یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م‌زخ‌ح22 مارچ ص.‏ 1-‏9
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت—‏اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت—‏اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2022ء)‏
  • ذیلی عنوان
  • 7-‏13 مارچ
  • 14-‏20 مارچ
  • 21-‏27 مارچ
  • 28 مارچ–‏3 اپریل
  • 4-‏10 اپریل
  • 18-‏24 اپریل
  • 25 اپریل–‏1 مئی
‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2022ء)‏
م‌زخ‌ح22 مارچ ص.‏ 1-‏9

‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت—‏اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

7-‏13 مارچ

پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-‏سموئیل 12-‏13

‏”‏غرور کا نتیجہ—‏شرمندگی“‏

م00 1/‏8 ص.‏ 13 پ.‏ 17

تکبّر رُسوائی کا باعث بنتا ہے

17 ساؤل کے ان کاموں کے سطحی جائزے سے تو یہ درست ہی معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال، خدا کے لوگ اپنی دل‌شکستہ حالت کی وجہ سے ”‏آفت میں مبتلا،“‏ ”‏پریشان“‏ اور دہشت‌زدہ تھے۔ (‏1-‏سموئیل 13:‏6، 7‏)‏ یقیناً، جب حالات کا تقاضا ہو تو کسی کام میں پہل کرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ تاہم، یاد رکھیں کہ یہوواہ دلوں کو پڑھ سکتا اور ہمارے باطنی محرکات کو جان سکتا ہے۔ (‏1-‏سموئیل 16:‏7‏)‏ لہٰذا، اس نے ساؤل کی بابت بعض ایسے پہلو ضرور دیکھے ہونگے جو براہِ‌راست بائبل سرگزشت میں بیان نہیں کئے گئے۔ مثال کے طور، شاید یہوواہ نے دیکھا ہو کہ ساؤل کی بے‌صبری کی وجہ دراصل اُسکا تکبّر تھا۔ شاید ساؤل اس بات سے بہت مشتعل ہوا ہو کہ اُسے—‏تمام اسرائیل کے بادشاہ کو—‏ایک بوڑھے اور تاخیر کرنے والے نبی کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے!‏ بہرکیف، ساؤل نے محسوس کِیا کہ سموئیل کی تاخیر کی وجہ سے اب وہ معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے سکتا اور واضح ہدایات کی خلاف‌ورزی کر سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ؟ سموئیل نے ساؤل کے اس فعل کو پسند نہیں کِیا تھا۔ اس کے برعکس، اس نے ساؤل کو یہ کہتے ہوئے سرزنش کی:‏ ”‏تیری سلطنت قائم نہ رہیگی .‏ .‏ .‏ اِسلئے‌کہ تُو نے وہ بات نہیں مانی جسکا حکم [‏یہوواہ]‏ نے تجھے دیا تھا۔“‏ (‏1-‏سموئیل 13:‏13، 14‏)‏ ایک مرتبہ پھر تکبّر رسوائی کا باعث بنا۔‏

م07 1/‏7 ص.‏ 17 پ.‏ 8

یہوواہ خدا آپ کی فرمانبرداری سے خوش ہوتا ہے

8 بائبل میں درج ساؤل کا ریکارڈ فرمانبرداری کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ جب ساؤل نے حکومت کرنا شروع کی تو وہ ایک ایسا فروتن شخص تھا جو ”‏اپنی ہی نظر میں حقیر تھا۔“‏ بعدازاں تکبّر اور غلط سوچ نے اُس کے فیصلوں کو متاثر کِیا۔ (‏1-‏سموئیل 10:‏21، 22؛‏ 15:‏17‏)‏ ایک موقع پر، ساؤل بادشاہ کو فلستیوں کے ساتھ جنگ لڑنی تھی۔ سموئیل نبی نے اُسے بتایا کہ یہوواہ خدا کے حضور قربانی گذراننے اور مزید ہدایات حاصل کرنے کے لئے اُس کا انتظار کرے۔ مگر جب سموئیل نبی مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکا اور لوگ اِدھراُدھر ہونے لگے تو ساؤل بادشاہ نے خود ہی ”‏سوختنی قربانی گذرانی۔“‏ اُس کا یہ فعل یہوواہ خدا کو پسند نہ آیا۔ بعدازاں، جب سموئیل وہاں پہنچا تو بادشاہ نے اپنی نافرمانی کے لئے عذر پیش کِیا۔ اُس نے کہا کہ سموئیل کو آنے میں دیر ہو گئی تھی اس لئے اُس نے ”‏مجبور ہوکر“‏ یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خود ہی سوختنی قربانی گذرانی۔ ساؤل بادشاہ کے نزدیک قربانی گذراننا اُس ہدایت پر عمل کرنے سے زیادہ اہم تھا جو اُسے قربانی گذراننے کے لئے سموئیل نبی کا انتظار کرنے کی بابت دی گئی تھی۔ سموئیل نبی نے اُسے بتایا:‏ ”‏تُو نے بیوقوفی کی۔ تُو نے [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے حکم کو جو اُس نے تجھے دیا نہیں مانا۔“‏ یہوواہ خدا کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے ساؤل کی حکومت جاتی رہی۔—‏1-‏سموئیل 10:‏8؛‏ 13:‏5-‏13‏۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

م11 1/‏7 ص.‏ 13 پ.‏ 15

کیا آپ یہوواہ خدا کی رہنمائی کو قبول کریں گے؟‏

15 شاید بنی‌اسرائیل نے سوچا کہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا اِتنا فائدہ‌مند نہیں جتنا کہ انسانی بادشاہ پر بھروسا کرنا ہے۔ اگر اُنہوں نے یہ سوچا تھا تو وہ شیطان کے دھوکے میں آکر ”‏باطل چیزوں کی پیروی“‏ کر رہے تھے۔ چونکہ بنی‌اسرائیل ایک باطل چیز پر بھروسا کرنے لگے تھے اِس لئے اُن کے لئے دوسری باطل چیزوں پر بھروسا کرنا آسان ہو گیا تھا۔ مثال کے طور پر انسانی بادشاہ اُنہیں بُتوں کی پوجا کرنے پر اُکسا سکتا تھا۔ لوگ اِس لئے لکڑی اور پتھر کے خدا پر بھروسا کرتے ہیں کیونکہ وہ اُن کو دیکھ اور چُھو سکتے ہیں۔ ایسے لوگ کائنات کے خالق، یہوواہ خدا پر بھروسا نہیں کرتے کیونکہ وہ اُسے دیکھ نہیں سکتے۔ لیکن پولس رسول نے کہا کہ بُت ”‏کوئی چیز نہیں“‏ ہیں۔ (‏1-‏کر 8:‏4‏)‏ بُت نہ تو دیکھ سکتے ہیں، نہ سُن سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اَور کام کر سکتے ہیں۔ لہٰذا محض اِس لئے اُن پر بھروسا کرنا کیونکہ ہم اُن کو دیکھ اور چُھو سکتے ہیں، بہت بڑی بے‌وقوفی ہے۔ بُت کسی کی مدد نہیں کر سکتے۔ وہ باطل ہیں اور جو لوگ اُن پر بھروسا کرتے ہیں وہ ”‏اُن ہی کی مانند ہو جائیں گے۔“‏—‏زبور 115:‏4-‏8‏۔‏

14-‏20 مارچ

پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-‏سموئیل 14-‏15

‏”‏فرمانبرداری قربانی سے بہتر ہے“‏

م07 1/‏7 ص.‏ 16 پ.‏ 4

یہوواہ خدا آپ کی فرمانبرداری سے خوش ہوتا ہے

4 خالق ہونے کی وجہ سے یہوواہ خدا ہماری تمام چیزوں کا مالک ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا ہمارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو ہم اُسے دے سکتے ہیں؟ جی‌ہاں، ہم اُسے ایک بیش‌قیمت چیز دے سکتے ہیں۔ یہ بیش‌قیمت چیز کیا ہے؟ ہم اس سوال کا جواب اس مشورت سے حاصل کر سکتے ہیں:‏ ”‏اَے میرے بیٹے دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔“‏ (‏امثال 27:‏11‏)‏ جو بیش‌قیمت چیز ہم اُسے دے سکتے ہیں وہ ہماری فرمانبرداری ہے۔ ہم سب مختلف پس‌منظر اور حالات کے باوجود خدا کے فرمانبردار رہنے سے شیطان کے اس جھوٹے دعویٰ کا جواب دے سکتے ہیں کہ انسان مشکلات کی صورت میں خدا کے وفادار نہیں رہیں گے۔ یہ کتنا بڑا شرف ہے!‏

آئی‌ٹی‏-‏2 ص.‏ 521 پ.‏ 2

فرمانبرداری

کوئی بھی چیز فرمانبرداری کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اِس کے بغیر ہم یہوواہ کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے۔ سموئیل نبی نے بھی بادشاہ ساؤل سے ایسی ہی بات کی۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏کیا [‏یہوواہ]‏ سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے اِتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا اِس بات سے کہ [‏یہوواہ]‏ کا حکم مانا جائے؟ دیکھ فرمانبرداری قربانی سے اور بات ماننا مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے۔“‏ (‏1-‏سمو 15:‏22‏)‏ یہوواہ کی فرمانبرداری نہ کرنے سے ہم اُس کی بات رد کر رہے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اُس پر اور اُس کی بات پر یقین اور بھروسا نہیں ہے۔ لہٰذا جو شخص یہوواہ کی نافرمانی کرتا ہے، اُس میں اور اُن لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا جو جادوٹونا کرتے یا بُتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ (‏1-‏سمو 15:‏23؛‏ رومیوں 6:‏16 پر غور کریں۔)‏ اگر ہم مُنہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے حکم مانتے ہیں لیکن اپنے کاموں سے اِسے ظاہر نہیں کرتے تو اِس کا کوئی فائدہ نہیں۔ (‏متی 21:‏28-‏32‏)‏ جو لوگ خدا کے پاک کلام کی سچائیوں کو قبول تو کر لیتے ہیں لیکن اُن کے مطابق زندگی نہیں گزارتے، وہ خود کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں اور اُنہیں خدا کی طرف سے کوئی برکت نہیں ملتی۔ (‏یعقو 1:‏22-‏25‏)‏ یسوع مسیح نے صاف طور پر بتایا کہ وہ لوگ خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوں گے جو بھلے ویسے ہی کام کرتے ہوں جن کا بائبل میں حکم دیا گیا ہے لیکن وہ ایسا غلط اِرادے اور طریقے سے کرتے ہیں۔—‏متی 7:‏15-‏23‏۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

آئی‌ٹی‏-‏1 ص.‏ 493

رحم‌دلی

جب ہم ایسی صورتحال میں رحم‌دلی ظاہر کرتے ہیں جس میں یہوواہ کی مرضی شامل نہ ہو تو اِس کے بہت بُرے نتیجے نکل سکتے ہیں۔ بادشاہ ساؤل کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ یہوواہ کی طرف سے عمالیقیوں کو ہلاک کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ عمالیقی وہ لوگ تھے جنہوں نے بنی‌اِسرائیل کے مصر سے نکلنے کے بعد اُن پر سب سے پہلے حملہ کِیا حالانکہ بنی‌اِسرائیل نے اُن کے ساتھ جنگ نہیں چھیڑی تھی۔ خدا نے ساؤل کو حکم دیا کہ وہ عمالیقیوں پر ذرا بھی رحم نہ کریں۔ لیکن اپنی رعایا کے دباؤ میں آ کر ساؤل نے یہوواہ کے حکم پر پوری طرح سے عمل نہیں کِیا۔ اِس لیے یہوواہ نے ساؤل کو بادشاہ کے طور پر رد کر دیا۔ (‏1-‏سمو 15:‏2-‏24‏)‏ جو شخص اپنے دل میں یہوواہ کے معیاروں کے لیے قدر بڑھاتا ہے اور اُس کی فرمانبرداری کرنے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، وہ بادشاہ ساؤل جیسی غلطی کرنے اور یہوواہ کی خوشنودی کھو دینے سے بچ جاتا ہے۔‏

21-‏27 مارچ

پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-‏سموئیل 16-‏17

‏’‏جنگ تو یہوواہ کی ہے‘‏

م‌ع16.‏4 ص.‏ 11 پ.‏ 2-‏3

‏’‏جنگ تو یہوواہ کی ہے‘‏

داؤد نے ساؤل کو یقین دِلانے کی کوشش کی کہ وہ اُس فلستی سے لڑ سکتے ہیں۔ اُنہوں نے ساؤل کو بتایا کہ اُنہوں نے ایک شیر اور ایک ریچھ کو کیسے مارا تھا۔ کیا داؤد شیخی بگھار رہے تھے؟ جی نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اُن درندوں سے لڑائی جیتنے میں کس نے اُن کی مدد کی تھی۔ اُنہوں نے ساؤل سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے مجھے شیر اور ریچھ کے پنجہ سے بچایا۔ وہی مجھ کو اِس فلستی کے ہاتھ سے بچائے گا۔“‏ آخرکار ساؤل نے داؤد کی بات مان لی اور کہا:‏ ”‏جا [‏یہوواہ]‏ تیرے ساتھ رہے۔“‏—‏1-‏سموئیل 17:‏37‏۔‏

کیا آپ داؤد جیسا ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ داؤد کا ایمان محض سنی سنائی باتوں پر مبنی نہیں تھا۔ وہ اپنے خدا پر اِس لیے ایمان رکھتے تھے کیونکہ اُنہوں اُس کے بارے میں علم حاصل کِیا تھا اور دیکھا تھا کہ اُس نے کیسے فرق فرق صورتحال میں اُن کی مدد کی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور اُن کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ خدا اپنے ہر وعدے کو پورا کرتا ہے۔ اگر ہم بھی داؤد جیسا ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پاک کلام سے سچے خدا یہوواہ کے بارے میں سیکھتے رہنا چاہیے۔ پھر جب ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ اِس سے ہمیں کتنا فائدہ ہو رہا ہے تو ہمارا ایمان بھی مضبوط ہوگا۔—‏عبرانیوں 11:‏1‏۔‏

م‌ع16.‏4 ص.‏ 11-‏12

‏’‏جنگ تو یہوواہ کی ہے‘‏

داؤد نے جولیت کی اِس بات کا جو جواب دیا، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا ایمان کتنا مضبوط تھا۔ ذرا تصور کریں کہ ایک نوجوان لڑکا ایک لمبے تڑنگے شخص کو یہ کہہ رہا ہے:‏ ”‏تُو تلوار بھالا اور برچھی لئے ہوئے میرے پاس آتا ہے پر مَیں ربُ‌الافواج [‏یہوواہ]‏ کے نام سے جو اِؔسرائیل کے لشکروں کا خدا ہے جس کی تُو نے فضیحت [‏یعنی بے‌عزتی]‏ کی ہے تیرے پاس آتا ہوں۔“‏ داؤد جانتے تھے کہ یہ لڑائی جیتنے کے لیے طاقت اور ہتھیار اِتنے اہم نہیں ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا کہ ”‏جنگ تو [‏یہوواہ]‏ کی ہے۔“‏ جولیت نے یہوواہ خدا کی توہین کی تھی اور یہوواہ خدا نے ہی اُسے سزا دینی تھی۔—‏1-‏سموئیل 17:‏45-‏47‏۔‏

یقیناً داؤد دیکھ سکتے تھے کہ جولیت کتنا لمبا ہے اور اُس کے پاس کتنے ہتھیار ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اُس سے خوف‌زدہ نہیں ہوئے۔ اُنہوں نے وہ غلطی نہیں کی جو ساؤل اور اُن کی فوج نے کی تھی۔ اُنہوں نے اپنا موازنہ جولیت سے نہیں کِیا بلکہ یہ سوچا کہ یہوواہ خدا کے سامنے جولیت کی کیا حیثیت ہے۔ اگرچہ جولیت کا قد تقریباً تین میٹر (‏تقریباً ساڑھے نو فٹ)‏ تھا لیکن کُل کائنات کے حاکم یہوواہ خدا کے سامنے وہ محض ایک کیڑے کی طرح تھا جسے یہوواہ خدا بہت جلد کچلنے والا تھا۔‏

م‌ع16.‏4 ص.‏ 12 پ.‏ 5

‏’‏جنگ تو یہوواہ کی ہے‘‏

ماضی میں یہوواہ خدا کے بندے جنگیں لڑتے تھے مگر آج‌کل وہ ایسا نہیں کرتے۔ (‏متی 26:‏52‏)‏ لیکن پھر بھی ہمیں داؤد جیسا ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کی طرح ہمیں بھی یہوواہ خدا کو ایک حقیقی ہستی سمجھنا چاہیے یعنی صرف اُسی کی عبادت کرنی چاہیے اور اُسی کا خوف رکھنا چاہیے۔ کبھی کبھار جب ہمیں کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ مشکل بہت بڑی ہے اور ہم اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا کے سامنے ہماری مشکلیں کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر ہم داؤد کی طرح یہوواہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم کسی بھی مشکل یا پریشانی سے خوف‌زدہ نہیں ہوں گے۔ یہوواہ خدا اپنی بے‌پناہ طاقت سے ہماری بڑی سے بڑی مشکل کو حل کر سکتا ہے۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

آئی‌ٹی‏-‏2 ص.‏ 871-‏872

ساؤل

جب یہوواہ نے داؤد کو اِسرائیل کے اگلے بادشاہ کے طور پر چُنا تو یہوواہ کی روح ساؤل سے ہٹ گئی۔ اِس کے بعد سے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے ایک بُری روح اُسے ستانے لگی۔“‏ اِس کا کیا مطلب تھا؟ جب یہوواہ نے اپنی پاک روح ساؤل سے ہٹا لی تو بُری روح کے لیے اُنہیں اپنے قبضے میں لینا آسان ہو گیا۔ اِس کی وجہ سے ساؤل کا ذہنی سکون چھن گیا اور اُن میں بُری سوچ اور احساسات اُبھرنے لگے۔ یہوواہ کی نافرمانی کرنے سے ساؤل نے یہ ظاہر کِیا کہ اُن کا دل بُرا تھا اور اِسی لیے یہوواہ کی پاک روح نے اُن کی حفاظت کرنا چھوڑ دی۔ چونکہ یہوواہ نے ”‏بُری روح“‏ کو اِجازت دی کہ وہ اُس کی پاک روح کی جگہ لے لے اور ساؤل کو ستائے اِس لیے اِسے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے ایک بُری روح“‏ کہا جا سکتا ہے۔ ساؤل نے اپنے ایک خادم کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے داؤد سے کہا کہ وہ اُن کے محل میں موسیقار کے طور پر کام کریں تاکہ جب جب ”‏بُری روح“‏ اُنہیں پریشان کرے تو وہ اُن کی موسیقی کو سُن کر پُرسکون ہو جائیں۔—‏1-‏سمو 16:‏14-‏23؛‏ 17:‏15‏۔‏

28 مارچ–‏3 اپریل

پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-‏سموئیل 18-‏19

‏”‏کامیابی ملنے پر بھی خاکسار رہیں“‏

م04 1/‏4 ص.‏ 15 پ.‏ 4

زندگی کے تغیروتبدل کا مقابلہ کرنے کیلئے خدا کی رُوح پر بھروسا کریں

4 جلد ہی یہ چرواہا لڑکا قومی شہرت حاصل کر لیتا ہے۔ اُسے بادشاہ کی خدمت کرنے اور اُس کے لئے موسیقی بجانے پر مامور کر دیا گیا تھا۔ اُس نے جنگجو جولیت کو ہلاک کِیا جوکہ بہت قدآور اور خطرناک تھا کہ اسرائیلی لشکر بھی اُس کا سامنا کرنے سے ڈرتا تھا۔ پس فوجی سردار مقرر ہونے پر داؤد نے بڑی کامیابی کے ساتھ فلستیوں کا مقابلہ کِیا۔ لوگ اُسے بہت پسند کرتے تھے۔ اُنہوں نے اُس کی تعریف میں ایک گیت بھی ترتیب دیا۔ اِس سے پہلے ہی ساؤل کے ایک صلاحکار نے داؤد کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہ صرف ستار ”‏بجانے میں اُستاد“‏ ہے بلکہ وہ ”‏زبردست سُورما اور جنگی مرد اور گفتگو میں صاحبِ‌تمیز اور خوبصورت آدمی ہے۔“‏—‏1-‏سموئیل 16:‏18؛‏ 17:‏23، 24،‏ 45-‏51؛‏ 18:‏5-‏7‏۔‏

م18.‏01 ص.‏ 28-‏29 پ.‏ 6-‏7

کیا آپ دُنیا کے لوگوں سے فرق نظر آتے ہیں؟‏

6 کچھ لوگ اِس لیے مغرور ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ خوب‌صورت ہوتے ہیں، لوگوں میں مقبول ہوتے ہیں، اچھا گاتے ہیں، کوئی ساز بجانے کا ہنر رکھتے ہیں، طاقت‌ور ہوتے ہیں یا کوئی بڑا مرتبہ رکھتے ہیں۔ داؤد کے پاس یہ سب کچھ تھا لیکن پھر بھی وہ ساری زندگی خاکسار رہے۔ مثال کے طور پر جب داؤد نے جولیت کو مار ڈالا تو ساؤل نے اُنہیں اپنی بیٹی سے شادی کرنے کی پیشکش کی۔ لیکن داؤد نے اُن سے کہا:‏ ”‏مَیں کیا ہوں اور میری ہستی ہی کیا اور اِؔسرائیل میں میرے باپ کا خاندان کیا ہے کہ مَیں بادشاہ کا داماد بنوں؟“‏ (‏1-‏سموئیل 18:‏18‏)‏ داؤد خاکسار کیوں رہ پائے؟ وہ جانتے تھے کہ اُن کے پاس جو بھی خوبیاں، صلاحیتیں اور اعزاز ہیں، وہ اِس لیے ہیں کیونکہ یہوواہ نے فروتنی سے اُن پر نظرِکرم کی ہے۔ (‏زبور 113:‏5-‏8‏)‏ داؤد اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اُنہیں جو کچھ بھی ملا ہے، وہ خدا کی طرف سے ملا ہے۔—‏1-‏کُرنتھیوں 4:‏7 پر غور کریں۔‏

7 داؤد کی طرح آج بھی خدا کے بندے خاکسار رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے دل کو چُھو لیتی ہے کہ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ بھی فروتن ہے۔ اِس لیے ہم بائبل میں درج اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہتے ہیں:‏ ”‏شفقت، ہمدردی، مہربانی، خاکساری، نرمی اور تحمل کا لباس پہنیں۔“‏ (‏کُلسّیوں 3:‏12‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ محبت ”‏شیخی نہیں مارتی“‏ اور ”‏غرور نہیں کرتی۔“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 13:‏4‏)‏ جب دوسرے لوگ ہم میں خاکساری دیکھتے ہیں تو اُن کے دل میں یہوواہ کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو سکتا ہے۔ جس طرح ایک غیرایمان شوہر اپنی مسیحی بیوی کے اچھے چال‌چلن کو دیکھ کر سچائی کی طرف کھنچ سکتا ہے اُسی طرح لوگ خدا کے بندوں میں خاکساری دیکھ کر یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔—‏1-‏پطرس 3:‏1‏۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

آئی‌ٹی‏-‏2 ص.‏ 695-‏696

نبی

جو لوگ خدا کی پاک روح سے نبی کے طور پر مقرر ہوتے تھے، لگتا نہیں کہ وہ ہر وقت پاک روح کی رہنمائی میں نبوّت کرتے تھے۔ اِس کی بجائے یہوواہ کی پاک روح خاص موقعوں پر اُن پر ”‏نازل“‏ ہوتی تھی اور اُن پر ظاہر کرتی تھی کہ اُنہیں کیا پیغام سنانا ہے۔ (‏حِز 11:‏4، 5؛ میک 3:‏8)‏ جب اُن پر پاک روح نازل ہوتی تھی تو اِس کا اُن پر بہت گہرا اثر ہوتا تھا اور اُنہیں خدا کے پیغام کو سنانے کی ترغیب ملتی تھی۔ (‏1-‏سمو 10:‏10؛‏ یرم 20:‏9؛‏ عامو 3:‏8)‏ وہ نہ صرف حیرت‌انگیز کام کرنے لگ جاتے تھے بلکہ اُن کے چہرے کے تاثرات اور رویہ بھی حیرت‌انگیز طریقے سے بدل جاتا تھا۔ اِس سے ہم یہ سمجھ پاتے ہیں کہ جب کچھ ایسے لوگ نبوّت کرنے لگے جو نبی نہیں تھے تو اِس کا کیا مطلب ہے۔ (‏1-‏سمو 10:‏6-‏11؛‏ 19:‏20-‏24؛‏ یرم 29:‏24-‏32؛‏ اعمال 2:‏4،‏ 12-‏17؛‏ 6:‏15؛‏ 7:‏55 پر غور کریں۔)‏ اُن کا اپنی ذمے‌داری پر اِتنا زیادہ دھیان ہوتا تھا اور وہ اِسے اِتنی دلیری سے نبھاتے تھے کہ دیکھنے والوں کو لگتا تھا کہ وہ نبی ہیں۔ ایسا ہی کچھ فوجی افسروں نے اُس وقت دیکھا جب ایک نبی نے یاہو کو بادشاہ کے طور پر مسح کِیا۔ جب وہ یہ سمجھ گئے کہ وہ آدمی واقعی ایک نبی ہے تو اُنہوں نے بڑی سنجیدگی سے اُس کے پیغام کو قبول کِیا۔ (‏2-‏سلا 9:‏1-‏13؛‏ اعمال 26:‏24، 25 پر غور کریں۔)‏ جب ساؤل داؤد کو مار ڈالنے کے لیے اُن کا پیچھا کر رہے تھے تو اُن کے بارے میں ”‏یہ کہاوت چلی کیا ساؔؤل بھی نبیوں میں ہے؟“‏ یہ کہاوت کیوں چلی؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اُس وقت ساؤل نے ”‏اپنے کپڑے اُتارے“‏ اور وہ ’‏سارے دن اور ساری رات ننگے پڑے رہے۔‘‏ اِسی دوران داؤد اپنی جان بچا کر بھاگ گئے۔ (‏1-‏سمو 19:‏18–‏20:‏1‏)‏ ساؤل کی مثال سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ نبی عموماً اپنے کپڑے اُتار دیا کرتے تھے کیونکہ بائبل میں کہیں بھی ایسا نہیں بتایا گیا۔ بائبل میں ساؤل کے اِس واقعے کے علاوہ دو اَور ایسے واقعات کا ذکر ہے جن میں نبیوں کو ایک مقصد کے تحت کپڑے اُتارنے پڑے جو کہ اُن کی پیش‌گوئی کا حصہ تھا۔ (‏یسع 20:‏2-‏4؛‏ میک 1:‏8-‏11)‏ ساؤل کے اپنے کپڑے اُتارنے کی کیا وجہ رہی ہوگی؟ بائبل میں اِس بارے میں نہیں بتایا گیا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ایسا اِس لیے ہوا ہو تاکہ یہ ظاہر ہو کہ وہ محض ایک خاکی اِنسان ہیں، اُن سے اُن کا شاہی لباس لے لیا گیا ہے، وہ یہوواہ کے اِختیار اور طاقت کے آگے کچھ بھی نہیں ہیں یا شاید اِس کی کوئی اَور وجہ ہو سکتی ہے۔‏

4-‏10 اپریل

پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-‏سموئیل 20-‏22

‏”‏آپ اچھے دوست کیسے بن سکتے ہیں؟“‏

م19.‏11 ص.‏ 7 پ.‏ 18

خاتمہ آنے سے پہلے گہرے دوست بنائیں

18 آج ہمارے بہن بھائیوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے بہن بھائی قدرتی آفتوں یا جنگوں وغیرہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم میں سے کچھ اُن بہن بھائیوں کو اپنے گھر ٹھہرا سکتے ہیں۔ بعض بہن بھائی مالی طور پر اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن جو کام ہم سب کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم اُن بہن بھائیوں کے لیے دُعا کریں۔ کبھی کبھار یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا کوئی بھائی یا بہن بے‌حوصلہ ہو جائے۔ اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فلاں بھائی یا بہن بے‌حوصلہ ہے تو شاید ہمیں سمجھ نہ آئے کہ ہم اُس سے کیا کہیں یا کیسے اُس کی مدد کریں۔ لیکن ہم سب فرق فرق طریقوں سے ایسے بہن بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اُن کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں۔ اور جب وہ ہم سے بات کرتے ہیں تو ہم دھیان سے اُن کی بات سُن سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم اُنہیں کوئی ایسی آیت دِکھا سکتے ہیں جس سے ہمیں مشکل وقت میں تسلی ملتی ہو۔ (‏یسع 50:‏4‏)‏ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ضرورت کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ ہوں۔—‏امثال 17:‏17 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏

م08 15/‏2 ص.‏ 8 پ.‏ 7

یہوواہ خدا کی راہوں پر چلیں

7 خدا چاہتا ہے کہ ہم ایسے دوست ثابت ہوں جن پر بھروسہ کِیا جا سکے۔‏ (‏امثا 17:‏17‏)‏ بادشاہ ساؤل کے بیٹے یونتن نے داؤد کے ساتھ دوستی کی۔ جب یونتن نے سنا کہ داؤد نے جاتی جولیت کو مار ڈالا تو ”‏یونتنؔ کا دل داؔؤد کے دل سے اَیسا مل گیا کہ یونتنؔ اُس سے اپنی جان کے برابر محبت کرنے لگا۔“‏ (‏1-‏سمو 18:‏1،‏ 3‏)‏ یونتن نے داؤد کو اِس بات سے آگاہ کِیا کہ بادشاہ ساؤل اُس کو مار ڈالنا چاہتا ہے۔ جب داؤد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تو یونتن نے اُس کے ساتھ ملاقات کی اور اُس کے ساتھ دوستی کا عہد باندھا۔ یونتن نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بادشاہ ساؤل کے ساتھ داؤد کے بارے میں بات بھی کی۔ خطرے کے باوجود یونتن نے داؤد کے ساتھ دوبارہ سے ملاقات کی اور اپنی دوستی کو برقرار رکھنے کا عہد باندھا۔ (‏1-‏سمو 20:‏24-‏41‏)‏ اُن کی آخری ملاقات پر یونتن نے ”‏خدا میں [‏داؤد]‏ کا ہاتھ مضبوط کِیا۔“‏—‏1-‏سمو 23:‏16-‏18‏۔‏

م09 1/‏10 ص.‏ 27 پ.‏ 11

خودغرض دُنیا میں دوستی برقرار رکھیں

11 وفادار بنیں۔‏ بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کے لئے پیدا ہوا ہے۔“‏ (‏امثا 17:‏17‏)‏ اِن الفاظ کو تحریر کرتے وقت غالباً سلیمان کے ذہن میں یونتن اور اپنے باپ داؤد کی دوستی تھی۔ (‏1-‏سمو 18:‏1‏)‏ بادشاہ ساؤل چاہتا تھا کہ اُس کا بیٹا یونتن اُس کے بعد اسرائیل کا بادشاہ بنے۔ لیکن یونتن نے اِس بات کو تسلیم کِیا کہ یہوواہ خدا نے داؤد کو بادشاہ بننے کے لئے منتخب کِیا ہے۔ وہ ساؤل کی طرح داؤد کا دشمن نہیں بنا۔ داؤد کی تعریف پر نہ تو یونتن نے اُس سے حسد کِیا اور نہ ہی اُن باتوں پر یقین کِیا جو ساؤل نے اُس کے خلاف پھیلائی تھیں۔ (‏1-‏سمو 20:‏24-‏34‏)‏ کیا ہم یونتن کی طرح ہیں؟ جب ہمارے دوستوں کو کلیسیا میں شرف ملتے ہیں تو کیا ہم خوش ہوتے ہیں؟ جب اُنہیں آزمائشوں اور تکلیفوں کا سامنا ہوتا ہے تو کیا ہم اُنہیں تسلی دیتے اور اُن کی مدد کرتے ہیں؟ جب ہم اپنے دوست کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو کیا ہم فوراً اِس کا یقین کر لیتے ہیں؟ یاپھر کیا ہم یونتن کی طرح وفاداری سے اپنے دوست کی حمایت کرتے ہیں؟‏

سنہری باتوں کی تلاش

م05 15/‏3 ص.‏ 24 پ.‏ 5

سموئیل کی پہلی کتاب سے اہم نکات

21:‏12، 13۔‏ جب ہم زندگی کی راہ پر کسی مشکل کا سامنا کرتے ہیں تو ہمیں دانائی اور عقلمندی سے کام لینا چاہئے۔ یہوواہ ہم سے یہی توقع کرتا ہے۔ وہ اپنے کلام کے ذریعے ہم کو ہوشیاری، علم اور تمیز جیسی خوبیاں سکھاتا ہے۔ (‏امثال 1:‏4‏)‏ اسکے علاوہ کلیسیا کے بزرگ بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں۔‏

18-‏24 اپریل

پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-‏سموئیل 23-‏24

‏”‏صبر سے یہوواہ کے وقت کا اِنتظار کریں“‏

م04 1/‏4 ص.‏ 16 پ.‏ 8

زندگی کے تغیروتبدل کا مقابلہ کرنے کیلئے خدا کی رُوح پر بھروسا کریں

8 داؤد نے ساؤل کو نقصان پہنچانے سے انکار کر دیا۔ ایمان اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وہ معاملات کو یہوواہ کے ہاتھوں میں سونپ کر مطمئن تھا۔ جب بادشاہ غار سے نکل گیا تو داؤد نے پکار کر اُس سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میرے اور تیرے درمیان اِنصاف کرے اور [‏یہوواہ]‏ تجھ سے میرا انتقام لے پر میرا ہاتھ تجھ پر نہیں اُٹھے گا۔“‏ (‏1-‏سموئیل 24:‏12‏)‏ اگرچہ وہ جانتا تھا کہ ساؤل غلطی پر ہے توبھی داؤد نے کبھی بھی انتقام لینے کی بابت نہ سوچا اور نہ ہی اُس نے ساؤل کے سامنے یا اُس کی پیٹھ پیچھے اُس کی بُرائی کی۔ کئی دوسرے مواقع پر بھی داؤد نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کِیا اور معاملات کو درست کرنے کے لئے یہوواہ پر توکل کِیا۔—‏1-‏سموئیل 25:‏32-‏34؛‏ 26:‏10، 11‏۔‏

م04 1/‏6 ص.‏ 22-‏23

کیا آپکی زندگی آپکے حالات کے تابع ہے؟‏

اپنے حالات میں تبدیلی لانے کیلئے ہمیں غلط کاموں کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ اسکی بجائے ہمیں اپنے مسئلوں کے حل کیلئے یہوواہ پر بھروسا رکھنا چاہئے۔ یعقوب شاگرد نے لکھا:‏ ”‏صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تُم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تُم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔“‏ (‏یعقوب 1:‏4‏)‏ اگر ہم صبر کو ’‏اپنا پورا کام کرنے دینگے‘‏ تو ہم اپنی آزمائشوں کو ختم کرنے کیلئے غلط طریقے استعمال نہیں کرینگے۔ پھر ان آزمائشوں سے گزر کر ہمارا ایمان اَور بھی مضبوط ہو جائیگا۔ یوسف اور داؤد نے صبر سے کام لیا۔ اُنہوں نے اپنی مصیبتوں کا ایسا حل تلاش نہیں کِیا جس سے یہوواہ ناراض ہوتا۔ اسکی بجائے اُنہوں نے یہوواہ کی مدد کا انتظار کِیا۔ یہوواہ اس رویے سے بہت خوش ہوا اور اُس نے ان دونوں کو اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے استعمال کِیا۔—‏پیدایش 41:‏39-‏41؛‏ 45:‏5؛‏ 2-‏سموئیل 5:‏4، 5‏۔‏

شاید ہمیں بھی ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے جن سے نپٹنے کیلئے ہم خود کو بائبل کے معیاروں کے خلاف قدم اُٹھانے پر مجبور سمجھیں۔ مثال کے طور پر، مناسب ساتھی نہ ملنے کی وجہ سے شاید آپ بے‌حوصلہ ہو گئے ہوں۔ ایسی صورتحال میں بھی ’‏صرف خداوند میں شادی کرنے‘‏ کا پکا ارادہ رکھیں۔ (‏1-‏کرنتھیوں 7:‏39‏)‏ کیا شادی‌شُدہ زندگی میں آپ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں؟ دُنیا میں لوگ ایسی صورتحال میں اکثر علیٰحدہ ہو جاتے ہیں یا طلاق لے لیتے ہیں۔ ایسا کرنے کی بجائے آپ اپنے بیاہتا ساتھی کیساتھ ملکر ان مسئلوں کا حل ڈھونڈیں۔ (‏ملاکی 2:‏16؛‏ افسیوں 5:‏21-‏33‏)‏ کیا آمدنی کم ہونے کی وجہ سے آپ کیلئے اپنے خاندان کی دیکھ‌بھال کرنا مشکل ہو رہا ہے؟ اگر آپ یہوواہ پر بھروسا رکھینگے تو آپ کسی ناجائز طریقے سے پیسے کمانے کی کوشش نہیں کرینگے۔ (‏زبور 37:‏25؛‏ عبرانیوں 13:‏18‏)‏ چاہے ہم کسی بھی صورتحال میں ہوں ہمیں یہوواہ کی برکت حاصل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں اُس وقت کے منتظر رہنا چاہئے جب یہوواہ ہماری ہر مشکل کو دُور کر دیگا۔—‏میکاہ 7:‏7۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

م17.‏11 ص.‏ 29 پ.‏ 11

کسی بھی وجہ سے اِنعام سے محروم نہ رہ جائیں

11 اگر ہم اپنے اندر محبت اور مہربانی کی خوبی کو نکھارنے کی کوشش کریں گے تو ہم دوسروں سے حسد کرنے سے بچ پائیں گے۔ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏محبت صبر کرتی ہے اور مہربان ہے۔ محبت حسد نہیں کرتی۔“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 13:‏4‏)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حسد ہمارے دل میں جڑ نہ پکڑے تو ہمیں یہوواہ خدا کی طرح کلیسیا کے ارکان کو ایک جسم کے مختلف اعضا خیال کرنا چاہیے۔ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اگر ایک عضو کی بڑائی ہوتی ہے تو باقی سارے اعضا اُس کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 12:‏16-‏18،‏ 26‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ اگر کسی بہن یا بھائی کو کوئی اعزاز ملتا ہے تو ہمیں اُس سے حسد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کی خوشی میں شریک ہونا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ساؤل کے بیٹے یونتن کی مثال پر غور کریں۔ جب داؤد کو بادشاہ کے طور پر چُنا گیا تو یونتن نے اُن سے حسد نہیں کِیا۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے داؤد کی حوصلہ‌افزائی اور حمایت کی۔ (‏1-‏سموئیل 23:‏16-‏18‏)‏ کیا آپ بھی بہن بھائیوں کے لیے یونتن جیسی محبت اور مہربانی ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

25 اپریل–‏1 مئی

پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-‏سموئیل 25-‏26

‏”‏کیا آپ جذبات میں آ کر کوئی قدم اُٹھاتے ہیں؟“‏

ایمان ظاہر کریں،‏ ص.‏ 78 پ.‏ 10-‏12

اُنہوں نے سمجھ‌داری سے کام لیا

10 داؤد کے آدمی نابال کے چرواہوں کے ساتھ کیسے پیش آتے تھے؟ اگر وہ چاہتے تو بڑی آسانی سے ریوڑ میں سے ایک آدھی بھیڑ چُرا سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے ایسا کبھی نہیں کِیا۔ اِس کے برعکس وہ نابال کے ریوڑ اور خادموں کے گِرد ایک حفاظتی دیوار کی طرح تھے۔ ‏(‏1-‏سموئیل 25:‏15، 16 کو پڑھیں۔)‏ بھیڑوں اور چرواہوں کو طرح طرح کے خطرات کا سامنا ہوتا تھا۔ اِس علاقے میں بہت سے شکاری جانور تھے اور چونکہ اِسرائیل کی جنوبی سرحد بہت قریب تھی اِس لیے غیرملکی لُٹیرے بھی اکثر حملہ کر دیتے تھے۔‏

11 داؤد اور اُن کے 600 آدمیوں کے لیے اِس ویرانے میں اپنا پیٹ پالنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اِس لیے ایک دن داؤد نے اپنے دس آدمیوں کو نابال کے پاس مدد مانگنے کے لیے بھیجا۔ داؤد نے بڑے اچھے وقت کا اِنتخاب کِیا۔ دراصل یہ بھیڑوں کے بال کترنے کا وقت تھا اور اِس موقعے پر فیاضی دِکھانے اور ضیافتیں کرنے کا رواج تھا۔ داؤد نے جن الفاظ میں اپنا پیغام نابال تک پہنچایا، اُن کا اِنتخاب بھی اُنہوں نے بہت سوچ سمجھ کر کِیا۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے خود کو اُس کا بیٹا کہا۔ شاید اُنہوں نے ایسا نابال کی بڑی عمر کے لیے احترام ظاہر کرنے کی خاطر کِیا ہو۔ داؤد کے پیغام کو سننے کے بعد نابال نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟—‏1-‏سمو 25:‏5-‏8‏۔‏

12 نابال آپے سے باہر ہو گیا۔ جس خادم کا باب کے شروع میں ذکر کِیا گیا ہے، اُس نے ابیجیل کو نابال کے ردِعمل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:‏ ”‏وہ اُن پر جھنجھلایا۔“‏ اُس کنجوس آدمی نے اِس بات پر اِعتراض کِیا کہ وہ اپنی روٹی، پانی اور جانوروں کا گوشت انجان لوگوں کو کیوں دے۔ جس طرح سے اُس نے داؤد کے بارے میں بات کی، اُس سے ظاہر ہوا کہ اُس کی نظر میں داؤد کی کوئی وقعت نہیں ہے اور وہ اُنہیں ایک بھگوڑا غلام سمجھتا ہے۔ نابال کی سوچ ساؤل جیسی تھی جو داؤد سے سخت نفرت کرتے تھے۔ اِن دونوں آدمیوں کا نظریہ یہوواہ کے اُلٹ تھا۔ خدا، داؤد سے بہت پیار کرتا تھا۔ اُس کی نظر میں وہ ایک باغی غلام نہیں بلکہ اِسرائیل کے اگلے بادشاہ تھے۔—‏1-‏سمو 25:‏10، 11،‏ 14‏۔‏

ایمان ظاہر کریں،‏ ص.‏ 80 پ.‏ 18

اُنہوں نے سمجھ‌داری سے کام لیا

18 اُنہوں نے معاملے کی ساری ذمے‌داری اپنے سر لے لی اور داؤد سے کہا کہ وہ اُنہیں معاف کر دیں۔ اُنہوں نے یہ تسلیم کِیا کہ جیسا اُن کے شوہر کے نام کا مطلب ہے، وہ ویسا ہی احمق ہے۔ اُن کا مقصد شاید داؤد کو یہ سمجھانا تھا کہ نابال جیسے شخص کے مُنہ لگنا اُن کی شان کے خلاف ہوگا۔ اُنہوں نے داؤد کے بارے میں کہا کہ وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی لڑائیاں“‏ لڑتے ہیں۔ اِس طرح اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ داؤد کو یہوواہ کا نمائندہ سمجھتی ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ تجھ کو اِؔسرائیل کا سردار بنا دے گا۔“‏ اُن کی اِس بات سے یہ اِشارہ ملا کہ وہ یہوواہ کے اِس وعدے سے واقف تھیں کہ وہ داؤد کو اِسرائیل کا بادشاہ بنائے گا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے داؤد سے مِنت کی کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں جس کی وجہ سے وہ بے‌قصوروں کے خون کے مُجرم ٹھہریں یا جس کی وجہ سے بعد میں اُنہیں ”‏دلی صدمہ“‏ ہو یعنی اُن کا ضمیر اُنہیں ملامت کرے۔ ‏(‏1-‏سموئیل 25:‏24-‏31 کو پڑھیں۔)‏ بِلاشُبہ اُن کی باتیں بہت اثرآفرین تھیں۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

ایمان ظاہر کریں،‏ ص.‏ 79 پ.‏ 16

اُنہوں نے سمجھ‌داری سے کام لیا

16 کیا اِس طرح ابیجیل اپنے شوہر کی سربراہی کے خلاف بغاوت کر رہی تھیں؟ ہرگز نہیں۔ یاد رکھیں کہ نابال، یہوواہ کے مسح‌شُدہ بندے کے ساتھ بہت بدتمیزی سے پیش آیا تھا۔ اور اُس کی اِس غلطی کی وجہ سے اُس کے گھرانے کے بہت سے بے‌قصور لوگوں کی جان جا سکتی تھی۔ اگر ابیجیل کوئی قدم نہ اُٹھاتیں تو وہ بھی اپنے شوہر کی اِس غلطی میں اُس کی حصے‌دار بن جاتیں۔ لہٰذا اِس صورتحال میں اُن کے لیے یہوواہ کی تابع‌داری کرنا اپنے شوہر کی تابع‌داری کرنے سے زیادہ اہم تھا۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں