اُمید میں قائم رہیں، محبت سے تحریک پائیں
”غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل اِن میں محبت ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۳۔
۱. پولس رسول ہمیں کیا آگاہی دیتا ہے؟
پولس رسول ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ ایک بحری جہاز کی طرح ہمارا ایمان بھی تباہ ہو سکتا ہے۔ وہ اُس ”ایمان اور . . . نیک نیت پر قائم“ رہنے کا ذکر کرتا ہے ”جسکو دُور کرنے کے سبب سے بعض لوگوں کے ایمان کا جہاز غرق ہو گیا۔“ (۱-تیمتھیس ۱:۱۹) پہلی صدی س.ع. میں، بحری جہاز لکڑی سے بنائے جاتے تھے۔ بحری سفر کیلئے اُنکی موزونیت کا انحصار لکڑی کی قسم اور جہازسازی کی مہارت پر ہوتا تھا۔
۲. ہمارے ایمان کے جہاز کی ساخت مضبوط کیوں ہونی چاہئے اور یہ ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟
۲ ہمارے ایمان کے جہاز کو انسانیت کے متلاطم سمندر میں تیرتے رہنا چاہئے۔ (یسعیاہ ۵۷:۲۰؛ مکاشفہ ۱۷:۱۵) لہٰذا، اسکی ساخت مضبوط ہونی چاہئے جسکا انحصار ہماری ذات پر ہے۔ جب یہودی اور رومی معاشروں کا ”سمندر“ بالخصوص، ابتدائی مسیحیوں کیلئے تُند ہو گیا تو یہوداہ نے لکھا: ”تم اَے پیارو! اپنے پاکترین ایمان میں اپنی ترقی کرکے روحالقدس میں دُعا کرکے۔ اپنے آپ کو خدا کی محبت میں قائم رکھو اور ہمیشہ کی زندگی کے لئے ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کی رحمت کے منتظر رہو۔“ (یہوداہ ۲۰، ۲۱) چونکہ یہوداہ نے ’مُقدسوں کو سونپے گئے ایمان‘ کیلئے جانفشانی کرنے کا ذکر بھی کِیا تھا، اسلئے ”پاکترین ایمان“ کی اصطلاح نجات کی خوشخبری سمیت تمام مسیحی تعلیمات کی طرف اشارہ کر سکتی ہے۔ (یہوداہ ۳) مسیح اس ایمان کی بنیاد ہے۔ حقیقی مسیحی ایمان سے چمٹے رہنے کیلئے ہمیں مضبوط ایمان کی ضرورت ہے۔
”فرقوں کی دہشت“ کے طوفان سے بچ نکلنا
۳. بعض ”فرقوں کی دہشت“ کو کیسے استعمال کر رہے ہیں؟
۳ حالیہ برسوں میں، خفیہ فرقوں کے حوالے سے بڑی تعداد میں خودکُشیوں، قتلوں اور دہشتگردوں کی طرف سے حملوں کے کئی ہولناک واقعات رُونما ہوئے ہیں۔ قابلِفہم طور پر، خلوصدل سیاسی راہنماؤں کے علاوہ بہتیرے افراد نے معصوم لوگوں، بالخصوص نوجوانوں کو ایسے خطرناک فرقوں سے بچانے کے لئے فکرمندی کا اظہار کِیا ہے۔ بِلاشُبہ، ان نفرتانگیز جرائم کی پُشت پر، ”اس جہان کے خدا“ کا ہاتھ ہے جس نے فرقوں کی دہشت کو فروغ دیا ہے اور اسی کو وہ یہوواہ کے لوگوں کے خلاف بھی استعمال کر رہا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ مکاشفہ ۱۲:۱۲) بعض نے ہمارے کام کے لئے مخالفت برپا کرنے کی خاطر اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے۔ بعض ممالک میں، اُنہوں نے لوگوں کو ”خطرناک فرقوں“ سے بظاہر بچانے کے لئے مہم چلائی ہے جن میں غلطی سے یہوواہ کے گواہوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور یوں ہمیں موردِالزام ٹھہرایا گیا ہے۔ اس سے بعض یورپی ممالک میں گھربہگھر گواہی دینے کا کام مشکل ہو گیا ہے اور جو لوگ ہمارے ساتھ بائبل مطالعہ کرتے تھے اُنہوں نے مطالعہ بند کر دیا ہے۔ نتیجتاً، ہمارے بعض بھائیوں پر اس کا منفی اثر ہوا ہے۔
۴. مخالفت کو ہماری حوصلہشکنی کیوں نہیں کرنی چاہئے؟
۴ تاہم، مخالفت کو ہمارے لئے حوصلہشکنی کا باعث بننے کی بجائے ہمارے اس یقین کو مضبوط کرنا چاہئے کہ ہم سچی مسیحیت کو عمل میں لا رہے ہیں۔ (متی ۵:۱۱، ۱۲) ابتدائی مسیحیوں پر فتنہانگیز فرقہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا اور ہر جگہ اُن کے ”خلاف کہتے“ تھے۔ (اعمال ۲۴:۵؛ ۲۸:۲۲) تاہم، پطرس رسول نے اپنے ساتھی ایمانداروں کو یہ لکھتے ہوئے یقیندہانی کرائی: ”اَے پیارو! جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمایش کے لئے تم میں بھڑکی ہے یہ سمجھ کر اُس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر واقع ہوئی ہے۔ بلکہ مسیح کے دُکھوں میں جُوں جُوں شریک ہو خوشی کرو تاکہ اُس کے جلال کے ظہور کے وقت بھی نہایت خوشوخرم ہو۔“ (۱-پطرس ۴:۱۲، ۱۳) اسی طرح، پہلی صدی کی گورننگ باڈی کے ایک رُکن نے لکھا: ”اَے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔“ (یعقوب ۱:۲-۴) جس طرح طوفانی ہوائیں سمندری سفر کیلئے کسی جہاز کی موزونیت کا امتحان ہوتی ہیں اُسی طرح مخالفت کے طوفان ہمارے ایمان کے جہاز کی کمزوریوں کو ظاہر کر دیں گے۔
مصیبت صبر پیدا کرتی ہے
۵. ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ ہمارا ایمان مصیبت میں مستحکم ہے؟
۵ مصیبت کے طوفان سے بچ نکلنے کے بعد ہی مسیحی اپنے صبر اور اپنے ایمان کے استحکام کا یقین کر سکتے ہیں۔ متلاطم سمندر میں ہمارا صبر صرف اُسی صورت میں ”اپنا پورا کام“ کریگا اگر ہم ”پورے اور کامل“ ہیں اور ہم میں ”کسی بات کی کمی“ نہیں جس میں مضبوط ایمان بھی شامل ہے۔ پولس نے لکھا: ”خدا کے خادموں کی طرح ہر بات سے اپنی خوبی ظاہر کرتے ہیں۔ بڑے صبر سے۔ مصیبت سے۔ احتیاج سے۔ تنگی سے۔“—۲-کرنتھیوں ۶:۴۔
۶. ہمیں ”مصیبتوں میں بھی فخر“ کیوں کرنا چاہئے اور یہ ہماری اُمید کو کیسے مضبوط کرتا ہے؟
۶ بعضاوقات، ہمارے تجربے میں آنے والی مصیبت کی طوفانی ہواؤں کو ہمیں اپنے ایمان کے جہاز کو پکا اور مضبوط ثابت کرنے کے مواقع خیال کرنا چاہئے۔ روم کے مسیحیوں کو پولس نے لکھا: ”مصیبتوں میں بھی فخر کریں یہ جان کرکہ مصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے۔ اور صبر سے پختگی اور پختگی سے اُمید پیدا ہوتی ہے۔ اور اُمید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی۔“ (رومیوں ۵:۳-۵) آزمائشوں کے تحت ثابتقدمی ہمارے لئے یہوواہ کی پسندیدگی پر منتج ہوتی ہے۔ اس سے ہماری اُمید مضبوط ہوتی ہے۔
بعض کا جہاز غرق کیوں ہوتا ہے
۷. (ا) پولس کے الفاظ کے مطابق، بعض کو روحانی تباہی کا تجربہ کیسے ہوا ہے؟ (ب) آجکل بعض سچائی سے کیسے منحرف ہو گئے ہیں؟
۷ جب پولس نے ”جہاز غرق“ ہو جانے سے خبردار کِیا تو اُسکے ذہن میں وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے صاف ضمیر کو ”دُور“ کر دیا تھا اور اپنا ایمان کھو چکے تھے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۹) ان میں ہمنیُس اور سکندر شامل تھے جو سچائی سے منحرف ہوکر لعنطعن کرتے ہوئے برگشتگی میں پڑ گئے تھے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۲۰؛ ۲-تیمتھیس ۲:۱۷، ۱۸) آجکل، برگشتہ لوگ جو سچائی سے پھر جاتے ہیں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کو لفظی مار مارتے ہیں، دراصل وہ اُسی ہاتھ کو کاٹ کھاتے ہیں جو اُن کے مُنہ میں روحانی نوالے ڈال رہا تھا۔ بعض ”خراب نوکر“ کی مانند ہیں اور واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ”میرے مالک کے آنے میں دیر ہے۔“ (متی ۲۴:۴۴-۴۹؛ ۲-تیمتھیس ۴:۱۴، ۱۵) وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اس بدکار نظامالعمل کا خاتمہ نزدیک ہے اور یہوواہ کے لوگوں میں فوری تعمیل کے احساس کو برقرار رکھنے کیلئے روحانی طور پر چوکس نوکر جماعت پر نکتہچینی کرتے ہیں۔ (یسعیاہ ۱:۳) ایسے برگشتہ لوگ ”بعض کا ایمان بگاڑنے“ میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس میں روحانی جہاز کی تباہی شامل ہے۔—۲-تیمتھیس ۲:۱۸۔
۸. کونسی چیز بعض کیلئے اُن کے ایمان کے جہاز کی تباہی یا اُس میں سوراخ کر دینے کا باعث بنی ہے؟
۸ دیگر مخصوصشُدہ مسیحیوں نے بھی اپنا ضمیر سُن کرکے اور دُنیا کی بےلگام عیشپرستی اور جنسی بداخلاقی میں ملوث ہو کر اپنے ایمان کا جہاز غرق کر لیا ہے۔ (۲-پطرس ۲:۲۰-۲۲) بعض اسلئے اپنے ایمان کا جہاز ڈبو بیٹھتے ہیں کہ اُن کے خیال میں نئے نظامالعمل کے دُور دُور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ بعض پیشینگوئیوں کی تکمیل کی بابت وقتی حسابات کرنے کے نااہل ہونے اور ”یہوواہ کے دن“ کو اپنے ذہنوں سے نکال دینے کی وجہ سے سچی پرستش ترک کر دیتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۱۰-۱۳، اینڈبلیو؛ ۱-پطرس ۱:۹) وہ جلد ہی خود کو موجودہ نظامالعمل کے دُھندلے، موجزن پانیوں میں پاتے ہیں۔ (یسعیاہ ۱۷:۱۲، ۱۳؛ ۵۷:۲۰) جن لوگوں نے مسیحی کلیسیا سے رفاقت رکھنا چھوڑ دیا ہے وہ ابھی تک یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ سچے مذہب پر چل رہی ہے۔ تاہم اُن میں صبر اور برداشت کی کمی ہے جو یہوواہ خدا کی موعودہ نئی دُنیا کے منتظر رہنے کیلئے ضروری ہیں۔ اُن کیلئے فردوسی زندگی جلد نہیں آئی ہے۔
۹. کچھ مخصوصشُدہ مسیحی کیا کر رہے ہیں اور اِن حقائق کو ہمارے لئے کس بات پر غور کرنے کا باعث بننا چاہئے؟
۹ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دُنیا کے بعض حصوں میں چند مخصوصشُدہ مسیحیوں نے اپنے ایمان کے جہاز کے بادبانوں کو لپیٹ دیا ہے۔ جہاز تو ابھی تک تیر رہا ہے مگر پورے ایمان کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے وہ سُست رفتاری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ”فردوس جلد“ آنے کی اُمید سے تحریک پانے کی وجہ سے، بعض اسے حاصل کرنے کیلئے—منادی کے کام میں جوش اور تمام اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں پر باقاعدہ حاضری کے سلسلے میں—پوری کوشش کرنے کو تیار تھے۔ اب یہ سوچ کر کہ اُنکی اُمیدوں کی تکمیل اُنکی توقع سے بہت دُور ہے، وہ اُس قیمت سے مُکر گئے ہیں جسے وہ ادا کرنے کیلئے تیار تھے۔ یہ بات منادی کی کارگزاری میں کمی، اجلاسوں پر بےقاعدگی اور اسمبلی یا کنونشن پروگراموں کے حصوں سے غیرحاضر رہنے کی آمادگی سے ظاہر ہوتی ہے۔ دیگر تفریح اور مادی آسائشوں کے حصول میں زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔ یہ حقائق ہمیں سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں کہ یہوواہ کیلئے ہماری مخصوصیت کے پیشِنظر کس چیز کو ہماری زندگیوں میں قوتِمتحرکہ ہونا چاہئے۔ کیا اُسکی خدمت میں ہمارے جوش کا انحصار ”فردوس جلد“ آنے کی اُمید پر ہونا چاہئے؟
اُمید کا ایک لنگر سے موازنہ
۱۰، ۱۱. پولس ہماری اُمید کو کس سے تشبِیہ دیتا ہے اور یہ موازنہ کیوں موزوں تھا؟
۱۰ پولس نے ظاہر کِیا کہ یہوواہ نے ابرہام کے وسیلے برکات کا وعدہ فرمایا تھا۔ پھر رسول وضاحت کرتا ہے: ”خدا . . . قسم کو درمیان میں لایا۔ تاکہ دو بےتبدیل چیزوں [اُسکا قول اور اُسکی قسم] کے باعث جنکے بارے میں خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہماری پُختہ طور سے دلجمعی ہو جائے جو پناہ لینے کو اسلئے دوڑے ہیں کہ اُس اُمید کو جو سامنے رکھی ہوئی ہے قبضہ میں لائیں۔ وہ ہماری جان کا ایسا لنگر ہے جو ثابت اور قائم رہتا ہے۔“ (عبرانیوں ۶:۱۷-۱۹؛ پیدایش ۲۲:۱۶-۱۸) ممسوح مسیحیوں کے سامنے آسمان میں غیرفانی زندگی کی اُمید رکھی ہے۔ آجکل، یہوواہ کے خادموں کی اکثریت کو فردوسی زمین پر ابدی زندگی کی شاندار اُمید حاصل ہے۔ (لوقا ۲۳:۴۳) کوئی بھی شخص ایسی اُمید کے بغیر ایمان نہیں رکھ سکتا۔
۱۱ لنگر تحفظ کا مضبوط آلہ ہے جو جہاز کو ایک جگہ پر قائم رکھنے اور بہہ کر دُور نکل جانے سے بچانے کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔ کوئی بھی جہازران لنگر کے بغیر بندرگاہ سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پولس کو کئی مرتبہ جہاز کے تباہ ہونے کا تجربہ ہوا تھا اس لئے وہ جانتا تھا کہ بحری مسافروں کی زندگیوں کا دارومدار اکثر اُن کے جہاز کے لنگروں پر ہوتا ہے۔ (اعمال ۲۷:۲۹، ۳۹، ۴۰؛ ۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۵) پہلی صدی میں، بحری جہازوں کے اندر انجن نہیں ہوتا تھا کہ کپتان اپنی مرضی سے اُسے چلا سکے۔ پتوار سے چلنے والے جنگی جہازوں کے سوا، بحری جہاز حرکت کیلئے بنیادی طور پر ہوا پر انحصار کرتے تھے۔ اگر جہاز کو چٹانوں سے ٹکرانے کا خطرہ لاحق ہوتا تو کپتان کے پاس بچاؤ کا واحد حل یہی ہوتا تھا کہ وہ اس اعتماد کیساتھ لنگر گِرا کر طوفان سے نکل جائے کہ لنگر سمندر کی تہہ میں اپنی گرفت نہیں چھوڑیگا۔ لہٰذا، پولس ایک مسیحی کی اُمید کو ایسے ”لنگر“ سے تشبِیہ دیتا ہے ”جو ثابت اور قائم رہتا ہے۔“ (عبرانیوں ۶:۱۹) جب ہم مخالفت کے طوفانوں میں گِھر جاتے ہیں یا دیگر آزمائشوں کا تجربہ کرتے ہیں تو ہماری شاندار اُمید ایک لنگر کی مانند ہماری زندہ جانوں کو قائم رکھتی ہے تاکہ ہمارے ایمان کا جہاز شک کے خطرناک اُتھلے پانی میں نہ چلا جائے یا برگشتگی کی تباہکُن چٹانوں سے ٹکرا نہ جائے۔—عبرانیوں ۲:۱؛ یہوداہ ۸-۱۳۔
۱۲. ہم یہوواہ سے دُور ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۱۲ پولس نے عبرانی مسیحیوں کو آگاہ کِیا: ”اَے بھائیو! خبردار! تم میں سے کسی کا ایسا بُرا اور بےایمان دل نہ ہو جو زندہ خدا سے پھر جائے۔“ (عبرانیوں ۳:۱۲) یونانی متن میں، ”پھر جائے“ کا لفظی مطلب ”پرے کھڑے رہنا“ یعنی برگشتہ ہو جانا ہے۔ تاہم، ایسی قطعی تباہی سے ہم بچ سکتے ہیں۔ ایمان اور اُمید آزمائش کے شدید طوفانوں میں بھی ہمیں یہوواہ سے لپٹے رہنے کے قابل بنائینگے۔ (استثنا ۴:۴؛ ۳۰:۱۹، ۲۰) ہمارا ایمان ایسے جہاز کی مانند نہیں ہوگا جو برگشتہ تعلیم کی ہواؤں سے اُچھلتا بہتا پھرے۔ (افسیوں ۴:۱۳، ۱۴) نیز اپنے لنگر یعنی اُمید کیساتھ ہم یہوواہ کے خادموں کے طور پر زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔
محبت اور روحالقدس سے متحرک
۱۳، ۱۴. (ا) ہماری اُمید کا لنگر ہی کافی کیوں نہیں ہے؟ (ب) کس چیز کو ہمیں یہوواہ کی پاک خدمت بجا لانے کی تحریک دینے والی قوت ہونا چاہئے، اور کیوں؟
۱۳ اگر کسی مسیحی کے نزدیک فردوسی زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید ہی یہوواہ کی خدمت کا واحد محرک ہے تو وہ نئے نظام کی جانب نہیں بڑھے گا۔ اپنے اُمید کے لنگر کو اپنی زندگی میں استحکام پیدا کرنے والے عنصر کے طور پر قائم رکھتے ہوئے، اُسے اس میں اور اپنے ایمان میں محبت کی قوتِمتحرکہ کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پولس نے اسی پہلو کو اُجاگر کِیا جب اُس نے لکھا: ”غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل اِن میں محبت ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۳۔
۱۴ ہمیں پاک خدمت بجا لانے کی تحریک دینے والی قوت یہوواہ کیلئے دلی محبت ہونی چاہئے جو ہم اپنے لئے اُسکی بےپناہ محبت کے عوض ظاہر کرتے ہیں۔ یوحنا رسول نے تحریر کِیا: ”جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔ جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اِس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اُسکے سبب سے زِندہ رہیں۔ ہم اِسلئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبت رکھی۔“ (۱-یوحنا ۴:۸، ۹، ۱۹) یہوواہ کیلئے شکرگزاری کی وجہ سے، ہماری اوّلین دلچسپی ذاتی نجات حاصل کرنے میں نہیں بلکہ اُسکے پاک نام کی تقدیس اور اُسکی راست حاکمیت کی سربلندی دیکھنے میں ہونی چاہئے۔
۱۵. یہوواہ کیلئے ہماری محبت اُسکی حاکمیت کے مسئلے سے کیسے وابستہ ہے؟
۱۵ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہماری خدمت کا محرک محض فردوس نہیں بلکہ اُس سے محبت ہو۔ بائبل انسائیکلوپیڈیا انسائٹ آن دی سکرپچرزa بیان کرتا ہے: ”یہوواہ کی بڑائی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ اُسکی حاکمیت اور اُس کی مخلوق کی طرف سے اس کی حمایت کی اوّلین بنیاد محبت ہے۔ وہ صرف اُنہی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اُس کی عمدہ صفات اور اُس کی راست حاکمیت سے محبت کرتے ہیں اور اُسکی حاکمیت کو دیگر تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۹) وہ خودمختار بننے کی کوشش کرنے کی بجائے اُسکی حاکمیت کے تحت خدمت کرنے کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ اُسکی ذات اور اُسکی محبت، انصاف اور اپنی حکمت سے کہیں افضل اُسکی حکمت کی بابت اُنکا علم اُنہیں ایسا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ (زبور ۸۴:۱۰، ۱۱)“—جِلد ۲، صفحہ ۲۷۵۔
۱۶. یسوع کی محبت ہماری زندگیوں میں کیسے ایک قوتِمتحرکہ ہے؟
۱۶ مسیحیوں کے طور پر، ہم یسوع کی محبت کے جواب میں بھی اُس کیلئے محبت دکھاتے ہیں۔ پولس نے استدلال کِیا: ”مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے اسلئےکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب ایک سب کے واسطے مؤا تو سب مر گئے۔ اور وہ اسلئے سب کے واسطے مؤا کہ جو جیتے ہیں وہ آگے کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ اس کیلئے جو اُنکے واسطے مؤا اور پھر جی اُٹھا۔“ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۴، ۱۵) مسیح ہی وہ بنیاد ہے جس پر ہماری روحانی زندگیاں، ہمارا ایمان اور ہماری اُمید تعمیر کی گئی ہیں۔ بالخصوص طوفانی آزمائشوں میں، مسیح کے لئے محبت ہی ہماری اُمید کو سہارا دیتی ہے اور ہمارے ایمان کو مستحکم کرتی ہے۔—۱-کرنتھیوں ۳:۱۱؛ کلسیوں ۱:۲۳؛ ۲:۶، ۷۔
۱۷. یہوواہ ہمیں کونسی زبردست قوت عطا کرتا ہے اور اعمال ۱:۸ اور افسیوں ۳:۱۶ میں اسکی اہمیت کیسے ظاہر کی گئی ہے؟
۱۷ اگرچہ مسیحیوں کے طور پر، ہماری زندگیوں میں خدا اور اُس کے بیٹے کے لئے محبت بنیادی قوتِمتحرکہ ہے تو بھی یہوواہ ہمیں مستعد اور فعال رکھنے کے لئے ایک اَور چیز فراہم کرتا ہے اور یوں اپنی خدمت میں آگے بڑھنے کے لئے قوت بخشتا ہے۔ یہ اُس کی سرگرم قوت یا روحالقدس ہے۔ جن عبرانی اور یونانی الفاظ کا ترجمہ ”روح“ کِیا جاتا ہے وہ بنیادی طور پر آندھی کی طرح ہوا کی پُرزور حرکت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جن بحری جہازوں پر پولس نے سفر کِیا وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے ہوا کی نادیدہ قوت پر انحصار کرتے تھے۔ اسی طرح، اگر ہمارے ایمان کے جہاز نے ہمیں یہوواہ کی خدمت میں لیکر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں محبت اور خدا کی نادیدہ سرگرم قوت کے اثر کی ضرورت ہے۔—اعمال ۱:۸؛ افسیوں ۳:۱۶۔
اپنی منزل کی جانب گامزن!
۱۸. کونسی چیز آئندہ ہمیں اپنے ایمان کی آزمائشوں کو برداشت کرنے کے قابل بنائیگی؟
۱۸ نئے نظامالعمل میں داخل ہونے سے پہلے ہمارے ایمان اور محبت کی کڑی آزمائش ہو سکتی ہے۔ تاہم، یہوواہ نے ہمیں ایسا لنگر عطا کِیا ہے جو ”ثابت اور قائم رہتا ہے“—ہماری شاندار اُمید۔ (عبرانیوں ۶:۱۹؛ رومیوں ۱۵:۴، ۱۳) اگر ہم اپنی اُمید میں مضبوطی سے لنگرانداز ہوتے ہیں تو مخالفت یا دیگر آزمائشوں سے مغلوب ہونے کی صورت میں بھی ہم برداشت کر سکتے ہیں۔ تاہم، جب ایک طوفان تھم جانے سے پہلے ہی دوسرا شروع ہو جائے تو ہمیں اپنی اُمید کو مضبوط اور اپنے ایمان کو مستحکم کرنے کا عزمِمُصمم کرنا چاہئے۔
۱۹. ہم اپنے ایمان کے جہاز کو سفر پر گامزن کیسے رکھ سکتے اور خدا کی نئی دُنیا کی بندرگاہ پر کیسے پہنچ سکتے ہیں؟
۱۹ ”جان کے . . . لنگر“ کا ذکر کرنے سے پہلے، پولس نے کہا: ”ہم اس بات کے آرزومند ہیں کہ تم میں سے ہر شخص پوری اُمید کے واسطے آخر تک اسی طرح کوشش ظاہر کرتا رہے۔ تاکہ تم سُست نہ ہو جاؤ بلکہ انکی مانند بنو جو ایمان اور تحمل کے باعث وعدوں کے وارث ہوتے ہیں۔“ (عبرانیوں ۶:۱۱، ۱۲) یہوواہ اور اُسکے بیٹے کیلئے محبت سے تحریک اور روحالقدس سے قوت پاکر، آئیے جب تک ہم خدا کی موعودہ نئی دُنیا کی بندرگاہ تک نہیں پہنچ جاتے اپنے ایمان کے جہاز کو سفر پر گامزن رکھیں۔
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
اعادے کی خاطر
◻اپنے ایمان کے سلسلے میں، پولس ہمیں کیا آگاہی دیتا ہے؟
◻بعض نے روحانی تباہی کا تجربہ کیسے کِیا ہے اور دیگر کیسے سُست ہوتے جا رہے ہیں؟
◻ہمارے ایمان کے ساتھ اَور کونسی خدائی صفت ہونی چاہئے؟
◻کونسی چیز ہمیں خدا کی موعودہ نئی دُنیا کی بندرگاہ پر پہنچنے کے قابل بنائیگی؟
[صفحہ 16 پر تصویر]
زندگی کے طوفانوں کا سامنا کرنے کیلئے ہمارے ایمان کے جہاز کی ساخت مضبوط ہونی چاہئے
[صفحہ 17 پر تصویر]
ہمارا ایمان تباہ ہو سکتا ہے
[صفحہ 18 پر تصویر]
مسیحیوں کے طور پر اُمید ہماری زندگی کا لنگر ہے