ملاکی
(ایسآئی ص. ۱۷۲-۱۷۳ پ. ۱-۶؛ ص. ۱۷۴-۱۷۵ پ. ۱۳-۱۷)
ملاکی کی تمہید
۱. کیا چیز یہوواہ کے لئے ملاکی کی غیرت کو ظاہر کرتی ہے؟
۱ ملاکی کون تھا؟ ملاکی اور اُس کے آباؤاجداد کے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ تاہم، جس طریقے سے اُس نے پیشینگوئی کی ہے اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہوواہ خدا کے لئے گہری عقیدت رکھتا تھا۔ نیز، وہ خدا کے نام اور سچی پرستش کو سربلند کرنا چاہتا تھا۔ اِس کے علاوہ، اُسے اُن اشخاص پر بہت غصہ آتا تھا جو خدا کی خدمت کرنے کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن حقیقت میں اپنی ذات کی بابت فکرمند رہتے تھے۔ اِس کی نبوّتی کتاب کے چار ابواب میں ۴۸ مرتبہ یہوواہ کے نام کا ذکر آیا ہے۔
۲. ملاکی کے نام کا کیا مطلب ہے اور وہ کس دور میں رہتا تھا؟
۲ عبرانی زبان میں اُس کا نام مالاخی ہے جس کا مطلب غالباً ”میرا پیامبر“ ہے۔ عبرانی صحائف، سپتواجنتا اور کتابوں کی تاریخی ترتیب میں ملاکی کی کتاب کو چھوٹی کُتب لکھنے والے ۱۲ انبیاءصغریٰ کی کتابوں میں سب سے آخر پر رکھا گیا ہے۔ ”مجلسِاعظم“ کی ایک روایت کے مطابق، ملاکی نبی حجی اور زکریاہ نبی کے بعد کے دور میں رہتا تھا۔ وہ نحمیاہ نبی کا ہمعصر بھی تھا۔
۳. کونسی چیز ظاہر کرتی ہے کہ ملاکی کی کتاب ۴۴۳ قبلازمسیح کے بعد تحریر کی گئی تھی؟
۳ ملاکی کی نبوّتی کتاب کو کب اور کس کے دور میں تحریر کِیا گیا؟ اِسے ناظم زربابل کے دور میں تحریر کِیا گیا۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یہوداہ کی ۷۰ سالہ بربادی کے بعد یروشلیم کی دوبارہ بحالی کے بعد کا واقعہ ہے۔ (ملا ۱:۸) اگرچہ ہیکل میں خدمت کا ذکر اِس کی تعمیر سے پہلے کے وقت کے حوالے سے کِیا گیا ہے توبھی یہ کتاب ناظم زربابل کے دور کے بعد تحریر کی گئی ہوگی۔ کیونکہ زربابل کی حکمرانی کے دوران ہیکل کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔ صحائف میں اِس وقت کے دوران صرف ایک اَور حاکم کا ذکر کِیا گیا جوکہ نحمیاہ تھا۔ کیا یہ پیشینگوئی نحمیاہ کے وقت سے تعلق رکھتی ہے؟ ملاکی کی کتاب میں یروشلیم اور اُس کی فصیل کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں کِیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اِسے نحمیاہ کے ابتدائی دور میں نہیں لکھا گیا تھا۔ تاہم، اِس کتاب میں کہانت کے ناجائز استعمال کی بابت بہت کچھ بیان کِیا گیا ہے۔ اِس وجہ سے ملاکی کی کتاب کو اُس وقت سے منسوب کِیا جا سکتا ہے جب ۴۴۳ قبلازمسیح میں ارتخششتا بادشاہ کے دورِحکومت کے ۳۲ ویں برس میں بادشاہ کے دوبارہ نحمیاہ کو بابل بلانے کے بعد وہ دوسری مرتبہ یروشلیم گیا۔ (ملا ۲:۱؛ نحم ۱۳:۶) ملاکی اور نحمیاہ کی کتاب میں اِس طرح کے دیگر اقتباسات بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اِس پیشینگوئی کا اطلاق اُسی خاص وقت پر ہوتا ہے۔—ملا ۲:۴-۸، ۱۱، ۱۲—نحم ۱۳:۱۱، ۱۵، ۲۳-۲۶؛ ملا ۳:۸-۱۰—نحم ۱۳:۱۰-۱۲۔
۴. کس بات سے ملاکی کی کتاب کے مستند اور الہامی ہونے کا ثبوت ملتا ہے؟
۴ یہودیوں نے ملاکی کی کتاب کو ہمیشہ مستند تسلیم کِیا ہے۔ مسیحی یونانی صحائف میں اِس کی نبوّتی تکمیل کو ظاہر کرنے والے کئی ایک اقتباسات اِس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ملاکی کی کتاب الہامی ہے اور یہ عبرانی صحائف کی فہرستِمسلمہ کا حصہ ہے جسے مسیحی کلیسیا نے تسلیم کِیا تھا۔—ملا ۱:۲، ۳—روم ۹:۱۳؛ ملا ۳:۱—متی ۱۱:۱۰ اور لو ۱:۷۶ اور ۷:۲۷؛ ملا ۴:۵، ۶—متی ۱۱:۱۴ اور ۱۷:۱۰-۱۳، مر ۹:۱۱-۱۳ اور لو ۱:۱۷۔
۵. کس گِرتی ہوئی روحانی حالت نے ملاکی کو پیشینگوئی کرنے کی تحریک دی تھی؟
۵ ملاکی کی نبوّت ظاہر کرتی ہے کہ حجی اور زکریاہ نبی نے ہیکل کی دوبارہ تعمیر کے وقت جو مذہبی غیرت اور جوش پیدا کِیا وہ اب ختم ہو چکا تھا۔ کاہن لاپروا، مغرور اور ظاہراً راستباز بن چکے تھے۔ ہیکل میں کی جانے والی خدمات ہنسیمذاق بن چکی تھیں۔ یہ سوچ کر کہ خدا اُن میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا لوگوں نے دہیکیاں دینا اور نذریں چڑھانا بند کر دیا تھا۔ زربابل پر لگائی گئی اُمیدیں بھی پوری نہ ہوئیں اور بعض کی توقعات کے برعکس مسیحا بھی ابھی تک نہیں آیا تھا۔ یہودی روحانی طور پر بہت کمزور پڑ چکے تھے۔ اب اُنہیں کس بنیاد پر حوصلہافزائی اور اُمید دی جا سکتی تھی؟ لوگوں کو اُن کی حقیقی حالت سے کیسے آگاہ کِیا جا سکتا اور راستبازی کے لئے بیدار کِیا جا سکتا تھا؟ ملاکی کی پیشینگوئی نے اِن سب سوالوں کا جواب فراہم کِیا۔
۶. ملاکی کا طرزِتحریر کیسا ہے؟
۶ ملاکی کا طرزِتحریر براہِراست اور پُرزور ہے۔ وہ سب سے پہلے تجویز پیش کرتا ہے اور بعد میں اُن لوگوں کے اعتراضات کا جواب دیتا ہے جن سے وہ مخاطب ہے۔ آخر میں وہ اپنی ابتدائی تجویز پر زور دیتا ہے۔ اِس طرح اُس کی دلیل اَور زیادہ مضبوط اور واضح ہو جاتی ہے۔ خطیبانہ انداز اپنانے کی بجائے وہ پُرزور طریقے سے استدلال کرتا ہے۔
کیوں فائدہمند
۱۳. ملاکی (ا) یہوواہ کے رحم اور محبت کی بابت؟ (ب) خدا کے کلام کے اُستادوں کی ذمہداری کی بابت؟ (پ) خدا کے قوانین اور اصولوں کی خلافورزی کرنے والے اشخاص کی بابت کیا کہتا ہے؟
۱۳ ملاکی کی کتاب یہوواہ خدا کے لاتبدیل اصولوں اور شفقتورحم کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ اس کتاب کے شروع میں یہوواہ کی ”یعقوب“ یعنی اپنے لوگوں کے لئے عظیم محبت پر زور دیا گیا ہے۔ خدا نے یعقوب سے کہا: ”مَیں [یہوواہ] لاتبدیل ہوں۔“ اُن کے بہت سے گناہوں کے باوجود، وہ اپنے لوگوں کی طرف رجوع کرنے کے لئے تیار تھا۔ مگر پہلے اُنہیں اُس کی طرف رجوع کرنا تھا۔ یقیناً یہوواہ رحیم خدا ہے! (ملا ۱:۲؛ ۳:۶، ۷؛ روم ۱۱:۲۸؛ خر ۳۴:۶، ۷) یہوواہ نے ملاکی کی معرفت اِس بات پر زور دیا کہ لازم ہے کہ ایک کاہن کے لب ”معرفت کو محفوظ رکھیں۔“ ایسے تمام اشخاص جنہیں خدا کے کلام کی تعلیم دینے کی ذمہداری سونپی گئی ہے اُنہیں اِس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ وہ درست تعلیم دے رہے ہیں۔ (ملاکی ۲:۷ اور فلپیوں ۱:۹-۱۱ کا یعقوب ۳:۱ کے ساتھ موازنہ کریں۔) خدا ایسے ریاکار لوگوں کو برداشت نہیں کرتا جو ’برائی کو یہوواہ کی نظر میں نیک‘ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی شخص کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ شاہِعظیم یہوواہ کے حضور جھوٹی نذر گذراننے سے اُسے دھوکا دے سکتا ہے۔ (ملا ۲:۱۷؛ ۱:۱۴؛ کل ۳:۲۳، ۲۴) یہوواہ خدا راست قوانین اور اصولوں کی خلافورزی کرنے والے تمام لوگوں کے خلاف مستعد گواہ ہوگا۔ لہٰذا، کوئی بھی شخص بُرا کام کرکے بچنے کی توقع نہیں کر سکتا۔ یہوواہ ایسے لوگوں کی عدالت ضرور کرے گا۔ (ملا ۳:۵؛ عبر ۱۰:۳۰، ۳۱) راستباز پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اُن کے کاموں کو یاد رکھتے ہوئے اُنہیں اجر دے گا۔ اُنہیں یسوع کی طرح موسیٰ کی شریعت پر دھیان دینا چاہئے کیونکہ اِس میں یسوع پر پوری ہونے والی بیشمار پیشینگوئیاں پائی جاتی ہیں۔—ملا ۳:۱۶؛ ۴:۴؛ لو ۲۴:۴۴، ۴۵۔
۱۴. (ا) ملاکی اپنی پیشینگوئی میں خاص طور پر کس طرف اشارہ کرتا ہے؟ (ب) پہلی صدی عیسوی میں ملاکی ۳:۱ کی تکمیل کیسے ہوئی تھی؟
۱۴ عبرانی صحائف کی آخری کتاب کے طور پر ملاکی کی کتاب مسیحا کی آمد کے پیشگی واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کیونکہ مسیحا کے ظہور ہی نے چار صدیوں بعد مسیحی یونانی صحائف کو تحریر کرنے کی وجہ فراہم کی تھی۔ جیساکہ ملاکی ۳:۱ میں یہوواہ خدا نے فرمایا: ”دیکھو مَیں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا۔“ عمررسیدہ زکریاہ نے خدا کے الہام سے کہا کہ یہ بات اُس کے بیٹے، یوحنا بپتسمہ دینے والے کے سلسلے میں پوری ہوئی۔ (لو ۱:۷۶) اُسی دوران یسوع مسیح نے بھی اِس بات کی تصدیق کر دی: ”جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوؔحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں لیکن جو خدا کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے۔“ ملاکی کی پیشینگوئی کے مطابق، یوحنا کو ’راہ درست‘ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اِس لئے وہ اُن لوگوں میں شامل نہیں تھا جن کے ساتھ یسوع نے بعد میں بادشاہت کا عہد باندھا تھا۔—متی ۱۱:۷-۱۲؛ لو ۷:۲۷، ۲۸؛ ۲۲:۲۸-۳۰۔
۱۵. ملاکی کی پیشینگوئی میں بیان کِیا جانے والا ”ایلیاہ“ کون ہے؟
۱۵ اِس کے بعد ملاکی ۴:۵، ۶ میں یہوواہ وعدہ فرماتا ہے: ”دیکھو . . . مَیں ایلیاؔہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔“ یہ ”ایلیاؔہ“ کون ہے؟ یسوع مسیح اور زکریاہ کے پاس آنے والے فرشتے نے اِن الفاظ کا اطلاق یوحنا بپتسمہ دینے والے پر کِیا کہ وہ ”سب کچھ بحال کرے گا“ اور مسیحا کا استقبال کرنے کے لئے ”[یہوواہ] کے لئے ایک مستعد قوم تیار“ کرے گا۔ تاہم، ملاکی یہ بھی کہتا ہے کہ ”ایلیاہ“ ”[یہوواہ] کے بزرگ اور ہولناک دن“ کا پیشرو ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس پیشینگوئی کی تکمیل مستقبل میں بھی ہونی تھی۔—متی ۱۷:۱۱؛ لو ۱:۱۷؛ متی ۱۱:۱۴؛ مر ۹:۱۲۔
۱۶. ملاکی کس مبارک دن کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور وہ کونسی پُرجوش حوصلہافزائی دیتا ہے؟
۱۶ اُس دن کی بابت بیان کرتے ہوئے یہوواہ خدا فرماتا ہے: ”آفتاب کے طلوع سے غروب تک قوموں میں میرے نام کی تمجید ہوگی . . . کیونکہ مَیں شاہِعظیم ہوں اور قوموں میں میرا نام مہیب ہے۔“ اُس کا نام واقعی مہیب ہے! کیونکہ ’وہ دن بھٹی کی مانند سوزان ہوگا اور سب مغرور اور بدکردار بھوسے کی مانند ہوں گے۔‘ تاہم، یہوواہ کے نام سے ڈرنے والے لوگ مبارک ہوں گے کیونکہ اُن کے لئے ”آفتابِصداقت طالع ہوگا اور اُس کی کرنوں میں شفا ہوگی۔“ یہ اُس خوشکُن وقت کی جانب توجہ دلاتا ہے جب فرمانبردار لوگ مکمل طور پر روحانی، جذباتی، ذہنی اور جسمانی شفا پائیں گے۔ (مکا ۲۱:۳، ۴) اُس جلالی اور مبارک دن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ملاکی نبی ہماری حوصلہافزائی کرتا ہے کہ پورے دل سے یہوواہ کے گھر میں نذرانے پیش کریں۔ کیونکہ ملاکی ۳:۱۰ بیان کرتی ہے: ”اِسی سے میرا امتحان کرو ربُالافواج فرماتا ہے کہ مَیں تم پر آسمان کے دریچوں کو کھول کر برکت برساتا ہوں کہ نہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس اُس کے لئے جگہ نہ رہے۔“—ملا ۱:۱۱، ۱۴؛ ۴:۱، ۲۔
۱۷. کس پُراُمید بیان کے ساتھ ملاکی کی آگاہیوں کو قدرے نرم کرکے بیان کِیا گیا ہے؟
۱۷ انبیاءصغریٰ کی یہ آخری کتاب نہ صرف ’زمین کو ملعون کرنے‘ سے آگاہ کرتی ہے بلکہ یہ بھی بیان کرتی ہے کہ یہوواہ اپنے لوگوں سے پُراُمید اور خوش رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ جیسےکہ ملاکی ۳:۱۲ میں لکھا ہے: ”سب قومیں تم کو مبارک کہیں گی کیونکہ تم دلکُشا مملکت ہوگے۔“—۴:۶۔