ہمیں ایمان رکھنے والا ہونا چاہئے
”ہم . . .ایمان رکھنے والے ہیں کہ جان بچائیں۔“—عبرانیوں ۱۰:۳۹۔
۱. یہوواہ کے ہر وفادار خادم کی بابت یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ اُس کا ایمان بیشقیمت ہے؟
اگلی مرتبہ جب آپ یہوواہ کے پرستاروں سے بھرے ہوئے کنگڈمہال میں جائیں تو تھوڑی دیر کیلئے اپنے چوگرد نگاہ ڈالیں۔ جن مختلف طریقوں سے وہ ایمان کا مظاہرہ کرتے ہیں اُن پر غور کریں۔ آپ عشروں سے خدا کی خدمت کرنے والے عمررسیدہ اشخاص، ہر روز ہمسروں کے دباؤ کا مقابلہ کرنے والے نوجوانوں اور خداترس بچوں کی پرورش کرنے کیلئے سخت محنت کرنے والے والدین کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہاں کلیسیائی بزرگ اور خدمتگزار خادم بھی ہیں جنکی بہت سی ذمہداریاں ہیں۔ جیہاں، آپ ہر عمر کے روحانی بہن بھائیوں کو دیکھ سکتے ہیں جو یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے ہر طرح کی رکاوٹوں پر غالب آتے ہیں۔ ہر ایک کا ایمان کسقدر بیشقیمت ہے!—۱-پطرس ۱:۷۔
۲. عبرانیوں کے ۱۰ اور ۱۱ باب میں پولس کی مشورت آجکل ہمارے لئے کیوں فائدہمند ہے؟
۲ شاید چند ہی ایسے ناکامل اشخاص ہونگے جنہوں نے ایمان کی اہمیت کو پولس رسول کی نسبت زیادہ بہتر طور پر سمجھا ہے۔ درحقیقت، اس نے بیان کِیا کہ حقیقی ایمان ”جان [بچانے]“ کا باعث بنتا ہے۔ (عبرانیوں ۱۰:۳۹) تاہم، پولس جانتا تھا کہ اس بےایمان دُنیا میں ایمان حملے اور تباہی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ وہ یروشلیم اور یہودیہ کے عبرانی مسیحیوں کی بابت گہری فکر رکھتا تھا جو اپنے ایمان کو بچانے کیلئے کوشاں تھے۔ جب ہم عبرانیوں کے ۱۰ اور ۱۱ باب کے حصوں پر غور کرتے ہیں تو آئیے اُن طریقوں کا جائزہ لیں جنہیں پولس نے انکا ایمان مضبوط کرنے کیلئے استعمال کِیا۔ اس جائزے کے دوران ہم دیکھیں گے کہ ہم کیسے اپنا اور اپنے چوگرد دوسرے لوگوں کا ایمان مضبوط کر سکتے ہیں۔
ایک دوسرے پر اعتماد ظاہر کریں
۳. عبرانیوں ۱۰:۳۹ میں پولس کے الفاظ کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایماندار بہن بھائیوں پر اعتماد رکھتا تھا؟
۳ پہلی بات جسے ہم دیکھ سکتے ہیں وہ پولس کا اپنے قارئین کے لئے مثبت رویہ ہے۔ اس نے لکھا: ”لیکن ہم ہٹنے والے نہیں کہ ہلاک ہوں بلکہ ایمان رکھنے والے ہیں کہ جان بچائیں۔“ (عبرانیوں ۱۰:۳۹) پولس اپنے وفادار ساتھی مسیحیوں کی بابت مثبت سوچ رکھتا تھا۔ اس بات پر بھی غور کریں کہ اس نے ”ہم“ کا لفظ استعمال کِیا۔ پولس ایک راستباز انسان تھا۔ تاہم، اس نے اپنے سامعین کو کمتر خیال نہیں کِیا تھا گویا کہ وہ راستبازی کے معاملے میں ان سے کہیں برتر ہے۔ (مقابلہ کریں واعظ ۷:۱۶۔) اسکے برعکس، اس نے خود کو اُن میں شامل کِیا۔ اس نے پورے اعتماد کا اظہار کِیا کہ وہ اور اسکے وفادار مسیحی قارئین راہ میں آنے والی تمام حوصلہشکن رکاوٹوں کا سامنا کرینگے، مطلب یہ کہ وہ دلیری کیساتھ پیچھے ہٹنے سے انکار کر دینگے کہ ہلاک نہ ہوں، علاوہازیں وہ خود کو ایمان رکھنے والے ثابت کرینگے۔
۴. پولس کن وجوہات کی بِنا پر اپنے ساتھی ایمانداروں کے سلسلے میں پُراعتماد تھا؟
۴ پولس کیوں ایسا پُراعتماد ہو سکتا تھا؟ کیا اُس نے عبرانی مسیحیوں کی خامیوں کے سلسلے میں اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں؟ ایسا نہیں تھا بلکہ اس نے انہیں ان کی روحانی کمزوریوں پر غالب آنے کے لئے خاص مشورت دی۔ (عبرانیوں ۳:۱۲؛ ۵:۱۲-۱۴؛ ۶:۴-۶؛ ۱۰:۲۶، ۲۷؛ ۱۲:۵) پھربھی، پولس کے پاس اپنے بھائیوں کے سلسلے میں پُراعتماد رہنے کے لئے کمازکم دو اچھی وجوہات تھیں۔ (ا) یہوواہ کی مانند بننے والے کی حیثیت سے پولس نے خدا کے لوگوں کو یہوواہ کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ نہ صرف اُن کی خامیوں کے حوالے سے تھا بلکہ اُن کی اچھی خوبیوں اور مستقبل میں نیکی کو عمل میں لانے کا انتخاب کرنے کے امکان کے حوالے سے بھی ایسے تھا۔ (زبور ۱۳۰:۳؛ افسیوں ۵:۱) (۲) پولس روحالقدس کی قدرت پر کامل ایمان رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی بھی قسم کی رکاوٹیں، انسانی کمزوریاں، یہوواہ کی وفاداری سے خدمت کرنے والے مسیحی کو ”حد سے زیادہ قدرت“ عطا کرنے سے اسے روک نہیں سکتیں۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۷؛ فلپیوں ۴:۱۳) پس اپنے بھائیوں اور بہنوں پر پولس کا یہ اعتماد غلط، غیرحقیقتپسندانہ یا نامعقول حد تک رجائیتپسندانہ نہیں تھا۔ اس کی بنیاد ٹھوس اور صحائف پر مبنی تھی۔
۵. ہم پولس کے اعتماد کی نقل کیسے کر سکتے ہیں اور غالباً کس نتیجے کے ساتھ؟
۵ یقیناً، جس اعتماد کا مظاہرہ پولس نے کِیا وہ اثرآفرین ثابت ہؤا۔ یروشلیم اور یہودیہ کی کلیسیاؤں کیلئے اِسکا بڑا گہرا مطلب تھا کہ پولس نے اُن سے اسقدر حوصلہافزا باتیں کی تھیں۔ اپنے یہودی مخالفین کے حوصلہشکن طنز اور متکبرانہ بےاعتنائی کے پیشِنظر، عبرانی مسیحیوں کی ایمان رکھنے والا بننے کی خاطر اپنے دلوں میں عزمِمُصمم کرنے کیلئے ایسے اظہارات سے مدد کی گئی تھی۔ کیا ہم آجکل ایک دوسرے کیلئے ایسا ہی کر سکتے ہیں؟ دوسروں کی خامیاں نکالنا اور اُنکی شخصیت پر تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ (متی ۷:۱-۵) تاہم، اگر ہم ہر ایک کے لاثانی ایمان پر غور کریں اور اُسکی قدر کریں تو ہم ایک دوسرے کی بہت زیادہ مدد کر سکتے ہیں۔ ایسی حوصلہافزائی سے، ایمان کے زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔—رومیوں ۱:۱۱، ۱۲۔
خدا کے کلام کا موزوں استعمال
۶. جب پولس نے عبرانیوں ۱۰:۳۸ کے الفاظ تحریر کئے تو وہ اسکا حوالہ کہاں سے دے رہا تھا؟
۶ پولس صحائف کا ماہرانہ استعمال کرنے سے بھی اپنے ساتھی ایمانداروں کا ایمان مضبوط کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اس نے لکھا: ”میرا راستباز بندہ ایمان سے جیتا رہیگا اور اگر وہ ہٹے گا تو میرا دل اُس سے خوش نہ ہوگا۔“ (عبرانیوں ۱۰:۳۸) پولس یہاں حبقوق نبی کی کتاب سے حوالہ دے رہا تھا۔a پولس کے قارئین، عبرانی مسیحیوں کیلئے یہ الفاظ غالباً جانے پہچانے تھے جو نبوّتی کتابوں سے خوب واقف تھے۔ تقریباً ۶۱ س.ع. میں یروشلیم کے اندر اور اسکے قربوجوار میں رہنے والے مسیحیوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے اُسکے نصباُلعین پر غور کرتے ہوئے حبقوق کی مثال ایک موزوں انتخاب تھا۔ کیوں؟
۷. حبقوق نے اپنی پیشینگوئی کب قلمبند کی اور اسوقت یہوداہ کی حالت کیسی تھی؟
۷ حبقوق نے اپنی کتاب بدیہی طور پر ۶۰۷ ق.س.ع. میں یروشلیم کی تباہی سے تقریباً دو عشرے پہلے تحریر کی تھی۔ رویا میں، نبی نے ایک ”ترشرو اور تُندمزاج قوم“ کسدیوں (یا بابلیوں) کو اُمتوں اور قوموں کو ہڑپ کرتے ہوئے یہوداہ پر جھپٹا مارتے اور یروشلیم کو تباہ کرتے دیکھا تھا۔ (حبقوق ۱:۵-۱۱) لیکن ایسی تباہی کی پیشینگوئی ایک صدی پہلے یسعیاہ کے زمانے میں کی جا چکی تھی۔ حبقوق کے زمانے میں، یہویقیم، نیک بادشاہ یوسیاہ کا جانشین بنا اور بدکاری پھر سے یہوداہ میں بڑھنے لگی۔ یہویقیم نے یہوواہ کا نام لینے والوں کو ستایا اور قتل تک کروا دیا۔ (۲-تواریخ ۳۶:۵؛ یرمیاہ ۲۲:۱۷؛ ۲۶:۲۰-۲۴) اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ حبقوق نبی چلّا اُٹھا: ”اَے [یہوواہ!] . . . کب تک؟“—حبقوق ۱:۲۔
۸. حبقوق کا نمونہ پہلی صدی اور آجکل کے مسیحیوں کیلئے کیسے مفید ثابت ہوتا ہے؟
۸ حبقوق نہیں جانتا تھا کہ یروشلیم کی تباہی کسقدر نزدیک تھی۔ اسی طرح پہلی صدی کے مسیحی بھی نہیں جانتے تھے کہ یہودی نظاماُلعمل کا خاتمہ کب ہوگا۔ آجکل ہم بھی ”اس دن اور اُس گھڑی“ کی بابت نہیں جانتے کہ اس شریر نظام کے خلاف یہوواہ کی عدالت کی تعمیل کب ہو گی۔ (متی ۲۴:۳۶) پس آئیے حبقوق کیلئے یہوواہ کے دوہرے جواب پر غور کریں۔ اوّل، اس نے نبی کو یقین دلایا کہ خاتمہ اپنے وقت پر آئیگا۔ اگرچہ انسانی نقطۂنظر سے اس میں بظاہر دیر بھی ہو توبھی یہ ”تاخیر نہ“ کریگا۔ (حبقوق ۲:۳) دوم، یہوواہ نے حبقوق کو یاددہانی کرائی: ”صادق اپنے ایمان سے زندہ رہیگا۔“ (حبقوق ۲:۴) کیا ہی شاندار سادہ سچائیاں! سب سے اہم بات یہ نہیں کہ خاتمہ کب آئیگا بلکہ یہ ہے کہ آیا ہم اپنے ایمان کے مطابق زندگی بسر کرتے رہیں گے۔
۹. یہوواہ کے فرمانبردار خادم اپنی وفاداری سے کیسے زندہ رہے (ا) ۶۰۷ ق.س.ع. میں؟ (ب) ۶۶ س.ع. کے بعد؟ (پ) ہمارے لئے اپنے ایمان کو مضبوط کرنا کیوں ضروری ہے؟
۹ جب ۶۰۷ ق.س.ع. میں یروشلیم تاختوتاراج ہؤا تو یرمیاہ، اس کے مُنشی باروک، عبدملک اور وفادار ریکابیوں نے حبقوق سے کئے گئے یہوواہ کے وعدے کی صداقت دیکھی تھی۔ وہ یروشلیم کی ہولناک تباہی سے بچ نکلنے کی وجہ سے ’زندہ‘ رہے۔ کیوں؟ یہوواہ نے ان کی وفاداری کا اجر دیا۔ (یرمیاہ ۳۵:۱-۱۹؛ ۳۹:۱۵-۱۸؛ ۴۳:۴-۷؛ ۴۵:۱-۵) اسی طرح پہلی صدی کے عبرانی مسیحیوں نے پولس کی مشورت کیلئے مثبت جوابیعمل دکھایا ہوگا کیونکہ جب ۶۶ س.ع. میں رومی فوجوں نے یروشلیم پر حملہ کِیا اور پھر ناقابلِتوجیہ وجہ کے بغیر واپس چلی گئیں تو ان مسیحیوں نے بھاگ جانے کے سلسلے میں یسوع کی آگاہی پر وفاداری سے دھیان دیا۔ (لوقا ۲۱:۲۰، ۲۱) وہ اپنی وفاداری کے باعث زندہ رہے۔ اسی طرح، اگر ہم خاتمے کے وقت وفادار پائے جاتے ہیں تو ہم زندہ رہیں گے۔ اس وقت اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی کیا ہی اہم وجہ!
ایماندارانہ نمونوں میں جان ڈالنا
۱۰. پولس نے موسیٰ کے ایمان کی بابت کیا بیان کِیا ہے اور اس سلسلے میں ہم موسیٰ کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۰ پولس نے بھی مثالوں کے زبردست استعمال سے ایمان مضبوط کِیا۔ جب آپ عبرانیوں ۱۱ باب پڑھتے ہیں تو غور کیجئے کہ وہ کس طرح بائبل کرداروں کی مثالوں میں جان ڈالتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ بیان کرتا ہے کہ موسیٰ ”اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۲۷) باالفاظِدیگر، یہوواہ موسیٰ کے لئے اس قدر حقیقی تھا کہ گویا وہ نادیدہ خدا کو دیکھ سکتا تھا۔ کیا ہماری بابت بھی یہی کہا جا سکتا ہے؟ یہوواہ کے ساتھ رشتے کی بابت گفتگو کرنا تو بہت آسان ہے مگر اس رشتے کو اُستوار کرنے اور مضبوط بنانے کے لئے محنت درکار ہوتی ہے۔ ہمیں ایسی ہی محنت کرنے کی ضرورت ہے! کیا یہوواہ ہمارے لئے اس قدر حقیقی ہے کہ جب ہمیں فیصلے، بظاہر چھوٹے فیصلے بھی کرنے ہوتے ہیں تو ہم اس کا لحاظ کرتے ہیں؟ اس قسم کا ایمان بہت زیادہ مخالفت کے وقت میں بھی برداشت کرنے میں ہماری مدد کریگا۔
۱۱، ۱۲. (ا) کن حالات کے تحت حنوک کے ایمان کی آزمائش ہوئی ہوگی؟ (ب) حنوک کو کونسا حوصلہافزا اجر ملا؟
۱۱ حنوک کے ایمان پر بھی غور کریں۔ اُس نے جس مخالفت کا سامنا کِیا ہمارے لئے اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ حنوک کو اُس وقت کے شریر لوگوں کے خلاف اشتعالانگیز عدالتی پیغام کی منادی کرنا تھی۔ (یہوداہ ۱۴، ۱۵) اس وفادار آدمی کیلئے جو اذیت خطرہ بنی ہوئی تھی وہ بدیہی طور پر اس قدر تُند اور متشدّد تھی کہ اس سے پہلے کہ اس کے دشمن اس پر ہاتھ ڈالتے یہوواہ نے ”اُسے اُٹھا لیا“ یعنی اُسے زندہ حالت سے موت کی حالت میں لے گیا۔ پس حنوک نے اس پیشینگوئی کی تکمیل نہ دیکھی جو اس نے کی تھی۔ تاہم، اس نے وہ انعام حاصل کِیا جو کئی لحاظ سے بہتر تھا۔—عبرانیوں ۱۱:۵؛ پیدایش ۵:۲۲-۲۴۔
۱۲ پولس وضاحت کرتا ہے: ”[حنوکؔ] کے اُٹھائے جانے سے پیشتر اُسکے حق میں یہ گواہی دی گئی تھی کہ یہ خدا کو پسند آیا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۵) اس کا کیا مطلب ہے؟ موت کی نیند سونے سے پہلے، شاید حنوک کو کسی قسم کی رویا دکھائی دی ہو، شاید زمینی فردوس کی جس میں وہ ایک دن جلد بیدار ہوگا۔ بہرحال، یہوواہ نے حنوک پر یہ ظاہر کر دیا کہ وہ اُسے اُسکی وفادارانہ روش کی وجہ سے بہت پسند کرتا ہے۔ حنوک نے یہوواہ کے دل کو شاد کیا تھا۔ (مقابلہ کریں امثال ۲۷:۱۱۔) حنوک کی زندگی کی بابت سوچنا اثرآفرین ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا آپ ایسی ایماندارانہ زندگی گزارنا پسند کریں گے؟ توپھر ایسی مثالوں پر غور کریں؛ انہیں حقیقی لوگ خیال کریں۔ روزبروز اپنے ایمان کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عزم کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ایمان رکھنے والے کسی تاریخ یا مقررہ حد کی بنیاد پر یہوواہ کی خدمت نہیں کرتے کہ خدا کب اپنے تمام وعدے پورے کریگا۔ اس کے برعکس، ہم ہمیشہ تک یہوواہ کی خدمت کرنے کا عزمِمُصمم رکھتے ہیں! ایسا کرنے کا مطلب موجودہ اور آئندہ نظاماُلعمل میں بہترین طرزِزندگی ہے۔
ایمان میں زیادہ مضبوط ہونے کا طریقہ
۱۳، ۱۴. (ا) عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵ میں قلمبند پولس کے الفاظ ہمیں اپنے اجلاسوں کو پُرلطف مواقع بنانے کے لئے کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ (ب) مسیحی اجلاس کا بنیادی مقصد کیا ہے؟
۱۳ پولس نے عبرانی مسیحیوں کو ایمان کو مضبوط کرنے والے کئی عملی طریقے بتائے۔ آئیے صرف دو پر غور کرتے ہیں۔ ہم غالباً عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵ میں اس کی نصیحت سے واقف ہیں جو ہمیں اپنے مسیحی اجلاسوں پر باقاعدگی سے حاضر ہونے کی تاکید کرتی ہے۔ تاہم، یاد رکھیں کہ پولس کے الہامی الفاظ یہاں یہ دلالت نہیں کرتے کہ ہمیں ایسے اجلاسوں پر محض انفعالی مشاہدین بننا ہے۔ اس کے برعکس، پولس اجلاسوں کو ایک دوسروں سے واقفیت پیدا کرنے، خدا کی بھرپور طریقے سے خدمت کرنے کے لئے ایک دوسرے کو تحریک دینے اور ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کرنے کے مواقع کے طور پر بیان کرتا ہے۔ ہم وہاں محض لینے کے لئے نہیں بلکہ دینے کے لئے جاتے ہیں۔ اِس سے ہمارے اجلاسوں کو پُرلطف ہونے میں مدد ملتی ہے۔—اعمال ۲۰:۳۵۔
۱۴ تاہم، بنیادی طور پر، ہم مسیحی اجلاسوں پر یہوواہ کی پرستش کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ ہم دُعا اور گیت میں شامل ہونے، توجہ سے سننے اور ”ہونٹوں کا پھل“—اجلاس کے حصوں میں اپنے تبصرہجات کے ذریعے یہوواہ کی حمد کے اظہارات—پیش کرنے سے ایسا کرتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۳:۱۵) اگر ہم ان نصباُلعین پر غور کریں اور ہر اجلاس پر ان باتوں پر عمل کریں تو ہر مرتبہ ہمارا ایمان یقیناً مضبوط ہوگا۔
۱۵. پولس نے عبرانی مسیحیوں کو اپنی خدمتگزاری کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی تاکید کیوں کی اور یہی مشورت آجکل بھی کیوں موزوں ہے؟
۱۵ ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک اَور طریقہ منادی کا کام ہے۔ پولس نے لکھا: ”اپنی اُمید کے اقرار کو مضبوطی سے تھامے رہیں کیونکہ جس نے وعدہ کِیا ہے وہ سچا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۳) جب دیگر لوگ ہمت ہارنے کے خطرے میں پڑ جاتے ہیں تو آپ شاید اُنہیں کسی چیز کو تھامے رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ شیطان یقیناً ان عبرانی مسیحیوں پر میدانی خدمت میں ہمت ہار جانے کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا اور وہ آجکل بھی خدا کے لوگوں پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایسے دباؤ کے سامنے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پولس نے جو کچھ کِیا اُس پر غور کریں۔
۱۶، ۱۷. (ا) پولس نے خدمتگزاری کے لئے دلیری کیسے حاصل کی تھی؟ (ب) اپنی مسیحی خدمتگزاری کے کسی پہلو میں اگر ہم خود کو خوفزدہ پاتے ہیں تو ہمیں کونسے اقدام اُٹھانے چاہئیں؟
۱۶ پولس نے تھسلنیکے کے مسیحیوں کے نام لکھا: ”تم کو معلوم ہی ہے کہ باوجود پیشتر فلپیؔ میں دُکھ اُٹھانے اور بےعزت ہونے کے ہم کو اپنے خدا میں یہ دلیری حاصل ہوئی کہ خدا کی خوشخبری بڑی جانفشانی سے تمہیں سنائیں۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۲:۲) پولس اور اُسکے ساتھی فلپی میں کیسے ”بےعزت ہوئے“ تھے؟ بعض علماء کے مطابق، پولس نے جس یونانی لفظ کو استعمال کِیا وہ توہینآمیز، شرمناک یا تشددآمیز سلوک کا مفہوم دیتا ہے۔ فلپی کے حکام نے انہیں بینت سے مارا، قید میں ڈال دیا اور کاٹھ میں ٹھونک دیا تھا۔ (اعمال ۱۶:۱۶-۲۴) اس دردناک تجربے نے پولس پر کیسا اثر کِیا؟ کیا اس کے مشنری دَورے کے اگلے شہر تھسلنیکے کے لوگوں نے پولس کو پیچھے ہٹتا ہوا پایا؟ جینہیں، اس نے ”دلیری حاصل“ کی۔ وہ ڈر پر غالب آیا اور دلیری سے منادی کرتا رہا تھا۔
۱۷ پولس نے کہاں سے دلیری حاصل کی تھی؟ اس کے اپنے اندر سے؟ جینہیں، اس نے کہا کہ اس نے ”اپنے خدا میں“ دلیری حاصل کی۔ بائبل مترجمین کی ایک حوالہجاتی کتاب بیان کرتی ہے کہ اس بیان کا ترجمہ اس طرح بھی کِیا جا سکتا ہے، ”خدا نے ہمارے دلوں سے ڈر نکال دیا۔“ پس اگر آپ اپنی خدمتگزاری کی بابت بالخصوص دلیری محسوس نہیں کرتے یا اس کا کوئی خاص پہلو آپ کو خوفزدہ کرنے والا معلوم ہوتا ہے، تو کیوں نہ یہوواہ سے درخواست کریں کہ آپ کیلئے بھی وہ ایسا ہی کرے؟ اس سے التجا کریں کہ آپ کے دل سے ڈر نکال دے۔ اس سے مدد کی درخواست کریں تاکہ آپ کام کیلئے دلیری حاصل کریں۔ علاوہازیں، بعض دیگر عملی اقدام بھی اُٹھائیں۔ مثال کے طور پر، کسی ایسے شخص کیساتھ کام کرنے کا بندوبست بنائیں جو اس قسم کی گواہی دینے میں ماہر ہے جو آپ کیلئے فکرمندی کا باعث ہے۔ اس میں کاروباری علاقے میں گواہی، گلیکوچوں میں گواہی، غیررسمی گواہی یا ٹیلیفون پر گواہی دینا شامل ہو سکتی ہے۔ شاید آپ کا ساتھی پہل کرنے کیلئے تیار ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو دیکھیں اور سیکھیں۔ تاہم اِسکے بعد ایسی کوشش کرنے کیلئے دلیری حاصل کریں۔
۱۸. اگر ہم اپنی خدمتگزاری میں دلیری دکھاتے ہیں تو ہمیں کونسی برکات کا تجربہ ہوگا؟
۱۸ جب آپ دلیری حاصل کرتے ہیں تو سوچیں اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ اگر آپ مستقلمزاجی سے کام لیتے ہوئے خود کو حوصلہشکن نہیں ہونے دیتے تو غالباً سچائی پھیلانے میں آپ کو اچھے تجربات حاصل ہونگے، ایسے تجربات جن سے بصورتِدیگر شاید آپ محروم رہ جائیں۔ (صفحہ ۲۵ دیکھیں۔) آپ کو یہ بات جاننے میں خوشی ہوگی کہ آپ نے مشکل کام انجام دیکر یہوواہ کو خوش کِیا ہے۔ اپنے اندیشوں پر غلبہ حاصل کرنے میں آپ اس کی برکت اور مدد کا تجربہ کریں گے۔ آپ کا ایمان زیادہ مضبوط ہو جائیگا۔ واقعی، آپ اپنا ایمان مضبوط کئے بغیر دوسروں کا ایمان مضبوط نہیں کر سکتے۔—یہوداہ ۲۰، ۲۱۔
۱۹. ”ایمان رکھنے والوں“ کیلئے کونسا اجر محفوظ رکھا گیا ہے؟
۱۹ دُعا ہے کہ آپ اپنے اور دوسروں کے ایمان کو ہمیشہ مضبوط کرتے رہیں۔ خدا کے کلام کے ماہرانہ استعمال سے، ایمان کے بائبل نمونوں کا مطالعہ کرنے اور ان میں جان ڈالنے سے، مسیحی اجلاس کی تیاری کرنے اور ان میں حصہ لینے سے اور عوامی خدمتگزاری کے بیشقیمت شرف کو مضبوطی سے تھامے رہنے سے آپ خود کو اور دوسروں کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ جب آپ یہ کام کرتے ہیں تو یقین رکھیں کہ آپ واقعی ”ایمان رکھنے والے“ ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ان اشخاص کے لئے اجر بیشقیمت ہے۔ یہ ”ایمان رکھنے والے ہیں کہ جان بچائیں۔“b دُعا ہے کہ آپ کا ایمان بڑھتا جائے اور یہوواہ خدا آپ کو ہمیشہ تک زندہ رکھے!
[فٹنوٹ]
a پولس نے حبقوق ۲:۴ کے سپتواجنتا ترجمے کا حوالہ دیا جس میں یہ جزوجملہ شامل تھا، ”اگر کوئی ہٹے گا تو میرا دل اُس سے خوش نہ ہوگا۔“ یہ بیان کسی بھی عبرانی مسودے میں نہیں ملتا جو آج تک محفوظ ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ سپتواجنتا ان ابتدائی عبرانی مسودوں پر مشتمل ہے جن کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔ بہرکیف، پولس نے خدا کی پاک روح کے زیرِاثر اسے یہاں بیان کِیا۔ لہٰذا اسے الہٰی منظوری حاصل ہے۔
b سن ۲۰۰۰ کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی سالانہ آیت یہ ہوگی: ”ہم ہٹنے والے نہیں . . . بلکہ ایمان رکھنے والے ہیں۔“—عبرانیوں ۱۰:۳۹۔
آپ کیسے جواب دیں گے؟
◻پولس نے عبرانی مسیحیوں پر اعتماد کا اظہار کیسے کِیا اور ہم اس سے کیا سیکھتے ہیں؟
◻پولس کیلئے حبقوق نبی کا حوالہ دینا کیوں اسقدر موزوں تھا؟
◻ایمان کی کونسی صحیفائی مثالوں میں پولس نے جان ڈال دی؟
◻پولس نے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے کن عملی طریقوں کی سفارش کی؟
[صفحہ 23 پر تصویر]
فلپی میں اپنے دردناک تجربے کے بعد، پولس نے منادی جاری رکھنے کیلئے دلیری حاصل کی
[صفحہ 24 پر تصویر]
کیا آپ مختلف طریقوں سے گواہی دینے کیلئے دلیری حاصل کر سکتے ہیں؟