یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • ‏”‏یہوواہ حکمت بخشتا ہے“‏
    مینارِنگہبانی—‏1999ء | 15 نومبر
    • ایک باپ کے پُرمحبت الفاظ میں، قدیم اسرائیل کا دانشمند بادشاہ سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اگر تُو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھے۔ ایسا کہ تُو حکمت کی طرف کان لگائے اور فہم سے دل لگائے بلکہ اگر تُو عقل کو پکارے اور فہم کے لئے آواز بلند کرے اور اُسکو ایسا ڈھونڈے جیسے چاندی کو اور اُسکی ایسی تلاش کرے جیسی پوشیدہ خزانوں کی تو تُو [‏یہوواہ]‏ کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو حاصل کرے گا۔“‏—‏امثال ۲:‏۱-‏۵‏۔‏

  • ‏”‏یہوواہ حکمت بخشتا ہے“‏
    مینارِنگہبانی—‏1999ء | 15 نومبر
    • حکمت پر دھیان دینے میں فہم‌وفراست حاصل کرنا شامل ہے۔ ویبسٹرز ریوائزڈ این‌ایبریجڈ ڈکشنری کے مطابق، فہم ”‏ایک ذہنی قوت یا صلاحیت ہے جس سے مختلف چیزوں میں امتیاز کِیا جاتا ہے۔“‏ خدائی فہم غلط اور درست میں امتیاز کرنے اور پھر درست روش اختیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ جبتک ہم ’‏اپنا دل‘‏ فہم پر نہیں ’‏لگاتے‘‏ یا اِسے حاصل کرنے کے خواہاں نہیں ہوتے، ہم اس ”‏راستہ“‏ پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں ”‏جو زندگی کو پہنچاتا ہے“‏؟ (‏متی ۷:‏۱۴‏؛ مقابلہ کریں استثنا ۳۰:‏۱۹، ۲۰۔)‏ خدا کے کلام کا مطالعہ اور اطلاق فہم عطا کرتا ہے۔‏

      ہم کیسے ”‏عقل کو پکار“‏ سکتے ہیں—‏جو یہ دیکھنے کی صلاحیت ہے کہ ایک موضوع کے پہلو ایک دوسرے سے اور سارے موضوع سے کیسے تعلق رکھتے ہیں؟ بِلاشُبہ عمر اور تجربہ وہ عناصر ہیں جو عقل کو فروغ دینے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں—‏لیکن ایسا ضروری نہیں ہے۔ (‏ایوب ۱۲:‏۱۲؛‏ ۳۲:‏۶-‏۱۲‏)‏ ”‏مَیں عمررسیدہ لوگوں سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوں،“‏ زبورنویس نے کہا، ”‏کیونکہ مَیں نے [‏یہوواہ]‏ تیرے قوانین کو مانا ہے۔“‏ اس نے اپنے گیت میں یہ بھی گایا:‏ ”‏تیری باتوں کی تشریح نُور بخشتی ہے۔ وہ سادہ دلوں کو عقلمند بناتی ہے۔“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۰،‏ ۱۳۰‏)‏ یہوواہ ”‏قدیم‌الایّام“‏ ہے اور وہ تمام انسانوں سے ازحد افضل دانائی رکھتا ہے۔ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳)‏ خدا نادان کو ایسی دانائی بخش سکتا ہے جو اس شخص کو اس خوبی میں عمررسیدہ اشخاص پر بھی سبقت لے جانے کے قابل بنا سکتی ہے۔ لہٰذا، ہمیں خدا کے کلام بائبل کا مطالعہ کرنے اور اس کا اطلاق کرنے میں مستعد ہونا چاہئے۔‏

      امثال کی کتاب کے دوسرے باب کے تمہیدی اقتباس میں دہرائے گئے الفاظ ”‏اگر تُو“‏ کے بعد ”‏قبول کرے،“‏ ”‏نگاہ میں رکھے،“‏ ”‏پکارے،“‏ ”‏ڈھونڈے،“‏ ”‏تلاش کرے“‏ جیسے اظہارات آتے ہیں۔ مصنف اتنے پُرجوش اظہارات کیوں استعمال کرتا ہے؟ ایک کتاب اس کی بابت کہتی ہے:‏ ”‏دانا آدمی [‏یہاں]‏ حکمت کے حصول میں خالص نیت کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔“‏ جی‌ہاں، ہمیں خالص نیت سے حکمت اور اس سے متعلقہ خوبیوں—‏فہم اور عقل—‏کی جستجو کرنی چاہئے۔‏

اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
لاگ آؤٹ
لاگ اِن
  • اُردو
  • شیئر کریں
  • ترجیحات
  • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
  • اِستعمال کی شرائط
  • رازداری کی پالیسی
  • رازداری کی سیٹنگز
  • JW.ORG
  • لاگ اِن
شیئر کریں