”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
1-7 اپریل
پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-کُرنتھیوں 7-9
”غیرشادیشُدہ رہنا ایک نعمت ہے“
(1-کُرنتھیوں 7:32) مَیں چاہتا ہوں کہ آپ بےفکر رہیں۔ غیرشادیشُدہ آدمی کو ہمارے مالک کے معاملوں کی فکر رہتی ہے یعنی یہ کہ وہ ہمارے مالک کو کیسے خوش کرے۔
غیرشادیشُدہ رہنا ایک نعمت کیسے ہے؟
اکثر شادیشُدہ لوگوں کی نسبت غیرشادیشُدہ لوگوں کی ذمہداریاں کم ہوتی ہیں۔ اُن کے پاس زیادہ وقت ہوتا ہے۔ (1-کر 7:32-35) اِس وجہ سے وہ کلیسیا کے بہنبھائیوں کی مدد کرنے اور اپنی خدمت بڑھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ نیز وہ یہوواہ خدا کے اَور زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔ اِن فائدوں کے پیشِنظر کچھ مسیحیوں نے یا تو ساری عمر یا پھر تھوڑے عرصے کے لئے غیرشادیشُدہ رہنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ لیکن بعض نے شادی تو کی مگر طلاق یا اپنے جیونساتھی کی وفات کی وجہ سے اکیلے ہو گئے۔ اِس کے علاوہ بعض کنوارے مسیحی شادی کرنا چاہتے تھے مگر کسی وجہ سے اُن کی شادی نہیں ہوئی۔ ایسے مسیحی اپنےاپنے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ سمجھ گئے کہ وہ یہوواہ کی مدد سے خوشی کے ساتھ غیرشادیشُدہ رہ سکتے ہیں۔—1-کر 7:37، 38۔
(1-کُرنتھیوں 7:33، 34) لیکن شادیشُدہ آدمی کو اِس دُنیا کے معاملوں کی فکر رہتی ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی بیوی کو کیسے خوش کرے 34 اور وہ بٹا ہوتا ہے۔ اِسی طرح غیرشادیشُدہ عورت اور کنواری عورت کو ہمارے مالک کی فکر رہتی ہے یعنی وہ جسمانی اور ذہنی طور پر پاک رہنا چاہتی ہے۔ لیکن شادیشُدہ عورت کو اِس دُنیا کے معاملوں کی فکر رہتی ہے یعنی یہ کہ وہ اپنے شوہر کو کیسے خوش کرے۔
کرنتھیوں کے نام خطوط سے اہم نکات
7:33، 34—شادیشُدہ مرد اور عورت کے ”دُنیا کی فکر“ میں رہنے سے کیا مُراد ہے؟ یہاں پولس رسول روزمرّہ زندگی کی اُن چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے جن کی بابت فکرمند ہونا یقینی ہے۔ اِن میں خوراک، لباس اور رہائش جیسی چیزیں شامل ہیں۔ لیکن ان میں دُنیا کی وہ بُری چیزیں شامل نہیں جن سے مسیحی دُور رہتے ہیں۔—1-یوح 2:15-17۔
(1-کُرنتھیوں 7:37، 38) لیکن اگر کسی نے دل میں عزم کر لیا ہے کہ وہ شادی نہیں کرے گا اور اپنے فیصلے پر قائم ہے کیونکہ اُسے شادی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور وہ اپنے نفس پر قابو رکھ سکتا ہے تو وہ غیرشادیشُدہ رہے۔ اِس میں اُسی کا فائدہ ہے۔ 38 جو شخص شادی کرتا ہے، اُس کو بھی فائدہ ہوتا ہے مگر جو شخص شادی نہیں کرتا، اُسے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
کنوارپن—بِلاانتشار کارگزاری کی راہ
وہ کنوارا مسیحی جو اپنی غیرشادیشُدہ حالت کو خودغرضانہ نشانے حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے وہ شادیشُدہ مسیحی سے ”اَور بھی اچھا“ نہیں کرتا۔ وہ ”بادشاہی کے لئے“ نہیں بلکہ ذاتی وجوہات کی بِنا پر کنوارا رہ رہا ہے۔ (متی 19:12) غیرشادیشُدہ مرد یا عورت کو ”خداوند کی فکر میں،“ ”خداوند کو راضی“ کرنے کی فکر میں اور ”خداوند کی خدمت میں بےوسوسہ مشغول“ رہنا چاہئے۔ اس کا مطلب یہوواہ اور مسیح یسوع کی خدمت کے لئے غیرمنقسم توجہ دینا ہے۔ صرف ایسا کرنے سے ہی غیرشادیشُدہ مسیحی مرد اور عورتیں شادیشُدہ مسیحیوں کی نسبت ”اَور بھی اچھا“ کرتے ہیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(1-کُرنتھیوں 7:11) اور اگر وہ اپنے شوہر سے علیٰحدگی اِختیار کر بھی لے تو دوسری شادی نہ کرے یا اپنے شوہر سے صلح کر لے۔ اِسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلا نہ جائے۔
طلاق اور علیحدگی کے بارے میں خدا کا نظریہ
کبھی کبھار کسی مسیحی کا جیونساتھی اُس کے لئے انتہائی مشکل صورتحال پیدا کرتا ہے۔ ایسی صورت میں بعض مسیحیوں نے علیحدگی اختیار کرنے یا پھر طلاق لینے کا فیصلہ کِیا حالانکہ اُن کے جیونساتھی نے حرامکاری نہیں کی۔ بائبل کے مطابق ایسے مسیحیوں کو ’یا تو بےنکاح رہنا یاپھر اپنے جیونساتھی سے پھر ملاپ کر لینا چاہئے۔‘ (1-کرنتھیوں 7:11) لہٰذا ایک ایسے مسیحی کو کسی دوسرے شخص سے شادی کرنے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ (متی 5:32؛ لوقا 16:18) آئیں کچھ ایسی انتہائی مشکل صورتحال پر غور کریں جن میں بعض مسیحیوں نے علیحدگی اختیار کرنا ضروری سمجھا ہے۔
اگر شوہر خاندان کی ضروریات پوری کرنے سے انکار کرے۔ اگر شوہر اپنے گھرانے کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہے لیکن ایسا نہیں کرتا تو اُس کا گھرانہ غربت سے دوچار ہو سکتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”اگر کوئی . . . اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“ (1-تیمتھیس 5:8) اگر شوہر اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں ہے تو بیوی کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا اُسے اپنی اور اپنے بچوں کی بھلائی کے لئے اپنے شوہر سے علیحدہ ہونا چاہئے یا نہیں۔ اگر ایک مسیحی شوہر پر یہ الزام لگایا جائے کہ وہ اپنے خاندان کی ضروریات پوری نہیں کر رہا ہے تو کلیسیا کے بزرگوں کو معلوم کرنا چاہئے کہ آیا یہ الزام صحیح ہے یا غلط۔ یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ ایک ایسے شوہر کو کلیسیا سے خارج کِیا جا سکتا ہے۔
اگر شوہر یا بیوی کا رویہ پُرتشدد ہو۔ ایک شادیشُدہ شخص کے پُرتشدد رویے کی وجہ سے اُس کے جیونساتھی کی صحت پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے یہاں تک کہ اُس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اگر ایک ایسا پُرتشدد شخص یہوواہ کا گواہ ہے تو کلیسیا کے بزرگوں کو اُس پر عائد کئے گئے الزامات کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے۔ جو شخص غصے میں بےقابو ہو جاتا ہے یا جس کا رویہ پُرتشدد ہے، اُسے کلیسیا سے خارج کِیا جا سکتا ہے۔—گلتیوں 5:19-21۔
اگر مسیحی کے لئے خدا کی عبادت کرنا ناممکن ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک مسیحی کا جیونساتھی اُس کے لئے خدا کی عبادت کرنا ناممکن بنا دے یا اُسے خدا کے حکموں کو توڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے۔ مسیحیوں کے نزدیک ”آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“ اِس لئے ایک ایسے مسیحی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا اُسے خدا کی عبادت کو جاری رکھنے کے لئے اپنے جیونساتھی سے علیحدہ ہونے کی ضرورت ہے یا نہیں۔—اعمال 5:29۔
(1-کُرنتھیوں 7:36) لیکن اگر کسی کو لگتا ہے کہ اُس کے لیے غیرشادیشُدہ رہنا ٹھیک نہیں ہے اور وہ اُس عمر سے بھی گزر چُکا ہے جب جوانی کی خواہشیں زوروں پر ہوتی ہیں تو وہ شادی کر لے۔ اِس میں کوئی گُناہ نہیں، وہ جیسا چاہتا ہے ویسا کرے۔
آپ بداخلاق دُنیا میں پاکدامن رہ سکتے ہیں
لہٰذا، نوجوان جب پہلی بار جنسی بیداری کا تجربہ کرتے ہیں تو اُنہیں جلدبازی میں شادی نہیں کرنی چاہئے۔ شادی ایک ایسے عہد کا مطالبہ کرتی ہے جس کو نبھانے کے لئے پختگی درکار ہے۔ (پیدایش 2:24) بہتر ہے کہ ”جوانی ڈھل“—وہ دَور جب جنسی خواہشات عروج پر ہوتی ہیں اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتی ہیں—جانے تک انتظار کِیا جائے۔ (1-کرنتھیوں 7:36) علاوہازیں، شادی کے خواہشمند کسی بالغ شخص کیلئے محض اس وجہ سے بداخلاقی میں ملوث ہو جانا کہ کوئی مناسب ساتھی دستیاب نہیں ہے کتنی احمقانہ اور گنہگارانہ روش ہوگی!
شاگرد بنانے کی تربیت
ڈبلیو12 15/11 ص. 20
قارئین کے سوال
کیا متی 19:10-12 میں یسوع کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اُن مسیحیوں کو غیر شادیشُدہ رہنے کی نعمت پُراسرار طریقے سے ملتی ہے جو غیرشادیشُدہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں؟
ذرا اُس صورتحال پر غور کریں جس میں یسوع نے غیرشادیشُدہ رہنے کا ذکر کِیا۔ جب فریسی یسوع کے پاس آئے اور اُن سے طلاق کے بارے میں سوال کِیا تو اُنہوں نے شادی کے بارے میں یہوواہ کے معیار کو واضح کِیا۔ حالانکہ شریعت میں ایک مرد کو یہ اِجازت دی گئی تھی کہ اگر وہ اپنی بیوی میں کوئی ”بیہودہ بات“ پائے تو طلاقنامہ دے کر اُسے چھوڑ دے لیکن شروع سے ایسا نہیں تھا۔ (اِست 24:1، 2) پھر یسوع نے کہا: ”جو شخص اپنی بیوی کو حرامکاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کرتا ہے، وہ زِنا کرتا ہے۔“—متی 19:3-9۔
یہ سُن کر شاگردوں نے کہا: ”اگر ایسا ہے تو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے۔“ اِس پر یسوع نے کہا: ”ہر کوئی غیرشادیشُدہ نہیں رہ سکتا بلکہ صرف وہی جسے خدا ایسا کرنے کی طاقت [”نعمت،“ فٹنوٹ] بخشتا ہے۔ کچھ لوگ پیدائشی طور پر نامرد ہیں یا پھر اُنہیں لوگوں نے نامرد بنا دیا ہے اور کچھ لوگ آسمان کی بادشاہت کی خاطر نامرد کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ جو کوئی ایسا کر سکتا ہے، وہ ضرور کرے۔“—متی 19:10-12۔
جو لوگ پیدائشی طور پر نامرد ہوتے تھے، وہ کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے ایسے ہوتے تھے۔ کچھ لوگ کسی حادثے کی وجہ سے ایسے بن جاتے تھے یا لوگ اُنہیں ایسا بنا دیتے تھے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جو خود کو نامرد بنا لیتے تھے۔ اگرچہ وہ شادی کر سکتے تھے لیکن وہ ”آسمان کی بادشاہت کی خاطر“ ضبطِنفس سے کام لیتے تھے اور غیرشادیشُدہ رہنے کا فیصلہ کرتے تھے۔ یسوع مسیح کی طرح اُنہوں نے بھی شادی نہیں کی تاکہ وہ خدا کی بادشاہت کے لیے اپنی زندگی وقف کر سکیں۔ اُنہیں غیرشادیشُدہ رہنے کی نعمت نہ تو پیدائشی طور پر ملی تھی اور نہ ہی بعد میں۔ اُنہوں نے اپنی مرضی سے غیرشادیشُدہ رہنے کا فیصلہ کر کے یہ نعمت حاصل کی تھی۔
یسوع کی اِس بات کی بنیاد پر پولُس رسول نے بھی یہ واضح کِیا کہ تمام مسیحی چاہے وہ شادیشُدہ ہوں یا غیرشادیشُدہ، خدا کی خدمت کر سکتے ہیں۔ لیکن جن مسیحیوں نے ”دل میں عزم کِیا ہے“ کہ وہ غیرشادیشُدہ رہیں گے، اُنہیں اپنی صورتحال کا ”زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔“ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے؟ کیونکہ شادیشُدہ لوگوں کو اپنے شریکِحیات کو خوش کرنے اور اُس کی ضروریات پوری کرنے میں اپنا وقت اور توانائی صرف کرنی پڑتی ہے جبکہ غیرشادیشُدہ مسیحیوں پر یہ ذمےداری نہیں ہوتی اِس لیے وہ مالک کی زیادہ خدمت کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی صورتحال کو خدا کی طرف سے ایک ”نعمت“ خیال کرتے ہیں۔—1-کُر 7:7، 32-38۔
لہٰذا پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ مسیحیوں کو غیرشادیشُدہ رہنے کی نعمت پُراسرار طریقے سے نہیں ملتی۔ اِس کی بجائے جب وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ غیرشادیشُدہ رہیں گے تاکہ وہ اپنی پوری توجہ خدا کی بادشاہت کو فروغ دینے پر دے سکیں تو وہ اِس نعمت کو خود حاصل کرتے ہیں۔ آجکل بہت سے لوگوں نے زیادہ اچھی طرح خدا کی خدمت کرنے کے لیے غیرشادیشُدہ رہنے کا عزم کِیا ہے اور جب دوسرے لوگ ایسا کرنے پر اُن کی حوصلہافزائی کرتے ہیں تو وہ اچھا کرتے ہیں۔
8-14 اپریل
پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-کُرنتھیوں 10-13
”یہوواہ وفادار ہے“
(1-کُرنتھیوں 10:13) آپ نے جن جن آزمائشوں کا سامنا کِیا ہے، وہ انوکھی نہیں ہیں بلکہ دوسروں پر بھی آتی ہیں۔ لیکن خدا وعدے کا پکا ہے اور وہ آپ کو کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو آپ کی برداشت سے باہر ہو بلکہ وہ ہر آزمائش کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ بھی نکالے گا تاکہ آپ ثابتقدم رہ سکیں۔
قارئین کے سوال
پولُس رسول نے لکھا کہ یہوواہ ”آپ کو کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو آپ کی برداشت سے باہر ہو۔“ (1-کُرنتھیوں 10:13) کیا اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ اِس بات کا اندازہ لگاتا ہے کہ ہم کن آزمائشوں کو برداشت کرنے کے قابل ہیں اور پھر اِس کے مطابق طے کرتا ہے کہ ہم پر کون سی آزمائشیں آئیں گی؟
▪ ایسے نظریے کا بڑا منفی اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک بھائی کے بیٹے نے خودکُشی کر لی تو اُس بھائی نے سوچا: ”کیا یہوواہ کو لگا کہ مَیں اور میری بیوی اِس دُکھ کو برداشت کر پائیں گے؟ کیا یہ آزمائش اِس لیے ہم پر آئی؟“ سچ تو یہ ہے کہ اِس دَور میں ہم سب پر طرح طرح کی آزمائشیں آتی ہیں۔ تو کیا یہ سوچنا درست ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، یہوواہ کی طرف سے ہوتا ہے؟
پہلا کُرنتھیوں 10:13 پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ پہلے سے اِس بات کا اندازہ نہیں لگاتا کہ ہم کن آزمائشوں کو برداشت کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی یہ طے کرتا ہے کہ ہم پر کون سی آزمائشیں آئیں گی۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم کن چار وجوہات کی بِنا پر یہ کہہ سکتے ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم خود فیصلہ کریں کہ ہم کون سی راہ اِختیار کریں گے۔ (اِستثنا 30:19، 20؛ یشوع 24:15) جب ہم ایسے فیصلے کرتے ہیں جن سے یہوواہ خوش ہوتا ہے تو وہ ہمارے قدموں کی رہنمائی کرتا ہے۔ (امثال 16:9) لیکن جب ہم ایسے فیصلے کرتے ہیں جو یہوواہ کے معیاروں کے خلاف ہوتے ہیں تو ہمیں اِن کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ (گلتیوں 6:7) ذرا سوچیں، اگر یہوواہ خدا پہلے سے طے کرتا کہ ہم پر کون سی آزمائشیں آئیں گی تو کیا ہمیں واقعی فیصلہ کرنے کی آزادی ہوتی؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہوواہ خدا ہمیں حادثوں سے نہیں بچاتا۔ (واعظ 9:11) اکثر ایک شخص اِس وجہ سے کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اِتفاق سے اُس جگہ پر تھا جہاں یہ حادثہ پیش آیا۔ یسوع مسیح نے ایک حادثے کا ذکر کِیا جس میں 18 لوگوں پر ایک بُرج گِرا اور وہ سب مر گئے۔ یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ اِن لوگوں کی موت کے پیچھے خدا کا ہاتھ نہیں تھا۔ (لُوقا 13:1-5) ایسے واقعات تو اِتفاق سے پیش آتے ہیں۔ تو پھر کیا یہ سوچنا سمجھداری کی بات ہے کہ یہوواہ خدا نے پہلے سے طے کِیا ہوتا ہے کہ کسی حادثے میں کون مرے گا اور کون بچے گا؟
تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم سب کو ثابت کرنا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے وفادار ہیں۔ یاد کریں کہ شیطان خدا کے خادموں پر یہ اِلزام لگاتا ہے کہ وہ صرف اِس لیے خدا کے وفادار ہیں کیونکہ خدا اُن کی مدد کرتا ہے۔ شیطان کا دعویٰ ہے کہ اگر ہم پر مصیبتیں آئیں گی تو ہم یہوواہ کے وفادار نہیں رہیں گے۔ (ایوب 1:9-11؛ 2:4؛ مکاشفہ 12:10) اگر یہوواہ ہمیں اِس لیے کچھ آزمائشوں سے بچاتا کیونکہ اُسے لگتا ہے کہ ہم اِن کو برداشت نہیں کر سکیں گے تو کیا شیطان کا پلڑا بھاری نہ ہوتا؟
چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہوواہ خدا ہماری زندگی کے بارے میں سب کچھ پہلے سے جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ ظاہری بات ہے کہ اگر یہوواہ چاہے تو وہ مستقبل میں ہونے والی ایک ایک بات کو جان سکتا۔ (یسعیاہ 46:10) لیکن اُس کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتا۔ (پیدایش 18:20، 21؛ 22:12) اُس نے ہمیں فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔ وہ اِنصافپسند ہے اِس لیے وہ ہماری آزادی کا احترام کرتا ہے۔ لہٰذا وہ ہمارا مستقبل طے کر کے ہمیں اِس آزادی سے محروم نہیں کرتا۔—اِستثنا 32:4؛ 2-کُرنتھیوں 3:17۔
تو پھر پولُس رسول کی اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ یہوواہ ”آپ کو کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو آپ کی برداشت سے باہر ہو“؟ دراصل پولُس آزمائش کے آنے سے پہلے کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ بتا رہے تھے کہ یہوواہ اُس وقت کیا کرتا ہے جب ہم کسی آزمائش سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی بات سے ہمیں یہ تسلی ملتی ہے کہ چاہے ہم پر کسی طرح کی بھی آزمائش آئے، اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کریں گے تو وہ ہمیں اِسے برداشت کرنے کی طاقت دے گا۔ (زبور 55:22) پولُس کی بات دو حقیقتوں پر مبنی ہے۔ آئیں، اِن پر غور کرتے ہیں۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ ہم جن آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں، ”وہ انوکھی نہیں ہیں بلکہ دوسروں پر بھی آتی ہیں۔“ جب تک شیطان کا راج ہے، ہم سب پر آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں گی۔ (1-پطرس 5:8، 9) پہلا کُرنتھیوں 10 باب میں پولُس رسول نے اُن آزمائشوں کا ذکر کِیا جو ویرانے میں بنیاِسرائیل پر آئی تھیں۔ (1-کُرنتھیوں 10:6-11) اِن میں سے کوئی ایسی آزمائش نہیں تھی جو بنیاِسرائیل کی برداشت سے باہر ہوتی۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض اِسرائیلیوں نے اپنی بُری خواہشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے کیونکہ اُنہوں نے اپنے خدا پر بھروسا نہیں کِیا۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ ”خدا وعدے کا پکا ہے۔“ خدا کے بندوں کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُس نے ہمیشہ اپنے اُن بندوں کا خیال رکھا ہے ”جو اُس سے محبت رکھتے اور اُس کے حکموں کو مانتے ہیں۔“ (اِستثنا 7:9) ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنے وعدے پورے کیے۔ (یشوع 23:14) اِس لیے ہم پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ اِن دو وعدوں کو بھی پورا کرے گا: (1) وہ ایک آزمائش کو کبھی اِس حد تک بڑھنے نہیں دے گا کہ ہم اِسے برداشت نہ کر سکیں۔ (2) ”وہ ہر آزمائش کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ بھی نکالے گا۔“
کیا راستہ نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ یہوواہ خدا ہماری آزمائشوں کو دُور کرتا ہے؟ کبھی کبھار وہ ایسا کرتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ پولُس رسول نے کہا تھا کہ ”وہ . . . کوئی نہ کوئی راستہ بھی نکالے گا تاکہ آپ ثابتقدم رہ سکیں۔“ تو پھر خدا ہمارے لیے راستہ کیسے نکالتا ہے؟ وہ ہمیں ثابتقدم رہنے کی طاقت دیتا ہے۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ وہ یہ کن طریقوں سے کرتا ہے۔
▪ ”جب ہم طرح طرح کی مصیبتوں سے گزرتے ہیں تو خدا ہمیں تسلی دیتا ہے۔“ (2-کُرنتھیوں 1:3، 4) وہ اپنے کلام، اپنی پاک روح اور اپنی تنظیم کی مطبوعات کے ذریعے ہمارے دلودماغ کو سکون بخشتا ہے۔—متی 24:45؛ یوحنا 14:16، فٹنوٹ؛ رومیوں 15:4۔
▪ یہوواہ اپنی پاک روح کے ذریعے ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ (یوحنا 14:26) اِس کے ذریعے وہ ہمیں بائبل میں درج ایسے واقعات اور اصول یاد دِلاتا ہے جن کی بِنا پر ہم اچھے فیصلے کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
▪ کبھی کبھار یہوواہ خدا فرشتوں کے ذریعے ہماری مدد کرتا ہے۔—عبرانیوں 1:14۔
▪ اکثر یہوواہ بہن بھائیوں کے ذریعے بھی ہمیں طاقت دیتا ہے جن کی باتوں اور مدد سے ہمیں تسلی ملتی ہے۔—کُلسّیوں 4:11۔
ہم نے 1-کُرنتھیوں 10:13 پر غور کرنے سے کیا سیکھا؟ یہوواہ خدا یہ طے نہیں کرتا کہ ہم پر کون سی آزمائشیں آئیں گی۔ لیکن اگر ہم اُس پر بھروسا کریں گے تو ہم ہر آزمائش برداشت کر سکیں گے۔ ہمیں پکا یقین ہے کہ خدا ہر آزمائش کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ بھی نکالے گا تاکہ ہم ثابتقدم رہ سکیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(1-کُرنتھیوں 10:8) اُن کی طرح حرامکاری بھی نہ کریں کیونکہ اُن کی حرامکاری کی وجہ سے اُن میں سے 23 (تیئیس) ہزار لوگ ایک ہی دن میں ہلاک ہو گئے۔
سوالات از قارئین
پہلا کرنتھیوں 10:8 یہ کیوں کہتی ہے کہ حرامکاری کی وجہ سے ایک ہی دن میں 23،000 اسرائیلی مارے گئے جبکہ گنتی 25:9 کے مطابق یہ تعداد 24،000 ہے؟
ان دو آیات میں دئے گئے مختلف اعدادوشمار کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اصل تعداد 23،000 اور 24،000 کے درمیان کی ہے اسلئے اس عدد کو مکمل کرنے کیلئے دونوں طرح سے بیان کِیا گیا ہے۔
ایک دوسرے امکان پر غور کریں۔ پولس رسول نے شطیم کے علاقے میں واقع ہونے والی اسرائیلیوں کی اس انتباہی سرگزشت کو قدیم کرنتھس کے مسیحیوں کے سامنے بیان کِیا جو بدکار شہر میں رہ رہے تھے۔ اُس نے لکھا: ”ہم حرامکاری نہ کریں جسطرح اُن میں سے بعض نے کی اور ایک ہی دن میں تیئیس ہزار مارے گئے۔“ حرامکاری کرنے کی وجہ سے یہوواہ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بیان کرتے ہوئے پولس نے 23،000 کا عدد پیش کِیا۔—1-کرنتھیوں 10:8۔
تاہم گنتی 25 باب ہمیں بتاتا ہے کہ ”اسرائیلی بعلفغوؔر کو پوجنے لگے۔ تب [یہوواہ] کا قہر بنیاسرائیل پر بھڑکا۔“ پھر یہوواہ نے موسیٰ کو حکم دیا کہ ”قوم کے سب سرداروں کو پکڑ کر [یہوواہ] کے حضور دھوپ میں ٹانگ دے،“ لہٰذا موسیٰ نے بنیاسرائیل کے حاکموں سے کہا کہ اس حکم کی تعمیل کی جائے۔ انجامکار جب فینحاس نے اُس اسرائیلی کے خلاف فوری کارروائی کی جو ایک مدیانی عورت کو اپنے ساتھ لے آیا تھا تو ”بنیاسرائیل میں سے وبا جاتی رہی۔“ سرگزشت اس بیان کیساتھ ختم ہوتی ہے: ”جتنے اس وبا سے مرے اُنکا شمار چوبیس ہزار تھا۔“—گنتی 25:1-9۔
گنتی کی کتاب میں دی گئی تعداد میں یقیناً ”قوم کے سب سردار“ بھی شامل ہونگے جنہیں یہوواہ اور اسرائیلی حاکموں نے قتل کِیا تھا۔ ان سرداروں کی تعداد شاید ایک ہزار کے لگبھگ تھی تب ہی چوبیس ہزار کا عدد حاصل ہوا تھا۔ ان سرداروں یا سپہسالاروں نے خواہ حرامکاری کی یا نہیں تاہم وہ اس تقریب میں ضرور شامل تھے یا اسے منانے کی اجازت دینے کے مرتکب تھے اسلئے یہ کہا گیا کہ وہ ”بعلفغوؔر کو پوجنے لگے۔“
لفظ ”پوجنے“ کی بابت ایک بائبل عالم بیان کرتا ہے کہ ”یہ لفظ نفسانی یا روحانی اخلاقسوزی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔“ اسرائیلی یہوواہ کیلئے محضوص قوم تھے مگر جب وہ ”بعلفغوؔر کو پوجنے لگے“ تو خدا کیساتھ اُن کا یہ رشتہ ختم ہو گیا۔ کوئی 700 سال بعد یہوواہ نے ہوسیع نبی کی معرفت اسرائیلیوں سے کہا: ”وہ بعلفغوؔر کے پاس گئے اور اپنے آپ کو باعثِرسوائی کے لئے مخصوص کِیا اور اپنے اُس محبوب کی مانند مکروہ ہوئے۔“ (ہوسیع 9:10) ایسا کرنے والے سب لوگ سزا کے مستحق تھے۔ اسلئے موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یاد دلایا: ”جوکچھ [یہوواہ] نے بعلفغوؔر کے سبب سے کِیا وہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیونکہ اُن سب آدمیوں کو جنہوں نے بعلفغوؔر کی پیروی کی [یہوواہ] تیرے خدا نے تیرے بیچ سے نابود کر دیا۔“—استثنا 4:3۔
(1-کُرنتھیوں 11:5، 6) اور جو عورت دُعا یا نبوّت کرتے وقت اپنا سر نہیں ڈھانپتی، وہ اپنے سربراہ کو شرمندہ کرتی ہے کیونکہ وہ اُس عورت کی طرح ہوتی ہے جس کا سر منڈوایا گیا ہو۔ 6 اگر ایک عورت اپنا سر نہیں ڈھانپتی تو اُسے اپنے بال بھی کٹوانے چاہئیں۔ لیکن اگر بال کٹوانا یا سر منڈوانا عورت کے لیے شرم کی بات ہے تو اُسے اپنا سر بھی ڈھانپنا چاہیے۔
(1-کُرنتھیوں 11:10) اِسی لیے عورت اپنی تابعداری ظاہر کرنے کے لیے اپنا سر ڈھانپے اور فرشتوں کی خاطر بھی ایسا کرے۔
قارئین کے سوال
کیا ایک بہن کو ایک بھائی کی موجودگی میں بائبل کا مطالعہ کراتے وقت سر ڈھانپنا چاہیے؟
▪ اِس سلسلے میں مینارِنگہبانی 15 جولائی 2002ء میں مضمون ”سوالات از قارئین“ شائع ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اگر ایک بہن کسی بھائی کی موجودگی میں کسی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتی ہے تو اُسے اپنا سر ڈھانپنا چاہیے، چاہے یہ بھائی بپتسمہیافتہ ہو یا پھر غیربپتسمہیافتہ۔ لیکن اِس معاملے پر اَور غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کِیا گیا ہے کہ اِس ہدایت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ایک بہن باقاعدگی سے کسی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتی ہے۔ جب وہ ایک بپتسمہیافتہ بھائی کی موجودگی میں اُس شخص کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتی ہے تو اُسے اپنا سر ڈھانپنا چاہیے۔ اِس طرح وہ کلیسیا میں سربراہی کے سلسلے میں یہوواہ خدا کے بندوبست کے لیے احترام دِکھاتی ہے کیونکہ وہ ایک ایسی ذمےداری نبھا رہی ہوتی ہے جو عام طور پر ایک بھائی نبھاتا ہے۔ (1-کر 11:5، 6، 10) یا پھر اگر بھائی بائبل کا مطالعہ کرانے کے لائق ہے تو بہن سر ڈھانپنے کی بجائے اُسے مطالعہ کرانے کے لیے کہہ سکتی ہے۔
لیکن اگر بہن ایک غیربپتسمہیافتہ بھائی کی موجودگی میں کسی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتی ہے اور یہ بھائی اُس کا شوہر نہیں ہے تو بائبل کے مطابق اُس کے لیے سر ڈھانپنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ اگر بہن چاہے تو اپنے ضمیر کی وجہ سے وہ ایسی صورتحال میں بھی اپنا سر ڈھانپ سکتی ہے۔
22-28 اپریل
پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-کُرنتھیوں 14-16
””خدا سب کا حاکم“ ہوگا“
(1-کُرنتھیوں 15:24، 25) آخر میں جب مسیح نے ہر طرح کی حکومت اور ہر طرح کے اِختیار اور طاقت کو ختم کر دیا ہوگا تو وہ بادشاہت کو اپنے خدا اور باپ کے حوالے کر دے گا۔ 25 کیونکہ وہ بادشاہ کے طور پر اُس وقت تک حکمرانی کرے گا جب تک خدا تمام دُشمنوں کو اُس کے پاؤں تلے نہ کر دے
”موت کو ختم کر دیا جائیگا“
”آخرت“ مسیح کے ہزارسالہ عہد کا اختتام ہے جب یسوع فروتنی اور وفاداری سے بادشاہت اپنے باپ اور خدا کے حوالہ کر دیتا ہے۔ (مکاشفہ 20:4) خدا کا یہ مقصد کہ ”مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہو جائے“ تکمیل پا چکا ہوگا۔ (افسیوں 1:9، 10) تاہم، پہلے مسیح خدا کی اعلیٰ مرضی کے مخالف ”ساری حکومت اور سارا اختیار اور قدرت“ کو نیست کر چکا ہوگا۔ اس میں ہرمجدون پر برپا ہونے والے تباہی سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ (مکاشفہ 16:16؛ 19:11-21) پولس کہتا ہے: ”جب تک خدا سب دشمنوں کو اُسکے پاؤں تلے نہیں کر دیتا [مسیح کو] بادشاہی کرنا ضرور ہے۔ آخری دشمن، موت کو ختم کر دیا جائیگا۔“ (1-کرنتھیوں 15:25، 26، اینڈبلیو) جی ہاں، آدم کے گناہ اور موت کے تمام اثرات دُور کر دئے جائینگے۔ پھر ضروری طور پر خدا نے مُردوں کو زندہ کر دینے سے ”قبروں“ کو خالی کر دیا ہوگا۔—یوحنا 5:28۔
(1-کُرنتھیوں 15:26) اور آخری دُشمن یعنی موت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔
کےآر ص. 237 پ. 21
بادشاہت کے ذریعے زمین پر خدا کی مرضی ہوگی
بیماری اور گُناہ کے نتیجے میں اِنسانوں پر جو موت آتی ہے، اُس کے ساتھ کیا ہوگا؟ یہ ہمارا ”آخری دُشمن“ ہے جس کے سامنے تمام عیبدار اِنسان کبھی نہ کبھی بےبس ہو جاتے ہیں۔ (1-کُر 15:26) لیکن یہوواہ اِس دُشمن کے ساتھ کیا کرے گا؟ غور کریں کہ یسعیاہ نبی نے کیا پیشگوئی کی۔ اُنہوں نے لکھا: ”وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کرے گا اور [یہوواہ] خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا۔“ (یسع 25:8) ذرا تصور کریں کہ اُس وقت نہ تو جنازے اُٹھیں گے، نہ قبرستان ہوں گے اور نہ ہی کسی کی آنکھوں سے غم کے آنسو بہیں گے۔ اِس کے برعکس اُس وقت لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہوں گے جب یہوواہ اپنے شاندار وعدے کے مطابق مُردوں کو زندہ کرے گا۔ (یسعیاہ 26:19 کو پڑھیں۔) آخرکار موت کے ہاتھوں لگے بےشمار زخم بھر جائیں گے۔
(1-کُرنتھیوں 15:27، 28) ہاں، خدا نے ”ساری چیزیں اُس کے پاؤں تلے کر دیں۔“ لیکن اگر صحیفوں میں لکھا ہے کہ ”ساری چیزیں اُس کے پاؤں تلے کر دی گئیں“ تو ظاہر ہے کہ اِن میں وہ شامل نہیں ہے جس نے ساری چیزیں مسیح کے تابع کی ہیں یعنی خدا۔ 28 اور جب ساری چیزیں بیٹے کے تابع ہو جائیں گی تو پھر بیٹا خود کو بھی اُس کے تابع کر دے گا جس نے ساری چیزیں اُس کے تابع کیں تاکہ خدا سب کا حاکم ہو۔
خاتمے کے بعد برکتوں کا دَور
مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آخر پر جو صورتحال ہوگی، اُسے بیان کرنے کے لئے اِن سے بہتر الفاظ اَور کوئی نہیں ہو سکتے کہ ”سب میں خدا ہی سب کچھ ہو۔“ لیکن اِس کا مطلب کیا ہے؟ ذرا اُس وقت کے بارے میں سوچیں جب آدم اور حوا بےعیب تھے اور یہوواہ خدا کے عالمگیر خاندان کا حصہ تھے۔ یہوواہ خدا آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات پر براہِراست حکومت کرتا تھا۔ فرشتے اور انسان اُس سے بات کرتے تھے، اُس کی عبادت کرتے تھے اور بہت سے برکتیں حاصل کرتے تھے۔ اُس وقت ’سب میں خدا ہی سب کچھ تھا۔‘
سنہری باتوں کی تلاش
(1-کُرنتھیوں 14:34، 35) عورتیں کلیسیاؤں میں خاموش رہیں کیونکہ اُنہیں بولنے کی اِجازت نہیں۔ اِس کی بجائے وہ تابعدار ہوں جیسا کہ شریعت میں بھی لکھا ہے۔ 35 اگر اُن کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو وہ گھر پر اپنے شوہر سے اِس کے بارے میں پوچھیں کیونکہ کلیسیا میں بات کرنا عورت کے لیے شرم کی بات ہے۔
م12 1/10 ص. 9 پر بکس
کیا پولس رسول نے مجمع میں عورتوں کے بولنے پر پابندی لگائی تھی؟
پولس رسول نے نصیحت کی کہ ”عورتیں کلیسیا کے مجمع میں خاموش رہیں۔“ (1-کرنتھیوں 14:34) اُن کی اِس نصیحت کا کیا مطلب تھا؟ کیا وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ عورتوں میں عقل کی کمی ہوتی ہے؟ جینہیں۔ پولس رسول نے ایسی کئی عورتوں کا ذکر کِیا جنہوں نے دوسروں کو تعلیم دی تھی۔ (2-تیمتھیس 1:5؛ ططس 2:3-5) کرنتھس کی کلیسیا کے نام خط میں پولس رسول نے صرف عورتوں کو ہی خاموش رہنے کی نصیحت نہیں کی تھی۔ اُنہوں نے نبوّت کرنے اور غیرزبان بولنے والے مسیحیوں کو بھی یہ نصیحت کی تھی کہ جب مجمع میں کوئی اَور مسیحی تعلیم دے رہا ہو تو وہ خاموش رہیں۔ (1-کرنتھیوں 14:26-30، 33) ایسا لگتا ہے کہ جو عورتیں نئی نئی مسیحی بنی تھیں، اُنہیں مزید باتیں سیکھنے کا اِتنا شوق تھا کہ وہ مجمع کے دوران مقرر کی بات کاٹ کر اُس سے سوال پوچھتی تھیں جیسا کہ اُس وقت یونانیوں میں عام رواج تھا۔ مجمع میں اِس طرح کے خلل سے بچنے کے لئے پولس رسول نے عورتوں کو نصیحت کی کہ اگر اُن کا کوئی سوال ہو تو ”گھر میں اپنےاپنے شوہر سے پوچھیں۔“—1-کرنتھیوں 14:35۔
(1-کُرنتھیوں 15:53) کیونکہ فانی جسم کو غیرفانی بننا پڑے گا اور جو چیز مر سکتی ہے، اُسے بدلنا پڑے گا تاکہ وہ کبھی نہ مرے۔
آئیٹی-1 ص. 1197، 1198
غیرفانی
یسوع کے ساتھ وارث بننے والے مسیحیوں کو اُسی طرح زندہ کِیا جاتا ہے جس طرح یسوع کو کِیا گیا۔ اُن مسیحیوں کو نہ صرف روحانی مخلوق کے طور پر ہمیشہ کی زندگی دی جاتی ہے بلکہ اُنہیں غیرفانی جسم دیے جاتے ہیں اور وہ کبھی نہیں مرتے۔ چونکہ اُنہوں نے فانی اِنسانی جسم کے ساتھ زندگی گزاری، وفاداری سے خدا کی خدمت کی اور فوت ہوئے اِس لیے اُنہیں زندہ کرنے کے بعد غیرفانی روحانی جسم عطا کِیا جاتا ہے جیسے کہ پولُس نے 1-کُرنتھیوں 15:42-54 میں واضح کِیا۔ لہٰذا اِصطلاح کبھی نہ مرنا اُس زندگی کی طرف اِشارہ کرتی ہے جس سے یہ مسیحی لطف اُٹھاتے ہیں یعنی ایسی زندگی جو کبھی فنا اور ختم نہیں ہو سکتی جبکہ اِصطلاح غیرفانی جسم ایک ایسے جسم کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو خدا اُنہیں دیتا ہے یعنی ایسا جسم جو موروثی طور پر تباہوبرباد نہیں ہو سکتا۔ اِس سے ایسا لگتا ہے کہ خدا اُنہیں خود زندہ رہنے کی طاقت دیتا ہے یعنی وہ باقی جسمانی اور روحانی مخلوقات کی طرح دوسری چیزوں سے طاقت حاصل کر کے زندہ نہیں رہتے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ خدا اُن پر کتنا بھروسا کرتا ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خدا کے اِختیار سے باہر ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے سربراہ مسیح یسوع کی طرح اپنے باپ کی مرضی اور ہدایات کے تابع رہتے ہیں۔—1-کُر 15:23-28۔
29 اپریل–5 مئی
پاک کلام سے سنہری باتیں | 2-کُرنتھیوں 1-3
”یہوواہ ”بڑی تسلی بخشتا ہے““
(2-کُرنتھیوں 1:3) ہمارے مالک یسوع مسیح کے باپ اور خدا کی بڑائی ہو جو عظیم رحمتوں کا باپ ہے اور بڑی تسلی بخشتا ہے۔
”اُن کے ساتھ روئیں جو رو رہے ہیں“
یہوواہ خدا نے خود بھی اُس درد کو محسوس کِیا ہے جو کسی عزیز کی موت پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب اُس کے بندے ابراہام، اِضحاق، یعقوب، موسیٰ اور داؤد فوت ہوئے تو اُسے بہت دُکھ ہوا۔ (گنتی 12:6-8؛ متی 22:31، 32؛ اعمال 13:22) بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے اِن وفادار بندوں کو زندہ کرنے کی ”رغبت“ یعنی دلی آرزو رکھتا ہے۔ (ایوب 14:14، 15) جب اُس کے بندے زندہ ہوں گے تو وہ خوش رہیں گے اور ہر لحاظ سے صحتمند ہوں گے۔ یہوواہ خدا نے اپنے پہلوٹھے بیٹے کی موت کا دُکھ بھی سہا ہے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ آسمان پر یہوواہ خدا اور یسوع ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ (امثال 8:22، 30) ہم تو اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے بیٹے کو اِنتہائی دردناک موت مرتے دیکھ کر یہوواہ خدا کو کس قدر تکلیف پہنچی ہوگی۔—یوحنا 5:20؛ 10:17۔
(2-کُرنتھیوں 1:4) جب ہم طرح طرح کی مصیبتوں سے گزرتے ہیں تو خدا ہمیں تسلی دیتا ہے تاکہ جب دوسرے لوگ کسی مصیبت سے گزریں تو ہم اُن کو ویسی ہی تسلی دے سکیں جیسی خدا ہمیں دیتا ہے۔
”اُن کے ساتھ روئیں جو رو رہے ہیں“
کبھی کبھار ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم ایک سوگوار شخص کو تسلی دینے کے لیے کیا کہیں۔ لیکن بائبل میں لکھا ہے کہ ”دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“ (امثال 12:18) بہت سے بہن بھائیوں کو ہماری مطبوعات میں ایسے تسلیبخش الفاظ ملے ہیں جن کے ذریعے وہ دوسروں کو دِلاسا دینے کے قابل ہوئے ہیں۔ لیکن تسلی دینے کے لیے اکثر یہ کافی ہوتا ہے کہ ہم ”اُن کے ساتھ روئیں جو رو رہے ہیں۔“ (رومیوں 12:15) گابی جن کا شوہر فوت ہو گیا ہے، کہتی ہیں: ”کبھی کبھار مَیں صرف رو کر ہی اپنے احساسات کا اِظہار کر سکتی ہوں۔ اِس لیے جب میرے دوست میرے ساتھ مل کر روتے ہیں تو میرا دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ اُس وقت مجھے ایسا لگتا ہے کہ مَیں اکیلی غمزدہ نہیں ہوں بلکہ دوسرے میرے غم میں شریک ہیں۔“
سنہری باتوں کی تلاش
(2-کُرنتھیوں 1:22) اُس نے ہم پر اپنی مُہر بھی لگائی اور ہمارے دلوں میں پاک روح بھی ڈالی جو آنے والی چیزوں کی ضمانت ہے۔
قارئین کے سوال
مسحشُدہ مسیحیوں کو کس بات کی ”ضمانت“ دی جاتی ہے اور اُن پر کیسی ”مُہر“ لگائی جاتی ہے؟—2-کُر 1:21، 22؛ فٹنوٹ۔
▪ ضمانت: ایک لغت کے مطابق 2-کُرنتھیوں 1:22 میں جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”ضمانت“ کِیا گیا ہے، ”یہ قانونی اور کاروباری معاملوں میں اِستعمال ہوتی تھی۔ اِس اِصطلاح کا مطلب ہے: پہلی قسط، بیعانہ، پیشگی رقم۔ یہ رقم کسی چیز کی پوری قیمت کا ایک حصہ تھی جو اُس چیز کو حاصل کرنے سے کچھ وقت پہلے ادا کی جاتی تھی۔ اِس رقم کے ذریعے وہ چیز قانونی طور پر خریدنے والے کی ملکیت ہو جاتی تھی یا ایک معاہدہ قانونی حیثیت اِختیار کر لیتا تھا۔“ 2-کُرنتھیوں 5:1-5 میں بتایا گیا ہے کہ مسحشُدہ مسیحیوں کے سلسلے میں پوری رقم اُس وقت ادا ہوتی ہے جب وہ آسمان پر اِنعام پاتے ہیں یعنی غیرفانی جسم کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں۔ اِس اِنعام کو پانے کے بعد وہ کبھی نہیں مریں گے۔—1-کُر 15:48-54۔
جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”ضمانت“ کِیا گیا ہے، جدید یونانی زبان میں اُس کا تعلق اِصطلاح ”منگنی کی انگوٹھی“ سے ہے۔ اور مسحشُدہ مسیحیوں کے سلسلے میں اِصطلاح ”منگنی کی انگوٹھی“ موزوں بھی ہے کیونکہ اُنہیں ایک گروہ کے طور پر مسیح کی دُلہن کہا گیا ہے۔—2-کُر 11:2؛ مکا 21:2، 9۔
▪ مُہر: پُرانے زمانے میں مُہر ملکیت ظاہر کرنے، معاہدہ طے کرنے اور یہ ظاہر کرنے کے لیے لگائی جاتی تھی کہ ایک چیز خالص یا اصلی ہے۔ مسحشُدہ مسیحیوں پر پاک روح کے ذریعے مُہر لگائی گئی ہے اور یوں وہ خدا کی ملکیت بن گئے ہیں۔ (اِفس 1:13، 14) شروع میں یہ مُہر حتمی نہیں ہوتی۔ دراصل یہ ایک وفادار مسحشُدہ مسیحی کی موت سے کچھ وقت پہلے یا پھر بڑی مصیبت کے شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے حتمی مُہر بن جاتی ہے۔—اِفس 4:30؛ مکا 7:2-4۔
(2-کُرنتھیوں 2:14-16) خدا کا شکر ہے کہ وہ ہمیں مسیح کے ساتھیوں کے طور پر فتح کی پریڈ میں شامل کرتا ہے اور ہمارے ذریعے اپنے علم کی خوشبو ہر طرف پھیلاتا ہے۔ 15 کیونکہ جب ہم مسیح کے بارے میں خوشخبری سناتے ہیں تو ہم خدا کے لیے خوشبو کی طرح ہوتے ہیں۔ اِس خوشبو کو وہ لوگ بھی سُونگھتے ہیں جو نجات پائیں گے اور وہ لوگ بھی جو ہلاک ہوں گے۔ 16 لیکن ہلاک ہونے والوں کے لیے یہ موت کی بُو ہے کیونکہ اُن کے لیے یہ موت کا پیغام ہے جبکہ نجات پانے والوں کے لیے یہ زندگی کی خوشبو ہے کیونکہ اُن کے لیے یہ زندگی کا پیغام ہے۔ مگر ایسی خدمت کرنے کے لائق کون ہے؟
ڈبلیو10 1/8 ص. 23
کیا آپ کو معلوم ہے؟
جب پولُس رسول نے ”فتح کی پریڈ“ کا ذکر کِیا تو وہ کس کی طرف اِشارہ کر رہے تھے؟
▪ پولُس نے لکھا: ”خدا . . . ہمیں مسیح کے ساتھیوں کے طور پر فتح کی پریڈ میں شامل کرتا ہے اور ہمارے ذریعے اپنے علم کی خوشبو ہر طرف پھیلاتا ہے۔ کیونکہ جب ہم مسیح کے بارے میں خوشخبری سناتے ہیں تو ہم خدا کے لیے خوشبو کی طرح ہوتے ہیں۔ اِس خوشبو کو وہ لوگ بھی سُونگھتے ہیں جو نجات پائیں گے اور وہ لوگ بھی جو ہلاک ہوں گے۔ لیکن ہلاک ہونے والوں کے لیے یہ موت کی بُو ہے کیونکہ اُن کے لیے یہ موت کا پیغام ہے جبکہ نجات پانے والوں کے لیے یہ زندگی کی خوشبو ہے۔“—2-کُرنتھیوں 2:14-16۔
پولُس اُس رومی پریڈ کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جو اُس جرنیل کے اعزاز میں منعقد کی جاتی تھی جو دُشمنوں پر فتح حاصل کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر لوٹ کے مال اور قیدیوں کو لوگوں کے سامنے پیش کِیا جاتا تھا اور بیلوں کو قربانی کے لیے لے جایا جاتا تھا جبکہ فاتح جرنیل اور اُس کی فوج لوگوں سے داد وصول کرتی تھی۔ پریڈ کے اِختتام پر بیلوں کو قربان کِیا جاتا تھا اور بہت سے قیدیوں کو ہلاک کر دیا جاتا تھا۔
پولُس نے یہ بھی کہا کہ ”جب ہم مسیح کے بارے میں خوشخبری سناتے ہیں تو ہم خدا کے لیے خوشبو کی طرح ہوتے ہیں۔“ یہ خوشبو کچھ لوگوں کے لیے زندگی کا پیغام ہے اور کچھ کے لیے موت کا۔ ”دی اِنٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل اِنسائیکلوپیڈیا“ کے مطابق جب پولُس نے اِس خوشبو کا ذکر کِیا تو اُن کے ذہن میں ”غالباً بخور جلانے کا رومی دستور تھا جس سے فتح کی پریڈ کا راستہ مہک اُٹھتا تھا۔ یہ خوشبو فتح پانے والوں کی جیت کی نشانی تھی جبکہ قیدیوں کے لیے اِس بات کی یاددہانی تھی کہ شاید اُنہیں ہلاک کر دیا جائے۔“
مسیحیوں کے طور پر زندگی
”یہوواہ سے تعلیم پائیں“
کےآر ص. 189
مبشروں کی تربیت کے پروگرام
بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول
مقصد: اِس سکول کے ذریعے کُلوقتی خادموں (شادیشُدہ جوڑوں، غیرشادیشُدہ بھائیوں اور غیرشادیشُدہ بہنوں) کو خاص تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے لیے اَور اچھی طرح کام کر سکیں۔ اِس سکول سے تربیت پانے والے بہت سے مبشروں کو اپنے ملک میں ایسے علاقوں میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے مبشروں کو جن کی عمر 50 سال سے کم ہوتی ہے، عارضی طور پر خصوصی پہلکار بنا کر دُوردراز علاقوں میں مُنادی کا کام شروع کرنے اور اِسے فروغ دینے کے لیے بھیجا جا سکتا ہے۔
دورانیہ: دو مہینے۔
جگہ: اِس بات کا فیصلہ برانچ کرتی ہے کہ یہ سکول کہاں منعقد ہوگا۔ عام طور پر یہ ہماری کسی عبادتگاہ میں منعقد ہوتا ہے۔
شرائط: ایسے کُلوقتی خادم اِس سکول کے لیے نام لکھوا سکتے ہیں جن کی عمر 23 سے 65 سال ہو، جن کی صحت اچھی ہو، جن کے حالات اُنہیں ایسے علاقے میں جا کر خدمت کرنے کی اِجازت دیتے ہوں جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے اور جن میں یسعیاہ نبی کی طرح یہ جذبہ ہو کہ ”مَیں حاضر ہوں مجھے بھیج۔“ (یسع 6:8) اِس سکول کے لیے نام لکھوانے والے تمام مبشر کم سے کم دو سال سے لگاتار کُلوقتی خدمت کر رہے ہوں۔ شادیشُدہ جوڑوں کی شادی کو کم سے کم دو سال ہو چُکے ہوں۔ بھائی کم سے کم دو سال سے لگاتار کلیسیا میں خادم یا بزرگ کے طور پر خدمت کر رہے ہوں۔ اگر آپ کی برانچ کے علاقے میں یہ سکول منعقد ہوتا ہے تو علاقائی اِجتماع پر ایک اِجلاس ہوگا جس میں اُن مبشروں کے لیے معلومات فراہم کی جائیں گی جو اِس سکول میں نام لکھوانا چاہتے ہیں۔