”مسیحی زندگی اور خدمت—اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
4-10 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 18-19
”اپنا چالچلن پاک رکھیں“
شیطان کے ایک خطرناک پھندے سے خود کو بچائیں!
یہوواہ خدا نے اِردگِرد کی قوموں کے بےہودہ کاموں کا ذکر کرتے ہوئے بنیاِسرائیل سے کہا: ”ملکِکنعاؔن کے سے کام . . . جہاں مَیں تمہیں لئے جاتا ہوں نہ کرنا . . . اُن کا ملک بھی آلودہ ہو گیا ہے۔ اِس لئے مَیں اُس کی بدکاری کی سزا اُسے دیتا ہوں۔“ کنعانیوں کا طرزِزندگی اِس قدر غلیظ تھا کہ بنیاِسرائیل کے پاک خدا کی نظر میں اُن کا پورا ملک آلودہ ہو گیا تھا۔—احبا 18:3، 25۔
یہوواہ اپنے بندوں کا رہنما ہے
خدا کے وفادار بادشاہوں اور دوسری قوموں کے بادشاہوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دوسری قوموں کے بادشاہ اپنی دانشمندی پر بھروسا کرتے تھے۔ اُن کی پیشوائی میں اُن کی رعایا بڑے پیمانے پر بُرے کام کرتی تھی۔ مثال کے طور پر کنعانی لوگ قریبی رشتےداروں اور جانوروں سے جنسی ملاپ کرتے تھے، ہمجنسپرستی اور بُتپرستی کرتے تھے اور اپنے بچوں کو بُتوں کے لیے زندہ جلا دیتے تھے۔ (احبار 18:6، 21-25) بابل اور مصر کے پیشوا صفائی ستھرائی کے حوالے سے اِتنے اعلیٰ معیار نہیں رکھتے تھے جتنے کہ خدا کی قوم رکھتی تھی۔ (گنتی 19:13) لیکن بنیاِسرائیل کے جو پیشوا پاک کلام سے رہنمائی حاصل کرتے تھے، وہ اپنی رعایا کو صاف ستھرا رہنے اور اپنے چالچلن اور عبادت کو پاک رکھنے کا درس دیتے تھے۔ یوں بنیاِسرائیل دیکھ سکتے تھے کہ یہوواہ اُن کے پیشواؤں کی رہنمائی کر رہا تھا۔
مصیبتوں کا خاتمہ کیسے ہوگا؟
جو لوگ بُرے کام کرنے سے باز نہیں آتے، اُن کا کیا انجام ہوگا؟ پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”راستباز ملک میں بسیں گے اور کامل اُس میں آباد رہیں گے۔ لیکن شریر زمین پر سے کاٹ ڈالے جائیں گے اور دغاباز اُس سے اُکھاڑ پھینکے جائیں گے۔“ (امثال 2:21، 22) جب بُرے لوگوں کا نامونشان مٹ جائے گا تو زمین پر ایسا خوشگوار ماحول ہوگا جس میں اِنسان آہستہ آہستہ گُناہ کے اثرات سے پاک ہو جائیں گے۔—رومیوں 6:17، 18؛ 8:21۔
سنہری باتوں کی تلاش
”مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں“
یہوواہ خدا کی فکرمندی کو ظاہر کرنے والا موسوی شریعت کا دوسرا پہلو بالیں چننے کا حق تھا۔ یہوواہ خدا نے حکم دیا کہ جب کوئی اسرائیلی کسان اپنی فصل کی کٹائی کرے تو جو باقی بچ جائے اُسے ضرورتمند اور نادار اسرائیلیوں کے لئے چھوڑ دے۔ کسانوں کو اپنے کھیت کونے کونے تک کاٹنے یا انگورستان یا زیتون کا دانہ دانہ چننے یا جو بالیں پیچھے رہ جاتی تھیں اُنہیں چننے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ غریبوں، مسافروں، یتیموں اور بیواؤں کے لئے ایک پُرمحبت بندوبست تھا۔ اگرچہ بالیں چننا ایک مشقتطلب کام تھا توبھی اس بندوبست کی وجہ سے اُنہیں دوسروں سے بھیک نہیں مانگنی پڑتی تھی۔—احبار 19:9، 10؛ اِستثنا 24:19-22؛ زبور 37:25۔
11-17 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 20-21
”یہوواہ اپنے بندوں کو دوسرے لوگوں سے الگ کرتا ہے“
کیا آپ فردوس میں رہنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں؟
لیکن ہمیں ایک چیز یاد رکھنی چاہئے۔ خدا نے بنی اسرائیل کو کہا کہ ”ان سب حکموں کو جو آج مَیں تجھ کو دیتا ہوں تُم ماننا تاکہ تُم مضبوط ہو کر اُس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کیلئے تُم پار جا رہے ہو پہنچ جاؤ اور اُس پر قبضہ بھی کر لو۔“ (اِستثنا 11:8) احبار 20:22، 24 میں بھی اسی ”ملک“ کا ذکر یوں کِیا گیا ہے: ”تُم میرے سب آئین اور احکام ماننا اور ان پر عمل کرنا تاکہ وہ ملک جس میں مَیں تمکو بسانے کو لئے جاتا ہوں تُم کو اُگل نہ دے۔ پر مَیں نے تُم سے کہا ہے کہ تُم انکے ملک کے وارث ہوگے اور مَیں تمکو وہ ملک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے تمہاری ملکیت ہونے کیلئے دونگا۔“ یہوواہ خدا نے بنی اسرائیل کو ایک فردوسنما ملک میں بسایا تھا۔ لیکن جب انہوں نے خدا کے حکموں پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو خدا نے شاہِبابل کے ذریعے انہیں اس ملک سے نکلوا دیا۔ لہٰذا ملکِموعود میں رہنے کی شرط یہ تھی کہ بنی اسرائیل خدا کے احکام پر عمل کریں اور اسکے نزدیک رہیں۔
آئیٹی-1 ص. 1199
وراثت
ایسی جائیداد جو کسی شخص کی موت کے بعد اُس کے وارث کو یا اُس کے جانشین کو ملتی ہے۔ عبرانی فعل ”ناچال“وراثت دینے یا اِسے حاصل کرنے کے لیے اِستعمال کِیا گیا ہے۔ (گن 26:55؛ حِز 46:18) عبرانی فعل ”یارش“ کبھی کبھار ”وارث ہونے“ کا خیال پیش کرتا ہے لیکن عام طور پر یہ ”قبضہ کرنے“ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ (پید 15:3؛ احبا 20:24) اِس کا مطلب فوجی طاقت کے بلبوتے پر کسی کو ”نکال دینا یا فنا کرنا“ بھی ہے۔ (اِست 2:12؛ 31:3) یونانی زبان میں وراثت کے لیے جو لفظ اِستعمال کیے گئے ہیں، اُن کا تعلق ”کلیروس“ سے ہے جس کا اصلی مطلب ”قُرعہ“ ہوا کرتا تھا۔ لیکن بعد میں اِسے ”حصہ“ اور پھر ”وراثت“ کے طور پر اِستعمال کِیا جانے لگا۔—متی 27:35؛ اعما 1:17؛ 26:18۔
آئیٹی-1 ص. 317 پ. 2
پرندے
طوفان کے بعد جب نوح کشتی سے باہر آئے تو اُنہوں نے کچھ ”پاک پرندوں“ اور جانوروں کو یہوواہ کے حضور قربان کِیا۔ (پید 8:18-20) بعد میں خدا نے اِنسانوں کو پرندے کھانے کی اِجازت دے دی بشرطیکہ وہ اُن کا خون نہ کھائیں۔ (پید 9:1-4؛ احبا 7:26؛ 17:13 پر غور کریں۔) اُس وقت پرندوں کا پاک ہونا یا نہ ہونا اِس بات پر منحصر ہوتا تھا کہ آیا خدا اُنہیں قربانی کے طور پر قبول کرتا ہے یا نہیں۔ بائبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک خدا نے موسیٰ کو شریعت نہیں دی تب تک ناپاک پرندے بھی خوراک کے طور پر اِستعمال کیے جاتے تھے۔ (احبا 11:13-19، 46، 47؛ 20:25؛ اِست 14:11-20) بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن باتوں کی وجہ سے ایک پرندہ ناپاک ہونے کے زمرے میں آتا تھا۔ سچ ہے کہ زیادہتر پرندے جنہیں ناپاک قرار دیا گیا، وہ شکاری پرندے تھے لیکن صرف شکاری پرندے ہی ناپاک نہیں تھے۔ نئے عہد کے قائم ہونے کے بعد ناپاک پرندوں کو نہ کھانے سے پابندی ہٹا دی گئی جیسا کہ خدا نے ایک رُویا میں پطرس پر واضح کِیا۔—اعما 10:9-15۔
سنہری باتوں کی تلاش
آئیٹی-1 ص. 563
خود کو زخمی کرنا
خدا نے بنیاِسرائیل کو جو شریعت دی اُس میں اِس بات سے منع کِیا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی مُردے کی خاطر خود کو زخمی نہ کرے۔ (احبا 19:28؛ 21:5؛ اِست 14:1) خدا نے یہ حکم اِس لیے دیا تھا کیونکہ بنیاِسرائیل اُس کی مُقدس اور خاص قوم تھے۔ (اِست 14:2) اِس لیے بنیاِسرائیل کو خود کو بُتپرست لوگوں کی رسمورواج سے پاک رکھنا تھا۔ خدا کے بندوں کے لیے یہ نامناسب تھا کہ وہ کسی شخص کی موت پر ماتم کرتے وقت اپنے جسم کو زخمی کریں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مُردے کس حالت میں ہیں اور خدا اُنہیں زندہ کر دے گا۔ (دان 12:13؛ عبر 11:19) اِس حکم کو دینے کے پیچھے یہ مقصد بھی تھا کہ بنیاِسرائیل پر یہ واضح ہو جائے کہ اُنہیں اُس جسم کے لیے قدر ظاہر کرنی چاہیے جو خدا نے اُنہیں عطا کِیا ہے۔
18-24 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 22-23
”موسمی تہوار اور اُن سے سبق“
آئیٹی-1 ص. 826-827
عیدِفطیر (بےخمیری روٹی کی عید)
بےخمیری روٹی کی عید کا پہلا دن ایک مُقدس اِجتماع ہوتا تھا اور یہ سبت کا دن بھی ہوتا تھا۔ دوسرے دن یعنی 16 نیسان کو جَو کے پہلے پھلوں کا ایک پولا کاہن کے پاس لایا جاتا تھا۔ یہ فلستین میں اُگنے والی پہلی فصل ہوتی تھی۔ اِس عید سے پہلے کسی بھی شخص کو نئے اناج یا بھنے ہوئے اناج یا ہری بالوں کو کھانے کی اِجازت نہیں تھی۔ کاہن اِن پہلے پھلوں کو ہلانے سے اِنہیں مجازی طور پر خدا کے حضور پیش کرتا تھا۔ وہ تیل سے چکنے کیے ہوئے اناج کے نذرانے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے برّے کو آتشی قربانی کے طور پر چڑھاتا تھا اور مے کا نذرانہ بھی پیش کرتا تھا۔ (احبا 23:6-14) خدا نے اِس حوالے سے کوئی حکم نہیں دیا تھا کہ اناج کو یا اِس سے تیارشُدہ میدے کو قربانگاہ پر جلایا جائے جیسے کہ بعد میں کاہن کرنے لگے۔ شریعت میں صرف اِس بات کا ہی بندوبست نہیں تھا کہ اِسرائیلی ایک قوم کے طور پر پہلے پھلوں کا نذرانہ پیش کریں بلکہ ہر وہ گھرانہ یا شخص جسے اِسرائیل میں میراث ملی تھی، شکرگزاری کی قربانیوں کے طور پر اِنہیں اِس عید پر پیش کر سکتا تھا۔—خر 23:19؛ اِست 26:1، 2۔
اِس عید کی اہمیت۔ اِس موقعے پر بےخمیری روٹی کو کھانا اُن ہدایتوں کے مطابق تھا جو موسیٰ کو یہوواہ کی طرف سے ملی تھیں اور جو خروج 12:14-20 میں درج ہیں۔ 19 آیت میں لکھی ایک ہدایت یہ تھی: ”سات دن تک تمہارے گھروں میں کچھ بھی خمیر نہ ہو۔“ اِستثنا 16:3 میں بےخمیری روٹی کو ”دُکھ کی روٹی“ کہا گیا ہے۔ اِسے ہر سال کھانے سے یہودیوں کو یہ یاد آتا تھا کہ وہ مصر سے کتنی افراتفری میں نکلے تھے۔(جب اُن کے پاس اپنے اپنے آٹے کو خمیر کرنے کا وقت نہیں تھا۔ [خر 12:34]) یوں اُنہیں مصر میں اُس دُکھ بھری اور غلامی کی زندگی یاد آتی تھی جس سے خدا نے اُنہیں نجات دِلائی تھی۔ یہوواہ نے بھی اُن سے یہی کہا تھا: ”یوں تُو عمر بھر اُس دن کو جب تو ملکِمصرؔ سے نکلا یاد رکھ سکے گا۔“ بےخمیری روٹی کی عید اُن تین عیدوں میں سے پہلی تھی جو ہر سال منائی جاتی تھیں۔ اِس عید پر اِس بات کے لیے شکرگزار ہونا بالکل واجب تھا کہ بنیاِسرائیل ایک قوم کے طور پر آزاد ہیں اور یہوواہ اُن کا نجاتدہندہ ہے۔—اِست 16:16۔
آئیٹی-2 ص. 598 پ. 2
عیدِپنتِکُست
گندم کی فصل کے پہلے پھلوں کو جس طرح سے پیش کِیا جاتا تھا، وہ جَو کی فصل کے پہلے پھلوں کو پیش کرنے سے فرق ہوتا تھا۔ ایفہ کے دو دہائی وزن کے برابر میدے میں خمیر ڈال کر دو روٹیاں پکائی جاتی تھیں۔ بنیاِسرائیل کو یہ روٹیاں ”اپنے گھروں میں“ پکانی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نذرانے کی یہ روٹیاں ویسی ہی تھیں جیسی وہ روزمرہ زندگی میں کھاتے تھے۔ (احبا 23:17) یہ نذرانہ پیش کرتے وقت آتشی قربانی اور گُناہ کی قربانی بھی چڑھائی جاتی تھی اور سلامتی کی قربانی کے لیے دو نر برّے قربان کیے جاتے تھے۔ کاہن اپنے ہاتھ میں روٹیاں اور برّوں کے گوشت کو لے کر اِنہیں ہلاتا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اِنہیں یہوواہ کے حضور پیش کِیا گیا ہے۔ جب روٹیاں اور برّوں کو قربانی کے طور پر چڑھا دیا جاتا تھا تو اِس کے بعد وہ کاہن کا حصہ بن جاتے تھے جسے وہ سلامتی کی قربانی کے طور پر کھاتا تھا۔—احبا 23:18-20۔
کیا آپ خدا کی تنظیم کے ساتھساتھ آگے بڑھ رہے ہیں؟
یہوواہ کی تنظیم ہماری بھلائی چاہتی ہے۔ اِس لیے وہ ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے کہ ہم پولُس رسول کی اِس ہدایت پر عمل کریں: ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کِیا کرو۔“ (عبر 10:24، 25) بنیاِسرائیل سالانہ عیدوں اور دیگر موقعوں پر عبادت کے لیے جمع ہوتے تھے اور یوں اُنہیں یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے میں مدد ملتی تھی۔ ایسے اِجتماع بڑی خوشی کے موقعے بھی ہوتے تھے جیسے کہ نحمیاہ کے زمانے میں ہونے والی عیدِخیام۔ (خر 23:15، 16؛ نحم 8:9-18) اِسی طرح آج ہمیں بھی اپنے اِجلاسوں اور اِجتماعوں سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسے تمام موقعوں پر حاضر ہونا چاہیے کیونکہ اِن کے ذریعے ہمیں یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے میں مدد ملے گی اور ہم اُس کی خدمت میں اپنی خوشی برقرار رکھ سکیں گے۔—طط 2:2۔
سنہری باتوں کی تلاش
یہوواہ کی وفاداری کرتے رہیں!
خدا کے وفادار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم پورے دلوجان سے اُس سے محبت کریں اور ہمیشہ ایسے کام کریں جن سے وہ خوش ہو۔ بائبل میں لفظ ”وفاداری“ جس طرح سے اِستعمال کِیا گیا ہے، اُس کا ایک مطلب مکمل یا بےعیب ہے۔ مثال کے طور پر شریعت میں بنیاِسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ یہوواہ کے حضور صرف ایسے جانوروں کی قربانیاں چڑھائیں جو بےعیب ہوں۔ (احبا 22:21، 22) وہ کوئی ایسا جانور قربان نہیں کر سکتے تھے جس کی ٹانگ، کان یا آنکھ نہ ہو یا جسے کوئی بیماری لگی ہو۔ یہوواہ کے نزدیک یہ بات بہت اہم تھی کہ وہ جانور مکمل، بےعیب اور نقص سے پاک ہو۔ (ملا 1:6-9) لیکن یہوواہ یہ توقع کیوں کرتا ہے کہ اُس کے حضور جو چیز پیش کی جائے، وہ مکمل اور بےعیب ہو؟ ذرا سوچیں کہ جب ہم خریداری کے لیے جاتے ہیں تو کیا ہم کوئی ایسا پھل، کتاب یا اوزار خریدیں گے جو خراب ہو یا جس کا کوئی حصہ نہ ہو؟ بےشک نہیں۔ ہم ہمیشہ وہ چیز خریدیں گے جو مکمل اور نقص سے پاک ہو۔ اِسی طرح یہوواہ بھی چاہتا ہے کہ اُس کے لیے ہماری محبت اور وفاداری مکمل اور ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک ہو۔
شاگرد بنانے کی تربیت
ڈبلیو07 15/7 ص. 26
فصل کی کٹائی اُس وقت شروع ہوتی تھی جب تمام اِسرائیلی مرد بےخمیری روٹی کی عید منانے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ تو پھر بنیاِسرائیل جَو کی فصل کے پہلے پھلوں کا جو پولا مقدِس میں کاہن کے پاس لاتے تھے، اُس کی کٹائی کون کرتا تھا؟
شریعت میں بنیاِسرائیل کو یہ ہدایت دی گئی: ”سال میں تین بار بےخمیری روٹی کی عید اور ہفتوں کی عید اور عیدِخیام کے موقع پر تیرے ہاں کے سب مرد [یہوواہ] اپنے خدا کے آگے اُسی جگہ حاضر ہوا کریں جسے وہ چُنے گا۔“ (اِستثنا 16:16) بادشاہ سلیمان کے زمانے سے لے کر یروشلیم میں ہیکل وہ جگہ تھی جسے خدا نے چُنا تھا۔
بےخمیری روٹی کی عید تین عیدوں میں سے پہلی عید ہوتی تھی جسے موسمِبہار کے شروع میں منایا جاتا تھا۔ یہ 14 نیسان کو عیدِفسح کے اگلے دن شروع ہوتی تھی اور سات دن تک یعنی 21 نیسان تک جاری رہتی تھی۔ اِس عید کا دوسرا دن یعنی 16 نیسان، یہودی کیلنڈر کے مطابق سال کا وہ دن ہوتا تھا جب فصل کی کٹائی کی شروعات ہوتی تھی۔ اِس دن کاہنِاعظم خیمۂاِجتماع میں جَو کی ”فصل کے پہلے پھلوں کا ایک پولا [یہوواہ] کے حضور“ ہلاتا تھا۔ (احبار 23:5-12) چونکہ ہر اِسرائیلی مرد سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بےخمیری روٹی کی عید منانے کے لیے جمع ہو تو پھر فصل کے پہلے پھلوں کے پولے کی کٹائی کون کرتا تھا؟
یہوواہ نے پوری قوم کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ بےخمیری روٹی کی عید پر فصل کے پہلے پھلوں کو اُس کے حضور پیش کریں۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ عید کے دن قوم کا ہر شخص فصل کی کٹائی کرتا اور پہلے پھلوں کو خیمۂاِجتماع میں یہوواہ کو پیش کرتا۔ اِس کی بجائے پوری قوم کو مل کر اِسے یہوواہ کے حضور پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ لہٰذا بےخمیری روٹی کی عید کے لیے فصل کے پولے کو کاٹنے کی ذمےداری کچھ آدمیوں کو دی جاتی تھی جو کسی قریبی کھیت سے جَو کی فصل کا ایک پولا کاٹ لاتے تھے۔ اِس حوالے سے ”اِنسائیکلوپیڈیا جوڈیکا“ میں بتایا گیا ہے: ”اگر جَو کی فصل پک چُکی ہوتی تھی تو پولا یروشلیم کے آسپاس کے علاقے سے لے لیا جاتا تھا ورنہ بنیاِسرائیل اِسے اِسرائیل کے کسی بھی علاقے سے کاٹ لیتے تھے۔ اِسے تین آدمی مل کر کاٹتے تھے اور اِن میں سے ہر ایک کے پاس درانتی اور ٹوکری ہوتی تھی۔“ پھر جَو کا ایک پولا کاہنِاعظم کو دیا جاتا تھا جو اِسے یہوواہ کے حضور پیش کرتا تھا۔
فصل کے پہلے پھلوں کو نذرانے کے طور پر پیش کرنے کا حکم دینے سے یہوواہ خدا نے اِسرائیلیوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اُس برکت کے لیے اُس کا شکر ادا کر سکیں جو اُس نے اُن کے ملک اور فصل پر ڈالی ہے۔ (اِستثنا 8:6-10) سب سے بڑھ کر اِس نذرانے نے ’آنے والی اچھی چیزوں کا سایہ‘پیش کِیا۔ (عبرانیوں 10:1) یسوع مسیح 16 نیسان 33ء کو مُردوں میں سے زندہ ہوئے جو کہ وہ دن تھا جب فصل کے پہلے پھلوں کو یہوواہ کے حضور پیش کِیا جاتا تھا۔ یسوع کے بارے میں پولُس رسول نے لکھا: ”مسیح اُن لوگوں میں سے پہلا پھل ہے جو موت کی نیند سو رہے ہیں۔ . . . مُردوں کو ترتیب سے زندہ کِیا جائے گا: پہلا پھل مسیح ہے، پھر مسیح کی موجودگی کے دوران اُن مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا جو اُس کے ہیں۔“ (1-کُرنتھیوں 15:20-23) فصل کے پہلے پھل کا پولا جسے کاہنِاعظم یہوواہ کے حضور ہلاتا تھا، یسوع مسیح کی طرف اِشارہ کرتا ہے جنہیں خدا نے مُردوں میں سے زندہ کِیا۔ یسوع وہ پہلے شخص تھے جنہیں زندہ کرنے کے بعد ہمیشہ کی زندگی دی گئی۔ یوں یسوع نے اِنسانوں کے لیے گُناہ اور موت سے نجات حاصل کرنے کی راہ کھول دی۔
25-31 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 24-25
”یُوبلی کا سال اور مستقبل میں آزادی“
آئیٹی-1 ص. 871
آزادی
آزادی کا خدا۔ یہوواہ آزادی کا خدا ہے۔ اُس نے بنیاِسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے آزاد کروایا۔ اُس نے اُن سے کہا کہ جب تک وہ اُس کے حکم مانتے رہیں گے، وہ غربت سے آزاد رہیں گے۔ (اِست 15:4، 5) داؤد نے یروشلیم کی ”فصیل کے اندر سلامتی“ کا ذکر کِیا جس کا یہ مطلب تھا کہ اُس شہر کے لوگ فکروں اور پریشانیوں سے آزاد تھے۔ (زبور 122:6، 7) لیکن شریعت میں اِس بات کی اِجازت تھی کہ اگر ایک آدمی غریب ہو جائے تو وہ خود کو ایک غلام کے طور پر بیچ سکتا ہے تاکہ وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کر سکے۔ مگر شریعت کے مطابق وہ شخص اپنی غلامی کے ساتویں سال کے بعد آزادی حاصل کر سکتا تھا۔ (خر 21:2) یُوبلی (ہر پچاسویں سال آتی تھی) جس میں آزادی کا اِعلان کِیا جاتا تھا۔ ہر غلام اِسرائیلی آزاد ہو جاتا تھا اور اُسے اُس کی وراثت دوبارہ مل جاتی تھی۔—احبا 25:10-19۔
آئیٹی-1 ص. 1200 پ. 2
وراثت
چونکہ ایک زمین ایک گھرانے کی نسل در نسل ملکیت ہوتی تھی اِس لیے اِسے ہمیشہ کے لیے نہیں بیچا جا سکتا تھا۔ جب کوئی زمین بیچی جاتی تھی تو اُس کی قیمت اِس حساب سے مقرر کی جاتی تھی کہ وہ اگلے یُوبلی کے سال تک کتنی فصلیں پیدا کرے گی اور یُوبلی کے جتنے سال رہ جاتے تھے، قیمت اُس کے مطابق ادا کی جاتی تھی۔ اگر کسی شخص نے یُوبلی سے پہلے اپنی زمین کو چھڑایا نہیں ہوتا تھا تو یُوبلی کے سال وہ اُسے دوبارہ مل جاتی تھی۔ (احبا 25:13، 15، 23، 24) یہ قانون ایسے گھروں کے لیے بھی تھے جو اُن شہروں میں تھے جن کی فصیل نہیں ہوتی تھی اور اِن گھروں کو کُھلے کھیتوں کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ البتہ اگر ایک گھر فصیلدار شہر میں ہوتا تھا تو بیچنے والے کے پاس اپنے گھر کو واپس خریدنے کا حق صرف ایک سال تک رہتا تھا۔ اگر وہ شخص اُسے پہلے سال کے اندر اندر نہیں خریدتا تو وہ گھر ہمیشہ کے لیے خریدنے والے کی ملکیت بن جاتا تھا۔ جہاں تک لاویوں کے شہر میں بنے گھروں کی بات تھی تو لاویوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے گھر کسی بھی وقت دوبارہ خرید سکتے تھے کیونکہ ملک میں اُن کی کوئی میراث نہیں تھی۔—احبا 25:29-34۔
آئیٹی-2 ص. 122-123
یُوبلی
جب بنیاِسرائیل یُوبلی کے قانون کو مانتے تھے تو قوم میں ایک امیر شخص نہ تو حد سے زیادہ امیر ہو جاتا تھا اور نہ ہی ایک غریب شخص حد سے زیادہ غریب ہو جاتا تھا جیسا کہ آجکل بہت سے ملکوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یُوبلی کے قانون سے پوری قوم کو فائدہ ہوتا تھا کیونکہ ایک شخص ہمیشہ کے لیے غریب نہیں رہتا تھا اور ہر شخص اپنی صلاحیتوں سے قوم کو فائدہ پہنچا سکتا تھا۔ یہوواہ خدا اُن کی پیداوار پر برکت ڈالتا تھا اور اُنہیں تعلیم دیتا تھا۔ جب بنیاِسرائیل اِس تعلیم پر عمل کرتے تھے تو حکومت میں اِنصاف قائم ہوتا تھا اور وہ خوشحال زندگی گزارتے تھے۔—یسع 33:22۔
سنہری باتوں کی تلاش
ڈبلیو09 1/9 ص. 22 پ. 4
جب کوئی آپ کو نقصان پہنچاتا ہے
اگر ایک اِسرائیلی دوسرے اِسرائیلی پر حملہ کرتا اور اُس کی آنکھ پھوڑ دیتا تو شریعت میں اِس کے لیے مناسب سزا مقرر کی گئی تھی۔ البتہ جس شخص کو نقصان پہنچا ہوتا تھا، وہ نہ تو ملزم کو اور نہ ہی اُس کے گھر کے کسی فرد کو سزا دے سکتا تھا۔ شریعت کے مطابق اُسے اِنصاف کے لیے ایسے آدمیوں کے پاس جانا تھا جنہیں اِس طرح کے معاملوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے مقرر کِیا گیا تھا۔ چونکہ ایک شخص کو پتہ ہوتا تھا کہ اُسے اپنی غلطی کے لیے وہی نقصان اُٹھانا پڑے گا جو وہ دوسرے کو پہنچائے گا اِس لیے وہ کسی پر تشدد کرنے سے پہلے سو بار سوچتا تھا۔
1-7 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 26-27
”ہم یہوواہ سے برکتیں کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟“
باطل چیزوں کے پیچھے نہ بھاگیں
”دولت“ کیسے معبود بن سکتی ہے؟ اس سلسلے میں ماضی کی ایک مثال پر غور کریں۔ قدیم اسرائیل میں اگر کسی شخص کی زمین یا کھیت سے کوئی پتھر نکل آتا تھا تو اُسے گھر یا دیوار تعمیر کرنے کے لئے استعمال کِیا جا سکتا تھا۔ اِس کی دوسری طرف اگر اِسی پتھر سے ایک ”تراشی ہوئی مورت“ بنا کر اُسے سجدہ کِیا جاتا تو یہی پتھر خدا کے لوگوں کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث بن سکتا تھا۔ (احبا 26:1) اِسی طرح روپیہپیسہ بھی ایک ضروری چیز ہے کیونکہ روزمرّہ زندگی کے لئے درکار چیزیں خریدنے کے لئے ہمیں پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے علاوہ، ہم پیسے کو یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ (واعظ 7:12؛ لُو 16:9) لیکن جب ہم پیسہ کمانے میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ خدا کی خدمت کرنے کے لئے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں بچتا تو پیسہ درحقیقت ہمارے لئے ایک معبود بن جاتا ہے۔ (1-تیمُتھیُس 6:9، 10 کو پڑھیں۔) آج کی دُنیا میں مالودولت کا حصول لوگوں کی زندگیوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس لئے ہمیں روپےپیسے کو حد سے زیادہ اہمیت دینے سے خبردار رہنا چاہئے۔—1-تیم 6:17-19۔
آئیٹی-1 ص. 223 پ. 3
احترام
یہوواہ کی مدد سے موسیٰ خدا کی قوم کے سامنے بڑے بڑے کام کر پائے۔ (اِست 34:10، 12؛ خر 19:9) جو لوگ یہوواہ پر ایمان رکھتے تھے، وہ موسیٰ کے اِختیار کا احترام کرتے تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ خدا موسیٰ کے ذریعے اُن سے بات کرتا ہے۔ بنیاِسرائیل کو یہوواہ کے مقدِس کے لیے بھی گہرا احترام ظاہر کرنا تھا۔ (احبا 19:30؛ 26:2) اِس کا مطلب یہ تھا کہ اُنہیں یہوواہ کی عبادت کو اُسی طرح سے کرنا تھا جس طرح سے اُس نے اُنہیں ہدایتیں دی تھیں اور اُس کے حکموں کے مطابق زندگی گزارنی تھی۔
م91 1/9 ص. 10 پ. 10
”خدا کا اِطمینان“ تمہارے دلوں کو محفوظ رکھے
یہوؔواہ نے قوم سے فرمایا تھا: ”اگر تُم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموُں کو مانو اور اُن پر عمل کرو تو مَیں تمہارے لئے بروقت مینہ برساؤنگا اور زمین سے اناج پیدا ہوگا اور میدان کے درخت پھلینگے۔ اور مَیں مُلک میں امن بخشونگا اور تم سوؤگے اور تم کو کوئی نہیں ڈرائیگا اور مَیں بُرے درندوں کو مُلک سے نیست کر دونگا اور تلوار تمہارے مُلک میں نہیں چلیگی۔ اور مَیں تمہارے درمیان چلا پھرا کرونگا اور تمہارا خدا ہونگا اور تم میری قوم ہوگے۔“ (احبا 26:3، 4، 6، 12) اِسرائیل امن کا لطف اُٹھا سکتے تھے کیونکہ اُنہیں اپنے دشمنوں سے سلامتی، اناج کی کثرت اور یہوؔواہ کیساتھ قریبی رشتہ حاصل تھا۔ تاہم اس کا انحصار اُن کے یہوؔواہ کی شریعت کی پابندی کرنے پر تھا۔—زبور 119:165۔
سنہری باتوں کی تلاش
آئیٹی-2 ص. 617
وبا
خدا کی شریعت کو ترک کرنے سے وبائیں آئیں۔ خدا نے بنیاِسرائیل کو آگاہ کِیا کہ اگر وہ اُس کے عہد پر قائم نہیں رہیں گے تو وہ ’وبا کو اُن کے درمیان بھیجے گا۔‘ (احبا 26:14-16، 23-25؛ اِست 28:15، 21، 22) پاک کلام میں جسمانی صحت اور روحانی صحت دونوں کو ہی خدا کی برکت سے منسلک کِیا جاتا ہے۔ (اِست 7:12، 15؛ زبور 103:1-3؛ امثا 3:1، 2، 7، 8؛ 4:21، 22؛ مکا 21:1-4) جبکہ بیماری کو گُناہ اور عیبدار ہونے سے منسلک کِیا جاتا ہے۔ (خر 15:26؛ اِست 28:58-61؛ یسع 53:4، 5؛ متی 9:2-6، 12؛ یوح 5:14) سچ ہے کہ بعض صورتوں میں یہوواہ خدا نے کچھ لوگوں کو بیماری میں مبتلا کِیا جیسے کہ اُس نے مریم، عُزیاہ اور جیحازی کو کوڑھ کی بیماری لگائی۔ (گن 12:10؛ 2-توا 26:16-21؛ 2-سلا 5:25-27) لیکن بائبل میں بہت سی ایسی صورتوں کا ذکر کِیا گیا ہے جب ایک شخص یا قوم پر اپنے بُرے کام یا گُناہ کی وجہ سے بیماری آئی۔ اُنہوں نے وہی کاٹا جو اُنہوں نے بویا۔ (گل 6:7، 8) جو لوگ اِنتہائی گھٹیا جنسی حرکتیں کرتے تھے، اُن کے بارے میں پولُس رسول نے کہا: ”خدا نے اُن کو ناپاکی کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اپنے جسموں کو ذلیل کریں . . . اور اُنہیں اپنے غلط کاموں کے نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔“—روم 1:24-27۔
شاگرد بنانے کی تربیت
ڈبلیو09 1/8 ص. 30
مجھے کتنا عطیہ دینا چاہیے؟
”خدا اُس شخص کو پسند کرتا ہے جو خوشدلی سے دیتا ہے۔“ (2-کُرنتھیوں 9:7) بائبل کے اِن الفاظ سے دُنیا بھر کے لاکھوں مسیحی واقف ہیں۔ البتہ چرچ جانے والے کچھ مسیحیوں پر یہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر عطیہ دیں۔ دراصل کچھ مذہبی فرقے اپنے اراکین سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص رقم عطیے کے طور پر دیں۔ اِس طرح کے عطیے کو وہ دہیکی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک شخص اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ چرچ کو عطیہ کرے۔
کیا بائبل میں واقعی ایک مخصوص رقم عطیے کے طور پر دینے کا تقاضا کِیا گیا ہے؟ شاید ہم خود سے پوچھیں: ”مجھے عطیے کے طور پر کتنے پیسے دینے چاہئیں؟“
قدیم زمانے میں عطیات دینے کے حوالے سے ہدایتیں
بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے بنیاِسرائیل کو واضح ہدایتیں دی تھیں کہ اُنہیں اُسے عطیے کے طور پر کتنے پیسے دینے ہیں۔ (احبار 27:30-32؛ گنتی 18:21، 24؛ اِستثنا 12:4-7، 11، 17، 18؛ 14:22-27) اِن توقعات پر پورا اُترنا کسی بھی شخص کے لیے مشکل نہیں تھا کیونکہ یہوواہ نے اپنے بندوں سے وعدہ کِیا تھا کہ اگر وہ اُس کے حکم مانیں گے تو بدلے میں وہ اُن کی جھولی برکتوں سے بھر دے گا۔—اِستثنا 28:1، 2، 11، 12۔
لیکن بعض صورتوں میں بنیاِسرائیل اپنے دل کی خوشی سے جتنا چاہے عطیہ دے سکتے تھے پھر چاہے یہ تھوڑا ہوتا یا زیادہ۔ مثال کے طور پر جب بادشاہ داؤد نے یہوواہ کے لیے ہیکل بنانے کا منصوبہ بنایا تو اُن کی رعایا نے عطیے کے طور پر ’پانچ ہزار قنطار سونا‘دیا۔a (1-تواریخ 29:7) اِس کے برعکس یسوع مسیح کے زمانے میں رہنے والی غریب بیوہ نے ہیکل کے ایک ڈبے میں ”دو چھوٹے سِکے ڈالے جن کی قیمت بہت ہی کم تھی۔“ اِن دو سکوں کی قیمت 15 منٹ میں کمائی گئی مزدوری کے برابر تھی۔ لیکن یسوع مسیح نے بتایا کہ غریب بیوہ نے جو عطیہ دیا ہے، یہوواہ اِسے قبول کرتا ہے۔—لُوقا 21:1-4۔
کیا آج مسیحیوں سے ایک مخصوص رقم عطیے کے طور پر دینے کی توقع کی جاتی ہے؟
مسیحی اُس شریعت کے تحت نہیں ہیں جو بنیاِسرائیل کو دی گئی تھی۔ اِس لیے خدا اُن سے ایک مخصوص رقم عطیے کے طور پر دینے کی توقع نہیں کرتا۔ لیکن سچے مسیحیوں کو عطیات دینے سے خوشی ملتی ہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔“—اعمال 20:35۔
یہوواہ کے گواہ مُنادی کے عالمگیر کام کو اُن عطیات کے ذریعے کرتے ہیں جو مسیحی اپنی خوشی سے دیتے ہیں۔ اِن عطیات کو کتابیں اور رسالے چھاپنے اور یہوواہ کی عبادت کے لیے اِستعمال ہونے والی عمارتوں کی تعمیرومرمت کرنے کے لیے اِستعمال کِیا جاتا ہے۔ اِن عطیات کو تنخواہ دینے کی غرض سے اِکٹھا نہیں کِیا جاتا۔ کچھ مسیحی جو کُلوقتی طور پر شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لیتے ہیں، اُنہیں تھوڑے پیسے دیے جاتے ہیں جس سے وہ سفر کا خرچہ اُٹھا سکیں اور اپنے دیگر ضروری اخراجات پورے کر سکیں۔ لیکن کوئی بھی مسیحی اِس کی مانگ نہیں کرتا۔ دراصل یہوواہ کے زیادہتر گواہوں کو مُنادی کا کام انجام دینے کے لیے اُن کی تنظیم کی طرف سے کوئی مالی مدد نہیں ملتی۔ زیادہتر گواہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملازمت کرتے ہیں جیسے پولُس رسول نے کی جن کا پیشہ خیمے بنانا تھا۔—2-کُرنتھیوں 11:9؛ 1-تھسلُنیکیوں 2:9۔
جو شخص یہوواہ کے گواہوں کے کام کے لیے عطیہ دینا چاہتا ہے، اُسے کتنے پیسے دینے چاہئیں؟ پولُس رسول نے کہا: ”ہر شخص ویسے ہی کرے جیسے اُس نے دل میں طے کِیا ہے اور بےدلی یا مجبوری سے نہ دے کیونکہ خدا اُس شخص کو پسند کرتا ہے جو خوشدلی سے دیتا ہے۔“—2-کُرنتھیوں 8:12؛ 9:7۔
8-14 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | گنتی 1-2
”یہوواہ اپنے بندوں کو منظم کرتا ہے“
ہماری زندگیوں میں یہوؔواہ کی پرستش کا درست مقام
اگر آپ نے بیابان میں خیمہزن اسرائیلیوں پر طائرانہ نظر ڈالی ہوتی تو آپ نے کیا دیکھا ہوتا؟ شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں سہقبائلی تقسیم کے مطابق بانٹے گئے غالباً تین ملین یا اس سے بھی زیادہ لوگوں کی رہائشی خیموں کی بڑی، لیکن قرینے سے لگی قطاریں۔ اور قریب سے دیکھتے ہوئے، آپ نے ڈیرے کے بیچ میں بالکل نزدیک ایک اور جتھے کو بھی دیکھا ہوتا۔ خیموں کے یہ چار چھوٹے جھنڈ لاؔوی کے قبیلے کی رہائش تھی۔ ڈیرے کے بالکل درمیان میں، کپڑے کی دیوار کے پردے سے علیٰحدہ کِیا گیا ایک منفرد ڈھانچہ تھا۔ یہ ”خیمۂاجتماع“ یا مسکن تھا، جسے ”روشن ضمیر“ اسرائیلیوں نے یہوواہ کے نقشے کے مطابق تعمیر کِیا تھا۔—گنتی 1:52، 53؛ 2:3، 10، 17، 18، 25؛ خروج 35:10۔
آئیٹی-1 ص. 397 پ. 4
خیمہ
اِسرائیلیوں کے خیمے وسیع علاقے تک پھیلے تھے۔ اِن خیموں میں رہنے والوں میں 6 لاکھ 3 ہزار 550 جنگجو آدمی تھے، اِس کے علاوہ عورتیں، بچے، بوڑھے، معذور، 22 ہزار لاوی اور لوگوں کی ایک ملی جلی گروہ بھی تھی۔ اِن سب کی تعداد کُل ملا کر شاید 30 لاکھ یا اِس سے زیادہ تھی۔ (خر 12:38، 44؛ گن 3:21-34، 39) اِس بارے میں یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ لوگوں کی اِتنی بڑی تعداد کے خیمے کتنے دُور تک پھیلے تھے۔ البتہ اِن خیموں نے ایک وسیع علاقہ گھیرا ہوا تھا۔ جب بنیاِسرائیل نے اپنے خیمے یریحو کے پاس موآب کے میدانوں میں لگائے تو بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہ ”بیتیسیموؔت سے لے کر ابیلؔسطیم تک“ پھیلے تھے۔—گن 33:49۔
سنہری باتوں کی تلاش
آئیٹی-2 ص. 764
ناموں کا اندراج
عموماً کسی کے نام کا اندراج اُس کے قبیلے اور گھرانے کے مطابق کِیا جاتا تھا۔ اِس میں محض مردمشماری ہی شامل نہیں تھی بلکہ بائبل کے مطابق لوگوں کے ناموں کا اندراج مختلف مقاصد سے کِیا جاتا تھا جیسے کہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے، فوجی خدمات کے لیے یا (لاویوں کے حوالے سے) خیمۂاِجتماع میں مختلف خدمات پر مقرر کرنے کے لیے۔
شاگرد بنانے کی تربیت
ڈبلیو08 1/7 ص. 21
حالانکہ بنیاِسرائیل کے 13 قبیلے تھے لیکن بائبل میں عام طور پر 12 قبیلوں کا حوالہ کیوں دیا گیا ہے؟
بنیاِسرائیل کے قبیلے یا خاندان یعقوب کے بیٹوں سے آئے۔ خدا نے یعقوب کا نام بدل کر اِسرائیل رکھا تھا۔ یعقوب کے 12 بیٹے تھے جن کے نام رُوبن، شمعون، لاوی، یہوداہ، دان، نفتالی، جد، آشر، اِشکار، زبولون، یوسف اور بنیمین تھے۔ (پیدایش 29:32–30:24؛ 35:16-18) 11 بیٹوں سے جو قبیلے آئے، وہ اُنہی کے ناموں سے کہلائے۔ لیکن کوئی قبیلہ یوسف کے نام سے نہیں کہلایا۔ اِس کی بجائے دو قبیلوں کے نام یوسف کے بیٹوں، اِفرائیم اور منسّی کے ناموں پر رکھے گئے۔ اِس لحاظ سے اِسرائیل کے 13 قبیلے بنتے ہیں۔ لیکن بائبل میں عام طور پر اِسرائیل کے 12 قبیلوں کا حوالہ کیوں دیا جاتا ہے؟
یہوواہ نے لاوی کے قبیلے کو خیمۂاِجتماع اور بعد میں ہیکل میں خدمت کرنے کے لیے الگ کر لیا تھا۔ لہٰذا اُنہیں فوجی خدمات سے بَری کِیا گیا تھا۔ یہوواہ نے موسیٰ سے کہا: ”اِسرائیلیوں کی مردم شماری میں لاویوں کو شامل نہ کرنا۔ اِس کے بجائے اُنہیں شریعت کی سکونتگاہ اور اُس کا سارا سامان سنبھالنے کی ذمےداری دینا۔“—گنتی 1:49، 50، اُردو جیو ورشن۔
لاویوں کو ملک کنعان میں زمین بھی نہیں ملی تھی۔ اِس کی بجائے اُنہیں 48 شہر ملے تھے جو اِس ملک کے مختلف علاقوں میں واقع تھے۔—گنتی 18:20-24؛ یشوع 21:41۔
اِن دو وجوہات کی بِنا پر لاوی کے قبیلے کو عموماً اِسرائیل کے قبیلوں میں شامل نہیں کِیا جاتا۔ اِسی لیے بائبل میں عام طور پر اِسرائیل کے قبیلوں کو 12 قبیلوں کے طور پر شمار کِیا گیا ہے۔—گنتی 1:1-15۔
مسیحیوں کے طور پر زندگی
اوڈی ص. 100-101 پ. 39-41
اگر کوئی شخص بائبل کے پیغام میں دلچسپی لیتا ہے تو ہمیں کسی ایسے مبشر کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے جو اُس شخص کی زبان کو سمجھ سکتا ہے۔ ہم اُسے ہماری کسی قریبی عبادتگاہ کے بارے میں بھی بتا سکتے ہیں جہاں اُس کی زبان میں اِجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ اگر وہ کسی ایسے مبشر سے ملنا چاہتا ہے جو اُس کی زبان بولتا ہے تو ہم اُسے بتا سکتے ہیں کہ وہ رابطے کے لیے ویبسائٹ jw.org پر اپنی معلومات کیسے ڈال سکتا ہے۔ یوں برانچ کسی ایسے مبشر، گروپ یا کلیسیا کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے گی جو اُس شخص کی مدد کر سکتی ہے۔
ہمیں تب تک دلچسپی لینے والے شخص کے پاس جاتے رہنا چاہیے جب تک وہ ہمیں یہ نہیں بتا دیتا کہ اُس کا ایک ایسے مبشر سے رابطہ ہو گیا ہے جو اُس کی زبان بولتا ہے۔ بعض صورتوں میں برانچ بزرگوں کو بتاتی ہے کہ اُنہیں کوئی ایسا مبشر نہیں ملا جو اُس شخص کی زبان بول سکتا ہو۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اُس شخص کے دل میں پاک کلام کے لیے دلچسپی بڑھاتے رہیں۔ ہم اُسے کسی کتاب یا بروشر سے بائبل کورس کروا سکتے ہیں، شاید کسی ایسی کتاب یا بروشر سے جو اُس کی زبان میں دستیاب ہے۔ اگر ہم کتاب یا بروشر میں دی گئی تصویروں کا اچھا اِستعمال کریں گے اور حوالہشُدہ آیتوں کو اُس کی زبان میں اُس سے پڑھوائیں گے تو وہ بائبل کی کچھ بنیادی سچائیوں کو سمجھ پائے گا۔ اگر اُس کے گھر میں کوئی ایسا فرد ہے جو مادری زبان کے ساتھ ساتھ مقامی زبان بول سکتا ہے تو ہم اُسے ترجمہ کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
ہم دلچسپی لینے والے شخص کی توجہ اپنی تنظیم پر دِلانے کے لیے اُسے اِجلاسوں پر آنے کی دعوت دے سکتے ہیں، بھلے ہی وہ اِجلاس میں بتائی گئی باتوں کو پوری طرح سے نہ سمجھ سکے۔ اگر اُس کی زبان میں بائبل دستیاب ہے تو ہم اُس کی مدد کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی بائبل میں اُن آیتوں کو ساتھ ساتھ دیکھے جو اِجلاس کے دوران پڑھی جاتی ہیں۔ کلیسیا میں دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ہی اُسے بہت حوصلہ مل سکتا ہے اور وہ روحانی طور پر آگے بڑھ سکتا ہے۔
15-21 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | گنتی 3-4
”لاویوں کی خدمات“
آئیٹی-2 ص. 683 پ. 3
کاہن
موسیٰ کی شریعت کے تحت۔ جب یہوواہ نے دسویں آفت میں مصریوں کے پہلوٹھوں کو مار ڈالنے کا اِعلان کِیا تو اُس نے بنیاِسرائیل کے پہلوٹھوں کو اپنے لیے مُقدس ٹھہرایا۔ (خر 12:29؛ گن 3:13) یہ پہلوٹھے یہوواہ کے بن گئے اور اُس کی خدمت انجام دینے کے لیے مخصوص ہو گئے۔ یہوواہ چاہتا تو وہ اِن تمام نر پہلوٹھوں کو کاہنوں اور خیمۂاِجتماع کی نگرانی کرنے پر مقرر کر سکتا تھا۔ لیکن اِس مقصد کے لیے اُس نے لاوی کے قبیلوں کے مردوں کو چُنا۔ اُس نے یہ بندوبست کِیا کہ دیگر 12 قبیلوں کے پہلوٹھوں کی جگہ لاوی کے قبیلے کے مردوں کو اِن خدمات پر مقرر کِیا جائے (یوسف کے بیٹوں، اِفرائیم اور منسّی کو دو قبیلوں کے طور پر گنا جاتا تھا)۔ مردمشماری کے لیے ایسے پہلوٹھوں کو گنا گیا جن کی عمریں ایک مہینہ یا اِس سے اُوپر کی تھیں۔ اِس دوران یہ ظاہر ہوا کہ 12 قبیلوں کے پہلوٹھوں کی تعداد لاوی کے قبیلے کے مردوں کی تعداد سے 273 زیادہ تھی۔ اِس لیے خدا نے یہ حکم دیا کہ اُن 273 مردوں میں سے ہر ایک کے لیے پانچ مِثقال (فی سکہ تقریباً 11 گرام) کا فدیہ ادا کِیا جائے۔ یہ قیمت ہارون اور اُن کے بیٹوں کو دی گئی۔ (گن 3:11-16، 40-51) اِس قیمت کی ادائیگی سے پہلے ہی یہوواہ نے ہارون کے گھرانے کے مردوں کو جو لاوی کے قبیلے سے تھے، اپنے لیے الگ کر لیا تھا اور کہانت کی خدمت انجام دینے کے لیے مقرر کر لیا تھا۔—گن 1:1؛ 3:6-10۔
آئیٹی-2 ص. 241
لاوی
خدمات۔ لاوی کا قبیلہ تین خاندانوں سے مل کر بنا تھا۔ اِن میں جیرسون (جیرسوم)، قہات اور مراری کے خاندان شامل تھے۔ (پید 46:11؛ 1-توا 6:1، 16) تینوں خاندانوں کو ہی بیابان میں خیمۂاِجتماع کے قریب خیمے لگانے کے لیے جگہ ملی تھی۔ ہارون کے گھرانے نے جو کہ قہاتی خاندان سے تھا، مشرقی طرف خیمۂاِجتماع کے سامنے اپنے خیمے لگائے۔ باقی قہاتیوں نے اپنے خیمے جنوبی سمت لگائے، جیرسونیوں نے اپنے خیمے مغرب کی طرف اور مراریوں نے اپنے خیمے شمال کی طرف لگائے۔ (گن 3:23، 29، 35، 38) خیمۂاِجتماع کو لگانا، اِسے اُتارنا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ اُٹھا کر لے جانا لاویوں کا کام تھا۔ جب خیمے کو دوسری جگہ لے جانے کا وقت آتا تھا تو ہارون اور اُن کے بیٹے اُس پردے کو اُتارتے تھے جس نے پاک مقام اور پاکترین مقام کو الگ کِیا ہوتا تھا اور وہ عہد کے صندوق،قربانگاہ، دیگر مُقدس فرنیچر اور برتنوں کو ڈھک دیتے تھے۔ اِس کے بعد قہاتی اِن چیزوں کو اُٹھاتے تھے۔ جیرسونی خاندان میں شامل لوگ خیمے کا غلاف، خیمۂاِجتماع کے دروازے کا پردہ، صحن کے پردے اور اُن سب رسیوں کو جو اِنہیں باندھنے کے کام آتی تھیں، اُٹھاتے تھے۔ اور خیمے کے تختوں، اُس کے بینڈوں، ستونوں، خانوں، میخوں اور رسیوں کو اُٹھانا بنیمراری کی ذمےداری تھی۔—گن 1:50، 51؛ 3:25، 26، 30، 31، 36، 37؛ 4:4-33؛ 7:5-9۔
آئیٹی-2 ص. 241
لاوی
موسیٰ کے زمانے میں ایک لاوی کو اُس وقت تمام خدمات انجام دینے کی ذمےداری سونپی جاتی تھی جب وہ 30 سال کا ہو جاتا تھا۔ (گن 4:46-49) کچھ خدمات وہ 25 سال کی عمر میں انجام دے سکتا تھا لیکن وہ مشقت بھرا کام نہیں کر سکتا تھا جیسے کہ خیمے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اُٹھا کر لے جانے کا کام۔ (گن 8:24) بادشاہ داؤد کے زمانے میں لاویوں کو 20 سال کی عمر میں خدمات انجام دینے کی ذمےداریاں سونپی جانے لگیں۔ اِس حوالے سے بادشاہ داؤد نے یہ وجہ پیش کی کہ اب خیمۂاِجتماع کو (جس کی جگہ ہیکل لینے والی تھی) ایک جگہ سے دوسری جگہ اُٹھا کر جگہ لے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 50 سال کی عمر کے لاویوں کو کوئی خدمات نبھانے کو نہیں دی جاتی تھیں۔ اگر اُن کی اپنی مرضی ہوتی تو وہ لاوی کے طور پر خدمات انجام دینے میں دوسروں کی مدد کر سکتے تھے۔ (گن 8:25، 26؛ 1-توا 23:24-26) لاویوں کے لیے یہ لازمی تھا کہ اُن کے پاس شریعت کا اچھا علم ہو کیونکہ اُنہیں اکثر لوگوں کے سامنے اِسے پڑھنے اور اِس کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہوتی تھی۔—1-توا 15:27؛ 2-توا 5:12؛ 17:7-9؛ نحم 8:7-9۔
سنہری باتوں کی تلاش
دانا بنیں اور خدا کا خوف مانیں
مشکل حالات میں یہوواہ کی مدد نے داؤد کو خدا کا خوف ماننے اور اس پر بھروسا کرنے کے قابل بنایا تھا۔ (زبور 31:22-24) تاہم، تین اہم موقعوں پر داؤد نے خدا کا خوف ماننے میں کوتاہی برتی، جس کے سنگین نتائج نکلے تھے۔ پہلی مرتبہ اُس وقت جب اس نے یہوواہ کے صندوق کو یروشلیم لیجانے کا فیصلہ کِیا۔ خدا کی شریعت کے مطابق صندوق کو لاویوں کے کندھوں پر لیجایا جانا تھا۔ لیکن داؤد نے اسے بیلگاڑی پر لیجانے کا بندوبست کِیا۔ جب عزہ نے جو گاڑی کو ہانک رہا تھا صندوق کو سیدھا رکھنے کے لئے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو وہ اپنی اس ”خطا“ کی وجہ سے اُسی وقت مارا گیا۔ اگرچہ عزہ نے یہ بڑا گناہ کِیا توبھی یہ اس وجہ سے ہوا کہ داؤد خدا کی شریعت کے لئے مناسب احترام دکھانے میں ناکام رہا تھا۔ خدا کا خوف ماننے کا مطلب اس کے بندوبست کے مطابق کام کرنا ہے۔—2-سموئیل 6:2-9؛ گنتی 4:15؛ 7:9۔
22-28 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | گنتی 5-6
”ہم نذیروں کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟“
آئیٹی-2 ص. 477
نذیر
جو شخص یہوواہ کا نذیر ہونے کا عہد کرتا تھا، اُس پر یہ تین پابندیاں عائد ہوتی تھیں: (1) وہ کسی طرح کا نشہآور مشروب نہیں پی سکتا تھا اور نہ ہی انگوروں کی بنی کوئی چیز کھا سکتا تھا، چاہے یہ انگور پکے ہوتے، کچے ہوتے یا خشک ہوتے۔ وہ اِن سے بنا کوئی مشروب بھی نہیں پی سکتا تھا، چاہے یہ تازہ رس، مے یا سرکے کی شکل میں ہوتا۔ (2) اُسے اپنے بال کاٹنے کی اِجازت نہیں تھی۔ (3) وہ کسی لاش کو نہیں چُھو سکتا تھا پھر چاہے یہ لاش اُس کے کسی قریبی رشتےدار جیسے کہ ماں، باپ، بھائی یا بہن کی ہی کیوں نہ ہوتی۔—گن 6:1-7۔
خاص عہد۔ جب ایک شخص نذیر ہونے کا عہد کرتا تھا تو اُس کا مقصد یہوواہ کے لیے جینا ہوتا تھا نہ کہ دوسروں کو اِس بات سے متاثر کرنا کہ وہ کتنا پرہیزگار ہے۔ نذیر بن جانے سے وہ اُس وقت تک ”[یہوواہ] کے لئے مُقدس“ رہتا تھا جب تک اُس کے عہد کی مُدت ختم نہیں ہو جاتی تھی۔—گن 6:2، 8؛ پیدایش 49:26 پر غور کریں۔
لہٰذا نذیروں سے جن باتوں کی توقع کی جاتی تھی، اُن کا یہوواہ کی عبادت سے گہرا تعلق ہوتا تھا۔ جس طرح ایک کاہنِاعظم مُقدس ہونے کی وجہ سے لاش کو چُھو نہیں سکتا تھا پھر چاہے یہ لاش اُس کے قریبی رشتےدار کی ہی کیوں نہ ہوتی اِسی طرح نذیر بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ کاہنِاعظم اور دوسرے کاہنوں کو اِس بات سے منع کِیا گیا تھا کہ وہ یہوواہ کی پاک خدمت انجام دیتے وقت شراب یا کوئی بھی نشہآور چیز نہ پئیں۔—احبا 10:8-11؛ 21:10، 11۔
اِس کے علاوہ نذیر ”اپنے سر کے بالوں کی لٹوں کو بڑھنے“ دیتے تھے تاکہ یہ ثابت ہو کہ وہ یہوواہ کے لیے مُقدس ہیں۔ اُن کے بالوں کی لٹوں کو دیکھ کر لوگ فوراً پہچان جاتے تھے کہ وہ یہوواہ کے نذیر ہیں۔ (گن 6:5) عبرانی لفظ ”نذیر“ اُن انگوروں کی بیلوں کے لیے بھی اِستعمال ہوا ہے جن کی شاخیں مُقدس سبت اور یُوبلی کے سالوں کے دوران کاٹی نہیں گئی ہوتی تھیں۔ (احبا 25:5، 11) یہ بات بھی قابلِغور ہے کہ کاہنِاعظم کی پگڑی کے آگے لگے سونے کے پتر کو ”مُقدس تاج“کہا گیا ہے۔[اصلی متن میں ”مُقدس تاج“ کے لیے عبرانی لفظ ”نذر“ اِستعمال ہوا ہے جو لفظ ”نذیر“ نکلا ہے۔] (خر 39:30، 31) اِسی طرح جو تاج اِسرائیل کے مسحشُدہ بادشاہ پہنتے تھے، وہ بھی ”نذر“ کہلاتا تھا۔ (2-سمو 1:10؛ 2-سلا 11:12) پولُس رسول نے اپنے ایک خط میں کہا کہ عورت کے لمبے بال اُسے پردے کے طور پر دیے گئے ہیں۔ اِس سے عورت کو یہ یاد دِلایا گیا کہ اُس کا مقام آدمی کے مقام سے فرق ہے یعنی اُسے کلیسیا میں خدا کے بندوبست کی تابعداری کرنی چاہیے۔ لہٰذا بال نہ کاٹنا (جو کہ مردوں کے لیے ایک غیرفطری بات ہے)، مے سے مکمل پرہیز کرنا اور ہر لحاظ سے پاک رہنا نذیروں کو اِس بات کا احساس دِلاتا تھا کہ وہ اپنے لیے جینا چھوڑ دیں اور مکمل طور پر یہوواہ کی مرضی کے تابع رہیں۔—1-کُر 11:2-16۔
سنہری باتوں کی تلاش
سوالات از قارئین
سمسون کی نذارت اس سے مختلف مطلب رکھتی تھی۔ سمسون کی پیدائش سے بھی پہلے یہوواہ کے فرشتے نے اُسکی ماں سے کہا: ”دیکھ تُو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اُسکے سر پر کبھی اُسترہ نہ پھرے اِسلئےکہ وہ لڑکا پیٹ ہی سے خدا کا نذیر ہوگا اور وہ اسرائیلیوں کو فلستیوں کے ہاتھ سے رہائی دینا شروع کریگا۔“ (قضا 13:5) سمسون نے نذارت کا کوئی عہد نہیں کِیا تھا۔ اُسے خدا کی طرف سے نذیر مقرر کِیا گیا تھا اور اُسکی نذارت عمربھر قائم رہنی تھی۔ نذیر بنتے وقت جن باتوں پر چلنے کا عہد کِیا جاتا تھا اُنکا اطلاق سمسون کی نذارت پر نہیں ہوتا تھا۔ اگر ان باتوں کا اطلاق سمسون پر بھی ہوتا اور وہ کسی لاش کو حادثاتی طور پر چُھو لیتا تو اُسکی نذارت کیساتھ کیا ہو سکتا تھا جو اُسے اپنی پیدائش سے پہلے ہی مل چکی تھی؟ پس، صاف ظاہر ہے کہ عمربھر کی نذارت کے تقاضے تھوڑی مدت کیلئے رضاکارانہ طور پر نذیر بننے کے تقاضوں سے مختلف تھے۔
[فٹنوٹ]
a سن 2008ء میں ایک گرام سونے کی قیمت تقریباً 871 امریکی ڈالر تھی۔ لہٰذا جو عطیہ بنیاِسرائیل نے دیا، اُس کی قیمت تقریباً 4 ارب 79 کروڑ 48 لاکھ 55 ہزار امریکی ڈالر بنتے ہیں۔