ایک ایسا بھید جسے مسیحیوں کو چھپانا نہیں چاہئے!
”مَیں نے دُنیا سے علانیہ باتیں کی ہیں۔ مَیں نے . . . پوشیدہ کچھ نہیں کہا۔“—یوحنا ۱۸:۲۰۔
۱، ۲. صحیفائی استعمال کے مطابق یونانی لفظ مِسٹرئیون کا کیا مفہوم ہے؟
یونانی لفظ مِسٹرئیون کا ترجمہ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن آف دی ہولی سکرپچرز میں ۲۵ بار ”پاک بھید“ اور۳بار ”راز“ کِیا گیا ہے۔ جس بھید کو پاک کہا گیا ہے وہ یقیناً بہت اہم ہوگا! جس کسی کو ایسے بھید کا علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے اُسے بہت فخر محسوس کرنا چاہئے کیونکہ اُسے کائنات کے عظیم خدا کیساتھ اس بھید میں شریک ہونے کے لائق سمجھا گیا ہے۔
۲ وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز تصدیق کرتی ہے کہ بعض حالتوں میں ”راز“ کی نسبت ”پاک بھید“ زیادہ موزوں ترجمہ ہے۔ یہ مِسٹرئیون کی بابت بیان کرتی ہے: ”[مسیحی یونانی صحائف] میں یہ (انگریزی زبان کی طرح) کسی پُراسرار بات کی دلالت نہیں کرتا بلکہ ایسی بات کا حوالہ دیتا ہے جو انسان کے فطری ادراک سے بعید ہے صرف الہٰی انکشاف سے ہی ظاہر ہو سکتی ہے اور خدا کے مُتعیّنہ طریقے اور وقت پر آشکارا ہوتی ہے اور صرف اُنہی پر جو اُس کی روح سے روشنخیالی پاتے ہیں۔ عام مفہوم میں راز کا مطلب ہے سربستہ علم؛ اس کا صحیفائی مفہوم ہے منکشف سچائی۔ لہٰذا خاص طور پر اس موضوع سے متعلقہ اصطلاحات ’ظاہرکردہ،‘ ’آشکاراکردہ،‘ ’منکشفکردہ،‘ ’اعلانکردہ،‘ ’سمجھنا،‘ ’پھیلانا‘ ہیں۔“
۳. پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا پُراسرار مذہبی گروہوں سے کیسے فرق تھی؟
۳ یہ وضاحت پہلی صدی میں فروغ پانے والے پُراسرار مذہبی گروہوں اور نئی قائمشُدہ مسیحی کلیسیا کے درمیان فرق کو نمایاں کرتی ہے۔ جبکہ خفیہ گروہوں کے رُکن بننے والے اشخاص اکثر خاموش رہنے کا عہد کرنے کی وجہ سے مذہبی تعلیمات کو چھپانے کے پابند ہوتے تھے۔ مسیحیوں پر کبھی ایسی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ پولس رسول نے ”پاک بھید میں خدا کی حکمت“ کا ذکر کِیا اور اُسے ”پوشیدہ حکمت“ کہا جو ”اس نظامالعمل کے حاکموں“ سے پوشیدہ ہے۔ یہ مسیحیوں سے پوشیدہ نہیں جن پر خدا کی روح نے اسے آشکارا کِیا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں میں اسکا چرچا کر سکیں۔—۱-کرنتھیوں ۲:۷-۱۲، اینڈبلیو؛ مقابلہ کریں امثال ۱:۲۰۔
”پاک بھید“ کی شناخت کرائی گئی
۴. ”پاک بھید“ کا مرکز کون ہے اور کیسے؟
۴ یہوواہ کا ”پاک بھید“ یسوع مسیح پر مُرتکز ہے۔ پولس نے لکھا: ”[یہوواہ] نے اپنی مرضی کے [”پاک،“ اینڈبلیو] بھید کو اپنے اُس نیک ارادہ کے موافق ہم پر ظاہر کِیا جسے اپنے آپ میں ٹھہرا لیا تھا۔ تاکہ زمانوں کے پورے ہونے کا ایسا انتظام ہو کہ مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہو جائے۔ خواہ وہ آسمان کی ہوں خواہ زمین کی۔“ (افسیوں ۱:۹، ۱۰) جب اُس نے ”خدا کے پاک بھید یعنی مسیح کی بابت صحیح علم“ کی ضرورت کی طرف اشارہ کِیا تو پولس ”پاک بھید“ کی نوعیت کی بابت اَور زیادہ وضاحت سے بات کر رہا تھا۔—کلسیوں ۲:۲۔
۵. ”پاک بھید“ میں کیا کچھ شامل ہے؟
۵ تاہم، اس میں اَور بھی بہت کچھ شامل ہے کیونکہ ”پاک بھید“ ایک ایسا بھید ہے جس کے بہت سے پہلو ہیں۔ اِس میں بطور موعودہ نسل یا مسیحا یسوع کی شناخت ہی نہیں؛ اس میں وہ کردار بھی شامل ہے جو اُسے خدا کے مقصد میں ادا کرنے کیلئے تفویض کِیا گیا ہے۔ اس میں آسمانی حکومت، خدا کی مسیحائی بادشاہت شامل ہے جیسےکہ یسوع نے اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے صاف طور پر بیان کِیا: ”تم کو آسمان کی بادشاہی کے [”پاک،“ اینڈبلیو] بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اُن کو نہیں دی گئی۔“—متی ۱۳:۱۱۔
۶. (ا) یہ کہنا کیوں درست ہوگا کہ ”پاک بھید“ کو ”قدیم زمانوں سے پوشیدہ“ رکھا گیا تھا؟ (ب) اسے کیسے بتدریج ظاہر کِیا گیا تھا؟
۶ مسیحائی بادشاہت کیلئے نیو فراہم کرنے کے خدائی مقصد کی بابت پہلے بیان اور ”پاک بھید . . . کی تکمیل“ کے دوران ایک لمبا عرصہ گزرنا تھا۔ (مکاشفہ ۱۰:۷، اینڈبلیو؛ پیدایش ۳:۱۵) مکاشفہ ۱۰:۷؛ اور ۱۱:۱۵ کا باہمی موازنہ ثابت کرتا ہے کہ اس کی تکمیل قیامِبادشاہت کے ساتھ ہوگی۔ دراصل، عدن میں پہلے بادشاہی وعدے سے لیکر ۲۹ س.ع. میں نامزد بادشاہ کے ظہور تک تقریباً ۴،۰۰۰ سال گزر گئے تھے۔ ۱۹۱۴ میں آسمان پر بادشاہت کے قائم ہونے سے قبل ۱،۸۸۵ سال اَور گزر گئے۔ لہٰذا، تقریباً ۶،۰۰۰ سال کے عرصہ میں ”پاک بھید“ بتدریج آشکارا کِیا گیا۔ (دیکھیں صفحہ ۱۶۔) یقیناً پولس اُس ”پاک بھید کے انکشاف“ کی بابت کلام کرنے میں حقبجانب تھا ”جو قدیم زمانوں سے پوشیدہ رہا مگر اب ظاہر ہوا اور سب کو بتایا گیا۔“—رومیوں ۱۶:۲۵-۲۷، اینڈبلیو؛ افسیوں ۳:۴-۱۱۔
۷. ہم دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت پر کیوں پورا بھروسہ رکھ سکتے ہیں؟
۷ انسانوں کے برعکس جنکا عرصۂحیات بہت محدود ہے، یہوواہ پیشازوقت اپنے بھیدوں کو آشکارا کرنے کے لئے وقت کا دباؤ محسوس نہیں کرتا۔ جب موجودہ وقت میں بعض سوالات کی وضاحت ہماری توقعات کے مطابق نہیں کی جاتی تو ایسی صورت میں اس حقیقت کو ہمیں بےصبر بننے سے باز رکھنا چاہئے۔ مسیحی گھرانے کو مناسب وقت پر خوراک مہیا کرنے کی تفویض پانے والی دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کی انکساری اسے شوخچشمی سے آگے آگے بھاگنے اور بِلاسوچےسمجھے ایسی باتوں کی بابت قیاسآرائی کرنے سے باز رکھتی ہے جو ابھی تک مبہم ہیں۔ نوکر جماعت بےدلیل باتیں کرنے سے بھی گریز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ اسقدر فروتن ہے کہ امثال ۴:۱۸ کو ذہن میں رکھتے ہوئے تسلیم کرتی ہے کہ یہ اِس وقت ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ لیکن یہ جاننا کسقدر ہیجانخیز ہے کہ یہوواہ اپنے مقررہ وقت پر اور اپنے طریقے سے اپنے مقاصد کی بابت اپنے بھیدوں کو آشکارا کرتا رہیگا! راز کی باتیں آشکارا کرنے والے سے آگے نکلنے کی غیردانشمندانہ کوشش کرتے ہوئے، ہمیں کبھی بھی یہوواہ کے بندوبست کے سلسلے میں بےصبری سے کام نہیں لینا چاہئے۔ یہ جاننا کسقدر تسلیبخش ہے کہ آجکل یہوواہ جو ذریعہ استعمال کر رہا ہے وہ ایسا نہیں کرتا! یہ دیانتدار بھی ہے اور عقلمند بھی۔—متی ۲۴:۴۵؛ ۱-کرنتھیوں ۴:۶۔
آشکاراکردہ بھید کا چرچا کِیا جانا چاہئے!
۸. ہم کیسے جانتے ہیں کہ ”پاک بھید“ کا چرچا کِیا جانا ہے؟
۸ یہوواہ نے اپنا ”پاک بھید“ مسیحیوں پر اسلئے آشکارا نہیں کِیا کہ وہ اسے چھپائے رکھیں۔ اُس اصول کی مطابقت میں اِسے ظاہر کِیا جانا چاہئے جو یسوع نے—نہ صرف چند ایک پادریوں کے لئے بلکہ اپنے تمام پیروکاروں کیلئے وضع کِیا: ”تم دُنیا کے نور ہو۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔ اور چراغ جلا کر پیمانے کے نیچے نہیں بلکہ چراغدان پر رکھتے ہیں تو اُس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔ اِسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھکر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔“—متی ۵:۱۴-۱۶؛ ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۹. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یسوع انقلابی نہیں تھا جیساکہ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں؟
۹ یسوع پوشیدہ مقاصد کے حصول کیلئے اپنے پیروکاروں کی خفیہ تنظیم تشکیل دینے کا کوئی انقلابی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ کتاب ارلی کرسچینٹی اینڈ سوسائٹی میں، رابرٹ ایم. گرانٹ نے دوسری صدی کے معتقد جسٹن مارٹائر کی طرف سے ابتدائی مسیحیوں کے دفاع میں کہی گئی اس بات کی بابت لکھا: ”اگر مسیحی انقلابپسند ہوتے تو وہ اپنا نصبالعین حاصل کرنے کیلئے پوشیدہ ہی رہتے۔“ لیکن مسیحی کیسے ”پوشیدہ رہ“ سکتے اور اسکے ساتھ ہی ساتھ اُس ”شہر“ کی مانند ہو سکتے تھے جو ”پہاڑ پر بسا ہے“؟ اُنہیں اپنی روشنی کو پیمانے کے نیچے چھپا کر نہیں رکھنا تھا! اسلئے، حکومت کو اُنکی کارگزاری سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ مصنف مزید بیان کرتا ہے کہ وہ ”اَمن اور نظمونسق کے سلسلے میں بادشاہ کے سب سے اچھے حلیف تھے۔“
۱۰. مسیحی اپنی شناخت کیوں نہیں چھپاتے؟
۱۰ یسوع یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُسکے شاگرد نامنہاد مذہبی فرقے کے ارکان کی طرح اپنی شناخت کو راز میں رکھیں۔ (اعمال ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۲۲) آجکل اپنی روشنی چمکانے میں ناکام رہنا مسیح اور راز کی باتیں آشکارا کرنے والے اُسکے باپ دونوں کو ناراض کریگا اور اس سے ہمیں بھی کوئی خوشی حاصل نہیں ہوگی۔
۱۱، ۱۲. (ا) یہوواہ مسیحیت کے مشہور کئے جانے کی خواہش کیوں رکھتا ہے؟ (ب) یسوع کیسے ایک موزوں نمونہ قائم کرتا ہے؟
۱۱ یہوواہ ”کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹؛ حزقیایل ۱۸:۲۳؛ ۳۳:۱۱؛ اعمال ۱۷:۳۰) تائب انسانوں کے گناہوں کی معافی کی بنیاد یسوع مسیح کی فدیہ کی قربانی پر ایمان ہے جس نے صرف چند لوگوں کیلئے نہیں—سب کیلئے—خود کو فدیے کے طور پر دے ڈالا تاکہ ”جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (یوحنا ۳:۱۶) لہٰذا ایسے ضروری اقدام اُٹھانے کیلئے لوگوں کی مدد کرنا نہایت اہم ہے جو آنے والی عدالت کے دوران اُنہیں بکریوں جیسی نہیں بلکہ بھیڑوں جیسی عدالت حاصل کرنے کے لائق بنائینگے۔—متی ۲۵:۳۱-۴۶۔
۱۲ سچی مسیحیت چھپانے کیلئے نہیں ہے؛ یہ ہر ممکن طریقے سے مشہور کئے جانے کیلئے ہے۔ یسوع نے خود موزوں نمونہ قائم کِیا۔ جب سردار کاہن نے اُس سے اُسکے شاگردوں اور اُسکی تعلیم کی بابت پوچھا تو اُس نے کہا: ”مَیں نے دُنیا سے علانیہ باتیں کی ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ عبادتخانوں اور ہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور پوشیدہ کچھ نہیں کہا۔“ (یوحنا ۱۸:۱۹، ۲۰) اس نمونہ کے پیشِنظر، کس خداترس شخص میں اتنی جرأت ہے کہ اُس پیغام کو پوشیدہ رکھ سکے جسکی بابت خدا نے کہا ہے کہ تمام لوگوں میں اسکی منادی کی جانی چاہئے؟ کون ”معرفت کی کُنجی“ کو چھپانے کی جسارت کریگا جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث بنتی ہے؟ ایسا کرنا اُسے پہلی صدی کے مذہبی ریاکاروں کی مانند بنا دیگا۔—لوقا ۱۱:۵۲؛ یوحنا ۱۷:۳۔
۱۳. ہمیں ہر موقع پر منادی کیوں کرنی چاہئے؟
۱۳ دُعا ہے کہ کوئی شخص کبھی یہ نہ کہنے پائے کہ ہم نے بطور یہوواہ کے گواہ کے خدا کی بادشاہت کے پیغام کو پوشیدہ رکھا ہے! خواہ پیغام کو قبول کِیا جاتا ہے یا رد کِیا جاتا ہے، لوگوں کو یہ ضرور معلوم ہو جانا چاہئے کہ اسکی منادی ہو گئی ہے۔ (مقابلہ کریں حزقیایل ۲:۵؛ ۳۳:۳۳۔) پس ہمیں جہاں کہیں لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہو، آئیے سچائی کے پیغام کی بابت سب سے گفتگو کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔
شیطان کے جبڑوں میں آنکڑے ڈالنا
۱۴. ہمیں اپنی پرستش میں صافگو ہونے کی بابت متذبذب کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
۱۴ بہتیرے ممالک میں یہوواہ کے گواہ کافی حد تک ذرائعابلاغ کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ جیساکہ ابتدائی مسیحیوں کیساتھ ہوا تھا ویسے ہی اِنہیں بھی اکثر غلط انداز میں پیش کِیا جاتا ہے اور قابلِاعتراض مذہبی گروہوں اور خفیہ تنظیموں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ (اعمال ۲۸:۲۲) کیا مُنادی کے کام میں ہماری صافگوئی ہمیں اَور زیادہ حملے کی زد میں لا سکتی ہے؟ خود کو خواہمخواہ بحث میں اُلجھا لینا یقیناً غیردانشمندانہ اور یسوع کی مشورت کے خلاف ہوگا۔ (امثال ۲۶:۱۷؛ متی ۱۰:۱۶) تاہم، بادشاہتی منادی اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے لوگوں کی مدد کرنے کا فیضرساں کام پوشیدہ رکھنے کیلئے نہیں۔ یہ اُسکی بڑائی کرنے سے، اُسکی ذات اور اُسکی قائمشُدہ بادشاہت پر توجہ مبذول کرانے سے، یہوواہ کو جلال بخشتا ہے۔ مشرقی یورپ اور افریقہ کے ممالک میں بائبل سچائی کیلئے حالیہ اطمینانبخش جوابیعمل جزوی طور پر اُس اضافی صافگوئی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے جس سے اب وہاں سچائی کی منادی کی جا سکتی ہے۔
۱۵، ۱۶. (ا) ہماری صافگوئی اور روحانی خوشحالی کونسے مقاصد سرانجام دیتی ہے لیکن کیا یہ تشویش کا باعث ہے؟ (ب) یہوواہ شیطان کے جبڑوں میں آنکڑے کیوں ڈالتا ہے؟
۱۵ یہ سچ ہے کہ جس صافگوئی سے یہوواہ کے گواہ منادی کرتے ہیں، جس روحانی فردوس سے وہ لطفاندوز ہوتے ہیں اور انسانی وسائل اور مادی اثاثوں دونوں صورتوں میں جس خوشحالی کا اُنہیں تجربہ ہوتا ہے وہ چھپی ہوئی نہیں ہے۔ یہ عناصر جہاں خلوصدل اشخاص کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں وہاں یہ مخالفین کو ناگوار بھی گزرتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۲:۱۴-۱۷) دراصل، یہی خوشحالی انجامکار شیطان کی افواج کو خدا کے لوگوں پر حملہآور ہونے کی ترغیب دینے کا سبب بنتی ہے۔
۱۶ کیا اسے تشویش کا باعث ہونا چاہئے؟ حزقیایل ۳۸ باب میں پائی جانیوالی یہوواہ کی پیشینگوئی کے مطابق نہیں۔ یہ پیشینگوئی بیان کرتی ہے کہ جوج کا ماجوج، شیطان ابلیس کا توصیفی نام، ۱۹۱۴ میں بادشاہت کے قیام کے بعد سے اُسکے زمین کے گِردونواح میں پھینک دئے جانے کے وقت سے لیکر وہ خدا کے لوگوں پر حملے کی قیادت کریگا۔ (مکاشفہ ۱۲:۷-۹) یہوواہ جوج سے کہتا ہے: ”تُو کہیگا کہ مَیں دیہات کی سرزمین پر حملہ کرونگا مَیں اُن پر حملہ کرونگا جو راحتوآرام سے بستے ہیں۔ جنکی نہ فصیل ہے نہ اڑبنگے اور نہ پھاٹک ہیں۔ تاکہ تُو لُوٹے اور مال کو چھین لے اور اُن ویرانوں پر جو اب آباد ہیں اور اُن لوگوں پر جو تمام قوموں میں سے فراہم ہوئے ہیں جو مویشی اور مال کے مالک ہیں اور زمین کی ناف پر بستے ہیں اپنا ہاتھ چلائے۔“ (حزقیایل ۳۸:۱۱، ۱۲) تاہم، ۴ آیت ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے لوگوں کو اس حملے سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ یہوواہ کا کام ہے۔ لیکن خدا کیوں اپنے لوگوں پر اتنے بڑے حملے کی اجازت—جی ہاں، حتیٰکہ ترغیب دیگا؟ ۲۳ آیت میں ہم یہوواہ کا جواب پڑھتے ہیں: ”اپنی بزرگی اور اپنی تقدیس کراؤنگا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہونگا اور وہ جانینگے کہ خداوند مَیں ہوں۔“
۱۷. ہمیں جوج کے قریبی حملے کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۷ یوں، جوج کے حملے سے خوفزدہ ہوکر زندگی بسر کرنے کی بجائے، یہوواہ کے لوگ بڑے اشتیاق کیساتھ بائبل کی پیشینگوئی کی اس اگلی تکمیل کے منتظر ہیں۔ یہ جاننا کتنی خوشی کی بات ہے کہ اپنی دیدنی تنظیم کو خوشحالی اور برکات عطا کرنے سے یہوواہ شیطان کے جبڑوں میں آنکڑے ڈالتا ہے اور اُسے اور اُسکی عسکری طاقت کو شکست دیتا ہے!—حزقیایل ۳۸:۴۔
اب پہلے سے کہیں زیادہ!
۱۸. (ا) بہتیرے لوگ اب کیا تسلیم کرنے لگے ہیں اور کیوں؟ (ب) بادشاہتی مُنادی کیلئے جوابیعمل کیسے ایک طاقتور محرک ثابت ہوتا ہے؟
۱۸ جدید وقتوں میں یہواوہ کے گواہ بائبل پر مبنی اپنے نظریات کو بیان کرنے میں بہت صافگو رہے ہیں اگرچہ اسے پسند نہیں کِیا گیا۔ کئی عشروں سے اُنہوں نے تمباکونوشی اور منشیات کے ناجائز استعمال کے خطرات، بچوں کی روادارانہ تربیت کی کوتاہبینی، ناجائز جنس اور پُرتشدد تفریح اور انتقالِخون کے خطرات سے آگاہ کِیا ہے۔ اُنہوں نے نظریۂارتقاء کے تضادات کو بھی نمایاں کِیا ہے۔ بہتیرے لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ”یہوواہ کے گواہ ہی سچے ہیں۔“ اگر ہم اپنے نظریات کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں اسقدر صافگو نہ ہوتے تو وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچتے۔ اور اس حقیقت کو کبھی بھی نظرانداز نہ کریں کہ ایسی بات کہنے سے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ”اَے شیطان تُو جھوٹا ہے، یہوواہ ہی سچا ہے۔“ سچائی کے کلام کو علانیہ بیان کرنے کیلئے یسوع کے نمونے کی مسلسل پیروی کرنا ہمارے لئے کسقدر طاقتور محرک ہے!—امثال ۲۷:۱۱۔
۱۹، ۲۰. (ا) ۱۹۲۲ میں یہوواہ کے لوگوں نے کس عزم کا اظہار کِیا اور کیا ان الفاظ کا آج بھی اطلاق ہوتا ہے؟ (ب) ہمیں خدا کے ”پاک بھید“ کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۹ یہوواہ کے گواہوں نے طویل عرصے سے اس سلسلے میں اپنی ذمہداری کو پہچان لیا ہے۔ ۱۹۲۲ کی ایک قابلِذکر کنونشن پر اُس وقت کے واچٹاور سوسائٹی کے صدر جے. ایف. رتھرفورڈ نے اس بیان سے اپنے سامعین کو جوش سے معمور کر دیا: ”متین بنیں، ہوشیار رہیں، سرگرم رہیں، دلیر بنیں۔ خداوند کے وفادار اور سچے گواہ بنیں۔ اُس وقت تک جنگ کرتے رہیں جب تک کہ بابل کا نامونشان نہیں مٹ جاتا۔ دوراُفتادہ علاقوں تک پیغام پھیلا دیں۔ دُنیا جان لے کہ یہوواہ ہی خدا ہے اور یسوع مسیح بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند ہے۔ یہ سب سے اہم زمانہ ہے۔ دیکھو، بادشاہ حکمرانی کرتا ہے! آپ اُسکی تشہیر کرنے والے نمائندے ہیں۔ اسلئے بادشاہ اور اُسکی بادشاہت کا اشتہار دو، اشتہار دو، اشتہار دو۔“
۲۰ یہ الفاظ جتنے ۱۹۲۲ میں اہم تھے، ۷۵ سال بعد اُس سے کہیں زیادہ اہم ہیں جبکہ منصف اور انتقام لینے والے کے طور پر مسیح کا ظہور نہایت قریب ہے! یہوواہ کی قائمشُدہ بادشاہت کی بابت اور جس روحانی فردوس سے خدا کے لوگ لطفاندوز ہوتے ہیں اُسکی بابت پیغام ”پاک بھید“ ہے جو اسقدر عظیمالشان ہے کہ اسے پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔ جیسےکہ یسوع نے خود واضح طور پر فرمایا، ضرور ہے کہ اُسکے پیروکار رُوحاُلقدس کی مدد سے یہوواہ کے ابدی مقصد میں اُسکے اہم کردار کے ”زمین کی انتہا تک“ گواہ ہوں۔ (اعمال ۱:۸؛ افسیوں ۳:۸-۱۲) درحقیقت، راز کی باتیں آشکارا کرنے والے خدا، یہوواہ کے خادموں کی حیثیت سے ہمیں اِس بھید کو اپنے ہی پاس چھپائے نہیں رکھنا چاہئے!
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ ”پاک بھید“ کیا ہے؟
▫ ہم کیسے جانتے ہیں کہ اِسکی تشہیر ہونی چاہئے؟
▫ کونسی چیز یہواوہ کے لوگوں پر جوج کے حملے کا باعث بنتی ہے اور ہمیں اسے کیسا خیال کرنا چاہئے؟
▫ ہم میں سے ہر ایک کو کیا کرنے کا عزمِمُصمم رکھنا چاہئے؟
[صفحہ 26 پر بکس]
”پاک بھید“ بتدریج آشکارا کِیا گیا
▫ ۴۰۲۶ ق.س.ع. کے بعد: خدا نے شیطان کو تباہ کرنے کیلئے ایک نسل برپا کرنے کا وعدہ فرمایا۔—پیدایش ۳:۱۵
▫ ۱۹۴۳ ق.س.ع.: ابرہامی عہد کو اس وعدے کیساتھ قانونی شکل دی گئی کہ نسل ابرہام سے آئیگی۔—پیدایش ۱۲:۱-۷
▫ ۱۹۱۸ ق.س.ع.: عہد کے وارث کے طور پر اضحاق کا جنم۔—پیدایش ۱۷:۱۹؛ ۲۱:۱-۵
▫ تقریباً ۱۷۶۱ ق.س.ع.: یہوواہ تصدیق کرتا ہے کہ نسل اضحاق کے بیٹے یعقوب سے آئیگی۔—پیدایش ۲۸:۱۰-۱۵
▫ ۱۷۱۱ ق.س.ع.: یعقوب نشاندہی کرتا ہے کہ نسل اُسکے بیٹے یہوداہ سے آئیگی۔—پیدایش ۴۹:۱۰
▫ ۱۰۷۰-۱۰۳۸ ق.س.ع.: بادشاہ داؤد کو معلوم ہوتا ہے کہ نسل اُسکی اولاد میں سے ہوگی اور وہ بطور بادشاہ ابد تک حکمرانی کریگا۔—۲-سموئیل ۷:۱۳-۱۶؛ زبور ۸۹:۳۵، ۳۶
▫ ۲۹-۳۳ س.ع.: یسوع کی نسل، مسیحا، مستقبل کے منصف اور نامزد بادشاہ کے طور پر شناخت کرائی جاتی ہے۔—یوحنا ۱:۱۷؛ ۴:۲۵، ۲۶؛ اعمال ۱۰:۴۲، ۴۳؛ ۲-کرنتھیوں ۱:۲۰؛ ۱-تیمتھیس ۳:۱۶
▫ یسوع آشکارا کرتا ہے کہ اُسکے ساتھی حکمران اور منصف ہونگے، یہ کہ آسمانی بادشاہت کی زمینی رعایا ہوگی اور یہ کہ اُسکے تمام پیروکار بادشاہت کے مُناد ہوں گے۔—متی ۵:۳-۵؛ ۶:۱۰؛ ۲۸:۱۹، ۲۰؛ لوقا ۱۰:۱-۹؛ ۱۲:۳۲؛ ۲۲:۲۹، ۳۰؛ یوحنا ۱۰:۱۶؛ ۱۴:۲، ۳
▫ یسوع آشکارا کرتا ہے کہ بادشاہت مُعیّن وقت پر قائم کی جائیگی جیسےکہ عالمی واقعات سے تصدیق ہو جاتی ہے۔متی ۲۴:۳-۲۲؛ لوقا ۲۱:۲۴
▫ ۳۶ س.ع.: پطرس جان جاتا ہے کہ غیریہودی بھی بادشاہت کے وارث ہونگے۔—اعمال ۱۰:۳۰-۴۸
▫ ۵۵ س.ع.: پولس واضح کرتا ہے کہ بادشاہتی وارثوں کو مسیح کی موجودگی کے دوران حیاتِابدی اور غیرفانی زندگی کیلئے قیامت بخشی جائیگی۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۱-۵۴
▫ ۹۶ س.ع.: یسوع جو پہلے ہی سے اپنے ممسوح پیروکاروں پر حکمرانی کر رہا ہے آشکارا کرتا ہے کہ اُنکی حتمی تعداد ۱،۴۴،۰۰۰ ہوگی۔—افسیوں ۵:۳۲؛ کلسیوں ۱:۱۳-۲۰؛ مکاشفہ ۱:۱؛ ۱۴:۱-۳
▫ ۱۸۷۹ س.ع.: زائنز واچ ٹاور نے ۱۹۱۴ کی خدا کے ”پاک بھید“ کی تکمیل میں بڑی اہمیت کے حامل سال کے طور پر نشاندہی کی۔
▫ ۱۹۲۵ س.ع.: دی واچ ٹاور نے وضاحت کی کہ بادشاہت ۱۹۱۴ میں قائم ہوئی؛ بادشاہت کے ”پاک بھید“ کی تشہیر ہونی چاہئے۔—مکاشفہ ۱۲:۱-۵، ۱۰، ۱۷
[صفحہ 26 پر تصویریں]
اپنے پیشوا، یسوع کی طرح، یہوواہ کے گواہ بھی یہوواہ کی بادشاہت کی علانیہ منادی کرتے ہیں