یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م‌زخ‌ح19 فروری ص.‏ 1-‏7
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2019ء)‏
  • ذیلی عنوان
  • 4-‏10 فروری
  • پاک کلام سے سنہری باتیں | رومیوں 1-‏3
  • ‏”‏اپنے ضمیر کی تربیت کرتے رہیں“‏
  • 11-‏17 فروری
  • سنہری باتوں کی تلاش
  • 18-‏24 فروری
  • م12 1/‏3 ص.‏ 25 پ.‏ 11
  • اپنی اُمید کو زندہ رکھیں
  • سنہری باتوں کی تلاش
  • 25 فروری–‏3 مارچ
  • سنہری باتوں کی تلاش
‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2019ء)‏
م‌زخ‌ح19 فروری ص.‏ 1-‏7

‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

4-‏10 فروری

پاک کلام سے سنہری باتیں | رومیوں 1-‏3

‏”‏اپنے ضمیر کی تربیت کرتے رہیں“‏

‏(‏رومیوں 2:‏14، 15‏)‏ کیونکہ جب غیریہودی جن کے پاس شریعت نہیں ہے، فطری طور پر شریعت پر عمل کرتے ہیں تو وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اُن میں ایک طرح کی شریعت ہے حالانکہ اصل میں اُن کے پاس شریعت نہیں ہے۔ 15 یہی لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ شریعت اُن کے دلوں پر نقش ہے اور اُن کا ضمیر اُن کے ساتھ گواہی دیتا ہے اور اُن کے اپنے خیال اُن کو قصوروار یا بے‌قصور ٹھہراتے ہیں۔‏

خدا کی محبت ص.‏ 16 پ.‏ 6

آپ صاف ضمیر کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

کیا ضمیر ایک ایسی بخشش ہے جو صرف خدا کے خادموں کو عطا کی گئی ہے؟ پولس رسول نے خدا کے الہام سے لکھا:‏ ”‏جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شریعت نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چُنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اور اُن کا دل بھی اُن باتوں کی گواہی دیتا ہے اور اُن کے باہمی خیالات یا تو اُن پر الزام لگاتے ہیں یا اُن کو معذور رکھتے ہیں۔“‏ (‏رومیوں 2:‏14، 15‏)‏ جو لوگ خدا کے قوانین سے واقف نہیں ہیں، وہ بھی اپنے ضمیر کی بدولت کبھی‌کبھار ایسے کام کرتے ہیں جن سے خدا خوش ہے۔‏

‏(‏رومیوں 2:‏15‏)‏ یہی لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ شریعت اُن کے دلوں پر نقش ہے اور اُن کا ضمیر اُن کے ساتھ گواہی دیتا ہے اور اُن کے اپنے خیال اُن کو قصوروار یا بے‌قصور ٹھہراتے ہیں۔‏

خدا کی محبت ص.‏ 17 پ.‏ 8، 9

آپ صاف ضمیر کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

ہم کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت اپنے ضمیر کو کیسے کام میں لا سکتے ہیں؟ کچھ لوگ وہی کرتے ہیں جو اُن کا دل چاہتا ہے اور جو اُنہیں صحیح لگتا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ”‏میرا دل صاف ہے۔“‏ لیکن کبھی‌کبھار ہمارے دل میں ایسی خواہشات اُبھرتی ہیں جو ہمارے ضمیر پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟“‏ (‏یرمیاہ 17:‏9‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا دل ہمیں گمراہ کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اِس بات کو اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ ہمارا دل کیا چاہتا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ خدا کی مرضی جان لینی چاہئے۔‏

اگر ہم خدا کے کلام کی بِنا پر اپنے ضمیر کی تربیت کرتے ہیں تو ہمارے فیصلوں سے ظاہر ہوگا کہ ہم خدا کا خوف رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ نحمیاہ یروشلیم کا حاکم تھا اور اِس لئے وہ یروشلیم کے لوگوں سے اُجرت لے سکتا تھا۔ لیکن اُس نے ایسا نہ کِیا کیونکہ وہ خدا کی قوم پر بوجھ ڈال کر خدا کی خوشنودی نہیں کھونا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے خدا کے خوف کے سبب سے ایسا نہ کِیا۔“‏ (‏نحمیاہ 5:‏15‏)‏ خدا کا خوف رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُسے ناراض کرنے سے ڈریں۔ اگر ہم ایسا خوف رکھتے ہیں تو ہم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے خدا کے کلام کی راہنمائی حاصل کریں گے۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏رومیوں 3:‏4‏)‏ ہرگز نہیں!‏ بلکہ خدا ہمیشہ سچا ثابت ہو، چاہے باقی سب جھوٹے ثابت ہوں جیسا کہ لکھا ہے:‏ ”‏تُو اپنی ساری باتوں سے نیک ثابت ہو اور جب تجھ پر اِلزام لگایا جائے تو تُو بَری ہو۔“‏

م08 15/‏6 ص.‏ 30 پ.‏ 5

رومیوں کے نام خط سے اہم نکات

3:‏4۔‏ جب کسی انسان کی باتوں اور خدا کے کلام میں اختلاف پایا جاتا ہے تو خدا ہمیشہ ’‏سچا ٹھہرتا ہے۔‘‏ اس لئے ہم بائبل پر بھروسہ رکھتے اور خدا کی مرضی پر چلتے ہیں۔ جب ہم بادشاہت کی خوشخبری سنانے اور شاگرد بنانے کے کام میں بڑے جوش سے حصہ لیتے ہیں تو ہم دوسروں کو بھی اِس بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ خدا ہمیشہ سچا ٹھہرتا ہے۔‏

‏(‏رومیوں 3:‏24، 25‏)‏ یہ تو ایک نعمت ہے کہ اُن کو خدا کی عظیم رحمت کے ذریعے نیک قرار دیا جا رہا ہے اور اُس فدیے کے ذریعے رِہائی دِلائی جا رہی ہے جو مسیح یسوع نے ادا کِیا تھا۔ 25 خدا نے یسوع کو قربانی کے طور پر پیش کِیا تاکہ اُن کے خون پر ایمان لانے والے لوگوں کے گُناہوں کا کفارہ ادا ہو جائے۔ اُس نے ایسا اِس لیے کِیا تاکہ اُس کی نیکی ظاہر ہو جائے کیونکہ اُس نے تحمل کر کے اُن گُناہوں کو معاف کِیا جو ماضی میں ہوئے۔‏

م08 15/‏6 ص.‏ 29 پ.‏ 6

رومیوں کے نام خط سے اہم نکات

3:‏24، 25—‏”‏اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوؔع میں ہے“‏ ایسے گُناہوں کی معافی کیسے ممکن ہوئی جو اُس کی موت سے ’‏پیشتر ہو چکے تھے‘‏؟‏ پیدایش 3:‏15 کی پیشینگوئی 33 عیسوی میں پوری ہوئی جب یسوع کو سُولی پر لٹکا دیا گیا۔ (‏گل 3:‏13،‏ 16‏)‏ البتہ جب یہوواہ خدا نے یہ پیشینگوئی کی تھی تو اُس کی نظروں میں فدیہ کی قیمت ادا ہو چکی تھی کیونکہ خدا جس بات کا ارادہ کرتا ہے یہ ضرور واقع ہوتی ہے۔ لہٰذا، اُس قربانی کی بِنا پر جو یسوع مسیح مستقبل میں پیش کرنے والا تھا، یہوواہ خدا اُن لوگوں کے گُناہ معاف کر سکتا تھا جو پیدایش 3:‏15 کی پیشینگوئی پر ایمان رکھتے تھے۔ یسوع مسیح کی جان کی قربانی کی بِنا پر خدا ایسے لوگوں کو زندہ بھی کر سکتا ہے جو یسوع کے زمانے سے پہلے مر چکے تھے۔—‏اعما 24:‏15‏۔‏

11-‏17 فروری

پاک کلام سے سنہری باتیں | رومیوں 4-‏6

‏”‏خدا نے ہمیں اپنی محبت کا ثبوت دیا“‏

‏(‏رومیوں 5:‏8‏)‏ لیکن خدا نے تو اپنی محبت کا ثبوت یوں دیا کہ جب ہم گُناہ‌گار ہی تھے تو مسیح ہمارے لیے مرا۔‏

‏(‏رومیوں 5:‏12‏)‏ ایک آدمی کے ذریعے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے ذریعے موت آئی اور موت سب لوگوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گُناہ کِیا۔‏

م11 1/‏6 ص.‏ 16 پ.‏ 5

خدا نے ہمارے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کی؟‏

آئیں، دیکھیں کہ پولس رسول نے اِس بات کی وضاحت کیسے کی۔ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گُناہ کِیا۔“‏ (‏روم 5:‏12‏)‏ اِس آیت کو سمجھنے کے لئے آئیں، اُن واقعات پر غور کریں جو انسانی تاریخ کے شروع میں ہوئے تھے۔ یہ واقعات بائبل میں درج ہیں۔ خدا نے آدم اور حوا کو خلق کِیا۔ اِن میں کوئی عیب نہیں تھا، وہ گُناہ سے پاک تھے۔ خدا نے اُنہیں ایک ہی حکم دیا تھا اور اُن سے کہا تھا کہ اگر وہ اِس حکم کو توڑیں گے تو اُنہیں موت کی سزا دی جائے گی۔ (‏پید 2:‏17‏)‏ حالانکہ آدم اور حوا کے لئے اِس حکم پر عمل کرنا مشکل نہیں تھا لیکن اُنہوں نے اِس حکم کو توڑ دیا۔ یوں اُنہوں نے خدا کو اپنے حاکم کے طور پر رد کر دیا۔—‏است 32:‏4، 5۔‏

‏(‏رومیوں 5:‏13، 14‏)‏ گُناہ شریعت سے پہلے دُنیا میں تھا۔ جہاں شریعت نہیں ہوتی وہاں کسی کے خلاف گُناہ بھی عائد نہیں ہوتا۔ 14 اِس کے باوجود بھی موت نے آدم سے لے کر موسیٰ تک اِنسانوں پر حکمرانی کی، اُن پر بھی جنہوں نے ویسا گُناہ نہیں کِیا جیسا آدم نے کِیا تھا جو ایک لحاظ سے اُس کی طرح تھا جسے آنا تھا۔‏

م11 1/‏6 ص.‏ 16 پ.‏ 6

خدا نے ہمارے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کی؟‏

خدا کا حکم توڑنے سے آدم گُناہ‌گار بن گئے۔ لہٰذا جب آدم کے بچے ہوئے تو اُن کو گُناہ ورثے میں ملا۔ یہ سچ ہے کہ اُن کے بچوں نے اُس حکم کو نہیں توڑا تھا جو آدم کو دیا گیا تھا اِس لئے اُنہیں آدم کے گُناہ کا قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اِس کے علاوہ خدا نے ابھی تک انسانوں کو شریعت بھی نہیں دی تھی۔ (‏پید 2:‏17‏)‏ لیکن پھر بھی آدم اور حوا کے بچوں نے گُناہ ورثے میں پایا تھا اور اِس وجہ سے گُناہ اور موت اُن پر بادشاہی کرنے لگے۔ پھر جب خدا نے بنی‌اسرائیل کو شریعت دی تو یہ اَور بھی واضح ہو گیا کہ انسان گُناہ‌گار ہیں۔ ‏(‏رومیوں 5:‏13،‏ 14 کو پڑھیں۔)‏ اِس بات کو سمجھنے کے لئے کہ آدم کے گُناہ نے اُن کی اولاد پر کیا اثر ڈالا ہے، تھیلسمیا کی بیماری پر غور کریں۔ یہ خون کی ایسی بیماری ہے جو بچوں کو پیدائشی طور پر اپنے والدین سے ملتی ہے۔ البتہ اگر والدین کو یہ بیماری ہے تو ضروری نہیں کہ اُن کے سب بچوں کو یہ بیماری لگے گی۔ بعض بچے اِس بیماری کو ورثے میں تو پاتے ہیں لیکن اُن میں اِس کی علامتیں ظاہر نہیں ہوتیں۔ لیکن گُناہ کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔ آدم کے گُناہ کا اثر اُن کے تمام بچوں پر ہوا ہے۔ سب گُناہ کرتے ہیں، سب ہی مرتے ہیں اور اپنے بچوں میں گُناہ اور موت کو منتقل کرتے ہیں۔ کیا انسان اِس افسوس‌ناک صورتحال سے بچ سکتا ہے؟‏

‏(‏رومیوں 5:‏18‏)‏ لہٰذا ایک گُناہ کی وجہ سے ہر طرح کے لوگوں کو قصوروار قرار دیا گیا لیکن ایک صحیح کام کی وجہ سے ہر طرح کے لوگوں کو نیک قرار دیا گیا تاکہ اُنہیں زندگی دی جائے۔‏

‏(‏رومیوں 5:‏21‏)‏ کس مقصد کے لیے؟ تاکہ جس طرح گُناہ نے موت کے ساتھ حکمرانی کی اُسی طرح رحمت بھی حکمرانی کرے تاکہ ہمارے مالک یسوع مسیح کے ذریعے ہمیں نیک قرار دیا جائے اور ہمیشہ کی زندگی دی جائے۔‏

م11 1/‏6 ص.‏ 17 پ.‏ 9، 10

خدا نے ہمارے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کی؟‏

رومیوں 5:‏16،‏ 18 میں جس اصطلا‌ح کا ترجمہ ”‏راست‌باز ٹھہرے“‏ کِیا گیا ہے، یونانی زبان میں یہ کس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے؟ بائبل کے ایک عالم نے لکھا:‏ ”‏اِس اصطلا‌ح کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص راست‌باز بن گیا ہے بلکہ یہ ہے کہ ایک شخص خدا کی نظر میں راست‌باز ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ اصطلا‌ح کسی معاملے کے قانونی پہلو کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ .‏ .‏ .‏ اِس اصطلا‌ح سے یہ منظر پیش کِیا جاتا ہے:‏ خدا کی عدالت میں ایک ملزم پیش ہوتا ہے۔ ملزم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ گُناہ‌گار ہے لیکن خدا ملزم کو اُس کے جُرم سے بَری کر دیتا ہے۔“‏

لیکن یہوواہ خدا جو ”‏تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا“‏ ہے، وہ تو انصاف‌پسند ہے۔ پھر وہ گُناہ‌گار انسانوں کو کس بِنا پر راست‌باز ٹھہراتا ہے؟ (‏پید 18:‏25‏)‏ ایسا کرنے کے لئے خدا نے جو پہلا قدم اُٹھایا، وہ یہ تھا کہ اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو زمین پر بھیجا۔ یسوع مسیح نے اپنے باپ کی مرضی کے مطابق چلنے کی کامل مثال قائم کی۔ اُن کو طرح‌طرح کی آزمائشوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اُنہیں سولی پر تکلیف‌دہ موت دی گئی۔ اِس کے باوجود وہ یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔ (‏عبر 2:‏10‏)‏ یسوع مسیح نے اپنی بے‌عیب جان قربان کر دی۔ اِس طرح اُنہوں نے وہ فدیہ فراہم کِیا جس کی بِنا پر آدم کی اولاد گُناہ اور موت سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔—‏متی 20:‏28؛‏ روم 5:‏6-‏8‏۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏رومیوں 6:‏3-‏5‏)‏ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ ہم سب اپنے بپتسمے سے مسیح یسوع کے شریک ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کی موت میں بھی شریک ہوئے ہیں؟ 4 اور جب ہم اپنے بپتسمے سے اُن کی موت میں شریک ہوئے ہیں تو ہم اُن کے ساتھ دفنائے بھی گئے ہیں تاکہ جس طرح مسیح کو باپ کی عظیم قدرت کے ذریعے مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا اُس طرح ہم بھی ایک نئی زندگی جئیں۔ 5 کیونکہ اگر ہم اُن کی طرح مر گئے تو اُن کی طرح زندہ بھی کیے جائیں گے اور اِس لحاظ سے ہم اُن کے شریک ہیں۔‏

م08 15/‏6 ص.‏ 29 پ.‏ 7

رومیوں کے نام خط سے اہم نکات

6:‏3-‏5—‏مسیح یسوع میں شامل ہونے کے بپتسمے اور اُس کی موت میں شامل ہونے کے بپتسمے سے کیا مُراد ہے؟‏ جب یہوواہ خدا مسیحیوں کو رُوحُ‌القدس سے مسح کرتا ہے تو یہ مسیحی یسوع کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ مسیح کے بدن یعنی اُس کلیسیا میں شامل ہو جاتے ہیں جس کا وہ سر ہے۔ (‏1-‏کر 12:‏12، 13،‏ 27؛‏ کل 1:‏18‏)‏ اُن کے لئے مسیح یسوع میں شامل ہونے کا بپتسمہ یہی ہوتا ہے۔ ممسوح مسیحی اِس مفہوم میں ’‏مسیح کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ‘‏ لیتے ہیں کہ وہ زندگی میں بڑی قربانیاں دینے کو تیار ہیں اور ہمیشہ تک زمین پر رہنے کے موقعے کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس لئے اُن کی موت بھی قربانی کی موت ہے، حالانکہ وہ اِس قربانی کے ذریعے کوئی فدیہ فراہم نہیں کر سکتے۔ مسیح کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ اُس وقت پورا ہوتا ہے جب ممسوح مسیحی فوت ہوتے ہیں اور اُن کو آسمان پر زندہ کِیا جاتا ہے۔‏

‏(‏رومیوں 6:‏7‏)‏ کیونکہ جو شخص مر گیا، اُس کا گُناہ معاف ہو گیا۔‏

ڈبلیو14 1/‏6 ص.‏ 11 پ.‏ 1

میرے اُن عزیزوں کے لیے کیا اُمید ہے جو فوت ہو گئے ہیں؟‏

جب بُرے لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا تو کیا اُن کی عدالت اُن گُناہوں کی بِنا پر کی جائے گی جو اُنہوں نے مرنے سے پہلے کیے تھے؟ جی نہیں۔ رومیوں 6:‏7 میں لکھا ہے:‏ ”‏جو شخص مر گیا، اُس کا گُناہ معاف ہو گیا۔“‏ بُرے لوگوں کی موت سے اُن کے گُناہوں کی قیمت ادا ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اُن کی عدالت اُن کاموں کی بِنا پر کی جائے گی جو وہ زندہ ہونے کے بعد کریں گے نہ کہ اُن کاموں کی بِنا پر جو اُنہوں نے مرنے سے پہلے انجانے میں کیے تھے۔‏

18-‏24 فروری

پاک کلام سے سنہری باتیں | رومیوں 7،‏ 8

‏”‏کیا آپ ’‏بڑی بے‌تابی سے اِنتظار‘‏ کر رہے ہیں؟“‏

‏(‏رومیوں 8:‏19‏)‏ کیونکہ مخلوقات بڑی بے‌تابی سے اُس وقت کا اِنتظار کر رہی ہیں، جب خدا کے بیٹے ظاہر ہوں گے۔‏

م12 1/‏7 ص.‏ 15 پ.‏ 17

ہم حقیقی آزادی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

پولس رسول نے اُس آزادی کے بارے میں لکھا جو یہوواہ خدا زمین پر اپنے بندوں کو دے گا۔ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مخلوقات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے۔ .‏ .‏ .‏ مخلوقات بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائے گی۔“‏ (‏روم 8:‏19-‏21‏)‏ اِن آیتوں میں لفظ مخلوقات اُن انسانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ یہ انسان خدا کے ”‏بیٹوں“‏ کے ظاہر ہونے سے فائدہ حاصل کریں گے۔ خدا کے بیٹے یعنی وہ ممسوح مسیحی جو آسمان پر جا چکے ہوں گے، اُس وقت ظاہر ہوں گے جب وہ یسوع مسیح کے ساتھ مل کر شیطان کی بُری دُنیا کو تباہ کریں گے۔ یوں ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کو نجات ملے گی اور وہ بڑی مصیبت میں سے نکل آئے گی۔—‏مکا 7:‏9،‏ 14‏۔‏

‏(‏رومیوں 8:‏20‏)‏ کیونکہ مخلوقات کو فضول زندگی کے تابع کِیا گیا مگر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اُس کی مرضی سے جس نے اُن کو تابع کِیا اور ساتھ میں اُمید بھی دی

م12 1/‏3 ص.‏ 25 پ.‏ 11

اپنی اُمید کو زندہ رکھیں

جب یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا کہ وہ ”‏نسل“‏ کے ذریعے انسانوں کو ’‏پُرانے سانپ‘‏ یعنی شیطان کے چنگل سے چھڑائے گا تو اُس نے اُنہیں اُمید کی کرن دی۔ (‏مکا 12:‏9؛‏ پید 3:‏15‏)‏ یہ ”‏نسل“‏ یسوع مسیح ہیں۔ (‏گل 3:‏16‏)‏ جب یسوع مسیح نے اپنی جان قربان کی اور خدا نے اُنہیں زندہ کِیا تو یہ اُمید اَور بھی پکی ہو گئی کہ انسان گُناہ اور موت کی غلامی سے آزاد ہو جائیں گے۔ اِس اُمید کا تعلق ”‏خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے“‏ سے ہے۔ جو ممسوح مسیحی آسمان پر جا چکے ہیں، وہ اُس ”‏نسل“‏ میں شامل ہیں جو انسانوں کو شیطان کے قبضے سے چھڑائے گی۔ وہ اُس وقت خدا کے بیٹوں کے طور پر ظاہر ہوں گے جب وہ یسوع مسیح کے ساتھ مل کر شیطان کی بُری دُنیا کو تباہ کریں گے۔ (‏مکا 2:‏26، 27‏)‏ یوں ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کو نجات ملے گی اور وہ بڑی مصیبت میں سے نکل آئے گی۔—‏مکا 7:‏9، 10،‏ 14‏۔‏

‏(‏رومیوں 8:‏21‏)‏ تاکہ وہ تباہی کی غلامی سے آزاد ہو جائیں اور خدا کی اولاد کی شان‌دار آزادی کا مزہ لیں۔‏

م12 1/‏3 ص.‏ 25 پ.‏ 12

اپنی اُمید کو زندہ رکھیں

یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی میں انسان سُکھ کا سانس لیں گے۔ اُس وقت ’‏خدا کے بیٹے‘‏ ایک اَور لحاظ سے ظاہر ہوں گے۔ وہ یسوع مسیح کے ساتھ کاہنوں کے طور پر خدمت کریں گے اور انسانوں کو یسوع مسیح کے فدیے کے فائدے پہنچائیں گے۔ انسان آہستہ‌آہستہ گُناہ اور موت کی غلامی سے آزاد ہو جائیں گے اور ”‏فنا کے قبضہ سے چھوٹ“‏ جائیں گے۔ اگر وہ یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران اور اِس کے آخر پر ہونے والے اِمتحان کے دوران یہوواہ خدا کے وفادار رہیں گے تو اُن کے نام ہمیشہ کے لئے ”‏کتابِ‌حیات“‏ میں لکھے جائیں گے۔ وہ ’‏خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائیں گے۔‘‏ (‏مکا 20:‏7، 8،‏ 11، 12‏)‏ یہ انسانوں کے لئے واقعی بڑی شاندار اُمید ہے!‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏رومیوں 8:‏6‏)‏ جسمانی چیزوں پر دھیان دینے کا انجام موت ہے لیکن پاک روح پر دھیان دینے کا انجام زندگی اور صلح ہے۔‏

ڈبلیو17‏.‏06 ص.‏ 3

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏”‏جسمانی چیزوں پر دھیان دینے“‏ اور ”‏پاک روح پر دھیان دینے“‏ میں کیا فرق ہے؟ (‏روم 8:‏6‏)‏

‏”‏جسمانی چیزوں پر دھیان دینے“‏ والے شخص کی سوچ جسم کی خواہشوں پر مرکوز رہتی ہے، وہ سارا وقت اِن کے بارے میں بات کرتا رہتا ہے اور اِنہی کو پورا کرنے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ اِس کے برعکس ”‏پاک روح پر دھیان دینے“‏ والے شخص کی زندگی کا مرکز خدا کی خدمت کرنا اور اُس کی سوچ اپنانا ہوتا ہے۔ ایسا شخص پاک روح کے مطابق چلتا ہے۔ ”‏جسمانی چیزوں پر دھیان دینے“‏ کا انجام موت ہے جبکہ ”‏پاک روح پر دھیان دینے“‏ کا انجام زندگی اور صلح ہے۔‏‏—‏م16.‏12 ص.‏ 14-‏17‏۔‏

‏(‏رومیوں 8:‏26، 27‏)‏ اِس کے علاوہ پاک روح ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہماری مدد کرتی ہے۔ کیونکہ کبھی کبھار جب ہمیں دُعا کرنی ہوتی ہے تو ہم نہیں جانتے کہ کیا کہیں لیکن جب ہم بے‌آواز کراہتے ہیں تو پاک روح ہمارے لیے اِلتجا کرتی ہے۔ 27 اور جو دلوں کو پرکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ پاک روح کیا کہہ رہی ہے کیونکہ یہ خدا کی مرضی کے مطابق مُقدسوں کے لیے اِلتجا کرتی ہے۔‏

م09 1/‏11 ص.‏ 14 پ.‏ 20

ہماری دُعائیں اور یہوواہ کے ساتھ ہماری قُربت

پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کس چیز کے لئے دُعا کریں لیکن [‏پاک]‏ رُوح خود ایسی آہیں بھربھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے کہ لفظوں میں اُن کا بیان نہیں ہو سکتا۔ اور [‏خدا]‏ جو ہمارے دِلوں کو پرکھتا ہے رُوح کی نیت کو جانتا ہے۔“‏ (‏روم 8:‏26، 27‏، نیو اُردو بائبل ورشن۔‏‏)‏ بعض‌اوقات شاید ہم یہ نہیں جانتے کہ اپنی ذاتی دُعاؤں میں کیا مانگیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہماری ضروریات سے واقف ہے اِس لئے اُس نے اپنی پاک رُوح کے ذریعے بائبل میں بہت سی دُعائیں درج کرائی ہیں۔ وہ اِن دُعاؤں کو گویا ہماری دُعائیں خیال کرتا ہے اور اُن کا جواب بھی دیتا ہے۔ جی‌ہاں، جب رُوح ہماری خاطر ”‏شفاعت“‏ کرتی ہے تو یہوواہ ہماری اُن دُعاؤں کا بھی جواب دیتا ہے جن کا اظہار کرنا ہم مشکل پاتے ہیں۔ لیکن خدا کے کلام کا علم حاصل کرنے سے ہم بہتر طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمیں دُعا میں کیا مانگنا چاہئے۔‏

25 فروری–‏3 مارچ

پاک کلام سے سنہری باتیں | رومیوں 9-‏11

‏”‏زیتون کے درخت کی مثال“‏

‏(‏رومیوں 11:‏16‏)‏ اِس کے علاوہ اگر آٹے کا وہ حصہ جو پہلے پھل کے طور پر لیا گیا، پاک ہے تو پھر باقی سارا آٹا بھی پاک ہے؛ اگر جڑ پاک ہے تو شاخیں بھی پاک ہیں۔‏

م11 1/‏5 ص.‏ 25 پ.‏ 13

‏’‏خدا کی حکمت کیا ہی عمیق ہے!‏‘‏

پولس رسول نے آگے چل کر ابرہام کی نسل میں شریک ہونے والے لوگوں کو زیتون کے درخت کی شاخوں سے تشبیہ دی۔ (‏روم 11:‏21‏)‏ یہ درخت خدا کے اُس ارادے کی تکمیل کی علامت ہے جو اُس نے ابرہام سے عہد باندھتے وقت کِیا تھا۔ اِس درخت کی جڑ پاک ہے اور یہوواہ خدا کی علامت ہے کیونکہ اُس نے روحانی اسرائیل کو وجود دیا ہے۔ (‏یسع 10:‏20؛‏ روم 11:‏16‏)‏ درخت کا تنا یسوع مسیح کی علامت ہے جو ابرہام کی نسل ہیں۔ درخت کی شاخیں اُن اشخاص کی علامت ہیں جو یسوع مسیح کے ساتھ ابرہام کی نسل میں شامل ہوں گے۔‏

‏(‏رومیوں 11:‏17‏)‏ زیتون کے درخت کی کچھ شاخیں کاٹ دی گئیں اور آپ کو اِس کی باقی شاخوں کے بیچ میں پیوند کِیا گیا حالانکہ آپ جنگلی زیتون تھے اور اِس طرح آپ اُن کے ساتھ زیتون کی جڑ کی توانائی سے فائدہ حاصل کرنے لگے۔‏

‏(‏رومیوں 11:‏20، 21‏)‏ بالکل درست، اُنہیں اِس لیے کاٹ دیا گیا کہ اُن میں ایمان نہیں رہا لیکن آپ اپنے ایمان کی وجہ سے قائم ہیں۔ لہٰذا غرور نہ کریں بلکہ خوف کھائیں۔ کیونکہ اگر خدا نے پہلی شاخوں کا لحاظ نہیں کِیا تو وہ آپ کا بھی لحاظ نہیں کرے گا۔‏

م11 1/‏5 ص.‏ 26 پ.‏ 15

‏’‏خدا کی حکمت کیا ہی عمیق ہے!‏‘‏

یہوواہ خدا نے اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے کیا کِیا؟ پولس رسول نے کہا کہ خدا نے زیتون کے درخت سے شاخیں توڑ کر اُن کی جگہ جنگلی زیتون کی ڈالیاں پیوند کیں۔ ‏(‏رومیوں 11:‏17،‏ 18 کو پڑھیں۔)‏ یوں ایسے ممسوح مسیحی جو غیرقوموں سے تھے، زیتون کے علامتی درخت پر پیوند کئے گئے۔ اِس طرح وہ ابرہام کی نسل میں شریک ہو گئے۔ پہلے وہ جنگلی زیتون کی ڈالیوں کی طرح تھے یعنی اُنہیں ابرہام کی نسل میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل نہیں تھا۔ لیکن پھر یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ اعزاز بخشا۔—‏روم 2:‏28، 29‏۔‏

‏(‏رومیوں 11:‏25، 26‏)‏ بھائیو، مَیں نہیں چاہتا کہ آپ اِس مُقدس راز سے بے‌خبر رہیں تاکہ آپ اپنی نظر میں دانش‌مند نہ بن جائیں۔ راز یہ ہے کہ بنی‌اِسرائیل کے دل اُس وقت تک سُن ہو گئے ہیں جب تک غیریہودیوں کی پوری تعداد جمع نہ کی جائے۔ 26 یوں سارا اِسرائیل نجات پائے گا جیسا کہ لکھا ہے کہ ”‏نجات‌دہندہ، صیون سے آئے گا اور یعقوب کی اولاد کو بُرے کاموں سے پھیر دے گا۔‏

م11 1/‏5 ص.‏ 27 پ.‏ 19

‏’‏خدا کی حکمت کیا ہی عمیق ہے!‏‘‏

‏”‏خدا کے اؔسرائیل“‏ کے متعلق یہوواہ خدا کا ارادہ شاندار طریقے سے پورا ہو رہا ہے۔ (‏گل 6:‏16‏)‏ پولس رسول کے یہ الفاظ ضرور پورے ہوں گے کہ ”‏تمام اؔسرائیل نجات پائے گا۔“‏ (‏روم 11:‏26‏)‏ وہ وقت آنے والا ہے جب ”‏تمام اؔسرائیل“‏ یعنی ایک لاکھ 44 ہزار اشخاص آسمان میں بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر خدمت کریں گے۔ یہوواہ خدا کو اپنا ارادہ پورا کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏رومیوں 9:‏21-‏23‏)‏ کیا کمہار، مٹی پر اِختیار نہیں رکھتا؟ کیا وہ ایک ہی پیڑے سے دو طرح کے برتن نہیں بنا سکتا؟ ایک اعلیٰ اِستعمال کے لیے اور دوسرا ادنیٰ اِستعمال کے لیے؟ 22 تو پھر اگر خدا نے ایسا کِیا تو کیا ہوا؟ کیا وہ اپنا غضب اور طاقت ظاہر کرنے کے لیے غضب کے برتنوں سے صبر سے پیش نہیں آ سکتا جو تباہی کے لائق ہیں؟ 23 اور کیا وہ رحم کے برتنوں پر اپنی لامحدود عظمت ظاہر کرنے کا حق نہیں رکھتا جن کو اُس نے پہلے ہی سے عظمت کے لیے تیار کِیا ہے؟‏

م13 15/‏6 ص.‏ 25 پ.‏ 5

خدا کی اصلاح کو مانیں اور اُس کے معیاروں کے مطابق ڈھلیں

اگر انسان اپنے کمہار یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا نہ چاہیں تو خدا اپنے اختیار کو کیسے کام میں لاتا ہے؟ جب کمہار مٹی سے وہ برتن نہیں بنا پاتا جو وہ اصل میں بنانا چاہتا تھا تو وہ یا تو مٹی کو پھینک دیتا ہے یا پھر اُس سے کوئی اَور برتن بنا لیتا ہے۔ اِس میں کمہار کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ شاید وہ مٹی کو صحیح شکل نہیں دے پاتا۔ لیکن یہوواہ خدا ایسا کمہار نہیں ہے۔ (‏است 32:‏4)‏ جب کوئی شخص خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنا نہیں چاہتا تو اِس میں اُس کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں یہوواہ خدا اپنے اختیار کو کام میں لاتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے کہ اب وہ اُس کے ساتھ کیسے پیش آئے گا۔ جو لوگ خدا کے معیاروں کے مطابق ڈھلنے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں، اُنہیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ممسوح مسیحی ’‏رحم کے برتن‘‏ ہیں جنہیں ’‏عزت کے لئے بنایا‘‏ گیا ہے۔ مگر جو لوگ ڈھلنے کو تیار نہیں ہوتے، وہ ’‏غضب کے برتن‘‏ ثابت ہوتے ہیں جنہیں ”‏ہلاکت کے لئے تیار“‏ کِیا جاتا ہے۔—‏روم 9:‏19-‏23‏۔‏

‏(‏رومیوں 10:‏2‏)‏ مَیں اُن کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جوش سے خدا کی خدمت کرتے ہیں لیکن صحیح علم کے مطابق نہیں

آئی‌ٹی-‏1 ص.‏ 1260 پ.‏ 2

غیرت

غلط جوش‌وجذبہ۔‏ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص صاف نیت سے ایک کام کے لیے جوش‌وجذبہ ظاہر کر رہا ہو لیکن پھر بھی وہ غلط ہو اور خدا کو ناخوش کر رہا ہو۔ یہ بات پہلی صدی کے کئی یہودیوں کے بارے میں سچ تھی۔ اُنہیں لگتا تھا کہ وہ موسیٰ کی شریعت کے تحت جو کام کرتے ہیں، اُن کی بِنا پر اُنہیں نیک خیال کِیا جائے گا۔ لیکن پولُس نے اُنہیں بتایا کہ اُن کا یہ جوش‌وجذبہ غلط ہے کیونکہ یہ صحیح علم کے مطابق نہیں ہے۔ اِس لیے اُنہیں وہ حقیقی نیکی حاصل نہیں ہوئی جو خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ اُنہیں نیکی حاصل کرنے اور شریعت کی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور مسیح کے ذریعے خدا کی طرف لوٹنے کی ضرورت تھی۔ (‏روم 10:‏1-‏10‏)‏ ترسسُ کے ساؤل کے سلسلے میں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ یہودی مذہب کے لیے اِس حد تک جوش رکھتے تھے کہ ’‏کلیسیا کو سخت اذیت دیتے تھے اور اِسے تباہ کرنے کے درپے تھے۔‘‏ وہ شریعت کی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی عمل کرتے تھے اور یوں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ وہ ”‏ہر لحاظ سے نیک“‏ ہیں۔ (‏گل 1:‏13، 14؛‏ فل 3:‏6‏)‏ لیکن یہودی مذہب کے لیے اُن کا جوش یا غیرت صحیح نہیں تھی۔ وہ دل کے صاف تھے اور اِسی لیے یہوواہ خدا نے اُنہیں صحیح طریقے سے عبادت کرنے کی راہ دِکھائی اور مسیح کے ذریعے عظیم رحمت عطا کی۔—‏1-‏تیم 1:‏12، 13‏۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں