”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
7-13 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | اعمال 21، 22
”یہوواہ کی مرضی پوری ہو“
(اعمال 21:8-12) اگلے دن ہم روانہ ہوئے اور قیصریہ پہنچے۔ وہاں ہم فِلپّس کے گھر ٹھہرے جو خوشخبری سنانے کے لیے مشہور تھے اور اُن سات آدمیوں میں سے ایک تھے جنہیں رسولوں نے کھانا تقسیم کرنے کے لیے چُنا تھا۔ 9 اُن کی چار کنواری بیٹیاں تھیں جو خدا کا کلام سناتی تھیں۔ 10 جب ہمیں وہاں کافی دن ہو گئے تو اگبُس نبی یہودیہ سے آئے۔ 11 وہ ہم سے ملنے آئے اور اُنہوں نے پولُس سے اُن کا کمربند لے کر اپنے ہاتھ پیر باندھے اور کہا: ”پاک روح نے فرمایا ہے کہ ”یہ کمربند جس آدمی کا ہے، اُسے یروشلیم میں یہودی اِسی طرح سے باندھیں گے اور غیریہودیوں کے حوالے کریں گے۔““ 12 جب ہم نے اور وہاں موجود باقی شاگردوں نے یہ سنا تو ہم سب پولُس کی مِنتیں کرنے لگے کہ وہ یروشلیم نہ جائیں۔
بیٹی ص. 177، 178 پ. 15، 16
”یہوواہ کی مرضی پوری ہو“
جب پولُس فِلپّس کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے تو ایک اَور مُعزز مہمان بھی وہاں آئے جن کا نام اگبُس تھا۔ جو شاگرد فِلپّس کے گھر پر جمع تھے، وہ اگبُس کو ایک نبی مانتے تھے۔ اگبُس نے پیشگوئی کی تھی کہ پورے ملک میں ایک بڑا قحط پڑے گا اور کلودِیُس کے دَورِحکومت میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ (اعما 11:27، 28) شاید وہ لوگ سوچ رہے ہوں کہ ”اگبُس یہاں کیوں آئے ہیں؟ وہ کون سا پیغام لائے ہیں؟“ وہ بڑے دھیان سے اُن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر اگبُس نے پولُس کا کمر بند لیا جو کہ کپڑے کا بنا ہوا تھا اور جس میں پیسے اور چھوٹی موٹی چیزیں رکھی جا سکتی تھیں۔ اِس کے بعد اگبُس نے اُس کمربند سے اپنے ہاتھ پیر باندھے اور یہ سنجیدہ پیغام دیا: ”پاک روح نے فرمایا ہے کہ ”یہ کمربند جس آدمی کا ہے، اُسے یروشلیم میں یہودی اِسی طرح سے باندھیں گے اور غیریہودیوں کے حوالے کریں گے۔““—اعما 21:11۔
اِس پیشگوئی سے یہ بات پکی ہو گئی کہ پولُس یروشلیم جائیں گے۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ وہ یہودیوں سے جو باتچیت کریں گے، اُس کے نتیجے میں اُنہیں ”غیریہودیوں کے حوالے“ کر دیا جائے گا۔ اِس پیشگوئی کا فِلپّس کے گھر موجود شاگردوں پر گہرا اثر ہوا۔ لُوقا نے لکھا: ”جب ہم نے اور وہاں موجود باقی شاگردوں نے یہ سنا تو ہم سب پولُس کی مِنتیں کرنے لگے کہ وہ یروشلیم نہ جائیں۔ اِس پر پولُس نے کہا: ”آپ لوگ رو کیوں رہے ہیں اور میرا عزم کمزور کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ یقین کریں کہ مَیں یروشلیم جا کر مالک یسوع کے نام کی خاطر نہ صرف باندھے جانے بلکہ مرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔““—اعما 21:12، 13۔
(اعمال 21:13) اِس پر پولُس نے کہا: ”آپ لوگ رو کیوں رہے ہیں اور میرا عزم کمزور کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ یقین کریں کہ مَیں یروشلیم جا کر مالک یسوع کے نام کی خاطر نہ صرف باندھے جانے بلکہ مرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔“
بیٹی ص. 178 پ. 17
”یہوواہ کی مرضی پوری ہو“
ذرا اِس منظر کا تصور کریں۔ فِلپّس کے گھر موجود شاگرد جن میں لُوقا بھی شامل ہیں، پولُس کی منتیں کر رہے ہیں کہ وہ یروشلیم نہ جائیں۔ کچھ شاگرد تو رو رہے ہیں۔ پولُس نے اُن کی محبت اور فکر دیکھ کر بڑی شفقت سے کہا کہ وہ اُن کا ”عزم کمزور“ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا جیسا کہ کچھ اَور ترجموں میں کہا گیا، اُن کا ”دل توڑ“ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی پولُس اپنے عزم پر قائم ہیں۔ وہ اُن کی منتوں یا آنسوؤں کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ اُس وقت پیچھے نہیں ہٹے جب وہ صور میں بھائیوں سے ملے۔ اُنہوں نے وہاں موجود شاگردوں کو بتایا کہ اُن کا یروشلیم جانا کیوں ضروری ہے۔ پولُس نے واقعی بڑی دلیری اور ثابتقدمی کا مظاہرہ کِیا۔ یسوع مسیح کی طرح وہ بھی یروشلیم جانے کے اپنے عزم پر ڈٹے رہے۔ (عبر 12:2) یہ نہیں تھا کہ پولُس شہید ہونا چاہتے تھے لیکن اگر ایسا ہوتا بھی تو وہ یسوع مسیح کے پیروکار کے طور پر مرنے کو ایک اعزاز خیال کرتے۔
(اعمال 21:14) جب اُنہوں نے ہماری بات نہیں مانی تو ہم نے مزید اِصرار نہیں کِیا بلکہ کہا: ”یہوواہ کی مرضی پوری ہو۔“
بیٹی ص. 178 پ. 18
”یہوواہ کی مرضی پوری ہو“
پولُس کی بات پر وہاں موجود شاگردوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟ اُنہوں نے پولُس کے احساسات کا احترام کِیا۔ اعمال 21:14 میں لکھا ہے کہ ”جب اُنہوں نے ہماری بات نہیں مانی تو ہم نے مزید اِصرار نہیں کِیا بلکہ کہا: ”یہوواہ کی مرضی پوری ہو۔““ جن شاگردوں نے پولُس کو یروشلیم جانے سے روکنے کی کوشش کی، وہ اپنی بات پر اَڑے نہیں رہے۔ اُنہوں نے پولُس کی بات سنی اور مانی۔ وہ سمجھ گئے کہ یہوواہ کی مرضی کیا ہے اور اِسے قبول کر لیا حالانکہ یہ اُن کے لیے آسان نہیں تھا۔ پولُس ایک ایسے راستے پر چل رہے تھے جس کا انجام اُن کی موت کی صورت میں نکلنا تھا۔ اگر اُن سے پیار کرنے والے لوگ اُن کا ساتھ دیتے تو اُن کے لیے اِس راستے پر چلنا آسان ہو جاتا۔
پاک کلام سے سنہری باتیں
(اعمال 21:23، 24) لہٰذا وہی کریں جو ہم آپ کو بتا رہے ہیں: یہاں چار آدمی ہیں جنہوں نے ایک منت مانی ہے۔ 24 اِن آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں اور طہارت کی رسموں کے مطابق خود کو اُن کے ساتھ پاک کریں اور اُن کے اخراجات پورے کریں تاکہ وہ اپنے سر منڈوا سکیں۔ اِس طرح سب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ جو افواہیں آپ کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں، وہ جھوٹی ہیں اور آپ واقعی شریعت کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔
بیٹی ص. 184، 185 پ. 10-12
”مجھے اپنی صفائی پیش کرنے دیں“
پولُس نے اُن لوگوں کے احساسات کا احترام کِیا جنہیں کچھ یہودی روایتوں کی پابندی کرنا اچھا لگتا تھا جیسے کہ سبت کے دن کام نہ کرنا یا کھانے پینے کی کچھ چیزوں سے پرہیز کرنا۔ (روم 14:1-6) اُنہوں نے ختنے کے حوالے سے کوئی قانون نہیں بنائے تھے۔ پولُس نے تو تیمُتھیُس کا ختنہ بھی کرایا تاکہ یہودی اُن پر بھروسا کریں کیونکہ تیمُتھیُس کے ابو یونانی تھے۔ (اعما 16:3) ختنہ کرانا ہر کسی کا ذاتی معاملہ تھا۔ پولُس نے گلتیوں کو بتایا: ”نہ تو ختنہ کرانے کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی ختنہ نہ کرانے کی بلکہ صرف اُس ایمان کی اہمیت ہے جو محبت پر مبنی ہے۔“ (گل 5:6) لیکن اگر کوئی شخص شریعت کے تحت آنے کے لیے ختنہ کراتا یا یہ کہتا کہ یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ختنہ کرانا لازمی ہے تو اِس سے ظاہر ہوتا کہ اُس کا ایمان کمزور ہے۔
اگرچہ پولُس کے بارے میں پھیلائی گئی افواہیں بالکل جھوٹ تھیں مگر پھر بھی وہ مسیحی اِن کی وجہ سے پریشان تھے جو پہلے یہودی تھے۔ اِس لیے بزرگوں نے پولُس کو یہ ہدایت کی: ”یہاں چار آدمی ہیں جنہوں نے ایک منت مانی ہے۔ اِن آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں اور طہارت کی رسموں کے مطابق خود کو اُن کے ساتھ پاک کریں اور اُن کے اخراجات پورے کریں تاکہ وہ اپنے سر منڈوا سکیں۔ اِس طرح سب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ جو افواہیں آپ کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں، وہ جھوٹی ہیں اور آپ واقعی شریعت کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔“—اعما 21:23، 24۔
پولُس یہ اِعتراض کر سکتے تھے کہ اصل مسئلہ اُن کے بارے میں پھیلائی گئی افواہیں نہیں بلکہ موسیٰ کی شریعت کی پابندی کے سلسلے میں اُن مسیحیوں کا جوش ہے جو پہلے یہودی تھے۔ لیکن پولُس اُس وقت تک خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کو تیار تھے جب تک کہ اُنہیں خدا کے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا پڑتا۔ اِس واقعے سے پہلے اُنہوں نے لکھا تھا: ”جو لوگ موسیٰ کی شریعت کے تحت ہیں، اُن کی خاطر مَیں نے اِس شریعت پر عمل کِیا حالانکہ مَیں اِس شریعت کا پابند نہیں ہوں تاکہ اُن کو قائل کر سکوں جو اِس شریعت کے تحت ہیں۔“ (1-کُر 9:20) اِس موقعے پر اُنہوں نے یروشلیم کے بزرگوں کی ہدایت کو مانا اور ”شریعت پر عمل“ کِیا۔ ایسا کرنے سے اُنہوں نے ہمارے لیے یہ مثال قائم کی کہ ہم اپنی بات منوانے کی بجائے بزرگوں کے ساتھ تعاون کریں۔—عبر 13:17۔
(اعمال 22:16) اب آپ دیر کیوں کر رہے ہیں؟ اُٹھیں! بپتسمہ لیں اور یسوع کا نام لیں تاکہ آپ کے گُناہ معاف ہو جائیں۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں اعمال 22:16 پر اِضافی معلومات
یسوع کا نام لیں تاکہ آپ کے گُناہ معاف ہو جائیں: یا ”یسوع کا نام لیں اور آپ کے گُناہ معاف ہو جائیں گے۔“ ایک شخص کے گُناہ بپتسمے کے پانی سے نہیں بلکہ یسوع کا نام لینے سے معاف ہوتے ہیں۔ یسوع کا نام لینے میں اُن پر ایمان رکھنا اور اِس ایمان کو اپنے کاموں سے ظاہر کرنا شامل ہے۔—اعما 10:43؛ یعقو 2:14، 18۔
مسیحیوں کے طور پر زندگی
”یہوواہ نے ہمیں اپنے بچوں کی پرورش کرنی سکھائی“
بیٹی ص. 178 پ. 19 ”یہوواہ کی مرضی پوری ہو“
پولُس کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم ایک اہم سبق سیکھتے ہیں۔ ہم کبھی اُن بہن بھائیوں کو بےحوصلہ نہیں کرنا چاہتے جو خدا کی خدمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ہم نہ صرف اُس وقت اُنہیں بےحوصلہ نہیں کریں گے جب اُن کے سر پر موت کا خطرہ منڈلا رہا ہو بلکہ ہم بہت سی صورتحال میں ایسا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے والدین کو اُس وقت بہت مشکل لگتا ہے جب اُن کے بچے یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے دُوردراز علاقوں میں جاتے ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کو بےحوصلہ نہیں کرتے۔ برطانیہ میں رہنے والی فےلیس نے بتایا کہ جب اُن کی اِکلوتی بیٹی نے افریقہ میں مشنری کے طور پر خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا تو اُنہیں کیسا محسوس ہوا۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں دُکھی تھی۔ میرے لیے اِس بات کو قبول کرنا مشکل تھا کہ میری بیٹی مجھ سے اِتنی دُور ہوگی۔ مَیں افسردہ بھی تھی اور ساتھ ساتھ مجھے اپنی بیٹی پر فخر بھی تھا۔ مَیں نے اِس حوالے سے یہوواہ سے بہت دُعا کی۔ لیکن مَیں نے اپنی بیٹی کو فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کِیا کیونکہ مَیں نے ہی تو ہمیشہ اُسے یہ سکھایا تھا کہ وہ خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دے۔ وہ 30 سال سے دوسرے ملکوں میں یہوواہ کی خدمت کر رہی ہے اور مَیں ہر روز یہوواہ کا شکر کرتی ہوں کہ وہ اُس کی وفادار ہے۔“ یہ کتنی شاندار بات ہے کہ ہم اپنے اُن ہمایمانوں کا حوصلہ بڑھائیں جو یہوواہ کی خدمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں!
14-20 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | اعمال 23، 24
”فسادی ہونے اور بغاوت پر اُکسانے کا اِلزام“
(اعمال 23:12) جب صبح ہوئی تو کچھ یہودیوں نے پولُس کے خلاف سازش گھڑی۔ اُنہوں نے قسم کھائی کہ اگر وہ پولُس کو قتل کرنے سے پہلے کچھ کھائیں یا پئیں تو اُن پر خدا کی لعنت ہو۔
(اعمال 23:16) مگر پولُس کے بھانجے کو اِس سازش کا پتہ چل گیا اور اُس نے چھاؤنی میں جا کر اُن کو خبر دی۔
بیٹی ص. 191 پ. 5، 6
”ہمت نہ ہاریں!“
یسوع مسیح نے بالکل صحیح وقت پر پولُس کی حوصلہافزائی کی۔ اِس کے اگلے ہی دن 40 سے زیادہ یہودیوں نے ”پولُس کے خلاف سازش گھڑی۔ اُنہوں نے قسم کھائی کہ اگر وہ پولُس کو قتل کرنے سے پہلے کچھ کھائیں یا پئیں تو اُن پر خدا کی لعنت ہو۔“ اِس ”قسم“ سے ظاہر ہوا کہ اُنہوں نے پولُس کو قتل کرنے کا کتنا پکا اِرادہ کِیا تھا۔ اُن کا ماننا تھا کہ اگر وہ اپنے منصوبے کو پورا نہ کر پائے تو اُن پر خدا کی لعنت ہوگی یا اُن کے ساتھ کچھ بُرا ہوگا۔ (اعما 23:12-15) اُن کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ مزید پوچھگچھ کے بہانے پولُس کو عدالتِعظمیٰ میں واپس لائیں گے لیکن عدالت پہنچنے سے پہلے ہی اُن کا کام تمام کر دیں گے اور اعلیٰ کاہنوں اور بزرگوں نے اِس منصوبے کو انجام دینے کی اِجازت دے دی۔
لیکن پولُس کے بھانجے کو اِس سازش کا پتہ چل گیا اور اُس نے جا کر پولُس کو خبر دی۔ اِس پر پولُس نے اُسے رومی کمانڈر کلودِیُس لُوسیاس کے پاس بھیجا تاکہ وہ اُسے اِس سازش کے بارے میں بتائے۔ (اعما 23:16-22) بےشک یہوواہ ایسے نوجوانوں سے پیار کرتا ہے جو پولُس کے بھانجے کی طرح اپنی بھلائی سے زیادہ خدا کے بندوں کی بھلائی کے لیے دلیری سے کام کرتے ہیں اور وفاداری سے خدا کی بادشاہت کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
(اعمال 24:2) جب ترطِلُس کو بلایا گیا تو وہ یہ کہتے ہوئے پولُس پر اِلزام لگانے لگا: ”مُعزز فیلکس، آپ کی وجہ سے ہم بڑے امنوامان سے رہ رہے ہیں اور آپ کی دُوراندیشی کے باعث اِس قوم نے بڑی ترقی کی ہے۔
(اعمال 24:5، 6) ہم نے دیکھا ہے کہ یہ آدمی فسادی ہے کیونکہ یہ ساری دُنیا میں تمام یہودیوں کو بغاوت پر اُکسا رہا ہے۔ یہ ناصریوں کے فرقے کا ایک پیشوا ہے۔ 6 اَور تو اَور اِس نے ہیکل کو ناپاک کرنے کی کوشش بھی کی۔ اِسی لیے ہم نے اِسے پکڑ لیا۔
بیٹی ص. 192 پ. 10
”ہمت نہ ہاریں!“
قیصریہ میں پولُس کو ”ہیرودیس کے سرکاری محل میں پہرے میں رکھا“ گیا تاکہ یروشلیم سے اُن کے مخالفوں کے پہنچنے کا اِنتظار کِیا جا سکے۔ (اعما 23:35) آخر پانچ دن بعد کاہنِاعظم حننیاہ، ترطِلُس نامی ایک وکیل اور کچھ بزرگ قیصریہ آئے۔ ترطِلُس نے پہلے تو فیلکس کی بڑی تعریفیں کیں کہ وہ یہودیوں کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ فیلکس کی خوشامد کر رہا تھا اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اِس کے بعد اُس نے پولُس پر اِلزام لگاتے ہوئے کہا: ”یہ آدمی فسادی ہے کیونکہ یہ ساری دُنیا میں تمام یہودیوں کو بغاوت پر اُکسا رہا ہے۔ یہ ناصریوں کے فرقے کا ایک پیشوا ہے۔ اَور تو اَور اِس نے ہیکل کو ناپاک کرنے کی کوشش بھی کی۔ اِسی لیے ہم نے اِسے پکڑ لیا۔“ باقی یہودی بھی ”پولُس کے خلاف بولنے لگے اور ترطِلُس کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔“ (اعما 24:5، 6، 9) بغاوت پر اُکسانا، ایک خطرناک فرقے کی پیشوائی کرنا اور ہیکل کو ناپاک کرنا ایسے سنگین جرائم تھے جن کی سزا موت ہو سکتی تھی۔
(اعمال 24:10-21) جب حاکم نے پولُس کو بولنے کا اِشارہ کِیا تو اُنہوں نے کہا: ”مَیں جانتا ہوں کہ آپ بہت سالوں سے اِس قوم کے منصف ہیں۔ لہٰذا مَیں خود اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے تیار ہوں۔ 11 آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ ابھی 12 دن بھی نہیں ہوئے کہ مَیں عبادت کرنے کے لیے یروشلیم پہنچا 12 اور اِس دوران نہ تو مَیں نے ہیکل میں کسی سے بحث کی اور نہ ہی مَیں نے عبادتگاہوں یا شہر میں کسی کو بھڑکایا۔ 13 یہ لوگ مجھ پر جو اِلزامات لگا رہے ہیں، اُن کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔ 14 لیکن مَیں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ مَیں اُس دین کے مطابق جسے یہ لوگ فرقہ کہتے ہیں، اپنے باپدادا کے خدا کی خدمت کرتا ہوں کیونکہ مَیں اُن سب باتوں پر ایمان رکھتا ہوں جو شریعت اور نبیوں کے صحیفوں میں لکھی ہیں۔ 15 اور اِن آدمیوں کی طرح میرا بھی ایمان ہے کہ خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔ 16 اِس لیے مَیں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ خدا اور اِنسانوں کے سامنے میرا ضمیر صاف ہو۔ 17 مَیں کافی سالوں کے بعد یروشلیم آیا تاکہ اپنی قوم کو خیرات دوں اور خدا کے حضور قربانیاں چڑھاؤں۔ 18 جب مَیں یہ کام کر رہا تھا تو اِن لوگوں نے مجھے ہیکل میں دیکھا۔ مگر اُس وقت مَیں طہارت کی رسموں کے مطابق پاک ہو چُکا تھا اور نہ تو میرے ساتھ کوئی ہجوم تھا اور نہ ہی مَیں کوئی فساد برپا کر رہا تھا۔ لیکن صوبہ آسیہ کے کچھ یہودی وہاں تھے 19 جنہوں نے مجھ پر اِلزام لگایا۔ اگر اُن کو میرے خلاف کوئی شکایت ہے تو اُنہیں بھی یہاں موجود ہونا چاہیے تاکہ آپ کے سامنے مجھ پر اِلزام لگائیں۔ 20 یا پھر یہ آدمی جو یہاں موجود ہیں، بتائیں کہ جب مَیں عدالتِعظمیٰ کے سامنے پیش ہوا تھا تو میرا کیا جُرم نکلا تھا۔ 21 یہ مجھ پر صرف یہ اِلزام لگا سکتے ہیں کہ مَیں نے اِن کے سامنے کہا تھا کہ ”مجھ پر اِس لیے مُقدمہ چلایا جا رہا ہے کیونکہ مَیں مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتا ہوں۔““
بیٹی ص. 193، 194 پ. 13، 14
”ہمت نہ ہاریں!“
جب ہمیں یہوواہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے حاکموں کے سامنے پیش کِیا جاتا ہے یا ہم پر فساد برپا کرنے، دوسروں کو بغاوت پر اُکسانے یا کسی خطرناک فرقے کا رُکن ہونے کا اِلزام لگایا جاتا ہے تو ہم پولُس کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ پولُس نے ترطِلُس کی طرح فیلکس کی خوشامد نہیں کی۔ وہ پُرسکون رہے اور بڑے احترام سے حاکم سے بات کی۔ اُنہوں نے بڑی سمجھداری سے سچی اور واضح شہادت دی۔ پولُس نے کہا کہ ”صوبہ آسیہ کے . . . یہودی“ جنہوں نے اُن پر ہیکل کو ناپاک کرنے کا اِلزام لگایا تھا، وہاں موجود نہیں تھے اور قانونی طور پر اُنہیں حاکم کے سامنے پولُس پر اِلزام لگانے چاہئیں۔—اعما 24:18، 19۔
قابلِغور بات یہ ہے کہ پولُس اپنے عقیدوں کے بارے میں گواہی دینے سے نہیں ہچکچائے۔ اُنہوں نے دوبارہ سے بڑی دلیری سے بتایا کہ وہ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ وہی معاملہ تھا جس کی وجہ سے عدالتِعظمیٰ میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ (اعما 23:6-10) پولُس نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید پر زور کیوں دیا؟ کیونکہ پولُس یسوع مسیح اور اُن کے جی اُٹھنے کے بارے میں گواہی دے رہے تھے اور یہ ایک ایسی بات تھی جسے اُن کے مخالفین کبھی قبول نہ کرتے۔ (اعما 26:6-8، 22، 23) لہٰذا اصل مسئلہ مُردوں کے جی اُٹھنے اور خاص طور پر یسوع اور اُن کے جی اُٹھنے پر ایمان تھا۔ یہی مسئلہ یہودیوں اور پولُس کے درمیان اِختلاف کی بنیاد تھا۔
سنہری باتوں کی تلاش
(اعمال 23:6) پولُس جانتے تھے کہ وہاں صدوقی بھی موجود ہیں اور فریسی بھی۔ اِس لیے اُنہوں نے اُونچی آواز میں عدالتِعظمیٰ سے کہا: ”بھائیو، مَیں فریسی ہوں اور فریسیوں کی اولاد ہوں۔ مجھ پر اِس لیے مُقدمہ چلایا جا رہا ہے کیونکہ مَیں مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتا ہوں۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں اعمال 23:6 پر اِضافی معلومات
مَیں فریسی ہوں: وہاں موجود کچھ لوگ پولُس کو جانتے تھے۔ (اعما 22:5) عدالتِعظمیٰ کے فریسی یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ خود کو فریسیوں کی اولاد کہنے سے پولُس یہ تسلیم کر رہے تھے کہ ایک زمانے میں وہ بھی اُن کی طرح فریسی تھے حالانکہ اب وہ ایک سرگرم مسیحی بن چُکے تھے۔ لہٰذا پولُس اپنے بارے میں غلط معلومات نہیں دے رہے تھے۔ اِس سیاقوسباق میں پولُس نے ایک خاص وجہ سے خود کو فریسی کہا۔ اُنہوں نے ایک صدوقی کے طور پر اپنی پہچان نہیں کرائی بلکہ ایک فریسی کے طور پر کیونکہ وہ فریسیوں کی طرح مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے تھے۔ اِس طرح اُنہوں نے ایک ایسے عقیدے پر بات کی جس پر فریسی بھی ایمان رکھتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولُس کو یہ اُمید تھی کہ اِس موضوع کو چھیڑنے سے عدالتِعظمیٰ کے کچھ ارکان اُن کی باتوں سے متفق ہو جائیں گے اور اُن کا یہ حربہ کام کر گیا۔ (اعما 23:7-9) اعمال 23:6 میں پولُس نے جو بات کہی، وہ اُس بات سے بھی میل کھاتی ہے جو اُنہوں نے بعد میں بادشاہ اگرِپا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہی۔ (اعما 26:5) جب اُنہوں نے روم سے فِلپّی کے مسیحیوں کے نام خط لکھا تو اُس وقت بھی اُنہوں نے کہا کہ وہ ایک فریسی تھے۔ (فل 3:5) یہ بات بھی قابلِغور ہے کہ اعمال 15:5 میں اُن مسیحیوں کا حوالہ کیسے دیا گیا ہے جو پہلے فریسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
(اعمال 24:24) کچھ دن بعد فیلکس اپنی بیوی درُوسِلہ کے ساتھ آیا جو یہودی تھی۔ فیلکس نے پولُس کو بلوایا اور اُن سے مسیح یسوع کی تعلیمات کے بارے میں سنا۔
(اعمال 24:27) لیکن جب دو سال گزر گئے تو فیلکس کی جگہ پُرکیُس فیستُس حاکم بن گیا اور چونکہ فیلکس یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا اِس لیے اُس نے پولُس کو حراست میں رہنے دیا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں اعمال 24:24 پر اِضافی معلومات
درُوسِلہ: وہ اُس ہیرودیس کی تیسری اور سب سے چھوٹی بیٹی تھی جس کا ذکر اعمال 12:1 میں ہوا ہے یعنی ہیرودیس اگرِپا اوّل کی۔ درُوسِلہ تقریباً 38 عیسوی میں پیدا ہوئی اور وہ اگرِپا دوم اور برنیکے کی بہن تھی۔ (”ترجمہ نئی دُنیا“ میں الفاظ کی وضاحت میں ”ہیرودیس“ کو دیکھیں۔) حاکم فیلکس اُس کا دوسرا شوہر تھا۔ درُوسِلہ کی پہلی شادی سُوریہ کے ایک بادشاہ ایزائزس سے ہوئی تھی لیکن اُس نے اُسے طلاق دے کر تقریباً 54 عیسوی میں فیلکس سے شادی کر لی۔ اُس وقت درُوسِلہ کی عمر تقریباً 16 سال تھی۔ ممکن ہے کہ جب پولُس نے فیلکس کو ”نیکی، ضبطِنفس اور آنے والی عدالت کے بارے میں“ بتایا تو وہ بھی وہاں موجود تھی۔ (اعما 24:25) جب فیلکس کی جگہ فیستُس حاکم بنا تو فیلکس نے ”یہودیوں کی خوشنودی حاصل“ کرنے کے لیے پولُس کو حراست میں ہی رہنے دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اُس نے ایسا اپنی نوجوان بیوی کو خوش کرنے کے لیے کِیا جو یہودی تھی۔—اعما 24:27۔
21-27 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | اعمال 25، 26
”پولُس نے قیصر سے اپیل کی اور پھر بادشاہ ہیرودیس اگرِپا کو گواہی دی“
(اعمال 25:11) اگر مَیں نے واقعی کوئی غلط کام کِیا ہے یا کوئی ایسا جُرم کِیا ہے جس کی سزا موت ہے تو مَیں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن اگر اِن آدمیوں کے اِلزامات میں کوئی سچائی نہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ مجھے اِن کی خوشی کے لیے اِن کے حوالے کرے۔ مَیں قیصر سے اپیل کرتا ہوں!“
بیٹی ص. 198 پ. 6
”مَیں قیصر سے اپیل کرتا ہوں!“
اگر فیستُس یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے پولُس کو اُن کے حوالے کر دیتا تو پولُس کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔ اِس لیے پولُس نے رومی شہری کے طور پر اپنے ایک حق کو اِستعمال کِیا اور فیستُس سے کہا: ”مَیں قیصر کے تختِعدالت کے سامنے کھڑا ہوں۔ میرا مُقدمہ یہیں ہونا چاہیے۔ مَیں نے یہودیوں کے خلاف کچھ نہیں کِیا اور آپ کو بھی اِس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔ . . . مَیں قیصر سے اپیل کرتا ہوں!“ اگر کوئی شخص ایسی اپیل کرتا تو اِسے واپس نہیں لیا جا سکتا تھا۔ اِس لیے فیستُس نے اِس بات پر زور دیتے ہوئے کہا: ”تُم نے قیصر سے اپیل کی ہے؛ تُم قیصر کے پاس جاؤ گے۔“ (اعما 25:10-12) پولُس نے ایک اعلیٰ حکمران سے اپیل کرنے سے سچے مسیحیوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ جب یہوواہ کے گواہوں کے مخالفین ”قانون کی آڑ میں بدی“ گھڑتے ہیں تو وہ اپنے قانونی حقوق کو اِستعمال کرتے ہوئے خوشخبری کا دِفاع کرتے ہیں۔—زبور 94:20۔
(اعمال 26:1-3) اگرِپا نے پولُس سے کہا: ”تمہیں اپنی صفائی پیش کرنے کی اِجازت ہے۔“ پولُس نے ہاتھ سے اِشارہ کِیا اور کہا: 2 ”بادشاہ اگرِپا، مَیں بہت خوش ہوں کہ مجھے آپ کے سامنے اُن اِلزامات کی صفائی پیش کرنے کا موقع ملا ہے جو یہودیوں نے مجھ پر لگائے ہیں 3 کیونکہ آپ یہودیوں کی روایتوں اور اِختلافات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لہٰذا مَیں آپ سے اِلتجا کرتا ہوں کہ میری بات سنیں۔
بیٹی ص. 198-201 پ. 10-16
”مَیں قیصر سے اپیل کرتا ہوں!“
پولُس نے بڑے احترام سے بادشاہ اگرِپا کا شکریہ ادا کِیا کہ اُس نے اُنہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا۔ اُنہوں نے یہ تسلیم کِیا کہ بادشاہ یہودیوں کی روایتوں اور اِختلافات سے اچھی طرح واقف ہے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے اپنے ماضی کے بارے میں کہا کہ ”مَیں ایک فریسی تھا یعنی اُس فرقے سے تعلق رکھتا تھا جو ہمارے مذہب کی سختی سے پابندی کرتا ہے۔“ (اعما 26:5) جب پولُس ایک فریسی تھے تو وہ مسیح کے آنے کا اِنتظار کر رہے تھے۔ اب ایک مسیحی کے طور پر اُنہوں نے دلیری سے تسلیم کِیا کہ یسوع ہی وہ مسیح ہے جس کے آنے کا صدیوں سے اِنتظار کِیا جا رہا تھا۔ پولُس پر ایک ایسے عقیدے کی وجہ سے مُقدمہ چلایا جا رہا تھا جس پر وہ اور یہودی دونوں ایمان رکھتے تھے اور وہ عقیدہ یہ تھا کہ خدا کا وہ وعدہ پورا ہوگا جو اُس نے اُن کے باپدادا سے کِیا تھا۔ اِس وجہ سے اگرِپا پولُس کی باتوں میں اَور زیادہ دلچسپی لینے لگا۔
پولُس نے اُس ظالمانہ سلوک کو یاد کرتے ہوئے جو اُنہوں نے ماضی میں مسیحیوں کے ساتھ کِیا تھا، کہا: ”ایک زمانے میں میرا خیال تھا کہ مجھے ہر طرح سے یسوع ناصری کے نام کی مخالفت کرنی چاہیے۔ . . . مجھے اُن [یعنی مسیح کے پیروکاروں] پر اِتنا غصہ تھا کہ مَیں اُن کو اذیت پہنچانے کے لیے دوسرے شہروں میں بھی گیا۔“ (اعما 26:9-11) پولُس اپنے ماضی کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کر رہے تھے۔ بہت سے لوگ جانتے تھے کہ اُنہوں نے مسیحیوں پر کتنا ظلم ڈھایا تھا۔ (گل 1:13، 23) شاید اگرِپا نے سوچا ہو کہ ”ایک ایسے شخص میں اِتنی تبدیلی کیسے آ گئی؟“
اِس سوال کا جواب پولُس کے اگلے الفاظ سے ملتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”اِسی کام کے لیے مَیں دمشق جا رہا تھا کیونکہ اعلیٰ کاہنوں نے مجھے حکم اور اِختیار دیا تھا۔ لیکن بادشاہ سلامت، پھر راستے میں دوپہر کے وقت میرے اور میرے ساتھیوں کے اِردگِرد آسمان سے ایسی روشنی چمکی جو سورج کی روشنی سے بھی زیادہ تیز تھی۔ ہم سب زمین پر گِر گئے اور مجھے ایک آواز سنائی دی جس نے عبرانی زبان میں مجھ سے کہا: ”ساؤل، ساؤل، آپ مجھے اذیت کیوں پہنچا رہے ہیں؟ اگر آپ اُس لاٹھی کو ٹھوکر مارتے رہیں گے جس سے آپ کو ہانکا جا رہا ہے تو آپ کو نقصان ہوگا۔“ لیکن مَیں نے پوچھا: ”جناب، آپ کون ہیں؟“ اُس نے جواب دیا: ”مَیں یسوع ہوں جسے آپ اذیت پہنچا رہے ہیں۔“—اعما 26:12-15۔
اِس حیرتانگیز واقعے سے پہلے پولُس ایک لحاظ سے ’اُس لاٹھی کو ٹھوکر مار رہے تھے جس سے اُنہیں ہانکا جا رہا تھا۔‘ پولُس خدا کی مرضی کی مخالفت کرنے سے خود کو روحانی لحاظ سے زخمی کر رہے تھے۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے ایک گدھا اُس لاٹھی کے نوکدار سرے کو ٹھوکریں مار مار کر خود کو بِلاوجہ زخمی کر لیتا جس سے اُسے ہانکا جاتا۔ جب پولُس دمشق جا رہے تھے تو راستے میں یسوع اُن پر ظاہر ہوئے اور اُنہوں نے اِس صافدل مگر بھٹکے ہوئے شخص کی سوچ بدل دی۔—یوح 16:1، 2۔
پولُس نے واقعی اپنی زندگی میں بڑی تبدیلیاں کیں۔ اُنہوں نے اگرِپا سے کہا: ”مَیں نے اِس رُویا کو نظرانداز نہیں کِیا بلکہ مَیں نے پہلے تو دمشق میں اور پھر یروشلیم اور سارے یہودیہ میں اور دوسری قوموں میں بھی یہ پیغام سنایا کہ لوگوں کو توبہ کرنی چاہیے اور خدا کی طرف آنے کے لیے ایسے کام کرنے چاہئیں جن سے ثابت ہو کہ اُنہوں نے توبہ کر لی ہے۔“ (اعما 26:19، 20) پولُس کئی سالوں سے اُس حکم پر عمل کر رہے تھے جو یسوع مسیح نے اُنہیں رُویا میں دیا تھا۔ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ جن لوگوں نے اُس خوشخبری کو قبول کِیا جس کی پولُس مُنادی کر رہے تھے، اُنہوں نے اپنے بُرے کاموں اور چالچلن سے توبہ کر لی اور خدا کی طرف آ گئے۔ ایسے لوگ اچھے شہری بن گئے، ملک کے قوانین کی پابندی کرنے لگے اور اِن کا احترام کرنے لگے۔
لیکن پولُس کی مخالفت کرنے والے یہودیوں کی نظر میں اِن نتائج کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پولُس نے کہا: ”اِسی وجہ سے یہودیوں نے ہیکل میں مجھے پکڑ لیا اور قتل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مجھے خدا کی مدد حاصل ہے۔ اِس لیے مَیں آج تک چھوٹوں اور بڑوں سب کو اُن پیشگوئیوں کے بارے میں بتا رہا ہوں جو موسیٰ اور دوسرے نبیوں نے کی تھیں۔“—اعما 26:21، 22۔
سچے مسیحیوں کے طور پر ہمیں اُن لوگوں کو ”جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار“ رہنا چاہیے جو ہمارے عقیدوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ (1-پطر 3:15) جب ہم منصفوں اور حاکموں کے سامنے اپنے عقیدوں کے بارے میں بتاتے ہیں تو شاید ہم وہ طریقۂکار اپنا سکتے ہیں جو پولُس نے اگرِپا اور فیستُس سے بات کرتے ہوئے اپنایا۔ ہم بڑے احترام سے اُنہیں بتا سکتے ہیں کہ پاک کلام کی سچائیوں کے ذریعے ہماری زندگی کیسے بدلی اور اُن لوگوں کی زندگیاں کیسے بدل رہی ہیں جو ہمارے پیغام کو قبول کرتے ہیں۔ اِس طرح شاید ہم اِن اعلیٰ حکام کے دل کو چُھو لیں۔
(اعمال 26:28) تب اگرِپا نے کہا: ”تُم تو تھوڑی سی دیر میں مجھے مسیحی بننے پر قائل کر لو گے۔“
بیٹی ص. 202 پ. 18
”مَیں قیصر سے اپیل کرتا ہوں!“
پولُس نے فیستُس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ”مُعزز فیستُس، میرا دماغ خراب نہیں ہے بلکہ مَیں سچائی اور سمجھداری کی باتیں کر رہا ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس بادشاہ سے مَیں مخاطب ہوں، وہ اِن باتوں سے اچھی طرح واقف ہے . . . بادشاہ اگرِپا، کیا آپ نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں؟ مَیں جانتا ہوں کہ آپ ایمان رکھتے ہیں۔“ تب اگرِپا نے کہا: ”تُم تو تھوڑی سی دیر میں مجھے مسیحی بننے پر قائل کر لو گے۔““ (اعما 26:25-28) اگرِپا نے یہ بات دل سے کہی یا نہیں لیکن اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولُس نے اُسے جو گواہی دی، اُس کا اُس کے دل پر گہرا اثر ہوا۔
سنہری باتوں کی تلاش
(اعمال 26:14) ہم سب زمین پر گِر گئے اور مجھے ایک آواز سنائی دی جس نے عبرانی زبان میں مجھ سے کہا: ”ساؤل، ساؤل، آپ مجھے اذیت کیوں پہنچا رہے ہیں؟ اگر آپ اُس لاٹھی کو ٹھوکر مارتے رہیں گے جس سے آپ کو ہانکا جا رہا ہے تو آپ کو نقصان ہوگا۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں اعمال 26:14 پر اِضافی معلومات
لاٹھی کو ٹھوکر مارتے: اِس لاٹھی کو آنکڑا: آنکس یا پینا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نوکدار لاٹھی ہوتی ہے جس سے جانوروں کو ہانکا جاتا ہے۔ (قضا 3:31) جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”لاٹھی کو ٹھوکر مارنا“ کِیا گیا ہے، وہ یونانی ادب کی ایک کہاوت ہے۔ اِس کہاوت کے ذریعے ذہن میں ایک ایسے بیل کی تصویر اُبھرتی تھی جو آنکڑے کو ٹھوکریں مار مار کر خود کو نقصان پہنچاتا تھا۔ ساؤل نے بھی مسیحی بننے سے پہلے ایسا ہی کِیا تھا۔ یسوع کے پیروکاروں کے خلاف لڑنے سے جنہیں یہوواہ خدا کی حمایت حاصل تھی، پولُس خود کو شدید نقصان پہنچا رہے تھے۔ (اعمال 5:38، 39 پر غور کریں؛ 1-تیم 1:13، 14) واعظ 12:11 میں ”پینوں“ کا ذکر مجازی معنوں میں کِیا گیا ہے اور یہ ایک دانشمند شخص کی باتوں کی طرف اِشارہ کرتے ہیں جن سے کسی شخص کو اِصلاح قبول کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ میں الفاظ کی وضاحت
آنکڑا؛ آنکس (پینا)۔ ایک لمبی نوکدار لاٹھی جسے مویشیوں کو ہانکنے کے لیے اِستعمال کِیا جاتا ہے۔ کتابِمُقدس میں دانشمند شخص کی باتوں کو آنکڑے سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ اِن سے لوگوں کو صحیح کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ اِصطلاح ”لاٹھی کو ٹھوکر مارنا“ ہٹدھرم لوگوں کے لیے اِستعمال کی گئی ہے کیونکہ وہ ایک ایسے بیل کی طرح ہیں جو آنکڑے کو ٹھوکریں مار مار کر خود کو نقصان پہنچاتا ہے۔—اعما 26:14؛ قضا 3:31۔
(اعمال 26:27) بادشاہ اگرِپا، کیا آپ نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں؟ مَیں جانتا ہوں کہ آپ ایمان رکھتے ہیں۔“
بادشاہتی پیغام قبول کرنے میں دوسروں کی مدد کریں
پولس جانتا تھا کہ اگرپا ایک نامنہاد یہودی تھا۔ اگرپا کے یہودیت سے متعلق علم کو ملحوظِخاطر رکھتے ہوئے، پولس نے استدلال کِیا کہ درحقیقت اُسکی منادی ”اُن باتوں کے سوا کچھ نہیں . . . جنکی پیشینگوئی نبیوں اور موسیٰؔ نے بھی کی“ کہ مسیحا مریگا اور پھر جی اُٹھیگا۔ (اعمال 26:22، 23) پولس نے اگرپا سے براہِراست سوال کِیا: ”اَے اگرؔپا بادشاہ کیا تُو نبیوں کا یقین کرتا ہے؟“ اب اگرپا مشکل میں پڑ گیا۔ اگر وہ کہتا کہ وہ نبیوں کو نہیں مانتا تو یہودی کے طور پر اُسکی ساکھ مجروح ہوتی۔ لیکن اگر وہ پولس کے استدلال کی حمایت کرتا تو وہ دراصل سب کے سامنے رسول کیساتھ متفق ہو رہا ہوتا اور یوں مسیحی کہلانے کے خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ نہایت دانشمندی سے پولس خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: ”مَیں جانتا ہوں کہ تُو یقین کرتا ہے۔“ اگرپا کے دل نے اُسے کیا جواب دینے کی تحریک دی؟ اُس نے جواب دیا: ”تُو تو تھوڑی ہی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے۔“ (اعمال 26:27، 28) اگرچہ اگرپا مسیحی تو نہ بنا توبھی پولس نے واضح طور پر اپنے پیغام سے بڑی حد تک اُسکے دل کو متاثر کِیا تھا۔—عبرانیوں 4:12۔
28 جنوری–3 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | اعمال 27، 28
”پولُس جہاز پر روم کے لیے روانہ ہوئے“
(اعمال 27:23، 24) رات کو اُس خدا کا ایک فرشتہ میرے پاس آیا جس کی مَیں عبادت اور خدمت کرتا ہوں۔ 24 اُس نے مجھ سے کہا: ”پولُس، خوفزدہ نہ ہوں۔ آپ قیصر کے سامنے ضرور جائیں گے۔ اور دیکھیں، خدا آپ کی خاطر اُن لوگوں کو بچائے گا جو آپ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔“
بیٹی ص. 208 پ. 15
”کسی کی جان نہیں جائے گی“
غالباً پولُس نے جہاز میں بہت سے لوگوں کو اُس وعدے کے بارے میں گواہی دی ہوگی جو خدا نے کِیا تھا۔ (اعما 26:6؛ کُل 1:5) اب جبکہ ایسا لگ رہا تھا کہ جہاز تباہ ہو جائے گا تو پولُس اُنہیں خدا کے ایک اَور وعدے کے بارے میں بتا سکتے تھے جو پورا ہونے والا تھا اور یہ بھی کہ اِس وعدے پر یقین کیوں کِیا جا سکتا ہے۔ پولُس نے کہا: ”رات کو . . . خدا کا ایک فرشتہ میرے پاس آیا . . . اُس نے مجھ سے کہا: ”پولُس، خوفزدہ نہ ہوں۔ آپ قیصر کے سامنے ضرور جائیں گے۔ اور دیکھیں، خدا آپ کی خاطر اُن لوگوں کو بچائے گا جو آپ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔“ لہٰذا بھائیو، ہمت باندھیں! کیونکہ مجھے پورا یقین ہے کہ خدا کی بات ضرور پوری ہوگی۔ لیکن یہ طے ہے کہ ہمارا جہاز کسی جزیرے کے قریب غرق ہوگا۔““—اعما 27:23-26۔
(اعمال 28:1، 2) جب ہم خشکی پر پہنچے تو ہمیں پتہ چلا کہ اِس جزیرے کا نام مالٹا ہے۔ 2 وہاں کے باشندے ہمارے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آئے۔ اُنہوں نے آگ جلائی اور ہم سب کی خاطرتواضع کی کیونکہ بارش ہو رہی تھی اور بہت سردی تھی۔
بیٹی ص. 209 پ. 18
”کسی کی جان نہیں جائے گی“
جہاز کی تباہی سے بچ جانے والے لوگ مالٹا نامی جزیرے پر پہنچے جو سسلی کے جنوب میں ہے۔ جزیرے کے باشندے اُن کے ساتھ ”بڑی مہربانی سے پیش آئے۔“ (اعما 28:2) اُنہوں نے اُن اجنبیوں کے لیے آگ جلائی جو بھیگے ہوئے اور سردی سے کانپتے ہوئے اُن کے ساحل پر پہنچے تھے۔ اِس آگ کی وجہ سے اُن اجنبیوں کو سردی اور بارش کے باوجود گرمی کا احساس ہونے لگا۔ اِس کی وجہ سے ایک معجزہ بھی ہوا۔
بیٹی ص. 210 پ. 21
”کسی کی جان نہیں جائے گی“
اُس جزیرے پر پُبلیُس نامی ایک زمیندار رہتا تھا۔ شاید وہ مالٹا میں رومی فوج کا اہم افسر تھا۔ لُوقا نے اُسے ’جزیرے کا حاکم‘ کہا اور یہی بات مالٹا کی دو قدیم تحریروں سے بھی پتہ چلتی ہے۔ پُبلیُس نے تین دن تک پولُس اور اُن کے ساتھیوں کی مہماننوازی کی۔ لیکن اُس کا باپ بیمار تھا۔ لُوقا نے اُس کے باپ کی بیماری کی بالکل صحیح صحیح وضاحت کی۔ اُنہوں نے لکھا: ”اُسے بخار تھا اور پیچش لگے ہوئے تھے۔“ پولُس نے اُس کے پاس جا کر دُعا کی اور اُس پر ہاتھ رکھے اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ وہاں کے لوگ اِس معجزے کو دیکھ کر اِتنے متاثر ہوئے کہ وہ دوسرے بیماروں کو بھی پولُس کے پاس لانے لگے تاکہ وہ اُنہیں شفا دیں۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے پولُس اور اُن کے ساتھیوں کو ”بہت سی ایسی چیزوں سے لاد دیا جو سفر کے لیے ضروری تھیں۔“—اعما 28:7-10۔
(اعمال 28:16، 17) آخر جب ہم روم پہنچے تو پولُس کو ایک فوجی کی نگرانی میں کرائے کے مکان میں رہنے کی اِجازت مل گئی۔ 17 تین دن بعد پولُس نے یہودیوں کے رہنماؤں کو اپنے پاس بلوایا۔ جب وہ آ گئے تو پولُس نے اُن سے کہا: ”بھائیو، مَیں نے ہماری قوم اور ہمارے باپدادا کی روایتوں کے خلاف کچھ نہیں کِیا۔ پھر بھی مجھے یروشلیم میں گِرفتار کر کے رومیوں کے حوالے کر دیا گیا۔
بیٹی ص. 213 پ. 10
’پولُس نے اچھی طرح سے گواہی دی‘
جب پولُس اور اُن کے ساتھ سفر کرنے والے باقی لوگ روم پہنچے ”تو پولُس کو ایک فوجی کی نگرانی میں کرائے کے مکان میں رہنے کی اِجازت مل گئی۔“ (اعما 28:16) جس قیدی کی سزا زیادہ سخت نہیں ہوتی تھی، اُسے عموماً ایک زنجیر کے ذریعے اُس فوجی سے باندھا جاتا تھا جو اُس کی نگرانی کر رہا ہوتا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ سکے۔ لیکن یہ زنجیر پولُس کو خاموش نہ کرا سکی۔ وہ اِس کے باوجود بھی بادشاہت کی مُنادی کرتے رہے۔ روم پہنچنے کے تین دن بعد جب اُن کی تھکن اُتر گئی تو اُنہوں نے یہودیوں کے رہنماؤں کو اپنے پاس بلوایا تاکہ اُنہیں اپنے بارے میں بتا سکیں اور اُنہیں گواہی دے سکیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(اعمال 27:9) اِس دوران کافی وقت گزر چُکا تھا یہاں تک کہ یومِکفارہ کا روزہ بھی گزر چُکا تھا اور اب سمندری سفر جاری رکھنا خطرناک تھا۔ لہٰذا پولُس نے مشورہ دیا کہ
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں اعمال 27:9 پر اِضافی معلومات
یومِکفارہ کا روزہ: یا ”موسمِخزاں کا روزہ۔“ یونانی میں: ”روزہ۔“ جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”روزہ“ کِیا گیا ہے، وہ صرف اُس روزے کی طرف اِشارہ کرتی ہے جسے رکھنے کا حکم موسیٰ کی شریعت میں دیا گیا تھا یعنی اُس روزے کی طرف جو ہر سال یومِکفارہ پر رکھا جاتا تھا۔ اِسے یومِکپور (عبرانی لفظ، ”یوم ہاکپوریم“ یعنی ”[گُناہوں کو] ڈھانپنے کا دن“) بھی کہا جاتا ہے۔ (احبا 16:29-31؛ 23:26-32؛ گن 29:7؛ ”ترجمہ نئی دُنیا“ میں الفاظ کی وضاحت میں ”یومِکفارہ“ کو دیکھیں۔) کتابِمُقدس میں کفارے کے دن کے حوالے سے اِصطلاح ”اپنی جان کو دُکھ دینا“ اِستعمال ہوئی ہے جس کا مطلب عام طور پر فرق فرق طرح کا پرہیز سمجھا جاتا تھا جس میں روزہ رکھنا یعنی کھانے پینے سے پرہیز کرنا بھی شامل تھا۔ (احبا 16:29) اعمال 27:9 میں لفظ ”روزہ“ اِس خیال کی حمایت کرتا ہے کہ یومِکفارہ پر فرق فرق طرح کا پرہیز کرنے میں روزہ رکھنا بھی شامل تھا۔ یومِکفارہ ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے شروع میں ہوتا تھا۔
(اعمال 28:11) تین مہینے وہاں رہنے کے بعد ہم ایک جہاز پر سوار ہوئے جس پر زیوس کے بیٹوں کا نشان لگا تھا۔ یہ جہاز اِسکندریہ سے آیا تھا اور سردیاں کاٹنے کے لیے اِس جزیرے پر رُکا تھا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں اعمال 28:11 پر اِضافی معلومات
زیوس کے بیٹوں: یونانی اور رومی قصے کہانیوں کے مطابق ”زیوس کے بیٹوں“ (یونانی لفظ، ”دیسکوری“) کے نام کیسٹر اور پولکس تھے۔ وہ دونوں دیوتا زیوس (مشتری) اور ملکہ لیڈا کے جُڑواں بیٹے تھے۔ اُن کے بارے میں خیال کِیا جاتا تھا کہ وہ ملاحوں کو سمندر کے خطروں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جہاز کے نشان کے بارے میں یہ تفصیل اِس بات کا ایک اَور ثبوت ہے کہ اِس کتاب کو کسی ایسے شخص نے لکھا ہے جس نے تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔