یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م‌زخ‌ح19 مئی ص.‏ 1-‏7
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے
  • ‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2019ء)‏
  • ذیلی عنوان
  • 6-‏12 مئی
  • پاک کلام سے سنہری باتیں | 2-‏کُرنتھیوں 4-‏6
  • ‏”‏ہم ہمت نہیں ہارتے“‏
  • 13-‏19 مئی
  • 20-‏26 مئی
  • 27 مئی–‏2 جون
‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے (‏2019ء)‏
م‌زخ‌ح19 مئی ص.‏ 1-‏7

‏”‏مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“‏ کے حوالے

6-‏12 مئی

پاک کلام سے سنہری باتیں | 2-‏کُرنتھیوں 4-‏6

‏”‏ہم ہمت نہیں ہارتے“‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏16‏)‏ اِس لیے ہم ہمت نہیں ہارتے۔ بے‌شک ہم باہر سے ختم ہوتے جا رہے ہیں لیکن اندر سے دن بہ دن نئے بنتے جا رہے ہیں۔‏

م04 15/‏8 ص.‏ 25 پ.‏ 16، 17

تھکے ہوئے پر ماندہ نہیں

اپنی روحانی صحت کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ جب ہمارا یہوواہ خدا کیساتھ قریبی رشتہ ہوتا ہے تو ہم جسمانی طور پر تو تھکاوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں مگر ہم کبھی بھی اُسکی پرستش کرنے سے نہیں تھکیں گے۔ یہوواہ ہی ”‏تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے اور ناتوان کی توانائی کو زیادہ کرتا ہے۔“‏ (‏یسعیاہ 40:‏28، 29‏)‏ پولس رسول جس نے ذاتی طور پر ان الفاظ کی صداقت کا تجربہ کِیا یوں تحریر کرتا ہے:‏ ”‏ہم ہمت نہیں ہارتے بلکہ گو ہماری ظاہری انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے پھر بھی ہماری باطنی انسانیت روزبروز نئی ہوتی جاتی ہے۔“‏—‏2-‏کرنتھیوں 4:‏16‏۔‏

اظہار ”‏روزبروز“‏ پر غور کریں۔ اسکا مطلب روزانہ یہوواہ کی فراہمیوں سے مستفید ہونا ہے۔ ایک مشنری جس نے 43 سال تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی اُسے جسمانی تھکن اور حوصلہ‌شکنی کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر وہ ماندہ نہیں ہوئی۔ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں نے جلدی اُٹھنے کی عادت بنائی ہوئی ہے تاکہ اپنا کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے مَیں یہوواہ سے دُعا کرنے اور اُسکا کلام پڑھنے کیلئے وقت صرف کر سکوں۔ روزانہ کے اس معمول نے مجھے آج تک برداشت کرنے کے قابل بنایا ہے۔“‏ بِلاشُبہ اگر ہم باقاعدگی سے، جی‌ہاں، ”‏روزبروز“‏ یہوواہ سے دُعا کرتے اور اُسکی اعلیٰ صفات اور وعدوں پر غوروخوض کرتے ہیں تو ہم اُسکی قائم رکھنے کی قوت پر بھروسا رکھ سکتے ہیں۔‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏17‏)‏ ہم جن مصیبتوں کا سامنا کرتے ہیں، وہ تھوڑی دیر کے لیے ہیں اور سخت نہیں ہیں لیکن اِن کے نتیجے میں ہمیں ایسی شان ملے گی جو بڑھتی ہی جائے گی اور ہمیشہ تک رہے گی۔‏

م97 1/‏7 ص.‏ 24 پ.‏ 17

‏”‏یہوواہ اپنے لوگوں کو ترک نہیں کریگا“‏

روح‌القدس یہ سمجھنے میں بھی ہماری مدد کرتا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی کے اجر کیساتھ موازنہ کرنے پر یہ موجودہ مصیبتیں ”‏دم‌بھر کی ہلکی سی“‏ معلوم ہوتی ہیں۔ (‏2-‏کرنتھیوں 4:‏16-‏18‏)‏ ہمیں یقین ہے کہ خدا ہمارے کاموں کو اور اُس محبت کو کبھی فراموش نہیں کریگا جو ہم اُس کیلئے ظاہر کرتے ہیں۔ (‏عبرانیوں 6:‏9-‏12‏)‏ بائبل کے الہامی الفاظ پڑھنے سے، ہم زمانۂ‌قدیم کے اُن ایماندار خادموں کی مثالوں سے تسلی پاتے ہیں جنہوں نے بہت سی مصیبتیں برداشت کیں مگر اُنہیں مبارک کہا گیا۔ یعقوب لکھتا ہے:‏ ”‏اَے بھائیو!‏ جن نبیوں نے خداوند [‏”‏یہوواہ،“‏ این‌ڈبلیو]‏ کے نام سے کلام کِیا اُنکو دُکھ اُٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو۔ دیکھو صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔“‏ (‏یعقوب 5:‏10، 11‏)‏ بائبل آزمائشیں برداشت کرنے کیلئے ہمارے ساتھ ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ کا وعدہ کرتی ہے۔ یہوواہ ہمیں اُمیدِقیامت کی برکت بھی عطا کرتا ہے۔ (‏2-‏کرنتھیوں 1:‏8-‏10؛‏ 4:‏7‏)‏ روزانہ بائبل پڑھنے سے اور ان وعدوں پر غور کرنے سے، ہم اپنے ایمان اور صبر سے یہوواہ کے منتظر رہنے کے عزم کو مضبوط کرینگے۔—‏زبور 42:‏5‏۔‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏18‏)‏ اِس دوران ہم اُن چیزوں پر نظریں نہیں جمائے رکھتے جو دیکھی جا سکتی ہیں بلکہ ہماری نظریں اَن‌دیکھی چیزوں پر جمی ہیں کیونکہ جو چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں، وہ وقتی ہیں جبکہ اَن‌دیکھی چیزیں ابدی ہیں۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏7‏)‏ ہمارے پاس مٹی کے برتنوں میں یہ خزانہ ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ جو قوت ہمیں ملی ہے، وہ اِنسانی قوت سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ قوت خدا کی طرف سے ہے، ہماری طرف سے نہیں۔‏

م17.‏06 ص.‏ 11 پ.‏ 8

روحانی خزانوں کی دل سے قدر کریں

یسوع مسیح نے ہمیں یہ ذمے‌داری دی ہے کہ ہم بادشاہت کی مُنادی کریں اور لوگوں کو اِس کے بارے میں سکھائیں۔ (‏متی 28:‏19، 20‏)‏ پولُس رسول نے اِس ذمے‌داری کے بارے میں کہا کہ یہ مٹی کے برتنوں میں ایک خزانہ ہے۔ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏7؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 1:‏12‏)‏ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہم مٹی کے برتنوں کی طرح ہیں۔ لیکن ہم جو پیغام سناتے ہیں، وہ کسی خزانے سے کم نہیں کیونکہ اِس سے ہم بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو ہمارے پیغام کو قبول کرتے ہیں۔ اِس لیے پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏مَیں دوسروں کو خوش‌خبری سنانے کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏23‏)‏ پولُس رسول نے دوسروں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ ‏(‏رومیوں 1:‏14، 15؛‏ 2-‏تیمُتھیُس 4:‏2 کو پڑھیں۔)‏ وہ بادشاہت کی خوش‌خبری کی اِتنی قدر کرتے تھے کہ وہ ”‏شدید مخالفت کے باوجود“‏ بھی اِسے سناتے رہے۔ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 2:‏2‏)‏ ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 6:‏13‏)‏ لہٰذا مَیں آپ کو اپنے بچے خیال کر کے کہتا ہوں کہ اپنے دلوں میں ہمارے لیے زیادہ جگہ بنائیں۔‏

م09 1/‏11 ص.‏ 24 پ.‏ 7

ایک‌دوسرے کے لئے محبت بڑھائیں

ہم ایک‌دوسرے کے لئے محبت دکھانے میں کشادہ‌دل کیسے بن سکتے ہیں؟ عام طور پر لوگ اپنے ہم‌عمروں یا اپنی نسل کے لوگوں کے لئے محبت دکھانا آسان پاتے ہیں۔ بعض اشخاص اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں جو اُن جیسے شوق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر ہم صرف اُن بہن‌بھائیوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں جن کے مشغلے ہمارے جیسے ہیں اور دوسروں کے ساتھ زیادہ رفاقت نہیں رکھتے تو ہمیں ”‏کشادہ‌دل“‏ بننے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ’‏کیا مَیں مُنادی یا تفریح میں اُن بہن‌بھائیوں کے ساتھ کم وقت صرف کرتا ہوں جن سے میری زیادہ دوستی نہیں ہے؟ کیا مَیں کنگڈم ہال میں آنے والے نئے اشخاص کے بارے میں یہ نظریہ رکھتا ہوں کہ میرے دوست بننے میں ابھی اُنہیں کافی وقت لگے گا؟ کیا مَیں کلیسیا میں نوجوانوں اور بوڑھوں سب سے ملتا ہوں؟‘‏

13-‏19 مئی

پاک کلام سے سنہری باتیں | 2-‏کُرنتھیوں 7-‏10

‏”‏قدرتی آفت سے متاثرہ ہم‌ایمانوں کی خدمت“‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 8:‏1-‏3‏)‏ بھائیو، ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ خدا کی عظیم رحمت نے مقدونیہ کی کلیسیاؤں میں کیا کچھ انجام دیا ہے۔ 2 وہاں کے بہن بھائیوں نے بڑی مصیبتوں اور کڑی آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بڑی خوشی اور فیاضی سے کام لیا حالانکہ وہ بہت ہی غریب ہیں۔ 3 یقین مانیں، جتنا وہ اصل میں دے سکتے تھے، اُنہوں نے اُس سے بھی زیادہ دیا۔‏

ڈبلیو98 1/‏11 ص.‏ 25 پ.‏ 1

‏”‏خدا اُس شخص کو پسند کرتا ہے جو خوش‌دلی سے دیتا ہے“‏

کُرنتھیوں کے نام اپنے دوسرے خط میں پولُس رسول نے اُنہیں مقدونیہ کے مسیحیوں کے بارے میں بتایا جنہوں نے آفت سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے سلسلے میں عمدہ مثال قائم کی تھی۔ پولُس نے لکھا:‏ ”‏وہاں کے بہن بھائیوں نے بڑی مصیبتوں اور کڑی آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بڑی خوشی اور فیاضی سے کام لیا حالانکہ وہ بہت ہی غریب ہیں۔“‏ مقدونیہ کے مسیحیوں کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کی مدد کریں۔ پولُس نے کہا کہ اِس کی بجائے ”‏اُنہوں نے تو ہم سے بار بار اِلتجا کی کہ اُنہیں مُقدس لوگوں کے لیے عطیہ دینے کا شرف دیا جائے۔“‏ مقدونیہ کے مسیحیوں نے جس خوشی اور فیاضی کا مظاہرہ کِیا، وہ واقعی قابلِ‌تعریف تھی کیونکہ وہ خود ”‏بہت ہی غریب“‏ تھے۔—‏2-‏کُرنتھیوں 8:‏2-‏4‏۔‏

کے‌آر ص.‏ 209 پ.‏ 1

آفت سے متاثرہ ہم‌ایمانوں کی خدمت

یہ تقریباً 46ء کا سال تھا جب یہودیہ سخت قحط کی لپیٹ میں تھا۔ اناج کی قیمتیں آسمان کو چُھونے لگیں تھیں اور وہاں رہنے والے مسیحیوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ بھوک سے اِتنے نڈھال ہو گئے تھے کہ اُنہیں زندہ رہنا ناممکن لگنے لگا تھا۔ لیکن بہت جلد وہ یہوواہ خدا کی طرف سے مدد کا ایسا تجربہ کرنے والے تھے جیسا پہلے کسی مسیحی کو نہیں ہوا تھا۔‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 8:‏4‏)‏ اُنہوں نے تو ہم سے بار بار اِلتجا کی کہ اُنہیں مُقدس لوگوں کے لیے عطیہ دینے کا شرف دیا جائے تاکہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ مُقدس لوگوں کی خدمت کر سکیں۔‏

کے‌آر ص.‏ 209، 210 پ.‏ 4-‏6

آفت سے متاثرہ ہم‌ایمانوں کی خدمت

کُرنتھیوں کے نام دوسرے خط میں پولُس رسول نے وضاحت کی کہ مسیحی دو طرح کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ حالانکہ پولُس نے یہ خط مسح‌شُدہ مسیحیوں کو لکھا تھا لیکن اِس میں لکھی باتیں مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ (‏یوح 10:‏16‏)‏ ایک ”‏صلح کرانے کی خدمت“‏ ہے یعنی دوسروں کو مُنادی کرنا اور اُنہیں تعلیم دینا۔ (‏2-‏کُر 5:‏18-‏20؛‏ 1-‏تیم 2:‏3-‏6‏)‏ دوسری ”‏لوگوں کی خدمت“‏ ہے جس میں اپنے ایسے ہم‌ایمانوں کی مدد کرنا شامل ہے جو کسی آفت سے متاثر ہوتے ہیں۔ (‏2-‏کُر 8:‏4‏)‏ دونوں اِصطلا‌حوں ”‏صلح کرانے کی خدمت“‏ اور ”‏لوگوں کی خدمت“‏ میں لفظ ”‏خدمت“‏ کے لیے ایک ہی یونانی لفظ ”‏دیاکونیا“‏ اِستعمال ہوا ہے۔ یہ بات اِتنی اہم کیوں ہے؟‏

دونوں طرح کی خدمت کے لیے ایک ہی یونانی لفظ اِستعمال کرنے سے پولُس نے ظاہر کِیا کہ آفت سے متاثرہ بہن بھائیوں کی خدمت اُن خدمات میں شامل ہے جو کلیسیا میں انجام دی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے کُرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں کہا تھا:‏ ”‏خدمات تو طرح طرح کی ہیں لیکن مالک ایک ہی ہے اور کام تو طرح طرح کے ہیں .‏ .‏ .‏ لیکن یہ سب کام اِسی ایک روح کی مدد سے کیے جاتے ہیں۔“‏ (‏1-‏کُر 12:‏4-‏6،‏ 11‏)‏ اصل میں پولُس نے کلیسیا میں انجام دی جانے والی مختلف خدمات کو ”‏مُقدس خدمت“‏ کے طور پر بیان کِیا۔ (‏روم 12:‏1،‏ 6-‏8‏)‏ اِس لیے اُنہوں نے ”‏مُقدسوں کی خدمت کرنے کے لیے“‏ وقت نکالنا ضروری سمجھا۔—‏روم 15:‏25، 26‏۔‏

پولُس نے کُرنتھس کے مسیحیوں کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ اُن کی خدمت اور یہوواہ کی عبادت کا ایک اہم حصہ آفت سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کرنا ہے۔ ذرا پولُس کی اِس بات پر غور کریں کہ جو مسیحی آفت سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں، وہ ایسا اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ ”‏مسیح کی خوش‌خبری .‏ .‏ .‏ پر عمل“‏ کرتے ہیں۔ (‏2-‏کُر 9:‏13‏)‏ چونکہ مسیحی یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتے ہیں اِس لیے وہ اپنے ہم‌ایمانوں کی مدد کرتے ہیں۔ پولُس نے کہا جب مسیحی اپنے بہن بھائیوں سے مہربانی سے پیش آتے ہیں تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں ”‏خدا کی عظیم رحمت بڑی کثرت سے ملی ہے۔“‏ (‏2-‏کُر 9:‏14؛‏ 1-‏پطر 4:‏10‏)‏ یکم دسمبر، 1975ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں ضرورت‌مند اور آفت سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے حوالے سے بتایا گیا تھا:‏ ”‏ہمیں اِس بات پر کبھی شک نہیں کرنا چاہیے کہ یہوواہ خدا اور اُس کا بیٹا یسوع مسیح ہماری اِس خدمت کو اہم خیال کرتے ہیں۔“‏ واقعی آفت سے متاثرہ بہن بھائیوں کی خدمت کرنا ہماری مُقدس خدمت کا ایک اہم پہلو ہے۔—‏روم 12:‏1،‏ 7؛‏ 2-‏کُر 8:‏7؛‏ عبر 13:‏16‏۔‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 9:‏7‏)‏ ہر شخص ویسے ہی کرے جیسے اُس نے دل میں طے کِیا ہے اور بے‌دلی یا مجبوری سے نہ دے کیونکہ خدا اُس شخص کو پسند کرتا ہے جو خوش‌دلی سے دیتا ہے۔‏

کے‌آر ص.‏ 196 پ.‏ 10

تنظیم کے اخراجات کیسے پورے کیے جاتے ہیں؟‏

خوش‌دلی سے عطیات دینے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ سے پیار کرتے ہیں اور ایسے کام کرنا چاہتے ہیں ”‏جو اُس کو پسند ہیں۔“‏ (‏1-‏یوحنا 3:‏22‏)‏ بے‌شک یہوواہ اپنے اُس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو خوشی اور فیاضی سے عطیات دیتا ہے۔ آئیں، اِس حوالے سے پولُس کے الفاظ پر غور کریں۔ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 9:‏7 کو پڑھیں۔)‏ ایک سچا مسیحی بے‌دلی اور مجبوری سے نہیں بلکہ اِس لیے عطیات دیتا ہے کہ ”‏اُس نے دل میں طے“‏ کِیا ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ پہلے سے سوچتا ہے کہ کس کام کے لیے عطیات کی ضرورت ہے اور وہ اِس سلسلے میں کیا کر سکتا ہے۔ یہوواہ خدا ایسے ”‏شخص کو پسند کرتا ہے جو خوش‌دلی سے دیتا ہے۔“‏ بائبل کے ایک اَور ترجمے میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏خدا خوشی سے دینے والے کو پیار کرتا ہے۔“‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 9:‏15‏)‏ آئیں، اِس ناقابلِ‌بیان نعمت کے لیے خدا کا شکر ادا کریں۔‏

م16‏.‏01 ص.‏ 12 پ.‏ 2

خدا کی ”‏ناقابلِ‌بیان نعمت“‏ سے ترغیب پائیں

پولُس رسول جانتے تھے کہ یسوع مسیح کی قربانی اِس بات کی ضمانت ہے کہ خدا کے تمام شان‌دار وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏20 کو پڑھیں۔)‏ لہٰذا خدا کی ”‏ناقابلِ‌بیان نعمت“‏ صرف یسوع مسیح کی قربانی کی طرف ہی اِشارہ نہیں کرتی۔ اِس میں یہوواہ خدا کی محبت اور اُس کی طرف سے ملنے والی برکتیں بھی شامل ہیں۔ یہ نعمت اِس قدر شان‌دار ہے کہ اِسے لفظوں میں بیان نہیں کِیا جا سکتا۔ اِسے پا کر ہمیں کیسا محسوس کرنا چاہیے؟ اور اِس سے ہمیں مسیح کی یادگاری تقریب سے پہلے کیا کرنے کی ترغیب ملے گی جو کہ 23 مارچ 2016ء کو بدھ کے دن ہوگی؟‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 10:‏17‏)‏ لکھا ہے کہ ”‏جو شخص فخر کرتا ہے، وہ یہوواہ پر فخر کرے۔“‏

جی99 8/‏7 ص.‏ 20، 21

کیا فخر کرنا غلط ہے؟‏

مسیحی یونانی صحیفوں میں جس یونانی فعل کا ترجمہ ”‏فخر کرنا،“‏ ”‏خوش ہونا“‏ یا ”‏شیخی بگھارنا“‏ کِیا گیا ہے، وہ منفی اور مثبت دونوں معنوں میں اِستعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏آئیں، خوش ہوں کیونکہ ہمیں اُمید ہے کہ خدا ہمیں شان‌دار رُتبہ عطا کرے گا۔“‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏جو شخص فخر کرتا ہے، وہ یہوواہ پر فخر کرے۔“‏ (‏رومیوں 5:‏2؛‏ 2-‏کُرنتھیوں 10:‏17‏)‏ یہوواہ پر فخر کرنے کا مطلب ہے کہ ہم اِس بات پر خوش ہیں کہ یہوواہ ہمارا خدا ہے۔‏

20-‏26 مئی

پاک کلام سے سنہری باتیں | 2-‏کُرنتھیوں 11-‏13

‏”‏پولُس کے جسم میں کانٹے کی طرح چبھنے والی تکلیف کیا تھی؟“‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 12:‏7‏)‏ کیونکہ مجھ پر اِتنی حیرت‌انگیز وحیاں نازل ہوئی ہیں۔ دراصل مجھے غرور کے پھندے سے بچانے کے لیے ایک تکلیف دی گئی ہے جو ایک کانٹے کی طرح میرے جسم میں چبھتی رہتی ہے۔ یہ شیطان کا ایک فرشتہ ہے جو مجھے تھپڑ مارتا رہتا ہے تاکہ مَیں مغرور نہ ہو جاؤں۔‏

م08 15/‏6 ص.‏ 3، 4

کمزوریوں کے باوجود زورآور

ایک دوسرے وفادار خادم نے خدا سے اپنے ایک مسئلے کو جو اُس کے ’‏جسم میں کانٹے‘‏ کی مانند تھا ہٹانے کی درخواست کی۔ جی‌ہاں، پولس رسول نے خدا سے تین مرتبہ دُعا کی کہ اُس کی تکلیف کو دُور کر دے۔ کانٹے کی مانند پریشان کرنے والی اِس تکلیف نے یقیناً یہوواہ کی خدمت سے حاصل ہونے والی اُس کی خوشی کو چھین لیا ہوگا۔ پولس نے کہا کہ اِسے برداشت کرنا ایسا تھا کہ گویا کوئی متواتر اُسے مکے مار رہا ہے۔ لیکن غور کریں کہ یہوواہ خدا نے اُس کی دُعا کے جواب میں کیا کہا:‏ ”‏میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔“‏ اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ خدا نے پولس کی تکلیف کو دُور نہ کِیا بلکہ اُسے اِس کے ساتھ ہی جینا پڑا۔ اس لئے رسول کہتا ہے:‏ ”‏جب مَیں کمزور ہوتا ہوں اُسی وقت زورآور ہوتا ہوں۔“‏ (‏2-‏کر 12:‏7-‏10‏)‏ پولس رسول کے اِن الفاظ کا کیا مطلب تھا؟‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 12:‏8، 9‏)‏ مَیں نے مالک سے تین بار اِلتجا کی کہ یہ تکلیف مجھ سے ہٹا لی جائے 9 لیکن اُس نے مجھ سے کہا:‏ ”‏میری عظیم رحمت آپ کے لیے کافی ہے کیونکہ آپ کی کمزوری میں میری طاقت زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔“‏ لہٰذا مَیں بڑی خوشی سے اپنی کمزوریوں پر فخر کروں گا تاکہ مسیح کی طاقت ایک خیمے کی طرح مجھ پر سایہ کرتی رہے۔‏

م07 1/‏1 ص.‏ 16، 17 پ.‏ 17، 18

یہوواہ ”‏اپنے مانگنے والوں کو رُوح‌اُلقدس“‏ دیتا ہے

خدا نے پولس رسول کی دُعا کے جواب میں کہا:‏ ”‏میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔“‏ اس کے بعد پولس رسول کہتا ہے:‏ ”‏مَیں بڑی خوشی سے اپنی کمزوری پر فخر کروں گا تاکہ مسیح کی قدرت مجھ پر چھائی رہے۔“‏ (‏2-‏کرنتھیوں 12:‏9؛‏ زبور 147:‏5‏)‏ پولس رسول جانتا تھا کہ خدا کی اثرآفرین طاقت یسوع مسیح کے ذریعے ایک خیمہ کی مانند اُس پر تان دی گئی تھی۔ اسی طرح آجکل بھی یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ وہ اپنے خادموں کو ایک پناہ‌گاہ کی طرح تحفظ فراہم کرتا ہے۔‏

اگرچہ ایک خیمہ بارش یا تیز ہوا کو نہیں روکتا توبھی یہ ان سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح ”‏مسیح کی قدرت“‏ کے ذریعے حاصل ہونے والی پناہ ہماری مشکلات اور آزمائشوں کو نہیں روکتی۔ مگر یہ اس دُنیا کے نقصاندہ عناصر اور اس کے حاکم شیطان کے حملوں سے روحانی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ (‏مکاشفہ 7:‏9،‏ 15، 16‏)‏ لہٰذا، اگر آپ کسی آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں جو آپ سے ’‏دُور نہیں ہوتی‘‏ تو آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا آپ کی کوشش سے واقف ہے اور اُس نے آپ کی ”‏فریاد کی آواز“‏ کا جواب دیا ہے۔ (‏یسعیاہ 30:‏19؛‏ 2-‏کرنتھیوں 1:‏3، 4‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا سچا ہے۔ وہ تُم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تاکہ تُم برداشت کر سکو۔“‏—‏1-‏کرنتھیوں 10:‏13؛‏ فلپیوں 4:‏6، 7‏۔‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 12:‏10‏)‏ ہاں، مَیں مسیح کی خاطر بڑی خوشی سے کمزوری، بے‌عزتی، غربت، اذیت اور مشکلات برداشت کروں گا کیونکہ جب مَیں کمزور ہوتا ہوں تب مَیں طاقت‌ور ہوتا ہوں۔‏

م18‏.‏01 ص.‏ 5 پ.‏ 8، 9

‏”‏وہ تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے“‏

یسعیاہ 40:‏30 کو پڑھیں۔‏ چاہے ہم میں بہت سی صلاحیتیں ہوں مگر پھر بھی کئی ایسے کام ہیں جو ہم اپنی طاقت سے نہیں کر سکتے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پولُس رسول بہت قابل اِنسان تھے لیکن پھر بھی وہ ہر وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ جب اُنہوں نے یہوواہ خدا کو اپنے احساسات کے بارے میں بتایا تو یہوواہ نے اُن سے کہا:‏ ”‏آپ کی کمزوری میں میری طاقت زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔“‏ پولُس یہوواہ کی اِس بات کا مطلب سمجھتے تھے۔ اِسی لیے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جب مَیں کمزور ہوتا ہوں تب مَیں طاقت‌ور ہوتا ہوں۔“‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 12:‏7-‏10‏)‏ اِس بات سے پولُس کی کیا مُراد تھی؟‏

پولُس اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اُن کی طاقت محدود ہے اور وہ اِس سے باہر جا کر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اُنہیں کسی ایسی ہستی کی مدد کی ضرورت تھی جو اُن سے کہیں زیادہ طاقت کی مالک ہو۔ خدا کی پاک روح پولُس کو کمزوری میں طاقت بخش سکتی تھی۔ اِس کے علاوہ خدا کی پاک روح کی طاقت سے پولُس وہ کام بھی کر سکتے تھے جو وہ اپنی طاقت سے نہیں کر سکتے تھے۔ یہی بات ہمارے بارے میں بھی سچ ہے۔ جب یہوواہ ہمیں اپنی پاک روح دیتا ہے تو ہم مضبوط بن جاتے ہیں۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 12:‏2-‏4‏)‏ مَیں ایک آدمی کو جانتا ہوں جو مسیح کا پیروکار ہے اور جسے 14 سال پہلے تیسرے آسمان پر پہنچایا گیا۔ پتہ نہیں کہ یہ جسمانی طور پر ہوا یا کسی اَور طرح سے، یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔ 3 ہاں، مَیں ایک ایسے آدمی کو جانتا ہوں جسے فردوس میں پہنچایا گیا۔ پتہ نہیں کہ یہ جسمانی طور پر ہوا یا کسی اَور طرح سے، یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔ 4 وہاں فردوس میں اُس نے ایسی باتیں سنیں جن کا ذکر کرنا ممکن نہیں بلکہ اِنسانوں کے لیے جائز ہی نہیں۔‏

ڈبلیو18‏.‏12 ص.‏ 8 پ.‏ 10-‏12

قارئین کے سوال

2-‏کُرنتھیوں 12:‏2 میں جس ”‏تیسرے آسمان“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے وہ غالباً ’‏نیا آسمان‘‏ یعنی خدا کی بادشاہت ہے جس کے بادشاہ یسوع مسیح اور 1 لاکھ 44 ہزار مسح‌شُدہ مسیحی ہیں۔—‏2-‏پطر 3:‏13‏۔‏

اِسے ’‏تیسرا آسمان‘‏ اِس لیے کہا گیا ہے کیونکہ خدا کی بادشاہت تمام حکومتوں سے بلند اور افضل ہے۔‏

پولُس رسول کو رُویا میں جس ”‏فردوس میں پہنچایا گیا،“‏ وہ غالباً اِن تین چیزوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے:‏ (‏1)‏ اُس حقیقی فردوس کی طرف جو جلد ہی زمین پر قائم ہونے والا ہے، (‏2)‏ اُس روحانی فردوس کی طرف جو نئی دُنیا میں قائم ہوگا اور موجودہ روحانی فردوس سے زیادہ بڑا ہوگا اور (‏3)‏ آسمان میں ”‏خدا کے فردوس“‏ کی طرف۔‏

‏(‏2-‏کُرنتھیوں 13:‏12‏)‏ گلے مل کر [‏”‏پاک بوسے سے،“‏ فٹ‌نوٹ]‏ ایک دوسرے کا خیرمقدم کریں۔‏

آئی‌ٹی-‏2 ص.‏ 177

بوسہ

‏’‏پاک بوسہ۔‘‏ اِبتدائی مسیحی شاید اپنی جنس کے بہن بھائیوں سے ملتے ہوئے ’‏پاک بوسہ‘‏ دیتے تھے۔ (‏روم 16:‏16؛‏ 1-‏کُر 16:‏20؛‏ 2-‏کُر 13:‏12؛‏ 1-‏تھس 5:‏26؛‏ 1-‏پطر 5:‏14‏)‏ اُن کا اِس طرح ایک دوسرے کو ملنا شاید اُس قدیم عبرانی روایت سے ملتا جلتا ہے جس میں وہ بوسہ دے کر ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ اگرچہ آیتوں میں اِس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا لیکن ”‏پاک بوسے“‏ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کلیسیا میں محبت اور امن‌واِتحاد کی فضا قائم تھی۔—‏یوح 13:‏34، 35‏۔‏

27 مئی–‏2 جون

پاک کلام سے سنہری باتیں | گلتیوں 1-‏3

‏”‏مَیں نے اُن کے مُنہ پر اُن سے کہا“‏

‏(‏گلتیوں 2:‏11-‏13‏)‏ لیکن جب کیفا، انطاکیہ آئے تو مَیں نے اُن کے مُنہ پر اُن سے کہا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ 12 کیونکہ پہلے تو وہ غیریہودیوں کے ساتھ کھاتے پیتے تھے مگر جب یعقوب کی طرف سے کچھ بھائی وہاں آئے جو ختنے کے رواج پر قائم تھے تو پطرس نے اُن کے ڈر سے غیریہودیوں کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو اُن سے الگ کر لیا۔ 13 باقی یہودیوں نے بھی اِس منافقت میں اُن کا ساتھ دیا یہاں تک کہ برنباس بھی اُن کے ساتھ مل گئے۔‏

م17‏.‏04 ص.‏ 25 پ.‏ 16

کیا آپ اِنصاف‌پسندی کے متعلق یہوواہ کا نظریہ رکھتے ہیں؟‏

گلتیوں 2:‏11-‏14 کو پڑھیں۔‏ دراصل پطرس نے جو کچھ کِیا، اِنسانوں کے ڈر سے کِیا۔ (‏امثال 29:‏25‏)‏ اُنہیں معلوم تھا کہ یہوواہ نے غیریہودیوں کو قبول کر لیا ہے۔ لیکن جب کچھ یہودی بھائی یروشلیم سے سُوری انطاکیہ آئے تو پطرس کو یہ ڈر کھانے لگا کہ کہیں یہ بھائی اُنہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں کیونکہ وہ غیریہودی بہن بھائیوں کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ جب پولُس رسول نے یہ دیکھا تو اُنہوں نے پطرس رسول سے کہا کہ وہ منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ (‏گلتیوں 2:‏13‏)‏ اُنہوں نے یہ کیوں کہا؟ پولُس رسول بھی 49ء میں یروشلیم میں ہونے والے اُس اِجلاس پر موجود تھے جب پطرس نے غیریہودیوں کے حق میں بولا تھا۔ (‏اعمال 15:‏12‏)‏ پطرس کی غلطی کی وجہ سے غیریہودی بہن بھائیوں کا ایمان آزمایا گیا۔ کیا وہ اِس وجہ سے خدا سے دُور ہو گئے؟ شاید اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ پطرس سے اُن کے شرف لے لیے جائیں گے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہوا؟‏

‏(‏گلتیوں 2:‏14‏)‏ لیکن جب مَیں نے دیکھا کہ وہ لوگ خوش‌خبری کی سچائی کے مطابق نہیں چل رہے تو مَیں نے سب کے سامنے کیفا سے کہا:‏ ”‏آپ خود تو یہودی ہو کر یہودیوں کی طرح نہیں بلکہ غیریہودیوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ تو پھر آپ غیریہودیوں کو یہودیوں کی روایتوں پر عمل کرنے کی ترغیب کیسے دے سکتے ہیں؟“‏

م13 15/‏3 ص.‏ 5 پ.‏ 12

خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے ”‏ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں“‏

پطرس رسول نے بھی کچھ موقعوں پر انسانوں سے ڈرنے کی وجہ سے ٹھوکر کھائی۔ پھر بھی وہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے وفادار رہے۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے یسوع مسیح کا ایک بار نہیں بلکہ تین بار انکار کِیا۔ (‏لو 22:‏54-‏62‏)‏ اِس کے بعد ایک اَور موقعے پر پطرس رسول انسان کے ڈر کا شکار ہو گئے۔ اُنہوں نے غیریہودی مسیحیوں کے ساتھ اُٹھنابیٹھنا چھوڑ دیا کیونکہ اُنہیں ڈر تھا کہ یہودی مسیحیوں کو یہ بات بُری لگے گی۔ لیکن پطرس رسول کی یہ حرکت بالکل غلط تھی کیونکہ کلیسیا میں سب برابر ہیں۔ لہٰذا اِس سے پہلے کہ کلیسیا میں پھوٹ پڑتی، پولس رسول نے پطرس رسول کے ”‏روبرو ہو کر“‏ اُن کی اصلاح کی۔ (‏گل 2:‏11-‏14‏)‏ کیا پطرس رسول کی اَنا کو اِتنی ٹھیس پہنچی تھی کہ وہ زندگی کی دوڑ سے ہی نکل گئے تھے؟ جی‌نہیں۔ اُنہوں نے پولس رسول کی اصلاح قبول کی اور زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتے گئے۔‏

سنہری باتوں کی تلاش

‏(‏گلتیوں 2:‏20‏)‏ مجھے مسیح کے ساتھ سُولی پر چڑھا دیا گیا۔ لہٰذا اب مَیں نہیں بلکہ مسیح زندہ ہے جو میرے ساتھ متحد ہے۔ مَیں جو زندگی جی رہا ہوں، وہ خدا کے بیٹے پر ایمان کے مطابق جی رہا ہوں جس نے مجھ سے محبت کی اور میرے لیے جان دے دی۔‏

م14 15/‏9 ص.‏ 16 پ.‏ 20، 21

بہت سی مصیبتوں کے باوجود خدا کی خدمت کرتے رہیں

ہم شیطان کے خفیہ حملوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر ہم مایوسی پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟ اِس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اِس بات پر غور کریں کہ یسوع مسیح نے اپنی جان کیوں اور کس کے لیے قربان کی تھی۔ پولُس رسول نے بھی ایسا ہی کِیا تھا۔ وہ کبھی‌کبھار بہت مایوس ہو جاتے تھے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یسوع مسیح نے اپنی جان بے‌گُناہوں کے لیے نہیں بلکہ گُناہ‌گاروں کے لیے دی تھی۔ اور پولُس بھی ایک گُناہ‌گار شخص تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مَیں جو .‏ .‏ .‏ زندگی گذارتا ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا۔“‏ (‏گل 2:‏20‏)‏ پولُس رسول، مسیح کی قربانی پر ایمان لائے تھے۔ اُنہوں نے اِس بات کو قبول کِیا تھا کہ یسوع مسیح نے اُن کے لیے جان دی ہے۔‏

اگر ہم بھی اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یسوع مسیح نے ہماری خاطر جان دی تو ہمیں مایوسی پر غالب آنے میں مدد ملے گی۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری مایوسی فوراً ختم ہو جائے گی۔ ہم میں سے بعض کو شاید اِس سے اُس وقت تک نپٹنا پڑے جب تک نئی دُنیا نہیں آ جاتی۔ لیکن یاد رکھیں کہ اِنعام اُنہی کو ملے گا جو مصیبتوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ اب وہ دن دُور نہیں جب خدا کی بادشاہت زمین پر امن‌وسلامتی لائے گی اور تمام وفادار اِنسانوں کو گُناہ سے پاک کر دے گی۔ لہٰذا خدا کی ”‏بادشاہی میں داخل“‏ ہونے کا عزم کریں، چاہے اِس کے لیے ”‏بہت مصیبتیں“‏ ہی کیوں نہ سہنی پڑیں۔‏

‏(‏گلتیوں 3:‏1‏)‏ ناسمجھ گلتیو!‏ کس نے آپ کو گمراہ کِیا ہے؟ آپ کو تو اچھی طرح سمجھایا گیا تھا کہ یسوع مسیح کو سُولی پر کیوں چڑھایا گیا۔‏

آئی‌ٹی-‏1 ص.‏ 880

گلتیوں کے نام خط

جب پولُس نے گلتیہ کے مسیحیوں کو ”‏ناسمجھ گلتیو“‏ کہہ کر مخاطب کِیا تو اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُن کے ذہن میں ایک خاص نسل کے لوگ تھے جو گلتیہ کے شمالی حصے میں آباد تھے۔ (‏گل 3:‏1‏)‏ اِس کی بجائے پولُس گلتیہ کی کلیسیاؤں میں اُن مسیحیوں کو ملامت کر رہے تھے جو ایسے مسیحیوں سے متاثر ہو رہے تھے، جو نئے عہد پر ایمان رکھنے سے نہیں بلکہ موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے سے خود کو نیک ٹھہرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ (‏2:‏15–‏3:‏14؛ 4:‏9، 10)‏ ”‏گلتیہ کی کلیسیاؤں“‏ (‏1:‏2)‏ میں یہودی اور غیریہودی دونوں شامل تھے۔ غیریہودیوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے ختنہ کروا کر یہودی مذہب اپنا لیا تھا اور وہ لوگ بھی جن کا ختنہ نہیں ہوا تھا۔ اِن میں مغربی یورپ سے آئے کچھ لوگ بھی شامل تھے۔ (‏اعما 13:‏14،‏ 43؛‏ 16:‏1؛‏ گل 5:‏2‏)‏ اُن تمام مسیحیوں کو گلتیہ کے مسیحی کہہ کر مخاطب کِیا جاتا تھا کیونکہ وہ جس علاقے میں رہتے تھے، اُسے گلتیہ کہا جاتا تھا۔ لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ پولُس اِس خط میں روم کے صوبے گلتیہ کے جنوبی حصے میں رہنے والے مسیحیوں سے بات کر رہے تھے جن سے وہ اچھی طرح واقف تھے نہ کہ شمالی حصے میں رہنے والے لوگوں سے جن سے شاید وہ کبھی نہیں ملے تھے۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں