والد اور بزرگ—دونوں کردار ادا کرنا
”جب کوئی اپنے گھر ہی کا بندوبست کرنا نہیں جانتا تو خدا کی کلیسیا کی خبرگیری کیونکر کریگا؟“—۱-تیمتھیس ۳:۵۔
۱، ۲. (ا) پہلی صدی میں، کنوارے نگہبان اور بچوں کے بغیر شادیشُدہ نگہبان اپنے بھائیوں کی خدمت کرنے کے قابل کیسے ہوئے تھے؟ (ب) اکولہ اور پرسکہ آجکل بہتیرے شادیشُدہ جوڑوں کیلئے ایک نمونہ کیسے ہیں؟
ابتدائی مسیحی کلیسیا میں کنوارے مرد یا بالبچوں کے بغیر شادیشُدہ مرد، یا بالبچوں کیساتھ خاندان والے مرد نگہبان ہوتے تھے۔ بیشک اُن مسیحیوں میں سے بعض کنوارے رہتے ہوئے، کرنتھیوں کے نام اُسکے پہلے خط کے باب ۷ میں، پیشکردہ پولس رسول کی نصیحت پر عمل کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ یسوع نے بیان کِیا تھا: ”بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہی کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا۔“ (متی ۱۹:۱۲) ایسے کنوارے اشخاص، جیسےکہ پولس اور شاید اُسکے سفری ساتھیوں میں سے بعض، اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کی خاطر سفر پر جانے کیلئے تیار تھے۔
۲ بائبل یہ نہیں بتاتی کہ آیا برنباس، مرقس، سیلاس، لوقا، تیمتھیس اور ططس کنوارے اشخاص تھے۔ تاہم، اگر شادیشُدہ تھے تو ظاہری طور پر وہ مختلف تفویضات کے ساتھ دُوردراز کا سفر کرنے کے قابل ہونے کے لئے خاندانی ذمہداریوں سے کافی حد تک آزاد تھے۔ (اعمال ۱۳:۲؛ ۱۵:۳۹-۴۱؛ ۲-کرنتھیوں ۸:۱۶، ۱۷؛ ۲-تیمتھیس ۴:۹-۱۱؛ ططس ۱:۵) ہو سکتا ہے کہ اُن کی بیویاں اُن کے ساتھ ہوں، جیسےکہ پطرس اور ”اَور رسول“ کرتے تھے جو بدیہی طور پر مختلف جگہوں پر جاتے وقت اپنی بیویوں کو ساتھ لیجایا کرتے تھے۔ (۱-کرنتھیوں ۹:۵) اکولہ اور پرسکہ ایک شادیشُدہ جوڑے کی مثال ہیں جو پولس کے پیچھے پیچھے کرنتھس سے افسس، پھر روم تک جاکر واپس افسس آنے کیلئے نقلمکانی کرنے کے لئے آمادہ تھے۔ بائبل یہ نہیں بتاتی کہ آیا اُن کے کوئی بچے بھی تھے۔ اپنے بھائیوں کی عقیدتمندانہ خدمت کے لئے ”غیرقوموں کی سب کلیسیائیں“ بھی اُنکی شکرگزار تھیں۔ (رومیوں ۱۶:۳-۵؛ اعمال ۱۸:۲، ۱۸؛ ۲-تیمتھیس ۴:۱۹) آجکل، یقیناً بہتیرے ایسے شادیشُدہ جوڑے ہیں جو اکولہ اور پرسکہ کی طرح، شاید زیادہ ضرورت والے علاقوں میں منتقل ہونے سے، دیگر کلیسیاؤں کی خدمت کر سکتے ہیں۔
باپ اور بزرگ
۳. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ پہلی صدی کے بہتیرے بزرگ بالبچےدار شادیشُدہ مرد تھے؟
۳ ایسے لگتا ہے کہ پہلی صدی س.ع. میں، مسیحی بزرگوں کی اکثریت بچوں والے شادیشُدہ اشخاص تھے۔ جب پولس ایسے شخص کیلئے ضروری لیاقتوں کا ذکر کر رہا تھا جو ”نگہبان کا عہدہ چاہتا ہے“ تو اُس نے بیان کِیا کہ ایسے مسیحی کو چاہئے کہ ”اپنے گھر کا بخوبی بندوبست کرتا ہو اور اپنے بچوں کو کمال سنجیدگی سے تابع رکھتا ہو۔“—۱-تیمتھیس ۳:۱، ۴۔
۴. بالبچےدار شادیشُدہ بزرگوں سے کس چیز کا تقاضا کِیا گیا تھا؟
۴ جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں نگہبان بچے پیدا کرنے یا شادی کرنے کا پابند نہیں تھا۔ لیکن اگر شادیشُدہ ہو تو ایک بزرگ یا خدمتگزار خادم کے طور پر لائق ٹھہرنے کیلئے، ایک مسیحی کو اپنی بیوی پر مناسب اور پُرمحبت سرداری کو عمل میں لانا چاہئے اور خود کو اپنے بچوں کو موزوں تابعداری میں رکھنے کے لائق ثابت کرنا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳؛ ۱-تیمتھیس ۳:۱۲، ۱۳) اپنے گھرانے کا انتظام کرنے میں کوئی بھی سنگین کمزوری کسی بھائی کو کلیسیا میں خاص استحقاقات کیلئے نااہل قرار دیگی۔ کیوں؟ پولس نے وضاحت کی: ”جب کوئی اپنے گھر ہی کا بندوبست کرنا نہیں جانتا تو خدا کی کلیسیا کی خبرگیری کیونکر کریگا؟“ (۱-تیمتھیس ۳:۵) اگر اُسکے اپنے ہی خاندان کے لوگ اُسکی نگہبانی کی تابعداری کرنے کو تیار نہیں تو دوسرے کیسا ردِعمل دکھائینگے؟
”بچے ایماندار . . . ہوں“
۵، ۶. (ا) پولس نے ططس کو بچوں کے سلسلے میں کس تقاضے کی بابت بتایا؟ (ب) بالبچےدار بزرگوں سے کس بات کی توقع کی جاتی ہے؟
۵ ططس کو کریتے کی کلیسیاؤں میں نگہبان مقرر کرنے کی ہدایت دیتے وقت، پولس نے شرائط مقرر کیں: ”جو بےالزام اور ایک ایک بیوی کے شوہر ہوں اور اُن کے بچے ایماندار اور بدچلنی اور سرکشی کے الزام سے پاک ہوں۔ کیونکہ نگہبان کو خدا کا مختار ہونے کی وجہ سے بےالزام ہونا چاہئے۔“ پس ”بچے ایماندار“ ہونے کے تقاضے کا کیا مطلب ہے؟—ططس ۱:۶، ۷۔
۶ اصطلاح ”بچے ایماندار“ ہوں ایسے نوجوانوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو پہلے ہی سے یہوواہ کیلئے اپنی زندگیاں مخصوص کر چکے ہیں اور بپتسمہ لے چکے ہیں یا پھر ایسے نوجوانوں کی طرف جو مخصوصیت اور بپتسمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کلیسیا کے ارکان بزرگوں کے بچوں سے عموماً مہذب اور فرمانبردار ہونے کی توقع کرتے ہیں۔ یہ عیاں ہونا چاہئے کہ بزرگ اپنے بچوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے اپنی حتیالوسع کوشش کر رہا ہے۔ بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”لڑکے کی اُس راہ میں تربیت کر جس پر اُسے جانا ہے۔ وہ بوڑھا ہوکر بھی اُس سے نہیں مڑیگا۔“ (امثال ۲۲:۶) لیکن اُسوقت کیا ہو اگر کوئی ایسی تربیت حاصل کرنے والا نوجوان یہوواہ کی خدمت کرنے سے انکار کر دیتا ہے یا سنگین غلطی بھی کر گزرتا ہے؟
۷. (ا) یہ بات کیوں واضح ہے کہ امثال ۲۲:۶ کوئی بےلوچ قانون بیان نہیں کرتی؟ (ب) اگر ایک بزرگ کے بچے یہوواہ کی خدمت کرنے کا انتخاب نہیں کرتے تو بزرگ ازخود اپنے استحقاقات سے کیوں محروم نہیں ہوگا؟
۷ یہ ظاہر ہے کہ مذکورہبالا مثل کوئی سخت قانون وضع نہیں کر رہی ہے۔ یہ آزاد مرضی کے اصول کی تنسیخ نہیں کرتی۔ (استثنا ۳۰:۱۵، ۱۶، ۱۹) جب کوئی بیٹا یا بیٹی ذمہداری کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اُس لڑکے یا لڑکی کو مخصوصیت اور بپتسمے کے سلسلے میں ذاتی فیصلہ کرنا چاہئے۔ اگر ایک بزرگ نے واضح طور پر درکار روحانی مدد، راہنمائی اور تربیت فراہم کر دی ہے لیکن پھربھی نوجوان یہوواہ کی خدمت کرنے کا انتخاب نہیں کرتا تو باپ ازخود بطور نگہبان خدمت انجام دینے کے نااہل نہیں ٹھہرتا۔ دوسری جانب، اگر بزرگ کے گھر میں کئی نابالغ بچے رہ رہے ہیں جو یکےبعددیگرے، روحانی طور پر بیمار اور مشکل حالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر اُسے ”اپنے گھر کا بخوبی بندوبست“ کرنے والا نہیں سمجھا جائیگا۔ (۱-تیمتھیس ۳:۴) اہم نقطہ تو یہ ہے کہ یہ واضح ہونا چاہئے کہ نگہبان اپنی پوری کوشش کر رہا ہے کہ ’بچے ایسے ایماندار ہوں جن پر نہ تو بدچلنی اور نہ ہی سرکشی کا الزام ہو۔‘a
ایسی ”بیوی“ سے ازدواجی رشتہ ہونا جو ”باایمان نہ ہو“
۸. ایک بزرگ کو اپنی بےایمان بیوی سے کیسے پیش آنا چاہئے؟
۸ بےایمانوں سے بیاہے گئے مسیحی مردوں کے سلسلے میں، پولس نے لکھا: ”اگر کسی بھائی کی بیوی باایمان نہ [”بےایمان،“ اینڈبلیو] ہو اور اُسکے ساتھ رہنے کو راضی ہو تو وہ اُسکو نہ چھوڑے . . . کیونکہ . . . جو بیوی باایمان نہیں وہ مسیحی شوہر کے باعث پاک ٹھہرتی ہے ورنہ تمہارے فرزند ناپاک ہوتے مگر اب پاک ہیں۔ اور اَے مرد! تجھ کو کیا خبر ہے کہ شاید تُو اپنی بیوی کو بچا لے؟“ (۱-کرنتھیوں ۱۲-۱۴، ۱۶) لفظ ”بےایمان“ یہاں ایسی بیوی کی طرف اشارہ نہیں کرتا جسکا کوئی مذہبی اعتقاد نہیں بلکہ اُسکی طرف اشارہ کرتا ہے جو یہوواہ کیلئے مخصوص نہیں ہے۔ وہ یہودن یا جھوٹے معبودوں پر ایمان رکھنے والی ہو سکتی ہے۔ آجکل، کسی بزرگ کا کسی ایسی عورت سے ازدواجی رشتہ ہو سکتا ہے جو کسی فرق مذہب کی پیروکار ہے یا ایک لاادریا یا پھر دہریہ ہو سکتی ہے۔ اگر وہ اُس کے ساتھ رہنے کو راضی ہے تو اُسے محض فرق اعتقادات رکھنے کی وجہ سے اُسے چھوڑنا نہیں چاہئے۔ پھربھی اُسے چاہئے کہ اُسے بچانے کی توقعات رکھتے ہوئے، ’اُس کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرے اور اُسے نازک ظرف جان کر اُس کی عزت کرے۔‘—۱-پطرس ۳:۷؛ کلسیوں ۳:۱۹۔
۹. ایسے ممالک میں جہاں قانون شوہر اور بیوی دونوں کو اپنے بچوں کو اپنے اپنے مذہبی اعتقادات سکھانے کا حق دیتا ہے وہاں ایک بزرگ کو کیسے عمل کرنا چاہئے اور یہ اُسکے استحقاقات پر کیسے اثرانداز ہوگا؟
۹ اگر کوئی نگہبان بالبچےدار ہے تو وہ ”خداوند کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر“ اُنکی پرورش کرنے میں موزوں طور پر شوہر اور باپ کی حیثیت سے سرداری کو عمل میں لائیگا۔ (افسیوں ۶:۴) بہت سے ممالک میں قانون دونوں ازدواجی ساتھیوں کو اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم فراہم کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس معاملے میں بیوی بچوں پر اپنے مذہبی اعتقادات اور رسومات کو آشکارا کرنے کے اپنے حق کو استعمال کرنے کا تقاضا کر سکتی ہے جس میں اُنہیں اپنے چرچ لے جانا شامل ہو سکتا ہے۔b بِلاشُبہ، جھوٹی مذہبی تقریبات میں شریک نہ ہونے کے سلسلے میں بچوں کو اپنے بائبل سے تربیتیافتہ ضمیر کی آواز پر دھیان دینا چاہئے۔ خاندان کے سردار کے طور پر، باپ اپنے بچوں کیساتھ مطالعہ کرنے اور جب ممکن ہو اُنہیں کنگڈم ہال میں اجلاسوں پر لے جانے کیلئے اپنے حق کو عمل میں لائیگا۔ جب وہ اُس عمر کو پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں تو وہ اپنے لئے خود فیصلہ کرینگے کہ وہ کونسی راہ اختیار کرینگے۔ (یشوع ۲۴:۱۵) اگر اُسکے ساتھی بزرگ اور کلیسیا کے ارکان دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو مناسب طور پر سچائی کی راہ پر ڈالنے کیلئے جہاں تک قانون اُسے اجازت دیتا ہے وہ اپنی پوری کوشش کر رہا ہے تو وہ بطور نگہبان نااہل قرار نہیں پائیگا۔
’اپنے گھرانے کا بخوبی بندوبست کرنا‘
۱۰. کسی بالبچےدار بزرگ کا اوّلین فرض کیا ہے؟
۱۰ حتیٰکہ ایسے بزرگ کیلئے جو باپ ہے اور جسکی بیوی ایک ساتھی ایماندار ہے، اپنے وقت اور توجہ کو اپنی بیوی، بچوں، اور کلیسیائی ذمہداریوں کے درمیان موزوں طور پر بانٹنا آسان کام نہیں ہے۔ صحائف بالکل صاف بیان کرتے ہیں کہ ایک مسیحی باپ کا فرض ہے کہ اپنے بیوی اور بچوں کی دیکھبھال کرے۔ پولس نے لکھا: ”اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۸) اُسی خط میں، پولس نے بیان کِیا کہ صرف ایسے شادیشُدہ اشخاص کی نگہبانوں کے طور پر سفارش کی جانی چاہئے جو پہلے ہی سے خود کو اچھے شوہر اور باپ ثابت کر چکے ہیں۔—۱-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
۱۱. (ا) کن طریقوں سے ایک بزرگ کو ”اپنوں . . . کی خبرگیری“ کرنی چاہئے؟ (ب) اپنی کلیسیائی ذمہداریوں کو پورا کرنے کیلئے یہ ایک بزرگ کی کیسے مدد کر سکتا ہے؟
۱۱ ایک بزرگ کو اپنے گھرانے کا نہ صرف مادی طور پر بلکہ روحانی اور جذباتی طور پر بھی ”انتظام“ کرنا چاہئے۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”اپنا کام باہر تیار کر۔ اُسے اپنے لئے کھیت میں درست کر لے اور اُسکے بعد اپنا گھر بنا۔“ (امثال ۲۴:۲۷) لہٰذا اپنی بیوی اور بچوں کی مادی، جذباتی اور تفریحی ضروریات پوری کرنے کیساتھ ساتھ، ایک نگہبان کو اُنہیں روحانی طور پر بھی تقویت پہنچانی چاہئے۔ اس کیلئے وقت درکار ہے—ایسا وقت جسے وہ کلیسیائی معاملات کیلئے وقف کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔ لیکن یہ ایسا وقت ضرور ہے جو خاندانی خوشی اور روحانیت کی صورت میں کثیر فوائد لا سکتا ہے۔ آئندہ، اگر اُسکا خاندان روحانی طور پر مضبوط ہے تو بزرگ کو خاندانی مسائل کو حل کرنے میں کم وقت صرف کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ کلیسیائی معاملات کی دیکھبھال کرنے کے لئے اُس کے ذہن کو زیادہ آزاد رکھیگا۔ ایک اچھے شوہر اور ایک اچھے باپ کے طور پر اُس کا نمونہ کلیسیا کے روحانی فائدے کے لئے ہوگا۔—۱-پطرس ۵:۱-۳۔
۱۲. کس خاندانی معاملے میں والدوں کو جو بزرگ بھی ہیں ایک عمدہ نمونہ قائم کرنا چاہئے؟
۱۲ اچھے طریقے سے گھرانے کا انتظام کرنے میں خاندانی مطالعے کا بندوبست کرنے کیلئے وقت نکالنا بھی شامل ہے۔ یہ خاص طور پر اہم ہے کہ بزرگ اس سلسلے میں عمدہ نمونہ قائم کریں کیونکہ مضبوط خاندان مضبوط کلیسیائیں تشکیل دیتے ہیں۔ نگہبان کے وقت کو خدمت کے دیگر استحقاقات کے سلسلے میں مسلسل اسقدر مصروف نہیں ہونا چاہئے کہ اُس کے پاس اپنی بیوی اور بچوں کیساتھ مطالعہ کرنے کیلئے وقت ہی نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو اُسے اپنے شیڈول کا پھر سے جائزہ لینا چاہئے۔ اُسے شاید دیگر معاملات میں جو وقت وہ صرف کرتا ہے اُسے دوبارہ سے ترتیب دینا پڑے یا کم کرنا پڑے، حتیٰکہ بعضاوقات کچھ استحقاقات کو قبول کرنے سے معذرت کرنی پڑے۔
متوازن نگہبانی
۱۳، ۱۴. ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ نے اُن بزرگوں کو جو بالبچے دار مرد ہیں کیا مشورت پیش کی ہے؟
۱۳ خاندان اور کلیسیائی ذمہداریوں میں توازن رکھنے کی بابت مشورت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کئی سالوں سے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ اس سلسلے میں بزرگوں کو مشورت فراہم کرتا رہا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) ۳۷ سال قبل، ستمبر ۱۵، ۱۹۵۹ کے دی واچٹاور نے صفحات ۵۵۳ اور ۵۵۴ پر نصیحت کی تھی: ”واقعی، کیا یہ ہمارے وقت کی بابت ان تمام تقاضوں میں توازن قائم کرنے کا معاملہ نہیں ہے؟ آئیے اس توازن میں اپنے خاندان کے مفادات کو جائز اہمیت دیں۔ یقیناً یہوواہ خدا کسی شخص سے اپنا سارا وقت کلیسیائی کارگزاری میں، نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے بھائیوں اور پڑوسیوں کی مدد کرنے میں استعمال کرنے اور اپنے گھرانے کی نجات کی دیکھبھال نہ کرنے کی توقع نہیں کرتا۔ ایک مرد کی اوّلین ذمہداری بیوی اور بچے ہیں۔“
۱۴ نومبر ۱، ۱۹۸۶ کے دی واچٹاور نے صفحہ ۲۲ پر مشورہ دیا: ”بطور خاندان خدمتگزاری میں شریک ہونا آپ کو قریبتر لائیگا لیکن بچوں کی منفرد ضروریات آپکے ذاتی وقت اور جذباتی توانائی کے عہد کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسلئے، اس بات کا تعیّن کرنے کیلئے توازن درکار ہے کہ آپ کلیسیائی فرائض کیلئے کتنا وقت صرف کر سکتے ہیں جبکہ آپ اُنکی روحانی، جذباتی اور مادی طور پر بھی دیکھبھال کرتے ہیں جو ’آپکے اپنے ہیں۔‘ [ایک مسیحی] کو ’پہلے [اپنے] ہی گھرانے میں خدائی عقیدت کو عمل میں لانا سیکھنا‘ چاہئے۔ (۱-تیمتھیس ۵:۴، ۸)“
۱۵. بیوی بچوں والے بزرگ کو حکمت اور فہم کی کیوں ضرورت ہے؟
۱۵ ایک صحیفائی مثل کہتی ہے: ”حکمت سے گھر تعمیر کِیا جاتا ہے اور فہم سے اُس کو قیام ہوتا ہے۔“ (امثال ۲۴:۳) جیہاں، ایک نگہبان کو اپنے تھیوکریٹک فرائض کو انجام دینے اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے گھرانے کی ترقی کے لئے یقیناً حکمت اور فہم کی ضرورت ہے۔ صحیفائی طور پر، اُس کے لئے نگہبانی کے ایک سے زیادہ حلقے ہیں۔ اس میں اُس کا خاندان اور اُس کی کلیسیائی ذمہداریاں شامل ہیں۔ ان کے درمیان توازن قائم کرنے کیلئے اُسے فہم کی ضرورت ہے۔ (فلپیوں ۱:۹، ۱۰) اُسے اپنی ترجیحات کا تعیّن کرنے کیلئے حکمت کی ضرورت ہے۔ (امثال ۲:۱۰، ۱۱) تاہم وہ اپنے کلیسیائی استحقاقات کی دیکھبھال کرنے کیلئے جتنی زیادہ ذمہداری محسوس کرتا ہے، اُسے یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ شوہر اور باپ کے طور پر اُسکی اوّلین خداداد ذمہداری اپنے خاندان کی دیکھبھال اور نجات ہے۔
اچھے باپ اور اچھے بزرگ
۱۶. ایک بزرگ کو کیا فائدہ حاصل ہے اگر وہ باپ بھی ہے؟
۱۶ جس بزرگ کے بچے نہایت مہذب ہوں وہ حقیقی اثاثہ ہو سکتا ہے۔ اگر اُس نے اپنے خاندان کی اچھی دیکھبھال کرنا سیکھ لیا ہے تو پھر وہ کلیسیا میں دیگر خاندانوں کی مدد کرنے کی حالت میں ہوگا۔ وہ اُنکے مسائل کو بہتر سمجھتا ہے اور ایسی مشورت پیش کر سکتا ہے جو اُسکے اپنے تجربے کی عکاسی کرتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ دُنیابھر میں ہزاروں بزرگ شوہروں، والدوں اور نگہبانوں کے طور پر عمدہ کام کر رہے ہیں۔
۱۷. (ا) ایک شخص کو جو باپ اور بزرگ بھی ہے کونسی بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے؟ (ب) کلیسیا کے دیگر افراد کو کیسے ہمدردی دکھانا چاہئے؟
۱۷ ایک بالبچےدار شخص کیلئے بزرگ بننے کیلئے اُسے ایسا پُختہ مسیحی ہونا چاہئے جو اپنی بیوی اور بچوں کی دیکھبھال کرنے کیساتھ ساتھ، اپنے معاملات کو اسطرح منظم کر سکتا ہو کہ کلیسیا میں دوسرے لوگوں کو بھی وقت اور توجہ دینے کے قابل ہو۔ اُسے کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اُسکا گلّہبانی کرنے کا کام گھر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بیوی بچوں والے بزرگ اپنے خاندان اور اپنے کلیسیائی فرائض دونوں کیلئے ذمہدار ہیں، اسلئے کلیسیا کے افراد اُن کے وقت کیلئے غیرضروری مطالبے کرنے کی کوشش نہیں کرینگے۔ مثال کے طور پر، ایک بزرگ جسکے بچے ہیں جنہیں اگلی صبح سکول جانا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ شام کو اجلاس کے بعد کچھ وقت کے لئے ٹھہرنے کے قابل نہ ہو۔ کلیسیا کے دوسرے افراد کو یہ بات سمجھنی چاہئے اور ہمدردی دکھانی چاہئے۔—فلپیوں ۴:۵۔
ہمیں اپنے بزرگوں کو عزیز رکھنا چاہئے
۱۸، ۱۹. (ا) ۱-کرنتھیوں ۷ باب کے ہمارے جائزے نے ہمیں کیا پہچاننے کے لائق بنایا ہے؟ (ب) ہمیں ایسے مسیحی اشخاص کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۸ کرنتھیوں کے نام پولس کے پہلے خط کے ۷باب کے ہمارے جائزے نے ہمیں یہ دیکھنے کے لائق بنایا ہے کہ پولس کی مشورت پر عمل کرتے ہوئے، بہتیرے کنوارے مرد اپنی آزادی کو بادشاہتی مفادات کو انجام دینے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ہزاروں شادیشُدہ بھائی بچوں کے بغیر بھی ہیں جو اپنی بیویوں کو توجہ دینے کیساتھ ساتھ، اپنی بیویوں کے قابلِتعریف تعاون سے ڈسٹرکٹ، سرکٹ، کلیسیاؤں اور واچٹاور برانچ کے کاموں میں اچھے نگہبانوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ آخر میں، یہوواہ کے لوگوں کی تقریباً ۸۰،۰۰۰ کلیسیاؤں میں، بہتیرے ایسے والد ہیں جو نہ صرف اپنی بیوی اور بچوں کی پُرمحبت دیکھبھال کرتے ہیں بلکہ شفیق چرواہوں کے طور پر اپنے بھائیوں کی خدمت کرنے کے لئے بھی وقت نکالتے ہیں۔—اعمال ۲۰:۲۸۔
۱۹ پولس رسول نے لکھا: ”جو بزرگ اچھا انتظام کرتے ہیں۔ خاصکر وہ جو کلام سنانے اور تعلیم دینے میں محنت کرتے ہیں دوچند عزت کے لائق سمجھے جائیں۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۱۷) جیہاں، اپنے گھروں اور کلیسیاؤں میں اچھا انتظام کرنے والے بزرگ ہماری محبت اور احترام کے مستحق ہیں۔ یقیناً ہمیں ”ایسے شخصوں کی عزت“ کرنی چاہئے۔—فلپیوں ۲:۲۹۔ (۲۰ ۱۰/۱۵ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a دیکھیں دی واچٹاور، فروری ۱، ۱۹۷۸، صفحات ۳۱، ۳۲۔
b دیکھیں دی واچٹاور، دسمبر ۱، ۱۹۶۰، صفحات ۷۳۵-۷۳۶۔
اعادے کی خاطر
▫ ہم کیسے جانتے ہیں کہ پہلی صدی س.ع. میں بہت سے بزرگ بالبچےدار مرد تھے؟
▫ بالبچےدار شادیشُدہ اشخاص سے کیا تقاضا کِیا جاتا ہے اور کیوں؟
▫ ”بچے ایماندار“ ہو نے سے کیا مُراد ہے لیکن کیا ہو اگر کسی بزرگ کا بچہ یہوواہ کی خدمت کرنے کا انتخاب نہیں کرتا؟
▫ کن طریقوں سے ایک بزرگ کو ”اپنوں . . . کی خبرگیری“ کرنی چاہئے؟
[تصویر]
مضبوط خاندان مضبوط کلیسیائیں تشکیل دیتے ہیں