-
یہوواہ کی طرف سے تسلی کا تجربہ کرنامینارِنگہبانی—1996ء | 1 دسمبر
-
-
آسیہ میں پولس کی مصیبتیں
۱۳، ۱۴. (ا) پولس نے اُس مصیبت کے وقت کو کیسے بیان کِیا جسکا اُس نے آسیہ میں تجربہ کِیا تھا؟ (ب) پولس کے ذہن میں کونسا واقعہ ہوگا؟
۱۳ اب تک کرنتھیوں کی کلیسیا جس قسم کے دُکھ کا تجربہ کر چکی تھی اُس کا اُن بہت سی مصیبتوں سے مقابلہ نہیں کِیا جا سکتا تھا جنہیں پولس نے برداشت کِیا تھا۔ چنانچہ، وہ اُنہیں یاد دلا سکتا تھا: ”اَے بھائیو! ہم نہیں چاہتے کہ تم اُس مصیبت سے ناواقف رہو جو آسیہ میں ہم پر پڑی کہ ہم حد سے زیادہ اور طاقت سے باہر پست ہو گئے۔ یہاں تک کہ ہم نے زندگی سے بھی ہاتھ دھو لئے۔ بلکہ اپنے اُوپر موت کے حکم کا یقین کر چکے تھے تاکہ اپنا بھروسا نہ رکھیں بلکہ خدا کا جو مُردوں کو جِلاتا ہے۔ چنانچہ اُسی نے ہم کو ایسی بڑی ہلاکت سے چھڑایا اور چھڑائیگا۔“—۲-کرنتھیوں ۱:۸-۱۰۔
۱۴ بعض علماء کا خیال ہے کہ پولس افسس میں ہونے والے ہنگامے کی طرف اشارہ کر رہا تھا جس سے پولس اور اُسکے مکدنیہ کے دو سفری ساتھیوں، گِیُس اور اَرسترخس کی زندگیاں ضائع ہو سکتی تھیں۔ ان دو مسیحیوں کو زبردستی ایک تھیئٹر میں لیجایا گیا جو ایسے ہجوم سے کھچاکھچ بھرا تھا جو ”[”تقریباً دو گھنٹے تک چلّاتا رہا،“ اینڈبلیو] کہ افسیوں کی اَرتمس [ایک دیوی] بڑی ہے۔“ بالآخر، شہر کا ایک اہلکار بِھیڑ کو خاموش کرانے میں کامیاب ہوا۔ گِیُس اور اَرسترخس کی زندگیوں کیلئے اس خطرے نے پولس کو بڑا پریشان کِیا ہوگا۔ دراصل، وہ اندر جاکر اس پاگل ہجوم سے استدلال کرنا چاہتا تھا، لیکن اُسے اسطرح سے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے روک دیا گیا۔—اعمال ۱۹:۲۶-۴۱۔
۱۵. ۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۲ میں کس سنگین صورتحال کو بیان کِیا گیا ہوگا؟
۱۵ تاہم، ممکن ہے کہ پولس متذکرۂبالا واقعہ سے کہیں زیادہ شدید صورتحال کو بیان کر رہا ہو۔ کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں، پولس نے پوچھا: ”اگر مَیں انسان کی طرح افسس میں درندوں سے لڑا تو مجھے کیا فائدہ؟“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۲) اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ پولس کی زندگی کو صرف درندہصفت انسانوں ہی سے نہیں بلکہ افسس کے سٹیڈیم میں حقیقی جنگلی جانوروں سے بھی خطرہ تھا۔ بعضاوقات مجرموں کو جنگلی درندوں سے لڑنے پر مجبور کرکے سزا دی جاتی تھی جبکہ خون کی پیاسی بِھیڑ تماشا دیکھتی تھی۔ اگر پولس کا یہ مطلب تھا کہ اُس نے حقیقی جنگلی درندوں کا سامنا کِیا تو اُسے ضرور آخری لمحے پر اس ظالمانہ موت سے معجزانہ طور پر بچا لیا گیا ہوتا جیسےکہ دانیایل کو اصلی شیروں کے مُنہ سے بچا لیا گیا تھا۔—دانیایل ۶:۲۲۔
-
-
یہوواہ کی طرف سے تسلی کا تجربہ کرنامینارِنگہبانی—1996ء | 1 دسمبر
-
-
۱۶. (ا) جو مصیبتیں پولس نے اُٹھائیں بہت سے یہوواہ کے گواہ کس طرح ویسی ہی مصیبتیں اُٹھاتے ہیں؟ (ب) جو لوگ اپنے ایمان کی خاطر مرتے ہیں ہم اُنکے سلسلے میں کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟ (پ) جب مسیحی موت سے بال بال بچنے کا تجربہ کرتے ہیں تو اُسکا کیا اثر ہوا ہے؟
۱۶ دورِحاضر کے بہتیرے مسیحی اُن مصیبتوں کو بیان کر سکتے ہیں جو پولس نے اُٹھائی تھیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۳-۲۷) آجکل، بھی، مسیحی ”حد سے زیادہ اور [اپنی] طاقت سے باہر پست“ رہے ہیں اور بہتوں کو ایسی حالتوں کا سامنا ہوا جن میں وہ ’اپنی زندگیوں کی بابت بہت متذبذب تھے۔‘ (۲-کرنتھیوں ۱:۸) بعض قتلِعام کرنے والوں اور ظالم ایذارسانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا کی تسلیبخش قدرت نے اُنہیں برداشت کرنے کے قابل کِیا تھا اور یہ کہ وہ اپنی اُمید کے بَرآنے پر اپنے دلوں اور ذہنوں کو مُرتکز رکھے ہوئے مرے، خواہ اُنکی اُمید آسمانی تھی یا زمینی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳؛ فلپیوں ۴:۱۳؛ مکاشفہ ۲:۱۰) دیگر واقعات میں، یہوواہ نے بڑی مہارت سے معاملات کو استعمال کِیا ہے اور ہمارے بھائیوں کو موت سے بچا لیا گیا ہے۔ بِلاشُبہ جنہوں نے ایسے بچاؤ کا تجربہ کِیا ہے اُنہوں نے اُس ”خدا“ پر بڑے بھروسے کو فروغ دیا ہے ”جو مُردوں کو جِلاتا ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱:۹) اسکے بعد، جب وہ دوسروں کو خدا کے تسلیبخش پیغامات میں شریک کرتے تو کہیں زیادہ یقین کیساتھ کلام کر سکتے تھے۔—متی ۲۴:۱۴۔
-