’تُم پاک ہواسلئے کہ مَیں پاک ہوں‘
”تم پاک رہو کیونکہ مَیں . . . خداوند تمہارا خدا . . . پاک ہوں۔“—احبار ۱۹:۲۔
۱. بعض کونسے لوگ ہیں جنہیں دُنیا پاک خیال کرتی ہے؟
دُنیا کے بیشتر بڑے مذاہب میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں وہ پاک خیال کرتے ہیں۔ بھارؔت کی مشہورومعروف مدر ٹرؔیضا کو غریبوں کیلئے اُسکی خودایثارانہ محبت کی وجہ سے پاک خیال کِیا جاتا ہے۔ پوپ کو ”مُقدس باپ“ کہا جاتا ہے۔ جدید کیتھولک تحریک کے بانی اوپسؔ ڈائی، ہوزاماریا اسکریبا کو بعض کیتھولک، ”پاکیزگی کا نمونہ“ خیال کرتے ہیں۔ ہندومت کے اپنے سوامی یا سادھو ہوتے ہیں۔ گاؔندھی کی ایک پاک شخص کے طور تعظیم کی جاتی تھی۔ بدھمت کے اپنے مُقدس راہب ہیں۔ لیکن درحقیقت پاک ہونے کا کیا مطلب ہے؟
۲، ۳. (ا) لفظ ”پاک“ اور ”پاکیزگی“ کا کیا مطلب ہے؟ (ب) بعض سوال کیا ہیں جنکا جواب دینے کی ضرورت ہے؟
۲ لفظ ”پاک“ کی تشریح ”۱. . . . جس کا تعلق الہٰی قوت سے ہو؛ متبرک۔ ۲. جس کی پرستش یا تعظیم کی جاتی ہے یا اسکے لائق سمجھا جاتا ہے . . .۳. سخت یا اعلیٰ اخلاقی مذہب یا روحانی نظام کے مطابق زندگی بسر کرنا . . .۴. مذہبی مقصد کیلئے مخصوص یا الگ کر دیا گیا“ کے طور پر کی گئی ہے۔ بائبلی سیاقوسباق میں، پاکیزگی کا مطلب ”مذہبی صفائی یا اخلاص؛ تقدیس“ ہے۔ بائبل کی حوالہجاتی کتاب انسائٹ آن دی سکرپچرز کے مطابق، ”اصلی عبرانی [لفظ] کودھیش خدا کیلئے، علیٰحدگی، مخصوصیت، یا تقدیس کا خیال پیش کرتا ہے، . . . خدا کی خدمت کیلئے مخصوص کئے جانے کی حالت۔“a
۳ اسرائیلی قوم کو پاک ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ خدا کی شریعت نے بیان کِیا: ”مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ اسلئے اپنے آپکو مُقدس کرنا اور پاک ہونا کیونکہ مَیں قدوس ہوں۔“ پاکیزگی کا سرچشمہ کون تھا؟ ناکامل اسرائیلی کیسے پاک بن سکتے تھے؟ اور پاکیزگی کیلئے یہوؔواہ کے تقاضے سے ہم آجکل اپنے لئے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں؟—احبار ۱۱:۴۴۔
اؔسرائیل پاکیزگی کے سرچشمے سے کیسے وابستہ تھا
۴. اؔسرائیل میں یہوؔواہ کی پاکیزگی کی مثال کیسے پیش کی گئی ہے؟
۴ یہوؔواہ خدا کی پرستش سے وابستہ اؔسرائیل کی ہر چیز کو پاک خیال کِیا جانا تھا اور اس کیساتھ اسی طرح سے برتاؤ کرنا تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ اسلئےکہ یہوؔواہ خود پاکیزگی کا مبدا اور ماخذ ہے۔ مُقدس خیمۂاجتماع اور جُبّوں اور آرائش کی تیاری کے سلسلے میں موسیٰؔ کا بیان ان الفاظ کیساتھ ختم ہوا: ”خالص سونے کا ایک پتر بنا کر اُس پر انگشتری کے نقش کی طرح کندہ کرنا خداوند کیلئے مُقدس۔“ خالص سونے کا یہ پتر سردار کاہن کے عمامہ پر لگایا جاتا تھا، اور یہ اس چیز کی نشاندہی کرتا تھا کہ وہ خاص پاکیزہ خدمت کرنے کیلئے مخصوص کِیا گیا ہے۔ جب وہ اس کندہ نشان کو سورج کی روشنی میں چمکتا دیکھتے تو اسرائیلیوں کو باقاعدگی سے، یہوؔواہ کی پاکیزگی کی یاددہانی کرائی جاتی تھی۔—خروج ۲۸:۳۶؛ ۲۹:۶؛ ۳۹:۳۰۔
۵. ناکامل اسرائیلیوں کو کیسے پاک خیال کِیا جا سکتا تھا؟
۵ لیکن اسرائیلی کیسے پاک بن سکتے تھے؟ صرف یہوؔواہ کے ساتھ اپنے قریبی رشتے اور اُسکی پاک پرستش کے ذریعے۔ جسمانی اور روحانی صفائی کیساتھ، پاکیزگی کی حالت میں اُسکی پرستش کرنے کیلئے اُنہیں ”قدوس“ کے صحیح علم کی ضرورت تھی۔ (امثال ۲:۱-۶؛ ۹:۱۰) پس اسرائیلیوں کو خدا کی پرستش خالص محرک اور خالص دل کیساتھ کرنی تھی۔ پرستش کی کوئی بھی ریاکارانہ قسم یہوؔواہ کی نظر میں سخت نفرتانگیز ہوگی۔—امثال ۲۱:۲۷۔
یہوؔواہ نے اؔسرائیل کو کیوں ملامت کی
۶. ملاکیؔ کے زمانے کے یہودیوں نے یہوؔواہ کے دسترخوان کیساتھ کیسا برتاؤ کِیا تھا؟
۶ اس کی واضح مثال اُس وقت سے ملتی ہے جب اسرائیلی بیدلی کیساتھ ہیکل میں گھٹیا، ناقص قربانیاں لا رہے تھے۔ اپنے نبی ملاکیؔ کی معرفت یہوؔواہ نے اُنکی گھٹیا قربانیوں کو رَد کر دیا: ”ربُالافواج فرماتا ہے مَیں تُم سے خوش نہیں ہوں اور تمہارے ہاتھ کا ہدیہ ہرگز قبول نہ کرونگا۔ . . . لیکن تُم اس بات میں اُسکی توہین کرتے ہو کہ تُم کہتے ہو خداوند کی میز پر کیا ہے! اُس پر کے ہدیے بےحقیقت ہیں۔ اور تُم نے کہا یہ کیسی زحمت ہے! اور اُس پر ناک چڑھائی ربُالافواج فرماتا ہے۔ پھر تُم لُوٹ کا مال اور لنگڑے اور بیمار ذبیحے لائے اور اسی طرح کے ہدئے گذرانے۔ کیا مَیں اُن کو تمہارے ہاتھ سے قبول کروں؟ خداوند فرماتا ہے۔“—ملاکی ۱:۱۰، ۱۲، ۱۳۔
۷. پانچویں صدی ق.س.ع. میں یہودی کونسے ناپاک کام کر رہے تھے؟
۷ ملاکیؔ کو غالباً پانچویں صدی ق.س.ع. کے دوران، یہودیوں کے غلط کاموں کی مذمت کرنے کیلئے خدا نے استعمال کِیا تھا۔ کاہن غلط نمونہ قائم کر رہے تھے، اور اُنکا چالچلن کسی بھی طرح پاک نہیں تھا۔ اس پیشوائی کی پیروی کرنے والے لوگ، اپنے اصولوں پر قائم نہیں تھے، یہانتککہ اپنی بیویوں کو بھی طلاق دے رہے تھے، غالباً اسلئے تاکہ وہ نوجوان غیرقوم بیویاں رکھ سکیں۔ ملاکیؔ نے لکھا: ”خداوند تیرے اور تیری جوانی کی بیوی کے درمیان گواہ ہے۔ تُو نے اُس سے بیوفائی کی ہے،b اگرچہ وہ تیری رفیق اور منکوحہ بیوی ہے۔ . . . پس تُم اپنے نفس سے خبردار رہو اور کوئی اپنی جوانی کی بیوی سے بیوفائی نہ کرے۔ کیونکہ خداوند اؔسرائیل کا خدا فرماتا ہے مَیں طلاق سے بیزار ہوں۔“—ملاکی ۲:۱۴-۱۶۔
۸. طلاق کی بابت جدید نظریے سے مسیحی کلیسیا میں بعض لوگ کیسے متاثر ہوئے ہیں؟
۸ جدید زمانے میں، بہت سے ممالک کے اندر، جہاں طلاق آسانی سے مل جاتی ہے، طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ حتیٰکہ مسیحی کلیسیا بھی متاثر ہوئی ہے۔ مشکلات پر قابو پانے اور اپنی شادی کو کامیاب بنانے کی کوشش میں بزرگوں کی مدد حاصل کرنے کی بجائے، بعض نے اسے بہت جلد توڑ دیا ہے۔ اکثر بچوں کو بھاری جذباتی نقصان اُٹھانے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔—متی ۱۹:۸، ۹۔
۹، ۱۰. ہمیں یہوؔواہ کیلئے اپنی پرستش پر کیسے غوروفکر کرنا چاہئے؟
۹ جیسےکہ ہم نے پہلے غور کِیا، ملاکیؔ کے زمانے کی شرمناک روحانی حالت کے پیشِنظر، یہوؔواہ نے یہوؔداہ کی سطحی پرستش کی واضح طور پر مذمت کی اور ظاہر کِیا کہ وہ صرف خالص پرستش ہی قبول کریگا۔ کیا اسے ہمارے کائنات کے حاکمِاعلیٰ، حقیقی پاکیزگی کے ماخذ یہوؔواہ خدا کی پرستش کرنے کے اپنے معیار پر غور کرنے کا باعث نہیں بننا چاہئے؟ کیا ہم واقعی خدا کے حضور پاک خدمت سرانجام دے رہے ہیں؟ کیا ہم خود کو روحانی طور پر پاکصاف حالت میں رکھتے ہیں؟
۱۰ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں کامل ہونا چاہئے، جوکہ ناممکن ہے، یا یہ کہ ہمیں دوسروں کیساتھ اپنا موازنہ کرنا چاہئے۔ بلکہ اسکا مطلب یہ ضرور ہے کہ ہر مسیحی کو خدا کی ایسی پرستش کرنی چاہئے جو اُس مرد یا عورت کے انفرادی حالات کے مطابق ہے۔ یہ ہمارے پرستش کے معیار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہماری مُقدس خدمت ہماری طرف سے بہترین—پاک خدمت ہونی چاہئے۔ اسے کیسے سرانجام دیا جاتا ہے؟—لوقا ۱۶:۱۰؛ گلتیوں ۶:۳، ۴۔
پاک دل پاک پرستش کا باعث بنتے ہیں
۱۱، ۱۲. ناپاک چالچلن کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟
۱۱ یسوؔع نے صاف طور پر سکھایا کہ جوکچھ دل میں ہے وہ ایک شخص کے قولوفعل سے ظاہر ہو جائیگا۔ یسوؔع نے خود کو راست ٹھہرانے والے لیکن ناپاک فریسیوں سے کہا تھا: ”اَے سانپ کے بچو تُم بُرے ہوکر کیونکر اچھی باتیں کہہ سکتے ہو؟ کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔“ بعدازاں اُس نے ظاہر کِیا کہ بُرے افعال دل کے بُرے خیالات، یا باطنی شخصیت سے نکلتے ہیں۔ اُس نے فرمایا: ”جو باتیں مُنہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں اور وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ بُرے خیال۔ خونریزیاں۔ زناکاریاں۔ حرامکاریاں۔ چوریاں۔ جھوٹی گواہیاں۔ بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔“—متی ۱۲:۳۴؛ ۱۵:۱۸-۲۰۔
۱۲ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ناپاک افعال محض برجستہ یا پیشگی بنیاد کے بغیر نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اُن ناپاک خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں جو دل میں چھپے ہوتے ہیں—پوشیدہ خواہشات اور شاید محض تصورات۔ اسی وجہ سے یسوؔع کہہ سکتا تھا: ”تُم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنانہ کرنا۔ لیکن مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زنا کر چکا۔“ باالفاظِدیگر، زناکاری اور حرامکاری کسی فعل کے سرزد ہونے سے پہلے ہی دل میں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ اسکے بعد، موزوں موقع لگنے پر، ناپاک خیالات ناپاک طرزِعمل بن جاتے ہیں۔ زناکاری، حرامکاری، سدومت، چوری، بدگوئیاں، اور برگشتگی اسکے چند ایک نمایاں نتائج ہوتے ہیں۔—متی ۵:۲۷، ۲۸؛ گلتیوں ۵:۱۹-۲۱۔
۱۳. ناپاک خیالات کیسے ناپاک کاموں کا سبب بنتے ہیں اسکی چند ایک مثالیں کیا ہیں؟
۱۳ اس کی مثال مختلف طریقوں سے دی جا سکتی ہے۔ بعض ممالک میں، جوأ کھیلنے کے موقع میں اضافہ کرتے ہوئے، جوأخانے کھمبیوں کی طرح بڑھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے مالی مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں اس جعلی حل کی طرف رُجوع کرے۔ ہو سکتا ہے کہ پُرفریب استدلال ایک بھائی کو اپنے بائبل اصولوں کو نظرانداز کرنے یا اُنکی پُرفریب توجیہ کرنے پر اُکسائے۔c ایک اَور مثال، خواہ ٹیوی، ویڈیوز، کمپیوٹرز، یا کتابوں کے ذریعے فحاشی تک آسان رسائی ایک مسیحی کو ناپاک چالچلن کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اُسے محض اپنے روحانی بکتربند سے غافل ہونے کی ضرورت ہے، اور اس سے پہلے کہ اُسے خبر ہو، وہ بداخلاقی میں پڑ چکا ہوتا ہے۔ لیکن بیشتر حالتوں میں گناہ کا حملہ اچانک دماغ پر ہوتا ہے۔ جیہاں، اس طرح کی حالتوں میں، یعقوؔب کے الفاظ تکمیل پاتے ہیں: ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے۔“—یعقوب ۱:۱۴، ۱۵؛ افسیوں ۶:۱۱-۱۸۔
۱۴. بہتیروں نے اپنے ناپاک چالچلن سے کیسے صحتیابی حاصل کی ہے؟
۱۴ خوشی کی بات ہے، بہت سے مسیحی جو کمزوری کے باعث گناہ کرتے ہیں، سچی توبہ ظاہر کرتے ہیں اور بزرگ ایسے اشخاص کو روحانی طور پر بحال کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حتیٰکہ بہتیرے جو توبہ کی کمی کے باعث خارج کر دئیے جاتے ہیں بالآخر اُنہیں احساس ہو جاتا ہے اور کلیسیا میں دوبارہ بحال کر دیئے جاتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جب اُنہوں نے ناپاک خیالات کو اپنے دل میں جڑ پکڑنے کی اجازت دی تو کتنی آسانی سے شیطان نے اُن پر غلبہ پا لیا تھا۔—گلتیوں ۶:۱؛ ۲-تیمتھیس ۲:۲۴-۲۶؛ ۱-پطرس ۵:۸، ۹۔
اپنی کمزوریوں کا سامنا کرنے کا—چیلنج
۱۵. (ا) ہمیں اپنی کمزوریوں کا سامنا کیوں کرنا چاہئے؟ (ب) کیا چیز ہمیں اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟
۱۵ ہمیں اپنے دل کو خود غیرجانبداری کے ساتھ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا ہم اپنی کمزوریوں کا سامنا کرنے، اُنہیں تسلیم کرنے اور پھر اُن پر غالب آنے کی کوشش کرنے کیلئے تیار ہیں؟ کیا ہم کسی مخلص دوست سے یہ پوچھنے کیلئے آمادہ ہیں کہ ہم کیسے بہتری پیدا کر سکتے ہیں، اور پھر مشورت پر دھیان دیتے ہیں؟ پاک رہنے کیلئے ہمیں اپنی کوتاہیوں پر قابو پانا چاہئے۔ کیوں؟ اسلئےکہ شیطان ہماری کمزوریوں سے واقف ہے۔ وہ ہمیں گناہ اور ناپاک چالچلن پر اُکسانے کیلئے اپنے خفیہ ہتھکنڈے استعمال کریگا۔ اپنے عیارانہ کاموں سے، وہ ہمیں خدا کی محبت سے جُدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ہم پھر یہوؔواہ کی پرستش کیلئے پاک اور کارآمد نہ رہیں۔—یرمیاہ ۱۷:۹؛ افسیوں ۶:۱۱؛ یعقوب ۱:۱۹۔
۱۶. پولسؔ کو کونسی لڑائی درپیش تھی؟
۱۶ پولسؔ رسول کی اپنی مشکلات اور آزمائشیں تھیں، جیسےکہ اُس نے رومیوں کے نام اپنے خط میں تصدیق کی: ”مَیں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔ . . . کیونکہ باطنی انسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔“—رومیوں ۷:۱۸-۲۳۔
۱۷. کمزوریوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں پولسؔ کیسے کامیاب رہا تھا؟
۱۷ اب پولسؔ کے معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ اُس نے اپنی کمزوریوں کو تسلیم کِیا۔ اُن کے باوجود وہ کہہ سکتا تھا: ”باطنی [روحانی] انسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔“ پولسؔ نے نیکی سے محبت اور بدی سے نفرت کی تھی۔ لیکن اسکے باوجود اُسے لڑائی لڑنی تھی، وہی لڑائی جو ہم سب کو درپیش ہے—شیطان، دُنیا اور جسم کے خلاف۔ لہٰذا پاک، دُنیا اور اسکی سوچ سے الگ رہنے کیلئے، ہم کیسے اس لڑائی کو جیت سکتے ہیں؟—۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ افسیوں ۶:۱۲۔
ہم کیسے پاک رہ سکتے ہیں؟
۱۸. ہم کیسے پاک رہ سکتے ہیں؟
۱۸ پاکیزگی سہل طرزِعمل اختیار کرنے یا تنپرور بننے سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس قسم کا شخص ہمیشہ اپنے چالچلن کیلئے عذر تلاش کریگا اور الزام کسی اَور پر لگانے کی کوشش کریگا۔ شاید ہمیں اپنے افعال کیلئے ذمہدار بننے کی بابت سیکھنے کی ضرورت ہے اور بعض ایسے لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ الزام دیتے ہیں کہ خاندانی پسمنظر یا موروثی خصائل کی وجہ سے اُنکے افعال کا تعیّن کرتے ہیں۔ معاملے کا بنیادی سبب کسی شخص کے دل میں ہے۔ کیا وہ مرد یا عورت راستبازی سے محبت رکھتا ہے؟ پاکیزگی کا متمنی ہے؟ خدا کی برکت کا خواہاں ہے؟ زبورنویس نے پاکیزگی کی ضرورت کو واضح کِیا جب اُس نے کہا: ”بدی کو چھوڑ اور نیکی کر۔ صلح کا طالب ہو اور اُسی کی پیروی کر۔“ پولسؔ رسول نے لکھا: ”محبت بےریا ہو۔ بدی سے نفرت رکھو۔ نیکی سے لپٹے رہو۔“—زبور ۳۴:۱۴؛ ۹۷:۱۰؛ رومیوں ۱۲:۹۔
۱۹، ۲۰. (ا) ہم کیسے اپنی عقل کو بڑھا سکتے ہیں؟ (ب) مؤثر ذاتی مطالعہ کیا انجام دیتا ہے؟
۱۹ اگر ہم معاملات کو یہوؔواہ کے نقطۂنظر سے دیکھتے اور ہم میں مسیح کی عقل ہے تو ہم ”نیکی سے لپٹے“ رہ سکتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۶) یہ کیسے سرانجام دیا جاتا ہے؟ خدا کے کلام کا باقاعدہ مطالعہ کرنے اور اس پر غوروخوض کرنے سے۔ کتنی مرتبہ یہ نصیحت کی گئی ہے! لیکن کیا ہم اسے کافی سنجیدہ خیال کرتے ہیں؟ مثال کے طور پر، کیا آپ اجلاس پر آنے سے پہلے بائبل حوالہجات کی جانچپڑتال کرتے ہوئے، اس رسالے کا واقعی مطالعہ کرتے ہیں؟ مطالعے سے ہمارا مطلب ہر پیراگراف میں چند سطور کو خطکشیدہ کرنا نہیں ہے۔ تقریباً ۱۵ منٹ میں مطالعے کے ایک مضمون کا سرسری سا جائزہ لیا جا سکتا اور خطکشیدہ کِیا جا سکتا ہے۔ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ ہم نے مضمون کا مطالعہ کر لیا ہے؟ دراصل، مطالعہ کرنے اور اور ہر مضمون میں پیشکردہ روحانی فائدے کو حاصل کرنے کیلئے ایک یا دو گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
۲۰ شاید ہمیں ہر ہفتے ٹیوی سے چند گھنٹے بچانے اور اپنی ذاتی پاکیزگی پر توجہ دینے کیلئے واقعی اپنی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا باقاعدہ مطالعہ ذہن کو صحیح فیصلے کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے—فیصلے جو ”پاک چالچلن“ کا باعث بنتے ہیں، ہمیں روحانی طور پر ترقی بخشتا ہے۔—۲-پطرس ۳:۱۱؛ افسیوں ۴:۲۳؛ ۵:۱۵، ۱۶۔
۲۱. کس سوال کا جواب دینا ابھی باقی ہے؟
۲۱ اب سوال یہ ہے، بطور مسیحیوں کے ہم کارگزاری اور چالچلن کے مزید کن حلقوں میں پاک رہ سکتے ہیں، جیسےکہ یہوؔواہ بھی پاک ہے؟ اگلا مضمون غوروفکر کا حامل مواد پیش کریگا۔ (۱۰ ۰۸/۰۱ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a دو جلدوں پر مشتمل یہ حوالہجاتی کتاب واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی مطبوعہ ہے۔
b ”بیوفائی“ سے کیا مُراد ہے اس پر اور زیادہ مفصل غوروفکر کیلئے دیکھیں جاگو! فروری ۸، ۱۹۹۴، صفحہ ۲۱ (انگریزی)، ”خدا کس قسم کی طلاق سے نفرت کرتا ہے؟“
c جوئےبازی کیوں ناپاک چالچلن ہے، اس پر مزید معلومات کیلئے واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کا مطبوعہ جاگو! (انگریزی) برائے اگست ۸، ۱۹۹۴، صفحہ ۱۴-۱۵ کو دیکھیں۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
▫ اؔسرائیل میں پاکیزگی کے ماخذ کی شناخت کیسے کرائی گئی تھی؟
▫ ملاکیؔکے زمانے میں اؔسرائیل کی پرستش کن طریقوں سے ناپاک تھی؟
▫ ناپاک چالچلن کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟
▫ پاک رہنے کیلئے، ہمیں کیا تسلیم کرنا چاہئے؟
▫ ہم کیسے پاک رہ سکتے ہیں؟