یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م92 1/‏2 ص.‏ 13-‏17
  • خاندان کے اندر اور کلیسیا میں رابطہ قائم رکھنا

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • خاندان کے اندر اور کلیسیا میں رابطہ قائم رکھنا
  • مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—1992ء
  • ذیلی عنوان
  • ملتا جلتا مواد
  • دیکھنا، گفتگو کرنا، اور سننا
  • والدین اور بچوں کے مابین رابطہ
  • کلیسیا کے اندر رابطہ
  • نصیحت اور حوصلہ‌افزائی
  • مسیحی خدمتگزاری میں رابطہ
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—1992ء
  • یہوواہ اور مسیح اولین رابطہ‌دان
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—1992ء
  • صحتمندانہ رابطہ ایک مضبوط شادی کی کُنجی
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1999ء
  • ماں‌باپ اور بچے آپس میں پیار سے بات کریں
    مینارِنگہبانی یہوواہ خدا کی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے—2013ء
مزید
مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—1992ء
م92 1/‏2 ص.‏ 13-‏17

خاندان کے اندر اور کلیسیا میں رابطہ قائم رکھنا

‏”‏تمہارا کلام ہمیشہ .‏ .‏ .‏ پرفضل اور نمکین ہو۔“‏—‏کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

۱.‏ جب خدا نے آدم سے حوا کو متعارف کرایا تو اس نے کیا کہا؟‏

‏”‏کوئی آدمی جزیرہ نہیں .‏ .‏ .‏ ہر آدمی کسی براعظم کا ایک حصہ ہے۔“‏ کئی صدیاں گزریں ایک تیزبیں ادیب نے اس طرح سے لکھا۔ ایسا کہنے سے، وہ صرف آدم کی بابت جو کچھ خالق نے کہا تھا اس کی تصدیق کر رہا تھا:‏ ”‏آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔“‏ آدم کلام اور زبان کی بخشش رکھتا تھا، کیونکہ اس نے تمام جانوروں کے نام رکھے تھے۔ لیکن آدم کے ساتھ کوئی اور انسانی مخلوق نہ تھی جس کے ساتھ وہ بات‌چیت کر سکتا۔ کوئی تعجب نہیں کہ جب خدا نے خوبصورت حوا کو اس کی بیوی کے طور پر اس سے متعارف کرایا، تو وہ پکار اٹھا:‏ ”‏یہ تو اب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے!“‏ یوں، جب پہلے خاندان نے اپنا آغاز پایا تو آدم نے ایک ساتھی انسان کے ساتھ بات‌چیت شروع کر دی۔ پیدایش ۲:‏۱۸،‏ ۲۳‏۔‏

۲.‏ بے‌تحاشا ٹیلی‌ویژن دیکھنا کس نقصان پر منتج ہو سکتا ہے؟‏

۲ رابطے کے لیے خاندانی دائرہ ایک بہترین جگہ ہے۔ یقیناً، خاندانی زندگی کی کامیابی کا انحصار ہی اس پر ہے۔ تاہم، رابطہ رکھنے کے لیے وقت اور کوشش درکار ہے۔ آجکل، وقت کے سب سے بڑے چوروں میں سے ایک ٹیلی‌ویژن ہے۔ کم‌ازکم دو طریقوں سے یہ ایک مضر آلہ ہو سکتا ہے۔ ایک طرف، تو یہ اتنا دلفریب ہو سکتا ہے کہ خاندانی ممبر اس کے عادی بن جاتے ہیں، جو رابطے کی کمی کا سبب بنتا ہے۔ اور دوسری طرف، جب غلط فہمیاں یا مجروح جذبات ہوں تو ٹیلی‌ویژن بچ نکلنے کی ایک راہ کا کام دیتا ہے۔ بعض بیاہتا ساتھیوں نے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجا ئے، چپ سادھ جانے اور ٹیلیویژن دیکھنے کا انتخاب کیا ہے۔ پس ٹی‌وی سیٹ رابطے کی ناکامی کے لیے اچھی معاونت کر سکتا ہے، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے بڑا شادی کو تباہ کرنے والا ہے۔ جن کو ٹیلی‌ویژن دیکھنے پر قابو رکھنے میں مشکل ہے وہ مکمل طور پر اس کے بغیر ہی کام چلانے کی بابت سوچ کر اچھا کرتے ہیں۔ متی ۵:‏۲۹،‏ ۱۸:‏۹‏۔‏

۳.‏ ٹی‌وی دیکھنے کو محدود کرنے سے بعض نے کیسے فائدہ اٹھایا ہے؟‏

۳ درحقیقت، اس کی بابت گرمجوش خبریں ملی ہیں کہ جب ٹی‌وی دیکھنے کو کم یا ترک ہی کر دیا گیا تو ایسا کرنا بڑی برکتوں پر منتج ہوا ہے۔ ایک خاندان نے لکھا:‏ ”‏ہم ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ بات‌چیت کرتے ہیں .‏ .‏ .‏، زیادہ بائبل تحقیق کرتے ہیں .‏ .‏ .‏ ہم ملکر کھیلیں کھیلتے ہیں .‏ .‏ .‏ میدانی خدمت کے تمام پہلوؤں میں ترقی ہوئی ہے۔“‏ ٹی‌وی سے اپنا پیچھا چھڑانے کے بعد ایک دوسرے خاندان نے کہا:‏ ”‏نہ صرف ہم پیسہ بچا رہے ہیں[‏وہ کیبل ٹی‌وی کے خریدار تھے]‏ بلکہ ہم خاندان کے طور پر زیادہ نزدیک ہو گئے ہیں اور اپنے وقت کو دیگر سودمند کاموں کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہم کبھی نہیں اکتا تے۔“‏

دیکھنا، گفتگو کرنا، اور سننا

۴.‏ ایک بیاہتا جوڑا کس طرح سے ایک دوسرے کے لیے قدردانی کا اظہار کر سکتا ہے؟‏

۴ خاندان کے اندر رابطے کے مختلف طریقے ہیں۔ بعض بے‌کلام ہیں۔ جب دو شخص صرف ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، تو یہ ایک طرح کا رابطہ ہے۔ ایک ساتھ ہونا پرواہ کرنے کا احساس دے سکتا ہے۔ ساتھیوں کو کسی ناگزیر وجہ کے بغیر ایک دوسرے سے کافی وقت تک الگ رہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایک بیاہتا جوڑا شادی کے بندھن میں جو گہری قربت وہ رکھتے ہیں اس سے محظوظ ہو کر ایک دوسرے کے لیے خوشی کو بڑھا سکتا ہے۔ پیار بھرے مگر باعزت طریقے سے وہ خلوت میں یا سرعام، ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنے سے، آداب‌واطوار اور لباس میں مناسب وقار کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وہ خاموشی سے ایک دوسرے کے لیے گہری قدردانی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے اس کا اظہار ان الفاظ میں کیا:‏ ”‏تیرا سوتا مبارک ہو، اور تو اپنی جوانی کی بیوی کے ساتھ شاد رہ۔“‏ امثال ۵:‏۱۸‏۔‏

۵، ۶.‏ شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ رابطہ رکھنے کی اہمیت سے کیوں باخبر رہنا چاہیے؟‏

۵ رابطہ گفتگو، مکالمے ایک دوسرے کے ساتھ، نہ کہ ایک دوسرے پر گفتگو کرنے کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ جبکہ بعض خواتین مردوں کی نسبت اپنے احساسات کا اظہار کرنے میں بہتر ہیں، اس لیے شوہروں کے لیے یہ خاموش ساتھی بننے کا بہانہ نہیں ہے۔ مسیحی شوہروں کو اس سے باخبر ہونا چاہیے کہ رابطے کی کمی بہت سی شادیوں میں ایک بڑا مسئلہ ہے، اور اس لیے انہیں رابطے کے سلسلوں کو کھلا رکھنے کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے۔ یقیناً، وہ ایسا کریں گے اگر وہ، اپنی بیویوں کے ساتھ ملکر اس عمدہ نصیحت کو سنتے ہیں جو پولس رسول افسیوں ۵:‏۲۵-‏۳۳ میں دیتا ہے۔ ایک شوہر کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ اپنے بدن کیطور پر محبت کرنے کی خاطر، نہ صرف اپنی بلکہ اس کی خوشی اور بہتری کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں، رابطہ ناگزیر ہے۔‏

۶ ایک شوہر کو یہ رحجان نہیں اپنانا چاہیے کہ اسکی بیوی کو خود ہی سمجھنا یا اندازہ لگا لینا چاہیے کہ وہ اسکی قدر کرتا ہے۔ اس کے لیے اسے اپنی محبت کی یقیندہانی کرانے کی ضرورت ہے۔ وہ بہت سے طریقوں سے اپنی قدردانی کا اظہار کر سکتا ہے پیار کے اظہارات اور غیرمتوقع تحائف کے ذریعے، نیز ان تمام معاملات سے اسے پوری طرح باخبر رکھ کر جو شاید اس پر اثرانداز ہوں۔ اپنی بیوی کی تمام کاوشوں کے لیے قدردانی کا اظہار کرنا بھی ایک چیلنج ہے، خواہ وہ اسکی اپنی آرائش‌وزیبائش، خاندان کی خاطر اسکی مشقت، یا روحانی سرگرمیوں کے لیے اس کے مخلص تعاون کے سلسلے میں ہوں۔ اس کے علاوہ، ۱-‏پطرس ۳:‏۷ میں پطرس رسول کی نصیحت ”‏بیوی کے ساتھ عقلمندی سے سے بسر کر نے“‏ پر عمل کرنے کے لیے ایک شوہر کو ہمدردی رکھنی چاہیے، جو باہمی دلچسپی کے تمام معاملات پر اس کے ساتھ بات‌چیت کر نے، نازک ظرف کے طور پر اسے عزت دینے سے ظاہر ہوتی ہے۔ امثال ۳۱:‏۲۸، ۲۹‏۔‏

۷.‏ اپنے شوہر کے ساتھ رابطہ رکھنے کے لیے ایک بیوی کی کیا ذمہ‌داری ہے؟‏

۷ اسی طرح سے، افسیوں ۵:‏۲۲-‏۲۴ میں تابعداری کی بابت نصیحت پر عمل کرنے کے لیے، ایک بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ بات‌چیت کے سلسلے کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنے شوہر کا اپنے کردار اور گفتار دونوں سے ”‏گہرا احترام“‏ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے کبھی سرکشی سے کام نہ لینا چاہیے اس کی خواہشات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ (‏افسیوں ۵:‏۳۳‏، NW)‏ اسکے اور اسکے خاوند کے درمیان، ہمہ وقت رازدارانہ بات‌چیت ہونی چاہیے۔ مقابلہ کریں امثال ۱۵:‏۲۲‏۔‏

۸.‏ رابطے کے سلسلے کو کھلا رکھنے کی خاطر بیویوں کو کیا کرنے کے لیے رضامند ہونا چاہیے؟‏

۸ مزیدبرآں، ایک بیوی کو خودرحمی کے اظہار کے طور پر خاموشی میں تکلیف اٹھانے کے خلاف بے‌حد محتاط رہنا چاہیے۔ اگر کوئی غلط فہمی ہے تو اسے معاملے کو کسی موزوں وقت پر اٹھانے کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ جی‌ہاں، ملکہ آستر سے سبق سیکھیں۔ اس کے پاس اپنے شوہر کی توجہ میں لانے کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔ اس کا موقع‌شناسی اور دانشمندی سے بلا‌تاخیر کام کرنا یہودیوں کے لیے نجات کا مطلب رکھتا تھا۔ اگر ہمیں دکھ پہنچا ہے یا پہنچ رہا ہے تو بات‌چیت کرنے کے لیے ہم پر اور ہمارے بیاہتا ساتھیوں دونوں پر فرض عاید ہوتا ہے۔ موقع‌شناسی اور خدائی مزاح‌فہمی رابطے کو آسان بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ آستر ۴:‏۱۵-‏۵:‏۸‏۔‏

۹.‏ رابطے میں سننا کیا کردار ادا کرتا ہے؟‏

۹ رابطے کے سلسلے کو کھلا رکھنے کے لیے بات‌چیت کے استعمال میں ہر ایک کی ذمہ‌داری میں یہ مضمر ہے کہ جو کچھ دوسرے کو کہنا ہے اس کی سنے اور جو کچھ بغیر کہے رہ گیا ہے اس پر توجہ دینے کی کوشش کرے۔ یہ کلام کرنے والے پر توجہ دینے کا تقاضا کرتا ہے۔ نہ صرف کسی کو مضمون کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کو جذباتی مفہوم پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، یعنی جس طریقے سے کوئی بات کہی جاتی ہے۔ اکثر شوہر اس سلسلے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ چونکہ شوہر توجہ دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں اس لیے بیویاں تکلیف اٹھاتی ہیں۔ اور بیویوں کو بھی اپنے طور پر احتیاط کے ساتھ سننے کی ضرورت ہے تاکہ فوراً نتیجے نکالنے سے بچ سکیں۔ ”‏دانا آدمی سنکر علم میں ترقی کرتا ہے۔“‏ امثال ۱:‏۵‏۔‏

والدین اور بچوں کے مابین رابطہ

۱۰.‏ رابطے میں اپنے بچوں کے ساتھ انصاف کرنے کی خاطر والدین کو کیا کرنے کے لیے رضامند ہونا چاہیے؟‏

۱۰ ایک اور بھی حالت ہے جہاں والدین اور انکے بچے بات‌چیت کرنے میں مشکل پاتے ہیں۔ ”‏لڑکے کی اس راہ پر تربیت کرنا جس پر اسے جانا ہے“‏ رابطے کے سلسلے کو استوار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسا کرنا اس بات کو یقینی بنانے میں مدد دے گا کہ ”‏وہ بوڑھا ہو کر بھی اس سے نہیں مڑیگا۔“‏ (‏امثال ۲۲:‏۶‏)‏ بعض والدین اپنے بچوں کو دنیا کے ہاتھ میں دے بیٹھتے ہیں جس کا تعلق بعض اوقات رابطے کے خلا سے ہوتا ہے جو سن‌بلوغت کے دوران پیدا ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ رابطہ رکھنے کے لیے والدین کی ذمہ‌داری کو استثنا ۶:‏۶، ۷ میں نمایاں کیا گیا ہے:‏ ”‏یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔ اور تو ان کو اپنی اولاد کے ذہن‌نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اٹھتے وقت انکا ذکر کیا کرنا۔“‏ جی‌ہاں، والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت صرف کرنا چاہیے! انہیں اپنے بچوں کے سلسلے میں قربانیاں کرنے کے لیے رضامند ہونا چاہیے۔‏

۱۱.‏ وہ بعض چیزیں کونسی ہیں جو والدین کو اپنے بچوں کو بتانی چاہییں؟‏

۱۱ اولاد والو آپ اپنے بچوں کو بتائیں کہ یہوواہ ان سے محبت رکھتا ہے اور آپ بھی ان سے محبت رکھتے ہیں۔ (‏امثال ۴:‏۱-‏۴‏)‏ آپ ان کی ذہنی، جذباتی، جسمانی، اور روحانی نشوونما کے لیے آرام‌وآسائش اور خوشیوں کو قربان کرنے کے لیے اپنی رضامندی ان پر ظاہر ہونے دیں۔ اس سلسلے میں ہمدردی لازمی ہے، یعنی، اپنے بچوں کی آنکھوں سے معاملات کو دیکھنے کے لیے والدین کی لیاقت۔ آپ جو والدین ہیں بے‌غرضانہ محبت ظاہر کرنے سے، آپ اپنے بچوں کے ساتھ اتحاد کا ایک مضبوط بندھن قائم کر سکتے ہیں، اور ان کی حوصلہ‌افزائی کریں کہ اپنے ہمسروں کو رازدار بنانے کی بجائے آپ سے راز کی بات کہیں۔ کلسیوں ۳:‏۱۴‏۔‏

۱۲.‏ نوجوانوں کو والدین کے ساتھ آزادانہ رابطہ کیوں رکھنا چاہیے؟‏

۱۲ اور دوسری جانب، اے نوجوانو، آپکی ذمہ‌داری ہے کہ اپنے والدین سے رابطہ رکھیں۔ جو کچھ انہوں نے آپکے لیے کیا ہے اسکی قدر کرنا ان کو اپنے اعتماد میں لینے میں آپکی مدد کرے گا۔ آپکو ان کی مدد اور حمایت کی ضرورت ہے، اور ان کے لیے ایسا کرنا آسان ہو گا اگر آپ ان کے ساتھ آزادانہ رابطہ رکھتے ہیں۔ اپنے ہمسروں کو نصیحت کا بنیادی ذریعہ کیوں بنائیں؟ انہوں نے آپکے والدین کے مقابلے میں آپ کے لیے غالباً بہت کم کام کیا ہے۔ ان کو زندگی میں آپ سے زیادہ تجربہ حاصل نہیں ہے، اور اگر وہ کلیسیا کا حصہ نہیں ہیں تو حقیقت میں وہ آپکی ابدی فلاح میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‏

کلیسیا کے اندر رابطہ

۱۳، ۱۴.‏ کونسے بائبل اصول مسیحیوں کے درمیان رابطے کا لازمی سبب بنتے ہیں؟‏

۱۳ کلیسیا کے اندر اپنے بھائیوں کے ساتھ رابطے کے سلسلے کو قائم رکھنا ایک اور چیلنج ہے۔ ہمیں پرزور تلقین کی گئی ہے کہ ”‏ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہو نے“‏ سے باز نہ آئیں۔ ہم کس مقصد کے لیے جمع ہوتے ہیں؟ ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لیے۔“‏ یہ رابطے کا تقاضا کرتا ہے۔ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴، ۲۵‏)‏ اگر کوئی آپ کے دل کو ٹھیس پہنچاتا ہے، تو اجلاس سے دور رہنے کے لیے یہ مطلقاً کوئی وجہ نہیں۔ متی ۱۸:‏۱۵-‏۱۷ میں مندرج یسوع کی طرف سے دی گئی نصیحت کے اصول پر عمل کر کے رابطے کے سلسلے کو کھلا رکھیں۔ اس کے ساتھ بات‌چیت کریں جو آپ کے خیال میں آپکی ناخوشی کا سبب بن رہا ہے۔‏

۱۴ جب آپ کو بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ مشکلات کا سامنا ہو تو ایسی صحیفائی مشورت پر عمل کریں جیسی کہ کلسیوں ۳:‏۱۳ میں پائی جاتی ہے:‏ ”‏اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے [‏یہوواہ]‏ نے تمہارے قصور معاف کیے ویسے ہی تم بھی کرو۔“‏ یہ کسی کے ساتھ بات‌چیت کرنے سے انکار کی بجائے رابطے کا مفہوم دیتا ہے۔ اور اگر آپ کسی کو اپنے لیے سردمہر پاتے ہیں تو متی ۵:‏۲۳، ۲۴ میں پائی جانے والی مشورت پر دھیان دیں۔ رابطہ قائم کریں اور اپنے بھائی کے ساتھ صلح کر لیں۔ یہ آپ کی طرف سے محبت اور فروتنی کا تقاضا کرتا ہے، مگر آپ اور آپ کا بھائی یسوع کی نصیحت پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔‏

نصیحت اور حوصلہ‌افزائی

۱۵.‏ مسیحیوں کو مشورت بہم پہنچانے میں کیوں قاصر نہیں رہنا چاہیے جب وہ ایسا کرنے کی حالت میں ہوں؟‏

۱۵ رابطہ رکھنے کی ذمہ‌داری میں گلتیوں ۶:‏۱ میں پولس کی نصیحت پر عمل کرنا بھی شامل ہے:‏ ”‏اے بھائیو! اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تم جو روحانی ہو اس کو حلم‌مزاجی سے بحال کرو اور اپنا بھی خیال رکھ کہیں تو بھی آزمایش میں نہ پڑ جا ئے۔“‏ جہاں پر ہم نے اپنی بات‌چیت اور چال‌چلن میں غلطی کی ہو وہاں انکساری کو ہمارے لیے نشاندہی کرنے والے شخص کا خیرمقدم کرنے کا سبب بننا چاہیے۔ درحقیقت، ہم سب کو ایسا رحجان رکھنا چاہیے جیسا زبورنویس داؤد رکھتا تھا جب اس نے لکھا:‏ ”‏صادق مجھے مارے تو مہربانی ہو گی وہ مجھے تنبیہ کرے تو گویا سر پر روغن ہو گا میرا سر اس سے انکار نہ کرے۔“‏ (‏زبور ۱۴۱:‏۵‏)‏ بزرگوں کو خاص طور پر فروتنی میں نمایاں مثالیں ہونا چاہیے، اور ذاتی نظریے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے رضامند ہوں کہ ”‏جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پروفا ہیں۔“‏ امثال ۲۷:‏۶‏۔‏

۱۶.‏ جوان مقرروں کو کس قسم کے رابطے کا خیرمقدم کرنا چاہیے؟‏

۱۶ نوجوانوں کی طرف سے یہ دانشمندی اور انکساری کی روش ہے کہ پختہ مسیحیوں سے مشورت اور راہنمائی کے طالب ہوں، جن کے پاس غالباً کچھ تعمیری چیزیں پیش کرنے کو ہوں گی۔ یہاں‌تک کہ بزرگ بھی اس طریقے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک بزرگ نے ایک تقریر میں کہا کہ مکاشفہ ۷:‏۱۶، ۱۷ میں بھوک اور پیاس نہ لگنے کی بابت بیان‌کردہ برکات، وہ چیزیں ہیں جن کے لیے دوسری بھیڑیں نئی دنیا میں منتظر رہ سکتی ہیں۔ تاہم، اس کی نشاندہی کی جا چکی ہے کہ یہ صحیفہ بنیادی‌طورپر موجودہ وقت کے لیے عائد ہوتا ہے۔ (‏دیکھیں ریولیشن اٹس گرینڈ کلائمیکس ایٹ ہینڈ!، صفحات ۱۲۶-‏۱۲۸۔)‏ سامعین میں سے ایک بزرگ نے محسوس کیا کہ اسے‌اس بات کا ذکر کر دینا چاہیے، لیکن اس سے پیشتر کہ وہ ایسا کرنے کا موقع پاتا، مقرر نے خود ہی فون کیا اور اپنی تقریر کو بہتر بنانے کی بابت کچھ مشورے پوچھے۔ جی‌ہاں، آئیے ہم مشورت حاصل کرنے کے لیے اپنی خواہش‌کا ذکر کرکے انکے لیے آسان بنا دیں جو ہماری مدد کرنا پسند کریں گے۔ آئیے ہم بہت زیادہ زودحس اور زودرنج نہ ہوں۔‏

۱۷.‏ ہمارے بھائیوں کی ترقی کے لیے رابطہ کیسے کام دے سکتا ہے؟‏

۱۷ بادشاہ سلیمان نے ایک اصول بیان کیا جو ہماری بحث پر خوب عائد ہو سکتا ہے۔ اس نے کہا:‏ ”‏بھلائی کے حقدار سے اسے دریغ نہ کرنا، جب تیرے مقدور میں ہو۔“‏ (‏امثال ۳:‏۲۷‏)‏ ہم اپنے بھائیوں کے لیے محبت کے مقروض ہیں۔ پولس نے کہا:‏ ”‏آپس کی محبت کے سوا کسی چیز میں کسی کے قرضدار نہ ہو کیونکہ جو دوسرے سے محبت رکھتا ہے اس نے شریعت پر پورا عمل کیا۔“‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۸‏)‏ پس حوصلہ‌افزائی کے اپنے کلمات میں فیاض ہوں۔ کیا کوئی جوان خدمتگزار خادم اپنی پہلی پبلک تقریر دے رہا ہے؟ اس کو شاباش دیں۔ کیا کسی بہن نے اپنی تھیوکریٹک منسٹری سکول کی تفویض میں سخت محنت کی ہے یا نہایت عمدگی سے کام کیا ہے؟ اس پر واضح کریں کہ آپ نے کس قدر اس کی کاوشوں سے لطف اٹھایا ہے۔ ہمارے بہن بھائی بالعموم اپنی پوری کوشش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور قدردانی کے پرمحبت اظہار سے حوصلہ‌افزائی پائیں گے۔‏

۱۸.‏ جہاں پر حد سے زیادہ خوداعتمادی ظاہر کی گئی ہو، وہاں پر کیا کرنا ایک مہربانی ہو گی؟‏

۱۸ اس کے برعکس، ایک جوان مقرر بڑی لیاقت کا مالک ہو سکتا ہے، لیکن جوان ہونے کی وجہ سے، وہ شاید موزوں خوداعتمادی سے کچھ زیادہ ہی ظاہر کرے۔ ایسی صورت میں کس قسم کا رابطہ درکار ہوگا؟ اگر ایک پختہ بزرگ اس کی پیشکش میں ہر طرح کے عمدہ نکات کے لیے اس کو شاباش دے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ، مشفقانہ انداز سے ایسے طریقے تجویز کرے جن کی مدد سے وہ مستقبل میں انکساری پیدا کر سکے، تو کیا ایسا کرنا مہربانی نہ ہوگا؟ ایسا رابطہ برادرانہ محبت کو ظاہر کریگا اور شروع ہی میں خراب اسلوب سے چھٹکارا پانے کے لیے جوان اشخاص کی مدد کرے گا، اس سے پیشتر کہ وہ جڑ پکڑ لیں۔‏

۱۹.‏ بزرگوں اور خاندانی سرداروں کو رابطہ‌دان کیوں ہونا چاہیے؟‏

۱۹ بزرگ ایک دوسرے کے ساتھ اور کلیسیا کے ساتھ ان چیزوں کی بابت رابطہ قائم کرتے ہیں جو فائدہ‌مند ہیں بیشک، رازداری کے معاملات کو ظاہر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے، مثلاً جیسے کہ عدالتی مسائل سے متعلق معاملات۔ تاہم، حد سے زیادہ رازداری کا دلدادہ ہونا، بے‌اعتمادی، اور حوصلہ‌شکنی پر منتج ہوتا ہے اور ایک کلیسیا یا ایک خاندان میں گرمجوش روح کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہر کوئی ایسی خبر کو سن کر خوش ہوتا ہے جو تعمیری ہو۔ جس طرح پولس روحانی نعمتیں دینے کا مشتاق تھا، اسی طرح سے بزرگوں کو آرزومند ہونا چاہیے کہ دوسروں کو تعمیری معلومات دیں۔ امثال ۱۵:‏۳۰،‏ ۲۵:‏۲۵،‏ رومیوں ۱:‏۱۱، ۱۲‏۔‏

۲۰.‏ اگلا مضمون رابطے کے کس پہلو پر بحث کریگا؟‏

۲۰ جی‌ہاں، رابطہ مسیحی کلیسیا اور مسیحی خاندان دونوں میں نہایت اہم ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ایک اور حلقے میں بھی ناگزیر ہے۔ کہاں؟ مسیحی خدمتگزاری میں۔ اگلے مضمون میں، ہم اس نہایت اہم کارگزاری میں اپنے رابطے کی مہارتوں کو بہتر بنانے کے طریقوں پر غور کریں گے۔ (‏۲۰ ۹/۱ w۹۱)‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

▫ خاندانی رابطے میں کثیرالوقوع رکاوٹ پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟‏

▫ کس طرح سے شوہر اور بیویاں رابطے کے چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں؟‏

▫ کس طرح سے والدین اور بچے نسلی خلا سے بچ سکتے ہیں؟‏

▫ کس طرح سے رابطہ کلیسیاؤں اور خاندانوں میں تعمیری ثابت ہو سکتا ہے؟‏

‏[‏تصویر]‏

اچھا رابطہ خاندانی فلاح اور خوشی کو فروغ دیتا ہے

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں