خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے ”ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں“
”تیری شریعت سے محبت رکھنے والے مطمئن ہیں۔ اُن کے لئے ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں۔“ —زبور ۱۱۹:۱۶۵۔
۱. میری ڈیکر نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لینا نہیں چھوڑیں گی؟
چودہ پندرہ سال کی عمر سے ہی میری ڈیکر نامی لڑکی تیز دوڑنے کی وجہ سے بہت مشہور تھی۔ سن ۱۹۸۴ء میں جب المپکس کھیلیں ہوئیں تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ عورتوں کی ۳۰۰۰ میٹر کی دوڑ میں میری ڈیکر ہی جیتیں گی اور سونے کا تمغہ حاصل کریں گی۔ لیکن وہ یہ دوڑ جیت نہ سکیں۔ دوڑ کے دوران اُن کا پاؤں ایک اَور لڑکی کی ٹانگ سے ٹکرا گیا اور وہ نیچے گِر پڑیں۔ اُنہیں چوٹ آئی اور وہ بُری طرح رونے لگیں۔ پھر انتظامیہ کے کچھ لوگ اُنہیں دوڑ کے میدان سے باہر لے گئے۔ اِس کے باوجود میری ڈیکر ہمت نہ ہاریں۔ ایک سال کے اندر ہی اُنہوں نے عورتوں کی ایک میل کی دوڑ سب سے کم وقت میں جیت کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کِیا۔
۲. سچے مسیحی کس قسم کی دوڑ میں شامل ہیں؟ اور ہمیں کیا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؟
۲ مجازی معنوں میں ہم بھی ایک دوڑ میں دوڑ رہے ہیں۔ ہمیں یہ دوڑ جیتنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ ہماری دوڑ چھوٹے فاصلے کی دوڑ نہیں جسے جیتنے کے لئے تیزرفتاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جاگنگ کی طرح بھی نہیں جس میں لوگ آہستہآہستہ دوڑتے ہیں اور کچھ تو اکثر رُک بھی جاتے ہیں۔ ہماری دوڑ کو ایک لمبی دوڑ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جسے میراتھن کہتے ہیں۔ اِسے جیتنے کے لئے مسلسل دوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب پولس رسول نے کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں کو خط لکھا تو اُنہوں نے دوڑ میں حصہ لینے والے شخص کی مثال استعمال کی۔ کُرنتھس کے مسیحی اِس مثال کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے کیونکہ یہ شہر دوڑ کے مقابلوں کے لئے مشہور تھا۔ پولس رسول نے لکھا: ”کیا تُم نہیں جانتے کہ دوڑ میں دوڑنے والے دوڑتے تو سب ہی ہیں مگر اِنعام ایک ہی لے جاتا ہے؟ تُم بھی ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو۔“—۱-کر ۹:۲۴۔
۳. ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں انعام کسے ملے گا؟
۳ بائبل میں ہماری حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ ہم اِس دوڑ میں شامل ہوں۔ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۵-۲۷ کو پڑھیں۔) ممسوح مسیحیوں کو یہ دوڑ مکمل کرنے پر آسمان پر ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور باقی لوگ جو اِسے مکمل کریں گے، اُنہیں زمین پر ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ عام طور پر دوڑ میں حصہ لینے والے تمام لوگوں کو انعام نہیں ملتا۔ لیکن جس دوڑ میں ہم دوڑ رہے ہیں، اُس میں ہر اُس شخص کو انعام ملے گا جو اِسے پورا کرے گا۔ (متی ۲۴:۱۳) صرف وہ لوگ ہاریں گے جو دوڑ کے اصول توڑیں گے یا پھر اِسے ادھورا چھوڑ دیں گے۔ اِس کے علاوہ یہ واحد دوڑ ہے جسے مکمل کرنے پر ہمیشہ کی زندگی کا انعام ملے گا۔
۴. ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو پورا کرنا مشکل کیوں ہے؟
۴ اِس دوڑ کو پورا کرنا آسان نہیں ہے۔ ہمیشہ کی زندگی کا انعام پانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اِس دوڑ کو مکمل کرنے کا پکا اِرادہ کریں اور اپنی خواہشوں اور خیالوں کو قابو میں رکھیں۔ آج تک صرف ایک ہی ہستی نے بغیر ٹھوکر کھائے یہ دوڑ مکمل کی ہے اور وہ ہستی یسوع مسیح ہیں۔ لیکن یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا تھا کہ ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں“ یعنی ٹھوکر کھاتے ہیں اور گِر جاتے ہیں۔ (یعقو ۳:۲) یہ بات سولہ آنے سچ ہے۔ شاید ہم اپنی یا دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائیں، لڑکھڑائیں اور دوڑ میں سُست ہو جائیں یہاں تک کہ گِر بھی پڑیں۔ لیکن ہم اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی دوڑ جاری رکھتے ہیں۔ ہمارے کچھ بہنبھائی تو اِتنی بُری طرح گِرے تھے کہ اُنہیں اُٹھنے کے لئے مدد کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنی دوڑ جاری رکھ سکیں۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ ایک مسیحی ایک بار یا پھر باربار ٹھوکر کھائے اور گِر پڑے۔—۱-سلا ۸:۴۶۔
اگر آپ گِر پڑیں تو مدد قبول کریں اور اُٹھ کھڑے ہوں۔
ٹھوکر لگ بھی جائے تو دوڑنا جاری رکھیں
۵، ۶. (الف) کس لحاظ سے ایک مسیحی کے لئے ”ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع“ نہیں؟ (ب) اگر ایک مسیحی کو ٹھوکر لگ بھی جائے تو وہ اُٹھ کھڑا ہونے کے قابل کیسے ہوتا ہے؟ (ج) بعض مسیحی کیوں سنبھل نہیں پاتے؟
۵ ٹھوکر کھانے یا گِرنے کی صورت میں ہم جیسا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں۔ بعض بہنبھائی ٹھوکر کھاتے ہیں یا گِر پڑتے ہیں لیکن وہ اپنے گُناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور خدا کی خدمت کرنا جاری رکھتے ہیں۔ مگر بعض بہنبھائی توبہ نہیں کرتے۔ امثال ۲۴:۱۶ میں لکھا ہے: ”صادق سات بار گِرتا ہے اور پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن شریر بلا میں گِر کر پڑا ہی رہتا ہے۔“
۶ اگر ہمیں ٹھوکر لگ بھی جائے تو بھی ہم سنبھلنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں تو وہ مشکل وقت میں ہمیں سہارا دیتا ہے یا جب ہم سے کوئی گُناہ ہوتا ہے تو وہ ”اُٹھ کھڑا“ ہونے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہ کتنی تسلی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کی مدد کرنے کو تیار ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن شریر لوگ اپنے گُناہوں سے نکلنا نہیں چاہتے۔ وہ روحُالقدس کی رہنمائی اور خدا کے بندوں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر کوئی اُن کی مدد کرنے کو ہاتھ بڑھائے بھی تو وہ اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیتے ہیں۔ اِس کے برعکس یہوواہ خدا کی ’شریعت سے محبت رکھنے والوں کے لئے ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں۔‘ اگر ہم زندگی کی دوڑ میں دوڑتے ہوئے گِر بھی جائیں تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اِس دوڑ سے ہمیشہ کے لئے خارج ہو گئے ہیں بلکہ ہم پھر سے اِس دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔—زبور ۱۱۹:۱۶۵ کو پڑھیں۔
۷، ۸. یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسیحی ٹھوکر کھانے کے باوجود خدا کی قربت سے محروم نہ ہو؟
۷ ہمارے کچھ بہنبھائی اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُن سے یہ غلطی باربار ہو۔ لیکن اگر وہ ’اُٹھ کھڑے‘ ہوتے ہیں یعنی دل سے توبہ کرتے ہیں اور دوبارہ وفاداری سے خدا کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خدا کی قربت سے محروم نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر بنیاسرائیل نے بھی باربار غلطیاں کی تھیں مگر جب وہ توبہ کرتے تھے تو یہوواہ خدا اُنہیں معاف کر دیتا تھا۔ (یسع ۴۱:۹، ۱۰) امثال ۲۴:۱۶ جس کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے، اِس بات پر زور نہیں دیتی کہ ہم اکثر گِرتے ہیں بلکہ اِس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم اپنے رحمدل خدا کی مدد سے دوبارہ ”اُٹھ“ سکتے ہیں۔ (یسعیاہ ۵۵:۷ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو ہم پر اعتماد ہے کہ ہم زندگی کی دوڑ سے خارج ہونا نہیں چاہتے۔ اِس لئے وہ ہمیں حوصلہ دیتے ہیں کہ ہم ’اُٹھ کھڑے‘ ہوں۔—زبور ۸۶:۵؛ یوح ۵:۱۹۔
۸ میراتھن دوڑ میں اگر کسی کو ٹھوکر لگ جائے یا وہ گِر پڑے تو پھر بھی وہ دوڑ مکمل کر سکتا ہے۔ مگر اِس کے لئے ضروری ہے کہ وہ فوراً سنبھلے، اُٹھ کھڑا ہو اور دوڑ جاری رکھے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کب ختم ہوگی۔ (متی ۲۴:۳۶) لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اِس دوڑ میں ہم جتنا کم ٹھوکر کھائیں گے اُتنا ہی اِس بات کا امکان ہوگا کہ ہم سُست نہیں پڑیں گے اور اِسے مکمل کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ ہم ٹھوکر کھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
ٹھوکر کا باعث بننے والی کچھ وجوہات
۹. ہم کونسی وجوہات پر غور کریں گے جو کسی کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث بن سکتی ہیں؟
۹ بعض بہنبھائی کیوں ٹھوکر کھاتے ہیں؟ اِس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کہ اُن کی ذاتی کمزوریاں، اُن کی جسمانی خواہشیں، کلیسیا میں اُن کے ساتھ ہونے والی ناانصافی، مصیبت یا ظلم اور کلیسیا کے بہنبھائیوں کی غلطیاں۔ اگر ہمیں کسی وجہ سے ٹھوکر لگتی ہے تو یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا بہت مہربان اور صابر ہے۔ وہ فوراً اپنے کسی خادم کے ماتھے پر بےوفا ہونے کی مہر نہیں لگا دیتا۔
۱۰، ۱۱. بادشاہ داؤد نے اپنی کس کمزوری کی وجہ سے ٹھوکر کھائی؟
۱۰ کسی بھائی یا بہن کی ذاتی کمزوریاں اُس کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایسی کمزوریوں کو دوڑ کے ٹریک سے اُکھڑے ہوئے پتھروں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ آئیں، اِس سلسلے میں ہم بادشاہ داؤد اور پطرس رسول کی زندگی کے کچھ واقعات کا جائزہ لیں۔ اُن میں بھی ایسی کمزوریاں تھیں جو اُن کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث بنیں۔ داؤد بعض اوقات اپنے جذبات اور غصے کو قابو میں نہ رکھ پائے اور پطرس رسول انسانوں کے ڈر کا شکار ہوئے۔
۱۱ ایک موقعے پر بادشاہ داؤد اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے اور بتسبع کے ساتھ زنا کر بیٹھے۔ اور جب نابال نے داؤد کی توہین کی تو وہ غصے میں آکر اُن پر حملہ کرنے کو تیار ہو گئے۔ اگرچہ داؤد بعض اوقات اپنے جذبات اور غصے پر قابو رکھنے میں ناکام ہو گئے پھر بھی وہ ہمت نہ ہارے اور یہوواہ خدا کی مرضی پر چلنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ دوسروں کے مشورے اور رہنمائی کو قبول کرنے سے ’اُٹھ کھڑے‘ ہوئے۔—۱-سمو ۲۵:۵-۱۳، ۳۲، ۳۳؛ ۲-سمو ۱۲:۱-۱۳۔
۱۲. پطرس رسول ٹھوکر کھانے کے باوجود زندگی کی دوڑ میں آگے کیوں بڑھتے رہے؟
۱۲ پطرس رسول نے بھی کچھ موقعوں پر انسانوں سے ڈرنے کی وجہ سے ٹھوکر کھائی۔ پھر بھی وہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے وفادار رہے۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے یسوع مسیح کا ایک بار نہیں بلکہ تین بار انکار کِیا۔ (لو ۲۲:۵۴-۶۲) اِس کے بعد ایک اَور موقعے پر پطرس رسول انسان کے ڈر کا شکار ہو گئے۔ اُنہوں نے غیریہودی مسیحیوں کے ساتھ اُٹھنابیٹھنا چھوڑ دیا کیونکہ اُنہیں ڈر تھا کہ یہودی مسیحیوں کو یہ بات بُری لگے گی۔ لیکن پطرس رسول کی یہ حرکت بالکل غلط تھی کیونکہ کلیسیا میں سب برابر ہیں۔ لہٰذا اِس سے پہلے کہ کلیسیا میں پھوٹ پڑتی، پولس رسول نے پطرس رسول کے ”روبرو ہو کر“ اُن کی اصلاح کی۔ (گل ۲:۱۱-۱۴) کیا پطرس رسول کی اَنا کو اِتنی ٹھیس پہنچی تھی کہ وہ زندگی کی دوڑ سے ہی نکل گئے تھے؟ جینہیں۔ اُنہوں نے پولس رسول کی اصلاح قبول کی اور زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتے گئے۔
۱۳. اپنی صحت کی حد سے زیادہ فکر کرنا ایک مسیحی کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟
۱۳ کبھیکبھار اپنی صحت کی حد سے زیادہ فکر کرنا ہماری کمزوری بن جاتا ہے اور ہم ٹھوکر کھانے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ہم شاید خدا کی خدمت میں پہلے جتنا وقت صرف نہ کریں یہاں تک کہ ہم زندگی کی دوڑ میں لڑکھڑا جائیں یا پھر دوڑنا ہی چھوڑ دیں۔ اِس سلسلے میں ایک بہن کی مثال پر غور کریں جو جاپان میں رہتی ہے۔ وہ اپنے بپتسمے کے ۱۷ سال بعد ایک بیماری میں مبتلا ہو گئی۔ وہ اپنی صحت کے بارے میں اِتنا زیادہ پریشان رہنے لگی کہ رفتہرفتہ کلیسیا سے دُور ہو گئی اور آخرکار اجلاسوں میں جانا اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا بالکل چھوڑ دیا۔ دو بزرگ اُس بہن سے ملنے کے لئے گئے۔ بزرگوں کی شفقت بھری باتوں سے اِس بہن کو بڑا حوصلہ ملا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہن پھر سے اجلاسوں میں آنے لگی۔ اُس نے کہا: ”بہنبھائی مجھے اِتنے پیار سے ملے کہ میری آنکھیں بھر آئیں۔“ ہماری یہ بہن اب پھر سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہے۔
۱۴، ۱۵. مثال سے واضح کریں کہ جب غلط خواہشیں سر اُٹھاتی ہیں تو ہمیں کونسے ٹھوس قدم اُٹھانے چاہئیں۔
۱۴ ہمارے بعض بہنبھائیوں نے اپنی جسمانی خواہشوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائی ہے۔ اگر ہم اپنی جسمانی خواہشوں میں پھنسنے کے خطرے میں ہیں تو ہمیں اپنے چالچلن اور سوچ کو پاک رکھنے کے لئے ٹھوس قدم اُٹھانے چاہئیں۔ یسوع مسیح نے نصیحت کی تھی کہ ’اگر تیری آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکال کر پھینک دے اور اگر تیرا ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے کاٹ کر پھینک دے۔‘ اِس کا مطلب ہےکہ ہمیں ہر ایسے خیال اور کام کو ترک کرنا چاہئے جس کی وجہ سے ہم زندگی کی دوڑ سے خارج ہو سکتے ہیں۔—متی ۵:۲۹، ۳۰ کو پڑھیں۔
۱۵ اِس سلسلے میں ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جس نے یہوواہ کے گواہوں کے گھرانے میں پرورش پائی تھی۔ اُس نے کہا: ”مَیں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، مَیں ہمجنسپرستی کی طرف مائل ہوں۔ جب مَیں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا تو مَیں خود کو اجنبی سا سمجھتا تھا۔“ یہ بھائی ۲۰ سال کی عمر میں پہلکار اور کلیسیا میں خادم بن گیا۔ پھر وہ ایک سنگین غلطی کر بیٹھا اور بزرگوں نے اُس کی اصلاح کی۔ اُنہوں نے اُس کی مدد کی تاکہ وہ اپنی کمزوری پر قابو پا سکے۔ وہ بھائی باقاعدگی سے دُعا اور پاک کلام کا مطالعہ کرنے لگا اور دوسروں کی مدد کرنے میں مگن رہا۔ یوں وہ ”اُٹھ کھڑا“ ہوا اور زندگی کی دوڑ میں پھر سے دوڑنے لگا۔ اِس واقعے کے کئی سال بعد اُس نے کہا: ”کبھیکبھار پُرانی خواہشیں سر اُٹھاتی ہیں مگر مَیں اُنہیں خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہوواہ ہمیں کسی ایسے اِمتحان میں نہیں پڑنے دیتا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔ میرا ایمان ہے کہ خدا کو مجھ پر بھروسا ہے کہ مَیں اپنی خواہشوں پر قابو پا سکتا ہوں۔“ آخر میں اِس بھائی نے کہا کہ ”نئی دُنیا میں مجھے میری تمام کوششوں کا صلہ مل جائے گا۔ تب تک مَیں اپنی کمزوریوں کے خلاف لڑتا رہوں گا۔“ اِس بھائی نے ٹھان لیا ہے کہ اب وہ کسی بھی صورت میں زندگی کی دوڑ سے باہر نہیں نکلے گا۔
۱۶، ۱۷. (الف) ایک بھائی جسے لگتا تھا کہ اُس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، وہ زندگی کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہونے کے قابل کیسے ہوا؟ (ب) ہمیں کونسی بات یاد رکھنی چاہئے تاکہ ہم ٹھوکر نہ کھائیں؟
۱۶ جب کلیسیا کے بہنبھائی ہمارے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں تو ہمیں ٹھوکر لگ سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں فرانس کے ملک سے ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جو پہلے بزرگ تھا۔ اُسے لگا کہ اُس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ وہ اِس قدر خفا ہوا کہ اُس نے اجلاسوں میں جانا اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا چھوڑ دیا۔ دو بزرگ اُسے ملنے کے لئے گئے اور اُس نے اُنہیں بتایا کہ اُس کے خیال میں اُس کے ساتھ بڑی ناانصافی کی گئی ہے۔ جب وہ بھائی بول رہا تھا تو بزرگوں نے اُسے بیچ میں ٹوکنے کی بجائے بڑے صبر سے اُس کی بات سنی۔ بزرگوں نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ اپنا بوجھ یہوواہ خدا پر ڈال دے۔ اُنہوں نے اُسے یاد دِلایا کہ اُسے اِس مسئلے کی بجائے یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے پر زیادہ دھیان دینا چاہئے۔ اُس بھائی نے بزرگوں کی نصیحت قبول کی اور جلد ہی زندگی کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہو گیا۔ وہ پھر سے کلیسیا میں ذمہداریاں اُٹھانے کے لائق بن گیا۔
۱۷ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو کلیسیا کا سربراہ مقرر کِیا ہے۔ یسوع مسیح کی ”آنکھیں آگ کے شعلہ کی مانند“ ہیں۔ وہ کلیسیا میں ہونے والے ہر کام کو ہم سے زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ (مکا ۱:۱۳-۱۶) مثال کے طور پر ہم شاید سوچیں کہ کلیسیا میں کوئی ناانصافی ہو رہی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ صرف ہماری غلطفہمی ہو یا پھر جو کچھ ہو رہا ہے، ہم اُس کی وجوہات سے واقف نہ ہوں۔ یسوع مسیح کلیسیا میں پیدا ہونے والے مسئلوں کو مناسب وقت پر اور صحیح طریقے سے حل کریں گے۔ اِس لئے ہمیں دوسروں کے کاموں اور فیصلوں کی وجہ سے ٹھوکر نہیں کھانی چاہئے۔
۱۸. ہم مصیبت کے وقت میں بھی خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟
۱۸ مصیبت یا ظلم اور کلیسیا کے بہنبھائیوں کی غلطیاں بھی ہمارے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یسوع مسیح نے بیج بونے والے کی تمثیل میں بتایا کہ بعض مسیحی اِس لئے ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنے ایمان کی وجہ سے ”مصیبت یا ظلم“ سہنا پڑتا ہے۔ ہمارے گھر والے، پڑوسی یا حکمران ہمیں اذیت کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال خاص طور پر اُن مسیحیوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتی ہے جو ”اپنے اندر جڑ نہیں“ رکھتے یعنی جن کا ایمان کمزور ہے۔ (متی ۱۳:۲۱) لیکن اگر ہم نے خدا کی قربت میں رہنے کا پکا عزم کِیا ہے تو پاک کلام کا بیج ہمارے دلوں میں بڑھے گا اور ہمارا ایمان مضبوط ہو گا۔ لہٰذا جب آپ مصیبت میں ہوں تو دُعا کریں اور اُن باتوں پر غور کریں جو پاک اور قابلِتعریف ہیں۔ (فلپیوں ۴:۶-۹ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا ہمیں مشکلات میں وفادار رہنے کی طاقت بخشے گا تاکہ ہم ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ سے نکل نہ جائیں۔
چاہے جتنی بھی رُکاوٹیں آئیں، ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ مکمل کریں۔
۱۹. اگر ہمیں کوئی ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہم ٹھوکر کھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۱۹ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے کچھ بہنبھائی کلیسیا کے دوسرے ارکان کی غلطیوں کی وجہ سے ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ سے نکل گئے ہیں۔ کچھ بہنبھائیوں کا دل یا ضمیر اُن کاموں کو گوارا نہیں کرتا جو کلیسیا کے بعض رُکن کرتے ہیں۔ اِس لئے اُنہیں ٹھوکر لگتی ہے۔ (۱-کر ۸:۱۲، ۱۳) اگر کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو کیا ہم اِتنے ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہم کلیسیا کو ہی چھوڑ دیتے ہیں؟ بائبل میں نصیحت کی گئی ہے کہ ہم دوسروں پر نکتہچینی نہ کریں، دوسروں کے قصور معاف کریں اور صرف اپنی ہی رائے پر اصرار نہ کریں۔ (لو ۶:۳۷) جب ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں کسی بھائی یا بہن کے کاموں سے ٹھوکر لگ رہی ہے تو ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”کیا مَیں اُس کے کاموں کو اِس لئے غلط سمجھتا ہوں کیونکہ وہ میری پسند کے مطابق نہیں؟“ ”کیا مجھے کسی بھائی یا بہن کی غلطی کی وجہ سے زندگی کی دوڑ ادھوری چھوڑ دینی چاہئے حالانکہ مَیں جانتا ہوں کہ ہم سب خطاکار ہیں؟“ اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں تو ہم دوسروں کے کاموں کی وجہ سے زندگی کی دوڑ سے باہر نہیں نکلیں گے۔
ٹھوکر کھانے سے بچیں اور دوڑ مکمل کریں
۲۰، ۲۱. آپ نے ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کے سلسلے میں کیا عزم کِیا ہے؟
۲۰ کیا آپ نے اپنی ”دوڑ کو ختم“ کرنے کا عزم کِیا ہے؟ (۲-تیم ۴:۷، ۸) اگر ایسا ہے تو پھر باقاعدگی سے پاک کلام کا مطالعہ کرتے رہیں۔ بائبل اور دیگر کتابوں اور رسالوں سے تحقیق کریں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کونسی باتیں آپ کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ خدا سے روحُالقدس مانگیں تاکہ آپ کو زندگی کی دوڑ جاری رکھنے کے لئے قوت ملے۔ یاد رکھیں کہ اِس دوڑ میں اگر کوئی ٹھوکر کھائے یا گِر بھی پڑے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوڑ سے خارج ہو گیا ہے۔ وہ اِس دوڑ میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے تو وہ زندگی کی دوڑ اَور بھی اچھی طرح دوڑنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
۲۱ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ جیتنے کے لئے ہمیں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم کسی بس میں بیٹھ جائیں اور اُس نشان تک پہنچ جائیں جہاں یہ دوڑ ختم ہوتی ہے۔ یہ دوڑ ہمیں خود دوڑنی ہوگی۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہوواہ خدا کا اطمینان طاقتور ہوا کی طرح ہمیں پیچھے سے دھکیلے گا اور ہمیں دوڑنے میں دقت نہیں ہوگی۔ (زبور ۱۱۹:۱۶۵) یہوواہ خدا ہمیں اب بھی برکتیں دے رہا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اپنے اُن بندوں پر برکتیں نچھاور کرے گا جو اِس دوڑ کو مکمل کریں گے۔—یعقو ۱:۱۲۔