یہوواہ فراخدل ہے اور ہماری صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے
”[یہوواہ] سب پر مہربان ہے اور اُس کی رحمت اُس کی ساری مخلوق پر ہے۔“—زبور ۱۴۵:۹۔
۱، ۲. خدا کے دوستوں کو کیا اعزاز حاصل ہے؟
ایک بہن جن کا نام مونیکا ہے، وہ کہتی ہیں: ”میری شادی کو ۳۵ سال ہو گئے ہیں۔ مَیں اور میرا شوہر ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن آج بھی ایک دوسرے کی پسند اور ناپسند کے بارے میں ایسی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں جو ہمیں پہلے معلوم نہیں تھیں۔“ بہت سے لوگ اپنے جیونساتھی اور دوستوں کے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔
۲ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو زیادہ سے زیادہ جاننا ہمیں اچھا لگتا ہے۔ لیکن یہوواہ خدا کو قریب سے جاننا سب سے اہم ہے کیونکہ وہ ہمارا سب سے اچھا دوست ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم اُس کے بارے میں جتنا بھی سیکھ لیں، کم ہے۔ (روم ۱۱:۳۳) ہم ہمیشہ تک یہوواہ خدا کی صفات کے بارے میں سیکھتے رہیں گے اور یوں اِن کے لئے ہماری قدر بڑھتی رہے گی۔—واعظ ۳:۱۱۔
۳. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
۳ پچھلے مضمون میں ہم نے خدا کی دو صفات پر غور کِیا تھا۔ ہم نے سیکھا تھا کہ وہ ہماری بات سننے کے لئے تیار رہتا ہے اور کسی کی طرفداری نہیں کرتا۔ اِس مضمون میں ہم خدا کی دو اَور صفات پر بات کریں گے۔ پہلی یہ کہ وہ فراخدل ہے اور دوسری یہ کہ وہ اپنے بندوں کی صورتحال کے مطابق رعایت کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اِن دو صفات پر غور کرنے سے ہم اَور بھی اچھی طرح جان جائیں گے کہ ”[یہوواہ] سب پر مہربان ہے اور اُس کی رحمت اُس کی ساری مخلوق پر ہے۔“—زبور ۱۴۵:۹۔
یہوواہ فراخدل خدا ہے
۴. فراخدلی سے کیا مراد ہے؟
۴ فراخدلی سے کیا مراد ہے؟ اِس سوال کے جواب کے لئے یسوع مسیح کی بات پر غور کریں۔ اُنہوں نے کہا: ”لینے والے کی نسبت دینے والے کو زیادہ خوشی ملتی ہے۔“ (اعما ۲۰:۳۵، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن) اِن سادہ سے الفاظ میں یسوع مسیح نے فراخدلی کے معنی سمجھا دئے۔ ایک فراخدل شخص دوسروں کی بھلائی کے لئے اپنا وقت، طاقت اور وسائل خوشی سے استعمال کرتا ہے۔ کسی کی فراخدلی کا اندازہ اُس کے دئے ہوئے تحفے کی قیمت سے نہیں بلکہ اُس کی نیت سے ہوتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۹:۷ کو پڑھیں۔) ہمارے خدا یہوواہ سے زیادہ فراخدل اَور کوئی نہیں۔
۵. یہوواہ خدا فراخدلی کیسے ظاہر کرتا ہے؟
۵ یہوواہ خدا فراخدلی کیسے ظاہر کرتا ہے؟ وہ تمام انسانوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ وہ تو اُن لوگوں کو بھی رزق عطا کرتا ہے جو اُس کی عبادت نہیں کرتے۔ واقعی ”[یہوواہ] سب پر مہربان ہے۔“ وہ ”اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔“ (متی ۵:۴۵) اِسی لئے پولس رسول نے بُتپرست لوگوں سے کہا کہ خدا نے ”[تُم پر] مہربانیاں کیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑیبڑی پیداوار کے موسم عطا کئے اور تمہارے دلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا۔“ (اعما ۱۴:۱۷) بےشک یہوواہ خدا کی فراخدلی سے سب انسانوں کو فائدہ ہوتا ہے۔—لو ۶:۳۵۔
۶، ۷. (الف) یہوواہ خدا کو خاص طور پر کن کی ضروریات پوری کرنے سے خوشی ملتی ہے؟ (ب) ایک مثال پیش کریں جس سے ظاہر ہو کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
۶ یہوواہ خدا کو اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرکے خاص طور پر خوشی ملتی ہے۔ بادشاہ داؤد نے کہا: ”مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں تو بھی مَیں نے صادق کو بےکس اور اُس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔“ (زبور ۳۷:۲۵) داؤد کی طرح بہت سے مسیحیوں نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ آئیں، اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔
۷ کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ ہماری ایک پہلکار بہن نینسی پر ایک مشکل آن پڑی۔ وہ ایک ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں: ”مجھے اپنے گھر کا کرایہ ادا کرنا تھا جو ۶۶ ڈالر تھا۔ کرایہ ادا کرنے میں بس ایک دن رہ گیا تھا لیکن میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ مَیں نے اِس مسئلے کے بارے میں یہوواہ خدا سے دُعا کی اور پھر کام پر چلی گئی۔ وہ ایسا دن تھا جس پر عموماً زیادہ لوگ ہوٹل نہیں آتے تھے۔ اِس لئے مجھے زیادہ ٹپ ملنے کی توقع نہیں تھی۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اُس دن بہت سارے لوگ آئے۔ کام ختم کرکے جب مَیں نے اپنی ٹپ گنی تو پورے ۶۶ ڈالر نکلے۔“ نینسی کو یقین ہے کہ یہ سب یہوواہ خدا کا کرم تھا، اُسی نے اُن کی ضرورت پوری کی تھی۔—متی ۶:۳۳۔
۸. یہوواہ خدا کی فراخدلی کا سب سے بڑا ثبوت کیا ہے؟
۸ یہوواہ خدا کی فراخدلی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اُس نے اپنے بیٹے کو سب انسانوں کی خاطر قربان کر دیا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (یوح ۳:۱۶) اِس آیت میں لفظ ”دُنیا“ تمام انسانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لہٰذا سب انسان، خدا کی اِس نعمت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جو لوگ یسوع مسیح پر ایمان لاتے ہیں، وہ ہمیشہ کی زندگی پائیں گے۔ (یوح ۱۰:۱۰) کیا یہوواہ خدا کی فراخدلی کا اِس سے بڑا کوئی اَور ثبوت ہو سکتا ہے؟
یہوواہ خدا کی طرح فراخدل بنیں
یہوواہ خدا نے بنیاسرائیل کو ہدایت کی کہ وہ فراخدلی سے کام لیں۔ (پیراگراف نمبر ۹ کو دیکھیں۔)
۹. ہم یہوواہ خدا کی طرح فراخدلی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۹ ہم یہوواہ خدا کی طرح فراخدلی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ یہوواہ خدا ”ہمیں لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں اِفراط سے دیتا ہے۔“ ہمیں بھی اپنے بہنبھائیوں کو دینے کے سلسلے میں تنگدلی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ (۱-تیم ۶:۱۷-۱۹) ہم خوشی سے اپنے مال کو ضرورتمند بہنبھائیوں اور اپنے عزیزوں کی مدد کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ (استثنا ۱۵:۷ کو پڑھیں۔) ہم فراخدلی ظاہر کرنے کے موقعوں کی تلاش میں رہ سکتے ہیں۔ بعض مسیحیوں کو جب کوئی تحفہ ملتا ہے تو وہ بھی کسی بھائی یا بہن کو تحفہ دیتے ہیں۔ ہمارے بہت سے بہنبھائی فراخدلی کی زندہ مثال ہیں۔
۱۰. فراخدلی ظاہر کرنے کا ایک اچھا طریقہ کونسا ہے؟
۱۰ فراخدلی ظاہر کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنا وقت اور طاقت دوسروں کی مدد اور حوصلہافزائی کرنے کے لئے استعمال کریں۔ (گل ۶:۱۰) اِس سلسلے میں اپنا جائزہ لینے کے لئے ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”جب بہنبھائیوں کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا وہ بِلاجھجک میرے پاس آتے ہیں؟ جب کوئی بھائی یا بہن کسی کام کے سلسلے میں مجھ سے مدد مانگتا ہے تو کیا مَیں اُس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوتا ہوں؟ کیا مَیں نے حال ہی میں اپنے کسی گھر والے یا کلیسیا میں کسی بھائی یا بہن کی حوصلہافزائی کی ہے؟“ جب ہم اپنے بہنبھائیوں کی مدد اور حوصلہافزائی کرنے کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں تو ہم اُن کے اور یہوواہ خدا کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔—لو ۶:۳۸؛ امثا ۱۹:۱۷۔
۱۱. ہم یہوواہ خدا کے کام کو فروغ دینے کے لئے فراخدلی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۱ ہم یہوواہ خدا کے کام کو فروغ دینے کے لئے فراخدلی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ ہم اپنا وقت اور طاقت یہوواہ خدا کی خدمت میں فراخدلی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں ”اپنے مال سے . . . [یہوواہ] کی تعظیم“ کرنی چاہئے۔ (امثا ۳:۹) اِس کا مطلب ہے کہ ہم خوشی سے اپنا مال یہوواہ خدا کی راہ میں استعمال کریں۔ والدین اپنے بچوں کو سیکھا سکتے ہیں کہ وہ خدا کی راہ میں فراخدلی سے دیں۔ ایک بھائی جن کا نام جےسن ہے، وہ کہتے ہیں: ”ہم عطیات ڈالنے کے لئے پیسے اپنے بچوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔ جب بچے بکس میں پیسے ڈالتے ہیں تو اُن کو بہت اچھا لگتا ہے۔ بچے کہتے ہیں کہ ”ہم نے یہ یہوواہ خدا کو دئے ہیں۔““ جن بچوں کو بچپن ہی سے یہوواہ خدا کے کام کے لئے دینا اچھا لگتا ہے، وہ بڑے ہو کر بھی اِس جذبے کو قائم رکھتے ہیں۔—امثا ۲۲:۶۔
خدا ہماری صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے
۱۲. یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسروں کی صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے؟
۱۲ یہوواہ خدا کی ایک اَور خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کی صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے اور اِس کے مطابق رعایت کرنے کو تیار رہتا ہے۔ ایک انسان جس میں یہ خوبی ہوتی ہے، وہ ہر بات میں قوانین کی سختی سے پابندی کرنے پر اصرار نہیں کرتا۔ وہ سختمزاج نہیں ہوتا۔ وہ دوسروں کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے۔ وہ دوسروں کی بات سننے کو تیار رہتا ہے اور اگر مناسب ہو تو مان بھی لیتا ہے، چاہے اُسے اپنے فیصلوں میں کچھ ردوبدل ہی کیوں نہ کرنا پڑا۔
۱۳، ۱۴. (الف) یہوواہ خدا کیسے ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے؟ (ب) لو ط کی مثال سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے؟
۱۳ یہوواہ خدا کیسے ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے؟ وہ اُن کے احساسات کو سمجھتا ہے اور اُن کے حالات کے مطابق رعایت کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وہ اکثر اُن کی بات مان لیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے اپنے بندے لوط کی بات مانی۔ جب یہوواہ خدا نے شہر سدوم اور عمورہ کو تباہ کرنے کا فیصلہ کِیا تو اُس نے لوط کو ہدایت کی کہ وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ لیکن لوط نے یہوواہ خدا سے درخواست کی کہ وہ اُنہیں کسی اَور جگہ جانے کی اجازت دے دے۔ ذرا سوچیں کہ لوط، کائنات کے خالق کو اپنی ہدایت میں ردوبدل کرنے کے لئے کہہ رہے تھے۔—پیدایش ۱۹:۱۷-۲۰ کو پڑھیں۔
۱۴ شاید آپ سوچیں کہ لوط کا ایمان کمزور تھا یا وہ خدا کے نافرمان تھے۔ لوط جہاں کہیں بھی جاتے، یہوواہ خدا اُنہیں بچا سکتا تھا۔ اِس لئے لوط کے خدشات بالکل بےبنیاد تھے۔ پھر بھی لوط بہت ڈر گئے تھے۔ لہٰذا خدا نے اُن کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اُنہیں اُس شہر میں جانے کی اجازت دے دی جہاں وہ جانا چاہتے تھے حالانکہ یہوواہ خدا اُس شہر کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ (پیدایش ۱۹:۲۱، ۲۲ کو پڑھیں۔) واقعی یہوواہ خدا اپنی بات پر اَڑا نہیں رہتا۔ وہ صورتحال کے مطابق ڈھلنا جانتا ہے۔
۱۵، ۱۶. یہوواہ خدا نے قربانیوں کے سلسلے میں جو حکم دیا، اُس سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
۱۵ آئیں، ایک اَور مثال پر غور کریں۔ یہوواہ خدا نے حکم دیا تھا کہ اگر کوئی اسرائیلی بھیڑ یا بکرے کی قربانی نہیں دے سکتا تو وہ دو قمریاں یا دو کبوتر قربانی کے لئے دے سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اسرائیلی اِتنا غریب ہو کہ وہ یہ بھی نہ کر سکے تو پھر؟ ایسی صورت میں یہوواہ خدا نے حکم دیا کہ وہ تھوڑا سا میدہ لا سکتا ہے۔ میدہ باریک اور نفیس قسم کا آٹا ہوتا ہے۔ اِس طرح کا آٹا خاص مہمانوں کے لئے روٹی بنانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ (پید ۱۸:۶) یہوواہ خدا نے عام آٹے کی بجائے میدہ لانے کے لئے کیوں کہا؟—احبار ۵:۷، ۱۱ کو پڑھیں۔
۱۶ ذرا تصور کریں کہ آپ ایک اسرائیلی ہیں اور بہت غریب ہیں۔ آپ نذر کے طور پر میدہ لے کر خیمۂاجتماع جاتے ہیں۔ جب آپ وہاں پہنچتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ گائے بھینسیں، بھیڑیں اور بکرے قربانی کے لئے لا رہے ہیں۔ آپ کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ آپ کی نظر میں آپ کا نذرانہ اُن لوگوں کی قربانیوں کے مقابلے میں بہت ہی معمولی ہے۔ لیکن پھر آپ کو یاد آتا ہے کہ یہوواہ خدا آپ کے نذرانے کو اہم خیال کرتا ہے۔ ایسا کیوں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہوواہ خدا نے عام آٹے کی بجائے میدہ لانے کا حکم دیا تھا جو اعلیٰ معیار کا آٹا ہوتا ہے۔ اِس طرح اُس نے غریب اسرائیلیوں کو یقین دِلایا کہ ”مَیں جانتا ہے کہ تُم دوسروں کی طرح قیمتی قربانیاں نہیں دے سکتے۔ لیکن پھر بھی جو تُم لائے ہو، وہ تمہارا بہترین نذرانہ ہے۔“ واقعی یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کی صورتحال کا لحاظ رکھا اور اِس کے مطابق رعایت کی۔—زبور ۱۰۳:۱۴۔
۱۷. یہوواہ خدا کیسی خدمت کو قبول کرتا ہے؟
۱۷ ہمیں اِس بات سے واقعی تسلی اور حوصلہ ملتا ہے کہ یہوواہ خدا ہماری صورتحال کو سمجھتا ہے۔ جب ہم پورے دلوجان سے اُس کی خدمت کرتے ہیں تو وہ اِسے قبول کرتا ہے۔ (کل ۳:۲۳) ایک عمررسیدہ بہن جن کا نام کانسٹینس ہے، اُنہوں نے کہا: ”مجھے اپنے خالق کے بارے میں دوسروں کے ساتھ بات کرنا بہت پسند ہے۔ اِس لئے مَیں بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود مُنادی کے کام میں حصہ لیتی ہوں اور دوسروں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتی ہوں۔ بعض اوقات مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اب مَیں پہلے جتنا کام نہیں کر سکتی۔ مگر مَیں جانتی ہوں کہ یہوواہ خدا میری کمزوریوں سے واقف ہے اور مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ میرے کام کی قدر کرتا ہے، چاہے مَیں جتنا بھی کروں۔“
دوسروں کی صورتحال کا لحاظ رکھیں
۱۸. والدین یہوواہ خدا کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۱۸ یہوواہ خدا کی طرح ہم دوسروں کے احساسات اور حالات کا لحاظ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ ذرا لوط کے واقعے پر دوبارہ غور کریں۔ یہوواہ خدا کو پورا اختیار تھا کہ وہ جہاں چاہے، لوط کو بھیج دے۔ مگر اُس نے لوط پر مہربانی کی اور اُنہیں اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔ اور پھر اُن کی درخواست مان بھی لی۔ والدین بھی یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ وہ خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا ہم بچوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیتے ہیں اور اگر مناسب ہو تو کیا ہم اُن کی بات مانتے ہیں؟“ اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی یکم ستمبر ۲۰۰۷ء میں بتایا گیا کہ بعض والدین جب اپنے بچوں کے لئے کوئی قانون بناتے ہیں تو وہ اُن کی رائے بھی لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین شاید یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ بچوں کو فلاں وقت تک گھر واپس آ جانا چاہئے۔ اُنہیں ایسا کرنے کا اختیار تو ہے مگر وہ اِس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے بچوں سے بات کر سکتے ہیں۔ اور اگر مناسب ہو تو اُن کا مشورہ مان سکتے ہیں۔ جب والدین کوئی قانون بنانے سے پہلے اپنے بچوں کی رائے لیتے ہیں تو اِس بات کا زیادہ امکان ہے کہ بچے اُن قوانین کو سمجھیں گے اور مانیں گے بھی۔
۱۹. بزرگ، یہوواہ خدا کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۱۹ کلیسیا کے بزرگ بھی اپنے بہنبھائیوں کی صورتحال کا لحاظ رکھنے سے یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ ہم سیکھ چکے ہیں کہ بعض اسرائیلی بڑیبڑی قربانیاں نہیں دے سکتے تھے لیکن وہ یہوواہ خدا کے حضور جو کچھ بھی لاتے تھے، وہ اُن کی بڑی قدر کرتا تھا۔ اِسی طرح آجکل ہمارے کچھ بہنبھائی بڑھاپے یا کسی بیماری کی وجہ سے مُنادی کے کام میں زیادہ حصہ نہیں لے سکتے۔ اگر وہ اِس وجہ سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں تو بزرگ اُنہیں یقین دِلا سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اُن سے محبت کرتا ہے اور اُن کی خدمت کی قدر کرتا ہے، چاہے وہ جتنا بھی کریں۔—مر ۱۲:۴۱-۴۴۔
۲۰. خدا کی خدمت کرنے کے حوالے سے ہمیں کونسی دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں؟
۲۰ ہم نے سیکھا ہے کہ یہوواہ خدا ہماری صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے اور ہم سے زیادہ کی توقع نہیں کرتا۔ ہمیں بھی اِس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ جتنا ہمارے بس میں ہے، ہم صرف اُتنا ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اِس بات کی آڑ لے کر خدا کی خدمت کرنے میں سُستی نہیں کرنی چاہئے۔ اِس کے برعکس ہمیں بادشاہت کی مُنادی کے کام کو فروغ دینے کے لئے ”جانفشانی“ کرنی چاہئے۔ (لو ۱۳:۲۴) لہٰذا خدا کی خدمت کرنے کے سلسلے میں دو باتیں یاد رکھیں۔ پہلی یہ کہ دلوجان سے اُس کی خدمت کریں۔ دوسری یہ کہ وہ ہم سے کوئی ایسا کام کرنے کے لئے نہیں کہتا جو ہمارے بس میں نہ ہو۔ جب ہم اپنے حالات کے مطابق پوری لگن سے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ ہمارے لئے یہ بڑی تسلی اور خوشی کی بات ہے کہ ہم ایسے خدا کی خدمت کر رہے ہیں جو ہماری صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے اور اِس کے مطابق رعایت کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اگلے مضمون میں ہم خدا کی دو اَور صفات پر غور کریں گے۔—زبور ۷۳:۲۸۔
”اپنے مال سے . . . [یہوواہ] کی تعظیم کر۔“—امثا ۳:۹۔ (پیراگراف نمبر ۱۱ کو دیکھیں۔)
”جو کام کرو جی سے کرو۔“—کل ۳:۲۳۔ (پیراگراف نمبر ۱۷ کو دیکھیں۔)