یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م95 1/‏4 ص.‏ 5-‏7
  • کیا تقدیر خدا کی محبت کے ساتھ ہم‌آہنگ ہو سکتی ہے؟‏

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • کیا تقدیر خدا کی محبت کے ساتھ ہم‌آہنگ ہو سکتی ہے؟‏
  • مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
  • ذیلی عنوان
  • ملتا جلتا مواد
  • مستقبل کی پیشگوئی کرنے کا اہل خدا
  • خدا جو معاملات کو سدھار سکتا ہے
  • پیشگوئی کرنا مُقدر کا تعیّن کرنا نہیں ہے
  • تقدیر اور خدا کی محبت
  • کیا خدا نے پیشتر ہی سے ہمارے مُقدر کا تعیّن کر دیا ہے؟‏
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
  • کیا ہمارا مستقبل پہلے ہی سے تحریر ہے؟‏
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1998ء
  • یہوواہ ’‏ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہے‘‏
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏2006ء
  • کیا آپ کو اپنے مستقبل پر اختیار ہے؟‏
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏2005ء
مزید
مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
م95 1/‏4 ص.‏ 5-‏7

کیا تقدیر خدا کی محبت کے ساتھ ہم‌آہنگ ہو سکتی ہے؟‏

‏”‏ہم تقدیر کی تشریح خدا کے ابدی منصو بے کے طور پر کر تے ہیں جس سے اُس نے ہر اُس بات کا تعیّن کِیا جو وہ ہر ایک انسان کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اُس نے سب کو ایک ہی حالت میں پیدا نہیں کِیا بلکہ بعض کو ابدی زندگی کیلئے اور بعض کو ابدی عذاب کیلئے ازل سے مقرر کر دیا ہے۔“‏

پروٹسٹنٹ مصلح جان کیلوؔن نے کتاب انسٹیٹیوٹس آف دی کرسچئن ریلیجئن میں اپنے نظریے کی تشریح اس طرح کی۔ یہ نظریہ اس سوچ پر مبنی ہے کہ خدا عالمِ‌مطلق ہے اور یہ کہ اُسکی مخلوقات کے اعمال اُسکے مقاصد کو غیرموزوں قرار نہیں دے سکتے یا اُسے تبدیلیاں کرنے کیلئے مجبور نہیں کر سکتے۔‏

لیکن کیا بائبل خدا کی بابت واقعی یہی ظاہر کرتی ہے؟ اس سے بھی اہم، کیا ایسی تشریح خدا کی خوبیوں، بالخصوص اسکی سب سے اوّلین خوبی—‏محبت—‏سے ہم آہنگ ہے؟‏

مستقبل کی پیشگوئی کرنے کا اہل خدا

خدا مستقبل کی پیشگوئی کرنے کے قابل ہے۔ وہ اپنی بابت یوں بیان کرتا ہے کہ ”‏جو ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایامِ‌قدیم سے وہ باتیں جو اب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری مصلحت قائم رہیگی اور میں اپنی مرضی بالکل پوری کرونگا۔“‏ (‏یسعیاہ ۴۶:‏۱۰‏)‏ پوری انسانی تاریخ میں خدا نے یہ ظاہر کرنے کے لئے اپنی پیشینگوئیاں قلمبند کروائیں کہ وہ اپنے علمِ‌سابق کو استعمال کر سکتا اور واقعات کے رونما ہونے سے قبل اُن کی پیشگوئی کر سکتا ہے۔‏

لہٰذا، بابل کے بادشاہ، بیلشضرؔ کے ایام میں جب دانیؔ‌ایل نبی نے دو حیوانوں کی بابت خواب دیکھا جس میں ایک دوسرے کی جگہ لے لیتا ہے تو یہوؔواہ نے اُسے اس کی تعبیر بھی عطا کی:‏ ”‏جو مینڈھا تُو نے دیکھا اُسکے دونوں سینگ ماؔدی اور فاؔرس کے بادشاہ ہیں۔ اور وہ جسیم بکرا یوؔنان کا بادشاہ ہے۔“‏ (‏دانی‌ایل ۸:‏۲۰، ۲۱)‏ ظاہر ہے، عالمی طاقتوں کے سلسلے کا انکشاف کرنے کیلئے خدا نے اپنے علمِ‌سابق کو استعمال کِیا۔ اُس وقت کی برسرِاقتدار بابلی سلطنت ماؔدی فاؔرس اور بعد میں یوؔنان کے قبضے میں چلی جائے گی۔‏

پیشینگوئیاں کسی ایک شخص کے متعلق بھی ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، میکاؔہ نبی نے اعلان کِیا کہ مسیحا بیتؔ‌لحم میں پیدا ہوگا۔ (‏میکاہ ۵:‏۲)‏ اس معاملے میں خدا نے ایک مرتبہ پھر اپنے علمِ‌سابق کو استعمال کِیا۔ تاہم، اس واقعہ کا اعلان ایک خاص مقصد—‏مسیحا کی شناخت—‏کی وجہ سے کِیا گیا تھا۔ یہ واقعہ تقدیر کے عقیدے کو مقبول عام کرنے کی توجیہ نہیں کرتا جس میں ہر ایک فرد شامل ہے۔‏

اسکے برعکس، صحائف آشکارا کرتے ہیں کہ ایسی حالتیں بھی ہیں جن میں خدا نتیجے کو قبل‌ازوقت نہ جاننے کا انتخاب کرتا ہے۔ سدؔوم اور عموؔرہ کی تباہی سے ذرا پہلے اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏میں اب جا کر دیکھونگا کہ کیا اُنہوں نے سراسر ویسا ہی کِیا ہے جیسا شور میرے کانوں تک پہنچا ہے اور اگر نہیں کِیا تو میں معلوم کرلونگا۔“‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۲۱‏)‏ یہ آیت صاف طور پر ہمیں بتاتی ہے کہ خدا معاملات کی تحقیق کرنے سے پہلے ان شہروں کے اندر بدکاری کی حد سے پہلے سے واقف نہیں تھا۔‏

سچ ہے کہ خدا مخصوص واقعات کو پہلے سے دیکھ سکتا ہے، مگر زیادہ‌تر حالتوں میں اُس نے اپنے علمِ‌سابق کو استعمال نہ کرنے کا ہی انتخاب کِیا ہے۔ چونکہ خدا قادرِمطلق ہے اسلئے جیسے وہ چاہتا ہے اسکے موافق اپنی لیاقتوں کو استعمال کرنے کے لئے آزاد ہے، نہ کہ ناکامل انسانوں کی خواہشات کے موافق۔‏

خدا جو معاملات کو سدھار سکتا ہے

جیسے کہ کیلوؔن نے بیان کِیا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق سے پیشتر خدا نے اسکے گناہ میں پڑ جانے کا پیش‌ازوقت تعیّن کر دیا تھا اور یہ کہ وہ گناہ میں پڑنے سے قبل ’‏برگزیدوں‘‏ کا مُقدر لکھ چکا تھا۔ لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو کیا اس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے کہ وہ اسے حاصل کرنے کے لائق نہیں ہونگے آؔدم اور حوؔا کو ابدی زندگی کے امکان کی پیشکش کرنا خدا کی طرف سے ریاکاری نہ ہوتا؟ مزیدبرآں، صحائف کہیں پر بھی اس بات کی تردید نہیں کرتے کہ پہلے انسانی جوڑے کو انتخاب کا موقع دیا گیا تھا:‏ یا تو الہٰی ہدایات کی پیروی کریں اور زندہ رہیں یا پھر اُنہیں ردّ کریں اور مر جائیں۔—‏پیدایش، باب ۲‏۔‏

لیکن کیا آؔدم اور حوؔا کے گناہ نے واقعی خدا کے مقصد کو ناکام بنا دیا؟ نہیں، اِسلئے کہ اُنکے گناہ کرنے کے فوراً ہی بعد، خدا نے اعلان کِیا کہ وہ شیطان اور اُسکے کارندوں کو تباہ کرنے کے لئے ایک ”‏نسل“‏ برپا کریگا اور یہ کہ وہ پھر سے زمین پر معاملات کو سدھارے گا۔ جس طرح چند کیڑےمکوڑے باغبان کو بکثرت پھل پیدا کرنے سے نہیں روک سکتے اُسی طرح آؔدم اور حوؔا کی نافرمانی خدا کو زمین کو ایک فردوس بنا دینے سے نہیں روک پائیگی۔—‏پیدایش، باب ۳‏۔‏

بعدازاں خدا نے آشکارا کِیا کہ ایک بادشاہتی حکومت داؔؤد بادشاہ کی اولاد کے سپرد کی جائے گی اور یہ کہ دوسرے لوگ اس بادشاہت میں شریک ہونگے۔ ان دیگر لوگوں کو ”‏حق‌تعالیٰ کے مُقدس“‏ کہا گیا ہے۔—‏دانی‌ایل ۷:‏۱۸؛‏ ۲-‏سموئیل ۷:‏۱۲؛‏ ۱-‏تواریخ ۱۷:‏۱۱‏۔‏a

پیشگوئی کرنا مُقدر کا تعیّن کرنا نہیں ہے

حقیقت یہ کہ خدا نے یہ جاننے کا انتخاب نہیں کِیا کہ نوعِ‌انسانی کونسی روش اختیار کریگی اس چیز نے اُسے انسان کے اچھے اور بُرے اعمال کے نتائج کی پیشینگوئی کرنے سے باز نہ رکھا۔ ایک مکینک جو ایک ڈرائیور کو اُسکی گاڑی کی خستہ‌حالی کی بابت آگاہ کرتا ہے کوئی حادثہ ہونے کی صورت میں ذمہ‌دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا یا اسے پہلے سے طے کر دینے کیلئے موردِالزام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِسی طرح، خدا پر بھی اشخاص کے اعمال کے بُرے نتائج کو پہلے سے طے کر دینے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔‏

یہی بات پہلے انسانی جوڑے کی اولاد کے حق میں بھی سچ تھی۔ اس سے پیشتر کہ قائنؔ نے اپنے بھائی کو قتل کیا، یہوؔواہ نے قائنؔ کے سامنے ایک انتخاب رکھا۔ کیا وہ گناہ پر غالب آئیگا یا گناہ اُسکو مغلوب کر لے گا؟ بیان میں کہیں پر بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ یہوؔواہ نے مُقدر میں لکھ دیا ہو کہ قائنؔ غلط انتخاب کرے گا اور اپنے بھائی کو قتل کریگا۔—‏پیدایش ۴:‏۳-‏۷‏۔‏

بعد میں، موسوی شریعت نے اسرائیلیوں کو اسکی بابت آگاہ کِیا کہ اگر وہ یہوؔواہ سے منحرف ہو جاتے ہیں، مثلاً، غیرقوموں میں سے بیویاں بیاہ لیتے ہیں تو پھر کیا واقع ہوگا۔ جس کی پیشگوئی کی گئی وہی واقع ہوا۔ یہ بات بادشاہ سلیماؔن کے نمونے سے دیکھی جا سکتی ہے، جو اپنے آخری سالوں میں بُت‌پرستی کرنے کیلئے اپنی غیرقوم بیویوں کے زیرِاثر آ گیا۔ (‏۱-‏سلاطین ۱۱:‏۷، ۸‏)‏ جی‌ہاں، خدا نے اپنے لوگوں کو آگاہ کِیا مگر اُس نے اس بات کا تعیّن نہ کِیا کہ اُنکے شخصی اعمال کیا ہونگے۔‏

اگر وہ آسمانوں میں مسیح کے ساتھ حکومت کرنے کے موعودہ اجر سے محروم نہیں ہونا چاہتے تو منتخب‌شُدہ مسیحیوں یا برگزیدوں کی ثابت‌قدم رہنے کیلئے حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے۔ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۱۰؛‏ مکاشفہ ۲:‏۵،‏ ۱۰،‏ ۱۶؛‏ ۳:‏۱۱‏)‏ جیسے کہ ماضی کے بعض مذہبی علماء نے پوچھا ہے، اگر برگزیدوں کی بلا‌ہٹ حتمی تھی تو پھر ایسی یاددہانیاں کیونکر دی گئی تھیں؟‏

تقدیر اور خدا کی محبت

‏”‏خدا کی صورت“‏ پر خلق ہونے کی بنا پر انسان کو آزاد مرضی بخشی گئی تھی۔ (‏پیدایش ۱:‏۲۷‏)‏ اگر انسانوں نے پہلے سے طے‌کردہ حرکت والے ربوٹس کی مانند نہیں بلکہ محبت کی رو سے خدا کی تعظیم اور خدمت کرنا تھی تو پھر آزاد مرضی ناگزیر تھی۔ ذی‌شعور، آزاد مخلوقات کی طرف سے ظاہر کی گئی محبت خدا کو جھوٹے الزامات کو رد کرنے کے قابل بنائے گی۔ وہ کہتا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ میں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔“‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱‏۔‏

اگر خدا کے خادموں کا مُقدر لکھ دیا گیا ہوتا—‏یا یوں کہا جائے کہ پروگرام‌شُدہ ہوتے—‏تو کیا اپنے خالق کے لئے اُن کی محبت کی صداقت پر شُبہ نہیں کِیا جا سکتا تھا؟ نیز، کیا اُس کے جلال اور شادمانی کے لئے اشخاص کا اُن کی انفرادی خوبیوں پر غور کئے بغیر پہلے سے انتخاب کر لینا خدا کی غیرجانبداری کے برعکس نہ ہوتا؟ مزیدبرآں، اگر بعض ایسا امتیازی برتاؤ حاصل کرتے ہیں، جبکہ دوسروں کے مُقدر میں ابدی سزا لکھ دی گئی ہے تو پھر یہ ”‏منتخب‌شُدہ“‏ یا ”‏برگزیدہ اشخاص“‏ میں بمشکل ہی شکرگزاری کے احساسات پیدا کرے گا۔—‏پیدایش ۱:‏۲۷؛‏ ایوب ۱:‏۸؛‏ اعمال ۱۰:‏۳۴، ۳۵‏۔‏

آخر میں، مسیح نے اپنے شاگردوں سے تمام نوعِ‌انسانی میں خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے حکم دیا۔ اگر خدا نے پہلے ہی سے بچانے کے لئے اشخاص کو چن لیا تھا تو پھر کیا یہ اُس جذبے کو کم نہیں کر دیگا جو مسیحی بشارتی کام میں دکھاتے ہیں؟ کیا یہ منادی کے کام کو لازمی طور پر بے‌وقعت نہیں بنا دے گا؟‏

خدا کی طرف سے غیرجانبدارانہ محبت زبردست قوت ہے جو انسانوں کو بدلے میں اُس سے محبت رکھنے کی تحریک دے سکتی ہے۔ خدا کی محبت کا عظیم‌ترین اظہار ناکامل، گنہگار نوعِ‌انسانی کی خاطر اپنے بیٹے کو قربان کرنا تھا۔ اپنے بیٹے کے سلسلے میں خدا کا علمِ‌سابق ایک خاص معاملہ ہے لیکن یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ یسوؔع پر مبنی بحالی کے وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ لہٰذا دعا ہے کہ ہم اُس بیٹے پر ایمان رکھیں اور خدا کے نزدیک چلے جائیں۔ آئیے اپنے خالق کے ساتھ ایک شاندار رشتہ استوار کرنے کی خدا کی دعوت کو قبول کرکے اپنی قدردانی کا اظہار کریں۔ آجکل، خدا یہ دعوت اُن تمام لوگوں کو دیتا ہے جو اپنی آزاد مرضی کو استعمال کرنا اور اُس کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ (‏۵ ۲/۱۵ w۹۵)‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

a جب یسوؔع ”‏بنایِ‌عالم“‏ (‏متی ۲۵:‏۳۴‏)‏ سے بادشاہت کے تیار کئے جانے کی بات کرتا ہے تو وہ یقیناً پہلے گناہ کے بعد کے کسی وقت کا حوالہ دے رہا ہے۔ لوقا ۱۱:‏۵۰، ۵۱ ”‏بنایِ‌عالم“‏ یا فدیے کے ذریعے چھڑائے جانے کے قابل نوعِ‌انسانی کی ابتدا کو ہابل کے زمانے سے مربوط کرتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ 7 پر بکس]‏

بطور ایک گروہ کے لکھا گیا مُقدر

”‏جن کو خدا پہلے سے جانتا تھا اُنکے لئے اُس نے اپنے بیٹے کی صورت کے مطابق بننے کا مُقدر لکھا تاکہ وہ بہتیرے بھائیوں کے درمیان پہلوٹھا ہو۔ اور جن کا اُس نے مُقدر لکھا، اُس نے اُنہیں بلا‌یا بھی؛ جن کو اُس نے بلا‌یا، اُنہیں اُس نے راست بھی ٹھہرایا، جن کو اُس نے راست ٹھہرایا اُن کو اُس نے جلال بھی عطا کِیا۔“‏ (‏رومیوں ۸:‏۲۹، ۳۰‏، نیو انٹرنیشنل ورشن)‏ ہمیں اس اصطلا‌ح ”‏مُقدر لکھا گیا“‏ کو کیسا سمجھنا چاہئے جسے پولسؔ نے ان آیات میں استعمال کِیا؟‏

یہاں پر پولسؔ کا استدلال شخصی تقدیر کی حمایت میں کوئی حتمی بیان نہیں ہے۔ ہماری صدی کے شروع میں ہی ڈیکسیوئینر ٹیولاجی کٹولیک نے پولسؔ کے بیانات (‏رومیوں ۹-‏۱۱ ابواب)‏ کی اس طرح وضاحت کی تھی:‏ ”‏کافی حد تک، کیتھولک علماء کے درمیان یہ رائے غالب رہی ہے کہ ابدی زندگی کیلئے تقدیر کا حقیقی نظریہ بیان نہیں کِیا گیا۔“‏ حوالے کی یہی کتاب پھر ایم‏.‏ لاگرؔانژ کی اس بات کا حوالہ دیتی ہے:‏ ”‏پولسؔ نے اوّلین طور پر جو سوال اُٹھایا وہ تقدیر اور ہلاکت کیلئے مقرر کرنے کا ہرگز نہیں ہے بلکہ محض مسیحیت کے فضل، یہودیوں کی بے‌اعتقادی کے باعث اسکے برخلاف ہونے کی طرف غیرقوموں کی بلا‌ہٹ ہے۔ .‏ .‏ .‏ اس کا تعلق گروہوں، غیرقوموں اور یہودیوں سے ہے نہ کہ براہِ‌راست چند اشخاص سے۔“‏—‏نسخ عبارت ہماری۔‏

بالکل حال ہی میں دی جیروسلم بائبل نے یہ وضاحت کرتے ہوئے ان ابواب (‏۹-‏۱۱)‏ کے متعلق یہی نتیجہ اخذ کِیا:‏ ”‏تاہم، ان ابواب کا موضوع جلال کیلئے یا پھر ایمان کیلئے شخصی تقدیر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پُرانے عہدنامے کے بیانات سے پیدا ہونے والے واحد غورطلب مسئلے یعنی نجات کی تاریخ کے فروغ میں اسرائیل کا حصہ ہے۔“‏

رومیوں ۸ باب کی آخری آیات بھی اسی اقتباس کا حصہ ہیں۔ لہٰذا، یہ آیات بجا طور پر ہمیں باور کرا سکتی ہیں کہ خدا نے نوعِ‌انسانی میں سے ایک جماعت یا گروہ کے وجود کو پیش‌ازوقت دیکھا جسے مسیح کے ساتھ حکومت کرنے کیلئے بلا‌یا جائے گا، اسکے علاوہ اُنہیں کچھ تقاضے بھی پورے کرنے ہونگے—‏اور ایسا قبل‌ازوقت اُن اشخاص کو مقرر کرنے کے بغیر کِیا گیا جنکو چُنا جائے گا کیونکہ یہ بات اُسکی محبت اور انصاف کے برعکس ہوگی۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں