دوڑ میں برداشت کے ساتھ دوڑنا
”آئیے ہم اس دوڑ میں برداشت کے ساتھ دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔“ عبرانیوں ۱۲:۱، NW۔
۱. (ا)جب ہم یہوواہ خدا کیلئے مخصوصیت کرتے ہیں تو ہمارے سامنے کیا رکھا جاتا ہے؟ (ب) ایک مسیحی کو کس قسم کی دوڑ کیلئے تیار ہونا چاہیے؟
جب ہم یسوع مسیح کے ذریعے خود کو یہوواہ خدا کیلئے مخصوص کرتے ہیں، تو استعارے کی زبان میں، خدا ہمارے سامنے ایک دوڑ کو رکھتا ہے۔ دوڑ کے اختتام پر، کامیابی کیساتھ ختم کرنے والے تمام لوگوں کو ایک انعام سے نوازا جائے گا۔ کونسا انعام؟ ہمیشہ کی زندگی! اس پرشکوہ انعام کو جیتنے کیلئے، دوڑنے والے مسیحی کو ایک چھوٹی سی، تیز بگٹٹ دوڑ کیلئے نہیں، بلکہ ایک کافی لمبی دوڑ کیلئے، تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ لہذا اسے برداشت کی ضرورت ہو گی۔ اسے دوڑ کی طویل مشقت اور دوڑ کے دوران خودبخود آ جانے والی رکاوٹوں کو بھی برداشت کرنا پڑیگا۔
۲، ۳. (ا)مسیحی دوڑ میں آخر تک دوڑنے کے لیے کیا چیز ہماری مدد کریگی؟ (ب) خوشی نے یسوع کی کس طرح مدد کی کہ دوڑ میں برداشت کے ساتھ دوڑے؟
۲ ایسی دوڑ میں آخر تک دوڑتے رہنے کے لیے کیا چیز ہماری مدد کرے گی؟ یسوع کی کس چیز نے مدد کی تھی جب وہ بطور انسان کے زمین پر تھا؟ اس نے خوشی کی خوبی سے باطنی قوت حاصل کی تھی۔ عبرانیوں ۱۲:۱-۳ یوں پڑھی جاتی ہیں: ”پس جب کہ گواہوں کا ایسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کرکے اس دوڑ میں [برداشت کیساتھ] دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔ اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اس خوشی کیلئے جو اسکی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کرکے [سولی] کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔ پس اس پر غور کرو جس نے اپنے حق میں برائی کرنے والے گنہگاروں کی اس قدر مخالفت کی برداشت کی تاکہ تم بےدل ہو کر ہمت نہ ہارو۔“
۳ اپنی پوری عوامی خدمتگزاری کے دوران، یہوواہ کی خوشی کی خاطر یسوع دوڑتے رہنے کے قابل تھا۔ (مقابلہ کریں نحمیاہ ۸:۱۰۔) اسکی خوشی نے دکھ کی سولی پر رسواکن موت کی برداشت کرنے کیلئے بھی اسکی مدد کی، جس کے بعد اس نے مردوں میں سے زندہ ہونے اور اپنے باپ کے دہنے ہاتھ جا بیٹھنے کی ناقابل بیان خوشی کا تجربہ کیا، جہاں سے وہ خدا کے کام کی تکمیل کیلئے اسکی نگرانی کرتا ہے۔ خدا کی طرف ہو کر بطور ایک انسان کے اپنی برداشت کے ذر یعے، اس نے ابدی زندگی کے اپنے حق کو حاصل کر لیا۔ جیہاں، جیسے کہ لوقا ۲۱:۱۹ کہتی ہے: ”اپنی [برداشت] سے تم اپنی جانیں بچائے رکھو گے۔“
۴. اپنے ساتھ دوڑ میں حصہ لینے والوں کے لیے یسوع نے کس قسم کا نمونہ قائم کیا، اور ہمیں اپنے ذہنوں کو کس چیز پر مرتکز رکھنا چاہیے؟
۴ یسوع نے اپنے ساتھی دوڈنے والوں کیلئے عمدہترین نمونے قائم کئے ہیں، اور اسکا نمونہ ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ ہم بھی جیتنے والے ہو سکتے ہیں۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) یسوع ہم سے جو کچھ کرنے کا تقاضا کرتا ہے، وہ ہم کر سکتے ہیں۔ جیسے اس نے برداشت کی، ہم بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن جب ہم اسکی نقل کرنے میں ثابتقدم رہتے ہیں، تو ہمیں اپنے ذہنوں کو خوش کرنے والی وجوہ پر مرتکز رکھنا چاہئے۔ (یوحنا ۱۵:۱۱، ۲۰، ۲۱) شادمانی ہمیں یہوواہ کی خدمت کی دوڑ میں اس وقت تک دوڑنے کیلئے تقویت دے گی، جبتک کہ ہمیشہ کی زندگی کا جلالی انعام حاصل نہیں ہو جاتا۔ کلسیوں ۱:۱۰، ۱۱۔
۵. اپنے سامنے دوڑ کے لئے ہم کس طرح مسرور اور قوی ہو سکتے ہیں؟
۵ دوڑ کو جاری رکھنے کیلئے ہماری مدد کی خاطر، یہوواہ ہمیں حد سے زیادہ طاقت دیتا ہے۔ جب ہم ستائے جاتے ہیں، تو وہ طاقت اور یہ علم کہ اذیت اٹھانے کا استحقاق ہمیں کیوں دیا گیا ہے ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۷-۹) خدا کے نام اور اسکی حاکمیت کی سر بلندی کی خاطر سامنے آنے والی کوئی بھی چیز خوش ہونے کی ایک ایسی وجہ ہے جسے کوئی بھی ہم سے چھین نہیں سکتا۔ (یوحنا ۱۶:۲۲) یہ یسوع کے سلسلے میں ان شاندار چیزوں کی گواہی دینے کی وجہ سے جنہیں یہوواہ نے انجام دیا تھا، یہودی صدرعدالت کے حکم سے پیٹے جانے کے بعد رسولوں کے خوش ہونے کی وجہ کی وضاحت کرتا ہے، ”کیونکہ وہ اس نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے۔“ (اعمال ۵:۴۱، ۴۲) انکی خوشی صرف ستاہٹ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ یہ اس گہرے اندرونی اطمینان کی وجہ سے تھی کہ وہ یہوواہ اور یسوع کو خوش کر رہے تھے۔
۶، ۷. ایک دوڑنے والا مسیحی اس وقت بھی کیوں خوش ہو سکتا ہے جبکہ اسے تکلیفوں کا سامنا ہو، اور کس نتیجے کے ساتھ؟
۶ ہماری زندگیوں میں سہارا دینے والی ایک اور قوت امید ہے جو خدا نے ہمارے سامنے رکھی ہے۔ جیسے کہ پولس اسے بیان کرتا ہے: ”پس جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خدا کیساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں جس کے وسیلہ سے ایمان کے سبب سے اس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلال کی امید پر فخر کریں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ مصیبتوں میں بھی فخر کریں یہ جان کر کہ مصیبت سے [برداشت] پیدا ہوتی ہے اور [برداشت] سے پختگی اور پختگی سے امید پیدا ہوتی ہے اور امید شرمندگی کا باعث نہیں ہوتی۔“ رومیوں ۵:۱-۵۔
۷ اذیتیں بذاتخود تو خوشکن نہیں ہیں، لیکن جو اطمینانبخش پھل وہ پیدا کرتی ہیں وہ یقیناً خوشکن ہیں۔ وہ پھل برداشت، پسندیدگی، امید، اور اس امید کی تکمیل ہیں۔ ہماری طرف سے برداشت، ہمارے لئے الہی مقبولیت حاصل کرنے کا موجب بنے گی۔ جب ہمیں خدا کی مقبولیت حاصل ہے، تو ہم اسکی طرف سے کئے گئے ان وعدوں کو حاصل کرنے کیلئے پراعتماد امید کر سکتے ہیں۔ یہ امید ہمیں اپنے موقف پر ثابتقدم رکھتی ہے اور اذیت کے تحت اس وقت تک بلند حوصلہ دیتی ہے جبتک امید بر نہیں آتی۔ ۲-کرنتھیوں ۴:۱۶-۱۸۔
مبارک ہیں وہ جو برداشت کرتے ہیں!
۸. یہ انتظار کا وقت ہمارے لیے وقت کا زیاں کیوں نہیں ہے؟
۸ جبکہ ہم دوڑنے والوں کو انعام تقسیم کئے جانے کے الہی طور پر مقرر وقت کا انتظار کرتے ہیں، تو ایسی تبدیلیاں بھی ہیں جن کا ہمیں تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے اندر روحانی بہتریاں ہیں جو کامیابی کے ساتھ آزمائش کا مقابلہ کرنے کا نتیجہ ہوتی ہیں، اور یہ ہمارے لئے خدا کی مقبولیت حاصل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمیں موقع دیتی ہیں کہ ویسی ہی شاندار صفات ظاہر کریں جو قدیم وقتوں کے وفادار لوگوں نے ظاہر کیں اور جن کا اظہار بالخصوص ہمارے نمونہ دینے والے یسوع مسیح نے کیا۔ شاگرد یعقوب کہتا ہے: ”اے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمائش [برداشت] پیدا کرتی ہے۔ اور [برداشت] کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ ر ہے۔“ (یعقوب ۱:۲-۴) جیہاں، ہم مختلف طرح کی آزمائشیں آنے کی توقع کر سکتے ہیں، لیکن یہ ہمارے لئے موزوں صفات کو پیدا کرتے رہنے کا کام دیں گی۔ لہذا، خواہ ہمارے سامنے کیسی بھی رکاوٹیں آئیں، ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اس دوڑ میں اس وقت تک دوڑتے رہیں گے جبتک انعام نہیں جیت لیتے۔
۹، ۱۰. (ا)جو آزمائشوں کی برداشت کرتے ہیں وہ خوش کیوں ہیں، اور ہمیں کسطرح آزمائشوں کا سامنا کرنا چاہیے؟ (ب) قدیم زمانے کے مبارک لوگ کون تھے، اور ہم کس طرح ان میں شامل ہو سکتے ہیں؟
۹ پس حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ یعقوب نے کہا: ”مبارک وہ شخص ہے جو آزمائش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ تاج حاصل کریگا جسکا [یہوواہ] نے اپنے محبت رکھنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔“ (یعقوب ۱:۱۲) آئیے پھر ہم استقامت سے آزمائشوں کا مقابلہ کریں، اور خدائی صفات سے مسلح ہوں جو ہمیں ان پر قابو پانے کیلئے تقویت دیں گی۔ ۲-پطرس ۱:۵-۸۔
۱۰ یاد رکھیں کہ جس طریقے سے خدا ہمارے ساتھ برتاؤ کر رہا ہے کوئی نیا یا انوکھا نہیں ہے۔ قدیم وقتوں کے وفادار ”گواہوں کے بڑے بادل“ نے جب خدا کیلئے اپنی استقامت کو ثابت کیا تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا تھا۔ (عبرانیوں ۱۲:۱) انکے لئے خدا کی مقبولیت کا اظہار اسکے کلام میں مرقوم ہے، اور ہم ان سب کو مبارک سمجھتے ہیں کیونکہ وہ امتحان کے تحت قائم رہے۔ یعقوب کہتا ہے: ”اے بھائیو! جن نبیوں نے [یہوواہ] کے نام سے کلام کیا ان کو دکھ اٹھانے اور صبر کا نمونہ سمجھو۔ دیکھو! [برداشت] کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔ تم نے ایوب کی [برداشت] کا حال تو سنا ہی ہے اور [یہوواہ] کی طرف سے جو اسکا انجام ہوا اسے بھی معلوم کر لیا جس سے [یہوواہ] کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۵: ۱۰، ۱۱) یہ پیشینگوئی کر دی گئی تھی کہ ان اخیر برے دنوں کے دوران، بعض ایسے لوگ پردہءدنیا پر نمودار ہونگے جو راستی کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کریں گے، جیسے قدیم صدیوں میں ان نبیوں نے کی تھی۔ کیا ہم خوش نہیں ہیں کہ ہم ایسا کرنے والوں میں ہیں؟ دانیایل ۱۲:۳، مکاشفہ ۷:۹۔
یہوواہ کے حوصلہافزا کلام سے تقویت حاصل کرنا
۱۱. برداشت کرنے کے لیے خدا کا کلام کیسے ہماری مدد کر سکتا ہے، اور ہمیں یسوع کی تمثیل کی پتھریلی جگہوں کی طرح کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
۱۱ پولس برداشت کرنے میں ایک اور مدد کی نشاندہی کرتا ہے جب اس نے کہا کہ ”صبرآزما برداشت کے ذریعے، اور صحائف سے حاصل کی گئی تسلی سے، ہم اپنی امید پر قائم رہ سکتے ہیں۔“ (رومیوں ۱۵:۴، دی ٹوینٹیتھ سینچری نیو ٹسٹامنٹ) سچائی یعنی خدا کے کلام کو، ہمارے اندر گہری جڑ پکڑنی چاہیے، تاکہ ہماری طرف سے ہمہوقت ایک موزوں جوابی عمل ہو سکے۔ یسوع کی بیج بونے والے کی تمثیل میں بیانکردہ اس پتھریلی زمین کی طرح بننے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا: ”جو پتھریلی زمین میں بوئے گئے یہ وہ ہیں جو کلام کو سنکر فیالفور خوشی سے قبول کر لیتے ہیں۔ اور اپنے اندر جڑ نہیں رکھتے بلکہ چند روزہ ہیں۔ پھر جب کلام کے سبب سے مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فیالفور ٹھوکر کھاتے ہیں۔“ (مرقس ۴:۱۶، ۱۷) ایسے لوگوں میں خدا کے کلام کی سچائی گہری جڑ نہیں پکڑتی، لہذا تکلیف کے وقت وہ امید اور قوت کے اس حقیقی مآخذ سے تقویت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو تے۔
۱۲. خوشخبری قبول کرتے وقت ہمیں کس دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے؟
۱۲ جو کوئی بادشاہتی خوشخبری کو قبول کرتا ہے اسے خود کو بےبنیاد امیدوں سے دھوکے میں نہیں ڈالنا چاہیے کہ اس کے بعد کیا کچھ واقع ہو گا۔ وہ ایک ایسی طرز زندگی اختیار کر رہا ہے جو اپنے ساتھ تکلیف یا اذیت لائے گی۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲) لیکن اسے خدا کے کلام پر ثابت قدم رہنے اور دوسروں کے ساتھ اسکی بابت باتچیت کرنے سے مختلف آزمائشوں میں سے گزرنے کے اس استحقاق کو ”کمال خوشی کی بات“ سمجھنا چاہیے۔ یعقوب ۱:۲، ۳۔
۱۳. پولس کیوں اور کسطرح تھسلنیکے کے مسیحیوں پر خوش ہوا تھا؟
۱۳ پہلی صدی میں، تھسلنیکے میں پولس کی منادی کی وجہ سے مخالفین نے بلوہ کر دیا تھا۔ جب پولس بیریہ میں پہنچا تو وہ مخالفین وہاں اسکے پیچھے گئے تاکہ اور زیادہ مشکلپیدا کریں۔ تھسلنیکے میں پیچھے رہ جانے والے وفادار لوگوں کو اذیتیافتہ رسول نے لکھا: ”اے بھائیو! تمہارے بارے میں ہر وقت خدا کا شکر کرنا ہم پر فرض ہے اور یہ اسلئے مناسب ہے کہ تمہارا ایمان بہت بڑھتا جاتا ہے اور تم سب کی محبت آپس میں زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم آپ خدا کی کلیسیاؤں میں تم پر فخر کرتے ہیں کہ جتنے ظلم اور مصیبتیں تم اٹھاتے ہو ان سب میں [تمہاری برداشت] اور ایمان ظاہر ہوتا ہے۔ یہ خدا کی سچی عدالت کا صاف نشان ہے تاکہ تم خدا کی بادشاہی کے لائق ٹھہرو جسکے لیے تم دکھ بھی اٹھاتے ہو۔“ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۳-۵) دشمن کی طرف سے اذیتوں کے باوجود، تھسلنیکی مسیحیوں نے مسیح جیسی شخصیت میں اور تعداد میں ترقی کی۔ ایسا کیونکر ممکن تھا؟ اسلئے کہ انہوں نے یہوواہ کے حوصلہافزا کلام سے تقویت حاصل کی۔ انہوں نے خداوند کے احکامات کی فرمانبرداری کی اور برداشت کے ساتھ دوڑ میں دوڑتے ر ہے۔ ۲-تھسلنیکیوں ۲:۱۳-۱۷۔
دوسروں کی نجات کی خاطر
۱۴. (ا)مشکلات کے باوجود کن وجوہات کی بنا پر خوشی کیساتھ ہم خدمتگزاری میں مصروف رہتے ہیں؟ (ب) ہم کس چیز کے لیے دعا کرتے ہیں، اور کیوں؟
۱۴ بنیادی طور پر تو خدا کی سربلندی کی خاطر ہی، ہم وفاداری اور بغیر کوئی شکایت کیے مشکلات اور اذیتوں کو برداشت کرتے ہیں۔ لیکن ایک اور بھی بےغرض وجہ ہے کہ ہم کیوں ایسی چیزوں کی برداشت کرتے ہیں: اس لیے کہ ہم دوسروں کو بادشاہتی خوشخبری دے سکیں تاکہ ”نجات کے لیے منہ سے اعلانیہ اقرار“ کرنے کے لیے خدا کی بادشاہت کے لیے زیادہ پبلشر فراہم ہو سکیں۔ (رومیوں ۱۰:۱۰) خدا کی خدمت میں سرگرم لوگوں کو دعا کرنی چاہیے کہ فصل کا مالک بادشاہت کے زیادہ پبلشر فراہم کرنے سے ان کے کام کو برکت دے۔ (متی ۹:۳۸) پولس نے تیمتھیس کو لکھا: ”جو باتیں تو نے بہت سے گواہوں کے سامنے مجھ سے سنی ہیں انکو ایسے دیانتدار آدمیوں کے سپرد کر جو اوروں کو بھی سکھانے کے قابل ہوں۔ مسیح یسوع کے اچھے سپاہی کی طرح میرے ساتھ دکھ اٹھا۔“ ۲-تیمتھیس ۲:۲، ۳۔
۱۵. ہمیں خود کو سپاہیوں اور ”کشتیوں میں حصہ لینے“ والے پہلوانوں کی طرح کیوں رکھنا چاہیے؟
۱۵ ایک سپاہی خود کو غیرفوجی اہلکار کی کم پابند زندگی سے الگ کر لیتا ہے۔ اسی طرح سے، ہمیں خود کو ان لوگوں کے معاملات میں الجھانا نہیں چاہیے جو خداوند کی فوج میں نہیں ہیں بلکہ درحقیقت، مخالف طرف ہیں۔ لہذا پو لس نے تیمتھیس کو مزید لکھا: ”کوئی سپاہی جب لڑائی کو جاتا ہے اپنے آپ کو دنیا کے معاملوں میں نہیں پھنساتا تاکہ اپنے بھرتی کرنے والے کو خوش کرے۔ دنگل میں مقابلہ کرنے والا بھی اگر اس نے باقاعدہ مقابلہ نہ کیا ہو تو سہرا نہیں پاتا۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۴، ۵) ”زندگی کے تاج“ کے لیے دوڑ میں جیتنے کی کوشش کرنے کے لیے، دوڑنے والوں کو ضبط نفس کی پابندی اور بیکار قسم کے وزن اور الجھنوں سے بچنا چاہیے۔ اس طرح سے وہ دوسروں کو نجات کی خوشخبری پہنچانے پر توجہ دے سکتے ہیں۔ یعقوب ۱:۱۲، مقابلہ کریں ۱-کرنتھیوں ۹:۲۴، ۲۵۔
۱۶. کس چیز کو قید نہیں کیا جا سکتا، اور کس کے فائدے کے لیے ہم برداشت کرتے ہیں؟
۱۶ چونکہ ہم خدا اور اسکی تلاش کرنے والے بھیڑخصلت اشخاص سے محبت رکھتے ہیں، اس لیے ہم نجات کی خوشخبری کے ساتھ دوسروں تک پہنچنے کے لیے خوشی کے ساتھ زیادہ برداشت کرتے ہیں۔ دشمن خدا کے کلام کی منادی کرنے کے لیے ہم کو قید کر سکتے ہیں۔ لیکن خدا کے کلام کو باندھا نہیں جا سکتا، اور دوسروں کی نجات کے لیے اسکی بابت کلام کرنے کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ پولس نے تیمتھیس سے بیان کیا کہ وہ آزمائش کا سامنا کرنے کیلئے اسطرح سے کیوں رضامند تھا: ”یسوع مسیح کو یاد رکھ جو مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور داؤد کی نسل سے ہے میری اس خوشخبری کے موافق جسکے لیے میں بدکار کی طرح دکھ اٹھاتا ہوں یہاں تک کہ قید ہوں مگر خدا کا کلام قید نہیں۔ اسی سبب سے میں برگزیدہ لوگوں کی خاطر سب کچھ سہتا ہوں تاکہ وہ بھی اس نجات کو جو مسیح یسوع میں ہے ابدی جلال سمیت حاصل کریں۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۸-۱۰) آجکل ہم نہ صرف آسمانی بادشاہت کے لیے منتخب ان لوگوں کے چھوٹے بقیے کو ذہن میں رکھتے ہیں بلکہ اچھے چرواہے، یسوع مسیح، کی دوسری بھیڑوں کی بڑی بھیڑ کی کثیر تعداد کو بھی جو مسیح کی بادشاہت کے تحت زمینی فردوس کو حاصل کرتے ہیں۔ مکاشفہ ۷:۹-۱۷۔
۱۷. ہمیں کیوں دوڑ کو چھوڑ نہیں دینا چاہیے، اور اگر ہم آخر تک دوڑتے رہتے ہیں تو کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
۱۷ اگر ہم بزدل ہیں، تو ہم نجات کیلئے نہ تو اپنی اور نہ کسی دوسرے کی مدد کریں گے۔ مسیحی دوڑ کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے قطعنظر، برداشت کرنے سے، ہم خود کو ہمیشہ انعام کیلئے تیار کرتے ہیں اور نجات کے لیے براہراست دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں، جبکہ دوسروں کیلئے قوت کا ایک پرزور نمونہ بھی ہوتے ہیں۔ ہماری امید چاہے آسمانی ہو یا زمینی، نقل کرنے کیلئے پولس کا یہ رجحان عمدہ ہے کہ ”نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ انعام کو حاصل کروں۔“ فلپیوں ۳:۱۴، ۱۵۔
دوڑ میں مستحکم تسلسل
۱۸. انعام جیتنے کا انحصار کس چیز پر ہے، لیکن آخر تک قائم رہنے کے لیے، کس چیز سے گریز کیا جانا چاہیے؟
۱۸ یہوواہ کی سربلندی اور اسکی طرف سے اپنے لیے محفوظ انعام کو جیتنے کے لیے اپنی مسیحی دوڑ کو فاتحانہ انداز سے ختم کرنے کا انحصار پوری دوڑ میں آخر تک مستحکم تسلسل پر ہے۔ لہذا، اگر ہم خود کو ایسی چیزوں کے بوجھ تلے دبائے رکھتے ہیں جو راستبازی کے مقصد کو پورا نہیں کرتیں تو ہم قائم نہیں رہ سکتے۔ اگر ایسی چیزوں کو چھین بھی لیا جائے، تو بھی اس کیلئے تقاضے کافی زیادہ حوصلے کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہم دکھا سکتے ہیں۔ اس لیے پولس نصیحت کرتا ہے: ”تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کرکے اس دوڑ میں [برداشت کے ساتھ] دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔“ (عبرانیوں ۱۲:۱) ہمیں بھی یسوع کی طرح برداشت کی جانے والی تکلیفوں پر زور نہیں دینا چاہیے بلکہ انہیں خوشکن انعام کی خاطر ادا کی جانے والی چھوٹی سی قیمت تصور کریں۔ مقابلہ کریں رومیوں ۸:۱۸۔
۱۹. (ا)اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب پولس نے کس اعتماد کا اظہار کیا تھا؟ (ب) جوں جوں ہم برداشت کی دوڑ کے خاتمے کے قریب جاتے ہیں، ہمیں موعودہ انعام کی بابت کیا اعتماد رکھنا چاہیے؟
۱۹ اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب، پولس یہ کہنے کے قابل تھا: ”میں اچھی کشتی لڑ چکا میں نے دوڑ کو ختم کر لیا میں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔ آیندہ کے لیے میرے واسطے راستبازی کا تاج رکھا ہوا ہے۔“ (۲-تیمتھیس ۴:۷، ۸) ہم ابدی زندگی کے انعام کو حاصل کرنے کے لیے برداشت کی اس دوڑ میں ہیں۔ اگر ہماری برداشت صرف اس وجہ سے ختم ہو جاتی ہے کہ ہم نے شروع کرتے وقت جو توقع کی تھی، دوڑ اس سے کچھ لمبی ہے تو ہم اس وقت ناکام ہو جائیں گے جب موعودہ انعام حاصل کرنے کے قریب ہوں گے۔ ایسی غلطی نہ کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انعام اپنی جگہ موجود ہے۔
۲۰. دوڑ کے اختتام تک پہنچنے کے لیے ہمارا کیا عزممصمم ہونا چاہیے؟
۲۰ دعا ہے کہ بڑی مصیبت کے شروع ہونے کو دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں تھک نہ جائیں، جو پہلے بڑے بابل اور اس کے بعد ابلیس کی باقیماندہ تنظیم پر بربادی لاتی ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲) دعا ہے کہ اپنے چوگرد تمام اثرآفریں نشانوں کے پیشنظر، ہم ایمان کے ساتھ آگے ہی نظر رکھیں۔ دعا ہے کہ ہم برداشت کی اپنی قوتوں کی کمریں کس لیں، اور اس دوڑ کو دلیری سے جاری رکھیں جو یہوواہ خدا نے ہمارے سامنے رکھی ہے، جبتک کہ یسوع مسیح کے ذریعے یہوواہ کی سربلندی کیلئے خاتمہ نہیں آ جاتا اور خوشکن انعام حاصل نہیں ہو جاتا۔ (۱۳ ۱۱/۱ w۹۱)
آپ کس طرح جواب دیں گے؟
▫ کس قسم کی دوڑ کے لیے ایک مسیحی کو تیار ہونا چاہیے؟
▫ دوڑ دوڑنے کے دوران خوشی کیوں اتنی اہم ہے؟
▫ کونسی اہم وجوہات کی بنا پر ہم مشکلات کے باوجود خدمتگزاری میں لگے رہتے ہیں؟
▫ ہمیں اس دوڑ کو کیوں نہیں چھوڑنا چاہیے جو خدا نے ہمارے سامنے رکھی ہے؟
[تصویر]
ضرور ہے کہ مسیحی ایسے ہی برداشت کریں جیسے کہ ایک لمبی دوڑ میں
[تصویر]
”زندگی کا تاج“ حاصل کرنے کے لیے دوڑنے والوں کو ضبط نفس کو عمل میں لانا چاہیے