”حقیقی زندگی“ کا تجربہ کریں
یہوواہ خدا نے انسان کو ابدیت کا شعور عطا کِیا ہے۔ (واعظ ۳:۱۱) یہ بات انسان کو موت کے سامنے بےبس تو بنا دیتی ہے مگر عین اسی وقت ان کے اندر زندہ رہنے کی شدید خواہش بھی پیدا کرتی ہے۔
خدا کا الہامی کلام، مُقدس بائبل ہمیں بڑی اُمید دیتا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) محبت کا خدا یہوواہ ایسا نہیں کر سکتا کہ انسانوں کو ابدیت کے تصور کو سمجھنے کی صلاحیت کیساتھ خلق کرے اور پھر اُنہیں محض چند سال زندہ رہنے کی سزا دے۔ ہمیں اپنی حالتزار پر افسوس کرنے کیلئے خلق کرنا خدا کی شخصیت کے بالکل برعکس ہے۔ ہم ”بےعقل جانوروں کی مانند“ خلق نہیں ہوئے ہیں ”جو پکڑے جانے اور ہلاک ہونے کے لئے حیوانِمطلق پیدا ہوئے ہیں۔“—۲-پطرس ۲:۱۲۔
آدم اور حوا کو ابدیت کے پیدائشی احساس کے ساتھ خلق کرنے سے، یہوواہ خدا نے ”بہت [اچھی]“ چیز بنائی؛ اس نے انہیں ہمیشہ زندہ رہنے کے امکان کے ساتھ بنایا۔ (پیدایش ۱:۳۱) لیکن افسوس کہ پہلے انسانی جوڑے نے خالق کی طرف سے عائدکردہ حکمامتناعی سے سرکشی کرنے اور اپنی حقیقی کاملیت کا نقصان اُٹھاتے ہوئے اپنی آزاد مرضی کا غلط استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں، وہ اپنی اولاد میں ناکاملیت اور موت منتقل کرنے کے بعد مر گئے۔—پیدایش ۲:۱۷؛ ۳؛۱-۲۴؛ رومیوں ۵:۱۲۔
بائبل زندگی کے مقصد اور موت کے مطلب کی بابت کوئی پُراسرار تاثر نہیں چھوڑتی۔ یہ بیان کرتی ہے کہ مرنے کے بعد ”نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت“ اور یہ کہ مُردے ”کچھ بھی نہیں جانتے۔“ (واعظ ۹:۵، ۱۰) دوسرے الفاظ میں مُردے واقعی مُردہ ہیں۔ غیرفانی جان کا عقیدہ بائبل میں نہیں پایا جاتا، پس، مُردوں کی حالت کی بابت کوئی گہرا راز نہیں پایا جاتا کہ جسے ظاہر کِیا جائے۔—پیدایش ۳:۱۹؛ زبور ۱۴۶:۴ واعظ ۳:۱۹، ۲۰؛ حزقیایل ۱۸:۴۔a
خدا کا ایک مقصد تھا؛ اس نے زمین کو ”عبث“ پیدا نہیں کِیا تھا۔ اس نے اسے فردوسی حالتوں کے تحت کامل انسانوں کی ”آبادی“ کے لئے تیار کیا ہے اور خدا نے اپنا مقصد تبدیل نہیں کیا ہے۔ (یسعیاہ ۴۵:۱۸؛ ملاکی ۳:۶) خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے اپنے بیٹے کو زمین پر بھیجا۔ موت تک وفادار رہنے سے، یسوع مسیح نے نسلِانسانی کو گُناہ اور موت سے چھڑانے کے لئے فدیہ دیا۔ درحقیقت، یسوع نے کہا: ”خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“—یوحنا ۳:۱۶۔
کافی عرصہ پہلے، خدا نے وعدہ کیا کہ وہ ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کو پیدا کریگا۔ (یسعیاہ ۶۵:۱۷؛ ۲-پطرس ۳:۱۳) اس میں خدا کا آسمان میں زندگی کیلئے وفادار مسیحیوں کے محدود گروہ کا انتخاب کرنا بھی شامل ہے۔ وہ یسوع مسیح کیساتھ ایک حکومتی مرکز تشکیل دیتے ہیں۔ بائبل اس کا حوالہ ”آسمان کی بادشاہی“ یا ”خدا کی بادشاہی“ کے طور پر دیتی ہے جو ”زمین کی چیزوں“ کا انتظام کریگی۔ (متی ۴:۱۷؛ ۱۲:۲۸؛ افسیوں ۱:۱۰؛ مکاشفہ ۵:۹، ۱۰؛ ۱۴:۱، ۳) ہماری زمین پر پائی جانے والی تمام بیدینی کو ختم کرنے اور اسے پاکصاف کرنے کے بعد، خدا نیا راست انسانی معاشرہ یا ”نئی زمین“ وجود میں لائے گا۔ اس میں وہ لوگ شامل ہونگے جنہیں خدا اس شریر نظامالعمل پر آنے والی تباہی سے بچائے گا۔ (متی ۲۴:۳، ۷-۱۴، ۲۱؛ مکاشفہ ۷:۹، ۱۳، ۱۴) ان میں وہ لوگ بھی شامل ہونگے جو قیامت کے ذریعے زندہ کئے جائیں گے۔—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ اعمال ۲۴:۱۵۔
اِسکے بعد ”حقیقی زندگی“
مستقبل کی فردوسی زمین پر زندگی کی ہیجانخیز وضاحت کی تصدیق میں، خدا نے فرمایا ہے: ”دیکھ میں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔“ (مکاشفہ ۲۱:۵) خدا نوعِانسان کے لئے جو کچھ انجام دیگا اُسے پورے طور پر سمجھنا انسانی ذہن کے لئے ناممکن ہے۔ خدا ایک عالمگیر فردوس کو وجود بخشے گا جسے عدن کے نمونے پر تشکیل دیا جائے گا۔ (لوقا ۲۳:۴۳) عدن کی طرح، فردوس میں خوبصورتی اور رنگ، آواز اور ذائقے کی لطافت افراط سے ہوگی۔ غربت اور قحط جاتا رہے گا کیونکہ اس وقت کے بارے میں بائبل کہتی ہے: ”پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“ (مکاشفہ ۲۱:۴؛ زبور ۷۲:۱۶) پھر کوئی بھی یہ نہ کہے گا کہ ”مَیں بیمار ہوں،“ کیونکہ بیماری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائے گی۔ (یسعیاہ ۳۳:۲۴) جیہاں، انسان کے پُرانے دشمن موت سمیت دُکھ درد کی تمام وجوہات ختم ہو جائیں گی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۶) مسیح کی حکمرانی کے تحت نئے انسانی معاشرے یعنی ”نئی زمین“ کی حیرانکُن رویا میں، یوحنا رسول نے یہ آواز آتی سنی: ”[خدا] اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔“ اس الہٰی وعدے کی تکمیل کی نسبت اور کونسی چیز زیادہ تسلی اور شادمانی لا سکتی ہے؟
آئندہ زندگی کی بابت بتاتے ہوئے، بائبل خاص طور پر ان حالتوں پر زور دیتی ہے جو انسان کی اخلاقی اور روحانی خواہشات کو پوری کر سکتی ہیں۔ وہ تمام جائز مقاصد مکمل طور پر حاصل کر لئے جائیں گے جس کے لئے نوعِانسان نے آج تک بیکار جدوجہد کی ہے۔ (متی ۶:۱۰) ان میں انصاف کی خواہش شامل ہے جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہے کیونکہ انسان اکثر جابر حکمرانوں کا شکار رہا ہے جنہوں نے کمزوروں پر حکومت کی ہے۔ (واعظ ۸:۹) مسیح کی حکمرانی کے تحت نئی حالتوں کو زبورنویس نے نبوّتی طور پر یوں تحریر کیا: ”اُسکے ایّام میں صادق برومند ہونگے اور . . . خوب امن رہیگا۔“—زبور ۷۲:۷۔
مساوات ایک اَور اُمنگ ہے جس کے لئے بہتیروں نے قربانیاں دی ہیں۔ ”نئی پیدایش“ میں، خدا امتیازی سلوک کو نابود کر دیگا۔ (متی ۱۹:۲۸) تمام لوگ یکساں عزت سے زندگی گزاریں گے۔ یہ مساوات سخت حکومتی نظام کے ذریعے نافذ نہیں کی جائیگی۔ اس کے برعکس، امتیازی سلوک کے تمام اسباب ختم کئے جائینگے جس میں لالچ اور غرور شامل ہیں جو انسانوں کو دوسروں پر حکومت کرنے یا افراط سے اشیاء بٹورنے کا باعث بنتے ہیں۔ یسعیاہ نے پیشینگوئی کی: ”وہ گھر بنائینگے اور ان میں بسینگے۔ وہ تاکستان لگائینگے اور اُنکے میوے کھائینگے۔ نہ کہ وہ بنائیں اور دوسرا بسے۔ وہ لگائیں اور دوسرا کھائے۔“—یسعیاہ ۶۵:۲۱، ۲۲۔
انسانوں نے ذاتی اور اجتماعی لڑائیجھگڑوں میں کُشتوخون کے باعث کتنی تکلیف اُٹھائی ہے! یہ ہابل کے قتل سے لیکر آجکل کی جنگوں تک جاری ہے۔ انسان قیامِامن کیلئے بظاہر بےسود مدت سے منتظر اور اُمید لگائے بیٹھے ہیں! بحالشُدہ فردوس میں، تمام انسان امنپسند اور حلممزاج ہونگے؛ وہ ”سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہینگے۔“—زبور ۳۷:۱۱۔
یسعیاہ ۱۱:۹ بیان کرتی ہے: ”جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین [یہوواہ] کے عرفان سے معمور ہوگی۔“ دیگر عناصر کیساتھ ساتھ، موروثی ناکاملیت کے باعث آجکل ہمارے لئے ان الفاظ کی وسعت کو پورے طور پر سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ خدا کا کامل علم ہمیں اس کے ساتھ کس طرح ہمآہنگ کریگا اور کیسے یہ بھرپور خوشی پر منتج ہوگا، جس کی بابت شاید ہمیں سیکھنا باقی ہے۔ چونکہ صحائف ہمیں بتاتے ہیں کہ یہوواہ قدرت، حکمت، انصاف اور محبت میں منفرد خدا ہے اسلئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ”نئی زمین“ کے باشندوں کی تمام دعاؤں کو سنے گا۔
”حقیقی زندگی“ یقینی ہے—اس پر قبضہ کر لیں!
بہتیروں کیلئے، ایک بہتر دنیا میں ابدی زندگی محض ایک خواب یا ایک فریب ہے۔ تاہم، بائبل کے وعدے پر حقیقی ایمان رکھنے والوں کیلئے یہ اُمید یقینی ہے۔ یہ اُنکی زندگیوں کیلئے لنگر کی مانند ہے۔ (عبرانیوں ۶:۱۹) جس طرح ایک لنگر جہاز کو سیدھا اور ادھراُدھر جھولنے سے باز رکھتا ہے، اُسی طرح ابدی زندگی کی اُمید لوگوں کو متوازن اور پُراعتماد رکھتی ہے اور انہیں زندگی میں سنگین مسائل کا سامنا کرنے اور ان پر غالب آنے کے لائق بھی بناتی ہے۔
ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا اپنے وعدوں کو ضرور پورا کریگا۔ اس نے ایک قسم، ایک ناقابلِتنسیخ عہد کے ذریعے ضمانت بھی دی ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”جب خدا نے چاہا کہ وعدہ کے وارثوں پر اَور بھی صاف طور سے ظاہر کرے کہ میرا ارادہ بدل نہیں سکتا تو قسم کو درمیان میں لایا۔ تاکہ دو بےتبدیل چیزوں کے باعث جنکے بارے میں خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہماری پُختہ طور سے دلجمعی ہو جائے . . . کہ اُس اُمید کو جو سامنے رکھی ہوئی ہے قبضہ میں لائیں۔“ (عبرانیوں ۶:۱۷، ۱۸) ”دو بےتبدیل چیزیں“ جنہیں خدا کبھی منسوخ نہیں کر سکتا وہ اس کا وعدہ اور اسکی قسم ہیں، جن پر ہماری اُمیدوں کی بنیاد ہے۔
خدا کے وعدوں پر ایمان بڑی تسلی اور روحانی مضبوطی عطا کرتا ہے۔ اسرائیلی امت کا پیشوا، یشوع ایسا ہی ایمان رکھتا تھا۔ جب یشوع نے اسرائیلیوں سے آخری خطاب کِیا تو وہ بوڑھا ہو چکا تھا اور جانتا تھا کہ وہ مرنے والا ہے۔ تاہم، اس نے خدا کے وعدوں پر مکمل بھروسے کی بِنا پر قوت اور غیرمتزلزل وفاداری ظاہر کی۔ اس نے یہ بیان کرنے کے بعد کہ وہ ”اُسی راستے جانے والا [ہے] جو سارے جہاں کا ہے“ یعنی وہ راستہ جو تمام نوعِانسان کو موت کی طرف لیجاتا ہے، یشوع نے بیان کِیا: ”تم خوب جانتے ہو کہ ان سب اچھی باتوں میں سے جو [یہوواہ] تمہارے خدا نے تمہارے حق میں کہیں ایک بات بھی نہ چھوٹی۔ سب تمہارے حق میں پوری ہوئیں اور ایک بھی ان میں سے رہ نہ گئی۔“ جیہاں، یشوع نے تین مرتبہ دہرایا کہ خدا ہمیشہ اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے۔—یشوع ۲۳:۱۴۔
آپ بھی جلد قائم ہونے والی نئی دنیا کے خدا کے وعدے پر ایسا ہی ایمان رکھ سکتے ہیں۔ بائبل کا مستعدی سے مطالعہ کرنے سے آپ جان جائیں گے کہ یہوواہ خدا کون ہے اور وہ کیوں مکمل بھروسے کا مستحق ہے۔ (مکاشفہ ۴:۱۱) ابرہام، سارہ، اضحاق، یعقوب اور دیگر قدیم اشخاص سچے خدا یہوواہ کی بابت اپنے گہرے علم پر مبنی پُختہ ایمان رکھتے تھے۔ وہ اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ”وعدہ کی ہوئی چیز نہ پائی،“ توبھی وہ اُمید میں مضبوط رہے۔ تاہم وہ ”دُور ہی سے انہیں دیکھ کر خوش ہوئے۔“—عبرانیوں ۱۱:۱۳۔
بائبل پیشینگوئیوں کو سمجھنے سے، اب ہم ”قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم“ کو نزدیک آتا ہوا دیکھتے ہیں جس کے دوران زمین تمام بدکاری سے پاک ہو جائیگی۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶) قدیم زمانے کے وفادار آدمیوں کی مانند، ہمیں ایمان اور اس کے ساتھ خدا اور ”حقیقی زندگی“ کیلئے محبت سے تحریک پا کر مستقبل کے واقعات کی توقع میں پُراعتماد رہنا چاہئے۔ نئی دنیا کا قریب آنا یہوواہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس سے محبت کرنے والوں کو مضبوط محرک فراہم کرتا ہے۔ قریب آنے والے اُس کے اس روزِعظیم کے دوران خدا کی مقبولیت اور تحفظ حاصل کرنے کے لئے ایسا ایمان اور محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔—صفنیاہ ۲:۳؛ ۲-تھسلنیکیوں ۱:۳؛ عبرانیوں ۱۰:۳۷-۳۹۔
پس، کیا آپ کو زندگی پیاری ہے؟ نیز کیا آپ ”حقیقی زندگی“ یعنی خوشحال مستقبل کے امکان کیساتھ، جیہاں، ابدی زندگی کے پیشِنظر، خدا کے مقبول خادم کی حیثیت سے زندگی کے اَور بھی زیادہ متمنی ہیں؟ اگر آپ کو ایسی ہی چیز کی تلاش ہے توپھر پولس رسول کی نصیحت پر دھیان دیں جس نے لکھا کہ ’ہماری اُمید غیریقینی دولت پر نہیں بلکہ خدا پر ہونی چاہئے۔‘ پولس بیان کو جاری رکھتا ہے کہ خدا کو جلال دینے والے ”اچھے کاموں میں دولتمند بنیں“ تاکہ ”حقیقی زندگی پر قبضہ کریں۔“—۱-تیمتھیس ۶:۱۷-۱۹۔
یہوواہ کے گواہوں کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے کی پیشکش قبول کرنے سے آپ ”ہمیشہ کی زندگی“ کا علم حاصل کر سکتے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۳) محبت کیساتھ بائبل سب کو یہ پدرانہ دعوت دیتی ہے: ”اَے میرے بیٹے! میری تعلیم کو فراموش نہ کر۔ بلکہ تیرا دل میرے حکموں کو مانے۔ کیونکہ تُو اِن سے عمر کی درازی اور پیری اور سلامتی حاصل کریگا۔“—امثال ۳:۱، ۲۔
[فٹنوٹ]
a اس مضمون کے تفصیلی جائزے کیلئے، واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کے شائعکردہ بروشر مرنے پر ہمارے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟ کو دیکھیں۔