یہوواہ کا کلام زندہ ہے
ططس، فلیمون اور عبرانیوں کے خطوط سے اہم نکات
پولس رسول روم میں اپنی پہلی قید سے رہا ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد سن ۶۱ عیسوی میں کریتے کے جزیرے کا دورہ کرتا ہے۔ کریتے کی کلیسیاؤں کی روحانی حالت کو دیکھ کر پولس، ططس کو وہیں چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ بہنبھائیوں کو مضبوط کرے۔ بعدازاں، پولس مکدنیہ سے ططس کو ایک خط لکھتا ہے جس میں وہ اُس کی ذمہداریوں کے سلسلے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ نیز، وہ اُسے یقیندہانی کراتا ہے کہ اِس کام میں رسولوں کی جماعت اُس کے ساتھ ہے۔
پولس نے سن ۶۱ عیسوی میں قید سے رہائی پانے سے کچھ عرصہ پہلے کُلسّے کے ایک مسیحی بھائی فلیمون کو خط لکھا جس میں اُس نے اپنے دوست فلیمون سے ایک درخواست کی۔
سن ۶۱ عیسوی میں ہی پولس رسول نے یہودیہ میں رہنے والے عبرانی مسیحیوں کو بھی ایک خط لکھا جس میں اُس نے بیان کِیا کہ مسیحیت کو یہودی نظام پر فوقیت حاصل ہے۔ اِن تینوں خطوط میں ہمارے لئے عمدہ مشورت پائی جاتی ہے۔—عبر ۴:۱۲۔
ایمان میں مضبوط رہیں
(طط ۱:۱–۳:۱۵)
ططس کو ”شہربہشہر . . . بزرگوں کو مقرر“ کرنے کے سلسلے میں راہنمائی فراہم کرنے کے بعد پولس اُسے نصیحت کرتا ہے کہ ’سرکش لوگوں کو سخت ملامت کِیا کر تاکہ اُن کا ایمان درست ہو جائے۔‘ وہ کریتے کی تمام کلیسیاؤں کو بھی تاکید کرتا ہے کہ ’بیدینی کا انکار کرکے پرہیزگاری کے ساتھ زندگی گزاریں۔‘—طط ۱:۵، ۱۰-۱۳؛ ۲:۱۲۔
اِس کے بعد پولس کریتے کے بھائیوں کو ایمان میں مضبوط رہنے کے لئے مزید مشورت دیتا ہے۔ وہ ططس کو ہدایت کرتا ہے کہ ”بیوقوفی کی حجتوں . . . اور اُن لڑائیوں سے جو شریعت کی بابت ہوں پرہیز کر۔“—طط ۳:۹۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۱۵—کیسے ”پاک لوگوں کے لئے سب چیزیں پاک ہیں مگر گُناہآلودہ اور بےایمان لوگوں کے لئے کچھ بھی پاک نہیں“؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’سب چیزوں‘ سے پولس کی کیا مُراد تھی۔ وہ اُن چیزوں کا ذکر نہیں کر رہا تھا جن کی خدا کے پاک کلام میں براہِراست مذمت کی گئی ہے۔ بلکہ وہ اُن چیزوں کی بات کر رہا تھا جن کے بارے میں مسیحی خود اپنے لئے فیصلہ کر سکتے تھے۔ جس شخص کی سوچ خدا کے معیاروں کے مطابق ہے اُس کے لئے یہ چیزیں پاک ہیں۔ لیکن جس شخص کی سوچ درست نہیں اور جس کا ضمیر آلودہ ہے اُس کے لئے یہ چیزیں پاک نہیں ہیں۔a
۳:۵—ممسوح مسیحی کیسے ”نئی پیدایش کے غسل“ کے ذریعے نجات پاتے اور ’روح القدس کے وسیلہ سے نئے بنائے جاتے‘ ہیں؟ ممسوح مسیحیوں کے ”نئی پیدایش کے غسل“ کے ذریعے نجات پانے کا مطلب ہے کہ خدا نے اُنہیں یسوع مسیح کے بہائے گئے خون کے وسیلے سے پاکصاف کِیا ہے۔ اُن کے ’روح القدس کے وسیلہ سے نئے‘بنائے جانے کا مطلب ہے کہ وہ خدا کے روحانی بیٹوں کے طور پر’نئی مخلوق‘بن گئے ہیں۔—۲-کر ۵:۱۷۔
ہمارے لئے سبق:
۱:۱۰-۱۳؛ ۲:۱۵۔ کلیسیا کے اندر موجود خامیوں کو دُور کرنے کے لئے مسیحی بزرگوں کو دلیری دکھانی چاہئے۔
۲:۳-۵۔ پہلی صدی کی طرح آج بھی پُختہ مسیحی بہنوں کو پاکیزہ زندگی بسر کرنی چاہئے۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ ”تہمت لگانے والی اور زیادہ مے پینے میں مبتلا نہ ہوں۔ بلکہ اچھی باتیں سکھانے والی ہوں۔“ اِس طرح وہ کلیسیا میں ”جوان عورتوں“ کو مؤثر طریقے سے سکھانے کے قابل ہوں گی۔
۳:۸، ۱۴۔ ’اچھے کاموں میں لگے رہنا بہت فائدہمند ہے۔‘ کیونکہ اِس سے ہمیں خدا کی خدمت میں ترقی کرنے اور اِس بدکار دُنیا سے الگ رہنے میں مدد ملیگی۔
”محبت“ کے ساتھ التماس کریں
(فلیمون ۱-۲۵)
فلیمون کے نام اپنے خط میں پولس رسول اِسلئے اُسکی تعریف کرتا ہے کیونکہ وہ ’محبت اور ایمان‘ کا عمدہ نمونہ تھا۔ اُسے ساتھی مسیحیوں کیلئے تازگی یا حوصلہافزائی کا باعث بنتے دیکھ کر پولس کو ”بہت خوشی اور تسلی“ حاصل ہوئی۔—فلیمون ۴، ۵، ۷۔
اُنیسمس کے معاملے میں حکم دینے کی بجائے ”محبت“ کے ساتھ التماس کرنے سے پولس رسول نے نگہبانوں کے لئے ایک اچھی مثال قائم کی۔ وہ فلیمون سے درخواست کرتا ہے: ”مَیں تیری فرمانبرداری کا یقین کرکے تجھے لکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ جوکچھ مَیں کہتا ہوں تُو اُس سے بھی زیادہ کرے گا۔“—فلیمون ۸، ۹، ۲۱۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱۰، ۱۱، ۱۸—اُنیسمس جو پہلے ”کام کا نہ تھا“ بعد میں کیسے ”کام“ کا بن گیا؟ اُنیسمس جو کُلسّے میں فلیمون کے گھر میں غلام تھا وہاں سے بھاگ کر روم چلا گیا۔ اُس نے اپنے ۱،۴۰۰ کلومیٹر (۹۰۰ میل) لمبے سفر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے غالباً اپنے مالک کی چوری بھی کی تھی۔ یقیناً اب وہ فلیمون کے گھر میں خدمت کرنے کے لائق نہیں رہا تھا۔ تاہم، روم میں پولس رسول نے اُنیسمس کو مسیحی بننے میں مدد دی۔ اِس لئے وہ جو پہلے ”کام کا نہ تھا“ اب مسیحی بننے کے بعد ”کام“ کا بن گیا تھا۔
۱۵، ۱۶—پولس فلیمون سے اُنیسمس کو آزاد کرنے کی درخواست کیوں نہیں کرتا؟ پولس اپنا سارا وقت’خدا کی بادشاہی کی مُنادی کرنے اور خداوند یسوع مسیح کی باتیں سکھانے‘ میں صرف کرنا چاہتا تھا۔ اِس لئے اُس نے غلامی جیسے معاشرتی معاملات میں دخل دینے سے گریز کِیا۔—اعما ۲۸:۳۱۔
ہمارے لئے سبق:
۲۔ فلیمون کے گھر میں مسیحی اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ یہ ایک شرف ہے اِس لئے ہمیں بھی اپنے گھروں کو مُنادی کے اجلاس منعقد کرنے کے لئے پیش کرنا چاہئے۔—روم ۱۶:۵؛ کل ۴:۱۵۔
۴-۷۔ ہمیں اُن ساتھی ایمانداروں کی دل کھول کر تعریف کرنی چاہئے جو ایمان اور محبت کی عمدہ مثال ہیں۔
۱۵، ۱۶۔ ہمیں زندگی میں آنے والی مشکلات کو دیکھ کر حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اُنیسمس کی طرح ہمارے لئے بھی اِس کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔
۲۱۔ پولس رسول چاہتا تھا کہ فلیمون، اُنیسمس کو معاف کر دے۔ اِسی طرح ہمیں بھی اُس بھائی کو معاف کر دینا چاہئے جس نے ہمیں دُکھ پہنچایا ہے۔—متی ۶:۱۴۔
”کمال کی طرف قدم بڑھائیں“
(عبر ۱:۱–۱۳:۲۵)
یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یسوع کی قربانی پر ایمان رکھنا شریعت پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے، پولس رسول یسوع مسیح کی کہانت، اُس کی قربانی اور نئے عہد کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ (عبر ۳:۱-۳؛ ۷:۱-۳، ۲۲؛ ۸:۶؛ ۹:۱۱-۱۴، ۲۵، ۲۶) یسوع کی بابت اِس علم نے یقیناً عبرانی مسیحیوں کو یہودیوں کی طرف سے آنے والی اذیت کو برداشت کرنے میں مدد دی ہوگی۔ پس پولس عبرانی مسیحیوں کو ”کمال کی طرف قدم“ بڑھانے کی تاکید کرتا ہے۔—عبر ۶:۱۔
سچی مسیحیت میں ایمان کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے پولس لکھتا ہے: ”بغیر ایمان کے اُس کو پسند آنا ناممکن ہے۔“ وہ عبرانی مسیحیوں کی ایمان پر چلتے رہنے کے لئے حوصلہافزائی کرتے ہوئے کہتا ہے: ”آؤ ہم بھی . . . اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔“—عبر ۱۱:۶؛ ۱۲:۱۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۲:۱۴، ۱۵—کیا شیطان کو ”موت پر قدرت حاصل“ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو بھی ہلاک کر سکتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب شیطان نے عدن میں بغاوت کا آغاز کِیا تو اُسی وقت سے اُس کے جھوٹ انسانوں کی موت کا سبب بنے۔ کیونکہ گناہ کرنے سے آدم اپنے اُوپر موت لے آیا اور یوں اُس نے گناہ اور موت کو اپنی اولاد میں بھی منتقل کر دیا۔ (روم ۵:۱۲) علاوہازیں، جس طرح زمین پر شیطان کے زیرِاثر لوگوں نے یسوع کو مار ڈالا تھا اُسی طرح وہ آج خدا کے خادموں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ شیطان جب چاہے کسی کو بھی ہلاک کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شیطان بہت پہلے ہی یہوواہ کے سچے پرستاروں کا نام ونشان مٹا چکا ہوتا۔ یہوواہ اجتماعی طور پر اپنے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے اور شیطان کو اُنہیں ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم، اگر وہ ہم میں سے بعض کو شیطان کے حملوں کے تحت مرنے دیتا ہے توبھی ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا۔
۴:۹-۱۱—ہم کیسے خدا کے ”آرام میں داخل“ ہوتے ہیں؟ چھ دنوں تک تخلیقی کام کرنے کے بعد خدا نے آرام کِیا۔ اُسے اِس بات کا یقین تھا کہ زمین اور انسان کے لئے اُس کا مقصد ضرور پورا ہوگا۔ (پید ۱:۲۸؛ ۲:۲، ۳) خود کو راست ثابت کرنے کی بجائے نجات کے لئے خدائی بندوبست کو قبول کرنے سے ہم خدا کے ”آرام میں داخل“ ہو سکتے ہیں۔ جب ہم خودغرضانہ خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی بجائے یہوواہ خدا پر ایمان رکھتے اور فرمانبرداری کے ساتھ اُس کے بیٹے کی پیروی کرتے ہیں تو ہم نہ صرف تازگی پاتے ہیں بلکہ بےشمار برکات بھی حاصل کرتے ہیں۔—متی ۱۱:۲۸-۳۰۔
۹:۱۶—اِس آیت میں ’وصیت کرنے والا‘ کون ہے؟ دراصل نئے عہد کو تشکیل دینے والا یہوواہ خدا ہے اور اِس آیت کے سیاقوسباق سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح اِس نئے عہد کا درمیانی ہے۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اِس آیت کے مطابق ’وصیت کرنے والا‘ یسوع مسیح ہے کیونکہ اُس نے اپنی جان کی قربانی دے کر اِس وصیت کا اِجرا کِیا تھا۔—لو ۲۲:۲۰؛ عبر ۹:۱۵۔
۱۱:۱۰، ۱۳-۱۶—ابرہام کس ”شہر“ کا منتظر تھا؟ یہ کوئی حقیقی نہیں بلکہ علامتی شہر تھا۔ دراصل ابرہام یسوع مسیح اور اُس کے ساتھ حکومت کرنے والے ایک لاکھ چوالیس ہزار اشخاص پر مشتمل ”آسمانی یرؔوشلیم“ کا منتظر تھا۔ یسوع مسیح کے اِن ساتھی حکمرانوں کی جلالی حالت کو بیان کرتے ہوئے اُنہیں ”شہرِمُقدس نئے یرؔوشلیم“ کا نام دیا گیا ہے۔ (عبر ۱۲:۲۲؛ مکا ۱۴:۱؛ ۲۱:۲) ابرہام خدا کی بادشاہی کے تحت زندگی پانے کا منتظر تھا۔
۱۲:۲—یسوع کی نظروں کے سامنے وہ کونسی ”خوشی“ تھی جس کے لئے اُس نے ”صلیب کا دُکھ“ سہنا گوارا کِیا؟ اپنی خدمتگزاری کے ذریعے یہوواہ خدا کے نام کی تقدیس کرنا، اُس کی حاکمیت کو سربلند کرنا اور انسانوں کو موت کی غلامی سے چھڑانا ہی وہ خوشی تھی جو یسوع کی نظروں کے سامنے تھی۔ اِس کے علاوہ یسوع مسیح اُس وقت کا بھی منتظر تھا جب اُسے بادشاہی عطا کی جائے گی اور وہ سردار کاہن کے طور پر انسانوں کو فائدہ پہنچائے گا۔
۱۳:۲۰—نئے عہد کو ”ابدی“ کیوں کہا گیا ہے؟ اِس کی تین وجوہات ہیں۔ (۱) اِسے کبھی تبدیل نہیں کِیا جائے گا، (۲) اِس کے فوائد دائمی ہیں اور (۳) ہرمجدون کے بعد بھی یسوع مسیح کی ’دوسری بھیڑیں‘ اِس نئے عہد سے مستفید ہوتی رہیں گی۔—یوح ۱۰:۱۶۔
ہمارے لئے سبق:
۵:۱۴۔ ہمیں خدا کے پاک کلام کا بغور مطالعہ کرنا اور جو کچھ ہم سیکھتے ہیں اُس کا اطلاق کرنا چاہئے۔ کیونکہ ”نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے“ اپنے حواس کو تیز کرنے کا اَور کوئی طریقہ نہیں ہے۔—۱-کر ۲:۱۰۔
۶:۱۷-۱۹۔ خدا کے وعدے اور ارادے پر مکمل اعتماد ہمیں سچائی کی راہ پر چلتے رہنے میں مدد دے گا۔
۱۲:۳، ۴۔ چھوٹیچھوٹی آزمائشوں یا مخالفت کی وجہ سے ’بےدل ہو کر ہمت ہارنے‘ کی بجائے ہمیں کمال کی طرف بڑھنا اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی قوتِبرداشت کو بڑھانا چاہئے۔ ہمیں ’جان دینے‘ تک وفادار رہنے کے لئے پُرعزم ہونا چاہئے۔—عبر ۱۰:۳۶-۳۹۔
۱۲:۱۳-۱۵۔ ہمیں کسی ”کڑوی جڑ“ یعنی کلیسیائی انتظام پر نکتہ چینی کرنے والے شخص کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ہمیں ”سیدھے راستے“ پر چلنے سے روکے۔
۱۲:۲۶-۲۸۔ اِن آیات میں جس آسمان اور زمین کو ہلانے کا ذکر کِیا گیا ہے وہ دراصل موجودہ ناراست نظام ہے جسے خدا نے نہیں بنایا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ”ٹل جائیں گی“ یعنی ختم ہو جائیں گی۔ جب یہ واقع ہوگا تو صرف ”بےہلی چیزیں قائم رہیں“ گی جن میں خدا کی بادشاہت اور اُس کی حمایت کرنے والے لوگ شامل ہیں۔ پس سرگرمی کے ساتھ خدا کی بادشاہی کی منادی کرنا اور اُس کے قوانین کے مطابق چلنا کتنا ضروری ہے!
۱۳:۷، ۱۷۔ اِن آیات میں کلیسیاؤں میں بزرگوں کے تابعدار اور فرمانبردار رہنے کی جو نصیحت کی گئی ہے اُس پر دھیان دینے سے ہمیں تعاون کی رُوح ظاہر کرنے میں مدد ملے گی۔
[فٹنوٹ]
a یکم نومبر ۲۰۰۷ کے مینارِنگہبانی کے صفحہ ۱۴ کو دیکھیں۔