جاگتے رہنے کا وقت
”ضرور ہے کہ پہلے سب قوموں میں انجیل کی منادی کی جائے۔ . . . مگر جو آخر تک برداشت کریگا وہ نجات پائیگا۔“—مرقس ۱۳:۱۰، ۱۳۔
۱. ہمیں کیوں برداشت کرنا اور حوصلہ رکھنا چاہئے؟
ہم کو بےایمان اور کجرو نسل کے درمیان برداشت کرنا ہوگا! جیسے یسوؔع کے دِنوں میں تھا بالکل ویسے ہی ۱۹۱۴ سے لے کر لوگوں کی نسل بدکار ہوگئی ہے۔ اور آجکل بُرائی عالمی پیمانے پر ہے۔ اس ”آخری ایّام،“ میں پولسؔ رسول کے بیانکردہ ”تشویشناک ایّام جن سے نپٹنا مشکل ہے“ نوعِانسان کو پریشان کر رہے ہیں۔ ’بُرے اور دھوکاباز آدمی بگڑتے چلے جاتے ہیں۔‘ واضح طور پر، ’ساری دُنیا شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے،‘ یعنی شیطان ابلیس کے قبضہ میں جو زمین کو اب تباہ کرنے کی اپنی حتمی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن حوصلہ رکھیں! ایک ”بڑی مصیبت“ آنے والی ہے جو اُن سب کے لئے جو راستبازی سے محبت رکھتے ہیں مستقل چھٹکارے کا باعث ہوگی۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵، ۱۳، اینڈبلیو؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹؛ مکاشفہ ۷:۱۴۔
۲. ۱۹۱۴ میں پیشینگوئی کی تکمیل کیسے ہوئی تھی؟
۲ خوشی کی بات ہے کہ بنیادی طور پر بنینوع انسان کے استبدادی دُشمنوں کو ختم کرنے کیلئے، یہوؔواہ نے اب خداوند یسوؔع مسیح کو آسمانوں میں تختنشین کر دیا ہے۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۵) جیسےکہ مسیحا کی پہلی آمد کے وقت تھا، اُسی طرح اس صدی میں بھی دانیؔایل کی تحریرکردہ ایک شاندار پیشینگوئی اپنی تکمیل کو پہنچ گئی ہے۔ دانیایل ۴:۱۶، ۱۷، ۳۲، میں ہمیں ”سات دور“ کے لئے زمین پر جائز بادشاہی کو التوا میں ڈالنے کی بابت بتایا گیا ہے۔ اپنی بڑی تکمیل میں، یہ سات دور ۳۶۰ ’دِنوں‘ کے ہر سال کے حساب سے سات بائبلی سالوں یا کُل ۲،۵۲۰ سالوں کے برابر ہیں۔a یہ ۶۰۷ ق.س.ع. سے لیکر، جب بابلؔ نے اسرائیل کی بادشاہت کو پامال کرنا شروع کِیا، ۱۹۱۴ س.ع. میں، آسمان میں یسوؔع کے نوعِانسان کے جائز بادشاہ کے طور پر تختنشینی کے سال تک جاتے ہیں۔ اسکے بعد ”غیرقوموں کی میعاد“ ختم ہو گئی۔ (لوقا ۲۱:۲۴) لیکن قوموں نے آنے والی مسیحائی بادشاہت کو تسلیم کرنے سے انکار کِیا ہے۔—زبور ۲:۱-۶، ۱۰-۱۲؛ ۱۱۰:۱، ۲۔
۳، ۴. (ا) پہلی صدی کے واقعات کا ہمارے زمانے کے واقعات سے کیسے موازنہ کِیا جا سکتا ہے؟ (ب) کونسے متعلقہ سوالات پوچھے جا سکتے ہیں؟
۳ جیسےکہ سالوں کا ۷۰واں ہفتہ (۲۹-۳۶ س.ع.) آ پہنچا تھا، اور ایک بار پھر جب ۱۹۱۴ کا سال نزدیک آ گیا تو خداترس لوگ مسیحا کی آمد کے متوقع تھے۔ اور وہ آ پہنچا! تاہم، ہر معاملے میں، اُس کے ظاہر ہونے کا طریقہ توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ ہر حالت میں بھی، نسبتاً مختصر عرصے کے بعد، ایک شریر ”نسل“ انجامکار الہٰی حکم کے تحت سزا پاتی ہے۔—متی ۲۴:۳۴۔
۴ ہمارے پچھلے مضمون میں، ہم نے دیکھا کہ کیسے کجرو یہودی نسل جس نے یسوؔع کے قتل کا تقاضا کِیا تھا اپنے انجام کو پہنچی۔ تو پھر، بنیآدم کی اس تباہحال نسل کی بابت کیا ہے جوکہ اب بھی اُسکی مخالفت کرتی یا اُسے نظرانداز کرتی ہے؟ اس بےایمان نسل پر سزا کب نافذ ہوگی؟
”جاگتے رہو“!
۵. (ا) کس معقول وجہ کی بنا پر ہمیں یہوؔواہ کے ”دِن اور گھڑی“ کی بابت جاننے کی ضرورت نہیں ہے؟ (ب) مرقسؔ کے مطابق، یسوؔع نے کس قابلِاعتماد نصیحت کیساتھ اپنی پیشینگوئی کا اختتام کِیا؟
۵ ”بڑی مصیبت“ کے وقت کا باعث بننے والے واقعات کی پیشینگوئی کرنے کے بعد، یسوؔع نے مزید کہا: ”لیکن اُس دِن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔“ (متی ۲۴:۳-۳۶؛ مرقس ۱۳:۳-۳۲) ہمیں واقعات کے صحیح وقت کی بابت جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ، ہماری نگاہ جاگتے رہنے، مضبوط ایمان پیدا کرنے اور یہوؔواہ کی خدمت میں مشغول رہنے پر ہونی چاہئے—تاریخ کا حسابکتاب لگانے پر نہیں۔ یسوؔع نے اپنی عظیم پیشینگوئی کا اختتام یہ کہتے ہوئے کِیا: ”خبردار، جاگتے . . . رہو . . .کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئیگا۔ . . . جاگتے رہو . . . جو کچھ مَیں تُم سے کہتا ہوں وہی سب سے کہتا ہوں کہ جاگتے رہو۔“ (مرقس ۱۳:۳۳-۳۷) آجکل کی دُنیا کی تاریکی میں خطرہ پنہاں ہے۔ ہمیں جاگتے رہنا چاہئے!—رومیوں ۱۳:۱۱-۱۳۔
۶. (ا) ہمارے ایمان کو کس چیز پر لنگرانداز ہونا چاہئے؟ (ب) کس طرح ہم ”اپنے دِنوں کو گن“ سکتے ہیں؟ (پ) ”نسل“ سے بنیادی طور پر یسوؔع کی کیا مُراد ہے؟
۶ ہمیں نہصرف اس شریر نظام کے آخری دِنوں کی بابت الہامی پیشینگوئیوں پر ہی توجہ دینی چاہئے بلکہ ہمیں بنیادی طور پر اپنا ایمان مسیح یسوؔع کی بیشقیمت قربانی اور اس پر مبنی خدا کے شاندار وعدوں پر لنگرانداز کرنا چاہئے۔ (عبرانیوں ۶:۱۷-۱۹؛ ۹:۱۴؛ ۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹؛ ۲-پطرس ۱:۱۶-۱۹) اس شریر نظام کا خاتمہ دیکھنے کے مشتاق ہوتے ہوئے، یہوؔواہ کے لوگوں نے بعضاوقات، ۱۹۱۴ کے وقت سے نسل کی عمر کی میعاد جس قدر ہوگی اس کی بابت حسابکتاب کو ”بڑی مصیبت“ کے آنے کے وقت کیساتھ جوڑتے ہوئے اسکی بابت بھی قیاسآرائی کی ہے۔ تاہم، اس کی بابت قیاسآرائی کرنے کی بجائے کہ کتنے سال اور کتنے دِن کی ایک نسل ہوتی ہے، بلکہ اسکی بابت سوچنے سے کہ ہم کیسے خوشی سے یہوؔواہ کی حمد کرنے کا باعث بنتے ہوئے ”اپنے دِنوں کو گن“ سکتے ہیں، ہم ”دانا دِل حاصل کرتے“ ہیں۔ (زبور ۹۰:۱۲) وقت کا شمار کرنے کیلئے کوئی قاعدہ مہیا کرنے کی بجائے، اصطلاح ”نسل“ جیسےکہ یسوؔع نے استعمال کی، بنیادی طور پر ایک زمانے کے لوگوں کا، اُنکی شناختی خصوصیات کیلئے ایک خاص تاریخی وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔b
۷. تاریخ کے ایک پروفیسر نے ”۱۹۱۴ کی نسل“ کی بابت کیا لکھا، اور یہ کیسے یسوؔع کی پیشینگوئی کیساتھ ہمآہنگ ہے؟
۷ مندرجہبالا کی مطابقت میں، تاریخ کے پروفیسر رابرؔٹ وِل نے اپنی کتاب دی جنریشن آف ۱۹۱۴ میں لکھا: ”ایک تاریخی نسل کی وضاحت اُسکی تواریخی حدود سے نہیں ہوتی۔ . . . یہ تاریخوں کا کوئی حلقہ نہیں ہے۔“ لیکن اُس نے نشاندہی کی کہ پہلی عالمی جنگ نے ”ماضی کے مقابلے میں ایک ناقابلِبرداشت احساسِافتراق پیدا کر دِیا“ اور اُس نے مزید کہا: ”وہ جو جنگ سے بچ گئے وہ خود کو کبھی اس خیال سے نجات نہ دِلا سکے کہ اگست ۱۹۱۴ میں ایک دُنیا ختم ہو گئی تھی اور دوسری نے جنم لیا تھا۔“ یہ کسقدر سچ ہے! یہ معاملے کی نزاکت پر توجہ دِلاتا ہے۔ ۱۹۱۴ سے لیکر بنیآدم کی اس ”نسل“ نے خوفناک تبدیلیوں کا تجربہ کِیا ہے۔ اس نے زمین کو لاکھوں کے خون سے تربتر ہوتے دیکھا ہے۔ جنگ، نسلکُشی، دہشتگردی، جُرم اور لاقانونیت پوری دُنیا میں پھوٹ پڑی ہے۔ کال، بیماری اور بداخلاقی نے ہمارے کرہّارض کو آ دبوچا ہے۔ یسوؔع نے پیشینگوئی کی: ”اِسی طرح جب تُم [اُسکے شاگرد] اِن باتوں کو ہوتے دیکھو تو جان لو کہ خدا کی بادشاہی نزدیک ہے۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں، یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔“—لوقا ۲۱:۳۱، ۳۲۔
۸. یہوؔواہ کے نبی جاگتے رہنے کی ضرورت پر کیسے زور دیتے ہیں؟
۸ جیہاں، مسیحائی بادشاہت کی مکمل فتح بالکل قریب ہے! تو پھر، تاریخوں کی تلاش کرنے یا ایک ”نسل“ کے لفظی عرصۂحیات کی بابت قیاسآرائی کرنے سے کیا کچھ حاصل ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! حبقوق ۲:۳ واضح طور پر بیان کرتی ہے: ”یہ رویا ایک مقررہ وقت کیلئے ہے۔ یہ جلد وقوع میں آئیگی اور خطا نہ کریگی۔ اگرچہ اس میں دیر ہو تو بھی اس کا منتظر رہ کیونکہ یہ یقیناً وقوع میں آئیگی۔ تاخیر نہ کریگی۔“ یہوؔواہ کا روزِعدالت بڑی تیزی سے قریب آ رہا ہے۔—یرمیاہ ۲۵:۳۱-۳۳؛ ملاکی ۴:۱۔
۹. ۱۹۱۴ سے لیکر کونسی تبدیلیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وقت بہت کم ہے؟
۹ جب مسیح کی بادشاہتی حکمرانی ۱۹۱۴ میں شروع ہوئی تو شیطان کو زمین پر پھینک دِیا گیا تھا۔ اسکا مطلب ”خشکی اور تری کیلئے افسوس [ہوا ہے] کیونکہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔ اسلئے کہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔“ (مکاشفہ ۱۲:۱۲) بِلاشُبہ، شیطان کی ہزاروں سالوں کی حکمرانی کے مقابلے میں، وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔ بادشاہت بالکل قریب ہے اور اسی طرح اس کجرو نسل پر سزا نافذ کرنے کیلئے یہوؔواہ کا دِن اور گھڑی بھی قریب ہے!—امثال ۳:۲۵؛ ۱۰:۲۴، ۲۵۔
”نسل“ جو ختم ہو جاتی ہے
۱۰. ”یہ نسل“ نوؔح کے زمانے کی نسل کی مانند کیسے ہے؟
۱۰ آیئے متی ۲۴:۳۴، ۳۵ میں یسوؔع کے الفاظ کا بغور جائزہ لیں: ”مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔ آسمان اور زمین ٹل جائینگے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلینگی۔“ یسوؔع کے اگلے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ’اُس دِن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔‘ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں اس نسل میں اپنے اردگرد کے پھندوں سے بچنا چاہئے۔ لہٰذا یسوؔع مزید کہتا ہے: ”جیسا نوؔح کے دِنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِآدم کے آنے کے وقت ہوگا۔ کیونکہ جسطرح طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اُس دِن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہوا۔ اور جب تک طوفان آکر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی اُسی طرح ابنِآدم کا آنا ہوگا۔“ (متی ۲۴:۳۶-۳۹) یہاں یسوؔع نے اپنے زمانے کی نسل کا موازنہ نوؔح کے دِنوں کے لوگوں کیساتھ کِیا۔—پیدایش ۶:۵، ۹؛ فٹنوٹ، اینڈبلیو.
۱۱. جیسےکہ متیؔ اور لوؔقا نے بیان کِیا ہے، یسوؔع نے ’نسلوں‘ کا کونسا موازنہ کِیا؟
۱۱ یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا کہ رسولوں نے یسوؔع کو ’نسلوں‘ کا یہ موازنہ کرتے سنا، کیونکہ کچھ ہی دِن پہلے اُس نے اپنی بابت بیان کِیا تھا: ”ابنِآدم . . . ضرور ہے کہ بہت سے دُکھ اُٹھائے اور اس زمانہ کے لوگ [نسل] اُسے رد کریں۔ اور جیسا نوؔح کے دِنوں میں ہوا تھا اُسی طرح ابنِآدم کے دِنوں میں بھی ہوگا۔“ (لوقا ۱۷:۲۴-۲۶) لہٰذا، متی ۲۴ باب اور لوقا ۱۷ باب ایک ہی جیسا موازنہ کرتے ہیں۔ نوؔح کے دِنوں میں ”ہر بشر [جس] نے زمین پر اپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا“ اور یہی ”وہ نسل“ تھی جو طوفان سے ہلاک ہوئی تھی۔ یسوؔع کے دِنوں میں برگشتہ یہودی لوگ جو یسوؔع کو رد کر رہے تھے وہی ”یہ نسل“ تھے۔—پیدایش ۶:۱۱، ۱۲؛ ۷:۱۔
۱۲، ۱۳. (ا) آجکل ”یہ نسل“ کیا ہے جسکا خاتمہ ضروری ہے؟ (ب) یہوؔواہ کے لوگ کیسے اب اس ”کجرو اور ٹیڑھی نسل“ کیساتھ نپٹ رہے ہیں؟
۱۲ اسلئے، آجکل یسوؔع کی پیشینگوئی کی آخری تکمیل میں، ”یہ نسل“ واضح طور پر اُن اقوام کی طرف اشارہ کرتی ہے جو یسوؔع کی موجودگی کے نشان کو دیکھتے ہیں لیکن اپنے طورطریقے بدلنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اسکے برعکس، ہم یسوؔع کے شاگردوں کے طور پر ”اس نسل“ کے طرزِزندگی میں ڈھلنے سے انکار کرتے ہیں۔ دُنیا میں رہنے کے باوجود، ہمیں اس کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، ”کیونکہ مقررہ وقت نزدیک ہے۔“ (مکاشفہ ۱:۳؛ یوحنا ۱۷:۱۶) پولسؔ رسول ہمیں نصیحت کرتا ہے: ”سب کام شکایت اور تکرار بغیر کیا کرو۔ تاکہ تُم بےعیب اور بھولے ہو کر ٹیڑھے اور کجرو لوگوں میں خدا کے بےنقص فرزند بنے رہو (جنکے درمیان تُم دُنیا میں چراغوں کی طرح دکھائی دیتے ہو)۔“—فلپیوں ۲:۱۴، ۱۵؛ کلسیوں ۳:۵-۱۰؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷۔
۱۳ ہمارے ”چراغوں کیطرح دکھائی دینے“ میں نہ صرف ایک پاکصاف مسیحی شخصیت کا مظاہرہ کرنا ہی بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یسوؔع کے نبوّتی حکم کو پورا کرنا شامل ہے: ”بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ (متی ۲۴:۱۴) کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خاتمہ کب ہوگا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ شریر لوگوں کی ”اس نسل“ کا خاتمہ اُس وقت ہوگا جب خدا کی مرضی کے مطابق ”زمین کی انتہا تک“ گواہی دی جا چکی ہوگی۔—اعمال ۱:۸۔
”[وہ] دِن اور گھڑی“
۱۴. ”دِنوں اور وقتوں“ کی بابت یسوؔع اور پولسؔ دونوں نے کونسی نصیحت کی، اور ہمیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟
۱۴ جب یہوؔواہ کے ارادوں کے مطابق عالمی پیمانے پر گواہی مکمل ہو جائے گی تو وہ اُس کا اِس دُنیا کے نظام کو ختم کرنے کا ”دِن اور گھڑی“ ہوگی۔ ہمیں قبلازوقت تاریخ جاننے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، یسوؔع کے نمونے کی پیروی کرتے ہوئے، پولسؔ رسول نے نصیحت کی: ”مگر اے بھائیو! اسکی حاجت نہیں کہ وقتوں اور موقعوں کی بابت تُم کو کچھ لکھا جائے۔ اس واسطے کہ تُم آپ خوب جانتے ہو کہ خداوند کا دِن اس طرح آنے والا ہے جس طرح رات کو چور آتا ہے۔ جس وقت لوگ کہتے ہونگے کہ سلامتی اور امن ہے اُس وقت اُن پر اس طرح ناگہاں ہلاکت آئیگی جس طرح حاملہ کو درد لگتے ہیں اور وہ ہرگز نہ بچینگے۔“ پولسؔ کی تاکید پر غور کریں: ’جس وقت لوگ کہتے ہونگے۔‘ جیہاں، جب ”سلامتی اور امن“ کا چرچا ہو رہا ہوگا، جب اس بات کی توقع بھی نہیں ہوگی، تو خدا کی طرف سے اچانک سزا نافذ کر دی جائیگی۔ پولسؔ کی نصیحت کسقدر موزوں ہے: ”پس اَوروں کی طرح سو نہ رہیں بلکہ جاگتے اور ہوشیار رہیں“!—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱-۳، ۶؛ نیز دیکھیں آیات ۷-۱۱؛ اعمال ۱:۷۔
۱۵، ۱۶. (ا) ہمیں کیوں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہرمجدون ہماری توقع سے کہیں زیادہ دُور ہے؟ (ب) مستقبل قریب میں یہوؔواہ کی حاکمیت کی کیسے بڑائی کی جانی چاہئے؟
۱۵ کیا ”اس نسل“ کی بابت ہمارے زیادہ درست نقطۂنظر کا یہ مطلب ہے کہ ہرمجدون جیسےکہ ہم نے سوچا تھا اُس سے کہیں دُور ہے؟ ہرگز نہیں! اگرچہ ہم کبھی بھی اُس ”دِن اور گھڑی“ کی بابت نہ جان سکیں، مگر یہوؔواہ ہمیشہ اسے جانتا ہے، اَور وہ بدلتا نہیں۔ (ملاکی ۳:۶) واضح طور پر، دُنیا زیادہ سے زیادہ آخری تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جاگتے رہنے کی ضرورت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ناگزیر ہے۔ یہوؔواہ نے ہم پر ”جن باتوں کا جلد ہونا ضرور ہے“ آشکارا کر دی ہیں، اَور اُن کیلئے ہمیں فوری ضرورت کے احساس کیساتھ جوابیعمل دکھانا چاہئے۔—مکاشفہ ۱:۱؛ ۱۱:۱۸؛ ۱۶:۱۴، ۱۶۔
۱۶ جوں جوں وقت قریب آتا ہے، جاگتے رہیں، کیونکہ یہوؔواہ جلد شیطان کے نظام پر بربادی لانے والا ہے! (یرمیاہ ۲۵:۲۹-۳۱) یہوؔواہ فرماتا ہے: ”اپنی بزرگی اور اپنی تقدیس کراؤنگا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہونگا اور وہ جانیں گے کہ خداوند مَیں ہوں۔“ (حزقیایل ۳۸:۲۳) ”یہوؔواہ کا“ وہ فیصلہکُن ”دِن“ نزدیک آ رہا ہے!—یوایل ۱:۱۵؛ ۲:۱، ۲؛ عاموس ۵:۱۸-۲۰؛ صفنیاہ ۲:۲، ۳۔
راستباز ”نئے آسمان اور نئی زمین“
۱۷، ۱۸. (ا) یسوؔع اور پطرؔس کے مطابق، ”یہ نسل“ کیسے ختم ہوتی ہے؟ (ب) خدائی دینداری اور چالچلن کے نیک کاموں کے سلسلے میں ہمیں کیوں خبردار رہنا چاہئے؟
۱۷ ’اُن تمام باتوں کی بابت ’جنکا واقع ہونا ضرور ہے‘ یسوؔع نے کہا: ”آسمان اور زمین ٹل جائینگے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلینگی۔“ (متی ۲۴:۳۴، ۳۵) عین ممکن ہے کہ یسوؔع کے ذہن میں ”اس نسل“ کے حکمران اور رعایا—”آسمان اور زمین“—تھے۔ پولسؔ رسول نے ”اس وقت کے آسمان اور زمین“ کا حوالہ دیتے ہوئے اسی طرح کے الفاظ استعمال کئے جوکہ ”اسلئے رکھے ہیں کہ جلائے جائیں اور وہ بےدین آدمیوں کی عدالت اور ہلاکت کے دِن تک محفوظ رہیں گے۔“ اسکے بعد وہ بیان کرتا ہے کہ کیسے ”خداوند کا دِن چور کی طرح آ جائیگا۔ اُس دِن [حکومتی] آسمان“ بمع بدکار انسانی معاشرے، یا، ”زمین“ اور اسکے بُرے کاموں کیساتھ ”بڑے شوروغل کیساتھ برباد ہو جائینگے“۔ اسکے بعد رسول ہمیں ”پاک چالچلن اور دینداری“ کی نصیحت کرتا ہے [جبکہ ہم] ”خدا کے اُس دِن کے آنے [کے] منتظر اور مشتاق [ہیں] جسکے باعث آسمان آگ سے پگھل جائینگے اور اجرامِفلک حرارت کی شدت سے گل جائینگے۔“ اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ پطرؔس ہماری توجہ ’نئے آسمان اور نئی زمین‘ کی طرف دِلاتا ہے ’جن میں راستبازی بسی رہیگی۔‘—۲-پطرس ۳:۷، ۱۰-۱۳۔c
۱۸ وہ ”نئے آسمان“ مسیح یسوؔع اور اُس کے ساتھی بادشاہوں کی زیرِحکومت بادشاہت، بنیآدم کے معاشرے کی راستباز ”نئی زمین“ پر برکات نچھاور کریگی۔ کیا آپ اُس معاشرے کے امکانی رُکن ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کے پاس شاندار محفوظ مستقبل کیلئے خوش ہونے کی وجہ ہے!—یسعیاہ ۶۵:۱۷-۱۹؛ مکاشفہ ۲۱:۱-۵۔
۱۹. اب ہم کس عظیم استحقاق سے استفادہ کر سکتے ہیں؟
۱۹ جیہاں، بنیآدم کی راستباز ”نسل“ اب بھی جمع کی جا رہی ہے۔ آجکل ممسوح ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ زبور ۷۸:۱، ۴ کے الفاظ کی مطابقت میں الہٰی تعلیم فراہم کر رہا ہے: ”اے میرے لوگو! میری شریعت کو سنو۔ میرے مُنہ کی باتوں پر کان لگاؤ۔ . . . بلکہ آئندہ پُشت کو بھی خداوند کی تعریف اور اُس کی قدرت اور عجائب جو اُس نے کئے [بتاؤ]۔“ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) اس سال اپریل ۱۴ کو، ۷۵،۵۰۰ سے زیادہ کلیسیاؤں میں اور کوئی ۲۳۰ ممالک میں، پوری زمین پر ۱۲،۰۰۰،۰۰۰ سے زیادہ اشخاص مسیح کی موت کی یادگار پر حاضر ہوئے۔ کیا آپ اُن میں تھے؟ دُعا ہے کہ آپ مسیح یسوؔع پر ایمان لائیں اور ’نجات کیلئے یہوؔواہ کا نام لیں۔‘—رومیوں ۱۰:۱۰-۱۳۔
۲۰. چونکہ ”وقت تنگ ہے،“ ہمیں کیسے جاگتے رہنا چاہئے، اور کس امکان کے پیشِنظر؟
۲۰ پولسؔ رسول نے کہا: ”وقت تنگ ہے۔“ اسلئے، جبکہ ہم بنینوع انسان کی کجرو نسل کی طرف سے لائی جانے والی آزمائشوں اور نفرتوں کو برداشت کرتے ہیں تو یہ ہمیشہ جاگتے رہنے اور یہوؔواہ کے کام میں مشغول رہنے کا وقت ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۹؛ متی ۱۰:۲۲؛ ۲۴:۱۳، ۱۴) بائبل میں پہلے سے بیانکردہ حالتوں کو ”اس نسل“ پر آتے دیکھ کر، آیئے خبردار رہیں۔ (لوقا ۲۱:۳۱-۳۳) ان باتوں سے بچتے ہوئے اور الہٰی کرمفرمائی کے تحت ابنِآدم کے حضور کھڑے ہوتے ہوئے، شاید ہم انجامکار ہمیشہ کی زندگی کا انعام حاصل کر سکیں۔ (۱۶ ۱۱/۰۱ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a ”سات دور“ کی بابت مفصل معلومات کیلئے واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ، کی شائعکردہ کتاب ”لٹ یور کنگڈم کم“ کے صفحات ۱۲۷-۱۳۹، ۱۸۶-۱۸۹ کو دیکھیں۔
b واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ، انسائٹ آن دی سکرپچرز کی جِلد نمبر ۱، صفحہ ۹۱۸ کو دیکھیں۔
c اسکے علاوہ دیکھیں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ آور انکمنگ ورلڈ گورنمنٹ—گاڈز کنگڈم کے صفحات ۱۵۲-۱۵۶۔
نظرِثانی کیلئے سوالات:
▫ دانیایل ۴:۳۲ کی تکمیل پر غور کرنے کے بعد، ہمیں اب کیسے ”جاگتے رہنا“ چاہئے؟
▫ متی اور لوقا کی اناجیل ”اس نسل“ کی شناخت کیسے کراتی ہیں؟
▫ جبکہ ہم ”اُس دِن اور گھڑی“ کا انتظار کرتے ہیں تو ہم کیا دیکھتے ہیں، اور ہمیں کیسا جوابیعمل دکھانا چاہئے؟
▫ راستباز ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کے امکان کو ہمیں کیا کرنے کی حوصلہافزائی دینی چاہئے؟
[تصویریں]
جب یہ پُرتشدد، کجرو نسل ختم ہوتی ہے تو تکلیف میں مبتلا انسانوں کو رہائی ملے گی
[تصویر کا حوالہ]
Alexandra Boulat/Sipa Press
[تصویر کا حوالہ]
Left and below: Luc Delahaye/Sipa Press
[تصویر]
پُرجلال ”نئے آسمان اور نئی زمین“ بنیآدم کی تمام نسلوں کیلئے بالکل عنقریب ہیں