زمین پر آنے سے بہت پہلے بنیادی جزو تھا۔‏

۸.‏ یسعیاہ ۱۱:‏۲، ۳ میں ہم یہوؔواہ کے خوف کی بابت کیا سیکھتے ہیں؟‏

۸ مزیدبرآں، مسیحائی بادشاہ کے طور پر، یسوؔع کی بابت، یسعیاہ ۱۱:‏۲، ۳ بیان کرتی ہیں:‏ ”‏خداوند کی روح اس پر ٹھہریگی۔ حکمت اور خرد کی روح مصلحت اور قدرت کی روح معرفت اور خداوند کے خوف کی روح۔ اور اسکی شادمانی خداوند کے خوف میں ہوگی۔“‏ اسکا کتنی خوبصورتی سے اظہار کیا گیا ہے!‏ یہوؔواہ کا خوف ذرا بھی ناخوشگوار نہیں ہے۔ یہ مثبت اور تعمیری ہے۔ یہ ایسی خوبی ہے جو پوری عملداری میں رَچ‌بس جائیگی جس پر مسیح بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرتا ہے۔ وہ اب حکمرانی کر رہا ہے، اور ان سب کو جنہیں اسکی رعایا کے طور پر جمع کیا جا رہا ہے، وہ یہوؔواہ کے خوف میں ہدایت فراہم کر رہا ہے۔ کیسے؟‏

۹.‏ یسوؔع مسیح ہمیں یہوؔواہ کا خوف کیسے سکھا رہا ہے، اور وہ کیا چاہتا ہے کہ ہم اسکی بابت سیکھیں؟‏

۹ ہمارے کلیسیائی اجلاسوں، اسمبلیوں، اور کنونشنوں کے ذریعے، یسوؔع کلیسیا کے مقررکردہ سردار کے طور پر اور بطور مسیحائی بادشاہ کے واضح طور پر سمجھنے کیلئے ہماری مدد کرتا ہے کہ خدائی خوف کیا ہے اور یہ کسطرح سے اتنا فائدہ‌مند ہے۔ اسطرح وہ اس کیلئے ہماری قدردانی کو گہرا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ہم یہوؔواہ کے خوف میں شادمانی حاصل کرنا سیکھیں بالکل اسی طرح جیسے وہ کرتا ہے۔‏

کیا آپ کوشش‌کرینگے؟‏

۱۰.‏ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے وقت، اگر ہمیں یہوؔواہ کے خوف کو سمجھنا ہے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

۱۰ بلا‌شُبہ، ہمارا بائبل کو محض پڑھنا یا کنگڈم ہال میں اجلاسوں پر حاضر ہونا ہی اس بات کی ضمانت مہیا نہیں کریگا کہ ہم خدائی خوف رکھینگے۔ غور کریں کہ اگر ہمیں واقعی یہوؔواہ کے خوف کو سمجھنا ہے تو ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ امثال ۲:‏۱-‏۵ کہتی ہیں:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اگر تُو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھے۔ ایسا کہ تُو حکمت کی طرف کان لگائے اور فہم سے دل لگائے بلکہ اگر تُو عقل کو پکارے اور فہم کیلئے آواز بلند کرے اور اسکو ایسا ڈھونڈے جیسے چاندی کو اور اسکی ایسی تلاش کرے جیسی پوشیدہ خزانوں کی تو تُو خداوند کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو حاصل کریگا۔“‏ پس اجلاسوں پر حاضر ہوتے وقت جو کچھ کہا جاتا ہے ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کلیدی خیالات کو یاد رکھنے اور ان پر گہری توجہ دینے کیلئے سنجیدہ کوشش کریں، جس طرح ہم یہوؔواہ کی بابت محسوس کرتے ہیں اس پر دل سے سوچیں جسے دی گئی مشورت کیلئے ہمارے رویے پر اثرانداز ہونا چاہئے—‏جی‌ہاں، اپنے دلوں کو کھولیں۔ تب ہم یہوؔواہ کے خوف کو سمجھیں گے۔‏

۱۱.‏ خدائی خوف پیدا کرنے کیلئے ہمیں دل سے اور کثرت سے کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۱ زبور ۸۶:‏۱۱ ایک اور اہم پہلو، یعنی دعا پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ ”‏اَے خداوند!‏ مجھکو اپنی راہ کی تعلیم دے۔ میں تیری راستی میں چلونگا،“‏ زبورنویس نے دعا کی۔ ”‏میرے دل کو یکسوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں۔“‏ یہوؔواہ نے اس دعا کو قبول فرمایا، اسلئے اس نے اسے بائبل میں ریکارڈ کروایا تھا۔ خدائی خوف پیدا کرنے کیلئے، ہمیں بھی یہوؔواہ کی مدد کیلئے اس سے دعا کرنے کی ضرورت ہے، اور ہم دل سے اور کثرت سے دعا کرنے سے فائدہ اٹھائینگے۔—‏لوقا ۱۸:‏۱-‏۸‏۔‏

آپکا دل شامل ہے

۱۲.‏ دل پر خصوصی توجہ کیوں دی جانی چاہئے، اور اس میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۲ ایک اور چیز بھی ہے جسے ہمیں زبور ۸۶:‏۱۱ میں دیکھنا چاہئے۔ زبورنویس خدا کے خوف کی محض ایک عقلی سمجھ کیلئے درخواست نہیں کر رہا تھا۔ وہ اپنے دل کا ذکر کرتا ہے۔ خدائی خوف پیدا کرنا علامتی دل کو شامل کرتا ہے، جو خصوصی توجہ کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ یہ باطنی شخص ہے جو کہ ہماری زندگی کی تمام کارگزاریوں سے ظاہر ہوتا ہے اور اس میں ہمارے خیالات، ہمارے رجحانات، ہماری خواہشات، ہمارے محرکات، ہمارے نشانے شامل ہیں۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ ایک شخص کا دل منقسم ہے؟ (‏ب)‏ جب ہم خدائی خوف پیدا کرتے ہیں، تو ہمیں کس نشانے کی جانب کام کرنا چاہئے؟‏

۱۳ بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ کسی شخص کا دل منقسم ہو سکتا ہے۔ یہ حیلہ‌باز ہو سکتا ہے۔ (‏زبور ۱۲:‏۲؛‏ یرمیاہ ۱۷:‏۹‏)‏ یہ ہمیں صحت‌افزا کارگزاریوں—‏کلیسیائی اجلاسوں اور باہر میدانی خدمتگزاری میں جانا—‏میں حصہ لینے کی تحریک دے سکتا ہے لیکن یہ دنیا کے طرزِزندگی کے بعض پہلوؤں سے محبت بھی کر سکتا ہے۔ یہ ہمیں بادشاہتی مفادات کو پورے دل‌وجان سے حقیقت میں ترقی دینے والا بننے سے روک سکتا ہے۔ پھر یہ حیلہ‌باز دل ہمیں قائل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے کہ بہرحال، ہم بہت سے دوسرے لوگوں جتنا کام کر رہے ہیں۔ یا شاید سکول میں یا کام کی جگہ پر، دل انسان کے ڈر سے متاثر ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً، ایسے گردوپیش میں ہم شاید خود کو یہوؔواہ کے گواہوں کے طور پر ظاہر کرنے سے ہچکچائیں اور ایسے کام بھی کر گزریں جو مسیحیوں کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ تاہم، بعدازاں، ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے۔ ہم اس قسم کا شخص بننا نہیں چاہتے۔ پس، زبورنویس کے ساتھ ہم یہوؔواہ سے دعا کرتے ہیں:‏ ”‏میرے دل کو یکسوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں۔“‏ ہم چاہتے ہیں کہ پورا باطنی شخص، جیسے زندگی کی ہماری تمام کارگزاریوں سے ظاہر ہے، ثبوت دے کہ ہم ”‏سچے خدا سے ڈرتے اور اس کے حکموں کو مانتے ہیں۔“‏—‏واعظ ۱۲:‏۱۳‏۔‏

۱۴، ۱۵.‏ (‏ا)‏ بابلؔ کی اسیری سے اسرائیل کی بحالی کی پیشگوئی کرتے وقت، یہوؔواہ نے اپنے لوگوں کو کیا دینے کا وعدہ کیا ہے؟ (‏ب)‏ اپنے لوگوں کے دلوں میں خدا کے خوف کو جاگزین کرنے کے خیال سے یہوؔواہ نے کیا کِیا؟ (‏پ)‏ اسرائیل یہوؔواہ کی راہوں سے منحرف کیوں ہو گیا؟‏

۱۴ یہوؔواہ نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے لوگوں کو ایسا ہی خداترس دل بخشے گا۔ اس نے اسرائیل کی بحالی کی پیشگوئی کی اور کہا، جیسے کہ ہم یرمیاہ ۳۲:‏۳۷-‏۳۹ میں پڑھتے ہیں:‏ ”‏میں ان کو .‏ .‏ .‏ اس مقام میں واپس لاؤنگا اور ان کو امن سے آباد کروں گا۔ اور وہ میرے لوگ ہوں گے اور میں ان کا خدا ہونگا۔ اور میں ان کو یکدل اور یک‌روش بنا دونگا اور وہ اپنی اور اپنے بعد اپنی اولاد کی بھلائی کے لئے ہمیشہ مجھ سے ڈرتے رہینگے۔“‏ اور ۴۰ آیت میں خدا کا وعدہ تقویت پاتا ہے:‏ ”‏اور میں اپنا خوف ان کے دل میں ڈالونگا تاکہ وہ مجھ سے برگشتہ نہ ہوں۔“‏ ۵۳۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں یہوؔواہ ان کو واقعی یرؔوشلیم میں واپس لایا جیسے اس نے وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس وعدے کے باقی حصے کی بابت کیا ہے—‏کہ وہ انکو ’‏یکدلی عطا کریگا تاکہ وہ ہمیشہ اس کا خوف مانیں‘‏؟ جب وہ انہیں بابلؔ سے واپس لے آیا تھا تو قدیم اسرائیل قوم نے یہوؔواہ سے رُوگردانی کیوں کی، یوں کہ ان کی ہیکل دوبارہ کبھی نہ بننے کے لئے، ۷۰ س.‏ع.‏ میں برباد کر دی گئی تھی؟‏

۱۵ یہ یہوؔواہ کی طرف سے کسی ناکامی کی وجہ سے نہیں تھا۔ یہوؔواہ نے اپنے لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف ڈالنے کیلئے واقعی اقدام کئے تھے۔ رحم کے ذریعے جو اس نے انہیں بابلؔ سے چھڑانے اور انہیں انکے وطن میں آباد کرنے سے دکھایا، اس نے انہیں ہر وجہ مہیا کر دی کہ اسے گہری تعظیم کیساتھ دیکھیں۔ خدا نے اس سب کو یاددہانیوں، مشورت، اور حجیؔ ، زکرؔیاہ، اور ملاکیؔ نبیوں کے ذریعے؛ عزؔرا کے ذریعے، جسے انکے پاس بطور استاد کے بھیجا گیا تھا؛ گورنر نحمیاؔہ کے ذریعے؛ اور خدا کے خود اپنے بیٹے کے ذریعے سرزنش سے تقویت پہنچائی۔ بعض اوقات لوگوں نے توجہ سے سنا۔ انہوں نے ایسا کیا جب انہوں نے حجیؔ اور زکرؔیاہ کے اصرار کرنے پر یہوؔواہ کی ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی اور جب انہوں نے عزؔرا کے دنوں میں اجنبی بیویوں کو نکال دیا۔ (‏عزرا ۵:‏۱، ۲؛‏ ۱۰:‏۱-‏۴‏)‏ لیکن زیادہ بار انہوں نے تعمیل نہ کی۔ وہ توجہ دینے کے سلسلے میں بااصول نہیں تھے؛ وہ مشورت سے اثرپذیر نہ ہوئے؛ انہوں نے اپنے دلوں کو کشادہ نہ رکھا۔ اسرائیلی خدائی خوف کو پیدا نہیں کر رہے تھے، اور انجام‌کار، یہ انکی زندگیوں میں طاقتور قوتِ‌متحرکہ نہیں تھا۔—‏ملاکی ۱:‏۶؛‏ متی ۱۵:‏۷، ۸‏۔‏

۱۶.‏ یہوؔواہ نے کن کے دلوں میں خدائی خوف کو جاگزین کیا ہے؟‏

۱۶ تاہم، اپنے لوگوں کے دلوں میں خدائی خوف ڈالنے کیلئے یہوؔواہ کا وعدہ ناکام نہ ہوا۔ اس نے روحانی اسرائیل کیساتھ ایک نیا عہد باندھا، ان مسیحیوں کیساتھ جنکے سامنے اس نے آسمانی اُمید رکھی۔ (‏یرمیاہ ۳۱:‏۳۳؛‏ گلتیوں ۶:‏۱۶‏)‏ ۱۹۱۹ میں، خدا نے انہیں بڑے بابلؔ، جھوٹے مذہب کی عالمی سلطنت، کی اسیری سے بحال کیا۔ ان کے دلوں میں اس نے اسکے خوف کو مضبوطی سے جاگزین کیا ہے۔ یہ ان کیلئے اور اس ”‏بڑی بھیڑ“‏ کیلئے بھرپور فائدے لایا ہے جو بادشاہت کی زمینی رعایا کے طور پر زندگی کی اُمید رکھتے ہیں۔ (‏یرمیاہ ۳۲:‏۳۹؛‏ مکاشفہ ۷:‏۹‏)‏ یہوؔواہ کا خوف انکے دلوں میں بھی پیدا ہو گیا ہے۔‏

خدائی خوف جس طرح ہمارے دلوں میں جاگزین ہوتا ہے

۱۷.‏ یہوؔواہ نے ہمارے دلوں میں کس طرح خدائی خوف ڈالا ہے؟‏

۱۷ یہوؔواہ نے اس خدائی خوف کو ہمارے دلوں میں کیسے جاگزین کیا ہے؟ اپنی روح کے اثر سے۔ اور ہمارے پاس کیا ہے جو روح‌القدس کی پیداوار ہے؟ خدا کا الہامی کلام، بائبل۔ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶، ۱۷‏)‏ جو کچھ اس نے ماضی میں کیا ہے اسکے ذریعے، اپنے نبوّتی کلام کی تکمیل میں اپنے خادموں کیساتھ اپنے برتاؤ کے ذریعے، اور آئندہ چیزوں کی پیشینگوئیوں کے ذریعے، یہوؔواہ ہم سب کیلئے خدائی خوف کو ترقی دینے کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔—‏یشوع ۲۴:‏۲-‏۱۵؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۳۰، ۳۱‏۔‏

۱۸، ۱۹.‏ کنونشنیں، اسمبلیاں، اور کلیسیائی اجلاس خدائی خوف پیدا کرنے میں کیسے ہماری مدد کرتے ہیں؟‏

۱۸ یہ بات قابلِ‌غور ہے کہ یہوؔواہ نے موسیٰؔ سے کہا، جیسے کہ استثنا ۴:‏۱۰ میں بیان کیا گیا ہے:‏ ”‏قوم کو میرے حضور جمع کر اور میں ان کو اپنی باتیں سناؤنگا تاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں۔“‏ اسی طرح سے آجکل، یہوؔواہ نے اپنے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے کثیر فراہمیاں کی ہیں تاکہ اس کا خوف ماننا سیکھیں۔ کنونشنوں، اسمبلیوں، اور کلیسیائی اجلاسوں پر، ہم یہوؔواہ کی شفقت اور اس کی نیکی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ دی گریٹسٹ مین ہو ایور لوڈ بُک کا مطالعہ کرتے وقت ہم یہی کچھ کر رہے تھے۔ یہ مطالعہ آپ پر اور یہوؔواہ کے لئے آپ کے رویے پر کیسے اثرانداز ہوا ہے؟ جب آپ نے ہمارے آسمانی باپ کی عظیم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس کے بیٹے میں منعکس دیکھا تو کیا اس نے خدا کو کبھی ناراض نہ کرنے کی آپ کی خواہش کو مضبوط نہیں کیا؟—‏کلسیوں ۱:‏۱۵‏۔‏

۱۹ اپنے اجلاسوں پر، ہم گزشتہ زمانوں میں یہوؔواہ کی اپنی اُمت کو رہائی دلانے کی سرگزشتوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ (‏۲-‏سموئیل ۷:‏۲۳‏)‏ جب ہم ریویلیشن—‏اٹس گرینڈ کلائمکس ایٹ ہینڈ!‏ بُک کی مدد کے ساتھ بائبل میں مکاشفہ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان نبوّتی رویتوں کی بابت جو اس ۲۰ ویں صدی میں پہلے ہی تکمیل پا چکی ہیں اور ابھی وقوع‌پذیر ہونے والے مہیب واقعات کی بابت سیکھتے ہیں۔ خدا کے ایسے تمام کاموں کی بابت، زبور ۶۶:‏۵ بیان کرتی ہے:‏ ”‏آؤ اور خداوند کے کاموں کو دیکھو۔ بنی آدم کے ساتھ وہ اپنے سلوک میں مہیب ہے۔“‏ جی‌ہاں، جب موزوں طور پر غور کیا جاتا ہے تو خدا کے یہ کام ہمارے دلوں میں اس کے خوف یعنی گہری تعظیم کو جاگزین کرتے ہیں۔ یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے یہوؔواہ خدا اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے:‏ ”‏میں اپنا خوف ان کے دل میں ڈالونگا تاکہ وہ مجھ سے برگشتہ نہ ہوں۔“‏—‏یرمیاہ ۳۲:‏۴۰‏۔‏

۲۰.‏ اپنے دلوں میں خدائی خوف کو پوری طرح جاگزین کرنے کی خاطر، ہماری طرف سے کس چیز کا تقاضا کِیا جاتا ہے؟‏

۲۰ تاہم، یہ ظاہر ہے کہ ہماری طرف سے کوشش کے بغیر یہ خدائی خوف ہمارے دلوں میں پیدا نہیں ہوتا۔ نتائج ازخود برآمد نہیں ہوتے۔ یہوؔواہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ خدائی خوف پیدا کرنے سے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ (‏استثنا ۵:‏۲۹)‏ جسمانی اسرائیل ایسا کرنے میں ناکام ہو گئے۔ لیکن یہوؔواہ پر اعتماد کیساتھ، روحانی اسرائیلی اور ان کے ساتھی پہلے ہی سے بہت سے فوائد کا تجربہ کر رہے ہیں جو خدا کا خوف ماننے والوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ ان فوائد میں سے بعض پر ہم اگلے مضمون میں غور کرینگے۔ (‏۱۰ ۳/۱۵ w۹۵)‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

▫ خدائی خوف کیا ہے؟‏

▫ یہوؔواہ کے خوف میں شادمانی حاصل کرنے کیلئے ہمیں کیسے تعلیم دی جا رہی ہے؟‏

▫ خدائی خوف رکھنے کیلئے، ہماری طرف سے کس کوشش کا تقاضا کِیا جاتا ہے؟‏

▫ خدائی خوف پیدا کرنے کیلئے ہمارے علامتی دل کے تمام پہلو کیوں شامل ہیں؟‏

‏[‏تصویریں]‏

یہوؔواہ کے خوف کو سمجھنے کے لئے مستعد مطالعے کا تقاضا کِیا جاتا ہے

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں