پندرھواں باب
مشورت کو سنیں اور تربیت کو قبول کریں
۱. (ا) ہم سب کو اصلاح اور تربیت کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ (ب) ہمیں کون سے سوال پر غور کرنا چاہئے؟
”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔“ یعقوب ۳:۲ میں پائے جانے والے یہ الفاظ بالکل سچ ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مَیں ہمیشہ خدا کے کلام کی ہدایات کو پوری طرح سے عمل میں لاتا ہوں۔ ہم بائبل کے ان الفاظ کی اہمیت بھی جانتے ہیں کہ ”مشورت کو سُن اور تربیتپذیر ہو تاکہ تُو آخرکار دانا ہو جائے۔“ (امثال ۱۹:۲۰) بِلاشُبہ آپ پاک صحائف کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں کافی تبدیلیاں لا چکے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مسیحی کسی معاملے میں آپ کی اصلاح کرتا ہے تو آپ کیسا ردِعمل دکھائیں گے؟
۲. جب آپ کی اصلاح کی جاتی ہے تو آپ کو کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟
۲ ایسی صورت میں کئی لوگوں کا ردِعمل شاید یہ ہو کہ وہ اپنے کئے پر کوئی نہ کوئی بہانا بنائیں یا کسی اَور کو قصوروار ٹھہرائیں۔ یا پھر شاید وہ کہیں کہ مَیں نے اتنی بڑی غلطی تو نہیں کی۔ اس طرح کا ردِعمل دکھانے کی بجائے یہی بہتر ہوگا کہ ہم اصلاح کو فوراً قبول کر لیں۔ (عبرانیوں ۱۲:۱۱) ظاہری بات ہے کہ اصلاح کرنے والے کو دوسروں سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ اُن سے آئندہ کوئی خطا نہ ہوگی۔ اور نہ ہی اُسے ہر ایک چھوٹیموٹی بھول کی وجہ سے دوسروں کی تنبیہ کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ اُسے ایسے معاملات میں دخلاندازی نہیں کرنی چاہئے جن میں بائبل کے مطابق ہر شخص کو اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرنے کی اجازت ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصلاح کرنے والا معاملے کی تفصیل سے آگاہ نہیں ہے۔ چنانچہ ہم احترام کے ساتھ اُسے سمجھا سکتے ہیں کہ ہم نے ایک خاص روِش کیوں اختیار کی ہے۔ لیکن فرض کریں کہ جو صلاح یا نصیحت آپ کو دی جاتی ہے یہ واجب ہے اور پاک صحائف کی بِنا پر دی جاتی ہے۔ اس صورت میں آپ کیا کریں گے؟
بُری مثالیں
۳، ۴. (ا) مشورہ اور اصلاح کے سلسلے میں صحیح سوچ اپنانے کے لئے بائبل میں ہماری مدد کیسے کی جاتی ہے؟ (ب) جب ساؤل بادشاہ کی تنبیہ کی گئی تو اُس کا کیسا ردِعمل رہا اور اس کا کیا انجام ہوا؟
۳ خدا کے کلام میں کئی ایسے لوگوں کی مثال دی گئی ہے جنہیں یا تو کسی معاملے میں مشورہ دیا گیا یا پھر جن کی کسی غلطی کی وجہ سے اصلاح کی گئی۔ آئیں ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کیسا ردِعمل دکھایا۔ ذرا اسرائیل کے بادشاہ ساؤل کی مثال پر غور کریں۔ عمالیق کی قوم نے خدا کے خادموں کی سخت مخالفت کی تھی۔ اس لئے یہوواہ خدا نے بنیاسرائیل کو حکم کِیا کہ وہ تمام عمالیقیوں کو ہلاک کر ڈالیں اور ان کے جانوروں کو بھی مار ڈالیں۔ لیکن ساؤل بادشاہ نے عمالیقیوں کے بادشاہ کو ہلاک نہ کِیا اور اُن کے اچھے سے اچھے جانوروں کو بھی زندہ رکھا۔—۱-سموئیل ۱۵:۱-۱۱۔
۴ اِس پر یہوواہ خدا نے سموئیل نبی کو ساؤل کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس نافرمانی کے لئے ساؤل کی تنبیہ کرے۔ ساؤل کا کیسا ردِعمل رہا؟ اُس نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ مَیں نے تو عمالیقیوں کو ہلاک کر دیا ہے اور اُن کے بادشاہ کو بھی قید کر لیا ہے۔ لیکن اصل میں اُس نے خدا کے حکم کے خلافورزی کی تھی۔ (۱-سموئیل ۱۵:۲۰) اس کے علاوہ اُس نے جانوروں کو زندہ رکھنے کے سلسلے میں اپنے لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا۔ اُس نے کہا: ”مَیں لوگوں سے ڈرا اور اُن کی بات سنی۔“ (۱-سموئیل ۱۵:۲۴) اُس کی سب سے بڑی فکر یہی تھی کہ میری بدنامی نہ ہو۔ اس لئے اُس نے سموئیل سے درخواست کی کہ لوگوں کے آگے میری عزت کر۔ (۱-سموئیل ۱۵:۳۰) آخرکار یہوواہ خدا نے اُسے بنیاِسرائیل کا بادشاہ ہونے سے رد کر دیا۔—۱-سموئیل ۱۶:۱۔
۵. جب عزیاہ بادشاہ نے تنبیہ کو رد کِیا تو اُس کے ساتھ کیا واقع ہوا؟
۵ یہوداہ کا بادشاہ عزیاہ ”[یہوواہ] اپنے خدا کی نافرمانی کرنے لگا چُنانچہ وہ [یہوواہ] کی ہیکل میں گیا تاکہ بخور کی قربانگاہ پر بخور جلائے۔“ (۲-تواریخ ۲۶:۱۶) لیکن بخور جلانے کا شرف صرف کاہنوں کو حاصل تھا۔ جب سردار کاہن نے اُسے روکنے کی کوشش کی تو عزیاہ بادشاہ بہت غصہ ہوا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ پاک صحائف میں یوں لکھا ہے: ”اُس کی پیشانی پر کوڑھ نکلا . . . کیونکہ [یہوواہ] کی مار اُس پر پڑی تھی۔ چُنانچہ عزؔیاہ بادشاہ اپنے مرنے کے دن تک کوڑھی رہا۔“—۲-تواریخ ۲۶:۱۹-۲۱۔
۶. (ا) ساؤل اور عزیاہ بادشاہ نے تنبیہ قبول کرنے سے کیوں انکار کر دیا تھا؟ (ب) اصلاح کو رد کرنا کیوں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟
۶ ساؤل اور عزیاہ بادشاہ نے تنبیہ قبول کرنے سے کیوں انکار کر دیا تھا؟ کیونکہ وہ مغرور تھے۔ ان دونوں کی طرح آج بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وہ اصلاح کو قبول کریں گے تو دوسروں کے سامنے ان کی کمزوریاں نمایاں ہوں گی یا پھر ان کی بدنامی ہوگی۔ لیکن غرور بذاتِخود ایک کمزوری ہے۔ یہ خامی ایک شخص کی عقل کو اندھا کر دیتی ہے۔ لہٰذا وہ اس اصلاح کو رد کرتا ہے جو یہوواہ خدا اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ یہوواہ خدا ہمیں یوں خبردار کرتا ہے: ”ہلاکت سے پہلے تکبّر اور زوال سے پہلے خودبینی ہے۔“—امثال ۱۶:۱۸؛ رومیوں ۱۲:۳۔
اچھی مثالیں
۷. ہم موسیٰ سے کون سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۷ پاک صحائف میں ایسے لوگوں کی مثالیں بھی درج ہیں جنہوں نے مشورہ اور اصلاح کو قبول کِیا تھا۔ ذرا موسیٰ کی مثال پر غور کریں۔ اُس کے سُسر نے دیکھا کہ موسیٰ اپنی ذمہداری کے بوجھ تلے دب رہا ہے۔ اس لئے اُس نے موسیٰ کو صلاح دی کہ وہ اس ذمہداری سے بہتر طور پر کیسے نپٹ سکتا ہے۔ موسیٰ فوراً اپنے سُسر کی صلاح پر چلنے لگا۔ (خروج ۱۸:۱۳-۲۴) اختیار رکھنے کے باوجود موسیٰ اِس مشورے کو مان لینے کے لئے کیوں تیار تھا؟ کیونکہ وہ ایک عاجز شخص تھا۔ ”موسیٰؔ تو رویِزمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔“ (گنتی ۱۲:۳) ہمارے لئے یہ کتنا اہم ہے کہ ہم حلیم ہوں؟ صفنیاہ ۲:۳ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اس خوبی کی بِنا پر ہی نجات پا سکتے ہیں۔
۸. (ا) داؤد نے کون سے سنگین گُناہ کئے تھے؟ (ب) جب ناتن نبی نے داؤد کی تنبیہ کی تو اُس نے کیسا ردِعمل دکھایا؟ (پ) داؤد کے گُناہوں کے کون سے بُرے نتائج نکلے؟
۸ داؤد بادشاہ نے بتسبع کے ساتھ زِنا کِیا۔ اپنے گُناہ کو چھپانے کے لئے اُس نے بتسبع کے شوہر اوریاہ کو مروا ڈالا۔ جب یہوواہ خدا نے ناتن نبی کے ذریعے داؤد کی تنبیہ کی تو داؤد فوراً تائب ہوا۔ اُس نے ہچکچائے بغیر تسلیم کِیا کہ ”مَیں نے [یہوواہ] کا گُناہ کِیا۔“ (۲-سموئیل ۱۲:۱۳) چونکہ داؤد نے دل سے توبہ کی اس لئے یہوواہ خدا نے اُسے معاف کر دیا۔ البتہ خدا نے اُسے بدکاری کے بُرے نتائج سے نہیں بچائے رکھا۔ اُس نے داؤد سے کہا کہ اُس کے ”گھر سے تلوار کبھی الگ نہ ہوگی۔“ داؤد کی ’بیویاں اُس کے ہمسایہ کو دی جائیں گی۔‘ اور وہ لڑکا جو اس زِنا کے نتیجے میں پیدا ہوگا ”مر جائے گا۔“—۲-سموئیل ۱۲:۱۰، ۱۱، ۱۴۔
۹. جب ہماری اصلاح یا تنبیہ کی جاتی ہے تو ہمیں کونسی بات یاد رکھنی چاہئے؟
۹ داؤد بادشاہ اصلاح کو قبول کرنے کے فائدوں سے خوب واقف تھا۔ اُس نے کئی موقعوں پر خدا کا شکر ادا کِیا کہ اُس نے اپنے ایک خادم کو اُس کی اصلاح کرنے کو بھیجا۔ (۱-سموئیل ۲۵:۳۲-۳۵) کیا ہم بھی اصلاح کے بارے میں ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اکثر ہم کوئی غلط بات کہنے یا کوئی غلط کام کرنے سے بچے رہیں گے۔ اور اگر ہماری اصلاح یا تنبیہ کی جائے تو ہم یاد رکھیں گے کہ تنبیہ یہوواہ کی محبت کا اظہار ہے۔ وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔—امثال ۳:۱۱، ۱۲؛ ۴:۱۳۔
خوبیاں پیدا کریں
۱۰. یسوع کے کہنے کے مطابق بادشاہت میں داخل ہونے کے لئے کون سی خوبی ضروری ہے؟
۱۰ یہوواہ خدا کے قریب رہنے اور اپنے مسیحی بہنبھائیوں کیساتھ اچھے تعلقات بڑھانے کے لئے ہمیں چند خاص خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح نے ان خوبیوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بچے کو اپنے شاگردوں کے بیچ میں کھڑا کِیا اور کہا: ”اگر تُم توبہ نہ کرو اور بچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے۔ پس جو کوئی اپنے آپ کو اِس بچے کی مانند چھوٹا بنائے گا وہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہوگا۔“ (متی ۱۸:۳، ۴) یسوع نے اپنے شاگردوں کو عاجز بننے کی نصیحت کیوں کی؟ اس لئے کہ شاگرد اس بات پر بحث کِیا کرتے تھے کہ ان میں سے سب سے بڑا کون ہے۔—لوقا ۲۲:۲۴-۲۷۔
۱۱. (ا) ہمیں کن کے ساتھ فروتنی سے پیش آنا چاہئے اور اس کی کیا وجہ ہے؟ (ب) اگر ہم واقعی فروتن ہیں تو مشورہ یا نصیحت پانے پر ہمارا ردِعمل کیا رہے گا؟
۱۱ پطرس رسول نے لکھا: ”تُم . . . سب کے سب ایک دوسرے کی خدمت کے لئے فروتنی سے کمربستہ رہو اس لئے کہ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۵) ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمیں خدا کی خدمت کے لئے فروتن یعنی عاجز ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس صحیفے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے ساتھ بھی فروتنی سے پیش آنا چاہئے۔ مثال کے طور پر ہم اُس وقت خفا نہیں ہوں گے جب وہ ہمیں کوئی مشورہ یا نصیحت دیں گے۔ اس کی بجائے ہم اُن کی اصلاح کو قبول کریں گے۔—امثال ۱۲:۱۵۔
۱۲. (ا) عاجزی کی خوبی پیدا کرنے کے علاوہ ہمیں اَور کیا کرنا چاہئے؟ (ب) ہمیں اس بات کا خیال کیوں رکھنا چاہئے کہ ہمارے چالچلن کا دوسروں پر کیا اثر ہوگا؟
۱۲ عاجزی کی خوبی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ ہم دوسروں کا لحاظ رکھیں۔ پولس رسول نے لکھا: ”کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی۔ . . . پس تُم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔ تُم نہ یہودیوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنو نہ یونانیوں کے لئے نہ خدا کی کلیسیا کے لئے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۴-۳۳) پولس رسول یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ہمیں کبھی بھی اپنی پسند کے مطابق نہیں چلنا چاہئے۔ اُس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں اپنے چالچلن کے ذریعے کسی کو ایسے کام کرنے پر نہیں اُکسانا چاہئے جو اُس کے ضمیر کے خلاف ہوں۔
۱۳. کون سی صورتحال میں ظاہر ہوگا کہ آیا ہم پاک صحائف کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟
۱۳ ہمیشہ اپنی منمانی کرنے کی بجائے کیا آپ دوسروں کا لحاظ رکھتے ہیں؟ ہم سب کو ایسا کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ کپڑوں، بالوں اور بناؤسنگھار کا سٹائل ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ پاک صحائف میں تو محض حیادار اور صافستھرا رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس ہدایت کے پابند رہ کر ہر ایک اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کیا پہنے گا اور کیسا بناؤسنگھار کرے گا۔ لیکن فرض کریں کہ آپ کے علاقے میں رہنے والے لوگ اپنے پسمنظر کی وجہ سے آپ کے کپڑوں یا بناؤسنگھار کے سٹائل پر اعتراض کریں۔ شاید وہ اس وجہ سے بادشاہت کی خوشخبری سننے سے بھی انکار کر دیں۔ ایسی صورتحال میں کیا آپ اپنے سٹائل میں تبدیلیاں لانے کو تیار ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ دوسروں کو ہمیشہ کی زندگی کی راہ پر لانا اپنی مرضی کرنے سے زیادہ اہم ہے۔
۱۴. فروتن ہونا اور دوسروں کا لحاظ رکھنا اتنا اہم کیوں ہے؟
۱۴ فروتن ہونے اور دوسروں کا لحاظ رکھنے میں یسوع مسیح نے عمدہ مثال قائم کی۔ یہاں تک کہ اُس نے ایک موقعے پر اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے۔ (یوحنا ۱۳:۱۲-۱۵) خدا کے کلام میں اُس کے بارے میں کہا گیا ہے: ”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔“—فلپیوں ۲:۵-۸؛ رومیوں ۱۵:۲، ۳۔
یہوواہ خدا کی تربیت قبول کریں
۱۵. (ا) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنی شخصیت میں کون سی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے؟ (ب) یہوواہ خدا ہماری تربیت کے لئے ہمیں ہدایات کیسے فراہم کرتا ہے؟
۱۵ چونکہ ہم سب گنہگار ہیں اس لئے ہمیں یہوواہ خدا کی خوبیوں کی عکاسی کرنے کے لئے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ’نئی انسانیت کو پہن لینا‘ چاہئے یعنی اپنی سوچ اور اپنے چالچلن میں تبدیلیاں لانی چاہئیں۔ (کلسیوں ۳:۵-۱۴) نصیحت اور اصلاح کو قبول کرنے سے ہم جان جائیں گے کہ ہمیں اپنی شخصیت میں کون سی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ ایسی تبدیلیاں لانے کے لئے ہمیں کون سے قدم اُٹھانے چاہئیں۔ بائبل میں بہت سی ہدایات پائی جاتی ہیں جو ہماری تربیت کے لئے فائدہمند ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) یہوواہ خدا کی تنظیم مطبوعات اور اجلاسوں کے ذریعے ہماری مدد کرتی ہے تاکہ ہم خدا کے کلام کو درستی سے عمل میں لا سکیں۔ شاید ہم نے کئی نصیحتیں بار بار سنی ہوں۔ کیا ہم پھر بھی ان کی اہمیت کو سمجھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں؟
۱۶. یہوواہ خدا کن طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے؟
۱۶ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہوواہ خدا مسئلوں سے نپٹنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے سے لاکھوں لوگوں نے مدد حاصل کی ہے۔ والدین اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں تاکہ وہ ایسے چالچلن سے کنارہ کریں جو ان کے لئے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ (امثال ۶:۲۰-۲۳) کلیسیا کے افراد تبلیغی کام میں ترقی کرنے کے لئے اکثر بزرگوں سے صلاح لیتے ہیں۔ بزرگ بھی آپس میں مشورہ کرتے ہیں یا کسی تجربہکار مسیحی کی رائے لیتے ہیں۔ روحانی طور پر پُختہ مسیحی حلممزاجی سے کام لیتے ہوئے دوسروں کی اصلاح کرتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ ’اپنا بھی خیال رکھتے ہیں کہ کہیں وہ بھی آزمایش میں نہ پڑ جائیں۔‘ (گلتیوں ۶:۱، ۲) جیہاں، ہم میں سے ہر ایک کو نصیحت اور اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ ہم سچے خدا کی عبادت میں متحد رہ سکیں۔
اِن سوالات پر تبصرہ کریں
• یہوواہ خدا ہماری مدد کیسے کرتا ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ ہمیں اپنی شخصیت میں کون سی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے؟
• اصلاح کو قبول کرنا بہت سے لوگوں کو کیوں مشکل لگتا ہے؟ یہ خامی اس قدر سنگین کیوں ہے؟
• کون سی خوبیاں اصلاح کو قبول کرنے میں ہماری مدد کریں گی؟ یسوع مسیح نے اس سلسلے میں کون سی عمدہ مثال قائم کی؟
[صفحہ ۱۴۳ پر تصویر]
عزیاہ بادشاہ نے تنبیہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اس لئے اُسے سزا کے طور پر کوڑھ لگ گیا
[صفحہ ۱۴۲ پر تصویر]
موسیٰ نے اپنے سُسر کی صلاح قبول کی