”یہوواہ حکمت بخشتا ہے“
آپ کا وقت اور توانائی کن حاصلات میں صرف ہو جاتے ہیں؟ کیا آپ کو ہمیشہ اپنی شہرت حاصل کرنے کی فکر رہتی ہے؟ کیا آپ اپنے آپکو دولت کے حصول کے لئے وقف کر دینا چاہتے ہیں؟ کسی مخصوص میدان میں آگے بڑھنے کے لئے محنت کرنے یا مختلف شعبہجات میں مہارت حاصل کرنے کی بابت کیا خیال ہے؟ کیا آپ کے لئے دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات پیدا کرنا اہم ہے؟ کیا تندرستوتوانا رہنا آپ کی اوّلین فکر ہے؟
مذکورہبالا تمام باتیں قدروقیمت رکھنے والی دکھائی دے سکتی ہیں۔ لیکن کیا چیز اوّلین اہمیت کی حامل ہے؟ بائبل اسکا جواب دیتی ہے: ”حکمت افضل اصل ہے۔ پس حکمت حاصل کر۔“ (امثال ۴:۷) تاہم، ہم کیسے حکمت حاصل کر سکتے ہیں اور اسکے فوائد کیا ہیں؟ امثال کی کتاب کا دوسرا باب جوابات فراہم کرتا ہے۔
”حکمت کی طرف کان لگائیں“
ایک باپ کے پُرمحبت الفاظ میں، قدیم اسرائیل کا دانشمند بادشاہ سلیمان بیان کرتا ہے: ”اَے میرے بیٹے! اگر تُو میری باتوں کو قبول کرے اور میرے فرمان کو نگاہ میں رکھے۔ ایسا کہ تُو حکمت کی طرف کان لگائے اور فہم سے دل لگائے بلکہ اگر تُو عقل کو پکارے اور فہم کے لئے آواز بلند کرے اور اُسکو ایسا ڈھونڈے جیسے چاندی کو اور اُسکی ایسی تلاش کرے جیسی پوشیدہ خزانوں کی تو تُو [یہوواہ] کے خوف کو سمجھے گا اور خدا کی معرفت کو حاصل کرے گا۔“—امثال ۲:۱-۵۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکمت حاصل کرنے کی ذمہداری کس پر ہے؟ ان آیات میں ”اگر تُو“ کے اظہار کو استعمال کیا گیا ہے۔ واضح طور پر، حکمت اور اس کے لوازمات—فہم اور عقل—کی تلاش کرنا ہم میں سے ہر ایک کی ذاتی ذمہداری ہے۔ تاہم، سب سے پہلے، ہمیں صحائف میں درج حکمت کی باتوں کو اپنے ذہن میں ”قبول“ کرنے اور انہیں ”نگاہ“ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
حکمت خداداد علم کو مناسب طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت ہے۔ نیز، بائبل کسقدر شاندار طریقے سے حکمت دستیاب رکھتی ہے! مزیدبرآں، اس میں امثال اور واعظ کی کتابوں کی طرح، حکمت کی باتیں پائی جاتی ہیں اور ہمیں ان باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ بائبل میں ہم بہت سی مثالیں بھی پاتے ہیں جو خدائی اُصولوں کا اطلاق کرنے کے فوائد اور انہیں نظرانداز کرنے کے خطرات کو ظاہر کرتی ہیں۔ (رومیوں ۱۵:۴؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱) مثال کے طور پر، الیشع نبی کے خادم، لالچی جیحازی کی سرگزشت پر غور کریں۔ (۲-سلاطین ۵:۲۰-۲۷) کیا یہ ہمیں لالچ سے بچنے کی حکمت نہیں سکھاتی؟ اِسی طرح کنعان کے ”مُلک کی لڑکیوں“ سے یعقوب کی بیٹی دینہ کی بظاہر بےضرر دکھائی دینے والی ملاقاتوں کے المناک نتائج کی بابت کیا ہے؟ (پیدایش ۳۴:۱-۳۱) کیا ہم بُری صحبتوں کی حماقت کو فوراً بھانپ نہیں لیتے؟—امثال ۱۳:۲۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳۔
حکمت پر دھیان دینے میں فہموفراست حاصل کرنا شامل ہے۔ ویبسٹرز ریوائزڈ اینایبریجڈ ڈکشنری کے مطابق، فہم ”ایک ذہنی قوت یا صلاحیت ہے جس سے مختلف چیزوں میں امتیاز کِیا جاتا ہے۔“ خدائی فہم غلط اور درست میں امتیاز کرنے اور پھر درست روش اختیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ جبتک ہم ’اپنا دل‘ فہم پر نہیں ’لگاتے‘ یا اِسے حاصل کرنے کے خواہاں نہیں ہوتے، ہم اس ”راستہ“ پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں ”جو زندگی کو پہنچاتا ہے“؟ (متی ۷:۱۴؛ مقابلہ کریں استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰۔) خدا کے کلام کا مطالعہ اور اطلاق فہم عطا کرتا ہے۔
ہم کیسے ”عقل کو پکار“ سکتے ہیں—جو یہ دیکھنے کی صلاحیت ہے کہ ایک موضوع کے پہلو ایک دوسرے سے اور سارے موضوع سے کیسے تعلق رکھتے ہیں؟ بِلاشُبہ عمر اور تجربہ وہ عناصر ہیں جو عقل کو فروغ دینے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں—لیکن ایسا ضروری نہیں ہے۔ (ایوب ۱۲:۱۲؛ ۳۲:۶-۱۲) ”مَیں عمررسیدہ لوگوں سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوں،“ زبورنویس نے کہا، ”کیونکہ مَیں نے [یہوواہ] تیرے قوانین کو مانا ہے۔“ اس نے اپنے گیت میں یہ بھی گایا: ”تیری باتوں کی تشریح نُور بخشتی ہے۔ وہ سادہ دلوں کو عقلمند بناتی ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۱۰۰، ۱۳۰) یہوواہ ”قدیمالایّام“ ہے اور وہ تمام انسانوں سے ازحد افضل دانائی رکھتا ہے۔ (دانیایل ۷:۱۳) خدا نادان کو ایسی دانائی بخش سکتا ہے جو اس شخص کو اس خوبی میں عمررسیدہ اشخاص پر بھی سبقت لے جانے کے قابل بنا سکتی ہے۔ لہٰذا، ہمیں خدا کے کلام بائبل کا مطالعہ کرنے اور اس کا اطلاق کرنے میں مستعد ہونا چاہئے۔
امثال کی کتاب کے دوسرے باب کے تمہیدی اقتباس میں دہرائے گئے الفاظ ”اگر تُو“ کے بعد ”قبول کرے،“ ”نگاہ میں رکھے،“ ”پکارے،“ ”ڈھونڈے،“ ”تلاش کرے“ جیسے اظہارات آتے ہیں۔ مصنف اتنے پُرجوش اظہارات کیوں استعمال کرتا ہے؟ ایک کتاب اس کی بابت کہتی ہے: ”دانا آدمی [یہاں] حکمت کے حصول میں خالص نیت کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔“ جیہاں، ہمیں خالص نیت سے حکمت اور اس سے متعلقہ خوبیوں—فہم اور عقل—کی جستجو کرنی چاہئے۔
کیا آپ کوشش کریں گے؟
حکمت کے حصول میں سب سے نمایاں پہلو بائبل کا مستعد مطالعہ ہے۔ تاہم، یہ مطالعہ محض معلومات حاصل کرنے کے لئے پڑھائی کرنے سے زیادہ ہونا چاہئے۔ ہم جو کچھ پڑھتے ہیں اس پر بامقصد غوروخوض صحائف کا مطالعہ کرنے کا لازمی جزو ہے۔ حکمت اور فہم حاصل کرنے میں اس بات پر غور کرنا شامل ہے کہ جو کچھ ہم سیکھ رہے ہیں اُسے ہم مسائل حل کرنے اور فیصلے کرنے میں کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ عقل حاصل کرنا اس بات پر سوچبچار کرنے کا تقاضا کرتا ہے کہ جو کچھ ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں، اُس کے ساتھ نیا مواد کیسے تعلق رکھتا ہے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بائبل کا بغور مطالعہ وقت اور انتہائی کوشش کا تقاضا کرتا ہے؟ وقت اور کوشش کی سرمایہکاری بالکل ’چاندی کو ڈھونڈنے اور پوشیدہ خزانوں کی تلاش کرنے‘ کے لئے کی جانے والی سرمایہکاری کے مترادف ہے۔ کیا آپ ضروری کوشش کریں گے؟ کیا آپ ایسا کرنے کے لئے ’وقت نکالیں‘ گے؟—افسیوں ۵:۱۵، ۱۶۔
ذرا سوچیں کہ اگر ہم خلوصدلی کے ساتھ بائبل کی گہری تحقیق کرتے ہیں تو آئندہ ہمیں کیا ہی بڑے خزانے حاصل ہونگے۔ بیشک، ہم ”خدا کی معرفت“—اپنے خالق کا عمیق اور مستحکم، زندگیبخش علم—حاصل کریں گے! (یوحنا ۱۷:۳) ”[یہوواہ] کا خوف“ بھی ایک خزانہ ہے جسے حاصل کِیا جانے چاہئے۔ اس کا مؤدبانہ خوف کتنا بیشقیمت ہے! اُسے ناراض نہ کرنے کے خوشگوار ڈر کو ہمارے ہر فعل میں روحانی اہمیت کا اضافہ کرتے ہوئے ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہونا چاہئے۔—واعظ ۱۲:۱۳۔
ہمارے اندر روحانی خزانوں کی تلاش اور کھدائی کیلئے شدید خواہش ہونی چاہئے۔ ہماری تحقیق کو سہل بنانے کیلئے، یہوواہ نے کھدائی کرنے کے شاندار اوزار—سچائی کے برمحل جرائد مینارِنگہبانی اور جاگو! کے ساتھ ہی ساتھ بائبل پر مبنی دیگر مطبوعات—فراہم کئے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) اپنے کلام اور راہوں کے مطابق ہماری تعلیموتربیت کے لئے یہوواہ نے مسیحی اجلاس فراہم کئے ہیں۔ ہمیں ان پر باقاعدگی سے حاضر ہونے، زیرِبحث آنے والی باتوں کو غور سے سننے، کلیدی نکات کو نگاہ میں رکھنے کی مخلصانہ کوشش کرنے اور یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے پر گہری سوچبچار کرنے کی ضرورت ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
آپ ناکام نہیں ہونگے
اکثراوقات، مدفون موتیوں، سونے یا چاندی کی تلاش بیکار ثابت ہوتی ہے۔ روحانی خزانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ کیوں نہیں؟ ”یہوواہ حکمت بخشتا ہے،“ سلیمان ہمیں یقیندہانی کراتا ہے، ”علموفہم اُسی کے مُنہ سے نکلتے ہیں۔“—امثال ۲:۶۔
سلیمان بادشاہ اپنی حکمت کے لئے مشہور تھا۔ (۱-سلاطین ۴:۳۰-۳۲) صحائف آشکارا کرتے ہیں کہ وہ مختلف موضوعات کی بابت علم رکھتا تھا جس میں پودے، جانور، انسانی فطرت اور خدا کا کلام شامل تھا۔ ایک ہی بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کرنے والی دو عورتوں کے درمیان جھگڑا نپٹانے میں ایک نوجوان بادشاہ کے طور پر جس فہم کا اس نے مظاہرہ کِیا اس نے بینالاقوامی شہرت حاصل کرنے میں اس کی مدد کی۔ (۱-سلاطین ۳:۱۶-۲۸) اس عظیم علمیت کا ماخذ کیا تھا؟ سلیمان نے ”حکمتومعرفت“ اور ”بُرے اور بھلے میں امتیاز“ کرنے کی صلاحیت کے لئے یہوواہ سے دُعا کی تھی۔ یہوواہ نے اسے یہ لیاقتیں عنایت کیں۔—۲-تواریخ ۱:۱۰-۱۲؛ ۱-سلاطین ۳:۹۔
جب ہم یہواہ کے کلام کا مستعدی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بھی دُعا کرنی چاہئے۔ زبورنویس نے دُعا کی: ”اَے [یہوواہ!] مجھکو اپنی راہ کی تعلیم دے۔ مَیں تیری راستی میں چلونگا۔ میرے دل کو یکسوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں۔“ (زبور ۸۶:۱۱) یہوواہ نے اس دُعا کو قبول کِیا اِسی لئے اس نے اسے بائبل میں ریکارڈ کرا دیا ہے۔ ہم بھی اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ بائبل میں پائے جانے والے روحانی خزانے تلاش کرنے میں اُس کی مدد حاصل کرنے کے لئے ہماری دلی اور مسلسل دُعاؤں کا جواب ضرور ملے گا۔—لوقا ۱۸:۱-۸۔
سلیمان اسکی نشاندہی اِن الفاظ میں کرتا ہے: ”وہ راستبازوں کیلئے مدد [”عملی حکمت،“ اینڈبلیو] تیار رکھتا ہے اور راسترو کے لئے سپر ہے۔ تاکہ وہ عدل کی راہوں کی نگہبانی کرے اور اپنے مُقدسوں کی راہ کو محفوظ رکھے۔ تب تُو صداقت اور عدل اور راستی کو بلکہ ہر ایک اچھی راہ کو سمجھے گا۔“ (امثال ۲:۷-۹) یہ کیا ہی شاندار یقیندہانی ہے! یہوواہ نہ صرف مخلصانہ طور پر تلاش کرنے والوں کو حقیقی حکمت دیتا ہے بلکہ راسترو اشخاص کے لئے تحفظ فراہم کرنے والی ایک سپر بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ حقیقی حکمت ظاہر کرتے اور وفاداری سے اس کے راست معیاروں کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ دُعا ہے کہ ہم بھی ان اشخاص کے درمیان ہوں جن کی یہوواہ ”ہر ایک اچھی راہ کو سمجھنے“ میں مدد کرتا ہے۔
جب ”علم . . . مرغوب ہوگا“
بائبل کا ذاتی مطالعہ—حکمت کی تلاش کرنے کے لئے لازمی تقاضا ہے—جو کہ بیشتر لوگوں کے لئے ضروری طور پر خوشگوار امکان نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، ۵۸سالہ لارنس بیان کرتا ہے: ”مَیں نے ہمیشہ مزدوری کی ہے۔ مطالعہ کرنا میرے لئے مشکل ہے۔“ نیز ۲۴سالہ مائیکل جو سکول میں پڑھنے سے خوش نہیں ہوتا تھا بیان کرتا ہے: ”مجھے خود کو مطالعہ کرنے پر مجبور کرنا پڑتا تھا۔“ تاہم، مطالعہ کرنے کی خواہش پیدا کی جا سکتی ہے۔
غور کریں کہ مائیکل نے کیا کِیا۔ وہ بیان کرتا ہے: ”مَیں نے ہر روز آدھا گھنٹہ مطالعہ کرنے کے لئے اپنی تربیت کی۔ مجھے جلد ہی اپنے رویے، مسیحی اجلاسوں پر اپنے تبصروں اور دوسروں کے ساتھ اپنی گفتگو پر اس کا اثر محسوس ہوا۔ اب مَیں اپنے مطالعہ کے اوقات کا منتظر رہتا ہوں اور مَیں ان میں کسی بھی طرح کی مداخلت پسند نہیں کرتا۔“ جیہاں، جب ہم اپنی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ذاتی مطالعہ ہمارے لئے پُرلطف بن جاتا ہے۔ لارنس نے بھی خود کو بائبل مطالعہ کے لئے وقف کِیا اور وقت آنے پر یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا میں بطور بزرگ خدمت کرنے لگا۔
ذاتی مطالعے کو پُرلطف بنانے کے لئے مستقل کوشش درکار ہوتی ہے۔ تاہم، فوائد بیشمار ہیں۔ ”کیونکہ حکمت تیرے دل میں داخل ہوگی اور علم تیری جان کو مرغوب ہوگا،“ سلیمان کہتا ہے، ”تمیز تیری نگہبان ہوگی۔ فہم تیری حفاظت کریگا۔“—امثال ۲:۱۰، ۱۱۔
”تجھے شریر کی راہ سے . . . بچاتے ہیں“
کس طریقے سے حکمت، علم، تمیز، اور فہم تحفظ ثابت ہو سکتے ہیں؟ ”[وہ] تجھے شریر کی راہ سے اور کجگو سے [بچاتے ہیں]۔ جو راستبازی کی راہ کو ترک کرتے ہیں تاکہ تاریکی کی راہوں میں چلیں۔ جو بدکاری سے خوش ہوتے ہیں اور شرارت کی کجروی میں خوش رہتے ہیں۔ جنکی روشیں ناہموار اور جنکی راہیں ٹیڑھی ہیں۔“—امثال ۲:۱۲-۱۵۔
جیہاں، حقیقی حکمت کو عزیز رکھنے والے لوگ ”کجگو“ یعنی سچی اور راست باتوں کے برعکس باتیں کرنے والے ہر شخص کی صحبت سے دُور رہتے ہیں۔ تمیز اور فہم سچائی کو رد کر کے تاریکی کی راہوں پر چلنے والوں اور مکاروں اور بُرے کاموں میں خوشی حاصل کرنے والوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔—امثال ۳:۳۲۔
ہم کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ حقیقی حکمت اور اس سے منسلک خوبیاں ہمیں بداخلاق آدمیوں اور عورتوں کی بُری راہ سے بھی محفوظ رکھتی ہیں! سلیمان مزید بیان کرتا ہے کہ یہ خوبیاں ”تجھے بیگانہ عورتوں سے بچائیں یعنی چکنی چپڑی باتیں کرنے والی پرائی عورت سے جو اپنی جوانی کے ساتھی کو چھوڑ دیتی اور اپنے خدا کے عہد کو بھول جاتی ہے کیونکہ اُس کا گھر موت کی اترائی پر ہے اور اُس کی راہیں پاتال کو جاتی ہیں۔ جو کوئی اُس کے پاس جاتا ہے واپس نہیں آتا اور زندگی کی راہوں تک نہیں پہنچتا۔“—امثال ۲:۱۶-۱۹۔
یہاں ”بیگانہ عورت،“ سے مراد ایک کسبی ہے یعنی ایک ایسی عورت جو ”اپنی جوانی کے ساتھی“ یعنی اپنے شوہر کو چھوڑ دیتی ہے۔a (مقابلہ کریں ملاکی ۲:۱۴۔) اس نے زناکاری کی ممانعت بُھلا دی جو کہ شریعت کا حصہ تھی۔ (خروج ۲۰:۱۴) اس کی راہیں موت کی طرف جا رہی ہیں۔ اُس کے ساتھ رفاقت رکھنے والے کبھی بھی ”زندگی کی راہوں تک نہیں پہنچتے“ کیونکہ جلدیابدیر وہ اُس مقام یعنی موت تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ایک فہیم اور صاحبِتمیز شخص بداخلاقی سے خبردار رہتا اور دانشمندی سے اس میں اُلجھنے سے بچتا ہے۔
”راستباز مُلک میں بسینگے“
حکمت کی بابت اپنی مشورت کے مقصد کی تلخیص کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے: ”تاکہ تُو نیکوں کی راہوں پر چلے اور صادقوں کی راہوں پر قائم رہے۔“ (امثال ۲:۲۰) حکمت کیا ہی شاندار مقصد سرانجام دیتی ہے! یہ ایسی خوشحال اور تسکینبخش زندگی گزارنے کیلئے ہماری مدد کرتی ہے جو خدا کی خوشنودی کا باعث بنتی ہے۔
غور فرمائیں کہ ”نیکوں کی راہوں“ پر چلنے والوں کے لئے کیا ہی شاندار برکات محفوظ ہیں۔ سلیمان بیان جاری رکھتا ہے: ”راستباز ملک میں بسینگے اور کامل اس میں آباد رہیں گے۔ لیکن شریر زمین پر سے کاٹ ڈالے جائینگے اور دغاباز اُس سے اُکھاڑ پھینکے جائینگے۔“ (امثال ۲:۲۱، ۲۲) دُعا ہے کہ آپ خدا کی راست نئی دُنیا میں ابد تک رہنے والے بےعیب لوگوں کے درمیان ہوں۔—۲-پطرس ۳:۱۳۔
[فٹنوٹ]
a لفظ ”بیگانہ“ کا اطلاق شریعت کی باتوں سے مُنہ موڑ لینے اور یوں خود کو یہوواہ سے جُدا کر لینے والوں پر ہوتا تھا۔ لہٰذا، کسبی کا ایک غیرقوم کی بجائے ایک ”بیگانہ عورت“ کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔
[صفحہ 26 پر تصویر]
سلیمان نے حکمت کیلئے دُعا کی۔ ہمیں بھی کرنی چاہئے