ططس
(ایسآئی ص. ۲۳۹-۲۴۰ پ. ۱-۴؛ ص. ۲۴۱ پ. ۸-۱۰)
ططس کی تمہید
۱. (ا) ططس کو کونسی ذمہداری سونپی گئی تھی؟ (ب) کریتے کی کلیسیائیں کیسے ماحول میں وجود میں آئیں تھیں؟ (ج) کریتے کے مسیحیوں کو کیا کرنے کی ضرورت تھی؟
۱ پولس رسول اپنے مسیحی ہمخدمت ططس کے نام خط کو کچھ یوں شروع کرتا ہے، ”پوؔلس کی طرف سے جو خدا کا بندہ اور یسوؔع مسیح کا رسول ہے۔ . . . ایمان کی شرکت کی رُو سے سچے فرزند ططسؔ کے نام۔“ (طط ۱:۱، ۴ ) پولس ططس کو کریتے کے جزیرے پر ہی چھوڑ آیا تھا تاکہ وہ کلیسیاؤں کو بہتر طور پر منظم کر سکے۔ جیہاں، ططس کو ایک بھاری ذمہداری سونپی گئی تھی۔ کریتے کے جزیرے پر آباد لوگ نہایت ہی سرکش، مکار اور دروغگو تھے۔ وہاں کے لوگوں نے اُنکی بُری خصلتوں سے بہت سی کہاوتیں منسوب کر رکھی تھیں۔ مثال کے طور پر اُنکی ایک کہاوت کا مطلب ہے ”ایک مکار اور چالباز شخص کو دھوکا دینا۔“a یہاں کے لوگوں کاجھوٹ بہت مشہور تھا۔ پولس رسول نے بھی اُنکے ایک نبی کا حوالہ دیا تھا جس نے یہ کہا کہ ”کرؔیتی ہمیشہ جھوٹے، موذی جانور، احدی کھاؤ ہوتے ہیں۔“ (طط ۱:۱۲) پولس کے زمانے کے کریتیوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے: ”یہاں کے لوگ نہ صرف متلونمزاج، غیرمخلص اور جھگڑالو تھے بلکہ حد درجہ لالچی، عیاش، جھوٹے اور شرابی بھی تھے۔ اُنکے درمیان آباد ہو جانے والے یہودی تو بداخلاقی میں اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے۔“b کریتے کی کلیسیائیں ایسے ہی ماحول میں وجود میں آئیں تھیں اسلئے پولس کی نصیحت کے مطابق ایمانداروں کیلئے ”بیدینی اور دُنیوی خواہشوں کا اِنکار کرکے اِس موجودہ جہان میں پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی ”گزارنا بہت ضروری تھا۔—طط ۲:۱۲۔
۲، ۳. (ا) پولس اور ططس کی باہمی رفاقت کے بارے میں بیان کریں۔ (ب) پولس نے ططس کے نام اپنا خط کہاں سے لکھا؟ (ج) اِس خط نے کیا مقصد انجام دیا؟
۲ ططس کی کتاب پولس اور ططس کے آپسی میلجول کی بابت زیادہ معلومات فراہم نہیں کرتی۔ تاہم، پولس کے دیگر خطوط سے ططس کے بارے میں کافی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ططس جوکہ یونانی تھا اکثر پولس کیساتھ رہا کرتا تھا اور کمازکم ایک مرتبہ وہ اُس کیساتھ یروشلیم بھی گیا تھا۔ (گل ۲:۱-۵) اُسکا ذکر کرتے ہوئے پولس کہتا ہے کہ وہ ’میرا شریک اور میرا ہمخدمت ہے۔‘ یہ ططس ہی تھا جسے پولس نے افسس سے کرنتھیوں کے نام اپنا پہلا خط لکھنے کے بعد کرنتھس بھیجا تھا۔ کرنتھس میں ططس نے اُن عطیات کو جمع کرنے میں بھی بڑھچڑھ کر حصہ لیا جو یروشلیم کے بھائیوں کیلئے اکٹھے کئے جا رہے تھے۔ پولس کی ہدایت پر اُسے عطیات جمع کرنے کیلئے دوبارہ کرنتھس جانا پڑا۔ مکدونیہ میں پولس کیساتھ ملاقات کے بعد جب ططس کرنتھس واپس گیا تو وہ کرنتھیوں کے نام پولس کا دوسرا خط بھی اپنے ساتھ لے گیا۔—۲-کر ۸:۱۶-۲۴؛ ۲:۱۳؛ ۷:۵-۷۔
۳ پہلی مرتبہ روم میں قید سے رِہا ہونے کے بعد، پولس اپنی خدمت کے آخری سالوں میں دوبارہ تیمتھیس اور ططس کیساتھ رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس دوران اُس نے کریتے، یونان اور مکدونیہ میں خدمت انجام دی تھی۔ آخر میں بیان کِیا گیا ہے کہ پولس یونان کے شمالمغرب میں نیکپلس گیا جہاں اُسے گرفتار کرکے دوبارہ روم لے جایا گیا۔ وہاں اُسے قید میں ڈالا گیا، اُس پر مقدمہ چلایا گیا اور اُسے سزا سنائی گئی۔ کریتے کا دورہ کرتے وقت ہی پولس نے ططس کو وہاں چھوڑا تھا تاکہ اُسکی ہدایات کے مطابق کریتے میں ’باقیماندہ باتوں کو دُرست کرے اور شہربہشہر بزرگوں کو مقرر کرے۔ ‘ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جب پولس نے مکدونیہ کے بعد اُسے کریتے میں چھوڑا تو اِسکے تھوڑے ہی عرصہ بعد اُس نے ططس کے نام اپنا خط لکھا تھا۔ (طط ۱:۵؛ ۳:۱۲؛ ۱-تیم ۱:۳؛ ۲-تیم ۴:۱۳، ۲۰) ایسا لگتا ہے کہ اِس خط نے بھی تیمتھیس کے نام پولس رسول کے پہلے خط کی طرح اپنا مقصد پورا کِیا تھا۔ اِس سے نہ صرف ططس کو حوصلہافزائی ملی بلکہ اپنی خدمت کو پورا کرنے کیلئے اُسکی پشتپناہی بھی کی گئی۔
۴. ططس کے نام خط تقریباً کب لکھا گیا، اور اِسکے مستند ہونے کا کیا ثبوت ہے؟
۴ پولس نے ططس کے نام خط یقیناً روم میں پہلی اور دوسری بار قید کے دوران لکھا ہوگا۔ یہ تقریباً سن ۱ ۶ تا ۴ ۶ عیسوی کا وقت ہو گا۔ اِس خط کے مستند ہونے کا ثبوت وہی ہے جو اِسی عرصہ کے دوران تیمتھیس کے نام خطوط کا ہے۔ بائبل میں موجود اِن تینوں خطوط کو اکثر پولس کے ”پاسبانی کے خطوط“ کہا جاتا ہے۔ اِن تینوں خطوط کا طرزِتحریر بھی ایک جیسا ہی ہے۔ ارینیس اور آریگن دونوں نے ططس کے خط سے اقتباس پیش کِیا۔ اِسکے علاوہ، قدیم زمانے کے دیگر مصنّفین بھی اِن کتابوں کے مستند ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ سینا اور اسکندریہ میں تیار کئے جانے والے مسودوں کا بھی حصہ ہیں۔ جانریلینڈز لائبریری میں ایک پیپرس مسودہ ہے جوکہ تقریباً تیسری صدی عیسوی کا کوڈیکس ہے جس میں ططس ۱:۱۱-۱۵ اور ۲:۳-۸ کا حوالہ دیا گیا ہے۔c پس اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب الہامی صحائف کا مستند حصہ ہے۔
کیوں فائدہمند
۸. ططس کے نام پولس کے خط میں درج کونسی مشورت آج بھی ہمارے لئے ”فائدہمند“ ہے، اور کیوں؟
۸ کریتے کے مسیحی جھوٹ، بےایمانی اور لالچ کی فضا میں رہتے تھے۔ کیا اُنہیں وہاں کے لوگوں کی طرح ہی رہنا ہوگا؟ یا کیا اُنہیں یہوواہ خدا کے مُقدس لوگوں کے طور پر اُسکی خدمت انجام دینے کیلئے خود کو دوسروں سے مکمل طور پر الگ کرنے کیلئے کچھ اقدام اُٹھانے ہونگے؟ ططس کے ذریعے کریتیوں کو اِس بات سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ ”اچھے کاموں میں لگے رہنے کا خیال رکھیں“ پولس صلاح دیتا ہے: ”یہ باتیں بھلی اور آدمیوں کے واسطے فائدہمند ہیں۔ “ ایسا کرنا آج بھی ”فائدہمند“ ہے کیونکہ ہمارے زمانے کی دُنیا بھی جھوٹ اور بددیانتی کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ سچے مسیحیوں کیلئے بہت ضروری ہے کہ مؤثر طور پر خدا کی خدمت انجام دینے کیلئے ”اچھے کاموں میں لگے رہنا سیکھیں۔“ (طط ۳:۸، ۱۴) کریتے کی کلیسیاؤں کو جس بداخلاقی اور بدکاری کا سامنا تھا پولس نے اُس کی مذمت کی تھی۔ پولس کی وہ مشورت آج ہمارے لئے بھی آگاہی کا کام دیتی ہے۔ کیونکہ ’خدا کا فضل ہمیں تربیت دیتا ہے تاکہ بیدینی اور دُنیوی خواہشوں کا انکار کرکے اِس موجودہ جہان میں پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کیساتھ زندگی گذاریں۔ ‘ حکومتوں کیلئے تابعداری ظاہر کرنے کے سلسلے میں بھی مسیحیوں کو ”ہر ایک نیک کام کیلئے مستعد“ رہنا چاہئے۔—طط ۲:۱۱، ۱۲ ؛ ۳:۱۔
۹. نگہبان کی صحیح تعلیم دینے کی ذمہداری کی اہمیت کو خاص طور پر کیسے نمایاں کِیا گیا ہے؟
۹ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ رُوحاُلقدس نگہبانوں سے کیا تقاضا کرتا ہے ططس ۱:۵-۹ میں درج مواد ۱-تیمتھیس ۳:۲-۷ میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ ططس کا خط نگہبانوں کو کلیسیا میں تعلیم دینے کے سلسلے میں تاکید کرتا ہے کہ ’ایمان کے کلام پر قائم رہیں۔‘ پس لوگوں کو مسیحی پختگی تک پہنچنے میں مدد دینے کیلئے ایسا کرنا کتنا ضروری ہے! درحقیقت ططس کے خط میں صحیح تعلیم دینے کی ضرورت پر بارہا زور دیا گیا ہے۔ پولس رسول ططس کو نصیحت کرتا ہے کہ ’تُو وہ باتیں بیان کر جو صحیح تعلیم کے مطابق ہیں۔ ’عمررسیدہ عورتوں کو بھی چاہئے کہ ”اچھی باتیں سکھانے والی ہوں۔ ”نیز نوکروں کو بھی ”ہر بات میں ہمارے مُنجی خدا کی تعلیم کو رونق ”بخشنی چاہئے۔ (طط ۱:۹؛ ۲:۱، ۳، ۱۰) اِس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ططس کو نگہبان کے طور پر مضبوط اور تعلیم دینے میں دلیر بننے کی ضرورت ہے پولس کہتا ہے: ”پورے اختیار کیساتھ یہ باتیں کہہ اور نصیحت دے اور ملامت کر۔“ علاوہازیں وہ نافرمانی کرنے والوں کے سلسلے میں کہتا ہے کہ ”اُنہیں سخت ملامت کِیا کر تاکہ اُنکا ایمان دُرست ہو جائے۔“ پس ططس کے نام پولس رسول کا خط خاص طور پر ”تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کیلئے فائدہمند بھی ہے۔“—طط ۲:۱۵؛ ۱:۱۳؛ ۲-تیم ۳:۱۶۔
۱۰. ططس کے نام خط ہماری کیا حوصلہافزائی کرتا ہے، اور ہمارے اندر کونسی اُمید پیدا کرتا ہے؟
۱۰ ططس کے نام خط خدا کے غیرمستحق فضل کیلئے ہماری قدردانی کو بڑھاتا اور ہماری حوصلہافزائی کرتا ہے کہ جب ہم ”مبارک اُمید یعنی اپنے بزرگ خدا اور مُنجی یسوؔع مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کے منتظر“ ہیں تو ہمیں بےدین دُنیا سے بالکل الگ رہنا چاہئے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے، یسوع مسیح کے ذریعے راستباز ٹھہرائے گئے لوگ خدا کی بادشاہی میں ”ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے مطابق وارث“ بن سکتے ہیں۔—طط ۲:۱۳؛ ۳:۷۔
[فٹنوٹ]
a میکلنٹاک اور سٹرانگ کا سائیکلوپیڈیا، ۱۹۸۱ میں دوبارہ شائع ہوا، جِلد ۲، صفحہ ۵۶۴؛ دی نیو شیف ہرٹسوک انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجس نالج، ۱۹۵۸، جِلد ۳، صفحہ ۳۰۶۔
b میکلنٹاک اور سٹرانگ کا سائیکلوپیڈیا، ۱۹۸۱ میں دوبارہ شائع ہوا، جِلد ۱۰، صفحہ ۴۴۲۔
c دی ٹیکسٹ آف دی نیو ٹسٹامنٹ، از کرٹ اینڈ بابرا ایلینڈ، ای.ایف روڈہز کا ترجمہ، ۱۹۸۷، صفحہ ۹۸۔