یہوواہ کے نجاتبخش بازو پر بھروسہ کریں
”اے [یہوواہ] . . . ہر صبح [ہمارا] بازو ہو اور مصیبت کے وقت ہماری نجات۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۔
۱. کس مفہوم میں یہوواہ ایک زورآور بازو رکھتا ہے؟
یہوواہ ایک زورآور بازو رکھتا ہے۔ چونکہ ”خدا روح ہے،“ اس لیے یہ بازو کسی گوشتپوست کا نہیں ہے۔ (یوحنا ۴:۲۴) بائبل میں، علامتی بازو قوت دکھانے کی خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا، خدا اپنے بازو کے ذریعے ہی اپنے لوگوں کو چھڑاتا ہے۔ یقیناً، ”ایک چوپان کی مانند، خدا اپنے گلے کو چراتا ہے۔ وہ بروں کو اپنے بازوؤں میں جمع کرتا ہے، اور انکو اپنی بغل میں لیکر چلتا ہے۔“ (یسعیاہ ۴۰:۱۱، NW، زبور ۲۳:۱-۴) یہوواہ کے لوگ اس کے پرمحبت بازو میں خود کو کتنا محفوظ محسوس کرتے ہیں! مقابلہ کریں استثنا ۳:۲۴۔
۲. یہاں پر کونسے سوالات ہماری غوروفکر کے مستحق ہیں؟
۲ یہوواہ کے بازو نے اپنے ماضی اور حال کے لوگوں کو کس طرح بچایا ہے؟ بطور ایک کلیسیا کے خدا انہیں کیا مدد دیتا ہے؟ اور اسکے لوگ اپنی تمام مصیبتوں میں اس کے نجاتبخش بازو پر کیونکر بھروسہ کر سکتے ہیں؟
خدا کا نجاتبخش بازو سرگرمعمل
۳. اسرائیل کی مصر سے رہائی کو صحائف کس سے منسوب کرتے ہیں؟
۳ کوئی ۳،۵۰۰ سال گزرے اسرائیلیوں کو مصری غلامی سے رہائی دلانے سے پہلے، خدا نے اپنے نبی موسی کو بتایا: ”سو تو بنی اسرائیل سے کہہ کہ میں [یہوواہ] ہوں اور میں تم کو مصریوں کے بوجھوں کے نیچے سے نکال لوں گا۔ اور میں تم کو انکی غلامی سے آزاد کرونگا اور میں اپنا ہاتھ بڑھا کر اور ان کو بڑی بڑی سزائیں دیکر تمکو رہائی دونگا۔“ (خروج ۶:۶) پولس رسول کے مطابق، خدا اسرائیلیوں کو ”زبردست بازو“ سے مصر سے نکال لایا۔ (اعمال ۱۳:۱۷، NW) بنیقورح نے ملک موعود کی فتح کو یہ کہتے ہوئے خدا سے منسوب کیا: ”کیونکہ نہ تو یہ اپنی تلوار سے اس ملک پر قابض ہوئے اور نہ انکے بازو نے انکو بچایا۔ بلکہ تیرے دہنے ہاتھ اور تیرے بازو اور تیرے چہرے کے نور نے ان کو فتح بخشی کیونکہ تو ان سے خوشنود تھا۔“ زبور ۴۴:۳۔
۴. اسوریوں کی لشکرکشی کے دنوں میں یہوواہ کے نجاتبخش بازو پر توکل کا کیا اجر ملا تھا؟
۴ اسوریوں کی جارحیت کے دنوں میں بھی یہوواہ کا بازو اپنے لوگوں کی مدد کو پہنچا۔ اس وقت پر یسعیاہ نبی نے دعا کی: ”اے [یہوواہ] ہم پر رحم کر کیونکہ ہم تیرے منتظر ہیں۔ ہر صبح [ہمارا] بازو ہو اور مصیبت کے وقت ہماری نجات۔“ (یسعیاہ ۳۳:۲) اس دعا کا جواب اس وقت ملا تھا جب خدا کے فرشتے نے اسوری لشکرگاہ میں ۱،۸۵،۰۰۰ کو ہلاک کر ڈالا، اور سنحیرب بادشاہ کو ”شرمندہ کرکے“ محصور یروشلیم سے واپس لوٹا دیا۔ (۲-تواریخ ۳۲:۲۱، یسعیاہ ۳۷:۳۳-۳۷) یہوواہ کے نجاتبخش بازو پر توکل کرنا ہمیشہ اجر بخشتا ہے۔
۵. پہلی جنگ عظیم کے آخر پر اذیت پانے والے مسیحیوں کے لیے یہوواہ کے زورآور بازو نے کیا کام انجام دیا؟
۵ پہلی جنگ عظیم کے آخر پر اذیت پانے والے ممسوح مسیحیوں کو خدا کے زورآور بازو نے بچایا۔ ۱۹۱۸ میں گورننگ باڈی کے ہیڈکواٹر پر ان کے دشمنوں نے حملہ کیا تھا، اور مشہورومعروف بھائیوں کو قید کر دیا گیا تھا۔ دنیاوی قوتوں سے خوفزدہ، ممسوحوں نے گواہی دینے کے اپنے کام کو عملاً روک دیا۔ لیکن انہوں نے اسکی احیا اور بےعملی کے گناہ اور خوف کی ناپاکی سے پاک ہونے کے لیے دعا کی۔ خدا نے قیدی بھائیوں کی رہائی کو عمل میں لانے سے انکی دعاؤں کا جواب دیا، اور اسکے تھوڑی دیر بعد ہی انکو بریالذمہ قرار دے دیا گیا۔ ۱۹۱۹ میں انکی کنونشن پر سچائیوں کے اظہار اور سرگرم کرنے والی خدا کی روح کے نزول کے نتیجے میں، یوایل ۲:۲۸-۳۲ کی آخری تکمیل میں یہوواہ کی بےخوف خدمت کے لیے ممسوح پھر سے تازہ دم ہو گئے تھے۔ مکاشفہ ۱۱:۷-۱۲۔
کلیسیا میں مدد
۶. ہم کیسے جانتے ہیں کہ کلیسیا میں تکلیفدہ حالت کو برداشت کرنا ممکن ہے؟
۶ جبکہ خدا بالعموم اپنی تنظیم کی حمایت کرتا ہے، تو اسکا بازو اسکے اندر اشخاص کو قائم رکھتا ہے۔ بلاشبہ، حالتیں کسی بھی کلیسیا میں کامل نہیں کیونکہ سب انسان ناکامل ہیں۔ (رومیوں ۵:۱۲) اس لیے بعض اوقات یہوواہ کے بعض خادموں کو کلیسیا میں تکلیفدہ حالت کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگرچہ گیس نے سفری بھائیوں کی خاطرداری کرنے میں ”دیانتداری سے کام“ کیا لیکن دیترفیس نہ تو خود انکو قبول کرتا تھا بلکہ جو انکو قبول کرتے ان کو بھی کلیسیا سے باہر نکال دینے کی کوشش میں رہتا تھا۔ (۳-یوحنا ۵، ۹، ۱۰) تاہم، یہوواہ نے بادشاہتی منادی کے کام کی حمایت میں مہماننوازی دکھاتے رہنے کے لیے گیس اور دوسروں کی مدد کی۔ خدا پر دعائیہ اعتماد کو ہماری مدد کرنی چاہیے کہ وفادار کاموں کو کرتے رہیں جبکہ اسی دوران ہم کسی ایسی حالت کو درست کرنے کے لیے اسکا انتظار کرتے ہیں جو شاید ہمارے ایمان کی آزمائش کرتی ہو۔
۷. کرنتھس کی کلیسیا میں وفادار مسیحیوں نے کن حالات کے باوجود خدا کے لیے اپنی مخصوصیت کو پورا کیا؟
۷ فرض کریں کہ آپ پہلی صدی میں کرنتھس کی کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھتے تھے۔ ایک موقع پر، تفرقے اسکے اتحاد کے لیے خطرہ بن گئے، اور حرامکاری کی بابت رواداری کی وجہ سے اسکی روح کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۰، ۱۱، ۵:۱-۵) ایماندار ایکدوسرے کو دنیاوی عدالتوں میں لے جاتے تھے، اور بعض مختلف معاملات پر جھگڑا کرتے تھے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱-۸، ۸:۱-۱۳) جھگڑے، حسد، غصے، اور بےضابطگی نے زندگی کو مشکل بنا دیا تھا۔ بعض تو پولس کے مرتبے پر شک کرتے اور اس کی کلام کرنے کی لیاقت کو برے لفظوں میں بیان کرتے تھے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۱۰) تاہم، کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھنے والے وفاداروں نے اس صبرآزما وقت کے دوران خدا کے لیے اپنی مخصوصیت کو پورا کیا۔
۸، ۹. اگر کلیسیا میں ہمیں کسی تکلیفدہ حالت کا سامنا ہے تو ہم کو کیا کرنا چاہیے؟
۸ اگر کوئی تکلیفدہ حالت پیدا ہو جاتی ہے، تو ہمیں خدا کے لوگوں کیساتھ متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ (مقابلہ کریں یوحنا ۶:۶۶-۶۹۔) آئیے ہم ایک دوسرے کیساتھ صبر سے پیش آئیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ بعض اشخاص ”نئی انسانیت“ پہننے اور خود کو دردمندی، مہربانی، فروتنی، حلم، اور تحمل سے ملبوس کرنے میں دوسروں کی نسبت زیادہ وقت لیتے ہیں۔ خدا کے خادم چونکہ ایک دوسرے سے پسمنظر کے لحاظ سے بھی مختلف ہیں، اسلیے ہم سب کو محبت دکھانے اور معاف کرنے والے بننے کی ضرورت ہے۔ کلسیوں ۳:۱۰-۱۴۔
۹ یہوواہ کی خدمت میں کئی سال گذارنے کے بعد ایک بھائی نے کہا: ”میرے لیے اگر کوئی نہایت ہی اہم چیز رہی ہے، تو یہ یہوواہ کی دیدنی تنظیم کی قربت میں رہنے کا معاملہ رہا ہے۔ میرے پہلے کے تجربے نے مجھے سکھا دیا تھا کہ انسانی استدلال پر توکل کرنا کتنا غلط ہے۔ ایک بار جب میرا ذہن اس غورطلب بات پر لگ چکا تو میں نے وفادار تنظیم کے ساتھ ہی رہنے کا عزممصمم کر لیا۔ اور کس طرح کسی کو یہوواہ کی خوشنودی اور برکت مل سکتی ہے؟“ کیا آپ بھی اسیطرح سے اسکے شادمان لوگوں کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنے کے اپنے استحقاق کو عزیز رکھتے ہیں؟ (زبور ۱۰۰:۲) اگر ایسا ہے، تو آپ کسی چیز کو اجازت نہیں دیں گے کہ آپکو یہوواہ کی تنظیم سے دور کر دے یا اسکے ساتھ آپکے رشتے کو برباد کر دے جس کا بازو ان سب کو بچاتا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں۔
مدد جب آزمائشیں ہمیں گھیر لیتی ہیں
۱۰. (ا)آزمائش کا سامنا کرنے کیلیے دعا کس طرح سے خدا کے لوگوں کی مدد کرتی ہے؟ (ب) ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳ میں پولس نے کیا یقیندہانی کرائی؟
۱۰ خدا کی تنظیم کے ساتھ منسلک وفادار اشخاص کے طور پر، آزمائش کے وقت میں ہمیں اسکی مدد حاصل ہے۔ مثال کے طور پر، جب ہم آزمائش کے گھیرے میں ہوتے ہیں تو اس کے لیے اپنی راستی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ہماری مدد کرتا ہے۔ بیشک ، ہمیں یسوع کے الفاظ کی مطابقت میں دعا کرنی چاہیے: ”ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ اس شریر“ یعنی شیطان ابلیس ”سے ہمیں بچا۔“ (متی ۶:۹-۱۳، NW) یوں عملاً ہم خدا سے یہ کہتے ہیں کہ جب ہم اسکی نافرمانی کرنے کے لیے آزمائے جاتے ہیں تو ہمیں ناکام نہ ہونے دے۔ آزمائشوں پر غلبہ پانے کی خاطر حکمت کے لیے بھی وہ ہماری دعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ (یعقوب ۱:۵-۸) یہوواہ کے خادم اس کی مدد کا یقین رکھ سکتے ہیں، کیونکہ پولس نے کہا: ”تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دیگا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) ایسی آزمائش کا مآخذ کیا ہے، اور خدا کسطرح سے نکلنے کی راہ پیدا کر دیتا ہے؟
۱۱، ۱۲. اسرائیلی کن آزمائشوں کا شکار ہو گئے تھے، اور ہم ان کے تجربات سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
۱۱ آزمائش ایسے حالات سے آتی ہے جو ہمیں خدا سے بےوفا ہونے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ پولس نے کہا: ”یہ باتیں ہمارے واسطے عبرت ٹھہریں تاکہ ہم بری چیزوں کی خواہش نہ کریں جیسے [اسرائیلیوں] نے کی۔ اور تم بتپرست نہ بنو جس طرح بعض ان میں سے بن گئے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ لوگ کھانے پینے کو بیٹھے پھر ناچنے کودنے کو اٹھے۔ اور ہم حرامکاری نہ کریں جس طرح ان میں سے بعض نے کی اور ایک ہی دن میں تیئیس ہزار مارے گئے۔ اور ہم [یہوواہ] کی آزمائش نہ کریں جیسے ان میں سے بعض نے کی اور سانپوں نے انہیں ہلاک کیا۔ اور تم بڑبڑاؤ نہیں جس طرح ان میں سے بعض بڑبڑائے اور ہلاک کرنے والے سے ہلاک ہو ئے۔“ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۶-۱۰۔
۱۲ اسرائیلیوں نے نقصاندہ چیزوں کی خواہش کی جب وہ خدا کے ذریعے معجزانہ طور پر فراہمکردہ بٹیر جمع کرنے اور کھانے میں حریص بننے کی آزمائش سے مغلوب ہو گئے- (گنتی ۱۱:۱۹، ۲۰، ۳۱-۳۵) اس سے پہلے وہ بتپرست بن گئے جب موسی کی غیرموجودگی نے بچھڑے کی پرستش میں پڑنے کی آزمائش کو پیدا کر دیا۔ (خروج ۳۲:۱-۶) ہزاروں مارے گئے کیونکہ وہ موآبی عورتوں کے ساتھ حرامکاری کرنے کی آزمائش کا شکار ہو گئے تھے۔ (گنتی ۲۵:۱-۹) جب اسرائیلی آزمائش کے دباؤ میں آ گئے اور سرکش قورح، داتن، ابیرام، اور انکے ساتھیوں کی ہلاکت پر بڑبڑائے تو خدا کی طرف سے بھیجے گئے عذاب سے ۱۴،۷۰۰ لوگ مارے گئے۔ (گنتی ۱۶:۴۱-۴۹) اگر ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ان آزمائشوں میں سے کوئی بھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ اسرائیلی اسکا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو ہم ایسے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ بھی ایسا کر سکتے تھے اگر انہوں نے ایمان دکھایا ہوتا، خدا کی پرمحبت نگہداشت کے احسانمند ہوئے ہوتے، اور اسکی شریعت کی صداقت کی قدر کی ہوتی۔ ایسی صورت میں یہوواہ کا بازو انہیں بچا سکتا تھا، جیسے کہ وہ ہمیں بھی بچا سکتا ہے۔
۱۳، ۱۴. یہوواہ نکلنے کی راہ کیسے پیدا کر دیتا ہے جب اس کے خادم آزمائش کا سامنا کرتے ہیں؟
۱۳ مسیحیوں کے طور پر، ہم بنیآدم کو پیش آنے والی عام آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں۔ تاہم، اسکی مدد کے لیے دعا کرنے اور آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے کوشش کرنے سے ہم خدا کے لیے وفادار رہ سکتے ہیں۔ خدا وفادار ہے، اور وہ ہمیں ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دیگا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔ اگر ہم یہوواہ کے لیے وفادار ہیں، تو ہم اسکی مرضی کو پورا کرنے کو کبھی ناممکن نہیں پائیں گے۔ آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں تقویت دینے سے وہ نکلنے کی راہ پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اذیت اٹھاتے وقت، ہم موت یا دکھ سے بچنے کی امید میں مصالحت کرنے کی آزمائش کا سامنا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہوواہ کے زورآور بازو پر توکل کرتے ہیں، تو آزمائش کبھی بھی ایسے نقطے پر نہیں پہنچتی جہاں پر کہ وہ ہمارے ایمان کو مضبوط نہ کر سکے یا راستی برقرار رکھنے کے لیے ہمیں کافی طاقت نہ دے سکے۔ جیسے کہ پولس رسول نے کہا: ”ہم ہر طرف سے مصیبت تو اٹھاتے ہیں لیکن لاچار نہیں ہو تے۔ حیران تو ہوتے ہیں مگر ناامید نہیں ہوتے۔ ستائے تو جاتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جاتے۔ گرائے تو جا تے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہو تے۔“ ۲-کرنتھیوں ۴:۸، ۹۔
۱۴ یہوواہ اپنی روح کو ایک استاد اور ایک یاد دلانے والے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو سنبھالتا ہے۔ یہ صحیفائی نکات کو ذہن میں لاتی ہے اور یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے انکا اطلاق کیسے کیا جا ئے۔ (یوحنا ۱۴:۲۶) یہوواہ کے وفادار خادم کسی آزمائش میں الجھے ہوئے مسائل کو سمجھتے ہیں اور کوئی غلط روش اختیار کرنے کے لیے دھوکے میں نہیں ہیں۔ خدا نے انہیں آزمائش سے مغلوب ہوئے بغیر موت تک برداشت کرنے کے قابل بنانے سے نکلنے کی راہ پیدا کر دی ہے۔ (مکاشفہ ۲:۱۰) اپنی روح کے ذریعے اپنے خادموں کی مدد کرنے کے علاوہ، یہوواہ اپنی تنظیم کی خاطر اپنے فرشتوں کو بھی استعمال کرتا ہے۔ عبرانیوں ۱:۱۴۔
ذاتی معاملات میں مدد
۱۵. غزلالغزلات میں ہم کونسی ذاتی مدد حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۵ یہوواہ کی تنظیم کے ساتھ رفاقت رکھنے والوں کو ذاتی معاملات میں اسکی مدد حاصل ہے۔ مثال کے طور پر، بعض شاید ایک مسیحی ساتھی کی تلاش میں ہوں۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹) اگر کوئی مایوسی ہے، تو اسرائیل کے بادشاہ سلیمان کی بابت غوروفکر کرنا مفید ہو سکتا ہے۔ وہ شولمیت دوشیزہ کو شادی کیلیے رضامند کرنے میں ناکام ہو گیا کیونکہ وہ ایک ادنیٰ چرواہے کو پیار کرتی تھی۔ بادشاہ کے متعلق اس معاملے کو سلیمان کی مایوس محبت کا گیت کہا جا سکتا ہے۔ اگر ہماری اپنی رومانی کوششیں کسی معاملے میں بےثمر رہ جاتی ہیں تو ہم شاید آنسو بہائیں، لیکن سلیمان مایوسی سے بچ گیا تھا، اور اسی طرح ہم بھی بچ سکتے ہیں۔ خدا کی روح ضبط نفس اور دوسری خدائی صفات ظاہر کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ اسکا کلام اس اکثر تکلیفدہ حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ایک شخص ہر کسی کیلیے رومانی محبت نہیں رکھ سکتا۔ (غزلالغزلات ۲:۷، ۳:۵) تاہم، غزلالغزلات ظاہر کرتی ہے کہ کسی ایسے ساتھی ایماندار کو تلاش کرنا ممکن ہو سکتا ہے جو ہمیں بیحد پیار کرتا ہو۔ اور سب سے بڑھکر یہ ”غزلالغزلات“ اچھے چرواہے، یسوع مسیح، کی ۱۴۴،۰۰۰ ممسوح پیروکاروں کی ”دلہن“ کیلیے اسکی محبت میں تکمیل پاتی ہے۔ غزلالغزلات ۱:۱، مکاشفہ ۱۴:۱-۴، ۲۱:۲، ۹، یوحنا ۱۰:۱۴۔
۱۶. شادیشدہ مسیحیوں کے تجربہ میں آنے والی ”جسمانی تکلیف“ میں کیا شامل ہو سکتا ہے؟
۱۶ یہانتک کہ کسی ایماندار سے شادی کرنے والے بھی ”جسمانی تکلیف“ اٹھاتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۸) شوہر اور بیوی اور انکے بچوں کے سلسلے میں پریشانیاں اور تفکرات پائے جائیں گے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۲-۳۵) بیماری دباؤ اور تکلیف لا سکتی ہے۔ اذیت اور معاشی مشکل شاید ایک مسیحی باپ کے لیے اپنے خاندان کی ضروریاتزندگی مہیا کرنا دشوار بنا دے۔ والدین اور بچے قید کی وجہ سے الگ ہو سکتے ہیں، اور بعض کو اذیت اور موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی یہوواہ کے نجاتبخش بازو پر توکل کرتے ہیں تو اس طرح کے تمام حالات میں ہم ایمان سے انکار کرنے کی آزمائش کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ زبور ۱۴۵:۱۴۔
۱۷. خدا نے اضحاق اور ربقہ کو کن خاندانی مسائل کو برداشت کرنے “کے قابل بنایا؟
۱۷ ہم کو بعض تکلیفوں کو شاید زیادہ دیر تک برداشت کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر، ایک بیٹا کسی بےایمان کو بیاہ لانے سے اپنے خداترس والدین کے لیے غم کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ آبائی سردار اضحاق اور اسکی بیوی ربقہ کے خاندان میں واقع ہوا تھا۔ انکے ۴۰ سالہ بیٹے عیسو نے دو حتی عورتوں سے شادی کر لی جو ”اضحاق اور ربقہ کے لیے وبالجان ہوئیں۔“ درحقیقت، ”ربقہ اضحاق سے کہتی رہی: ”میں حتی لڑکیوں کے سبب سے اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔ سو اگر یعقوب [ان کا دوسرا بیٹا] حتی لڑکیوں میں سے جیسی اس ملک کی لڑکیاں ہیں کسی سے بیاہ کر لے تو میری زندگی میں کیا لطف رہیگا؟““ (پیدایش ۲۶:۳۴، ۳۵، ۲۷:۴۶، NW) ظاہری طور پر، ربقہ کی راستباز جان کے لیے یہ مسلسل مسئلہ اذیت کا موجب تھا۔ (مقابلہ کریں ۲-پطرس ۲:۷، ۸۔) پھربھی، یہوواہ کے بازو نے اضحاق اور ربقہ کو سنبھالے رکھا، اور اسکے ساتھ ایک مضبوط رشتے کو قائم رکھتے ہوئے انہیں اس آزمائش کو برداشت کرنے کے قابل بنایا۔
۱۸. سی۔ٹی۔ رسل نے خدا کی مدد سے کس ذاتی آزمائش کی برداشت کی؟
۱۸ جب ایک بپتسمہیافتہ خاندانی ممبر خدا کی خدمت میں سست پڑ جاتا ہے تو یہ رنج کا باعث ہوتا ہے۔ (مقابلہ کریں ۲-تیمتھیس ۲:۱۵۔) تاہم، بعض نے تو ایک بیاہتا ساتھی کی روحانی موت کو بھی برداشت کیا ہے، جیسے کہ واچٹاور سوسائٹی کے پہلے صدر چارلس ٹی۔ رسل نے کیا۔ اسکی بیوی نے شادی کے تقریباً ۱۸ سال بعد، ۱۸۹۷ میں اسے چھوڑ دیا اور سوسائٹی سے تعلقات منقطع کر لیے۔ اس نے قانونی علیحدگی کے لیے ۱۹۰۳ میں مقدمہ کر دیا، جسے ۱۹۰۸ میں جاری کر دیا گیا تھا۔ اسکا غم واضح تھا جب اس نے ایک ابتدائی خط میں اسے بتایا: ”میں نے آپ کی خاطر خداوند سے سنجیدگی کے ساتھ دعا کی ہے۔ . . . میں آپ کو اپنے غم کی سرگزشتوں کے بوجھ سے دباؤں گا نہیں، اور نہ ہی اپنے جذبات کی خاکہکشی کر کے آپکی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرونگا، جیسے کہ وقتاً فوقتاً آپکے ڈریس اور دیگر چیزیں میرے سامنے آ جاتی ہیں جو آپکی پہلی شخصیت کو واضح طور پر میری نظروں کے سامنے لے آتی ہیں محبت اور ہمدردی اور تعاون سے اتنی بھرپور مسیح کی روح۔ . . . اوہ، جو کچھ میں کہنے والا ہوں اس پر دعائیہ غوروفکر ضرور کریں۔ اور یقین کریں کہ میرے غم کی اتنی شدت، اسکی دلدوزی، زندگی کے باقی سفر کے لیے میری اپنی تنہائی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ جہانتک کہ میں دیکھ سکتا ہوں، میری پیاری، آپ کی لغزش، آپ کے ابدی نقصان کی وجہ سے ہے۔“ اتنے دلی دکھ کے باوجود، رسل کو اپنی زمینی زندگی کے آخر تک خدا کی حمایت حاصل رہی۔ (زبور ۱۱۶:۱۲-۱۵) یہوواہ ہمیشہ اپنے وفادار خادموں کو سنبھالے رکھتا ہے۔
سب دکھوں سے
۱۹. اگر تکلیفدہ مسائل قائم رہتے ہیں تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے؟
۱۹ یہوواہ کے لوگ اسے ”چھڑانے وا لے خدا“ کے طور پر جانتے ہیں جو ”ہر روز ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے۔“ (زبور ۶۸:۱۹، ۲۰) پس، اگر تکلیفدہ مسائل باقی رہتے ہیں، تو آئیے اس کی زمینی تنظیم کے ساتھ رفاقت رکھنے والے مخصوص اشخاص کے طور پر ہم کبھی مایوس نہ ہوں۔ یاد رکھیں کہ ”خدا ہماری پناہ اور قوت ہے۔ مصیبت میں مستعد مددگار۔“ (زبور ۴۶:۱) اس پر ہمارا توکل ہمیشہ اجر پاتا ہے۔ داؤد نے کہا ”میں [یہوواہ] کا طالب ہوا۔ اس نے مجھے جواب دیا اور میری ساری دہشت سے مجھے رہائی بخشی۔ . . . اس غریب نے دہائی دی۔ [یہوواہ] نے اس کی سنی اور اسے اس کے سب دکھوں سے بچا لیا۔“ زبور ۳۴:۴-۶۔
۲۰. غوروخوض کے لیے کونسا سوال باقی رہ جاتا ہے؟
۲۰ جیہاں، ہمارا آسمانی باپ اپنے لوگوں کو سب دکھوں سے بچاتا ہے۔ ذاتی امور میں اور کلیسیائی معاملات میں مدد فراہم کرتے ہوئے، وہ اپنی زمینی تنظیم کی حمایت کرتا ہے۔ بیشک ”[یہوواہ] اپنے لوگوں کو ترک نہیں کریگا۔“ (زبور ۹۴:۱۴) لیکن آئیے ہم دوسرے طریقوں پر غور کریں جن کے ذریعے یہوواہ اپنے لوگوں کی انفرادی طور پر مدد کرتا ہے۔ ہمارا آسمانی باپ اپنے خادموں کو کیسے سہارا دیتا ہے جو بیمار، ذہنی طور پر افسردہ، کسی عزیز کی موت کی وجہ سے غم سے نڈھال، یا اپنی فروگزاشتوں پر مغموم ہیں؟ جیسے کہ ہم دیکھیں گے، ان معاملات میں بھی ہمیں یہوواہ کے زورآور بازو پر توکل کرنے کی وجہ حاصل ہے۔ (۸ ۱/۱۰ w۹۱)
آپ کیسے جواب دیں گے؟
▫ یہوواہ کے بازو نے پرانے وقتوں میں کیسے نجات دلائی ہے؟
▫ آجکل کلیسیا میں یہوواہ اپنے لوگوں کی مدد کیسے کرتا ہے؟
▫ ذاتی امور میں خدا کیا مدد فراہم کرتا ہے؟
▫ اگر تکلیفدہ مسائل قائم رہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
[صفحہ 8، 9 پر تصویر]
خدا اسرائیلیوں کو مصر سے ”زبردست بازو سے نکال لایا