یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • خدم 2/‏08 ص.‏ 5-‏8
  • یوحنا

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • یوحنا
  • ہماری بادشاہتی خدمتگزاری ۸۲۰۰
  • ذیلی عنوان
  • کیوں فائدہ‌مند
ہماری بادشاہتی خدمتگزاری ۸۲۰۰
خدم 2/‏08 ص.‏ 5-‏8

یوحنا

‏(‏ایس‌آئی ص.‏ ۱۹۳-‏۱۹۵ پ.‏ ۱-‏۹؛ ص.‏ ۱۹۸-‏۱۹۹ پ.‏ ۳۰-‏۳۵)‏

یوحنا کی تمہید

۱.‏ صحائف یسوع کے ساتھ یوحنا کی قریبی رفاقت کو کیسے ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱ پہلی صدی کے مسیحی متی، مرقس اور لوقا کی اناجیل کو الہامی تحریروں کے طور پر گرانقدر سمجھتے تھے اور اُنہیں ۳۰ سال سے زائد عرصہ سے استعمال کر رہے تھے۔ لیکن پہلی صدی کے اختتام تک پہنچنے اور یسوع کے ساتھیوں کی تعداد کم ہو جانے کی وجہ سے شاید یہ سوال پیدا ہو گیا تھا، کیا کوئی اَور بات بیان کرنا باقی تھا؟ کیا اب بھی کوئی شخص اپنے حافظے سے یسوع کی خدمتگزاری کی بابت بیش‌قیمت تفصیلات فراہم کر سکتا تھا؟ جی‌ہاں، ایسا شخص موجود تھا۔ عمررسیدہ یوحنا کو یسوع مسیح کے ساتھ قریبی رفاقت رکھنے کا شرف حاصل تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے اُن ابتدائی شاگردوں میں سے ایک تھا جنہیں خدا کے برّہ سے متعارف کرایا گیا تھا۔ وہ اُن پہلے چار شاگردوں میں سے ایک تھا جنہیں خداوند نے اپنے ساتھ کُل‌وقتی خدمت کرنے کی دعوت دی تھی۔ (‏یوح ۱:‏۳۵-‏۳۹؛‏ مر ۱:‏۱۶-‏۲۰‏)‏ اُس نے یسوع کی خدمتگزاری کے دوران اُس کے ساتھ قریبی رفاقت رکھی۔ یہ وہی شاگرد تھا ”‏جس سے یسوؔع محبت رکھتا تھا“‏ اور جو آخری فسح پر یسوع کے سِینہ کی طرف جھکا ہوا کھانا کھانے بیٹھا تھا۔ (‏یوح ۱۳:‏۲۳؛‏ متی ۱۷:‏۱؛‏ مر ۵:‏۳۷؛‏ ۱۴:‏۳۳‏)‏ یوحنا اُس دردناک موقع پر بھی موجود تھا جب یسوع کو سولی دی گئی۔ اسی جگہ یسوع نے اُسے اپنی ماں مریم کی دیکھ‌بھال کرنے کی ذمہ‌داری سونپی تھی۔ یہیں یسوع کے جی اُٹھنے کی خبر کی تصدیق کرنے کے لئے قبر کی طرف بھاگتے ہوئے پطرس سے پہلے جا پہنچا تھا۔—‏یوح ۱۹:‏۲۷،۲۶؛‏ ۲۰:‏۲-‏۴‏۔‏

۲.‏ یوحنا اپنی انجیل کو لکھنے کے قابل کیسے ہوا اور اُس کی تحریر کا مقصد کیا تھا؟‏

۲ تقریباً ۷۰ سال تک سرگرمی سے خدمت کرنے اور پتمُس کے جزیرہ پر تنہائی میں اپنی قید کے دوران دکھائی جانے والی رویا پر غوروخوض کرنے کے بعد یوحنا اُن باتوں کو لکھنے کے قابل ہوا جو اُس نے بڑے عرصہ سے اپنے دل میں محفوظ کر رکھی تھیں۔ رُوح‌اُلقدس نے اب اُس کے ذہن کو اِن میں سے بہت سی بیش‌قیمت، زندگی‌بخش سچائیوں کو یاد کرنے اور تحریر کرنے کی تحریک دی تاکہ ہر قاری ’‏ایمان لائے کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پائے۔‘‏—‏۲۰:‏۳۱‏۔‏

۳، ۴.‏ کونسی بیرونی اور اندرونی شہادت ظاہر کرتی ہے کہ (‏ا)‏ یہ انجیل بائبل کا مسلمہ حصہ ہے اور (‏ب)‏ اِس کا مصنف یوحنا ہے؟‏

۳ دوسری صدی کے اوائل میں رہنے والے مسیحی یوحنا کو اِس انجیل کا مصنف تسلیم کرتے ہوئے اُس کی تحریر کو الہامی صحائف کا مسلمہ حصہ خیال کرتے تھے۔ دوسری صدی کے اختتام اور تیسری صدی کے آغاز سے تعلق رکھنے والے سکندریہ کا کلیمنٹ، ارینیس، طرطلیان اور اوریگن بھی اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یوحنا اِس انجیل کا مصنف ہے۔ علاوہ‌ازیں، اِس کتاب میں بھی کافی ایسی شہادتیں پائی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اِس انجیل کو یوحنا نے تحریر کِیا ہے۔ واضح طور پر، اِس انجیل کا مصنف ایک یہودی تھا اور یہودیوں کے علاقے اور اُن کی رسومات سے بخوبی واقف تھا۔ (‏۲:‏۶؛‏ ۴:‏۵؛‏ ۵:‏۲؛‏ ۱۰:‏۲۲، ۲۳‏)‏ اُس کے بیان کی گہرائی ظاہر کرتی ہے کہ وہ نہ صرف ایک رسول تھا بلکہ خاص مواقع پر یسوع کے ساتھ رہنے والے تین ساتھیوں یعنی پطرس، یعقوب اور یوحنا میں سے ایک تھا۔ (‏متی ۱۷:‏۱؛‏ مر ۵:‏۳۷؛‏ ۱۴:‏۳۳‏)‏ اِن میں سے ایک، یعقوب (‏زبدی کا بیٹا)‏ کو اِس کتاب کے لکھے جانے سے کافی عرصہ پہلے تقریباً ۴۴ عیسوی میں ہیرودیس اگرپا نے شہید کر دیا تھا۔ (‏اعما ۱۲:‏۲‏)‏ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اِس انجیل کو پطرس نے تحریر کِیا ہے کیونکہ یوحنا ۲۱:‏۲۰-‏۲۴ میں اُس کا ذکر مصنف کے ساتھ کِیا گیا ہے۔‏

۴ اِن اختتامی آیات میں مصنف کا حوالہ اُس شاگرد کے طور پر دیا گیا ہے ”‏جس سے یسوؔع محبت رکھتا تھا۔“‏ اگرچہ ریکارڈ میں یوحنا رسول کا بنام ذکر نہیں کِیا گیا توبھی ایسے اظہارات کا بارہا استعمال ہوا ہے۔ یسوع نے اُس کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏اگر مَیں چاہوں کہ یہ میرے آنے تک ٹھہرا رہے تو تجھ کو کیا؟“‏ (‏یوح ۲۱:‏۲۰،‏ ۲۲‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ جس رسول کا حوالہ دیا گیا تھا اُس کی عمر پطرس اور دیگر رسولوں سے زیادہ طویل ہونی تھی۔ یہ سب باتیں یوحنا رسول کے بارے میں سچ ثابت ہوتی ہیں۔ دلچسپی کی بات ہے کہ یسوع کے آنے کی بابت مکاشفہ کی رویا حاصل کرنے کے بعد یوحنا اِس شاندار پیشینگوئی کے اختتام پر بیان کرتا ہے:‏ ”‏آمین۔ اَے خداوند یسوؔع آ۔“‏—‏مکا ۲۲:‏۲۰‏۔‏

۵.‏ عام خیال کے مطابق، یوحنا نے اپنی انجیل کب تحریر کی تھی؟‏

۵ اگرچہ یوحنا کی تحریروں سے اِس بات کی تصدیق نہیں ہوتی توبھی عام طور پر یہ یقین کِیا جاتا ہے کہ یوحنا نے اپنی انجیل پتمُس کے جزیرہ میں اپنی قید سے لوٹنے کے بعد لکھی تھی۔ (‏مکا ۱:‏۹‏)‏ رومی شہنشاہ نیرو، (‏۹۶-‏۹۸ عیسوی)‏ نے اپنے پیشرو دومطیان کے دورِحکومت کے اختتام پر بہتیرے لوگوں کو قید سے واپس بلوا لیا تھا۔ عام طور پر یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ یوحنا نے تقریباً ۹۸ عیسوی میں اپنی انجیل تحریر کرنے کے بعد شہنشاہ ٹراجن کے تیسرے سال، ۱۰۰ عیسوی میں افسس میں پُرسکون حالات میں وفات پائی۔‏

۶.‏ کونسی شہادت ظاہر کرتی ہے کہ یوحنا کی انجیل فلسطین کے باہر افسس یا اِس کے گِردنواح میں لکھی گئی تھی؟‏

۶ تحریر کی جگہ کے سلسلے میں افسس اور اِس کے گِردونواح کے علاقے کی بابت مؤرخ یوسیبیس (‏تقریباً ۲۶۰-‏۳۴۲ عیسوی)‏ ارینیس کے اِس بیان کا حوالہ دیتا ہے:‏ ”‏خداوند کے سینے پر سر رکھنے والے شاگرد یوحنا نے ایشیا میں افسس کے علاقے میں اپنی انجیل تحریر کی۔“‏a یسوع کے مخالفین کا حوالہ دیتے وقت ”‏فریسیوں“‏ اور ”‏سردار کاہنوں“‏ جیسے اظہارات کی بجائے اکثر عام اصطلا‌ح ”‏یہودیوں“‏ کا استعمال اِس بات کی حمایت کرتا ہے کہ یہ کتاب فلسطین کے باہر لکھی گئی تھی۔ (‏یوح ۱:‏۱۹؛‏ ۱۲:‏۹‏)‏ علاوہ‌ازیں، گلیل کی جھیل کا حوالہ اِس کے رومی نام تبریاس کی جھیل کے طور پر دیا گیا ہے۔ (‏۶:‏۱؛‏ ۲۱:‏۱‏)‏ یوحنا اپنے غیریہودی قارئین کے لئے یہودی عیدوں کی بابت وضاحتیں فراہم کرتا ہے۔ (‏۶:‏۴؛‏ ۷:‏۲؛‏ ۱۱:‏۵۵‏)‏ اُس کی قید کی جگہ پتمُس، افسس کے قریب تھی اور مکاشفہ۲ اور ۳ ابواب افسس اور ایشیائے‌کوچک کی دیگر کلیسیاؤں سے اُس کی واقفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔‏

۷.‏ پائپرس رائی‌لینڈز ۴۵۷ کی اہمیت کیا ہے؟‏

۷ بیسویں صدی میں دریافت کئے جانے والے اہم مسودے یوحنا کی انجیل کے مستند ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اِن میں سے ایک مصر سے ملنے والا یوحنا کی انجیل کا حصہ ہے جس میں یوحنا ۱۸:‏۳۱-‏۳۳،‏ ۳۷، ۳۸ کا بیان شامل ہے۔ اب یہ حصہ پائپرس رائی‌لینڈز ۴۵۷ (‎52P‎) کے نام سے مشہور ہے اور جان رائی‌لینڈز لائبریری، مانچسٹر، انگلینڈ میں محفوظ ہے۔‏b اِسے پہلی صدی کے اختتام پر تحریر کی جانے والی یوحنا کی انجیل کا حصہ خیال کرنے کی بابت مرحوم سر فریڈرک کنیان نے اپنی کتاب دی بائبل اینڈ ماڈرن سکالرشپ،‏ ۱۹۴۹ کے صفحہ ۲۱ پر بیان کِیا:‏ ”‏یوحنا کی انجیل کا یہ حصہ مختصر ہونے کے باوجود اِس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ غالباً ۱۳۰-‏۱۵۰ عیسوی میں مصر کے صوبے میں اِسے بڑی مقبولیت حاصل ہو چکی تھی۔ اگرچہ اِس مسودے کو مختلف مقامات تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا توبھی اِس انجیل کو پہلی صدی کے آخری دہے میں ہی ترتیب دیا گیا تھا جوکہ غالباً اِس کے تحریر کئے جانے کے قریب ہی کا وقت تھا۔ لہٰذا، اِس انجیل کے مستند ہونے پر شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔“‏

۸.‏ (‏ا)‏ یوحنا کی انجیل کی تمہید میں خاص بات کیا ہے؟ (‏ب)‏ یہ کونسا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ یسوع کی خدمتگزاری ساڑھے تین سالوں پر محیط تھی؟‏

۸ یوحنا کی انجیل کا شاندار تعارف ظاہر کرتا ہے کہ تمام چیزیں کلام کے وسیلے سے پیدا ہوئیں جو ”‏ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔“‏ (‏۱:‏۲‏)‏ باپ اور بیٹے کے درمیان بیش‌قیمت رشتے کو بیان کرنے کے بعد یوحنا بالخصوص اُس گہری محبت کے پیشِ‌نظر یسوع کے اقوال‌وافعال کی بہترین تصویرکشی کرتا ہے جو تمام چیزوں کو خدا کے عظیم بندوبست کے تحت متحد کرتی ہے۔ یسوع کی زمینی زندگی کا یہ بیان ۲۹-‏۳۳ عیسوی کا احاطہ کرتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ چار مرتبہ فسح منانے کا ذکر کرتا ہے جن پر یسوع اپنی خدمتگزاری کے دوران حاضر ہوا تھا۔ یوں وہ اِس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ یسوع کی خدمتگزاری ساڑھے تین سالوں پر محیط تھی۔ اِن میں سے فسح کے تین مواقع کا براہِ‌راست ذکر کِیا گیا ہے۔ (‏۲:‏۱۳؛‏ ۶:‏۴؛‏ ۱۲:‏۱؛‏ ۱۳:‏۱‏)‏ جبکہ اِن میں سے ایک کا حوالہ ’‏یہودیوں کی عید‘‏ کے طور پر دیا گیا ہے، تاہم سیاق‌وسباق کے حوالے سے اِس کا یسوع کے اِس بیان کے فوراً بعد آنا کہ ”‏فصل کے آنے میں ابھی چار مہینے باقی ہیں“‏ ظاہر کرتا ہے کہ یہ فصل کی کٹائی کے شروع میں منائی جانے والی عیدِفسح تھی۔—‏۴:‏۳۵؛‏ ۵:‏۱‏۔‏c

۹.‏ (‏ا)‏ کونسی بات ظاہر کرتی ہے کہ یوحنا کی انجیل اضافی معلومات پر مشتمل ہے؟ (‏ب)‏ کیا انجیل یسوع کی خدمتگزاری کی تمام تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے؟‏

۹ ”‏یوحنا کی معرفت“‏ دی جانے والی خوشخبری بنیادی طور پر اضافی معلومات پر مشتمل ہے، اِس کا ۹۲ فیصد مواد نیا ہے اور دوسری اناجیل کا حصہ نہیں ہے۔ اِس کے باوجود یوحنا آخر میں بیان کرتا ہے:‏ ”‏اَور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوؔع نے کئے۔ اگر وہ جُدا جُدا لکھے جاتے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ جو کتابیں لکھی جاتیں اُن کے لئے دُنیا میں گنجایش نہ ہوتی۔“‏—‏۲۱:‏۲۵‏۔‏

کیوں فائدہ‌مند

۳۰.‏ یوحنا محبت کی خوبی پر کیسے زور دیتا ہے؟‏

۳۰ ”‏یوحنا کی معرفت“‏ خوشخبری، کلام یعنی مسیح کی پُرجوش عکاسی اور مؤثر اندازِبیان سے ہمارے لئے خدا کے ممسوح بیٹے کے اقوال‌وافعال کا قریبی جائزہ فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ یوحنا کا سادہ اندازِبیان اور ذخیرہِ‌الفاظ ”‏اَن‌پڑھ اور ناواقف آدمی“‏ کے طور پر اُس کی شناخت کراتے ہیں توبھی اُس کے بیانات بڑے پُراثر ہیں۔ (‏اعما ۴:‏۱۳‏)‏ اُس کی انجیل باپ اور بیٹے کے درمیان پائی جانے والی گہری محبت کو بڑے اثرآفرین طریقے سے بیان کرتی ہے۔ اِس کے علاوہ، یہ اُن کی قربت سے حاصل ہونے والے بابرکت اور پُرمحبت رشتے کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔ تینوں اناجیل کے مقابلے میں یوحنا نے ”‏محبت“‏ کی اصطلا‌ح کو زیادہ مرتبہ استعمال کِیا ہے۔‏

۳۱.‏ یوحنا کی انجیل میں کونسے رشتے پر زور دیا گیا ہے اور اِس کا شاندار اظہار کیسے کِیا گیا؟‏

۳۱ ابتدا میں خدا باپ اور کلام یعنی یسوع کے درمیان رشتہ کسقدر شاندار تھا!‏ خدا کی طاقت سے ”‏کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔“‏ (‏یوح ۱:‏۱۴‏)‏ اِس کے بعد، یوحنا کی پوری انجیل میں یسوع مسیح اِس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ ہر بات میں اپنے باپ کی مرضی پوری کرتا ہے۔ (‏۴:‏۳۴؛‏ ۵:‏۱۹،‏ ۳۰؛‏ ۷:‏۱۶؛‏ ۱۰:‏۲۹، ۳۰؛‏ ۱۱:‏۴۱، ۴۲؛‏ ۱۲:‏۲۷،‏ ۴۹، ۵۰؛‏ ۱۴:‏۱۰‏)‏ یوحنا ۱۷ باب میں درج اُس کی اثرآفرین دُعا اِس قریبی رشتے کے جلالی عروج کا شاندار اظہار ہے۔ اِس دُعا میں یسوع اپنے باپ کو یہ بتاتا ہے کہ جو کام اُسے زمین پر سونپا گیا تھا اُس نے اِسے مکمل کر دیا ہے۔ اِس کے بعد وہ مزید کہتا ہے:‏ ”‏اب اَے باپ!‏ تُو اُس جلال سے جو مَیں دُنیا کی پیدایش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔“‏—‏۱۷:‏۵‏۔‏

۳۲.‏ (‏ا)‏ یسوع کن اظہارات سے شاگردوں کے ساتھ اپنے رشتے واضح کرتا ہے؟ (‏ب)‏ یسوع یہ کیسے ظاہر کرتا ہے کہ نسلِ‌انسانی صرف اُسی کے وسیلے سے زندگی کی برکات حاصل کر سکتی ہے؟‏

۳۲ اپنے شاگردوں کے ساتھ یسوع کے رشتے کی بابت کیا ہے؟ اِس انجیل میں ہمیشہ اِس بات پر توجہ دلائی گئی ہے کہ شاگرد اور انسان صرف یسوع مسیح کے وسیلے سے خدا کی برکات حاصل کر سکتے ہیں۔ (‏۱۴:‏۱۳، ۱۴؛‏ ۱۵:‏۱۶؛‏ ۱۶:‏۲۳، ۲۴‏)‏ یسوع کا حوالہ ’‏خدا کے برّہ،‘‏ ”‏زندگی کی روٹی،“‏ ’‏دُنیا کے نور،‘‏ ’‏اچھے چرواہے،‘‏ ”‏قیامت اور زندگی،“‏ ”‏راہ اور حق اور زندگی“‏ اور ’‏انگور کے حقیقی درخت‘‏ کے طور پر دیا گیا ہے۔ (‏۱:‏۲۹؛‏ ۶:‏۳۵؛‏ ۸:‏۱۲؛‏ ۱۰:‏۱۱؛‏ ۱۱:‏۲۵؛‏ ۱۴:‏۶؛‏ ۱۵:‏۱‏)‏ درحقیقت، یسوع نے ’‏انگور کے حقیقی درخت‘‏ کے اظہار سے اُس شاندار اتحاد کو نمایاں کِیا ہے جو نہ صرف اُس کے اور اُس کے سچے پیروکاروں بلکہ باپ کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ بہت سا پھل لانے سے وہ اُس کے باپ کی تمجید کریں گے۔ یسوع نصیحت کرتا ہے، ”‏جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی۔ تم میری محبت میں قائم رہو۔“‏—‏۱۵:‏۹‏۔‏

۳۳.‏ یسوع اپنی دُعا میں اپنی خدمتگزاری کے کس مقصد کو واضح کرتا ہے؟‏

۳۳ اِس کے بعد یسوع بڑی خلوصدلی سے اپنے پیروکاروں اور ’‏اِن کے کلام کے وسیلہ سے اُس پر ایمان‘‏ لانے والوں کے لئے بھی دُعا کرتا ہے کہ وہ سچائی کے کلام سے مُقدس ہوکر اُس کے باپ اور اُس کے ساتھ متحد ہو جائیں!‏ واقعی، یسوع اپنے باپ سے اپنی دُعا کے اختتامی الفاظ میں اپنی خدمتگزاری کے بنیادی مقصد کو احسن طریقے سے واضح کرتا ہے:‏ ”‏مَیں نے اُنہیں تیرے نام سے واقف کِیا اور کرتا رہوں گا تاکہ جو محبت تجھ کو مجھ سے تھی وہ اُن میں ہو اور مَیں اُن میں ہوں۔“‏—‏۱۷:‏۲۰،‏ ۲۶‏۔‏

۳۴.‏ یسوع نے دُنیا پر غالب آنے کی بابت کونسی مفید مشورت دی؟‏

۳۴ اگرچہ یسوع اپنے شاگردوں کو دُنیا میں چھوڑ رہا تھا توبھی وہ اُنہیں ایک مددگار یعنی ”‏روحِ‌حق“‏ کے بغیر نہیں چھوڑ رہا تھا۔ علاوہ‌ازیں، اُس نے اُنہیں دُنیا کے ساتھ اپنے تعلق کی بابت موزوں مشورت دیتے ہوئے ظاہر کِیا کہ وہ ’‏نور کے فرزندوں‘‏ کے طور پر کیسے غالب آ سکتے ہیں۔ (‏۱۴:‏۱۶، ۱۷؛‏ ۳:‏۱۹-‏۲۱؛‏ ۱۲:‏۳۶‏)‏ یسوع نے بیان کِیا، ”‏اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ اور سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تمکو آزاد کرے گی۔“‏ اِس کے برعکس، اُس نے تاریکی کے فرزندوں سے کہا:‏ ”‏تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ .‏ .‏ .‏ سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔“‏ پس، ہمیں سچائی پر قائم رہنے، ”‏باپ کی پرستش روح اور سچائی“‏ سے کرنے اور یسوع کے اِن الفاظ سے تقویت حاصل کرنے کے لئے پُرعزم رہنا چاہئے کہ ”‏خاطر جمع رکھو مَیں دُنیا پر غالب آیا ہوں۔“‏—‏۸:‏۳۱، ۳۲،‏ ۴۴؛‏ ۴:‏۲۳؛‏ ۱۶:‏۳۳‏۔‏

۳۵.‏ (‏ا)‏ خدا کی بادشاہت کی بابت یسوع کونسی شہادت دیتا ہے؟ (‏ب)‏ یوحنا کی انجیل خوشی اور شکرگزاری کی کونسی وجہ فراہم کرتی ہے؟‏

۳۵ یہ تمام باتیں خدا کی بادشاہت سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ اپنے مقدمے کے دوران یسوع نے شہادت دی:‏ ”‏میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی اِس دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالہ نہ کِیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔“‏ اِس کے بعد، پیلاطُس کے سوال کے جواب میں اُس نے کہا:‏ ”‏تُو خود کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہوں۔ مَیں اِس لئے پیدا ہوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔ جو کوئی حقانی ہے میری آواز سنتا ہے۔“‏ (‏۱۸:‏۳۶، ۳۷‏)‏ واقعی، وہ لوگ مبارک ہیں جو سنتے ہیں اور ”‏نئے سرے سے پیدا“‏ ہو کر بادشاہ کے ساتھ ”‏خدا کی بادشاہی میں داخل“‏ ہوتے ہیں۔ ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ بھی مبارک ہیں جو اِس چرواہے اور بادشاہ کی آواز سن کر زندگی پاتی ہیں۔ بیشک، یوحنا کی انجیل کے لئے شکرگزار ہونے کی ہر وجہ موجود ہے کیونکہ یہ اِس لئے لکھی گئی تھی کہ ”‏تم ایمان لاؤ کہ یسوؔع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پاؤ۔“‏—‏۳:‏۳،‏ ۵؛‏ ۱۰:‏۱۶؛‏ ۲۰:‏۳۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

a دی ایکلیزی‌ایسٹیکل ہسٹری،‏ یوسیبیس، V‏, VIII,‏ ۴۔‏

b انسائٹ آن دی سکرپچرز،‏ جِلد ۱، صفحہ ۳۲۳۔‏

c انسائٹ آن دی سکرپچرز،‏ جِلد ۲، صفحہ ۵۷، ۵۸۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں