غلطکاری سے انکار کرنے کیلئے مستحکم
”مَیں اپنی نوعمری میں ایک پرچون کی دُکان پر کام کرتا تھا،“ ٹیموتھی بیان کرتا ہے، ”لہٰذا، ایک ساتھی کارکن نے مجھے اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی۔ اُس نے کہا کہ اُسکے والدین گھر پر نہیں ہونگے، کچھ لڑکیاں بھی آئینگی اور جنسی لطف اُٹھانے کا بھی موقع ہوگا۔“ آجکل بہت سے نوجوان لوگ ایسی دعوت کے لئے جلدی سے ہاں کہہ دینگے۔ لیکن ٹیموتھی کا جواب کیا تھا؟ ”مَیں نے اُسے اُسی وقت بتا دیا کہ مَیں نہیں آؤنگا اور اپنے مسیحی ضمیر کی وجہ سے مَیں کسی ایسی لڑکی کیساتھ جس سے میری شادی نہیں ہوئی، جنسی تعلقات بھی قائم کرنا نہیں چاہتا۔“
جب وہ اپنے انکار کی وجہ بیان کر رہا تھا تو ٹیموتھی کو معلوم نہیں تھا کہ ایک جوان ملازمہ اُن کی باتچیت سن رہی ہے۔ اُس کی معصومیت اُس لڑکی کے لئے چیلنج بن گئی لہٰذا، جلد ہی اُسے اُس لڑکی کو بھی کئی مواقع پر انکار کرنا پڑا جس پر ہم بعد میں غور کرینگے۔
بِلاشُبہ، ہمارے اُوپر آزمائشوں کا آنا، صرف ہمارے زمانے کی بات نہیں ہے۔ کوئی ۳،۰۰۰ سال پہلے سلیمان بادشاہ نے لکھا: ”اَے میرے بیٹے! اگر گنہگار تجھے پھسلائیں تُو رضامند نہ ہونا۔ . . . اُنکی راہ سے اپنا پاؤں روکنا۔“ (امثال ۱:۱۰، ۱۵) یہوواہ نے بنیاسرائیل کو بذاتِخود حکم دیا: ”برُائی کرنے کے لئے کسی بِھیڑ کی پیروی نہ کرنا۔“ (خروج ۲۳:۲) جیہاں، بعضاوقات غلط کام کرنے کی آزمائش کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں انکار کر دینا چاہئے، خواہ ایسا کرنا عام پسندیدہ روش نہ ہو۔
آجکل انکار کرنا بالخصوص بہت ضروری ہے
غلطکاری سے انکار کبھی آسان نہیں ہوتا اور آجکل تو یہ بالخصوص مشکل ہے کیونکہ ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جسے بائبل اِس نظامالعمل کا ”اخیر زمانہ“ کہتی ہے۔ بائبل پیشینگوئی کے مطابق لوگ مجموعی طور پر روحانیت اور اخلاقیات دونوں سے عاری ہیں اور عیشپسند اور متشدّد ہو گئے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) جیسویٹ یونیورسٹی کے ایک صدر نے بیان کِیا: ”ہمارے ہاں معیاروں کا ایک روایتی ضابطہ تھا جسے نہ صرف چیلنج کِیا گیا ہے بلکہ اسے ناقص اور غیرمروّج بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ اخلاقیات کے سلسلے میں اب کوئی راہنمائی دستیاب نہیں۔“ اِسی طرح سے، ایک اعلیٰ عدالت کے جج نے کہا: ”اچھائی اور بُرائی میں اَب کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔ کچھ بھی واضح نہیں۔ . . . بہت کم لوگ درست اور غلط کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ اب خطاکاری کی بجائے خطاکاری پر پکڑے جانے کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔“
پولس رسول نے ایسے رُجحانات رکھنے والے لوگوں کی بابت لکھا: ”اُنکی عقل تاریک ہوگئی ہے اور وہ اُس نادانی کے سبب سے جو اُن میں ہے اور اپنے دلوں کی سختی کے باعث خدا کی زندگی سے خارج ہیں۔ اُنہوں نے سنُ ہو کر شہوتپرستی کو اختیار کِیا تاکہ ہر طرح کے گندے کام حرص سے کریں۔“ (افسیوں ۴:۱۸، ۱۹) لیکن مصیبت اُنکی منتظر ہے۔ یسعیاہ نے بیان کِیا: ”اُن پر افسوس جو بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہتے ہیں اور نُور کی جگہ تاریکی کو اور تاریکی کی جگہ نُور کو دیتے ہیں۔“ (یسعیاہ ۵:۲۰) یہ لوگ جوکچھ بوتے ہیں نہ صرف اَب اُسکی فصل کاٹتے ہیں بلکہ بہت جلد اُنہیں یہوواہ کی طرف سے ”افسوس“—ناموافق عدالتی فیصلے—کا بھی تجربہ ہوگا۔—گلتیوں ۶:۷۔
”جب شریر گھاس کی طرح اُگتے ہیں اور سب بدکردار پھولتے پھلتے ہیں تو یہ اِسی لئے ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے فنا ہوں،“ زبور ۹۲:۷ بیان کرتی ہے۔ باالفاظِدیگر، زندگی کو سب کیلئے ناقابلِبرداشت بنا دینے والی بدکاری کی یہ بڑی فصل ہمیشہ تک قائم نہیں رہیگی۔ درحقیقت، یسوع نے کہا اِس بدکاری کی ذمہدار ”نسل“ ہی کو خدا ”بڑی مصیبت“ پر ختم کریگا۔ (متی ۲۴:۳، ۲۱، ۳۴) پس، اگر ہم اُس مصیبت سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدا کے معیاروں کے مطابق درست اور غلط کے امتیاز کو سمجھنا چاہئے؛ نیز، ہمیں ہر طرح کی غلطکاری سے انکار کرنے کے لئے اخلاقی قوت کی بھی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ آسان نہیں تو بھی یہوواہ نے ہماری مدد کیلئے بائبل کے زمانے اور جدید زمانے سے کچھ حوصلہافزا مثالیں فراہم کی ہیں۔
انکار کرنے والے ایک نوجوان سے سبق سیکھنا
حرامکاری اور زناکاری سے انکار مسیحی کلیسیا میں بھی بعض کے لئے خاص طور پر مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پہلے پیراگراف میں متذکرہ ٹیموتھی نے پیدایش ۳۹:۱-۱۲ میں درج نوجوان یوسف کی مثال پر دل لگایا۔ جب مصری اہلکار فوطیفار کی بیوی نے مباشرت کرنے پر اصرار کِیا تو یوسف نے اخلاقی قوت کا مظاہرہ کِیا۔ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ یوسف نے ”اِنکار کِیا اور . . . کہا کہ . . . بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“
یوسف نے فوطیفار کی بیوی کو ہر روز انکار کرنے کیلئے اخلاقی قوت کیسے حاصل کی؟ سب سے پہلے تو اُسے وقتی لذت کی نسبت یہوواہ کیساتھ رشتہ بڑا عزیز تھا۔ علاوہازیں، اگرچہ وہ قانونی ضابطے (موسوی شریعت جو ابھی آنے والی تھی) کے تحت نہیں تھا تو بھی یوسف اخلاقی اصولوں سے بخوبی واقف تھا؛ وہ جانتا تھا کہ فوطیفار کی فریفتہ بیوی کیساتھ حرامکاری کا ارتکاب اُسکے شوہر کے علاوہ خدا کے خلاف بھی گناہ ہوگا۔—پیدایش ۳۹:۸، ۹۔
یوسف بدیہی طور پر اس بات کی اہمیت سے واقف تھا کہ اُسے اپنے اندر کسی قسم کی شہواتِنفسانی کو پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے جن پر بعدازاں قابو پانا مشکل ہوگا۔ یوسف کے نمونے کی پیروی کرنے والا مسیحی دانشمند ہے۔ یکم جولائی، ۱۹۵۷ کے واچٹاور نے بیان کِیا: ”اُسے اپنی جسمانی کمزوریوں کو سمجھنا چاہئے اور یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ نفسانی خواہشات میں اسقدر آگے بڑھ سکتا ہے کہ جب صحیفائی خلافورزی کی حد آئیگی تو رُک جائیگا۔ اگر وہ کچھ دیر کیلئے ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے توبھی بالآخر وہ اُس حد کو پار کرکے گناہ میں پڑ جائیگا۔ یقیناً ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ جنسی خواہشات کسی کے دل میں پیدا ہو کر اُسے اپنی مضبوط گرفت میں کر لیتی ہیں۔ اِسکے بعد اُنہیں اپنے ذہن سے نکالنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اُسکا بہترین دفاع شروع ہی میں اُنکی مزاحمت کرنا ہے۔“
جب ہم نیکی کیلئے محبت اور بدی کیلئے نفرت پیدا کر لیتے ہیں تو شروع ہی میں مزاحمت کرنا زیادہ آسان بن جاتا ہے۔ (زبور ۳۷:۲۷) تاہم، ہمیں اِس سلسلے میں مستقلمزاجی کیساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہوواہ کی مدد کے ذریعے نیکی کیلئے ہماری محبت اور بدی کیلئے نفرت بڑھے گی۔ اِسی اثنا میں، یسوع کی ہدایت کے مطابق، بِلاشُبہ ہمیں چوکس رہنا چاہئے اور آزمائش سے بچنے اور شریر سے محفوظ رہنے کیلئے مسلسل دُعا کرتے رہنا چاہئے۔—متی ۶:۱۳؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۷۔
ساتھیوں کے دباؤ کی مزاحمت کرنا
غلطکاری کے سلسلے میں ایک اَور اثر ساتھیوں کا دباؤ ہے۔ ایک نوجوان نے اقرار کِیا: ”مَیں دوہری زندگی بسر کر رہا ہوں، ایک سکول میں اور ایک گھر میں۔ مَیں سکول میں ایسے بچوں کیساتھ گھومتاپھرتا ہوں جو تقریباً ہر وقت گالیگلوچ کرتے رہتے ہیں۔ اور مَیں بھی اُن کے جیسا بنتا جا رہا ہوں۔ مجھے کیا کرنا چاہئے؟“ دوسروں سے فرق نظر آنے کیلئے بڑے حوصلہ کی ضرورت ہے اور اِسے حاصل کرنے کا ایک طریقہ ایسی بائبل سرگزشتیں پڑھنا اور اُن پر غوروخوض کرنا ہے جو ہمیں یوسف جیسے خدا کے وفادار خادموں کی بابت بتاتی ہیں۔ دوسری عمدہ مثالیں دانیایل، سدرک، میسک اور عبدنجو کی ہیں—چار جوان مرد جو اپنے ساتھیوں سے فرق نظر آنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
بابل کے شاہی محل میں دوسرے جوانوں کیساتھ تعلیم پانے کے دوران اِن چار جوان اسرائیلوں کیلئے ”شاہی خوراک میں سے . . . روزانہ وظیفہ مقرر کِیا“ گیا تھا اور اُنہیں اُسی میں سے کھانا تھا۔ موسوی شریعت کے غذائی ضابطے کی خلافورزی سے بچنے کیلئے اُنہوں نے اِس خوراک کو کھانے سے انکار کر دیا۔ ایسا کرنے کیلئے حوصلے کی ضرورت تھی کیونکہ ”شاہی خوراک“ کے پکوان غالباً نہایت پُرکشش تھے۔ اِن نوجوانوں نے آجکل کے مسیحیوں کیلئے کیا ہی عمدہ نمونہ قائم کِیا جن کو شرابنوشی، منشیات اور تمباکونوشی جیسی دیگر آزمائشوں اور دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے!—دانیایل ۱:۳-۱۷۔
سدرک، میسک اور عبدنجو نے اُس حقیقت کا مظاہرہ کِیا جسکا یسوع مسیح نے بعدازاں تذکرہ فرمایا: ”جو تھوڑے میں دیانتدار ہے وہ بہت میں بھی دیانتدار ہے۔“ (لوقا ۱۶:۱۰) خوراک جیسے نسبتاً معمولی معاملے میں اُنکے دلیرانہ مؤقف اور یہوواہ کی طرف سے اسکے اچھے انجام نے بِلاشُبہ اُنہیں آئندہ وقتوں میں زیادہ سنگین آزمائش کیلئے مستحکم کِیا ہوگا۔ (دانیایل ۱:۱۸-۲۰) ایسی آزمائش اُن پر اُس وقت آئی جب اُنہیں سونے کی مورت کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، جس سے انکار کا مطلب اُن کیلئے آگ میں دردناک موت تھی۔ تینوں جواں مرد دلیری کیساتھ صرف یہوواہ کی پرستش کرنے پر اٹل رہے اور انجام سے قطعنظر اُنکا مکمل بھروسہ اُسی پر تھا۔ ایک بار پھر یہوواہ نے اُنکے ایمان اور حوصلے کو برکت بخشی—اِس مرتبہ جب اُنہیں سات گُنا تیز آگ کی بھٹی میں پھینکا گیا تو اُنہیں معجزانہ طور پر بچا لیا گیا۔—دانیایل ۳:۱-۳۰۔
خدا کے کلام میں ایسے بہت سے لوگوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں جنہوں نے غلطکاری میں پڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ موسیٰ نے ”فرؔعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے“ سے انکار کر دیا تھا اگرچہ اِس سے اُسے ”گناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے“ کا موقع مل گیا ہوتا۔ (عبرانیوں ۱۱:۲۴-۲۶) سموئیل نبی نے رشوت قبول کر کے اپنے اختیار کا غلط استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ (۱-سموئیل ۱۲:۳، ۴) جب یسوع کے رسولوں کو منادی نہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اُنہوں نے دلیری کیساتھ انکار کر دیا۔ (اعمال ۵:۲۷-۲۹) یسوع نے خود بھی بڑی پختگی سے ہر طرح کی غلطکاری سے انکار کِیا حتیٰکہ اُس کی زندگی کے آخری لمحات میں بھی جب سپاہیوں نے اُسے ”مُر ملی ہوئی مے“ پیش کی تو اُس نے اسی مؤقف کو قائم رکھا۔ اُسے قبول کرنے سے اِس مشکل وقت میں اُسکا عزم کمزور پڑ سکتا تھا۔—مرقس ۱۵:۲۳؛ متی ۴:۱-۱۰۔
انکار—زندگی اور موت کا معاملہ
یسوع نے کہا: ”تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔“—متی ۷:۱۳، ۱۴۔
کشادہ راستہ مقبول ہے کیونکہ اُس پر چلنا آسان ہے۔ اِس پر چلنے والے عیشوعشرت، جسمانی سوچ اور طورطریقوں کے دلدادہ ہوتے ہیں اور شیطان کی دُنیا سے فرق نظر آنے کی بجائے اُسکے مطابق بننا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو خدا کی شریعت اور اصولوں کی وجہ سے اخلاقی اسیری میں محسوس کرتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۱۷-۱۹) تاہم، یسوع نے واضح طور پر کہا تھا کہ کشادہ راستہ ”ہلاکت کو پہنچاتا ہے۔“
لیکن یسوع نے یہ کیوں کہا تھا کہ تھوڑے لوگ ہی تنگ راستے کا انتخاب کرتے ہیں؟ اِسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صرف تھوڑے لوگ ہی خدا کی شریعت اور اصولوں کو اپنی زندگیوں پر اثرانداز ہونے کی اجازت دیتے ہیں اور بہت سی ترغیبات اور غلط کام کرنے کیلئے دستیاب مواقع کی مزاحمت کرتے ہیں۔ علاوہازیں، نسبتاً تھوڑے ہی لوگ غلط خواہشات، ساتھیوں کے دباؤ اور کسی بھی طرح کی ذلت کے خوف کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں جسکا اُنہیں اُس راہ کا انتخاب کرنے کی وجہ سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔—۱-پطرس ۳:۱۶؛ ۴:۴۔
یہ لوگ پوری طرح سمجھتے ہیں کہ پولس رسول نے گناہ سے انکار کرنے کے سلسلے میں جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کیسا محسوس کِیا تھا۔ آجکل کی دُنیا کی طرح، پولس کے زمانے کی رومی اور یونانی دُنیا نے بھی غلطکاری میں پڑنے کے وسیع مواقع فراہم کئے تھے۔ پولس نے وضاحت کی کہ اُسکے ذہن کو راستی سے واقف ہونے کے باوجود غلطکاری کی طرف مائل اپنے بدن کیساتھ مسلسل ’لڑائی‘ لڑنی پڑی تھی۔ (رومیوں ۷:۲۱-۲۴) مزیدبرآں، پولس جانتا تھا کہ اُسکا بدن ایک اچھا خادم ہونے کیساتھ ساتھ ایک خراب آقا بھی تھا لہٰذا، اُس نے مزاحمت کرنا سیکھ لیا تھا۔ اُس نے لکھا: ”مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں۔“ ( ۱-کرنتھیوں ۹:۲۷) اُس نے ایسی فتح کیسے حاصل کی تھی؟ اپنی قوت سے نہیں جو اِس کام کے لحاظ سے غیرمساوی تھی بلکہ وہ خدا کی روح کی مدد سے ایسا کرنے کے قابل ہوا تھا۔—رومیوں ۸:۹-۱۱۔
نتیجتاً، پولس نے ناکامل ہونے کے باوجود، یہوواہ کیلئے اپنی راستی کو آخر تک برقرار رکھا۔ اپنی وفات سے ذرا پہلے وہ یہ لکھنے کے قابل تھا: ”مَیں اچھی کشتی لڑ چکا۔ مَیں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔ مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔ آئندہ کے لئے میرے واسطے راستبازی کا . . . تاج رکھا ہوا ہے۔“—۲-تیمتھیس ۴:۷، ۸۔
جب ہم اپنی ناکاملیتوں کے خلاف لڑتے ہیں تو ہمارے پاس پولس کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کی بھی حوصلہافزا مثالیں موجود ہیں جن میں یوسف، موسیٰ، دانیایل، سدرک، میسک، عبدنجو اور کئی دوسرے لوگ شامل ہیں جو خود پولس کے لئے بھی عمدہ مثالیں تھے۔ اگرچہ وہ ناکامل انسان تھے تو بھی ان ایماندار اشخاص میں سے ہر ایک نے سرکشی کی بجائے، یہوواہ کی روح سے پیدا ہونے والی اخلاقی قوت کی وجہ سے غلطکاری سے انکار کِیا۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) وہ روحانی لوگ تھے۔ وہ یہوواہ کے مُنہ سے نکلنے والی ہر بات کے بھوکے تھے۔ (استثنا ۸:۳) اُس کا کلام اُن کی زندگی تھا۔ (استثنا ۳۲:۴۷) سب سے بڑھکر وہ یہوواہ سے محبت رکھتے تھے اور اُس کا خوف مانتے تھے، چنانچہ اُنہوں نے اُس کی مدد کی بدولت صبر کے ساتھ غلطکاری کے لئے نفرت پیدا کر لی تھی۔—زبور ۹۷:۱۰؛ امثال ۱:۷۔
دُعا ہے کہ ہم بھی اُن کی مانند بنیں۔ واقعی، ہر طرح کی غلطکاری سے انکار کرنے کیلئے ہمیں بھی اُنکی طرح یہوواہ کی روح کی ضرورت ہے۔ اگر ہم خلوصدلی کیساتھ یہوواہ سے اُسکی روح مانگتے ہیں، اُسکے کلام کا مطالعہ کرتے اور باقاعدگی سے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں تو وہ ہمیں فیاضی سے عطا کرتا ہے۔—زبور ۱۱۹:۱۰۵؛ لوقا ۱۱:۱۳؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
شروع میں متذکرہ ٹیموتھی، روحانی ضروریات کو نظرانداز نہ کرنے کی وجہ سے خوش تھا۔ نوجوان ملازمہ، جس نے ٹیموتھی کی ساتھی کارکن کیساتھ گفتگو کو سن لیا تھا، وہ ٹیموتھی کی معصومیت کی وجہ سے غلط سوچ کیساتھ اُسکی طرف مائل ہو گئی اور بعدازاں ٹیموتھی کو کئی بار اپنے شوہر کی غیرموجودگی میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ لیکن ٹیموتھی نے اُسے مسترد کر دیا۔ وہ آسانی سے باز آنے والی نہیں تھی، اُس نے فوطیفار کی بیوی کی طرح کئی مواقع پر اُسے دعوت دی۔ ٹیموتھی نے مستقلمزاجی مگر مہربانہ انداز سے ہر بار انکار کر دیا۔ اُس نے اُس خاتون کو خدا کے کلام سے عمدہ گواہی بھی دی۔ ٹیموتھی یہوواہ کا بےحد شکرگزار ہے کہ اُس نے اُسے انکار کرنے کے لئے اخلاقی قوت سے نوازا ہے اور اب وہ نیکسیرت ساتھی مسیحی کیساتھ خوشحال ازدواجی زندگی بسر کر رہا ہے۔ بیشک، یہوواہ اُن سب کو برکت اور قوت بخشتا ہے جو غلطکاری سے انکار کرتے ہوئے اپنی مسیحی راستی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔—زبور ۱:۱-۳۔