یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م‌زخ‌ح18 ستمبر ص.‏ 1-‏8
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2018ء)‏
  • ذیلی عنوان
  • 3-‏9 ستمبر
  • پاک کلام سے سنہری باتیں | یوحنا 1،‏ 2
  • ‏”‏یسوع مسیح کا پہلا معجزہ“‏
  • 10-‏16 ستمبر
  • سنہری باتوں کی تلاش
  • 17-‏23 ستمبر
  • پاک کلام سے سنہری باتیں | یوحنا 7،‏ 8
  • سنہری باتوں کی تلاش
‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2018ء)‏
م‌زخ‌ح18 ستمبر ص.‏ 1-‏8

‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

3-‏9 ستمبر

پاک کلام سے سنہری باتیں | یوحنا 1،‏ 2

‏”‏یسوع مسیح کا پہلا معجزہ“‏

‏(‏یوحنا 2:‏1-‏3‏)‏ اِس کے دو دن بعد گلیل کے قصبے قانا میں ایک شادی تھی اور یسوع کی ماں وہاں تھیں۔ 2 یسوع اور اُن کے شاگردوں کو بھی اِس شادی پر بلا‌یا گیا تھا۔ 3 جب یسوع کی ماں نے دیکھا کہ مے کم پڑ گئی ہے تو اُنہوں نے یسوع سے کہا:‏ ”‏اُن کے پاس مے نہیں ہے۔“‏

م15 15/‏6 ص.‏ 4 پ.‏ 3

مسیح خدا کی قدرت ہے

3 ایک مرتبہ یسوع مسیح قانایِ‌گلیل میں ایک شادی پر گئے۔ وہاں اُنہوں نے اپنا پہلا معجزہ کِیا۔ دراصل اُس شادی پر مے کم پڑ گئی تھی۔ شاید مہمان توقع سے زیادہ ہی آ گئے تھے۔ وجہ چاہے جو بھی تھی، مے کا ختم ہونا دُلہے اور دُلہن کے لیے بڑے شرم کی بات تھی۔ اُن کی ذمے‌داری تھی کہ وہ مہمانوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہونے دیں۔ مہمانوں میں یسوع مسیح کی ماں مریم بھی شامل تھیں۔ اُنہوں نے یسوع مسیح سے کہا کہ وہ دُلہے اور دُلہن کی مدد کریں۔ کیا مریم نے یہ اِس لیے کِیا کیونکہ اُنہیں لگا کہ اُن کے بیٹے میں کوئی خاص طاقت ہے؟ بِلاشُبہ وہ کئی سالوں سے اُن پیش‌گوئیوں پر سوچ بچار کرتی رہی تھیں جو اُن کے بیٹے کے بارے میں کی گئی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یسوع ”‏خداتعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔“‏ (‏لُو 1:‏30-‏32؛‏ 2:‏52‏)‏ اپنی ماں کی طرح یسوع مسیح بھی دُلہے اور دُلہن کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے تقریباً 380 لیٹر (‏100 گیلن)‏ پانی کو ”‏اچھی مے“‏ میں تبدیل کر دیا۔ ‏(‏یوحنا 2:‏3،‏ 6-‏11 کو پڑھیں۔)‏ کیا یسوع مسیح یہ معجزہ کرنے کے پابند تھے؟ جی نہیں۔ اُنہوں نے یہ معجزہ اِس لیے کِیا کیونکہ اُنہیں دُلہے اور دُلہن کی فکر تھی۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہ بھی ظاہر کِیا کہ وہ اپنے آسمانی باپ کی طرح فراخ‌دل ہیں۔‏

‏(‏یوحنا 2:‏4-‏11‏)‏ لیکن یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏بی‌بی، اِس سے ہمارا کیا لینا دینا؟ میرا وقت ابھی نہیں آیا۔“‏ 5 اُن کی ماں نے خادموں سے کہا:‏ ”‏جو بھی وہ تمہیں کہیں، وہ کرو۔“‏ 6 وہاں پتھر کے چھ مٹکے پڑے تھے جو یہودیوں کے دستور کے مطابق طہارت کے لیے رکھے گئے تھے۔ ہر مٹکے میں پانی کی دو یا تین بڑی بالٹیوں کی گنجائش تھی۔ 7 یسوع نے خادموں سے کہا:‏ ”‏مٹکوں کو پانی سے بھر دیں۔“‏ اِس پر اُنہوں نے مٹکوں کو اُوپر تک بھر دیا۔ 8 پھر یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏اب اِن میں سے تھوڑا سا نکال کر اُس شخص کے پاس لے جائیں جس کے ہاتھ میں دعوت کا اِنتظام ہے۔“‏ اُنہوں نے ایسا ہی کِیا۔ 9 جب دعوت کے منتظم نے اُس پانی کو چکھا جو مے بن چُکا تھا تو اُس نے دُلہے کو بلا‌یا۔ دراصل دعوت کا منتظم یہ نہیں جانتا تھا کہ مے کہاں سے آئی ہے (‏لیکن جن خادموں نے مٹکوں سے پانی نکالا تھا، وہ جانتے تھے)‏۔ 10 اِس لیے اُس نے دُلہے سے کہا:‏ ”‏ہر میزبان پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے۔ پھر جب مہمانوں کو نشہ چڑھ جاتا ہے تو وہ ایسی مے پیش کرتا ہے جو زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔ لیکن آپ نے اچھی مے ابھی تک بچا کر رکھی ہے۔“‏ 11 یسوع نے یہ معجزہ گلیل کے قصبے قانا میں کِیا اور یہ اُن کا سب سے پہلا معجزہ تھا۔ یوں اُنہوں نے اپنی قوت ظاہر کی اور اُن کے شاگرد اُن پر ایمان لے آئے۔‏

جے‌وائے ص.‏ 41 پ.‏ 6

یسوع مسیح کا پہلا معجزہ

یہ یسوع مسیح کا پہلا معجزہ تھا۔ جب شاگردوں نے اِس معجزے کو دیکھا تو یسوع مسیح پر اُن کا ایمان اَور بھی پکا ہو گیا۔ اِس کے بعد یسوع مسیح اپنی ماں اور بھائیوں کے ساتھ شہر کفرنحوم کے لیے روانہ ہو گئے جو گلیل کی جھیل کے شمالی کنارے پر واقع تھا۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏یوحنا 1:‏1‏)‏ شروع میں کلام تھا۔ کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام ایک خدا تھا۔‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 1:‏1 پر اِضافی معلومات

کلام:‏ یونانی لفظ ”‏ہو لوگوس“‏ کا ترجمہ۔ یہاں اِسے ایک لقب کے طور پر اِستعمال کِیا گیا ہے۔ یہ لقب یوحنا 1:‏14 اور مکاشفہ 19:‏13 میں بھی اِستعمال کِیا گیا ہے۔ یوحنا نے اُس ہستی کی پہچان کرائی جس کے لیے یہ لقب اِستعمال کِیا گیا ہے اور وہ ہستی یسوع ہیں۔ یسوع کے لیے یہ لقب اُن کے زمین پر آنے سے پہلے، بے‌عیب اِنسان کے طور پر زمین پر خدمت کرنے کے دوران اور پھر آسمان پر واپس چلے جانے کے بعد بھی اِستعمال ہوا۔ یسوع خدا کے کلام یعنی اُس کے ترجمان تھے کیونکہ وہ خالق کے پیغامات اور ہدایات کو دوسرے فرشتوں اور اِنسانوں تک پہنچاتے تھے۔ لہٰذا یہ سوچنا غلط نہیں ہوگا کہ یہوواہ خدا نے یسوع کے زمین پر آنے سے پہلے اِنسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کلام یعنی اُس فرشتے کو اِستعمال کِیا جو اُس کا نمائندہ تھا۔—‏پید 16:‏7-‏11؛‏ 22:‏11؛‏ 31:‏11؛‏ خر 3:‏2-‏5؛ قضا 2:‏1-‏4؛ 6:‏11، 12؛ 13:‏3۔‏

کے ساتھ:‏ یونانی حرفِ‌ربط ”‏پروس“‏ کا ترجمہ جس کا لفظی مطلب ”‏کی طرف“‏ ہے۔ اِس سیاق‌وسباق میں ”‏پروس“‏ قریبی رشتے اور دوستی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اِس سے دو الگ ہستیوں کا اِشارہ بھی ملتا ہے اور یہاں یہ دو ہستیاں کلام اور واحد سچا خدا ہیں۔‏

کلام ایک خدا تھا:‏ یا ”‏کلام خدا کی طرح تھا۔“‏ یوحنا کی اِس بات سے ”‏کلام“‏ (‏یونانی لفظ:‏ ”‏ہو لوگوس“‏؛ اِس آیت کے ساتھ لفظ کلام کے لیے دی گئی اِضافی معلومات کو دیکھیں۔)‏ یعنی یسوع مسیح کی ایک خصوصیت پتہ چلتی ہے۔ کلام کو خدا کے پہلوٹھے بیٹے کے طور پر ایک نمایاں مقام حاصل ہے جس کے ذریعے خدا نے باقی سب چیزوں کو بنایا۔ اِس بِنا پر اُسے ”‏ایک خدا؛ خدا کی طرح؛ خدا جیسا“‏ کہا گیا ہے۔ بہت سے ترجمہ‌نگاروں کا کہنا ہے کہ اِس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ”‏کلام خدا تھا۔“‏ یوں وہ کلام کو لامحدود قدرت والے خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ کہنے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں کہ یوحنا کی بات کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ”‏کلام“‏ لامحدود قدرت والا خدا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اِس بیان سے پہلے اور بعد والے بیان میں لکھا ہے کہ کلام ”‏خدا کے ساتھ“‏ تھا۔ اِس کے علاوہ یونانی لفظ ”‏تھیوس“‏ پہلی اور دوسری آیت میں تین مرتبہ آتا ہے۔ پہلی اور تیسری مرتبہ ”‏تھیوس“‏ کے ساتھ یونانی میں ایک ایسا لفظ اِستعمال کِیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی خاص ہستی کی طرف اِشارہ کرتا ہے جبکہ دوسری مرتبہ ”‏تھیوس“‏ کے ساتھ یہ لفظ اِستعمال نہیں کِیا گیا۔ بہت سے عالم اِس بات سے متفق ہیں کہ یہ بات قابلِ‌غور ہے کہ دوسری مرتبہ ”‏تھیوس“‏ کے ساتھ وہ لفظ اِستعمال نہیں کِیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ یہ کسی خاص ہستی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اِس سیاق‌وسباق میں جب یہ لفظ پہلی اور تیسری مرتبہ ”‏تھیوس“‏ کے ساتھ اِستعمال کِیا گیا تو یہ لامحدود قدرت والے خدا کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ لیکن دوسری مرتبہ جب جملے کی ترتیب میں یہ لفظ اِستعمال نہیں ہوا تو اِس سے ”‏کلام“‏ کی ایک خصوصیت کو نمایاں کِیا گیا۔ اِسی لیے انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبان میں بائبل کے کئی ترجموں میں ‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ سے ملتا جلتا خیال پیش کِیا گیا ہے یعنی کلام ”‏ایک خدا؛ خدا کی طرح؛ خدا جیسا“‏ تھا۔ اِس خیال کی حمایت قبطی زبان کی علاقائی بولیوں یعنی ساہیدک اور بوہیریک میں یوحنا کی اِنجیل کے قدیم ترجموں میں بھی کی گئی ہے جنہیں غالباً تیسری اور چوتھی صدی میں تیار کِیا گیا۔ اِن میں بھی یوحنا 1:‏1 میں پہلی اور دوسری مرتبہ ”‏تھیوس“‏ کا فرق فرق طریقے سے ترجمہ کِیا گیا ہے۔ اِن ترجموں سے ”‏کلام“‏ کی ایک خصوصیت کو نمایاں کِیا گیا ہے یعنی یہ کہ وہ خدا کی طرح ہے لیکن اِن میں اُسے اپنے باپ یعنی لامحدود قدرت والے خدا کے برابر نہیں ٹھہرایا گیا۔ اِس آیت کی طرح کُلسّیوں 2:‏9 میں بھی بتایا گیا ہے کہ مسیح ”‏خدا کی تمام صفات سے معمور ہے۔“‏ 2-‏پطرس 1:‏4 میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ بھی ”‏خدا جیسے بن جائیں“‏ گے جنہیں مسیح کے ساتھ وراثت ملے گی۔ اِس کے علاوہ سپتواجنتا میں جن عبرانی الفاظ کا ترجمہ یونانی میں اکثر ”‏تھیوس“‏ کِیا گیا ہے، وہ ”‏ایل“‏ اور ”‏الوہیم“‏ ہیں جو خدا کے لیے اِستعمال ہوئے ہیں اور جن کے بارے میں خیال کِیا جاتا ہے کہ اِن کا بنیادی مطلب ”‏زورآور؛ طاقت‌ور“‏ ہے۔ یہ عبرانی الفاظ لامحدود قدرت والے خدا، دیوی دیوتاؤں اور اِنسانوں کے لیے بھی اِستعمال ہوئے ہیں۔ (‏یوحنا 10:‏34‏)‏ کلام کو ”‏ایک خدا“‏ یا ”‏زورآور ہستی“‏ کہنا یسعیاہ 9:‏6 کے مطابق ہوگا جہاں پیش‌گوئی کی گئی کہ مسیح ”‏خدایِ‌قادِر“‏ (‏”‏قادرِمطلق یعنی لامحدود قدرت والا خدا“‏ نہیں)‏ ہوگا اور وہ اُن سب لوگوں کے لیے ”‏ابدیت کا باپ“‏ ہوگا جنہیں اُس کی رعایا بننے کا اعزاز ملے گا۔ اُس کے باپ یعنی ”‏ربُ‌الافواج [‏یہوواہ]‏ کی غیوری یہ کرے گی۔“‏—‏یسع 9:‏7‏۔‏

‏(‏یوحنا 1:‏29‏)‏ اگلے دن یوحنا نے دیکھا کہ یسوع اُن کی طرف آ رہے ہیں۔ اِس پر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہ خدا کا میمنا ہے جو دُنیا کے گُناہ دُور کر دیتا ہے۔‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 1:‏29 پر اِضافی معلومات

خدا کا میمنا:‏ یا ”‏خدا کا برّہ۔“‏ یسوع مسیح کے بپتسمے کے بعد جب شیطان نے اُنہیں ورغلانے کی کوشش کر لی تو یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اُن کا تعارف ’‏خدا کے میمنے‘‏ کے طور پر کرایا۔ یہ اِصطلا‌ح صرف اِس آیت میں اور یوحنا 1:‏36 میں اِستعمال کی گئی ہے۔ (‏‏”‏تحقیق کے لیے گائیڈ“‏ میں حصہ 4 کو دیکھیں۔)‏ یسوع کو میمنے سے تشبیہ دینا مناسب بھی ہے۔ پوری بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ بھیڑوں کو گُناہ کی معافی اور خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے قربان کِیا جاتا تھا۔ اِس سے اُس قربانی کا عکس پیش کِیا گیا جو یسوع مسیح نے اُس وقت دی جب اُنہوں نے اپنی بے‌عیب اِنسانی زندگی اِنسانوں کی خاطر قربان کر دی۔ اِصطلا‌ح ”‏خدا کا میمنا“‏ پاک صحیفوں کے کئی دوسرے اِقتباسات کی طرف اِشارہ کر سکتی ہے۔ اِس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے عبرانی صحیفوں سے واقف تھے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے یہ بات اِن میں سے کسی ایک یا زیادہ باتوں کو ذہن میں رکھ کر کہی ہو:‏ اُس مینڈھے کو جو ابراہام نے اپنے بیٹے اِضحاق کی جگہ قربان کِیا (‏پید 22:‏13‏)‏، فسح کے برّے کو جسے بنی‌اِسرائیل کو رِہائی دِلانے کے لیے مصر میں ذبح کِیا گیا (‏خر 12:‏1-‏13)‏ یا اُس برّے کو جسے یروشلیم میں خدا کی قربان‌گاہ پر ہر صبح اور شام قربان کِیا جاتا تھا (‏خر 29:‏38-‏42)‏۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوحنا کے ذہن میں یسعیاہ کی وہ پیش‌گوئی ہو جہاں اُس شخص کے بارے میں جسے یہوواہ نے ”‏میرا خادم“‏ کہا، لکھا ہے کہ اُسے اِس طرح لے جایا گیا ”‏جس طرح بّرہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں۔“‏ (‏یسع 52:‏13؛‏ 53:‏5،‏ 7،‏ 11‏)‏ جب پولُس رسول نے کُرنتھیوں کے نام پہلا خط لکھا تو اُنہوں نے یسوع کو ”‏عیدِفسح کا میمنا“‏ کہا۔ (‏1-‏کُر 5:‏7‏)‏ پطرس رسول نے مسیح کے ”‏قیمتی خون“‏ کے بارے میں کہا کہ یہ ”‏ایک بے‌داغ اور بے‌عیب میمنے کے خون کی طرح ہے۔“‏ (‏1-‏پطر 1:‏19‏)‏ اِس کے علاوہ مکاشفہ کی کتاب میں 25 سے زیادہ مرتبہ عظیم‌اُلشان ہستی یسوع مسیح کو مجازی معنوں میں ”‏میمنا“‏ کہا گیا ہے۔—‏اِس کی کچھ مثالیں یہ ہیں:‏ مکا 5:‏6؛‏ 6:‏1؛‏ 7:‏9؛‏ 12:‏11؛‏ 13:‏8؛‏ 14:‏1؛‏ 15:‏3؛‏ 17:‏14؛‏ 19:‏7؛‏ 21:‏9؛‏ 22:‏1‏۔‏

10-‏16 ستمبر

پاک کلام سے سنہری باتیں | یوحنا 3،‏ 4

‏”‏یسوع مسیح نے ایک سامری عورت کو گواہی دی“‏

‏(‏یوحنا 4:‏6، 7‏)‏ یعقوب کا کنواں بھی وہاں ہے۔ یسوع سفر سے تھکے ہارے کنوئیں کے پاس بیٹھ گئے۔ یہ تقریباً چھٹے گھنٹے کی بات تھی۔ 7 تب ایک سامری عورت کنوئیں سے پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏ذرا مجھے پانی پلا دیں۔“‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 4:‏6 پر اِضافی معلومات

یسوع .‏ .‏ .‏ تھکے ہارے:‏ پاک صحیفوں میں یہ واحد بیان ہے جہاں لکھا ہے کہ یسوع مسیح ’‏تھک ہار‘‏ گئے۔ یہ دوپہر کے تقریباً 12 بجے کا وقت تھا اور اُس صبح یسوع مسیح غالباً یہودیہ کی وادیِ‌اُردن سے سفر کر کے سامریہ کے شہر سُوخار پہنچے تھے جو 900 میٹر (‏3000 فٹ)‏ سے زیادہ کی بلندی پر واقع تھا۔—‏یوح 4:‏3-‏5‏؛ ‏”‏تحقیق کے لیے گائیڈ“‏ میں حصہ 4 کو دیکھیں۔‏

سی‌ایف ص.‏ 77 پ.‏ 3

‏”‏مجھے اِسی لیے بھیجا گیا ہے“‏

3 یسوع مسیح نے اُس عورت کے روزمرہ کاموں بلکہ ایک ایسے کام کی مثال دی جو وہ اُس وقت کر رہی تھی۔ وہ کنوئیں پر پانی بھرنے آئی تھی اور یسوع مسیح نے اُس سے زندگی کے پانی کی بات کی جس سے اُس کی روحانی پیاس بجھ سکتی تھی۔ اُس عورت نے کئی مرتبہ ایسی باتیں کہیں جن سے یہ بات‌چیت بحث کا رُخ اِختیار کر سکتی تھی۔ یسوع مسیح نے اُس کی باتوں میں اُلجھنے کی بجائے سمجھ‌داری سے کام لیا اور بات‌چیت کا رُخ مُڑنے نہیں دیا۔ اُنہوں نے یہوواہ خدا اور اُس کی عبادت کے بارے میں بات‌چیت کی۔ اُس عورت نے شہر کے لوگوں کو بھی یہ سب باتیں بتائیں اِس لیے وہ لوگ بھی یسوع کی باتیں سننا چاہتے تھے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح کی باتیں کتنی پُراثر تھیں!‏—‏یوحنا 4:‏3-‏42‏۔‏

‏(‏یوحنا 4:‏21-‏24‏)‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏بی‌بی، یقین کریں کہ وہ وقت آ رہا ہے جب آپ لوگ نہ تو اِس پہاڑ پر اور نہ ہی یروشلیم میں آسمانی باپ کی عبادت کریں گے۔ 22 آپ علم کے بغیر عبادت کرتے ہیں جبکہ ہم علم کی بِنا پر عبادت کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں سے شروع ہوتی ہے۔ 23 لیکن وہ وقت آ رہا ہے بلکہ اب ہے جب باپ کے سچے خادم روح اور سچائی سے اُس کی عبادت کریں گے کیونکہ باپ چاہتا ہے کہ ایسے ہی لوگ اُس کی عبادت کریں۔ 24 خدا روح ہے اور اُس کی عبادت کرنے والوں کو روح اور سچائی سے عبادت کرنی ہوگی۔“‏

‏(‏یوحنا 4:‏39-‏41‏)‏ اُس شہر میں رہنے والے بہت سے سامری، یسوع پر ایمان لائے کیونکہ اُس عورت نے گواہی دی تھی کہ ”‏اُس شخص نے مجھے وہ ساری باتیں بتائی ہیں جو مَیں نے کی ہیں۔“‏ 40 لہٰذا جب وہ سامری، یسوع کے پاس آئے تو اُنہوں نے یسوع سے درخواست کی کہ وہ اُن کے پاس ٹھہریں۔ اِس لیے یسوع دو دن وہاں رہے۔ 41 اُن کی تعلیم سُن کر اَور بھی بہت سے سامری ایمان لائے۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏یوحنا 3:‏29‏)‏ دُلہا وہی ہوتا ہے جس کی دُلہن ہوتی ہے۔ لیکن جب دُلہے کا دوست دُلہے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اُس کی آواز سنتا ہے تو اُس کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ اِسی طرح مَیں بھی بہت خوش ہوں۔‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 3:‏29 پر اِضافی معلومات

دُلہے کا دوست:‏ قدیم زمانے میں دُلہے کا قریبی دوست ایک طرح سے اُس کا قانونی نمائندہ ہوتا تھا۔ وہ شادی کے اِنتظامات کے سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا تھا۔ اُسے دُلہا دُلہن کو ملانے والا سمجھا جاتا تھا۔ شادی کے دن دُلہن کا قافلہ یا تو دُلہے کے گھر یا پھر اُس کے باپ کے گھر پہنچتا تھا جہاں شادی کی ضیافت کی جاتی تھی۔ اِس ضیافت کے دوران جب دُلہا دُلہن سے بات کرتا تھا تو دُلہے کا دوست اُس کی آواز سُن کر بڑا خوش ہوتا تھا کیونکہ اُسے محسوس ہوتا تھا کہ اُس نے اپنی ذمے‌داری کو اچھی طرح سے پورا کِیا ہے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے خود کو ’‏دُلہے کے دوست‘‏ سے تشبیہ دی۔ یہاں دُلہے سے مُراد یسوع مسیح ہیں اور اُن کے شاگرد ایک گروہ کے طور پر مجازی معنوں میں اُن کی دُلہن ہیں۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے مسیح کے لیے راستہ تیار کرتے ہوئے یسوع مسیح کو اِس ”‏دُلہن“‏ کے اِبتدائی ارکان سے متعارف کرایا۔ (‏یوح 1:‏29،‏ 35؛‏ 2-‏کُر 11:‏2؛‏ اِفس 5:‏22-‏27؛‏ مکا 21:‏2،‏ 9‏)‏ ’‏دُلہے کے دوست‘‏ نے دُلہا دُلہن کو آپس میں متعارف کرانے سے اپنا مقصد پورا کر دیا تھا اور اب اُس کا مرکزی کردار مکمل ہو گیا تھا۔ اِسی لیے یوحنا نے اپنے اور یسوع مسیح کے بارے میں کہا:‏ ”‏یہ لازمی ہے کہ وہ آگے بڑھتا رہے اور مَیں پیچھے رہوں۔“‏—‏یوح 3:‏30‏۔‏

‏(‏یوحنا 4:‏10‏)‏ یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏اگر آپ خدا کی نعمت کے بارے میں جانتیں اور یہ بھی جانتیں کہ کون آپ سے پانی مانگ رہا ہے تو آپ اُس سے مانگتیں اور وہ آپ کو زندگی کا پانی دیتا۔“‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 4:‏10 پر اِضافی معلومات

زندگی کا پانی:‏ یا زندہ پانی۔ یہاں جو یونانی اِصطلا‌ح اِستعمال ہوئی ہے، اُس کا لفظی مطلب بہتا ہوا پانی، چشمے کا پانی یا وہ تازہ پانی ہے جو کسی کنوئیں میں چشموں سے آتا ہے۔ یہ حوض کے پانی سے فرق ہوتا ہے جو ٹھہرا رہتا ہے۔ احبار 14:‏5 میں جس عبرانی اِصطلا‌ح کا ترجمہ ”‏بہتے ہوئے پانی“‏ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی مطلب ”‏زندہ پانی“‏ ہے۔ یرمیاہ 2:‏13 اور 17:‏13 میں یہوواہ خدا کو ”‏آبِ‌حیات کا چشمہ“‏ یعنی مجازی معنوں میں زندگی دینے والا پانی کہا گیا ہے۔ جب یسوع مسیح نے سامری عورت سے بات کی تو اُنہوں نے اِصطلا‌ح ”‏زندگی کا پانی“‏ مجازی معنوں میں اِستعمال کی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُس عورت نے اِس بات کو لفظی معنوں میں لیا۔—‏یوح 4:‏11؛‏ یوحنا 4:‏14 پر اِضافی معلومات کو دیکھیں۔‏

‏(‏یوحنا 4:‏14‏)‏ لیکن جو شخص وہ پانی پیئے گا جو مَیں اُسے دوں گا، اُسے کبھی پیاس نہیں لگے گی بلکہ یہ پانی اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جس سے ہمیشہ کی زندگی کا پانی پھوٹے گا۔“‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 4:‏14 پر اِضافی معلومات

وہ پانی .‏ .‏ .‏ جو مَیں .‏ .‏ .‏ دوں گا:‏ یہاں اِصطلا‌ح ”‏پانی“‏ اور ”‏چشمہ“‏ مجازی معنوں میں اِستعمال ہوئی ہیں۔ کچھ دیر پہلے یسوع مسیح نے سامری عورت سے بات‌چیت کرتے ہوئے ’‏زندگی کے پانی‘‏ کی طرف اِشارہ کِیا تھا۔ (‏یوحنا 4:‏10 پر اِضافی معلومات کو دیکھیں۔)‏ اب یسوع نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اُس پانی کو قبول کرتے ہیں جو یسوع دیتے ہیں، اُن میں یہ پانی ایک ایسا چشمہ بن جاتا ہے جس سے ہمیشہ کی زندگی مل سکتی ہے۔ خدا کے کلام میں لفظ ”‏پانی“‏ خدا کے اُن اِنتظامات کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو اُس نے اِنسانوں کو دوبارہ سے بے‌عیب زندگی دینے کے لیے کیے ہیں۔ اِس پانی کا ایک بہت اہم جُز یسوع مسیح کی قربانی ہے۔ اِس سیاق‌وسباق میں یسوع اُن فائدوں پر توجہ دِلا رہے تھے جو خدا کی خدمت کرنے سے اُن لوگوں کو ملتے ہیں جو یسوع کی باتوں کو قبول کرتے اور اُن کے شاگرد بن جاتے ہیں۔ جب وہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو ’‏قریب سے جان‘‏ جاتے ہیں اور پھر اِس علم کے مطابق عمل کرتے ہیں تو اُن کے پاس ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ (‏یوح 17:‏3‏)‏ یسوع مسیح نے کہا کہ جو شخص اِس پانی کو قبول کرے گا، اُس میں یہ پانی ایک چشمہ بن جائے گا جس سے زندگی‌بخش پانی پھوٹے گا۔ ایسے شخص کی شدید خواہش ہوگی کہ وہ ”‏زندگی کا پانی“‏ دوسروں تک بھی پہنچائے۔—‏مکا 21:‏6؛‏ 22:‏1،‏ 17‏۔‏

شاگرد بنانے کی تربیت

ڈبلیوپی16.‏2 ص.‏ 9 پ.‏ 1-‏4

کیا مسیحیوں کو زیارت‌گاہوں پر عبادت کرنی چاہیے؟‏

یسوع مسیح نے مزید کہا:‏ ”‏وہ وقت آ رہا ہے بلکہ اب ہے جب باپ کے سچے خادم روح اور سچائی سے اُس کی عبادت کریں گے کیونکہ باپ چاہتا ہے کہ ایسے ہی لوگ اُس کی عبادت کریں۔“‏ (‏یوحنا 4:‏23‏)‏ صدیوں سے یہودی یہ سمجھتے تھے کہ یروشلیم میں موجود عالیشان ہیکل اُن کی عبادت کا مرکز ہے۔ وہ سال میں تین مرتبہ اپنے خدا یہوواہ کے حضور قربانیاں چڑھانے کے لیے یروشلیم جاتے تھے۔ (‏خروج 23:‏14-‏17)‏ لیکن یسوع مسیح نے کہا کہ یہ سب کچھ بدل جائے گا اور ”‏سچے خادم روح اور سچائی سے .‏ .‏ .‏ عبادت کریں گے۔“‏

یہودیوں کی ہیکل ایک عمارت تھی جسے دیکھا جا سکتا تھا اور یہ ایک خاص جگہ پر واقع تھی۔ لیکن روح اور سچائی کو دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی یہ کسی جگہ تک محدود ہیں۔ لہٰذا یسوع مسیح یہ واضح کر رہے تھے کہ سچے مسیحیوں کی عبادت کسی خاص عمارت یا جگہ تک محدود نہیں ہوگی، پھر چاہے وہ جگہ کوہِ‌گرزیم ہو، یروشلیم میں موجود ہیکل ہو یا پھر کوئی اَور مُقدس جگہ ہو۔‏

یسوع مسیح نے سامری عورت سے بات کرتے وقت یہ بھی کہا کہ ”‏وہ وقت آ رہا ہے“‏ جب خدا کی عبادت اِس طریقے سے کی جائے گی۔ یہ وقت کب آیا؟ اُس وقت جب یسوع مسیح نے اپنی جان قربان کر کے یہودیوں کے عبادت کے نظام کو ختم کر دیا جو موسیٰ کی شریعت کی بنیاد پر قائم تھا۔ (‏رومیوں 10:‏4‏)‏ یسوع مسیح نے یہ بھی کہا کہ ”‏وہ وقت .‏ .‏ .‏ اب ہے۔“‏ اُنہوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیونکہ مسیح کے طور پر وہ پہلے سے ہی ایسے شاگردوں کو جمع کر رہے تھے جو اُن کے اُس حکم پر عمل کریں جس کا اُنہوں نے آگے ذکر کِیا:‏ ”‏خدا روح ہے اور اُس کی عبادت کرنے والوں کو روح اور سچائی سے عبادت کرنی ہوگی۔“‏ (‏یوحنا 4:‏24‏)‏ لیکن روح اور سچائی سے خدا کی عبادت کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏

جب یسوع مسیح نے روح سے عبادت کرنے کا ذکر کِیا تو وہ یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ خدا کی عبادت کسی خاص جوشیلے یا جان‌دار انداز میں کی جائے۔ اِس کی بجائے اُن کا مطلب یہ تھا کہ خدا کی عبادت پاک روح کی رہنمائی کے مطابق کی جائے جو دوسرے کام کرنے کے ساتھ ساتھ پاک صحیفوں کے بارے میں ہمارے علم میں بھی اِضافہ کرتی ہے۔ (‏1-‏کُرنتھیوں 2:‏9-‏12‏)‏ اور جب یسوع مسیح نے سچائی کا ذکر کِیا تو اُن کا اِشارہ پاک کلام کی تعلیمات کے صحیح علم کی طرف تھا۔ لہٰذا یہ نہ سوچیں کہ خدا اُس عبادت کو قبول کرتا ہے جو کسی خاص جگہ پر کی جاتی ہے۔ اگر ہم خدا کے کلام کی تعلیمات اور پاک روح کی رہنمائی کے مطابق خدا کی عبادت کریں گے تو وہ ہماری عبادت کو قبول کرے گا۔‏

17-‏23 ستمبر

پاک کلام سے سنہری باتیں | یوحنا 5،‏ 6

‏”‏صحیح نیت سے یسوع مسیح کی پیروی کریں“‏

‏(‏یوحنا 6:‏9-‏11‏)‏ ”‏دیکھیں، اِس بچے کے پاس جَو کی پانچ روٹیاں اور دو چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ لیکن اِن سے کیا بنے گا؟“‏ 10 یسوع نے کہا:‏ ”‏سب لوگوں کو بٹھائیں۔“‏ اُس جگہ بہت زیادہ گھاس تھی اور لوگ اِس پر بیٹھ گئے۔ وہاں تقریباً 5000 مرد تھے۔ 11 پھر یسوع نے روٹیاں لیں، اِن پر دُعا کی اور وہاں بیٹھے لوگوں میں بانٹ دیں۔ اِسی طرح اُنہوں نے چھوٹی مچھلیاں بھی بانٹیں اور سب نے جی بھر کر کھایا۔‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 6:‏10 پر اِضافی معلومات

لوگ .‏ .‏ .‏ بیٹھ گئے .‏ .‏ .‏ تقریباً 5000 مرد تھے:‏ اِس معجزے کے بارے میں لکھتے ہوئے صرف متی نے اپنی اِنجیل میں ”‏عورتوں اور بچوں“‏ کا ذکر کِیا۔ (‏متی 14:‏21‏)‏ لہٰذا ممکن ہے کہ اِس موقعے پر جن لوگوں نے کھانا کھایا، اُن کی تعداد 15 ہزار سے بھی زیادہ تھی۔‏

‏(‏یوحنا 6:‏14‏)‏ یسوع کا یہ معجزہ دیکھ کر لوگوں نے کہا:‏ ”‏بِلاشُبہ یہ وہی نبی ہے جسے دُنیا میں آنا تھا۔“‏

‏(‏یوحنا 6:‏24‏)‏ جب لوگوں نے دیکھا کہ نہ تو یسوع اور نہ ہی اُن کے شاگرد وہاں ہیں تو وہ کشتیوں پر سوار ہوئے اور یسوع کو ڈھونڈنے کے لیے کفرنحوم گئے۔‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 6:‏14 پر اِضافی معلومات

نبی:‏ پہلی صدی عیسوی میں بہت سے یہودیوں کا ماننا تھا کہ موسیٰ کی طرح کا نبی مسیح ہوگا جس کا ذکر اِستثنا 18:‏15، 18 میں کِیا گیا ہے۔ اِس سیاق‌وسباق میں اِصطلا‌ح دُنیا میں آنا سے اِشارہ ملتا ہے کہ لوگ مسیح کے ظاہر ہونے کا اِنتظار کر رہے تھے۔ صرف یوحنا نے اِس آیت میں درج واقعے کو تحریر کِیا ہے۔‏

‏(‏یوحنا 6:‏25-‏27‏)‏ جب اُنہوں نے جھیل کے اُس پار پہنچ کر یسوع کو دیکھا تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ربّی، آپ کب یہاں آئے؟“‏ 26 یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ آپ لوگ مجھے اِس لیے نہیں ڈھونڈ رہے تھے کہ مَیں نے آپ کے سامنے معجزے کیے بلکہ اِس لیے کہ مَیں نے آپ کو پیٹ بھر کر روٹی کھلائی۔ 27 اُس کھانے کے لیے محنت نہ کریں جو خراب ہوتا ہے بلکہ اُس کھانے کے لیے جو خراب نہیں ہوتا اور جس کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے۔ یہ کھانا اِنسان کا بیٹا آپ کو دے گا کیونکہ اُس پر باپ یعنی خدا نے اپنی خوشنودی کی مُہر لگائی ہے۔“‏

‏(‏یوحنا 6:‏54‏)‏ جو میرا گوشت کھاتا ہے اور میرا خون پیتا ہے، اُسے ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور مَیں اُسے آخری دن پر زندہ کروں گا۔‏

‏(‏یوحنا 6:‏60‏)‏ یسوع کی یہ باتیں سُن کر اُن کے بہت سے شاگردوں نے کہا:‏ ”‏یہ تو بکواس ہے۔ اِس آدمی کی باتیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔“‏

‏(‏یوحنا 6:‏66-‏69‏)‏ اِس وجہ سے یسوع کے بہت سے شاگردوں نے اُن کی پیروی کرنا چھوڑ دی اور دوبارہ سے اُن کاموں میں لگ گئے جو وہ پہلے کرتے تھے۔ 67 اِس پر یسوع نے 12 رسولوں سے کہا:‏ ”‏کیا آپ بھی مجھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟“‏ 68 شمعون پطرس نے جواب دیا:‏ ”‏مالک، ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کرتے ہیں۔ 69 ہم ایمان لائے ہیں اور جان گئے ہیں کہ آپ خدا کے مُقدس خادم ہیں۔“‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 6:‏27،‏ 54 پر اِضافی معلومات

اُس کھانے کے لیے .‏ .‏ .‏ جو خراب ہوتا ہے .‏ .‏ .‏ اُس کھانے کے لیے .‏ .‏ .‏ جس کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے‏:‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ کچھ لوگ صرف جسمانی چیزیں حاصل کرنے کے لالچ میں اُن کے اور اُن کے شاگردوں کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ جسمانی کھانا زندگی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے جبکہ خدا کے کلام سے ملنے والے ”‏کھانے“‏ کے ذریعے یہ ممکن ہوگا کہ اِنسان ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں۔ یسوع مسیح نے لوگوں کو نصیحت کی کہ ’‏اُس کھانے کے لیے محنت کریں جس کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے‘‏ یعنی اپنی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اُن باتوں پر ایمان ظاہر کریں جو وہ سیکھ رہے ہیں۔—‏متی 4:‏4؛‏ 5:‏3؛‏ یوح 6:‏28-‏39‏۔‏

میرا گوشت کھاتا ہے اور میرا خون پیتا ہے:‏ اِس آیت کے سیاق‌وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ یسوع مسیح پر ایمان ظاہر کرنے سے مجازی معنوں میں اُن کا گوشت کھاتے اور خون پیتے ہیں۔ (‏یوح 6:‏35،‏ 40‏)‏ یسوع مسیح نے یہ بات 32ء میں کہی۔ لہٰذا وہ مالک کی یادگاری تقریب کے کھانے کا ذکر نہیں کر رہے تھے کیونکہ یہ تقریب اُنہوں نے اِس کے ایک سال بعد رائج کی۔ اُنہوں نے یہ بات ”‏یہودیوں کی عیدِفسح“‏ سے کچھ دیر پہلے کہی تھی۔ (‏یوح 6:‏4‏)‏ اِس لیے اُن کے سامعین کو غالباً آنے والی عیدِفسح اور اُس برّے کے خون کی اہمیت یاد آئی ہوگی جس کے ذریعے اُس رات اِسرائیلیوں کی جان بچی جب وہ مصر سے نکلے۔ (‏خر 12:‏24-‏27)‏ یسوع مسیح اِس بات کو نمایاں کر رہے تھے کہ اُن کا خون بھی ایک اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ اِس کے ذریعے اُن کے شاگردوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا ممکن ہوگا۔‏

م05 1/‏9 ص.‏ 20 پ.‏ 13، 14

ہم یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے

13 بِھیڑ یسوع مسیح کے پیچھے پیچھے جاتی اور یوحنا کے بیان کے مطابق ”‏جھیل کے پار“‏ اسے ڈھونڈ لیتی ہے۔ اگرچہ یسوع مسیح بادشاہ بننے سے انکار کر چکا تھا توبھی بِھیڑ یسوع مسیح کے پیچھے کیوں جاتی ہے؟ بہتیروں نے جسمانی نقطۂ‌نظر ظاہر کِیا۔ اُنہوں نے واضح طور پر مادی فراہمیوں کا ذکر کِیا جو یہوواہ نے موسیٰ کے دنوں میں بیابان میں ممکن بنائی تھیں۔ بِھیڑ کا مقصد یہ تھا کہ یسوع مسیح انکے لئے خوراک فراہم کرتا رہے۔ یسوع مسیح اُنکے غلط محرکات کو جان لیتا ہے اور اُنہیں روحانی باتوں کی تعلیم دیتا ہے تاکہ وہ اپنی سوچ کو درست کر سکیں۔ (‏یوحنا 6:‏17،‏ 24، 25،‏ 30، 31،‏ 35-‏40‏)‏ نتیجتاً، بعض اُسکے خلاف بڑبڑانے لگتے ہیں بالخصوص اُس وقت جب وہ یہ تمثیل پیش کرتا ہے:‏ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تُم ابنِ‌آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اُسکا خون نہ پیو تُم میں زندگی نہیں۔ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسکی ہے اور مَیں اُسے آخری دن پھر زندہ کروں گا۔“‏—‏یوحنا 6:‏53، 54‏۔‏

14 یسوع مسیح کی تمثیلوں نے اکثر لوگوں کو یہوواہ کیساتھ ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کرنے کی تحریک دی۔ یہ بات اس تمثیل کے سلسلے میں بھی سچ تھی۔ اسے سن کر شدید ردِعمل دکھایا گیا۔ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏اُسکے شاگردوں میں سے بہتوں نے سنکر کہا کہ یہ کلام ناگوار ہے۔ اسے کون سن سکتا ہے؟“‏ یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ اُنہیں ان الفاظ کے روحانی مفہوم پر غور کرنا چاہئے۔ اُس نے کہا:‏ ”‏زندہ کرنے والی تو روح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں مَیں نے تُم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔“‏ بہتیروں نے یسوع کی بات نہ سنی جیساکہ اگلا بیان کہتا ہے:‏ ”‏اس پر اُسکے شاگردوں میں سے بہتیرے اُلٹے پھر گئے اور اِسکے بعد اُسکے ساتھ نہ رہے۔“‏—‏یوحنا 6:‏60،‏ 63،‏ 66‏۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏یوحنا 6:‏44‏)‏ کوئی شخص میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک کہ باپ اُسے میرے پاس نہ لائے۔ اور مَیں اُسے آخری دن پر زندہ کروں گا۔‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 6:‏44 پر اِضافی معلومات

میرے پاس نہ لائے:‏ یونانی میں:‏ ”‏میری طرف کھینچ نہ لے۔“‏ جس یونانی فعل کا ترجمہ ’‏کھینچنا‘‏ کِیا گیا ہے، اُسے مچھلیوں کا جال کھینچنے کے لیے بھی اِستعمال کِیا گیا ہے۔ (‏یوح 21:‏6،‏ 11‏)‏ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا لوگوں کو اُن کی مرضی کے خلاف کھینچ کر لاتا ہے۔ اِس فعل کا مطلب ”‏راغب کرنا؛ مائل کرنا“‏ بھی ہو سکتا ہے۔ شاید یسوع مسیح اِس بات سے یرمیاہ 31:‏3 کا حوالہ دے رہے تھے جہاں یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏مَیں تجھے بڑی شفقت سے اپنے پاس کھینچ لایا ہوں۔“‏ ‏(‏اُردو جیو ورشن)‏ (‏‏”‏سپتواجنتا“‏ میں یونانی میں اِس آیت میں یہی فعل اِستعمال ہوا ہے۔)‏ یوحنا 12:‏32 سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح بھی اِسی طرح ہر طرح کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ پاک صحیفوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا نے ہر شخص کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔ جب یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی بات آتی ہے تو ہر شخص خود اِس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ (‏اِست 30:‏19، 20)‏ خدا بڑے پیار سے اُن لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے جن کا دل اُس کی طرف مائل ہے۔ (‏زبور 11:‏5؛‏ امثا 21:‏2؛‏ اعما 13:‏48‏)‏ یہوواہ خدا بائبل کے پیغام اور اپنی پاک روح کے ذریعے ایسا کرتا ہے۔ یسعیاہ 54:‏13 میں درج پیش‌گوئی جس کا اِقتباس یوحنا 6:‏45 میں دیا گیا ہے، اُن سب پر لاگو ہوتی ہے جنہیں باپ کھینچتا ہے۔—‏یوحنا 6:‏65 پر غور کریں۔‏

‏(‏یوحنا 6:‏64‏)‏ لیکن آپ میں سے کچھ میری باتوں پر یقین نہیں کرتے۔“‏ دراصل یسوع شروع سے جانتے تھے کہ کون سے لوگ یقین نہیں کرتے اور کون اُنہیں پکڑوائے گا۔‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 6:‏64 پر اِضافی معلومات

یسوع .‏ .‏ .‏ جانتے تھے کہ .‏ .‏ .‏ کون اُنہیں پکڑوائے گا:‏ یسوع مسیح یہوداہ اِسکریوتی کی طرف اِشارہ کر رہے تھے۔ اُنہوں نے 12 رسولوں کو چُننے سے پہلے ساری رات اپنے باپ سے دُعا کی۔ (‏لُو 6:‏12-‏16‏)‏ لہٰذا شروع میں تو یہوداہ، خدا کا وفادار تھا۔ لیکن یسوع مسیح جانتے تھے کہ عبرانی صحیفوں میں یہ پیش‌گوئی کی گئی ہے کہ اُن کا ایک قریبی ساتھی اُنہیں دھوکا دے گا۔ (‏زبور 41:‏9؛‏ 109:‏8؛‏ یوح 13:‏18، 19‏)‏ چونکہ یسوع مسیح دلوں اور خیالوں کو پرکھ سکتے ہیں اِس لیے جب یہوداہ کے دل میں بُرائی کا رُجحان پیدا ہونا شروع ہوا تو یسوع مسیح نے اِس تبدیلی کو بھانپ لیا۔ (‏متی 9:‏4‏)‏ خدا مستقبل کے بارے میں جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اِس لیے وہ جانتا تھا کہ یسوع کا ایک قریبی ساتھی غدار بن جائے گا۔ لیکن خدا کی خوبیوں اور اُن کاموں کی بِنا پر جو اُس نے ماضی میں کیے ہیں، یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ یہوداہ نے ہی غدار بننا تھا گویا پہلے سے طے ہو کہ وہ یسوع سے بے‌وفائی کرے گا۔‏

شروع سے:‏ یہ اِصطلا‌ح یہوداہ کی پیدائش کے وقت یا اُس وقت کی طرف اِشارہ نہیں کرتی جب یسوع مسیح نے ساری رات دُعا کرنے کے بعد اُسے رسول کے طور پر چُنا۔ (‏لُو 6:‏12-‏16‏)‏ اِس کی بجائے یہ اُس وقت کی طرف اِشارہ کرتی ہے جب یہوداہ نے دھوکادہی سے کام لینا شروع کِیا جسے یسوع مسیح نے فوراً بھانپ لیا۔ (‏یوح 2:‏24، 25؛‏ 6:‏70؛‏ 13:‏11؛‏ مکا 1:‏1؛‏ 2:‏23‏)‏ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوداہ نے یہ کام سوچ سمجھ کر اور منصوبہ‌سازی سے کیے نہ کہ اچانک سے۔ یونانی صحیفوں میں لفظ ”‏شروع“‏ (‏یونانی لفظ:‏ ”‏ارخی“‏)‏ کا مطلب سیاق‌وسباق پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر 2-‏پطرس 3:‏4 ‏(‏اُردو ریوائزڈ ورشن)‏ میں لفظ ”‏شروع“‏ اُس وقت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جب دُنیا کو بنایا گیا۔ لیکن زیادہ‌تر صورتوں میں اِسے خاص معنوں میں اِستعمال کِیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پطرس نے کہا کہ غیریہودیوں پر ”‏پاک روح بالکل ویسے ہی .‏ .‏ .‏ نازل ہوئی جیسے شروع میں ہم پر ہوئی تھی۔“‏ (‏اعما 11:‏15‏)‏ یہاں پطرس اپنی پیدائش کے وقت یا اُس وقت کی طرف اِشارہ نہیں کر رہے تھے جب اُنہیں رسول کے طور پر چُنا گیا تھا۔ اِس کے برعکس وہ 33ء کی عیدِپنتِکُست کے اُس دن کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جب ایک خاص مقصد کے لیے پاک روح نازل ہونا ”‏شروع“‏ ہوئی۔ (‏اعما 2:‏1-‏4‏)‏ لُوقا 1:‏2؛‏ یوحنا 15:‏27 اور 1-‏یوحنا 2:‏7 میں اِس حوالے سے کچھ اَور مثالیں ملتی ہیں کہ سیاق‌وسباق سے لفظ ”‏شروع“‏ کے معنی پر کیا اثر پڑتا ہے۔‏

24-‏30 ستمبر

پاک کلام سے سنہری باتیں | یوحنا 7،‏ 8

‏”‏یسوع مسیح نے اپنے باپ کی بڑائی کی“‏

‏(‏یوحنا 7:‏15-‏18‏)‏ یہودی اُن کی تعلیم کو سُن کر بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے:‏ ”‏اِس آدمی نے مذہبی سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کی تو پھر اِس کے پاس صحیفوں کا اِتنا علم کہاں سے آیا؟“‏ 16 یسوع نے اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏مَیں جو تعلیم دیتا ہوں، وہ میری نہیں بلکہ اُس کی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ 17 اگر کوئی شخص اُس کی مرضی پر چلنا چاہتا ہے تو وہ جان جائے گا کہ آیا میری تعلیم خدا کی طرف سے ہے یا میری اپنی طرف سے۔ 18 جو شخص اپنی طرف سے تعلیم دیتا ہے، وہ اپنی بڑائی چاہتا ہے لیکن جو شخص اُس کی بڑائی چاہتا ہے جس نے اُسے بھیجا ہے، وہ سچا ہے اور اُس میں کوئی بُرائی نہیں۔‏

سی‌ایف ص.‏ 100، 101 پ.‏ 5، 6

‏”‏پاک صحیفوں میں لکھا ہے“‏

5 یسوع مسیح چاہتے تھے کہ لوگ یہ جانیں کہ اُن کا پیغام خدا کی طرف سے ہے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں جو تعلیم دیتا ہوں، وہ میری نہیں بلکہ اُس کی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔“‏ (‏یوحنا 7:‏16‏)‏ ایک اَور موقعے پر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں اپنے اِختیار سے کچھ نہیں کرتا بلکہ وہی کہتا ہوں جو باپ نے مجھے سکھایا ہے۔“‏ (‏یوحنا 8:‏28‏)‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏مَیں جو کہتا ہوں، وہ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ میرا باپ جو میرے ساتھ متحد رہتا ہے، میرے ذریعے اپنا کام کرتا ہے۔“‏ (‏یوحنا 14:‏10‏)‏ ایک طریقہ جس سے یسوع مسیح نے ثابت کِیا کہ اُن کا پیغام خدا کی طرف سے ہے، یہ تھا کہ وہ بار بار خدا کے کلام سے حوالے دیتے تھے۔‏

6 یسوع مسیح کی باتوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے عبرانی صحیفوں کی آدھی سے زیادہ کتابوں سے اِقتباس پیش کیے یا اِن کا حوالہ دیا۔ شروع میں تو شاید آپ اِس بات سے اِتنے متاثر نہ ہوں۔ شاید آپ سوچیں کہ یسوع مسیح نے ساڑھے تین سال تک لوگوں کو تعلیم دی اور مُنادی کا کام کِیا تو اُنہوں نے عبرانی صحیفوں کی ساری کتابوں ے حوالے کیوں نہیں دیے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُنہوں نے ایسا کِیا ہوگا۔ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح کی باتوں اور کاموں کا کچھ ہی حصہ تحریر کِیا گیا ہے۔ (‏یوحنا 21:‏25‏)‏ اصل میں آپ صرف چند گھنٹوں میں یسوع کی تمام باتوں کو اُونچی آواز میں پڑھ سکتے ہیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ آپ کچھ گھنٹوں تک خدا اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور اِس دوران عبرانی صحیفوں کی آدھی سے زیادہ کتابوں سے حوالے دینے کی کوشش کر رہے ہیں!‏ اِس بات پر بھی غور کریں کہ بہت سے موقعوں پر یسوع مسیح کے ہاتھ میں طومار نہیں تھے۔ جب اُنہوں نے اپنا مشہور پہاڑی وعظ کِیا تو اُنہوں نے عبرانی صحیفوں سے براہِ‌راست اور ویسے بھی درجنوں حوالے دیے اور یہ سب اُنہیں زبانی یاد تھے۔‏

‏(‏یوحنا 7:‏28، 29‏)‏ یسوع ہیکل میں تعلیم دے رہے تھے اور اُنہوں نے اُونچی آواز میں کہا:‏ ”‏آپ مجھے جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں۔ مَیں نے آنے کا فیصلہ خود نہیں کِیا لیکن جس نے مجھے بھیجا ہے، وہ حقیقی ہستی ہے اور آپ اُسے نہیں جانتے۔ 29 مَیں اُسے جانتا ہوں کیونکہ مَیں اُس کا نمائندہ ہوں اور اُسی نے مجھے بھیجا ہے۔“‏

‏(‏یوحنا 8:‏29‏)‏ اور جس نے مجھے بھیجا ہے، وہ میرے ساتھ ہے۔ اُس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اُس کو پسند ہے۔“‏

م11 1/‏3 ص.‏ 13 پ.‏ 19

دُنیا کی روح نہیں بلکہ خدا کی روح کے مطابق چلیں

19 ہر معاملے میں یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کریں۔‏ یسوع مسیح ہمیشہ وہی کام کرتے تھے جو اُن کے باپ کو پسند تھے۔ ایک مرتبہ یسوع مسیح ایک مشکل صورتحال سے جس طریقے سے نپٹنا چاہتے تھے، وہ اُن کے باپ کی مرضی سے فرق تھا۔ پھر بھی یسوع مسیح نے اپنے باپ سے کہا:‏ ”‏میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔“‏ (‏لو 22:‏42‏)‏ لہٰذا ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏کیا مَیں اُس وقت بھی خدا کا فرمانبردار رہتا ہوں جب ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے؟“‏ یاد رکھیں کہ خدا کی فرمانبرداری کرنے سے ہی ہمیں زندگی مل سکتی ہے۔ ہمارے خالق یہوواہ خدا نے نہ صرف ہمیں زندگی دی ہے بلکہ وہ ہر روز ہماری دیکھ‌بھال بھی کرتا ہے۔ (‏زبور 95:‏6، 7‏)‏ اِسی لئے وہ ہماری فرمانبرداری کا حقدار ہے۔ خدا کی فرمانبرداری کرنے سے ہی ہم اُس کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏یوحنا 7:‏8-‏10‏)‏ آپ عید پر جائیں۔ مَیں ابھی اِس عید پر نہیں جاؤں گا کیونکہ میرا وقت ابھی نہیں آیا۔“‏ 9 اُن سے یہ کہنے کے بعد یسوع گلیل میں رہے۔ 10 لیکن جب اُن کے بھائی عید پر چلے گئے تو یسوع بھی وہاں گئے مگر کُھلے عام نہیں بلکہ چھپ کر۔‏

ڈبلیو07 1/‏2 ص.‏ 6 پ.‏ 4

سچ بولنا کیوں ضروری ہے؟‏

یسوع مسیح نے اِس سلسلے میں کیسی مثال قائم کی؟ ایک موقعے پر یسوع مسیح کچھ ایسے لوگوں سے بات کر رہے تھے جو اُن پر ایمان نہیں لائے تھے۔ یہ لوگ سفر کے حوالے سے یسوع مسیح کے منصوبوں کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اُنہوں نے یسوع مسیح کو مشورہ دیا کہ ”‏یہاں سے روانہ ہو کر یہوؔدیہ کو چلا جا۔“‏ اِس پر یسوع نے اُنہیں یہ جواب دیا:‏ ”‏تُم [‏یروشلیم میں]‏ عید میں جاؤ۔ مَیں ابھی اِس عید میں نہیں جاتا کیونکہ ابھی تک میرا وقت پورا نہیں ہوا۔“‏ لیکن بعد میں یسوع عید پر یروشلیم گئے۔ تو پھر اُنہوں نے لوگوں کو ایسا جواب کیوں دیا؟ کیونکہ یہ جاننا لوگوں کا حق نہیں تھا کہ یسوع مسیح کہاں کہاں جائیں گے۔ یسوع مسیح نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ اُنہوں نے ادھورا جواب دیا تھا تاکہ وہ لوگ اُنہیں یا اُن کے پیروکاروں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اُن کا جواب جھوٹ نہیں تھا کیونکہ پطرس رسول نے مسیح کے بارے میں لکھا:‏ ”‏نہ اُس نے گُناہ کِیا اور نہ اُس کے مُنہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔“‏—‏یوحنا 7:‏1-‏13؛‏ 1-‏پطرس 2:‏22‏۔‏

‏(‏یوحنا 8:‏58‏)‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ اِس سے پہلے کہ ابراہام پیدا ہوئے، مَیں موجود تھا۔“‏

‏”‏ترجمہ نئی دُنیا“‏ کے آن‌لائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 8:‏58 پر اِضافی معلومات

مَیں موجود تھا:‏ یسوع کے مخالف یہودی اُنہیں سنگسار کرنا چاہتے تھے کیونکہ یسوع نے دعویٰ کِیا تھا کہ اُنہوں نے ’‏ابراہام کو دیکھا‘‏ ہے لیکن جیسا کہ یہودیوں نے کہا، یسوع تو ”‏ابھی 50 (‏پچاس)‏ سال کے بھی نہیں“‏ تھے۔ (‏یوح 8:‏57‏)‏ اِس کے جواب میں یسوع اُنہیں یہ بتانے والے تھے کہ وہ ابراہام کے پیدا ہونے سے پہلے ایک طاقت‌ور روحانی مخلوق کے طور پر آسمان پر موجود تھے۔ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اِس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع خدا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں جو یونانی اِصطلا‌ح ”‏ایگواِمی“‏ (‏بائبل کے کچھ ترجموں میں اِس کا ترجمہ ”‏مَیں ہوں“‏ کِیا گیا ہے)‏ اِستعمال ہوئی ہے، وہ ‏”‏سپتواجنتا“‏ میں خروج 3:‏14 کے ترجمے میں بھی اِستعمال ہوئی ہے اِس لیے اِن دونوں آیتوں کا ترجمہ ایک ہی طرح سے کِیا جانا چاہیے۔ لیکن اِس سیاق‌وسباق میں یونانی فعل ”‏اِمی“‏ جس عمل کی طرف اِشارہ کرتا ہے، وہ ابراہام کے پیدا ہونے سے پہلے شروع ہوا اور اب تک جاری تھا۔ لہٰذا اِس کا ترجمہ ”‏مَیں ہوں“‏ کی بجائے ”‏مَیں موجود تھا“‏ کرنا زیادہ مناسب ہے اور بائبل کے کئی قدیم اور جدید ترجموں میں اِس فعل کا ترجمہ اِسی طرح کِیا گیا ہے۔ (‏اِس بات کی کچھ مثالیں دیکھنے کے لیے کہ یونانی کے فعل حال کا ترجمہ فعل حال مکمل کِیا گیا ہے، اِن آیتوں کو دیکھیں:‏ لُو 2:‏48؛‏ 13:‏7؛‏ 15:‏29؛‏ یوح 1:‏9؛‏ 5:‏6؛‏ 15:‏27؛‏ اعما 15:‏21؛‏ 2-‏کُر 12:‏19؛‏ 1-‏یوح 3:‏8‏)‏ اِس کے علاوہ یوحنا 8:‏54، 55 میں یسوع نے جو دلائل دیے، اُن سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے کہ وہ اور باپ ایک ہی ہستی ہیں۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں