”پڑھنے والا سمجھ لے“
”جب تم اُس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو . . . مُقدس مقام میں کھڑا ہؤا دیکھو . . . تو جو یہوؔدیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔“—متی ۲۴:۱۵، ۱۶۔
۱. لوقا ۱۹:۴۳، ۴۴ میں پیشکردہ یسوع کی آگاہی کا کیا انجام ہوا تھا؟
کسی آنے والی آفت سے آگاہ ہونا ہمیں اُس سے بچنے کے قابل بناتا ہے۔ (امثال ۲۲:۳) پس ۶۶ س.ع. میں رومیوں کے حملے کے بعد یروشلیم کے مسیحیوں کی حالت کا تصور کیجئے۔ یسوع آگاہ کر چکا تھا کہ شہر کا محاصرہ کرنے کے بعد اُسے برباد کر دیا جائے گا۔ (لوقا ۱۹:۴۳، ۴۴) بیشتر یہودیوں نے اُس کی بات پر کوئی دھیان نہ دیا۔ تاہم اُس کے شاگردوں نے اُس کی آگاہی پر دھیان دیا۔ نتیجتاً، وہ ۷۰ س.ع. کی آفت سے بچ گئے۔
۲، ۳. ہمیں متی ۲۴:۱۵-۲۱ میں درج یسوع کی پیشینگوئی میں کیوں دلچسپی لینی چاہئے؟
۲ آجکل ہمارے لئے یسوع نے ایک پُرمطلب پیشینگوئی میں مرکب نشان پیش کِیا جس میں جنگیں، کال، بھونچال، وبائیں اور خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے والے مسیحیوں کی اذیت شامل ہے۔ (متی ۲۴:۴-۱۴؛ لوقا ۲۱:۱۰-۱۹) یسوع نے ایک اشارہ بھی دیا جس سے اُس کے شاگردوں کی یہ سمجھنے میں مدد ہوگی کہ خاتمہ قریب ہے—’اُجاڑنے والی مکروہ چیز کا مُقدس مقام پر کھڑا ہونا۔‘ (متی ۲۴:۱۵) آئیے اُن معنیخیز الفاظ کا دوبارہ جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ اب اور مستقبل میں ہماری زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
۳ نشان پیش کرنے کے بعد یسوع نے کہا: ”جب تم اس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو جس کا ذکر دانیؔایل نبی کی معرفت ہؤا۔ مُقدس مقام میں کھڑا ہؤا دیکھو (پڑھنے والا سمجھ لے)۔ تو جو یہوؔدیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ جو کوٹھے پر ہو وہ اپنے گھر کا اسباب لینے کو نیچے نہ اُترے۔ اور جو کھیت میں ہو وہ اپنا کپڑا لینے کو پیچھے نہ لوٹے۔ مگر افسوس اُن پر جو اُن دنوں میں حاملہ ہوں اور جو دودھ پلاتی ہوں! پس دُعا کرو کہ تمکو جاڑوں میں یا سبت کے دن بھاگنا نہ پڑے۔ کیونکہ اس وقت ایسی بڑی مصیبت ہوگی کہ دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔“—متی ۲۴:۱۵-۲۱۔
۴. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ متی ۲۴:۱۵ کی پہلی صدی میں تکمیل ہوئی تھی؟
۴ مرقس اور لوقا کے بیانات ضمنی تفصیلات پیش کرتے ہیں۔ جہاں متی ”مُقدس مقام میں کھڑا“ استعمال کرتا ہے وہاں مرقس ۱۳:۱۴ کہتی ہے کہ ”جہاں اُس کا کھڑا ہونا روا نہیں۔“ لوقا ۲۱:۲۰ یسوع کے ان الفاظ کا اضافہ کرتی ہے: ”جب تم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گھرا ہؤا دیکھو تو جان لینا کہ اس کا اجڑ جانا نزدیک ہے۔“ اس سے یہ سمجھنے میں ہماری مدد ہوتی ہے کہ پہلی تکمیل یروشلیم اور اس کی ہیکل—ایک ایسی جگہ جو یہودیوں کی نظر میں تو مُقدس تھی مگر یہوواہ کی نظر میں مُقدس نہیں رہی تھی—پر رومی حملے پر مشتمل تھی جس کا آغاز ۶۶ س.ع. میں ہوا۔ مکمل تباہی اُس وقت ہوئی جب رومیوں نے ۷۰ س.ع. میں شہر اور ہیکل دونوں کو تباہ کر دیا۔ اُس وقت ”مکروہ چیز“ کیا تھی؟ نیز یہ ’مُقدس مقام میں کیسے کھڑی ہوئی تھی‘؟ ان سوالات کے جواب جدید زمانہ کی تکمیل کی وضاحت کرنے میں مددگار ثابت ہونگے۔
۵، ۶. (ا) دانیایل ۹ باب کے قارئین کو سمجھ کی ضرورت کیوں تھی؟ (ب) ”مکروہ چیز“ کی بابت یسوع کی پیشینگوئی کیسے پوری ہوئی تھی؟
۵ یسوع نے پڑھنے والوں کو سمجھ سے کام لینے کی تاکید کی۔ کس چیز کے پڑھنے والے؟ غالباً، دانیایل ۹ باب کے پڑھنے والے۔ اس میں ہمیں مسیحا کے ظہور کی بابت پیشینگوئی ملتی ہے جس کے مطابق اُسے ساڑھے تین سال کے بعد ”قتل“ کِیا جائیگا۔ پیشینگوئی بیان کرتی ہے: ”فصیلوں پر اجاڑنے والی مکروہات رکھی جائینگی یہاں تک کہ بربادی کمال کو پہنچ جائیگی اور وہ بلا جو مقرر کی گئی ہے اُس اُجاڑنے والے پر واقع ہوگی۔“—دانیایل ۹:۲۶، ۲۷؛ نیز دانیایل ۱۱:۳۱؛ ۱۲:۱۱ کو بھی دیکھیں۔
۶ یہودیوں کا خیال تھا کہ اس بات کا اطلاق اُس وقت ہوا جب تقریباً ۲۰۰ سال قبل انطاکس چہارم نے ہیکل کی بےحُرمتی کی تھی۔ تاہم، یسوع نے سمجھ سے کام لینے کی تاکید کرتے ہوئے فرق نظریہ پیش کِیا کیونکہ ”مکروہ چیز“ کا ظہور اور ”مُقدس مقام“ میں کھڑا ہونا ابھی باقی تھا۔ یسوع بدیہی طور پر رومی فوج کا ذکر کر رہا تھا جو ۶۶ س.ع. میں اپنے امتیازی نشانوں کیساتھ آئیگی۔ طویل مدت سے استعمال ہونے والے یہ نشان درحقیقت بُت تھے اور یہودیوں کیلئے مکروہ تھے۔a تاہم، رومی فوجی کب ’مُقدس مقام میں کھڑے‘ ہونگے؟ ایسا اُس وقت ہوا جب رومی فوج اپنے نشانوں کیساتھ یروشلیم اور اسکی ہیکل پر حملہآور ہوئی جسے یہودی مُقدس خیال کرتے تھے۔ رومیوں نے تو ہیکل کی دیوار میں رخنہ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ واقعی، جس چیز کو مدتوں سے مکروہ سمجھا جاتا تھا وہی اب مُقدس مقام میں کھڑی تھی!—یسعیاہ ۵۲:۱؛ متی ۴:۵؛ ۲۷:۵۳؛ اعمال ۶:۱۳۔
جدید زمانہ کی ”مکروہ چیز“
۷. ہمارے زمانے میں یسوع کی کونسی پیشینگوئی زیرِتکمیل ہے؟
۷ پہلی عالمی جنگ سے ہم نے متی ۲۴ باب میں درج یسوع کے نشان کی بڑی تکمیل دیکھی ہے۔ پھربھی، اُسکے الفاظ کو یاد کیجئے: ”جب تم اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کو . . . مُقدس مقام میں کھڑا ہؤا دیکھو . . . تو جو یہوؔدیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔“ (متی ۲۴:۱۵، ۱۶) پیشینگوئی کے اس پہلو کی تکمیل بھی ہمارے زمانے میں ہونی چاہئے۔
۸. کئی سالوں سے، یہوواہ کے گواہوں نے جدید زمانہ میں ”مکروہ چیز“ کی شناخت کیسے کی ہے؟
۸ اس پیشینگوئی کی تکمیل پر یہوواہ کے خادموں کے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، جنوری ۱، ۱۹۲۱ کے دی واچٹاور نے مشرقِوسطیٰ میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کے سلسلے میں اس نقطے پر توجہ مبذول کرائی۔ بعدازاں، دسمبر ۱۵، ۱۹۲۹ کے شمارے میں، صفحہ ۳۷۴ پر دی واچٹاور نے قطعی طور پر بیان کِیا: ”لیگ آف نیشنز کا سارا دھیان لوگوں کو خدا اور مسیح سے منحرف کرنے پر لگا ہے، اس لئے یہ اُجاڑنے والی چیز، شیطان کی بنائی ہوئی ہے اور خدا کی نظر میں قابلِنفرت ہے۔“ لہٰذا، ۱۹۱۹ میں ”مکروہ چیز“ ظاہر ہوئی۔ وقت آنے پر لیگ نے اقوامِمتحدہ کے لئے راہ ہموار کر دی۔ یہوواہ کے گواہوں نے طویل عرصے سے امن کی دعویدار ان انسانی تنظیموں کو خدا کی نظر میں مکروہ چیزوں کے طور پر بےنقاب کِیا ہے۔
۹، ۱۰. بڑی مصیبت کی بابت پہلی سمجھ سے اُس وقت کی بابت ہمارا نظریہ کیسے متاثر ہوا جب ”مکروہ چیز“ مُقدس مقام میں کھڑی ہوگی؟
۹ گزشتہ مضمون نے متی ۲۴ اور ۲۵ ابواب کے بیشتر حصے کی بابت واضح نظریے کی تلخیص کی تھی۔ کیا ’مُقدس مقام میں کھڑی مکروہ چیز‘ کی بابت کچھ وضاحت موزوں رہیگی؟ یقیناً موزوں رہیگی۔ یسوع کی پیشینگوئی ”مُقدس مقام میں کھڑے“ ہونے کو ”مصیبت“ کیساتھ منسلک کرتی ہے۔ لہٰذا، ”مکروہ چیز“ کے طویل عرصے سے موجود ہونے کے باوجود، اسکے ”مُقدس مقام میں کھڑا“ ہونے اور بڑی مصیبت کے مابین تعلق کو ہماری سوچ پر اثرانداز ہونا چاہئے۔ کیسے؟
۱۰ خدا کے لوگوں نے ایک مرتبہ خیال کِیا تھا کہ بڑی مصیبت کا پہلا مرحلہ ۱۹۱۴ میں شروع ہوا اور آخری مرحلہ ہرمجدون کی جنگ ہوگا۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶؛ مقابلہ کریں دی واچٹاور، اپریل ۱، ۱۹۳۹، صفحہ ۱۱۰۔) لہٰذا، ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کیوں خیال کِیا جاتا تھا کہ زمانۂحال کی ”مکروہ چیز“ پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد مُقدس مقام پر کھڑی ہوئی ہوگی۔
۱۱، ۱۲. بڑی مصیبت کی بابت ۱۹۶۹ میں کونسا تصحیحشُدہ نظریہ پیش کِیا گیا تھا؟
۱۱ تاہم، بعد کے سالوں میں ہم واقعات کو مختلف زاویۂنگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ جمعرات، جولائی ۱۰، ۱۹۶۹ کو نیو یارک سٹی میں ”زمین پر امن“ انٹرنیشنل اسمبلی کے موقع پر، اُس وقت واچ ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے نائب صدر، ایف. ڈبلیو. فرینز نے ایک نہایت ہیجانخیز تقریر پیش کی۔ یسوع کی پیشینگوئی کی سابقہ سمجھ پر نظرثانی کرتے ہوئے، بھائی فرینز نے کہا: ”یہ بیان کِیا گیا تھا کہ ’بڑی مصیبت‘ ۱۹۱۴ میں شروع ہو گئی تھی مگر اسے مکمل نہیں ہونے دیا گیا تھا بلکہ خدا نے نومبر ۱۹۱۸ میں پہلی عالمی جنگ کو روک دیا۔ اُس وقت سے لیکر خدا برگزیدہ مسیحیوں کے ممسوح بقیے کے کام کیلئے وقت دے رہا ہے، اس سے پیشتر کہ وہ ہرمجدون کی جنگ پر ’بڑی مصیبت‘ کے آخری مرحلے کو شروع کرے۔“
۱۲ پھر تصحیحشُدہ وضاحت پیش کی گئی: ”پہلی صدی کے واقعات کی مطابقت میں، . . . حقیقی ’بڑی مصیبت‘ کا آغاز ۱۹۱۴ س.ع. میں نہیں ہوا تھا۔ اسکے برعکس، ۱۹۱۴-۱۹۱۸ تک یروشلیم کے جدید نمونے پر جوکچھ واقع ہوا وہ محض ’مصیبتوں کا شروع تھا‘ . . . ایسی ’بڑی مصیبت‘ جو کبھی وقوع میں نہیں آئیگی ابھی واقع ہونی ہے کیونکہ اسکا مطلب جھوٹے مذہب (بشمول دُنیائےمسیحیت) کی عالمی مملکت کی تباہی ہے جس کے بعد ہرمجدون پر ’قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم کی جنگ‘ ہوگی۔“ اسکا مطلب یہ ہوا کہ تمامتر بڑی مصیبت کا واقع ہونا ابھی باقی ہے۔
۱۳. یہ کہنا منطقی کیوں ہے کہ ”مکروہ چیز“ مستقبل میں ’مُقدس مقام میں کھڑی‘ ہوگی؟
۱۳ اسکا اس بات کی سمجھ سے براہِراست تعلق ہے کہ ”مکروہ چیز“ مُقدس مقام میں کب کھڑی ہوتی ہے۔ یاد کریں کہ پہلی صدی میں کیا واقع ہوا تھا۔ رومیوں نے ۶۶ س.ع. میں یروشلیم پر حملہ کِیا مگر وہ اچانک واپس چلے گئے جس سے مسیحی ”بشر“ کو بچ جانے کا موقع مل گیا۔ (متی ۲۴:۲۲) اسی طرح، ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ جلد ہی بڑی مصیبت شروع ہوگی لیکن خدا کے برگزیدوں کی خاطر اسے گھٹایا جائیگا۔ اس اہم بات پر غور کیجئے: قدیم نمونے کے مطابق، ’مکروہ چیز کے مُقدس مقام میں کھڑے‘ ہونے کو ۶۶ س.ع. میں جنرل گیلس کی زیرِکمان رومی حملے کیساتھ جوڑا گیا تھا۔ اس حملے کا جدید مماثل—بڑی مصیبت کا آغاز—ابھی مستقبل کی بات ہے۔ لہٰذا ”اُجاڑنے والی مکروہ چیز“ کا جو ۱۹۱۹ سے موجود ہے، بدیہی طور پر مُقدس مقام میں کھڑا ہونا ابھی باقی ہے۔b یہ کیسے واقع ہوگا؟ نیز اس سے ہم کس طرح متاثر ہو سکتے ہیں؟
آئندہ حملہ
۱۴، ۱۵. مکاشفہ ۱۷ باب ہرمجدون کا سبب بننے والے واقعات کو سمجھنے میں کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟
۱۴ مکاشفہ کی کتاب جھوٹے مذہب پر مستقبل میں ایک تباہکُن حملے کی بابت بیان کرتی ہے۔ باب ۱۷ ”بڑے . . . بابلؔ۔ کسبیوں . . . کی ماں“—جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت—کے خلاف خدائی عدالت کی تصویرکشی کرتا ہے۔ مسیحی دُنیا اس میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور خدا کیساتھ عہد کے رشتے میں ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ (مقابلہ کریں یرمیاہ ۷:۴۔) مسیحی دُنیا سمیت، جھوٹے مذاہب نے طویل مدت سے ”زمین کے بادشاہوں“ کیساتھ ناجائز تعلقات رکھے ہیں لیکن یہ تعلقات ان مذاہب کی تباہی کے وقت ختم ہو جائینگے۔ (مکاشفہ ۱۷:۲، ۵) کس کے ہاتھوں؟
۱۵ مکاشفہ ایک ”قرمزی رنگ کے حیوان“ کی تصویرکشی کرتا ہے جو کچھ وقت رہنے کے بعد غائب ہو جاتا ہے مگر پھر واپس آ جاتا ہے۔ (مکاشفہ ۱۷:۳، ۸) عالمی حکمران اس حیوان کی حمایت کرتے ہیں۔ پیشینگوئی میں فراہمکردہ تفصیلات سے اس علامتی حیوان کی شناخت کرنے میں مدد ہوتی ہے کہ یہ امن کی علمبردار تنظیم ہے جو ۱۹۱۹ میں لیگ آف نیشنز (”مکروہ چیز“) کے رُوپ میں وجود میں آئی اور اب یہ اقوامِمتحدہ ہے۔ مکاشفہ ۱۷:۱۶، ۱۷ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا اس ”حیوان“ میں شامل بعض ممتاز انسانی حکمرانوں کے دلوں میں جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کو برباد کرنے کا خیال ڈالیگا۔ یہ حملہ بڑی مصیبت کے آغاز کا نشان ہوگا۔
۱۶. مذہب کے سلسلے میں کونسی قابلِغور تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں؟
۱۶ چونکہ بڑی مصیبت کا آغاز ابھی مستقبل کی بات ہے اس لئے کیا ”مُقدس مقام میں کھڑا“ ہونا بھی مستقبل میں ہوگا؟ بدیہی طور پر ایسا ہی ہے۔ اگرچہ ”مکروہ چیز“ اس صدی کے اوائل میں ظاہر ہوئی اور عشروں سے موجود ہے، تاہم یہ مستقبلقریب میں ایک منفرد طریقے سے ”مُقدس مقام میں“ کھڑی ہوگی۔ جیسے مسیح کے پہلی صدی کے پیروکار یہ دیکھنے کے بڑے مشتاق تھے کہ ”مُقدس مقام میں کھڑا“ ہونا کیسے واقع ہوتا ہے ویسے ہی زمانۂجدید کے مسیحی بھی یہ دیکھنے کے مشتاق ہیں۔ مسلمہ طور پر، تمام تفصیلات جاننے کے لئے ہمیں حقیقی تکمیل کا انتظار کرنا پڑے گا۔ تاہم، یہ بات قابلِغور ہے کہ بعض ممالک میں مذہب کے لئے پہلے ہی بڑھتی ہوئی مخالفت کا عام رُجحان پایا جاتا ہے۔ سچے ایمان سے پھر جانے والے سابقہ مسیحیوں کے ساتھ ملکر بعض سیاسی عناصر بالعموم مذہب اور بالخصوص سچے مسیحیوں کے خلاف دشمنی کو فروغ دے رہے ہیں۔ (زبور ۹۴:۲۰، ۲۱؛ ۱-تیمتھیس ۶:۲۰، ۲۱) لہٰذا، سیاسی طاقتیں تو اب بھی ”برّہ سے“ لڑتی ہیں اور مکاشفہ ۱۷:۱۴ کے مطابق یہ لڑائی شدت اختیار کرے گی۔ اگرچہ وہ حقیقی معنوں میں خدا کے برّے—اپنی سربلند اور جلالی حالت میں یسوع مسیح—پر ہاتھ نہیں ڈال سکیں گے، تاہم وہ خاص طور پر خدا کے سچے پرستاروں، اُسکے ”مُقدسوں“ کے خلاف مزید مخالفت کا اظہار کرینگے۔ (دانیایل ۷:۲۵؛ مقابلہ کریں رومیوں ۸:۲۷؛ کلسیوں ۱:۲؛ مکاشفہ ۱۲:۱۷۔) ہمارے پاس الہٰی یقیندہانی ہے کہ برّہ اور اُسکے ساتھی فتح پائینگے۔—مکاشفہ ۱۹:۱۱-۲۱۔
۱۷. راسخالاعتقادی کے بغیر، ہم ”مکروہ چیز“ کے مُقدس مقام میں کھڑے ہونے کی بابت کیا کہہ سکتے ہیں؟
۱۷ ہم جانتے ہیں کہ تباہی جھوٹے مذہب کی منتظر ہے۔ بڑا بابل ”مُقدسوں کا خون . . . پینے سے متوالا“ ہے اور ایک ملکہ بنا بیٹھا ہے لیکن اُسکی تباہی یقینی ہے۔ جب انکا رشتہ ’دس سینگوں اور حیوان‘ کی طرف سے متشدّد عداوت کی صورت اختیار کرتا ہے تو زمین کے بادشاہوں پر اسکا ناپاک اثر ڈرامائی حد تک بدل جاتا ہے۔ (مکاشفہ ۱۷:۶، ۱۶؛ ۱۸:۷، ۸) جب ”قرمزی رنگ کا حیوان“ مذہبی کسبی پر حملہآور ہوتا ہے تو ”مکروہ چیز“ مسیحی دُنیا کے نامنہاد مُقدس مقام میں پُرخطر انداز میں کھڑی ہوگی۔c اس طرح بیوفا مسیحی دُنیا کی تباہی شروع ہوگی جو خود کو مُقدس ظاہر کرتی ہے۔
”بھاگ جانا“—کیسے؟
۱۸، ۱۹. اس بات کو واضح کرنے کیلئے کونسی وجوہات پیش کی گئی ہیں کہ ”پہاڑوں پر بھاگ“ جانے کا مطلب مذہب تبدیل کرنا نہیں ہوگا؟
۱۸ ’مکروہ چیز کے مُقدس مقام میں کھڑے ہونے‘ کی پیشینگوئی کرنے کے بعد، یسوع نے سمجھنے والوں کو کارروائی کرنے کی آگاہی دی۔ کیا اُسکا مطلب یہ تھا کہ آخری لمحے پر—جب ”مکروہ چیز مُقدس مقام میں کھڑی“ ہوتی ہے—بہتیرے جھوٹے مذہب سے بھاگ کر سچی پرستش اختیار کر لینگے؟ ہرگز نہیں۔ پہلی تکمیل پر غور کیجئے۔ یسوع نے فرمایا: ”اُس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ جو کوٹھے پر ہو وہ اپنے گھر سے کچھ لینے کو نہ نیچے اُترے نہ اندر جائے۔ اور جو کھیت میں ہو وہ اپنا کپڑا لینے کو پیچھے نہ لوٹے۔ مگر اُن پر افسوس جو اُن دنوں میں حاملہ ہوں اور دودھ پلاتی ہوں! اور دُعا کرو کہ یہ جاڑوں میں نہ ہو۔“—مرقس ۱۳:۱۴-۱۸۔
۱۹ یسوع نے یہ نہیں کہا تھا کہ جو یروشلیم میں ہیں صرف اُنہی کو بھاگنے کی ضرورت ہے، گویا کہ اُس کا نکتہ یہ تھا کہ اُنہیں یہودی پرستش کے مرکز سے نکل جانے کی ضرورت تھی؛ نہ ہی اُس کی آگاہی نے مذہب بدلنے—جھوٹے کو چھوڑ کر سچے کو اختیار کرنے—کا اشارہ دیا تھا۔ یسوع کے شاگردوں کو ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے کی جانب بھاگنے کے سلسلے میں آگاہی کی ضرورت نہیں تھی، وہ تو پہلے ہی سے سچے مسیحی بن چکے تھے۔ نیز ۶۶ س.ع. کے حملے نے یروشلیم اور تمام یہودیہ میں یہودیت کے پیروکاروں کو اس مذہب کو چھوڑ کر مسیحیت قبول کرنے کی تحریک نہیں دی تھی۔ پروفیسر ہنرک گرٹس بیان کرتا ہے کہ پسپا ہونے والے رومیوں کا تعاقب کرنے والے شہر میں واپس آئے: ”زیلوتیس فتح کے جنگی نعرے لگاتے ہوئے (۸ اکتوبر) یروشلیم واپس آئے، اُن کے دل آزادی اور خودمختاری کے مسرور جذبے سے معمور تھے۔ . . . کیا خدا نے اُن کے باپدادا کی طرح اُن کی بھی رحم کے ساتھ مدد نہیں کی تھی؟ زیلوتیس کے دلوں میں آئندہ کے لئے کوئی خدشہ نہیں تھا۔“
۲۰. ابتدائی شاگردوں نے پہاڑوں پر بھاگ جانے کی بابت یسوع کی آگاہی کیلئے کیسا جوابیعمل دکھایا تھا؟
۲۰ تاہم، اُس وقت برگزیدوں کے نسبتاً چھوٹے سے گروہ نے یسوع کی نصیحت پر کیسے عمل کِیا؟ یہودیہ کو چھوڑ کر یردن پار پہاڑوں پر بھاگ جانے سے اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ سیاسی یا مذہبی اعتبار سے یہودی نظام کا حصہ نہیں تھے۔ اُنہوں نے اپنے کھیت اور گھر چھوڑ دئے حتیٰکہ اپنے گھروں سے مالواسباب بھی نہ لیا۔ یہوواہ کی حفاظت اور کفالت پر اعتماد رکھتے ہوئے، اُنہوں نے اُس کی پرستش کو ہر چیز پر فضیلت دی جو شاید اہم دکھائی دیتی تھی۔—مرقس ۱۰:۲۹، ۳۰؛ لوقا ۹:۵۷-۶۲۔
۲۱. جب ”مکروہ چیز“ حملہآور ہوتی ہے تو ہمیں کیا توقع کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
۲۱ اب، بڑی تکمیل پر غور کیجئے۔ ہم کئی عشروں سے لوگوں کو جھوٹے مذہب سے نکل کر سچی پرستش اختیار کرنے کی تاکید کر رہے ہیں۔ (مکاشفہ ۱۸:۴، ۵) لاکھوں ایسا کر بھی چکے ہیں۔ یسوع کی پیشینگوئی یہ ظاہر نہیں کرتی کہ ”بڑی مصیبت“ کے آغاز پر لوگ بڑی تعداد میں سچی پرستش کی طرف رجوع کرینگے؛ یقیناً ۶۶ س.ع. میں یہودیوں کی بڑی تعداد نے مذہب تبدیل نہیں کِیا تھا۔ تاہم، سچے مسیحیوں کو یسوع کی آگاہی کا اطلاق کرنے اور بھاگ جانے کیلئے بڑا محرک حاصل ہوگا۔
۲۲. پہاڑوں پر بھاگ جانے کی یسوع کی نصیحت کا اطلاق کرنے میں کیا کچھ شامل ہو سکتا ہے؟
۲۲ ہم ابھی تو بڑی مصیبت کی بابت پوری تفصیلات حاصل نہیں کر سکتے مگر ہم منطقی طور پر یہ نتیجہ ضرور اخذ کر سکتے ہیں کہ جس بھاگ جانے کا یسوع نے ذکر کِیا وہ ہمارے لئے جغرافیائی لحاظ سے نہیں ہوگا۔ خدا کے لوگ پہلے ہی پوری دُنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ تاہم، ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب بھاگنا ضروری ہوگا تو مسیحیوں کو اپنے اور جھوٹی مذہبی تنظیموں کے درمیان واضح فرق کو قائم رکھنا پڑے گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یسوع نے کپڑے یا دیگر اشیاء لینے کے لئے واپس گھر جانے سے بھی خبردار کِیا تھا۔ (متی ۲۴:۱۷، ۱۸) پس ایسی آزمائشیں بھی آ سکتی ہیں کہ ہم مادی چیزوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؛ کیا وہ سب سے اہم ہیں یا خدا کی طرف سے سب لوگوں کے لئے نجات زیادہ اہم ہے؟ جیہاں، ہمارے بھاگ جانے میں کچھ تکالیف اور نقصانات شامل ہو سکتے ہیں۔ یہودیہ سے یردن پار پریہ میں بھاگ جانے والے اپنے پہلی صدی کے مماثلات کی طرح ہمیں بھی ہر ضروری کارروائی کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
۲۳، ۲۴. (ا) ہمیں صرف کہاں تحفظ ملے گا؟ (ب) ’مکروہ چیز کے مُقدس مقام پر کھڑے‘ ہونے کی بابت یسوع کی آگاہی کا ہم پر کیا اثر ہونا چاہئے؟
۲۳ ہمیں یقین کر لینا چاہئے کہ یہوواہ اور اُس کی پہاڑنما تنظیم ہی کو ہماری پناہگاہ رہنا چاہئے۔ (۲-سموئیل ۲۲:۲، ۳؛ زبور ۱۸:۲؛ دانیایل ۲:۳۵، ۴۴) ہمیں یہیں تحفظ ملے گا! ہمیں اُن انسانوں کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ”پہاڑوں کے غاروں اور چٹانوں“—بڑے بابل کی تباہی کے بعد تھوڑا عرصہ قائم رہنے والی انسانی تنظیموں اور اداروں—کی طرف بھاگیں گے۔ (مکاشفہ ۶:۱۵؛ ۱۸:۹-۱۱) سچ ہے کہ حالات اَور بھی کٹھن ہو سکتے ہیں—جیسےکہ یہ ۶۶ س.ع. میں یروشلیم سے بھاگنے والی حاملہ عورتوں کے لئے یا سرد، برساتی موسم میں سفر کرنے والے کسی بھی شخص کے لئے تھے۔ تاہم، ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا بچ نکلنا ممکن بنائے گا۔ بلکہ ہمیں اب بھی یہوواہ اور بادشاہت کے بادشاہ، اُس کے بیٹے پر اپنے توکل کو مضبوط کرنا چاہئے۔
۲۴ ہمیں اس خوف کیساتھ زندگی بسر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ ماضی میں یسوع کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اُسکے شاگرد خوفزدہ ہوں اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم اب یا آنے والے دنوں میں کسی بھی خوف میں مبتلا رہیں۔ اُس نے ہمیں خبردار کِیا ہے تاکہ ہم اپنے دلودماغ کو تیار کر سکیں۔ بہرصورت، جب جھوٹے مذہب اور باقیماندہ بدکار نظام پر تباہی آتی ہے تو فرمانبردار مسیحی سزا نہیں پائینگے۔ وہ سمجھ سے کام لیتے ہوئے ’مکروہ چیز کے مُقدس مقام میں کھڑے‘ ہونے کی بابت آگاہی پر دھیان دینگے۔ نیز وہ اپنے غیرمتزلزل ایمان پر قطعی طور پر عمل کرینگے۔ دُعا ہے کہ ہم یسوع کے اس وعدے کو کبھی نہ بھولیں: ”جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائیگا۔“—مرقس ۱۳:۱۳۔
[فٹنوٹ]
a رومی مندروں میں رومی نشان مذہبی عقیدت کیساتھ بحفاظت رکھے جاتے تھے اور اپنے نشانوں کے لئے رومیوں کی تعظیم اور دیگر اقوام پر اُن کی فضیلت کا آپس میں گہرا تعلق تھا . . . [فوجیوں کے لئے یہ] زمین پر نہایت مُقدس چیز ہوتے تھے۔ رومی فوجی اپنے نشان کی قسم بھی کھاتا تھا۔“—دی انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا، ۱۱واں ایڈیشن۔
b یہ بات قابلِغور ہے کہ ۶۶-۷۰ س.ع. میں یسوع کے الفاظ کی تکمیل نہ صرف یہ سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے کہ بڑی مصیبت کے وقت ان کی تکمیل کیسے ہوگی بلکہ یہ بھی کہ دونوں تکمیلیں بالکل مماثل نہیں ہو سکتیں کیونکہ یہ تکمیلیں فرق پسمنظر میں واقع ہوتی ہیں۔
c دیکھیں دی واچٹاور، دسمبر ۱۵، ۱۹۷۵، صفحات ۷۴۱-۷۴۴۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻پہلی صدی میں ”اُجاڑنے والی مکروہ چیز“ کیسے ظاہر ہوئی تھی؟
◻یہ سوچنا کیوں معقول بات ہے کہ جدید زمانہ کی ”مکروہ چیز“ کسی وقت مستقبل میں مُقدس مقام میں کھڑی ہوگی؟
◻مکاشفہ میں ”مکروہ چیز“ کے کس حملے کی پیشینگوئی کی گئی ہے؟
◻ہم سے کس قسم کے ”بھاگ جانے“ کی توقع کی جا سکتی ہے؟
[صفحہ 16 پر تصویر]
بڑے بابل کو ”کسبیوں . . . کی ماں“ کہا گیا ہے
[صفحہ 17 پر تصویر]
مکاشفہ ۱۷ باب کا قرمزی رنگ کا حیوان ہی وہ ”مکروہ چیز“ ہے جسکا یسوع نے ذکر کِیا تھا
[صفحہ 18 پر تصویر]
حیوان مذہب پر تباہکُن حملے کی پیشوائی کرے گا