جب خدا کارروائی کرتا ہے تو کیا آپ بچ جائینگے؟
”اگر وہ دن گھٹائے نہ جاتے تو کوئی بشر نہ بچتا۔ مگر برگزیدوں کی خاطر وہ دن گھٹائے جائینگے۔“—متی ۲۴:۲۲۔
۱، ۲. (۱) اپنے مستقبل میں دلچسپی رکھنا کیوں عام بات ہے؟ (ب) کن نہایت ہی اہم سوالات میں قدرتی دلچسپی شامل ہو سکتی ہے؟
آپ اپنی ذات میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں؟ آجکل بہتیرے خودپرست ہوتے ہوئے، خودغرضی کی انتہا کو چھو لیتے ہیں۔ تاہم، بائبل کسی بھی ایسی چیز میں موزوں دلچسپی کی مذمت نہیں کرتی جو ہمیں متاثر کرتی ہے۔ (افسیوں ۵:۳۳) اِس میں اپنے مستقبل میں دلچسپی رکھنا شامل ہے۔ اسلئے آپ کیلئے یہ جاننے کی خواہش کرنا عام بات ہوگی کہ آپ کا مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے۔ کیا آپ دلچسپی رکھتے ہیں؟
۲ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یسوع کے رسول اپنے مستقبل میں ایسی ہی دلچسپی رکھتے تھے۔ (متی ۱۹:۲۷) غالباً یہی وجہ تھی جب اُن میں سے چار یسوع کیساتھ زیتون کے پہاڑ پر موجود تھے۔ انہوں نے پوچھا: ”یہ باتیں کب ہونگی، اور جب یہ سب باتیں پوری ہونے کو ہوں اُس وقت کا کیا نشان ہے؟“ (مرقس ۱۳:۴) یسوع نے انکی اور ہماری دلچسپی—مستقبل میں فطرتی دلچسپی کو نظرانداز نہیں کِیا۔ اس نے بارہا اُجاگر کِیا کہ اس کے پیروکار کیسے متاثر ہونگے اور یہ کہ حتمی نتیجہ کیا ہوگا۔
۳. ہم یسوع کے جواب کو اپنے وقت سے کیوں ملاتے ہیں؟
۳ یسوع کے جواب نے ہمارے زمانے میں ایک بڑی تکمیل کی حامل پیشینگوئی کو بیان کِیا۔ ہم دُنیا کی جنگوں اور ہماری صدی کے دیگر تنازعات، بھونچال جو بیشمار زندگیوں کو معدوم کر دیتے ہیں، خوراک کی کمیابی جو بیماری اور موت کا باعث بنتی ہیں، اور وبائیں—۱۹۱۸ میں سپینش انفلوئنزا کی وبا سے لیکر حالیہ ایڈز کی وبا تک یہ دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم، یسوع کے جواب کے بیشتر حصے کی ایک تکمیل ۷۰ س.ع. میں رومیوں کے ہاتھوں یروشلیم کی تباہی بھی تھی۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا: ”لیکن تم خبردار رہو کیونکہ لوگ تم کو عدالتوں کے حوالہ کرینگے اور تم عبادتخانوں میں پیٹے جاؤ گے اور حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے میری خاطر حاضر کئے جاؤ گے تاکہ اُن کیلئے گواہی ہو۔“—مرقس ۱۳:۹۔
یسوع نے کیا پیشگوئی کی، اور کیا واقع ہوا
۴. یسوع کے جواب میں شامل چند آگاہیاں کیا ہیں؟
۴ یسوع نے نہ صرف یہ پیشگوئی کی کہ دوسرے اسکے شاگردوں کیساتھ کیسا سلوک کرینگے۔ اس نے اُنہیں خبردار کِیا کہ خود اُنہیں کیسا عمل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر: ”جب تم اُس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو اس جگہ کھڑی ہوئی دیکھو جہاں اسکا کھڑا ہونا روا نہیں (پڑھنے والا سمجھ لے) اُس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔“ (مرقس ۱۳:۱۴) لوقا ۲۱:۲۰ کا متوازی بیان کہتا ہے: ”جب تُم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا دیکھو۔“ پہلی ہی تکمیل میں یہ کیسے سچ ثابت ہوا؟
۵. ۶۶ س.ع. میں یہودیہ میں یہودیوں کے مابین کیا واقع ہوا؟
۵ دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا (۱۹۸۲) ہمیں بتاتا ہے: ”یہودی رومی تسلط کے تحت کافی حد تک مضطرب تھے اور اہلکار بہت زیادہ متشدّد، ظالم، اور بددیانت تھے۔ ۶۶ عیسوی میں کھلمکھلا بغاوت پھوٹ نکلی . . . جب زیلوتیس یہودیوں نے مصادا پر قبضہ کر لیا تو جنگ شروع ہو گئی اور اس کے بعد، مینا کی سرکردگی میں یروشلیم کی طرف پیشقدمی کی۔ اسی اثنا میں قیصریہ کے گورنر کی عملداری میں یہودیوں کو قتل کر دیا گیا، اور اس ظلموستم کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ نئے سکوں پر یہ عبارت کندہ تھی کہ بغاوت کے ۱ سال سے ۵ سال تک۔“
۶. یہودی بغاوت کس رومی جوابی کارروائی کا باعث بنی؟
۶ سیسٹیئس گیلس کے تحت رومیوں کے بارہویں لشکر نے اسور سے پیشقدمی کی، گلیل اور یہودیہ کو تباہوبرباد کر دیا، اور اس کے بعد ”شہرِمُقدس یرؔوشلیم“ کے بالائی حصے پر بھی قبضہ کرتے ہوئے، دارلحکومت پر حملہ کِیا۔ (نحمیاہ ۱۱:۱؛ متی ۴:۵؛ ۵:۳۵؛ ۲۷:۵۳) واقعات کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے، جِلد دی رومن سیج آف جیروضلم کہتی ہے: ”بارہا ناکام ہونے کے باوجود، رومیوں نے پانچ دن تک یروشلیم کی فصیل پر چڑھنے کی کوشش کی۔ آخرکار، یہودی محافظوں نے پتھروں کی بوچھاڑ سے بوکھلا کر، ہتھیار ڈال دئیے۔ ٹیسٹوڈو بناتے ہوئے—ایک طریقہ جس سے رومی فوجی خود کو بچانے کے لئے اپنی ڈھالوں کو اپنے سروں پر رکھ لیتے تھے—رومی سپاہیوں نے فصیل کو کھوکھلا کر دیا اور پھاٹک کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ ایک خوفناک افراتفری نے محافظوں پر غلبہ پا لیا۔“ شہر کے اندر مسیحی یسوع کے الفاظ کو یاد کر سکتے اور سمجھ سکتے تھے کہ مکروہ چیز مُقدس مقام میں کھڑی تھی۔a لیکن ایسے مسیحی محصور شہر سے، کیسے بھاگ سکتے تھے، جیسےکہ یسوع نے مشورہ دیا تھا؟
۷. جب ۶۶ س.ع. میں فتح بالکل قریب تھی تو رومیوں نے کیا کِیا؟
۷ تاریخدان فلیویس جوزیفس بیان کرتا ہے: ”نہ تو محصور لوگوں کی مایوسی اور نہ ہی اُن کے احساسات سے باخبر ہوتے ہوئے، سیسٹیئس [گیلس] نے، اچانک اپنے فوجیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا، اگرچہ اُسے شکست کا سامنا نہ ہوا تو بھی فتح کی اُمید چھوڑ دی، اور بغیر کسی وجہ کے شہر چھوڑ کر چلا گیا۔“ (دی جیویش وار، ۵۴۰ ،II [7 xix]) گیلس کیوں واپس چلا گیا؟ وجہ خواہ کچھ بھی تھی، اس کے واپس جانے سے مسیحیوں کو یسوع کے حکم پر عمل کرنے اور پہاڑوں پر اور محفوظ مقام کی طرف بھاگ جانے کا موقع مِل گیا۔
۸. یروشلیم کیخلاف رومی مہم کا دوسرا حصہ کیا تھا، اور بچنے والوں کو کس چیز کا تجربہ ہوا؟
۸ فرمانبرداری زندگی بخش تھی۔ جلد ہی رومی بغاوت کو کچلنے کیلئے حرکت میں آ گئے۔ جنرل ٹائٹس کے زیرِکمان مہم اپریل سے لیکر اگست ۷۰ س.ع. تک یروشلیم کے محاصرے کی صورت میں نقطۂعروج کو پہنچ گئی۔ یہودیوں نے جسطرح مصیبت اٹھائی اسکی بابت جوزیفس کے بیان کو پڑھنا ایک شخص کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ جو رومیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے ان کے علاوہ، دیگر یہودی یہودی حریفوں ہی کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے، اور فاقہکشی آدمخوری پر منتج ہوئی۔ رومی فتح کے وقت تک، ۱،۱۰۰،۰۰۰ یہودی مارے جا چکے تھے۔b بچنے والے ۹۷،۰۰۰ میں سے، بعض کو فوری طور پر قتل کر دیا گیا تھا؛ دیگر کو اسیر کر لیا گیا تھا۔ جوزیفس بیان کرتا ہے: ”سترہ برس سے زیادہ عمر والوں کو بیڑیاں پہنا دی گئیں اور قیدِبامشقت کیلئے مصر بھیج دیا گیا، جبکہ ایک بڑی تعداد کو ٹائٹس نے تھیئٹر میں تلوار یا جنگلی جانوروں کے ذریعے ہلاک ہونے کیلئے صوبوں کے حوالے کر دیا۔“ جب اُنکی قسمت کا فیصلہ کِیا جا رہا تھا تو ۱۱،۰۰۰ قیدی بھوک سے مر گئے۔
۹. مسیحیوں کو کیوں اُس انجام کا تجربہ نہ ہوا جسکا یہودیوں نے تجربہ کِیا تھا، لیکن کونسے سوالات باقی ہیں؟
۹ مسیحی شکرگزار ہو سکتے تھے کہ انہوں نے خداوند کی آگاہی پر عمل کِیا اور رومی فوج کے لوٹنے سے پہلے شہر سے بھاگ گئے۔ یوں وہ اس حصے سے بچ گئے جسے یسوع نے یروشلیم پر ’ایسی بڑی مصیبت جو دنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی، نہ کبھی ہوگی کا نام دیا۔‘ (متی ۲۴:۲۱) یسوع نے مزید کہا: ”اگر وہ دن گھٹائے نہ جاتے تو کوئی بشر نہ بچتا۔ مگر برگزیدوں کی خاطر وہ دن گھٹائے جائینگے۔“ (متی ۲۴:۲۲) اُسوقت اُسکا کیا مطلب تھا اور اب اِسکا کیا مطلب ہے؟
۱۰. پہلے ہم نے متی ۲۴:۲۲ کی وضاحت کیسے کی تھی؟
۱۰ ماضی میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ ’بشر کے بچائے جانے‘ کا اشارہ اُن یہودیوں کی طرف تھا جو ۷۰ س.ع. میں یروشلم پر مصیبت سے بچ گئے تھے۔ مسیحی بھاگ گئے تھے، اسلئے خدا رومیوں کو فوری تباہی لانے کی اجازت دے سکتا تھا۔ باالفاظِدیگر، اس حقیقت کی بِنا پر کہ ”برگزیدے“ خطرے سے باہر تھے، بعض یہودی ”بشر“ کو بچنے کا موقع دیتے ہوئے، مصیبت کے دن گھٹائے جا سکتے تھے۔ یہ محسوس کِیا گیا کہ بچنے والے یہودیوں نے اُن لوگوں کا عکس پیش کِیا جو ہمارے زمانے میں آنے والی بڑی مصیبت سے بچیں گے۔—مکاشفہ ۷:۱۴۔
۱۱. ایسا کیوں لگتا ہے کہ متی ۲۴:۲۲ کی وضاحت پر دوبارہ غور کِیا جانا چاہیے؟
۱۱ لیکن ۷۰ س.ع. میں جوکچھ واقع ہوا کیا یہ وضاحت اسکی مطابقت میں ہے؟ یسوع نے کہا کہ انسانی ”بشر“ کو مصیبت سے ”بچایا“ جانا تھا۔ اس حقیقت کے پیشِنظر کہ ان میں سے ہزاروں جلد ہی فاقہکشی سے مر گئے یا تھیئٹر میں قتل کر دیئے گئے کیا آپ لفظ ”بچایا“ جانا کو ۹۷،۰۰۰ بچنے والوں کو بیان کرنے کیلئے استعمال کرینگے؟ جوزیفس قیصریہ میں، ایک تھیئٹر کی بابت کہتا ہے: ”جنگلی جانوروں کیساتھ مقابلے میں یا ایک دوسرے کیساتھ لڑائی میں یا زندہ جلا دئیے جانے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲،۵۰۰ سے زیادہ تھی۔“ اگرچہ وہ محاصرے کے دوران تو نہیں مرے تھے، وہ یقیناً ”بچائے“ نہیں گئے تھے۔ اور کیا یسوع انہیں آنے والی ”بڑی مصیبت“ میں سے بچنے والے مبارک لوگوں جیسا خیال کریگا؟
بشر بچائے گئے—کیسے؟
۱۲. پہلی صدی کے ”برگزیدے“ کون تھے جن میں خدا دلچسپی رکھتا تھا؟
۱۲ ۷۰ س.ع. کے آنے تک، خدا نے پیدائشی یہودیوں کو اپنی برگزیدہ قوم کے طور پر خیال نہیں کِیا تھا۔ یسوع نے ظاہر کِیا کہ خدا نے اُس قوم کو رد کر دیا تھا اور اس کے دارالحکومت شہر، ہیکل، اور نظامِپرستش کے خاتمے کی اجازت دے گا۔ (متی ۲۳:۳۷–۲۴:۲) خدا نے ایک نئی قوم، روحانی اسرائیل کو چن لیا۔ (اعمال ۱۵:۱۴؛ رومیوں ۲:۲۸، ۲۹؛ گلتیوں ۶:۱۶) یہ تمام اقوام میں سے چنے گئے اور روح سے مسح کئے گئے مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھی۔ (متی ۲۲:۱۴؛ یوحنا ۱۵:۱۹؛ اعمال ۱۰:۱، ۲، ۳۴، ۳۵، ۴۴، ۴۵) سیسٹیئس گیلس کے حملے سے چند سال پہلے، پطرس نے ”خدا باپ کے علمِسابق کے موافق روح کے پاک کرنے سے . . . برگزیدہ ہوئے ہیں“ کو لکھا۔ روح سے مسحشُدہ ایسے لوگ ”ایک برگزیدہ نسل، شاہی کاہنوں کا فرقہ، مُقدس قوم تھے۔“ (۱ پطرس ۱:۱، ۲؛ ۲:۹) خدا ایسے برگزیدہ اشخاص کو یسوع کے ساتھ حکمرانی کرنے کے لئے آسمان پر اُٹھا لیگا۔—کلسیوں۱:۱، ۲؛ ۳:۱۲؛ ططس ۱:۱؛ مکاشفہ ۱۷:۱۴۔
۱۳. متی ۲۴:۲۲ میں یسوع کے الفاظ کا کیا مفہوم ہو سکتا تھا؟
۱۳ برگزیدہ اشخاص کی یہ شناخت مفید ہے، کیونکہ یسوع نے پیشگوئی کی تھی کہ ”برگزیدوں کی خاطر“ مصیبت کے دن گھٹائے جائینگے۔ یونانی لفظ جسکا ترجمہ ”کی خاطر“ کِیا گیا ہے اسے ”کے واسطے“ یا ”کیلئے“ کے طور پر بھی پیش کِیا جا سکتا ہے۔ (مرقس ۲:۲۷؛ یوحنا ۱۲:۳۰؛ ۱ کرنتھیوں ۸:۱۱؛ ۹:۱۰، ۲۳؛ ۱۱:۹؛ ۲تیمتھیس ۲:۱۰؛ مکاشفہ ۲:۳) اسلئے یسوع یہ کہہ رہا ہوگا، ’اگر وہ دن گھٹائے نہ جاتے، تو کوئی بشر نہ بچتا؛ مگر برگزیدہ اشخاص کے واسطے وہ دن گھٹائے جائینگے۔‘c (متی ۲۴:۲۲) کیا کوئی ایسی چیز واقع ہوئی جس نے یروشلیم میں پھنسے ہوئے برگزیدہ مسیحی اشخاص کو فائدہ پہنچایا یا جو اُن ’کے واسطے‘ تھی؟
۱۴. جب ۶۶ س.ع. میں رومی فوج غیرمتوقع طور پر یروشلیم سے واپس چلی گئی تو ”بشر“ کیسے بچائے گئے تھے؟
۱۴ یاد کریں کہ ۶۶ س.ع. میں، رومی مُلک میں گھس آئے، بالائی یروشلیم پر قابض ہو گئے، اور فصیل کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ جوزیفس تبصرہ کرتا ہے: ”اگر اس نے تھوڑی دیر اور محاصرے کو قائم رکھا ہوتا تو اس نے فوراً شہر پر قبضہ کر لیا ہوتا۔“ خود سے پوچھیں، ’طاقتور رومی فوج نے کیوں یکدم جنگ بند کر دی اور ”اور کسی معقول وجہ کے بغیر“ واپس لوٹ گئی؟‘ ریوپرٹ فرنو، عسکری تاریخ کی وضاحت کرنے کا ماہر، تبصرہ کرتا ہے: ”کوئی بھی مؤرخ گیلس کے غیرمعمولی اور تباہکُن فیصلے کی موزوں وجہ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔“ وجہ سے قطعنظر نتیجہ یہ نکلا کہ مصیبت گھٹا دی گئی۔ اُنکے جانے کے وقت یہودیوں کے اُن پر حملہ کرنے کے باعث رومی پسپا ہو گئے۔ ان ”برگزیدہ“ ممسوح مسیحیوں کی بابت کیا ہے جو پھنسے ہوئے تھے؟ محاصرے کے اٹھائے جانے کا مطلب تھا کہ وہ ہر طرح کے قتل سے بچ گئے جس کا مصیبت کے دوران خطرہ لاحق تھا۔ لہٰذا، وہ مسیحی جنہوں نے ۶۶ س.ع. میں مصیبت کے گھٹائے جانے سے فائدہ اٹھایا بچائے جانے والے ”بشر“ تھے جنکا متی ۲۴:۲۲ میں ذکر کِیا گیا تھا۔
آپ کا مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے؟
۱۵. آپ کیوں کہینگے کہ متی ۲۴ باب کو ہمارے زمانے میں خاص دلچسپی کا حامل ہونا چاہیے؟
۱۵ شاید کوئی یہ پوچھے، ’مجھے یسوع کے الفاظ کی واضح سمجھ میں خاص طور پر کیوں دلچسپی رکھنی چاہیے؟‘ یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کافی وجہ موجود ہے کہ ۷۰ س.ع. تک اور اس کے دوران جوکچھ واقع ہوا یسوع کی پیشینگوئی کی اُس سے بڑھکر تکمیل ہونی تھی۔d (مقابلہ کریں متی ۲۴:۷؛ لوقا ۲۱:۱۰، ۱۱؛ مکاشفہ ۶:۲-۸۔) عشروں سے، یہوواہ کے گواہوں نے منادی کی ہے کہ ہمارے زمانے میں واقع ہونے والی بڑی تکمیل ثابت کرتی ہے کہ ہم عنقریب وسیع پیمانے پر ”بڑی مصیبت“ کی توقع کر سکتے ہیں۔ اسکے دوران، متی ۲۴:۲۲ کے نبوّتی الفاظ کیسے پورے ہونگے؟
۱۶. آنے والی بڑی مصیبت کے بارے میں مکاشفہ کونسی حوصلہافزا حقیقت فراہم کرتی ہے؟
۱۶ یروشلیم پر مصیبت کے تقریباً دو عشروں کے بعد، رسول یوحنا نے مکاشفہ کی کتاب لکھی۔ اس نے تصدیق کی کہ بڑی مصیبت ابھی آنے والی ہے۔ اور، جو چیز ہمیں ذاتی طور پر متاثر کرتی ہے، اُس میں دلچسپی رکھتے ہوئے، ہم یہ جان کر تسکین پا سکتے ہیں کہ مکاشفہ نبوّتی طور پر ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ انسان آنے والی اس بڑی مصیبت میں سے زندہ بچ جائیں گے۔ یوحنا نے ”ہر قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان کی ایک . . . بڑی بِھیڑ“ کی پیشینگوئی کی۔ وہ کون ہیں؟ آسمان سے ایک آواز جواب دیتی ہے: ” وہ وہی ہیں جو بڑی مصیبت سے نکل کر آئے ہیں۔“ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) جیہاں، وہ بچنے والے ہونگے! مکاشفہ ہمیں اس سلسلے میں بھی بصیرت عطا کرتا ہے کہ آنے والی بڑی مصیبت میں کیسے واقعات رونما ہونگے اور کیسے متی ۲۴:۲۲ کی تکمیل ہوگی،
۱۷. بڑی مصیبت کے ابتدائی حصے میں کیا شامل ہوگا؟
۱۷ اس مصیبت کا ابتدائی حصہ علامتی کسبی جو ”بڑا بابل“ کہلاتی ہے پر حملہ ہوگا۔ (مکاشفہ ۱۴:۸؛ ۱۷:۲،۱) وہ جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کی نمائندگی کرتی ہے، جس میں دنیائےمسیحیت زیادہ ملامت کے لائق ہے۔ مکاشفہ ۱۷:۱۶-۱۸ کے الفاظ کے مطابق، خدا سیاسی عنصر کے دل میں یہ بات ڈالیگا کہ اس علامتی کسبی پر حملہ کریں۔e سوچیں کہ یہ حملہ خدا کے مسحشُدہ ”برگزیدوں“ اور انکے ساتھیوں، ”بڑی بِھیڑ“ کو کیسا دکھائی دے سکتا ہے۔ جیسے ہی مذہب پر یہ تباہکُن حملہ زور پکڑتا ہے تو شاید ایسا دکھائی دے کہ یہ تمام مذہبی تنظیموں کو، یہوواہ کے لوگوں سمیت، نیستونابود کر دیگا۔
۱۸. ایسا کیوں دکھائی دے سکتا ہے کہ بڑی مصیبت کے پہلے حصے میں کوئی ”بشر“ نہیں بچایا جائیگا؟
۱۸ یہ وہ وقت ہے جب متی ۲۴:۲۲ میں پائے جانے والے یسوع کے الفاظ کی بڑے پیمانے پر تکمیل ہوگی۔ جیسےکہ یروشلیم میں برگزیدہ لوگ خطرے میں دکھائی دیتے تھے، ممکن ہے یہوواہ کے خادم مذہب پر حملے کے دوران ختم ہو جانے کے خطرے سے دوچار دکھائی دیں، گویا کہ وہ حملہ خدا کی اُمت کے تمام ”بشر“ کو ختم کر دے گا۔ تاہم، جوکچھ پیچھے ۶۶ س.ع. میں واقع ہوا آئیے اسے اپنے ذہن میں رکھیں۔ خدا کے ممسوح برگزیدہ اشخاص کو بھاگنے اور زندہ رہنے کا کافی موقع فراہم کرتے ہوئے، رومیوں کی طرف سے برپا کی جانے والی مصیبت کو گھٹا دیا گیا تھا۔ چنانچہ، ہم پُراعتماد ہو سکتے ہیں کہ مذہب پر تباہکُن حملے کو سچے پرستاروں کی عالمی کلیسیا کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ تیزی سے واقع ہوگا، گویا کہ ”ایک دن میں“۔ تاہم، کسی نہ کسی طرح، اسے گھٹایا جائے گا، اسے اپنا مقصد پورا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، تاکہ خدا کے لوگ ”بچائے“ جا سکیں۔—مکاشفہ ۱۸:۸۔
۱۹. (ا) بڑی مصیبت کے پہلے حصے کے بعد، کیا چیز عیاں ہو جائیگی؟ (ب) یہ کس چیز پر منتج ہوگی؟
۱۹ شیطان ابلیس کی زمینی تنظیم کے دیگر عناصر، اپنی پُرانی مذہبی کسبی کے ساتھ تعلقات کے بگڑنے پر ماتم کرتے ہوئے، بعدازاں کچھ عرصے کیلئے باقی رہینگے۔ (مکاشفہ ۱۸:۹-۱۹) ایک مرحلے پر، وہ یہ دیکھینگے کہ خدا کے سچے خادم باقی رہ جاتے ہیں، ”راحتوآرام سے بستے ہیں۔ جنکی نہ فصیل ہے“ اور آسان شکار دکھائی دیتے ہیں۔ آئندہ کیلئے کیا ہی عجیب بات! اپنے خادموں کیخلاف حقیقی یا دھمکیآمیز جارحانہ عزائم کیلئے جوابی کارروائی کرتے ہوئے، بڑی مصیبت کے آخری حصے میں خدا اپنے دُشمنوں کے سلسلے میں عدالتی کارروائی کرنے کیلئے اُٹھیگا۔—حزقیایل ۳۸:۱۰-۱۲، ۱۴، ۱۸-۲۳۔
۲۰. بڑی مصیبت کا دوسرا حصہ خدا کے لوگوں کو خطرے میں کیوں نہیں ڈالیگا؟
۲۰ بڑی مصیبت کا یہ دوسرا حصہ جوکچھ یروشلیم اور اُس کے باشندوں کے ساتھ ۷۰ س.ع. میں رومیوں کے دوسرے حملے کے دوران واقع ہوا اُسکے متوازی ہوگا۔ یہ ”ایسی بڑی مصیبت“ ثابت ہوگی ”جو دنیا کے شروع سے نہ اب تک [اُسوقت تک] ہوئی، نہ کبھی ہوگی۔“ (متی ۲۴:۲۱) تاہم، ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا کے برگزیدے اور انکے ساتھی خطرے والے علاقے میں، ہلاک ہونے کے خطرے میں مبتلا، نہیں ہونگے۔ وہ بھاگ کر کسی جغرافیائی مقام کی طرف نہیں جائینگے۔ یروشلیم میں پہلی صدی کے مسیحی اس شہر سے بھاگ کر پہاڑی علاقے، جیسے کہ یردن پار کے علاقہ پیلا، میں جا سکتے تھے۔ تاہم، مستقبل میں، خدا کے وفادار گواہ پوری دُنیا میں آباد ہونگے، اسلئے سلامتی اور تحفظ کا انحصار کسی جغرافیائی مقام پر نہیں ہوگا۔
۲۱. فیصلہکُن جنگ میں کون لڑینگے، اور کس نتیجے کیساتھ؟
۲۱ تباہی رومی افواج یا کسی اَور انسانی ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوگی۔ اس کی بجائے، مکاشفہ کی کتاب عدالتی قوتوں کے آسمان سے آنے کا ذکر کرتی ہے۔ جیہاں، بڑی مصیبت کا یہ آخری حصہ، کسی انسانی فوج کے ذریعے نہیں، بلکہ قیامتیافتہ ممسوح مسیحیوں سمیت، ’آسمان میں موجود افواج‘ کی مدد سے، ”خدا کے کلام“، بادشاہ یسوع مسیح کے ذریعے پورا کِیا جائے گا۔ ”بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند“ ۷۰ س.ع. میں رومیوں کی طرف سے دی گئی سزا کی نسبت کہیں زیادہ سزا دے گا۔ یہ خدا کے تمام انسانی مخالفین—بادشاہوں، ملٹری کمانڈروں، آزاد انسانوں اور غلاموں، چھوٹوں اور بڑوں—کو ختم کر دے گی۔ حتیٰکہ شیطان کی دُنیا کی انسانی تنظیمیں بھی اپنے اختتام کو پہنچ جائینگی،—مکاشفہ ۲:۲۶، ۲۷؛ ۱۷:۱۴؛ ۱۹:۱۱-۲۱؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹۔
۲۲. مزید کس مفہوم میں ”بشر“ بچائے جائینگے؟
۲۲ یاد کریں کہ جب بڑا بابل بڑی مصیبت کے پہلے حصے میں فوری اور مکمل طور پر تباہ ہوتا ہے تو ممسوح بقیہ اور ”بڑی بِھیڑ“ دونوں کے ”بشر“ کو پہلے ہی سے بچا لیا گیا ہوگا۔ اسی طرح مصیبت کے آخری حصے میں، جو ”بشر“ یہوواہ کی طرف بھاگ گئے ہونگے وہ بچا لئے جائینگے۔ یہ ۷۰ س.ع. میں باغی یہودیوں کے انجام سے کسقدر مختلف ہوگا!
۲۳. بچنے والے ”بشر“ کس چیز کے منتظر ہو سکتے ہیں؟
۲۳ اپنے اور اپنے عزیزوں کے مستقبل کے امکانات پر غور کرتے ہوئے، نوٹ فرمائیں کہ مکاشفہ ۷:۱۶، ۱۷ میں کیا وعدہ کِیا گیا ہے: ”اسکے بعد نہ کبھی انکو بھوک لگے گی نہ پیاس نہ کبھی انکو دھوپ ستائیگی نہ گرمی کیونکہ جو برّہ تخت کے بیچ میں ہے وہ انکی گلہبانی کریگا اور انہیں آبِحیات کے چشموں کے پاس لے جائیگا اور خدا انکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔“ یقیناً، یہ واقعی شاندار، دائمی مفہوم میں ”بچایا“ جانا ہے۔ (۱۵ ۰۸/۱۵ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a دیکھیں یکم جون، ۱۹۹۶ کا دی واچٹاور، صفحات ۱۴-۱۹۔
b جوزیفس بیان کرتا ہے: ”جب ٹائٹس داخل ہوا تو وہ شہر کی مضبوطی سے حیران ہو گیا . . . وہ پکار اُٹھا: ’خدا ہمارے ساتھ رہا ہے؛ یہ خدا ہی ہے جس نے یہودیوں کو ان محکم قلعوں سے نیچے اُتارا؛ کیونکہ انسانی ہاتھ یا ہتھیار ان محکم قلعوں کے خلاف کیا کر سکتے تھے؟‘“
c دلچسپی کی بات ہے، شم-طوب کا متی ۲۴:۲۲ کا بیان عبرانی لفظ ’آوُر‘ استعمال کرتا ہے، جسکا مطلب ہے ”کے واسطے، کی خاطر، کی غرض سے۔“—پچھلا مضمون، دیکھیں صفحہ ۸۔
d دیکھیں مئی ۱۹۹۴ کا مینارِنگہبانی صفحات ۱۸ اور ۱۹، اور صفحات ۲۴ اور ۲۵ پر چارٹ جو متی ۲۴، مرقس ۱۳ اور لوقا ۲۱ میں یسوع کے نبوّتی جواب کو متوازی کالموں میں بیان کرتا ہے۔
e ۱۹۸۸ میں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیویارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ ریولیشن—اِٹس گرینڈ کلائمکس ایٹ ہینڈ!، صفحات ۲۳۵-۵۸ کو دیکھیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ یروشلیم پر رومی فوج کے حملے کے کونسے دو دَور تھے؟
▫ یہ کیوں بعیدازقیاس ہے کہ ۷۰ س.ع. میں بچنے والے ۹۷،۰۰۰ یہودیوںنے متی ۲۴:۲۲ میں مذکورہ ”بشر“ کو تشکیل دیا؟
▫ یروشلیم کی بربادی کے دن کیسے گھٹائے گئے تھے، اور یوں ”بشر“ کیسے بچائے گئے تھے؟
▫ آنے والی بڑی مصیبت میں، کیسے دن گھٹائے جائینگے اور ”بشر“ بچائے جائینگے؟