کیا خدا نے پیشتر ہی سے ہمارے مُقدر کا تعیّن کر دیا ہے؟
”اکثر غلط سمجھی گئی اصطلاح تقدیر کو اگر بالکل استعمال نہ کِیا جاتا تو بہت سے فرضی مسائل سے گریز کر لیا گیا ہوتا۔“ اگر آپ نے لفظ ”تقدیر“ کو استعمال کِیا ہے یا استعمال ہوتے ہوئے سنا ہے تو آپ شاید سوچیں کہ کیوں اس سے بچنا چاہئے۔
جدید فرنچ کیتھولک انسائیکلوپیڈیا تھیو کے مطابق ہم لفظ ”تقدیر“ کو استعمال نہ کر کے بہت اچھا کرتے ہیں۔ ایک اَور کتاب بیان کرتی ہے: ”آجکل تقدیر مذہبی مباحثوں کا مرکز نہیں رہی، زیادہتر پروٹسٹنٹوں کیلئے بھی ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔“
تاہم، تقدیر کے مسئلے نے پوری تاریخ کے دوران بہت سے لوگوں کو پریشان کِیا ہے۔ یہ اُس جھگڑے کی جڑ تھی جو اصلاحی تحریک کا باعث بنی اور کیتھولک چرچ کے اندر بھی یہ صدیوں تک گرما گرم مباحثوں کا موضوع تھی۔ اگرچہ آجکل اس پر کم بحث ہوتی ہے پھر بھی یہ ایک مسئلہ ہی ہے۔ کون یہ جاننا نہیں چاہے گا کہ آیا اُس کے مُقدر کا پہلے ہی سے تعیّن کر دیا گیا ہے؟
تقدیر—لفظ کا مطلب
چرچوں کے اندر لفظ ”تقدیر“ کا کیا مطلب ہے؟ ڈیکسیوئنیر ڈی ٹیولاجی کیٹولیک اسے ”چند اشخاص کو بلانے کیلئے الہٰی ارادہ“ سمجھتی ہے ”جنہیں ہمیشہ کی زندگی کیلئے نامبنام مقرر کِیا گیا ہے۔“ عام طور پر یہ تصور کِیا جاتا ہے کہ برگزیدے، ”نامبنام مقرر“ کئے گئے لوگ وہی ہیں جنکا حوالہ پولسؔ نے رومیوں کے نام اپنے خط میں درجذیل الفاظ میں دیا: ”سب چیزیں مِل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُنکے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلائے گئے۔ کیونکہ جنکو اُس نے پہلے سے جانا اُنکو پہلے سے مقرر بھی کِیا کہ اُسکے بیٹے کے ہمشکل ہوں تاکہ وہ بہت سے بھائیوں میں پہلوٹھا ٹھہرے۔ اور جنکو اُس نے پہلے سے مقرر کِیا اُنکو بلایا بھی اور جنکو بلایا اُنکو راستباز بھی ٹھہرایا اور جنکو راستباز ٹھہرایا اُنکو جلال بھی بخشا۔“—رومیوں ۸:۲۸-۳۰
بعض لوگوں کی پیدائش سے بھی پہلے آسمان میں مسیح کے جلال میں شریک ہونے کیلئے اُنکو مفروضی طور پر خدا کی طرف سے چنا گیا تصور کِیا گیا تھا۔ یہ ایک طویل بحث والے مسئلے پر منتج ہوتا ہے: کیا خدا محض اپنی منمانی سے اُنکو چن لیتا ہے جنہیں وہ بچانا چاہتا ہے یا کیا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے اور اُسے تھامے رہنے میں انسان آزاد مرضی اور ادا کرنے کیلئے کوئی کردار رکھتے ہیں؟
آگسٹینؔ، تقدیر کا بانی
اگرچہ دیگر چرچ فادر تقدیر کی بابت پہلے لکھ چکے تھے، عام طور پر آگسٹینؔ (۳۵۴-۴۳۰ س.ع.) کو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچوں کے لئے اس عقیدے کی بنیاد رکھنے والا خیال کِیا جاتا ہے۔ آگسٹینؔ کے مطابق، دائمی برکات حاصل کرنے کے لئے راستباز اشخاص کا مُقدر ازل ہی سے لکھ دیا گیا ہے۔ اسکی دوسری جانب، ناراست لوگ، اگرچہ بات کے درست مفہوم میں خدا نے اُنکا مقدر تو نہیں لکھا، اپنے گناہوں، بُرے نصیب کے باعث واجب سزا پاتے ہیں۔ آگسٹینؔ کی تشریح نے آزاد مرضی کیلئے بہت کم گنجائش چھوڑی اور یوں بہتوں کے لئے جھگڑے کی راہ کھول دی۔
آگسٹینؔ کے وُرثا
تقدیر اور آزاد مرضی کے سلسلے میں بحث قرونِوسطیٰ کے دوران باقاعدگی سے بار بار واقع ہوتی رہی اور اصلاحی تحریک کے درمیان فیصلہکُن نتیجے پر پہنچ گئی۔ لوتھرؔ کے خیال میں انفرادی تقدیر خدا کی طرف سے خودمختارانہ انتخاب ہے جو وہ برگزیدہ اشخاص کی آئندہ خوبیوں یا نیک اعمال کو پہلے سے دیکھے بغیر کرتا ہے۔ کیلوؔن دوچند تقدیر کے نظریے کے ساتھ زیادہ جامع نتیجے پر پہنچا: بعض کے مُقدر میں ابدی نجات لکھ دی گئی ہے اور دیگر کے ابدی ہلاکت۔ تاہم، کیلوؔن نے بھی خدا کے انتخاب کو منمانی حتیٰکہ ناقابلِفہم خیال کِیا۔
تقدیر کا مسئلہ اور اس سے نہایت ملتا جلتا ”فضل“ کا مسئلہ—ایک ایسا لفظ جسے چرچ اُس عمل کو واضح کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں جس سے خدا بچاتا اور انسانوں کو راستباز ٹھہراتا ہے—اس قدر اہم ہو گیا کہ ۱۶۱۱ میں کیتھولک پاپائیت نے اس موضوع پر اُنکی مرضی کے بغیر کوئی بھی بات لکھنا ممنوع قرار دے دیا۔ کیتھولک چرچ کے اندر، آگسٹینؔ کی تعلیمات نے ۱۷ویں اور ۱۸ویں کے صدی کے فرنچ جینسنیٹس کے ذریعے زبردست حمایت حاصل کی۔ انہوں نے مسیحیت کی ایک نہایت کٹر اور اعلیٰ قسم کی تائید کی اور اعلیٰ طبقے کے اندر پیروکار بھی بنا لئے۔ تاہم، اس مسئلے پر جھگڑا پھر بھی کم نہ ہوا۔ شاہ لوئیسؔ XIV نے پورٹ-رائل کی خانقاہ، جینسنیٹس نظریے کے ماخذ، کی تباہی کا حکم دے دیا۔
اصلاحشُدہ پروٹسٹنٹ چرچوں کے اندر اس بحث کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ دیگر مذہبی گروہوں کے ساتھ ساتھ، احتجاجی، جنہوں نے جیکوبسؔ آرمینیس کی پیروی کی، یہ ایمان رکھتے تھے کہ انسان اپنی ذاتی نجات کا سبب بننے والا کردار ادا کرتا ہے۔ پروٹسٹنٹ سینوڈ آف ڈوڈرچُرچُنٹ (۱۶۱۸-۱۶۱۹) نے کیلوؔن کے دقیانوسی عقیدے کی درست حالت کو اپنانے سے اس مسئلے کو عارضی طور پر سلجھا دیا۔ لاوینچور ڈالا ریفورم—لا مونڈ ڈا یژاں کیلون (”اصلاح کی ذمہداری اُٹھانا—جان کیلوؔن کی دنیا“) کتاب کے مطابق، جرمنی میں تقدیر اور آزاد مرضی پر اس جھگڑے نے ”صلح کی ناکام کوششوں اور مذہبی علماء کی بدسلوکیوں، گرفتاریوں اور جلاوطنی“ کے طویل عرصے کو جنم دیا۔
تقدیر یا آزاد مرضی؟
ابتدا ہی سے اِن دو بالکل متضاد نظریات، تقدیر اور آزاد مرضی، نے بہت سے غضبناک فسادات کو بھڑکایا ہے۔ آگسٹینؔ اپنی جانب سے اس تضاد کی وضاحت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ کیلوؔن نے بھی اسے خدا کی مطلق مرضی اور یوں ناقابلِتوجیہ خیال کِیا۔
لیکن کیا خدا کی خوبیوں اور شخصیت کی بابت بائبل کا انکشاف اِن سوالات کی مزید واضح سمجھ حاصل کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے؟ اگلا مضمون تفصیل سے ان نکات کا جائزہ لے گا۔ (۳ ۲/۱۵ w۹۵)
[صفحہ 4 پر تصویر]
کیلوؔن
لوؔتھر
جؔینسن
[تصویر کا حوالہ]
Pictures: Bibliothèque Nationale, Paris