رسولی زمانے میں روشنی کی کرنیں
”صادقوں کیلئے نور بویا گیا ہے اور راستدِلوں کیلئے خوشی۔“—زبور ۹۷:۱۱۔
۱. آجکل یہوؔواہ کے گواہ قدیم مسیحیوں سے کیسے مشابہت رکھتے ہیں؟
سچے مسیحیوں کے طور پر، ہم زبور ۹۷:۱۱ کے الفاظ کی کتنی قدر کرتے ہیں! ہمارے لئے بار بار ’روشنی چمکی‘ ہے۔ واقعی، ہم میں سے بعض عشروں سے یہوؔواہ کی چمکدار روشنی دیکھ چکے ہیں۔ یہ سب ہمیں امثال ۴:۱۸ کی یاد دلاتا ہے، جو پیشینگوئی کرتی ہے: ”صادقوں کی راہ نورِسحر کی مانند ہے جسکی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔“ ہم یہوؔواہ کے گواہ روایت کی بجائے صحائف کیلئے اپنی قدردانی میں قدیمی مسیحیوں کے مشابہ ہیں۔ خدائی الہام کے تحت تحریرکردہ مسیحی یونانی صحائف اور اِسکے خطوط سے اُنکے نقطۂنگاہ کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
۲. روشنی کی پہلی کرنوں میں سے کونسی تھیں جو یسوؔع کے پیروکاروں نے حاصل کیں؟
۲ روشنی کی پہلی کرنیں جو یسوؔع مسیح کے ابتدائی پیروکاروں پر پڑیں اُنکا تعلق مسیحا سے تھا۔ اؔندریاس نے اپنے بھائی شمعوؔن پطرس کو بتایا: ”ہم کو خرستُسؔ یعنی مسیح مل گیا۔“ (یوحنا ۱:۴۱) اِسکے کچھ عرصہ بعد، آسمانی باپ نے پطرؔس رسول کو اِس نقطۂنظر کی تصدیق کرنے کے قابل کِیا جب اُس نے یسوؔع مسیح سے کہا: ”تُو زِندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔“—متی ۱۶:۱۶، ۱۷؛ یوحنا ۶:۶۸، ۶۹۔
اُنکی منادی کی تفویض کے سلسلے میں روشنی
۳، ۴. اپنی قیامت کے بعد، یسوؔع نے اپنے پیروکاروں کو مستقبل کیلئے اُنکی کارگزاری کے سلسلے میں کیا آگاہی دی؟
۳ اپنی قیامت کے بعد، یسوؔع مسیح نے اپنے تمام پیروکاروں پر آنے والی ایک ذمہداری پر روشنی ڈالی۔ اِس بات کا زیادہ امکان ہے کہ یہ گلیلؔ میں جمع ۵۰۰ شاگردوں کیلئے تھی جیسے کہ اُس نے کہا: ”پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوحالقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۶) اِسکے بعد، مسیح کے پیروکاروں کو مناد ہونا تھا، اور اُنکی منادی کی تفویض کو ”اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں“ تک محدود نہیں ہونا تھا۔ (متی ۱۰:۶) نہ ہی اُنہیں گناہوں کی معافی کی علامت میں یوؔحنا کے بپتسمہ کو انجام دینا تھا۔ اِسکی بجائے، اُنہیں لوگوں کو ”باپ اور بیٹے اور رُوحالقدس کے نام سے“ بپتسمہ دینا تھا۔
۴ یسوؔع کے آسمان پر جانے سے تھوڑا پہلے، اُسکے ۱۱ وفادار رسولوں نے پوچھا: ”اَے خداوند! کیا تُو اِسی وقت اِؔسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کریگا؟“ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے، یسوؔع نے یہ کہتے ہوئے منادی کرنے کی اُنکی تفویض کے متعلق مزید ہدایات دیں: ”جب رُوحالقدس تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤگے اور یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے۔“ اُس وقت تک، وہ صرف یہوؔواہ کے گواہ رہے تھے، لیکن اَب وہ مسیح کے گواہ بھی ہونگے۔—اعمال ۱:۶-۸۔
۵، ۶. یسوؔع کے شاگردوں کو پنتِکُست پر روشنی کی کونسی کرنیں حاصل ہوئیں؟
۵ اِسکے صرف دس دِن بعد، یسوؔع کے پیروکاروں پر روشنی کی کیا ہی چمکدار کرنیں پڑیں! ۳۳ س.ع. کے پنتِکُست کے دِن پر، پہلی مرتبہ، اُنہوں نے یوایل ۲:۲۸، ۲۹ کے مفہوم کو پوری طرح سمجھا: ”مَیں [یہوؔواہ] ہر فردِبشر پر اپنی رُوح نازل کرونگا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوّت کرینگے۔ تمہارے بوڑھے خواب اور جوان رویا دیکھینگے۔ بلکہ مَیں اُن ایّام میں غلاموں اور لونڈیوں پر اپنی رُوح نازل کرونگا۔“ یسوؔع کے شاگردوں نے رُوحالقدس کو آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانوں کی صورت میں دیکھا جو یرؔوشلیم میں جمعشُدہ—تخمیناً ۱۲۰ مردوں اور عورتوں—کے سروں پر آ کر ٹھہر گئیں۔—اعمال ۱:۱۲-۱۵؛ ۲:۱-۴۔
۶ پنتِکُست کے دن پر، شاگردوں نے پہلی مرتبہ یہ بھی سمجھا کہ زبور ۱۶:۱۰ کے الفاظ کا اطلاق قیامتیافتہ یسوؔع مسیح پر ہوا تھا۔ زبورنویس کہہ چکا تھا: ”تُو [یہوؔواہ خدا] نہ میری جان کو پاتال میں رہنے دیگا نہ اپنے مُقدس کو سڑنے دیگا۔“ شاگردوں نے سمجھ لیا کہ ان الفاظ کا اطلاق بادشاہ داؔؤد پر نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ اُسکی قبر اُس دِن تک اُن میں موجود تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ تقریباً وہ ۳،۰۰۰ جنہوں نے اُس نئی روشنی کی وضاحت ہوتی سنی اتنے قائل ہو گئے تھے کہ اُنہوں نے اُسی دن بپتسمہ لے لیا!—اعمال ۲:۱۴-۴۱۔
۷. پطرؔس رسول کو رومی فوجی افسر کرنیلیسؔ سے ملاقات کے دوران کونسی تابناک روشنی حاصل ہوئی؟
۷ کئی صدیوں تک، اسرائیلیوں نے اُس بات کی قدر کی جو خدا نے اُن کی بابت کہی تھی: ”دُنیا کے سب گھرانوں میں سے مَیں نے صرف تم کو برگزیدہ کِیا ہے۔“ (عاموس ۳:۲) لہٰذا یہ واقعی روشنی کی چمکدار کرن تھی جو پطرؔس رسول اور رومی فوجی افسر کرنیلیسؔ کے گھر اُسکے ساتھ جانے والوں پر پڑی تھی جب رُوحالقدس نامختون غیرقوم بےایمانوں پر پہلی مرتبہ نازل ہوئی۔ یہ قابلِغور بات ہے کہ صرف اِسی مرتبہ رُوحالقدس بپتسمے سے پہلے دی گئی تھی۔ لیکن اِسے ایسے ہی ہونا تھا۔ بصورتِدیگر، پطرؔس کو پتہ نہ چلتا کہ یہ نامختون غیراقوام بپتسمے کے لائق تھے۔ اِس مظہر کے مفہوم کو پوری طرح سمجھتے ہوئے، پطرؔس نے سوال کِیا: ”کیا کوئی پانی سے روک سکتا ہے کہ یہ [غیرقوم] بپتسمہ نہ پائیں جنہوں نے ہماری طرح رُوحالقدس پایا؟“ بِلاشُبہ، کوئی بھی موجود شخص واجب طور پر اعتراض نہ کر سکا، اور ان غیرقوم لوگوں کا بپتسمہ ہو گیا۔—اعمال ۱۰:۴۴-۴۸؛ مقابلہ کریں اعمال ۸:۱۴-۱۷۔
مزید کوئی ختنہ نہیں
۸. بعض قدیمی مسیحیوں کو ختنے کے دستور کو ترک کرنا مشکل کیوں لگا تھا؟
۸ سچائی کی مزید روشن کرن ختنے کے سوال کے سلسلے میں نمودار ہوئی۔ ختنے کے دستور کا آغاز ۱۹۱۹ ق.س.ع. میں اؔبرہام کیساتھ یہوؔواہ کے عہد کیساتھ ہوا تھا۔ اِسکے بعد خدا نے اؔبرہام کو حکم دیا کہ وہ اور اُسکے گھرانے کے تمام دوسرے مردوں کو ختنہ کروانا تھا۔ (پیدایش ۱۷:۹-۱۴، ۲۳-۲۷) یوں ختنہ اؔبرہام کی اولاد کا شناختی نشان بن گیا۔ اور اُنہیں اس دستور پر کتنا ناز تھا! نتیجتاً، ”نامختون“ ایک حقارت کی اصطلاح بن گئی۔ (یسعیاہ ۵۲:۱؛ ۱-سموئیل ۱۷:۲۶، ۲۷) یہ سمجھنا آسان ہے کہ کیوں بعض قدیم یہودی مسیحی اِس علامت کے پابند رہنا چاہتے تھے۔ بعض نے تو اِس معاملے پر پولسؔ اور برؔنباس کیساتھ بڑی بحث کی تھی۔ اِس کو حل کرنے کیلئے، پولسؔ اور دوسرے مسیحی گورننگ باڈی کیساتھ مشورہ کرنے کیلئے یرؔوشلیم گئے۔—اعمال ۱۵:۱، ۲۔
۹. جیسے کہ اعمال ۱۵ باب میں درج ہے متعلقہ گورننگ باڈی پر روشنی کی کن کرنوں کا انکشاف کِیا گیا تھا؟
۹ اِس مرتبہ، یہ کسی ظاہری معجزے کے ذریعے سے نہیں تھا کہ اُن قدیمی مسیحیوں کو روشنی حاصل ہوئی کہ ختنہ یہوؔواہ کے خادموں کیلئے اب کوئی تقاضا نہیں تھا۔ اِسکی بجائے، اُنہوں نے رُوحالقدس کی راہنمائی پر توکل کرتے ہوئے، اور نامختون غیرقوم لوگوں کے تبدیلئمذہب کے سلسلے میں پطرؔس اور پولسؔ کے تجربات سنتے ہوئے، صحائف کی تحقیق کرنے سے اُس اضافی روشنی کو حاصل کِیا۔ (اعمال ۱۵:۶-۲۱) فیصلہ ایک خط میں جاری کِیا گیا تھا جسکے کچھ حصے کا بیان یوں تھا: ”رُوحالقدس نے اور ہم نے مناسب جانا کہ ان ضروری باتوں کے سوا تم پر اور بوجھ نہ ڈالیں۔ کہ تم بتوں کی قربانیوں کے گوشت سے اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔“ (اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) یوں قدیمی مسیحیوں کو ختنے کو عمل میں لانے کے حکم سے اور موسوی شریعت کے دیگر تقاضوں سے آزاد کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا، پولسؔ غیرقوم مسیحیوں کو بتا سکتا تھا: ”مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے آزاد کِیا ہے۔“—گلتیوں ۵:۱۔
اناجیل میں روشنی
۱۰. متی کی انجیل میں روشنی کی بعض کونسی کرنوں کا انکشاف کِیا گیا تھا؟
۱۰ اِس میں کوئی شک نہیں کہ تقریباً ۴۱ س.ع. میں لکھی جانے والی متی کی انجیل، اپنے قارئین کے فائدے کیلئے روشنی کی بہت سی کرنوں پر مشتمل ہے۔ پہلی صدی کے مسیحیوں میں سے نسبتاً کم نے ذاتی طور پر یسوؔع کو اپنی تعلیمات بیان کرتے سنا تھا۔ بالخصوص، متی کی انجیل نے زور دیا کہ یسوؔع کی منادی کا موضوع بادشاہت تھا۔ اور یسوؔع نے کتنے پُرزور طور پر درست محرک رکھنے کی اہمیت پر زور دیا تھا! اُسکے پہاڑی وعظ میں، اُسکی تمثیلوں میں (جیسے کہ وہ جو ۱۳ باب میں درج ہیں)، اور ۲۴ اور ۲۵ ابواب میں اُسکی عظیم پیشینگوئی میں روشنی کی کیا ہی کرنیں تھیں! اِس تمام کو متی کی انجیل کے بیان میں پہلی صدی کے مسیحیوں کی توجہ میں لایا گیا تھا، جو ۳۳ س.ع. کے پنتِکُست کے صرف کوئی آٹھ سال بعد ہی لکھی تھی۔
۱۱. مرقس اور لوقا کی اناجیل کے نفسِمضمون کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
۱۱ تقریباً ۲۵ سال بعد لوؔقا نے اپنی انجیل کو قلمبند کِیا۔ اگرچہ اِسکا زیادہ حصہ تو متیؔ کے بیان سے ملتاجلتا ہے، تو بھی ۵۹ فیصد اضافی ہے۔ لوؔقا نے یسوؔع کے چھ معجزات کو قلمبند کِیا اور دو سے زیادہ مرتبہ اُسکی بہت سی تمثیلوں کا دیگر انجیل نویسوں نے ذکر نہیں کِیا۔ ظاہراً چند سال بعد ہی، مرقسؔ نے اپنی انجیل کو یسوؔع مسیح پر باعمل انسان، معجزنما کے طور پر زور دیتے ہوئے تحریر کِیا۔ اگرچہ مرقسؔ نے زیادہتر متیؔ اور لوؔقا کے ذریعے پہلے سے تحریرکردہ واقعات ہی کو بیان کِیا تو بھی اُس نے ایک تمثیل کو قلمبند کِیا جو اُنہوں نے بیان نہیں کی۔ اُس تمثیل میں، یسوؔع نے خدا کی بادشاہت کو ایک بیج سے تشبِیہ دی جو پھوٹتا، قدآور ہوتا، اور بتدریج پھل لاتا ہے۔a—مرقس ۴:۲۶-۲۹۔
۱۲. کس حد تک یوحنا کی انجیل نے مزید آگاہی فراہم کی؟
۱۲ اِس کے بعد یوحنا کی انجیل تھی، جو مرقسؔ کے اپنے بیان کو لکھنے کے ۳۰ سے زیادہ سال بعد لکھی گئی۔ یوؔحنا نے بالخصوص انسان بننے سے قبل اسکی زندگی کے متعدد حوالوں کے ذریعے روشنی کا کیا ہی سلسلہ یسوؔع کی خدمتگزاری پر مرکوز کِیا! صرف یوؔحنا ہی لعزؔر کی قیامت کی تفصیل فراہم کرتا ہے، اور صرف وہی یسوؔع کے اپنے وفادار رسولوں کی بابت اُسکے بہت سے عمدہ تبصرے اور اُسکے پکڑوائے جانے کی رات دل کو گرما دینے والی اُسکی دُعا کو بیان کرتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سے ۱۷ ابواب میں مندرج ہے۔ درحقیقت یہ کہا گیا ہے کہ یوؔحنا کی انجیل کا ۹۲ فیصد منفرد ہے۔
پولسؔ کے خطوط میں روشنی کی کرنیں
۱۳. بعض نے رومیوں کے نام پولسؔ کے خط کو گویا ایک انجیل کے طور پر کیوں خیال کِیا؟
۱۳ رسولی زمانے میں رہنے والے مسیحیوں کیلئے پولسؔ رسول کو خاص طور پر سچائی کی کرنیں بکھیرنے کیلئے استعمال کِیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر، رومیوں کے نام پولسؔ کا خط ہے، جو ۵۶ س.ع. کے قریب لکھا گیا—تقریباً اُسی وقت جب لوؔقا نے اپنی انجیل لکھی۔ اِس خط میں پولسؔ اِس حقیقت کو اُجاگر کرتا ہے کہ راستبازی خدا کے غیرمستحق فضل اور یسوؔع مسیح پر ایمان کے نتیجے کا باعث ہے۔ خوشخبری کے اِس پہلو پر پولسؔ کا زور دینا رومیوں کے نام اُسکے خط کی بابت بعض کیلئے یہ خیال کرنے کا سبب بنا کہ گویا یہ پانچویں انجیل تھی۔
۱۴-۱۶. (ا) کرنتھسؔ میں مسیحیوں کے نام اپنے پہلے خط میں، پولسؔ نے اتحاد کی ضرورت پر کیا روشنی ڈالی؟ (ب) چالچلن کے سلسلے میں کرنتھیوں کے نام پہلے خط میں مزید کیا روشنی پائی جاتی ہے؟
۱۴ پولسؔ نے بعض ایسے معاملات کی بابت لکھا جو کرنتھسؔ میں مسیحیوں کو پریشان کر رہے تھے۔ کرنتھیوں کے نام اُسکے خط میں بہت زیادہ الہامی مشورت شامل ہے جس نے آج کے دن تک مسیحیوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ شروع میں، اُسے کرنتھیوں کو اُس غلطی سے آگاہ کرنا پڑا تھا جو وہ بعض افراد کے گرد شخصی فرقوں کا حلقہ بنانے سے کر رہے تھے۔ رسول نے اُنہیں دلیری سے حکم دیتے ہوئے اُنکی اصلاح کی: ”اب اَے بھائیو! یسوؔع مسیح جو ہمارا خداوند ہے اُسکے نام کے وسیلہ سے مَیں تم سے التماس کرتا ہوں کہ سب ایک ہی بات کہو اور تم میں تفرقے نہ ہوں بلکہ باہم یکدل اور یکرای ہوکر کامل بنے رہو۔“—۱-کرنتھیوں ۱:۱۰-۱۵۔
۱۵ کرنتھسؔ میں مسیحی کلیسیا کے اندر سنگین بداخلاقی روا رکھی جا رہی تھی۔ وہاں ایک آدمی نے اپنے باپ کی بیوی کو رکھ لیا تھا، یوں ’ایسی حرامکاری جو غیرقوموں میں بھی نہیں ہوتی‘ کا ارتکاب کر رہا تھا۔ پولسؔ نے صاف صاف لکھا: ”پس اُس شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔“ (۱-کرنتھیوں ۵:۱، ۱۱-۱۳) خارج کرنا مسیحی کلیسیا کیلئے ایک نئی بات تھی۔ ایک اَور معاملہ جسکی بابت کرنتھیوں کی کلیسیا کو آگاہی کی ضرورت تھی اُسکا تعلق اِس حقیقت سے تھا کہ اُسکے بعض رُکن شکایات کا فیصلہ کرانے کی خاطر اپنے روحانی بھائیوں کو دُنیاوی عدالتوں میں لے جا رہے تھے۔ پولسؔ نے ایسا کرنے کیلئے اُنکی پُرزور مذمت کی۔—۱-کرنتھیوں ۶:۵-۸۔
۱۶ ابھی ایک اَور معاملہ جس نے کرنتھسؔ کی کلیسیا کو زِچ کر دیا اُسکا تعلق جنسی تعلقات سے تھا۔ ۱-کرنتھیوں ۷ باب میں، پولسؔ نے ظاہر کِیا کہ جنسی بداخلاقی کے عام ہونے کی وجہ سے، یہ اچھا ہوگا کہ ہر مرد اپنی بیوی رکھے اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے۔ پولسؔ نے یہ بھی ظاہر کِیا کہ اگرچہ بےبیاہے اشخاص کم انتشارِخیال کیساتھ یہوؔواہ کی خدمت کرنے کے قابل ہیں، لیکن سب بےبیاہا رہنے کی بخشش نہیں رکھتے۔ اگر ایک عورت کا شوہر مر جائے تو وہ دوبارہ شادی کرنے کے لئے آزاد ہوگی ”مگر صرف خداوند میں۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۳۹۔
۱۷. پولسؔ نے قیامت کی تعلیم پر کیا روشنی ڈالی؟
۱۷ خداوند نے پولسؔ کو قیامت پر روشنی کی کیا ہی کرنیں بکھیرنے کیلئے استعمال کِیا! ممسوح مسیحی کس قسم کے جسم کیساتھ زندہ کئے جائینگے؟ ”نفسانی جسم بویا جاتا ہے اور روحانی جسم جی اُٹھتا ہے،“ پولسؔ نے لکھا۔ کوئی گوشتین جسم آسمان پر نہیں لے جائے جائینگے، کیونکہ ”گوشت اور خون خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے۔“ پولسؔ نے اضافہ کِیا کہ تمام ممسوح مسیحی موت میں سوتے نہیں رہینگے بلکہ یسوؔع کی موجودگی کے دوران بعض کو موت کے وقت غیرفانی زندگی کیلئے عین اُسی وقت زندہ کر دیا جائیگا۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۳-۵۳۔
۱۸. تھسلنیکیوں کے نام پولسؔ کے پہلے خط میں مستقبل کے سلسلے میں کیا روشنی تھی؟
۱۸ تھسلنیکےؔ میں مسیحیوں کے نام اپنے خط میں پولسؔ کو مستقبل پر روشنی ڈالنے کیلئے استعمال کِیا گیا تھا۔ یہوؔواہ کا دن رات کو چور کی مانند آئیگا۔ پولسؔ نے یہ بھی وضاحت کی: ”جس وقت لوگ کہتے ہونگے کہ سلامتی اور امن ہے اُس وقت اُن پر اِس طرح ناگہاں ہلاکت آئیگی جس طرح حاملہ کو درد لگتے ہیں اور وہ ہرگز نہ بچینگے۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۲، ۳۔
۱۹، ۲۰. عبرانیوں کے نام پولسؔ کے خط میں یرؔوشلیم اور یہوؔدیہ کے مسیحیوں نے روشنی کی کونسی کرنیں پائیں؟
۱۹ عبرانیوں کے نام اپنا خط لکھتے ہوئے، پولسؔ نے یرؔوشلیم اور یہوؔدیہ میں قدیمی مسیحیوں پر روشنی کی کرنیں بکھیریں۔ اُس نے موسوی نظامِپرستش پر مسیحی نظامِپرستش کی برتری کو کیا ہی زوردار طریقے سے ظاہر کِیا! فرشتوں کی معرفت دی گئی شریعت کی پیروی کرنے کی بجائے، مسیحی نجات پر ایمان رکھتے ہیں جسکا خدا کے بیٹے نے پہلی بار ذکر کِیا، جو ایسے ملکوتی پیامبروں سے کہیں افضل ہے۔ (عبرانیوں ۲:۲-۴) موسیٰؔ خدا کے گھر میں محض ایک خادم تھا۔ تاہم، یسوؔع مسیح سارے گھر کا مختار ہے۔ مسیح ہارونی کہانت سے کہیں اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہوئے، ملکِصدؔق کی طرح کا سردار کاہن ہے۔ پولسؔ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اسرائیلی ایمان اور فرمانبرداری کی کمی کے سبب سے خدا کے آرام میں داخل ہونے کے ناقابل تھے، لیکن مسیحی اپنی ایمانداری اور فرمانبرداری کی بدولت اِس میں داخل ہوتے ہیں۔—عبرانیوں ۳:۱–۴:۱۱۔
۲۰ علاوہازیں، نیا عہد بھی شریعتی عہد سے کہیں افضل ہے۔ جیسے یرمیاہ ۳۱:۳۱-۳۴ میں ۶۰۰ سال پہلے پیشینگوئی کی گئی تھی، نئے عہد میں شامل لوگ خدا کی شریعت کو اپنے دلوں پر لکھا ہوا پاتے ہیں اور گناہوں کی حقیقی معافی کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ ایک ایسا سردار کاہن رکھنے کی بجائے جسے ہر سال اپنے ذاتی گناہوں اور اُمت کے گناہوں کیلئے قربانیاں گذراننی پڑتی تھیں، مسیحیوں کے پاس یسوؔع مسیح بطور اُنکے سردار کاہن کے موجود ہے، جو بےگناہ ہے اور جس نے ایک ہی بار ہمیشہ کیلئے گناہوں کیلئے قربانی گذرانی۔ اپنی قربانی پیش کرنے کیلئے ہاتھ کے بنائے ہوئے پاک مکان میں داخل ہونے کی بجائے، وہ آسمان ہی میں داخل ہو گیا، تاکہ وہاں یہوؔواہ کے حضور حاضر ہو۔ مزیدبرآں، موسوی شریعت کے تحت جانوروں کی قربانیاں مکمل طور پر گناہوں کو مٹا نہ سکیں، یا اُنہیں ہر سال پیش نہ کِیا گیا ہوتا۔ لیکن ایک ہی بار ہمیشہ کیلئے پیش کر دی جانے والی، مسیح کی قربانی، گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ یہ سب باتیں عظیم روحانی ہیکل پر روشنی بکھیرتی ہیں، جسکے صحنوں میں ممسوح بقیہ اور ”دوسری بھیڑیں“ آجکل خدمت کرتی ہیں۔—یوحنا ۱۰:۱۶، اینڈبلیو؛ عبرانیوں ۹:۲۴-۲۸۔
۲۱. رسولی زمانے میں زبور ۹۷:۱۱ اور امثال ۴:۱۸ کی تکمیل کے سلسلے میں اِس مباحثے نے کیا ظاہر کِیا ہے؟
۲۱ جگہ مزید مثالیں دینے کی اجازت نہیں دیتی، جیسے کہ روشنی کی وہ کرنیں جو پطرؔس رسول اور شاگرد یعقوؔب اور یہوؔداہ کے خطوط میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ظاہر کرنے کیلئے مذکورہبالا کافی ہونی چاہئیں کہ رسولی زمانے میں زبور ۹۷:۱۱ اور امثال ۴:۱۸ کو شاندار تکمیل حاصل ہوئی تھی۔ سچائی مثالوں اور نمونوں سے آگے بڑھکر تکمیل اور حقائق کی طرف ترقی کرنے لگی۔—گلتیوں ۳:۲۳-۲۵؛ ۴:۲۱-۲۶۔
۲۲. رسولوں کی موت کے بعد کیا واقع ہوا، اور اگلا مضمون کیا ظاہر کریگا؟
۲۲ یسوؔع کے رسولوں کی موت اور پیشازوقت بیانکردہ برگشتگی کے شروع ہونے کے بعد، سچائی کی روشنی بہت ہی مدھم رہی۔ (۲-تھسلنیکیوں ۲:۱-۱۱) تاہم، یسوؔع کے وعدہ کے مطابق، بہت صدیوں بعد مالک واپس لوٹا اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کو ”نوکرچاکروں“ کو وقت پر اُن کی خوراک دیتے پایا۔ نتیجتاً، یسوؔع نے اُس نوکر کو ”اپنے سارے مال پر مختار“ مقرر کر دیا۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) اِسکے بعد روشنی کی کونسی کرنیں ظاہر ہوئیں؟ اِس پر اگلے مضمون میں باتچیت ہوگی۔ (۲۰ ۵/۰۱ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a یہاں زمین سے مراد وہ ماحول ہے جس میں مسیحی شخصیتی اوصاف پیدا کرنے کا انتخاب کرتا ہے۔—دیکھیں دی واچٹاور، جون ۱۵، ۱۹۸۰، صفحات ۱۸-۱۹۔
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ بائبل کی کونسی آیات ظاہر کرتی ہیں کہ سچائی کی سمجھ بتدریج بڑھنے والی ہے؟
▫ اعمال کی کتاب میں روشنی کی بعض کونسی کرنوں کو ریکارڈ کِیا گیا ہے؟
▫ اناجیل میں کونسی روشنی پائی جاتی ہے؟
▫ پولسؔ کے خطوط میں روشنی کی کونسی کرنیں پائی جاتی ہیں؟