”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
2-8 دسمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | مکاشفہ 7-9
”یہوواہ ایک بڑی بِھیڑ کو برکت دے گا“
(مکاشفہ 7:9) اِس کے بعد مَیں نے دیکھا اور دیکھو! لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ جسے کوئی گن نہیں سکتا تھا، تخت اور میمنے کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ لوگ سب قوموں، قبیلوں، نسلوں اور زبانوں سے تھے، اُنہوں نے سفید چوغے پہنے ہوئے تھے اور اُن کے ہاتھوں میں کھجور کی شاخیں تھیں۔
آئیٹی-1 ص. 997 پ. 1
بڑی بِھیڑ
اگر بڑی بِھیڑ سے مُراد وہ لوگ ہیں جو نجات حاصل کریں گے اور زمین پر زندگی پائیں گے تو اُن کے بارے میں یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’خدا کے تخت اور میمنے کے سامنے کھڑے ہوں گے‘؟ (مکا 7:9) بائبل میں کبھی کبھار ”کھڑے ہونے“ کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص یا گروہ کو اُس شخص کی خوشنودی حاصل ہے جس کے حضور وہ کھڑا ہے۔ (زبور 5:5؛ امثا 22:29؛ لُو 1:19) غور کریں کہ مکاشفہ 6 باب میں لکھا ہے کہ ”زمین کے بادشاہ، اعلیٰ افسر، فوجی کمانڈر، امیر، طاقتور اور سب غلام اور آزاد“ خود کو ’اُس کی نظروں سے چھپاتے ہیں جو تخت پر بیٹھا ہے اور میمنے کے غضب سے بھی کیونکہ اُن کے غضب کا عظیم دن آ گیا ہے۔ اب کون بچ سکتا ہے؟‘ (مکا 6:15-17؛ لُوقا 21:36 پر بھی غور کریں۔) یہاں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”بچ“ کِیا گیا ہے، وہ کھڑے ہونے کا معنی بھی پیش کرتا ہے۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ ”بڑی بِھیڑ“ اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو غضب کے دن سے بچ جائیں گے اور جو خدا اور میمنے کی خوشنودی حاصل کر کے اُن کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
(مکاشفہ 7:14) مَیں نے فوراً کہا: ”مالک! یہ تو آپ جانتے ہیں۔“ اُنہوں نے مجھ سے کہا: ”یہ وہ لوگ ہیں جو بڑی مصیبت سے نکل آئے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے چوغوں کو میمنے کے خون میں دھو کر سفید کر لیا ہے۔
آئیٹی-2 ص. 1127 پ. 4
مصیبت
یروشلیم کی تباہی کے تقریباً 30 سال بعد یوحنا رسول کو سب قوموں، قبیلوں، نسلوں اور زبانوں سے آنے والی ایک بڑی بِھیڑ کے بارے میں بتایا گیا کہ ”یہ وہ لوگ ہیں جو بڑی مصیبت سے نکل آئے ہیں۔“ (مکا 7:13، 14) ذرا اعمال 7:9، 10 پر غور کریں جہاں یوسف کے بارے میں لکھا ہے کہ ”خدا نے اُنہیں تمام مصیبتوں سے نجات دِلائی۔“ یونانی زبان کی جس اِصطلاح کا ترجمہ ”نجات دِلائی“ کِیا گیا ہے، اُس سے مُراد ”نکالنا“ بھی ہے۔ یوسف کو ’مصیبتوں سے نجات دِلانے‘ یا ’نکالنے‘ کا مطلب محض یہ نہیں ہے کہ خدا نے یوسف کو مصیبتوں کا سامنا کرنے کے قابل بنایا بلکہ یہ بھی ہے کہ خدا نے اُنہیں اُن کی مصیبتوں سے بچایا۔ لہٰذا بڑی بِھیڑ کے بڑی مصیبت سے نکل آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اِس مصیبت سے بچ جائے گی۔
(مکاشفہ 7:15-17) اِس لیے وہ خدا کے تخت کے سامنے کھڑے ہیں اور دن رات اُس کی ہیکل میں اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہے، وہ اُن پر اپنا خیمہ تانے گا۔ 16 آئندہ وہ بھوکے اور پیاسے نہیں رہیں گے اور نہ ہی اُن کو سورج یا کوئی اَور چیز جھلسائے گی 17 کیونکہ میمنا جو تخت کے پاس کھڑا ہے، اُن کی گلّہبانی کرے گا اور اُن کو زندگی کے پانی کے چشموں کے پاس لے جائے گا۔ اور خدا اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔“
آئیٹی-1 ص. 996، 997
بڑی بِھیڑ
اُن کی پہچان۔ بڑی بِھیڑ کی پہچان مکاشفہ 7 باب میں اِس کے بارے میں درج باتوں اور اِس سے ملتے جلتے بیانات سے پتہ چلتی ہے۔ مکاشفہ 7:15-17 میں بتایا گیا ہے کہ ”[خدا] اُن پر اپنا خیمہ تانے گا۔“ اور ”اُن کو زندگی کے پانی کے چشموں کے پاس لے جائے گا“ اور ”خدا اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔“ مکاشفہ 21:2-4 میں بھی اِس سے ملتی جلتی باتیں درج ہیں۔ اِن آیتوں میں لکھا ہے کہ ”خدا کا خیمہ اِنسانوں کے درمیان ہے،“ ”وہ اُن کے سارے آنسو پونچھ دے گا“ اور ’موت نہ رہے گی۔‘ یہ رُویا اُن ہستیوں کے بارے میں نہیں ہے جو آسمان پر ہیں جہاں سے نیا یروشلیم نیچے آ رہا تھا بلکہ یہ رُویا زمین پر رہنے والے اِنسانوں کے بارے میں ہے۔
سنہری باتوں کی تلاش
(مکاشفہ 7:1) اِس کے بعد مَیں نے زمین کے چار کونوں پر چار فرشتوں کو کھڑے دیکھا جنہوں نے زمین کی چار ہواؤں کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا تاکہ زمین پر یا سمندر پر یا کسی درخت پر کوئی ہوا نہ چلے۔
آرای ص. 115 پ. 4
خدا کے اِسرائیل پر مُہر
یہ چار فرشتے فرشتوں کے چار گروہوں کی طرف اِشارہ کرتے ہیں جنہیں یہوواہ مقررہ وقت تک اِس دُنیا کی سزا کو روکے رکھنے کے لیے اِستعمال کرتا ہے۔ جب یہ فرشتے خدا کے غضب کی اِن ہواؤں کو شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی طرف سے چھوڑیں گے تو ہولناک تباہی ہوگی۔ یہ ہوائیں اُن چار ہواؤں سے زیادہ شدید ہوں گی جنہیں خدا نے ماضی میں عیلامی قوم کو پراگندہ اور تباہ کرنے کے لیے اِستعمال کِیا۔ (یرمیاہ 49:36-38) یہ بڑی طوفانی ہوا ہوگی جو آندھی کے دن کے اُس ”گِردباد“ سے زیادہ ہولناک ہوگی جس سے یہوواہ نے عمونی قوم کو تباہ کِیا۔ (عاموس 1:13-15) زمین پر شیطان کی تنظیم کا کوئی بھی حصہ یہوواہ کے غضب کے اُس دن بچ نہیں سکے گا جب یہوواہ ہمیشہ کے لیے یہ ثابت کر دے گا کہ صرف وہ ہی حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔—زبور 83:15، 18؛ یسعیاہ 29:5، 6۔
(مکاشفہ 9:11) اُن کا ایک بادشاہ ہے یعنی اتھاہ گڑھے کا فرشتہ۔ عبرانی میں اُس کا نام ابدّون ہے جبکہ یونانی میں اُس کا نام اپُلیون ہے۔
آئیٹی-1 ص. 12
ابدّون
اتھاہ گڑھے کا فرشتہ ابدّون کون ہے؟
مکاشفہ 9:11 میں بتایا گیا ہے کہ ’اتھاہ گڑھے کے فرشتے‘ کا نام ”ابدّون“ ہے۔ یونانی میں اِس فرشتے کا نام اپُلیون ہے جس کا مطلب ”تباہ کرنے والا“ ہے۔ اُنیسویں صدی عیسوی میں اِن الفاظ کو شہنشاہ وسپاسین، محمد، نپولین اور دیگر اشخاص پر لاگو کرنے کی کوشش کی گئی اور اِس فرشتے کو عموماً ”شیطانی“ خیال کِیا جاتا تھا۔ لیکن غور کریں کہ مکاشفہ 20:1-3 سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فرشتہ خدا کا نمائندہ تھا جو آسمان سے آیا تھا۔ وہ فرشتہ ”شیطانی“ نہیں تھا بلکہ اُس نے شیطان کو باندھ کر اُسے اتھاہ گڑھے میں پھینک دیا۔ ایک کتاب میں جس میں بائبل کی آیتوں کی تشریح کی گئی ہے، مکاشفہ 9:11 پر یہ تبصرہ کِیا گیا: ”ابدّون شیطان کا نہیں بلکہ خدا کا فرشتہ ہے جو خدا کے حکم پر تباہی کا کام کرتا ہے۔“
عبرانی صحیفوں میں چند بار لفظ ”آوادون“ آتا ہے جس کا مطلب ”تباہی“ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس لفظ کا تعلق ”شیول“ (قبر کے لیے اِستعمال ہونے والا عبرانی لفظ) اور موت سے ہے۔ مکاشفہ 1:18 میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع مسیح نے کہا کہ ”مَیں ہمیشہ ہمیشہ تک زندہ ہوں اور میرے پاس موت اور قبر کی چابیاں ہیں۔“ لُوقا 8:31 سے بھی اتھاہ گڑھے پر یسوع کے اِختیار کا پتہ چلتا ہے۔ یسوع کے پاس ہلاک کرنے کی طاقت ہے جس میں شیطان کو تباہ کرنے کی طاقت بھی شامل ہے۔ یہ بات عبرانیوں 2:14 سے واضح ہوتی ہے جہاں لکھا ہے کہ ’یسوع گوشت پوست کا اِنسان بنا تاکہ وہ اپنی موت کی بِنا پر اِبلیس کو ختم کر سکے جو موت لا سکتا ہے۔‘ مکاشفہ 19:11-16 سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے یسوع کو سزا دینے والا یا تباہ کرنے والا مقرر کِیا ہے۔
9-15 دسمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | مکاشفہ 10-12
””دو گواہوں“ کو مار دیا گیا لیکن پھر اُنہیں زندہ کر دیا گیا“
(مکاشفہ 11:3) اور مَیں اپنے دو گواہوں کو بھیجوں گا کہ 1260 (بارہ سو ساٹھ) دن تک ٹاٹ اوڑھ کر نبوّت کریں۔“
قارئین کے سوال
مکاشفہ 11 باب میں جن دو گواہوں کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ کون ہیں؟
مکاشفہ 11:3 کے مطابق دو گواہ 1260 دن تک نبوّت کریں گے۔ اِس کے بعد بتایا گیا ہے کہ حیوان ”اُن پر غالب آئے گا اور اُن کو مار ڈالے گا۔“ لیکن پھر ”ساڑھے تین دن“ کے بعد اِن دو گواہوں کو زندہ کِیا جائے گا اور یہ دیکھ کر لوگوں پر بڑا خوف چھا جائے گا۔—مکا 11:7، 11۔
یہ دو گواہ کون ہیں؟ اِن کے بارے میں کچھ تفصیلات بتائی گئی ہیں جن سے ہم اِنہیں پہچان سکتے ہیں۔ اِن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ”زیتون کے دو درخت اور دو چراغدان ہیں۔“ (مکا 11:4) غور کریں کہ زکریاہ نبی نے بھی ایک پیشگوئی میں ایک شمعدان اور زیتون کے دو درختوں کا ذکر کِیا تھا۔ اِس پیشگوئی میں زیتون کے دو درخت ”دو ممسوح“ تھے جو حاکم زرُبابل اور سردار کاہن یشوع کی طرف اِشارہ کرتے تھے۔ یہ ممسوح ’ربُالعالمین کے حضور کھڑے تھے۔‘ (زک 4:1-3، 14) اِس کے علاوہ اِن دو گواہوں کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ معجزے کرتے ہیں۔ یہ معجزے اُن معجزوں کی طرح ہیں جو موسیٰ اور ایلیاہ نے کیے تھے۔—مکاشفہ 11:5، 6؛ گنتی 16:1-7، 28-35؛ 1 اور 1-سلاطین 17:1؛ 18:41-45 پر غور کریں۔
یہ بات قابلِغور ہے کہ زرُبابل، یشوع، موسیٰ اور ایلیاہ چاروں ہی خدا کے ممسوح تھے اور اُنہوں نے مشکل گھڑی میں خدا کے بندوں کی پیشوائی کی تھی۔ لہٰذا دو گواہ اُن ممسوح بھائیوں کی طرف اِشارہ کرتے ہیں جنہوں نے 1914ء میں خدا کے بندوں کی پیشوائی کی۔ وہ ساڑھے تین سال تک ”ٹاٹ اوڑھے ہوئے“ یہ مُنادی کرتے رہے کہ خدا کی بادشاہت آسمان پر قائم ہو چکی ہے۔
جب یہ عرصہ اپنے اِختتام پر تھا تو ممسوح بھائیوں کو قید میں ڈال دیا گیا اور یوں اُنہیں مجازی معنوں میں مار ڈالا گیا۔ لیکن یہ بھائی زیادہ عرصے تک قید میں نہیں رہے۔ قید کا یہ عرصہ مجازی معنوں میں صرف ساڑھے تین دن کا تھا۔ لیکن خدا کے بندوں کے دشمنوں کو لگا کہ وہ اُن کے کام کو روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اور اِس وجہ سے وہ بہت خوش ہوئے۔—مکا 11:8-10۔
لیکن پیشگوئی کے مطابق ساڑھے تین دن کے بعد دونوں گواہ زندہ کر دیے گئے۔ اِن ممسوح بھائیوں کو نہ صرف قید سے آزاد کر دیا گیا بلکہ جو بھائی وفادار رہے، اُنہیں یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے ذریعے ایک خاص ذمےداری بھی سونپی۔ سن 1919ء میں وہ اُن لوگوں میں شامل تھے جنہیں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے طور پر مقرر کِیا گیا تاکہ وہ اِس آخری زمانے میں خدا کے بندوں کو روحانی خوراک فراہم کریں۔—متی 24:45-47؛ مکا 11:11، 12۔
مکاشفہ 11:1، 2 سے پتہ چلتا ہے کہ اِن تمام واقعات کا تعلق روحانی ہیکل کی جانچ سے ہے۔ ملاکی 3 باب میں بھی روحانی ہیکل کی جانچ کا ذکر کِیا گیا ہے اور پھر بتایا گیا ہے کہ اِسے پاک صاف کِیا جائے گا۔ (ملا 3:1-4) روحانی ہیکل کی جانچ اور اِسے پاک صاف کرنے میں کتنا وقت لگا؟ یہ کام 1914ء سے لے کر 1919ء کے اِبتدائی مہینوں تک جاری رہا۔ اِس عرصے میں وہ 1260 دن (یعنی 42 مہینے) اور مجازی معنوں میں اِستعمال کیے گئے ساڑھے تین دن شامل ہیں جن کا ذکر مکاشفہ 11 باب میں کِیا گیا ہے۔
یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا نے لوگوں کو روحانی طور پر پاک صاف کرنے کا بندوبست کِیا تاکہ وہ ’نیک کاموں میں سرگرم ہوں۔‘ (طط 2:14) ہم اُن ممسوح مسیحیوں کی بھی بہت قدر کرتے ہیں جنہوں نے مشکل گھڑی میں خدا کے بندوں کی پیشوائی کی اور یوں مجازی معنوں میں دو گواہ ثابت ہوئے۔
(مکاشفہ 11:7) جب وہ گواہی دینا ختم کر لیں گے تو وحشی درندہ جو اتھاہ گڑھے سے نکلتا ہے، اُن سے جنگ کرے گا اور اُن پر غالب آئے گا اور اُن کو مار ڈالے گا۔
(مکاشفہ 11:11) لیکن ساڑھے تین دن کے بعد اُن میں خدا کی طرف سے زندگی کا دم آیا اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے اور جس جس نے اُن کو دیکھا، وہ خوفزدہ ہو گیا۔
سنہری باتوں کی تلاش
(مکاشفہ 10:9، 10) مَیں اُس فرشتے کے پاس گیا اور اُس سے وہ چھوٹا صفحہ مانگا۔ اُس نے مجھ سے کہا: ”لیں، اِسے کھا لیں۔ یہ آپ کے مُنہ میں شہد جیسا میٹھا ہوگا لیکن آپ کے پیٹ کو کڑوا کر دے گا۔“ 10 اور مَیں نے فرشتے کے ہاتھ سے وہ چھوٹا صفحہ لے لیا اور اِسے کھانے لگا۔ وہ میرے مُنہ میں شہد جیسا میٹھا تھا لیکن جب مَیں نے اِسے کھا لیا تو میرا پیٹ کڑوا ہو گیا۔
آئیٹی-2 ص. 880، 881
طومار
مجازی معنوں میں اِستعمال۔ بائبل میں کئی جگہوں پر لفظ ”طومار“ مجازی معنوں میں اِستعمال ہوا ہے۔ حِزقیایل نبی اور زکریاہ نبی نے اپنی اپنی رُویا میں ایک طومار دیکھا جس کی دونوں طرف لکھا ہوا تھا۔ قدیم زمانے میں عام طور پر طومار کے ایک ہی طرف لکھا ہوتا تھا۔ لیکن اِن طوماروں کے دونوں طرف لکھا ہوا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس پر تحریرکردہ سزا کا پیغام بہت ہی اہم اور سنجیدہ تھا۔ (حِز 2:9–3:3؛ زک 5:1-4) مکاشفہ کی کتاب میں درج رُویا میں بتایا گیا ہے کہ جو تخت پر بیٹھا تھا، اُس کے دائیں ہاتھ میں ایک طومار تھا جس پر سات مُہریں لگی ہوئی تھیں تاکہ اِس میں لکھی باتیں اُس وقت تک آشکارا نہ ہوں جب تک خدا کا میمنا اِن مُہروں کو نہ کھولے۔ (مکا 5:1، 12؛ 6:1، 12-14) بعد میں رُویا میں یوحنا کو ایک طومار دیا گیا اور اُنہیں اِسے کھانے کا حکم دیا گیا۔ یوحنا کو یہ طومار میٹھا لگا لیکن اِسے کھانے کے بعد اُن کا پیٹ کڑوا ہو گیا۔ چونکہ یہ طومار کُھلا تھا اور اِس پر کوئی مُہر نہیں تھی اِس لیے اِس میں لکھی باتیں سمجھنے کے لیے تھیں۔ اِس طومار میں درج پیغام یوحنا کو تو میٹھا لگا لیکن غالباً اُنہیں کڑوی باتوں کی پیشگوئی کرنی تھی جیسے کہ اُن سے کہا گیا تھا۔ (مکا 10:1-11) حِزقیایل نبی کو بھی کچھ ایسا ہی تجربہ ہوا جب اُن کے سامنے ایک طومار رکھا گیا جس میں ”نوحہ، ماتم اور آہونالہ“ درج تھا۔—حِز 2:10۔
(مکاشفہ 12:1-5) پھر آسمان پر ایک بڑی نشانی دِکھائی دی۔ ایک عورت نے سورج اوڑھا ہوا تھا، اُس کے پاؤں کے نیچے چاند تھا، اُس کے سر پر 12 ستاروں کا تاج تھا 2 اور وہ حاملہ تھی۔ وہ درد اور تکلیف کے مارے چلّا رہی تھی کیونکہ اُس کے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ 3 آسمان پر ایک اَور نشانی دِکھائی دی۔ دیکھو! ایک بڑا سا لال سُرخ اژدہا تھا۔ اُس کے سات سر اور دس سینگ تھے اور اُس کے سروں پر سات تاج تھے۔ 4 اور وہ اپنی دُم سے آسمان کے ستاروں کے تیسرے حصے کو گھسیٹ رہا تھا۔ اُس نے اُن کو نیچے زمین پر پھینک دیا۔ اور اژدہا اُس عورت کے سامنے کھڑا رہا جس کا بچہ ہونے والا تھا تاکہ جیسے ہی بچہ پیدا ہو، اِس کو ہڑپ کر لے۔ 5 اور عورت نے ایک لڑکے کو جنم دیا جو لوہے کی لاٹھی سے ساری قوموں پر حکومت کرے گا۔ اُس کے بیٹے کو جلدی سے خدا اور اُس کے تخت کے پاس لے جایا گیا۔
آئیٹی-2 ص. 187 پ. 7-9
دردِحمل
یوحنا رسول نے رُویا میں آسمان پر ایک عورت دیکھی جو ”درد اور تکلیف کے مارے چلّا رہی تھی کیونکہ اُس کے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔“ اُس نے ایک لڑکے کو جنم دیا جس نے ’لوہے کی لاٹھی سے ساری قوموں پر حکومت کرنی تھی۔‘ اژدہے کی پوری کوشش تھی کہ وہ اِس بچے کو ہڑپ کر لے لیکن اُس عورت کے ”بیٹے کو جلدی سے خدا اور اُس کے تخت کے پاس لے جایا گیا۔“ (مکا 12:1، 2، 4-6) بیٹے کا خدا کے پاس لے جایا جانا اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خدا نے اُسے اپنی اولاد کے طور پر قبول کِیا جیسے قدیم زمانے میں دستور تھا کہ بچے کو اُس کی پیدائش پر اُس کے باپ کے پاس لے جایا جاتا تھا تاکہ وہ اِسے قبول کرے۔ لہٰذا عورت خدا کی ”بیوی“ یعنی اُس یروشلیم کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو آسمان پر ہے اور جو مسیح اور اُس کے مسحشُدہ بھائیوں کی ماں ہے۔—گل 4:26؛ عبر 2:11، 12، 17۔
بِلاشُبہ ”عورت“ بےعیب تھی اور بچے کی پیدائش کے وقت اُسے حقیقی دردِحمل نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا دردِحمل مجازی معنوں میں اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عورت کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ بچے کی پیدائش بس ہونے ہی والی ہے۔—مکا 12:2۔
عورت کا بیٹا کون ثابت ہوا؟ اِس بیٹے نے ’لوہے کی لاٹھی سے ساری قوموں پر حکومت کرنی تھی۔‘ اور یہ بات زبور 2:6-9 میں خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے بارے میں کہی گئی تھی۔ لیکن یوحنا رسول نے یہ رُویا زمین پر مسیح کی پیدائش، اُس کی موت اور جی اُٹھنے کے کافی عرصے بعد دیکھی۔ لہٰذا رُویا میں بچے کی پیدائش کا اِشارہ مسیح کی بادشاہت کے طرف تھا جو خدا کے بیٹے یسوع مسیح کے ہاتھوں قائم ہوئی جو مُردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد ’خدا کے دائیں طرف بیٹھ گئے اور اِس بات کا اِنتظار کرنے لگے کہ خدا اُن کے دُشمنوں کو اُن کے پاؤں کی چوکی کی طرح بنا دے۔‘—عبر 10:12، 13؛ زبور 110:1؛ مکا 12:10۔
16-22 دسمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | مکاشفہ 13-16
”وحشی درندوں سے نہ ڈریں“
(مکاشفہ 13:1، 2) اور وہ سمندر کی ریت پر کھڑا ہو گیا۔ اور مَیں نے دیکھا کہ ایک وحشی درندہ سمندر میں سے اُوپر آ رہا ہے۔ اُس کے دس سینگ اور سات سر تھے اور اُس کے سینگوں پر دس تاج تھے۔ اُس کے سروں پر ایسے نام لکھے تھے جن سے خدا کی توہین ہو۔ 2 مَیں نے جو وحشی درندہ دیکھا، وہ تیندوے جیسا تھا لیکن اُس کے پاؤں ریچھ کے پاؤں جیسے تھے اور اُس کا مُنہ شیر کے مُنہ جیسا تھا۔ اور اژدہے نے اِس درندے کو طاقت اور تخت اور بڑا اِختیار دیا۔
یہوواہ خدا ”بھیدوں کا کھولنے والا ہے“
تقریباً دو ہزار سال پہلے یسوع مسیح نے یوحنا رسول کو ایک کے بعد ایک حیرتانگیز رویا دِکھائی۔ (مکا 1:1) اِن رویاؤں میں سے ایک رویا میں یوحنا رسول نے ایک اژدہا دیکھا جو سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ یہ اژدہا، اِبلیس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (مکاشفہ 12:17–13:2 کو پڑھیں۔) یوحنا رسول نے ایک حیوان کو بھی سمندر میں سے نکلتے ہوئے دیکھا جس کے سات سر تھے۔ اِبلیس نے اِس حیوان کو ”بڑا اِختیار“ دیا۔ بعد میں یوحنا رسول نے ایک اَور رویا میں ایک قرمزی رنگ کے حیوان کو دیکھا۔ اِس حیوان کے بھی سات سر تھے اور یہ پہلے حیوان کا بُت تھا۔ ایک فرشتے نے یوحنا رسول کو بتایا کہ یہ سات سر دراصل ’سات بادشاہوں‘ یا حکومتوں کی علامت ہیں۔ (مکا 13:1، 14، 15؛ 17:3، 9، 10) جب یوحنا رسول نے مکاشفہ کی کتاب لکھی تو اُس وقت تک پانچ حکومتیں آ چکی تھیں، ایک حکمرانی کر رہی تھی جبکہ ’ایک ابھی آئی نہیں تھی۔‘ یہ حکومتیں یا عالمی طاقتیں کونسی تھیں؟ آئیں، دیکھیں کہ اِس حیوان کا ہر ایک سر کونسی عالمی طاقت کی علامت ہے۔ ہم دانیایل نبی کی کتاب سے بھی اِن میں سے بعض عالمی طاقتوں کے بارے میں تفصیل سے سیکھیں گے۔ دانیایل نبی نے تو اِن میں سے کچھ عالمی طاقتوں کے وجود میں آنے سے بھی صدیوں پہلے اُن کے بارے میں پیشینگوئی کر دی تھی۔
(مکاشفہ 13:11) پھر مَیں نے ایک اَور وحشی درندے کو دیکھا جو زمین سے اُوپر آ رہا تھا۔ اُس کے میمنے جیسے دو سینگ تھے لیکن وہ ایک اژدہے کی طرح بولنے لگا۔
(مکاشفہ 13:15) اور اُس کو اِجازت دی گئی کہ وہ وحشی درندے کے بُت کو زندگی کا دم دے تاکہ وہ بُت بول سکے اور اُن سب کو مروائے جو وحشی درندے کے بُت کی پوجا کرنے سے اِنکار کرتے ہیں۔
آرای ص. 194 پ. 26
دو وحشی درندوں کا مقابلہ کریں
دو سینگوں والا درندہ کون سی عالمی طاقت ہو سکتا تھا؟ یہ درندہ پہلے وحشی درندے کا ساتواں سر یعنی برطانوی امریکی عالمی طاقت ہی تھا لیکن اب اِس نے ایک خاص کام کرنا تھا۔ چونکہ رُویا میں اِسے ایک الگ وحشی درندے کے طور پر بیان کِیا گیا ہے اِس لیے ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ اِس نے دُنیا میں کیا کردار ادا کرنا تھا۔ دو سینگوں والا یہ درندہ دو ایسی سیاسی طاقتوں سے بنا ہے جو ایک ہی عرصے میں وجود میں آئیں۔ یہ طاقتیں ویسے تو الگ الگ ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرتی ہیں۔ اِس درندے کے ”میمنے جیسے دو سینگ“ یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ یہ خود کو بہت ہی نرم، بےضرر اور ایک روشنخیال حکومت کے طور پر ظاہر کرتا ہے جس کی طرف پوری دُنیا کو رُجوع کرنا چاہیے۔ لیکن وہ ایک اژدہے کی طرح بولتا ہے جس کا مطلب ہے کہ جہاں بھی اِس کی حکمرانی کو قبول نہیں کِیا جاتا وہاں یہ رُعب دبدبے، دھمکیوں یہاں تک کہ تشدد پر اُتر آتا ہے۔ یہ درندہ خدا کی بادشاہت کی حمایت کرنے کی حوصلہافزائی نہیں کرتا جس کا حکمران خدا کا میمنا ہے۔ اِس کی بجائے یہ شیطان یعنی بڑے اژدہے کا ساتھ دیتا ہے۔ اِس نے قوموں میں تفرقے اور نفرت کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے پہلے وحشی درندے کی عبادت کو ہوا ملی ہے۔
آرای ص. 195 پ. 30، 31
دو وحشی درندوں کا مقابلہ کریں
تاریخ سے اِس بُت کی پہچان ایک ایسی تنظیم کے طور پر ہوتی ہے جسے قائم کرنے کی تجویز برطانیہ اور امریکہ نے دی۔ اُنہوں نے اِس تنظیم کو فروغ دیا اور اِس کی حمایت کی۔ یہ تنظیم پہلے انجمنِاقوام (لیگ آف نیشنز) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ بعد میں مکاشفہ 17 باب میں اِسے ایک دوسری علامت کے طور پر ظاہر کِیا گیا ہے جو کہ ایک گہرے سُرخ رنگ کا زندہ درندہ ہے۔ یہ بینالاقوامی تنظیم اِس لحاظ سے بولتی ہے کہ یہ بڑی شیخی سے دعویٰ کرتی ہے کہ صرف یہی اِنسانوں کو امن اور سلامتی فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تنظیم ایک ایسی مجلس بن گئی ہے جہاں اِس کے رُکن ممالک ایک دوسرے سے بحثوتکرار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی بےعزتی کرتے ہیں۔ اگر کوئی قوم اِس کے اِختیار کے آگے سر نہیں جھکاتی تو یہ اُس سے ناتا توڑ لیتی ہے۔ دراصل انجمنِاقوام نے ہر اُس قوم کو تنظیم سے نکال دیا جو اِس کے نظریات کی پابندی کرنے میں ناکام رہی۔ بڑی مصیبت کے آغاز پر وحشی درندے کے بُت کے ”سینگ“ یعنی فوجیں بہت ہی تباہکُن کردار ادا کریں گی۔—مکاشفہ 7:14؛ 17:8، 16۔
درندے کے بُت نے جو کہ اب اقوامِمتحدہ کے طور پر ظاہر ہوا ہے، دوسری عالمی جنگ سے اب تک کئی لوگوں کو مروایا ہے۔ مثال کے طور پر 1950ء میں اقوامِمتحدہ کی فوج شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے بیچ ہونے والی جنگ کے لیے میدان میں اُتری۔ اِس فوج نے جنوبی کوریا کی فوج کے ساتھ مل کر شمالی کوریا اور چین کے تقریباً 14 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ اِسی طرح 1960ء سے 1964ء تک اقوامِمتحدہ کی فوجیں کانگو (کنساشا) میں سرگرم تھیں۔ اِس کے علاوہ عالمی رہنما جن میں پوپ پال ششم اور جان پال دوم شامل تھے، اِس بات کی تصدیق کرتے رہے ہیں کہ اقوامِمتحدہ ہی امن قائم کرنے کے لیے اِنسانوں کی آخری اور بہترین اُمید ہے۔ وہ اِس بات پر بھی اِصرار کرتے ہیں کہ اگر اِنسانوں نے اِس کی حمایت نہ کی تو اِنسانوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اِس طرح وہ مجازی معنوں میں اُن تمام اِنسانوں کی موت کا باعث بنتے ہیں جو اِس بُت کا ساتھ نہیں دیتے اور اِس کی پوجا کرنے سے اِنکار کرتے ہیں۔—اِستثنا 5:8، 9۔
(مکاشفہ 13:16، 17) اور وہ سب کو یعنی چھوٹے اور بڑے کو، امیر اور غریب کو، آزاد اور غلام کو مجبور کرتا ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ پر یا ماتھے پر نشان لگوائیں۔ 17 اور وہ کسی شخص کو کچھ خریدنے یا بیچنے کی اِجازت نہیں دیتا سوائے اُس کے جس پر نشان لگا ہو یعنی وحشی درندے کا نام یا اُس کے نام کا عدد۔
مکاشفہ کی کتاب سے اہم نکات—حصہ دوئم
13:16، 17۔ ’اپنے ہاتھ اور ماتھے پر حیوان کا نشان‘ نہ لینے کی وجہ سے ہمیں خریدوفروخت جیسے روزمرّہ کاموں میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اِس کے باوجود ہمیں اپنے ہاتھ اور ماتھے پر حیوان کا نشان نہیں لینا چاہئے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اِس حیوان کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ہماری سوچ اور کاموں پر اثرانداز ہو اور ہمیں خدا کی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرے۔
سنہری باتوں کی تلاش
(مکاشفہ 16:13، 14) اور مَیں نے دیکھا کہ اژدہے اور وحشی درندے اور جھوٹے نبی کے مُنہ سے تین ناپاک روحانی پیغام نکل رہے ہیں جو دِکھنے میں مینڈکوں کی طرح ہیں۔ 14 دراصل یہ روحانی پیغام بُرے فرشتوں کی طرف سے ہیں اور بڑے بڑے معجزے دِکھاتے ہیں اور پوری زمین کے بادشاہوں کے پاس جاتے ہیں تاکہ اُن کو لامحدود قدرت والے خدا کے عظیم دن کی جنگ کے لیے جمع کریں۔
مکاشفہ کی کتاب سے اہم نکات—حصہ دوئم
16:13-16۔ ”ناپاک رُوحیں“ شیطان کے اُس پروپیگنڈا کی طرف اشارہ کرتی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ دُنیا کے بادشاہ خدا کے قہر کے سات پیالوں کے اُنڈیلے جانے پر دھیان دینے کی بجائے یہوواہ خدا کی مخالفت کے لئے جمع کئے جائیں۔—متی 24:42، 44۔
(مکاشفہ 16:21) پھر آسمان سے لوگوں پر بڑے بڑے اَولے پڑے جو آدھے آدھے من کے تھے۔ اور لوگوں نے اَولوں کی آفت کی وجہ سے خدا کے خلاف کفر بکا کیونکہ وہ بڑی شدید تھی۔
”تمہاری مخلصی نزدیک“ ہے!
بڑی مصیبت کے دوران ہم ’بادشاہی کی خوشخبری‘ کی مُنادی نہیں کریں گے۔ اُس وقت ہمارا پیغام بدل جائے گا۔ ’خاتمے‘ کا وقت آ چُکا ہوگا۔ (متی 24:14) تب ہم لوگوں کو صاف صاف یہ بتائیں گے کہ خدا کی عدالت کا وقت آ گیا ہے۔ شاید ہم لوگوں سے یہ کہیں گے کہ شیطان کی دُنیا اب بالکل ختم ہونے والی ہے۔ بائبل میں اِس پیغام کو بڑے بڑے اَولوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اِس میں لکھا ہے: ”آسمان سے آدمیوں پر منمن بھر کے بڑے بڑے اَولے گِرے اور چُونکہ یہ آفت نہایت سخت تھی اِس لئے لوگوں نے اَولوں کی آفت کے باعث خدا کی نسبت کفر بکا۔“—مکا 16:21۔
23-29 دسمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | مکاشفہ 17-19
”سب جنگوں کو ختم کرنے کے لیے خدا کی جنگ“
(مکاشفہ 19:11) مَیں نے دیکھا کہ آسمان کُھل گیا اور دیکھو! وہاں ایک سفید گھوڑا تھا۔ اُس کا سوار وفادار اور سچا کہلاتا ہے اور وہ اِنصاف کے ساتھ عدالت کرتا اور جنگ لڑتا ہے۔
(مکاشفہ 19:14-16) آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر اُس کے پیچھے پیچھے آ رہی تھیں۔ اُنہوں نے سفید، صاف اور اعلیٰ قسم کے لینن کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ 15 اور اُس کے مُنہ سے ایک لمبی، تیز تلوار نکلی ہوئی تھی جس سے وہ قوموں کو مارے گا اور وہ لوہے کی لاٹھی سے اُن پر حکومت کرے گا۔ وہ لامحدود قدرت والے خدا کے شدید غضب کے حوض میں انگور روندے گا۔ 16 اُس کے چوغے پر، ہاں، اُس کی ران پر یہ نام لکھا تھا: بادشاہوں کا بادشاہ اور مالکوں کا مالک۔
ڈبلیو08 1/4 ص. 8 پ. 3، 4
ہرمجِدّون—سب جنگوں کو ختم کرنے کے لیے خدا کی جنگ
جب تک بُرے لوگوں کے پاس اِختیار ہے تب تک نیک لوگ امن اور سلامتی سے زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ (امثال 29:2؛ واعظ 8:9) سچ تو یہ ہے کہ ہم کرپشن اور بُرائی کو اُن لوگوں کی زندگی سے نہیں نکال سکتے جو ایسا کرتے ہیں۔ اِس لیے ابدی امن اور اِنصاف اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک بُرے لوگوں کو ختم نہیں کر دیا جاتا۔ بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”شریر صادق کا فدیہ ہوگا۔“—امثال 21:18۔
چونکہ خدا منصف ہے اِس لیے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ بُرے لوگوں کے خلاف جو بھی فیصلے ہوں گے، وہ راست ہوں گے۔ ابراہام نے خدا سے پوچھا: ”کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا اِنصاف نہ کرے گا؟“ اِس سوال کے جواب سے ابراہام کو پتہ چلا کہ یہوواہ ہمیشہ صحیح کام کرتا ہے۔ (پیدایش 18:25) اِس کے علاوہ بائبل میں ہمیں یقین دِلایا گیا ہے کہ یہوواہ بُرے لوگوں کے مرنے سے خوش نہیں ہوتا۔ وہ صرف اُس صورت میں بُرے لوگوں کو ہلاک کرتا ہے جب اِس کے سوا کوئی اَور چارہ نہیں ہوتا۔—حِزقیایل 18:32؛ 2-پطرس 3:9۔
آئیٹی-1 ص. 1146 پ. 1
گھوڑے
یوحنا رسول کی رُویا میں یسوع مسیح کو سفید گھوڑے پر سوار دِکھایا گیا ہے اور اُن کے ساتھ ایک فوج ہے جس کے تمام فوجی سفید گھوڑوں پر بیٹھے ہیں۔ اِس رُویا کے ذریعے یوحنا پر یہ ظاہر کِیا گیا کہ اُس جنگ میں اِنصاف اور راستی سے کام لیا جائے گا جو مسیح اپنے خدا اور باپ یہوواہ کی طرف سے تمام دُشمنوں کے خلاف لڑے گا۔ (مکا 19:11، 14) اِس سے پہلے ایک اَور رُویا میں بادشاہ کے طور پر مسیح کی کارروائی اور اِس کے بعد آنے والی آفتوں کو فرق فرق گھوڑوں اور گُھڑسواروں سے ظاہر کِیا گیا ہے۔—مکا 6:2-8۔
(مکاشفہ 19:19، 20) اور مَیں نے دیکھا کہ وحشی درندہ اور زمین کے بادشاہ اور اُن کی فوجیں اُس گُھڑسوار اور اُس کی فوج سے جنگ لڑنے کے لیے جمع ہوئیں۔ 20 اور وحشی درندہ پکڑا گیا۔ اور اُس کے ساتھ وہ جھوٹا نبی بھی پکڑا گیا جس نے اُس کے سامنے وہ معجزے دِکھائے جن کے ذریعے اُس نے اُن لوگوں کو گمراہ کِیا تھا جنہوں نے وحشی درندے کا نشان لگوایا تھا اور جو اُس کے بُت کی پوجا کرتے تھے۔ وہ دونوں ابھی زندہ ہی تھے کہ اُن کو آگ کی اُس جھیل میں پھینک دیا گیا جو گندھک سے جلتی ہے۔
آرای ص. 286 پ. 24
ہرمجِدّون میں فتح حاصل کرنے والا بادشاہ
سمندر سے اُوپر آنے والا سات سروں اور دس سینگوں والا وحشی درندہ جو شیطان کے سیاسی نظام کی طرف اِشارہ کرتا ہے، تباہی کی دَلدل میں گِر جاتا ہے اور اُس کے ساتھ جھوٹا نبی یعنی ساتویں عالمی طاقت بھی گِر جاتی ہے۔ (مکاشفہ 13:1، 11-13؛ 16:13) ’وہ دونوں ابھی زندہ ہی ہوں گے‘ یا مل کر زمین پر خدا کے بندوں کی مخالفت کر رہے ہوں گے کہ اُنہیں ’آگ کی جھیل‘ میں پھینک دیا جائے گا۔ کیا یہ کوئی حقیقی آگ کی جھیل ہے؟ نہیں۔ جس طرح وحشی درندہ اور جھوٹا نبی کوئی حقیقی جانور نہیں ہیں اُسی طرح آگ کی جھیل بھی حقیقی نہیں ہے۔ دراصل یہ جھیل مکمل تباہی یا ایسی جگہ کی طرف اِشارہ کرتی ہے جہاں سے واپس آنا ناممکن ہے۔ بعد میں موت، قبر اور اِبلیس کو بھی اِس جھیل میں پھینک دیا جائے گا۔ (مکاشفہ 20:10، 14) یہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں بُرے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے اذیت دی جائے کیونکہ ایسی جگہ کے خیال سے ہی یہوواہ کو نفرت ہے۔—یرمیاہ 19:5؛ 32:35؛ 1-یوحنا 4:8، 16۔
(مکاشفہ 19:21) لیکن باقی لوگ اُس لمبی تلوار سے مارے گئے جو اُس گُھڑ سوار کے مُنہ سے نکلی ہوئی تھی۔ اور سارے پرندے اُن کے گوشت سے سیر ہوئے۔
آرای ص. 286 پ. 25
ہرمجِدّون میں فتح حاصل کرنے والا بادشاہ
وہ تمام لوگ جو براہِراست حکومت میں شامل نہیں تھے لیکن اِس بُری دُنیا کا حصہ تھے اور اپنی اِصلاح کرنے کو تیار نہیں تھے، ”اُس لمبی تلوار سے مارے گئے جو اُس گُھڑسوار کے مُنہ سے نکلی ہوئی تھی۔“ یسوع اُنہیں سزائےموت کا حقدار ٹھہرائیں گے۔ اِن لوگوں کے سلسلے میں آگ کی جھیل کا ذکر نہیں کِیا گیا۔ تو کیا اِس کا مطلب ہے کہ اِن لوگوں کو دوبارہ زندہ کِیا جائے گا؟ بائبل میں کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ اُن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا جنہیں یہوواہ کا مقررکردہ منصف اُس وقت ہلاک کرے گا۔ یسوع مسیح نے کہا کہ وہ تمام لوگ جو ”بھیڑوں“ کی طرح نہیں ہیں، ’اُس ابدی آگ میں جائیں گے جو اِبلیس اور اُس کے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی ہے‘ اور جس کا مطلب ”ہمیشہ کی موت“ ہے۔ (متی 25:33، 41، 46) اِس واقعے سے اُس دن کا اِختتام ہوگا جس پر ”عدالت کی جائے گی اور بُرے لوگوں کو تباہ کِیا جائے گا۔“—2-پطرس 3:7؛ ناحوم 1:2، 7-9؛ ملاکی 4:1۔
سنہری باتوں کی تلاش
(مکاشفہ 17:8) جو وحشی درندہ آپ نے دیکھا، وہ پہلے تھا، اب نہیں ہے لیکن وہ اتھاہ گڑھے سے نکلنے والا ہے اور ہلاک ہونے والا ہے۔ اور جب زمین کے باشندے یعنی وہ لوگ جن کے نام تب سے زندگی کی کتاب میں نہیں لکھے گئے جب سے دُنیا کی بنیاد ڈالی گئی، یہ دیکھیں گے کہ وحشی درندہ پہلے تھا، اب نہیں ہے لیکن دوبارہ موجود ہوگا تو وہ حیران ہوں گے۔
آرای ص. 247، 248 پ. 5، 6
ایک راز سے پردہ اُٹھ گیا
”وحشی درندہ . . . پہلے تھا۔“ یہ وحشی درندہ 10 جنوری 1920ء سے انجمنِاقوام (لیگ آف نیشنز) کے نام سے موجود تھا اور 63 ممالک کسی نہ کسی وقت پر اِس کے رُکن تھے۔ لیکن پھر جرمنی، جاپان اور اِٹلی اِس تنظیم سے نکل گئے اور سابقہ سویت یونین کو اِس سے نکال دیا گیا۔ ستمبر 1939ء میں جرمنی کے نازی آمر نے دوسری عالمی جنگ چھیڑ دی۔ چونکہ انجمنِاقوام دُنیا میں امن برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی اِس لیے اِسے ایک لحاظ سے اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ اور 1942ء تک یہ ختم ہو گئی۔ یہوواہ نے اِس سے پہلے یا بعد میں نہیں بلکہ عین وقت پر اپنے بندوں کو اِس رُویا کا مطلب سمجھایا۔ اِجتماع ”نیو ورلڈ تھیوکریٹک اسمبلی“ پر بھائی نار اِس پیشگوئی کی بِنا پر یہ کہہ سکتے تھے کہ ”وحشی درندہ . . . اب نہیں ہے۔“ اِس کے بعد اُنہوں نے یہ سوال پوچھا کہ ”کیا یہ انجمن اتھاہ گڑھے میں ہی رہے گی؟“ اُنہوں نے مکاشفہ 17:8 سے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ”دُنیا کی قوموں کا آپس کا اِتحاد ایک بار پھر قائم ہوگا۔“ اور بالکل ایسا ہی ہوا جس سے یہوواہ کے مُنہ کی بات سچ ثابت ہوئی۔
وحشی درندہ اتھاہ گڑھے سے باہر آ گیا
گہرے سُرخ رنگ کا وحشی درندہ واقعی اتھاہ گڑھے سے باہر آ گیا۔ 26 جون 1945ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے شہر سانفرانسسکو میں 50 ملکوں نے اقوامِمتحدہ کے منشور کو قبول کِیا۔ اِس تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ ”بینالاقوامی امن اور سلامتی کو قائم رکھا جائے۔“ انجمنِاقوام اور اقوامِمتحدہ میں بہت سی باتیں ملتی جلتی تھیں۔ ”دی ورلڈ بک اِنسائیکلوپیڈیا“ میں بتایا گیا: ”اقوامِمتحدہ کچھ لحاظ سے انجمنِاقوام جیسی ہے جسے پہلی عالمی جنگ کے بعد قائم کِیا گیا۔ . . . اقوامِمتحدہ کی بنیاد ڈالنے والی بہت سی قوموں نے انجمنِاقوام کو بھی تشکیل دیا تھا۔ انجمنِاقوام کی طرح اقوامِمتحدہ کو بھی قوموں کے درمیان امن برقرار رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اقوامِمتحدہ کی مرکزی کمیٹیاں بڑی حد تک انجمنِاقوام جیسی ہیں۔“ لہٰذا اقوامِمتحدہ کے قیام سے دراصل گہرے سُرخ رنگ کے وحشی درندے کی واپسی ہوئی۔ اِس کے رُکن ممالک کی تعداد تقریباً 190 ہے جو کہ انجمنِاقوام کے رُکن ممالک سے کہیں زیادہ ہے جن کی تعداد 63 تھی۔ اِس کے علاوہ اقوامِمتحدہ نے انجمنِاقوام سے زیادہ ذمےداریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔
(مکاشفہ 17:16، 17) اور وحشی درندہ اور وہ دس سینگ جو آپ نے دیکھے، فاحشہ سے نفرت کریں گے اور اُسے برباد اور ننگا کریں گے اور اُس کا گوشت کھائیں گے اور اُسے آگ میں جلا کر راکھ کر دیں گے۔ 17 کیونکہ خدا اُن کے دل میں یہ خیال ڈالے گا کہ وہ اُس کا اِرادہ جو اُن کا اپنا اِرادہ بھی ہے، پورا کرنے کے لیے اپنی بادشاہت اُس وقت تک وحشی درندے کے سپرد کریں جب تک خدا کی باتیں پوری نہ ہو جائیں۔
یہوواہ خدا وہ باتیں ظاہر کرتا ہے ”جن کا جلد ہونا ضرور ہے“
جھوٹے مذہب پر آہستہآہستہ زوال نہیں آئے گا۔ یہ کسبی حکمرانوں کو اُس وقت تک اپنی اُنگلیوں پر نچاتی رہے گی جب تک خدا حکمرانوں کے دل میں اِسے ختم کرنے کا خیال نہیں ڈالتا۔ (مکاشفہ 17:16، 17 کو پڑھیں۔) جلد ہی یہوواہ خدا انسانی حکومتوں کو یہ ترغیب دے گا کہ وہ جھوٹے مذہب پر حملہ کریں۔ چونکہ اقوامِمتحدہ سیاسی حکومتوں کی نمائندگی کرتی ہے اِس لئے یہ جھوٹے مذہب کو ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ انسانی حکومتیں کسبی کے اختیار کو مٹی میں ملا دیں گی اور اُس کی ساری دولت کو برباد کر دیں گی۔ آج سے بیس یا تیس سال پہلے کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ مذہب زوال کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ آجکل یہ کسبی قرمزی رنگ کے حیوان پر سوار تو ہے مگر یہ گِرنے والی ہے۔ یہ آہستہآہستہ نہیں بلکہ ایک دم سے گِرے گی اور بہت ہی بُری طرح گِرے گی۔—مکا 18:7، 8، 15-19۔
30 دسمبر–5 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | مکاشفہ 20-22
”دیکھیں! مَیں سب کچھ نیا بنا رہا ہوں“
(مکاشفہ 21:1) اور مَیں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین مٹ گئے اور سمندر بھی نہیں رہا۔
آرای ص. 301 پ. 2
ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین
یوحنا کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے یہوواہ نے یسعیاہ نبی سے کہا: ”دیکھو مَیں نئے آسمان اور نئی زمین کو پیدا کرتا ہوں اور پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئیں گی۔“ (یسعیاہ 65:17؛ 66:22) اِس پیشگوئی کی پہلی تکمیل اُس وقت ہوئی جب وفادار یہودی 70 سال تک بابل میں جلاوطن رہنے کے بعد 537 قبلازمسیح میں یروشلیم لوٹے۔ اُنہوں نے یروشلیم میں ”نئے آسمان“ یعنی ایک نئے حکومتی نظام کے تحت ایک ”نئی زمین“ یعنی ایک صاف ستھرا معاشرہ قائم کِیا۔ لیکن پطرس رسول نے اِس بات کی طرف اِشارہ کِیا کہ اِس پیشگوئی کی ایک اَور تکمیل ہوگی۔ اُنہوں نے کہا: ”اُس کے وعدے کے مطابق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا اِنتظار کر رہے ہیں جہاں نیکی کا راج ہوگا۔“ (2-پطرس 3:13) اور اب یوحنا یہ ظاہر کر رہے تھے کہ اِس پیشگوئی کی تکمیل مالک کے دن کے دوران ہوگی۔ ”پہلا آسمان اور پہلی زمین“ یعنی شیطان کا نظام جس میں شیطان اور بُرے فرشتوں سے متاثرہ حکومتی نظام بھی شامل ہے، ختم ہو جائے گا۔ طوفانی ”سمندر“ یعنی بُرے اور باغی اِنسان بھی مٹ جائیں گے۔ اِس کی جگہ ’نیا آسمان اور نئی زمین‘ قائم ہوں گے یعنی خدا کی بادشاہت کے تحت زمین پر ایک نیا معاشرہ قائم ہوگا۔—مکاشفہ 20:11 پر غور کریں۔
(مکاشفہ 21:3، 4) اِس کے ساتھ ہی مَیں نے تخت سے ایک اُونچی آواز سنی جس نے کہا: ”دیکھیں! خدا کا خیمہ اِنسانوں کے درمیان ہے۔ وہ اُن کے ساتھ رہے گا اور وہ اُس کے بندے ہوں گے۔ اور خدا خود اُن کے ساتھ ہوگا۔ 4 اور وہ اُن کے سارے آنسو پونچھ دے گا اور نہ موت رہے گی، نہ ماتم، نہ رونا، نہ درد۔ جو کچھ پہلے ہوتا تھا، وہ سب ختم ہو گیا۔“
”دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں“
”[خدا] اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔“ (مکاشفہ 21:4) خدا کس قسم کے آنسوؤں کو پونچھ دے گا؟ وہ خوشی کے آنسوؤں کو یا اُن آنسوؤں کو نہیں پونچھے گا جو ہماری آنکھوں کو خشک ہونے سے بچاتے ہیں۔ دراصل وہ اُن تمام آنسوؤں کو پونچھ دے گا جو کسی تکلیف یا غم کی وجہ سے ہماری آنکھوں میں آتے ہیں۔ خدا نہ صرف ہمارے آنسوؤں کو پونچھے گا بلکہ وہ اُن دُکھوں اور مصیبتوں کو ہی مٹا دے گا جو آنسوؤں کا باعث بنتی ہیں۔
”نہ موت رہے گی۔“ (مکاشفہ 21:4) موت ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے اِنسانوں کی آنکھوں میں سب سے زیادہ آنسو آتے ہیں۔ لیکن یہوواہ خدا اپنے بندوں کو موت کی گِرفت سے آزاد کرا دے گا۔ وہ ایسا کیسے کرے گا؟ وہ موت کی اصل وجہ یعنی اُس گُناہ کو ہی مٹا دے گا جو ہمیں آدم سے ورثے میں ملا ہے۔ (رومیوں 5:12) یہوواہ خدا یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر اُن تمام اِنسانوں کو بےعیب بنا دے گا جو اُس کے وفادار رہیں گے۔ پھر وہ اِنسان کے سب سے آخری دُشمن یعنی موت کو ’نیست کر دے گا۔‘ (1-کرنتھیوں 15:26) یوں اِنسان خدا کے مقصد کے مطابق ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں گے۔
درد نہیں رہے گا۔ (مکاشفہ 21:4) کس قسم کا درد نہیں رہے گا؟ خدا ہر طرح کے جسمانی، ذہنی اور جذباتی درد کو ختم کر دے گا جو گنہگار اور عیبدار ہونے کی وجہ سے ہمیں سہنے پڑتے ہیں۔
(مکاشفہ 21:5) اور جو تخت پر بیٹھا تھا، اُس نے کہا: ”دیکھیں! مَیں سب کچھ نیا بنا رہا ہوں۔“ اُس نے یہ بھی کہا: ”اِن باتوں کو لکھ لیں کیونکہ یہ قابلِبھروسا اور سچی ہیں۔“
یہوواہ سچائی کا خدا ہے
ہمیں یہوواہ کے کلام پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ وہ اپنے قول کا پکا ہے۔ ہمارے پاس خدا پر بھروسا رکھنے کی ہر وجہ ہے۔ جب یہوواہ یہ فرماتا ہے کہ وہ ”جو خدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوؔع کی خوشخبری کو نہیں مانتے اُن سے بدلہ لے گا“ تو ہمیں اس کا یقین کرنا چاہئے۔ (2-تھسلنیکیوں 1:8) جب یہوواہ یہ کہتا ہے کہ وہ راستبازی کی تلاش کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، ایمان رکھنے والوں کو ہمیشہ کی زندگی عطا کرے گا اور دُکھدرد، آہونالہ اور موت کو ختم کرے گا تو ہمیں اُس کی باتوں کا یقین کرنا چاہئے۔ یہوواہ نے اپنے اس وعدے کو مستند قرار دینے کے لئے یوحنا رسول کو یہ ہدایت کی: ”لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔“—مکاشفہ 21:4، 5؛ امثال 15:9؛ یوحنا 3:36۔
سنہری باتوں کی تلاش
(مکاشفہ 20:5) (باقی مُردے اُس وقت تک زندہ نہیں ہوئے جب تک 1000 سال پورے نہیں ہوئے۔) یہ وہ ہیں جو سب سے پہلے زندہ ہوئے۔
آئیٹی-2 ص. 249 پ. 2
زندگی
خدا نے آدم کو جو حکم دیا تھا، اُس کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ خدا کی فرمانبرداری کریں گے تو وہ نہیں مریں گے۔ (پید 2:17) لہٰذا جب اِنسان کا آخری دُشمن یعنی موت ختم ہو جائے گی تو خدا کی فرمانبرداری کرنے والوں کے جسم میں کوئی گُناہ نہیں ہوگا جس کی وجہ سے اُن پر موت آئے۔ اُنہیں کبھی مرنا نہیں پڑے گا۔ (1-کُر 15:26) موت کو مسیح کی حکمرانی کے اِختتام پر ختم کِیا جائے گا جو کہ مکاشفہ کی کتاب کے مطابق ایک ہزار سال کی ہوگی۔ یہاں اُن لوگوں کے بارے میں جو مسیح کے ساتھ بادشاہ اور کاہن ہوں گے، کہا گیا ہے کہ ”وہ زندہ ہو گئے اور اُنہوں نے 1000 سال کے لیے مسیح کے ساتھ بادشاہوں کے طور پر حکمرانی کی۔“ ’باقی مُردے اُس وقت تک زندہ نہیں ہوں گے جب تک 1000 سال پورے نہ ہو جائیں۔‘ یہاں یقیناً اُن لوگوں کی بات ہو رہی ہے جو ہزار سال کے اِختتام پر زندہ موجود ہوں گے۔ لیکن یہ شیطان کے اتھاہ گڑھے سے رِہا کیے جانے اور اِنسانوں کو آخری بار آزمانے سے پہلے ہوگا۔ ہزار سال کے اِختتام تک زمین پر لوگ ہر لحاظ سے بےعیب ہو جائیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے آدم اور حوا گُناہ کرنے سے پہلے تھے۔ پھر اُن کی زندگی صحیح معنوں میں گُناہ سے پاک ہوگی۔ وہ لوگ اِس زندگی سے ہمیشہ تک لطف اُٹھائیں گے جو اُس وقت اِمتحان میں پورا اُتریں گے جب شیطان کو تھوڑے عرصے کے لیے اتھاہ گڑھے سے رِہا کِیا جائے گا۔—مکا 20:4-10۔
(مکاشفہ 20:14، 15) اور موت اور قبر کو آگ کی جھیل میں پھینک دیا گیا۔ آگ کی جھیل کا مطلب دوسری موت ہے۔ 15 اور جس کسی کا نام زندگی کی کتاب میں نہیں لکھا تھا، اُسے آگ کی جھیل میں پھینکا گیا۔
آئیٹی-2 ص. 189، 190
آگ کی جھیل
یہ اِصطلاح صرف مکاشفہ کی کتاب میں اِستعمال ہوئی ہے اور اِس کے مجازی معنی ہیں۔ بائبل میں اِس اِصطلاح کی وضاحت یوں کی گئی ہے: ”آگ کی جھیل کا مطلب دوسری موت ہے۔“—مکا 20:14؛ 21:8۔
یہ بات کہ آگ کی جھیل کا ذکر مجازی معنوں میں ہوا ہے، مکاشفہ کی کتاب کے دوسرے حوالوں کے سیاقوسباق سے بھی واضح ہوتی ہے۔ موت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُسے اِس آگ کی جھیل میں پھینک دیا گیا۔ (مکا 19:20؛ 20:14) ظاہری بات ہے کہ موت حقیقی معنوں میں نہیں جل سکتی۔ اِبلیس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اُسے آگ کی جھیل میں پھینک دیا گیا۔ اِبلیس ایک روحانی ہستی ہے اِس لیے اُسے بھی حقیقی آگ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔—مکا 20:10؛ خروج 3:2؛ قضاۃ 13:20 پر بھی غور کریں۔
آگ کی جھیل ”دوسری موت“ کی طرف اِشارہ کرتی ہے اور مکاشفہ 20:14 میں کہا گیا ہے کہ ”موت اور قبر“ کو اِس میں پھینک دیا گیا۔ اِس لیے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ جھیل اُس موت کی طرف اِشارہ نہیں کرتی جو اِنسانوں کو آدم سے ورثے میں ملی ہے (روم 5:12) اور نہ ہی یہ قبر کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ لہٰذا یہ کسی اَور قسم کی موت کی علامت ہے جس کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ناممکن ہے۔ صحیفوں میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ ”جھیل“ اپنے اندر موجود مُردوں کو رِہا کرتی ہے جبکہ آدم سے ملنے والی موت اور قبر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مُردوں کو رِہا کرتی ہیں۔ (مکا 20:13) خدا کی حکمرانی کے مخالفوں کو جن کے نام ”زندگی کی کتاب“ میں نہیں ہوں گے، آگ کی جھیل میں پھینکا جائے گا یعنی دوسری موت دی جائے گی۔ اِس کا مطلب ہے کہ اُنہیں ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دیا جائے گا۔—مکا 20:15۔