یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • خ‌م باب 4 ص.‏ 36-‏49
  • ہمیں اختیار والوں کا احترام کیوں کرنا چاہیے؟‏

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • ہمیں اختیار والوں کا احترام کیوں کرنا چاہیے؟‏
  • خدا کی محبت میں قائم رہیں
  • ذیلی عنوان
  • ملتا جلتا مواد
  • اختیار والوں کا احترام کرنا مشکل کیوں ہے؟‏
  • ہمیں اختیار والوں کا احترام کیوں کرنا چاہئے؟‏
  • خاندان میں احترام ظاہر کریں
  • کلیسیا میں احترام ظاہر کریں
  • حکومت کے لئے احترام ظاہر کریں
  • ہمیں اِختیار والوں کا احترام کیوں کرنا چاہیے؟‏
    ہم خدا کی محبت میں کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟‏
  • اختیار والوں کی عزت کریں
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏2000ء
  • اختیار کی بابت مسیحی نقطۂ‌نظر
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1994ء
  • یہوواہ خدا کے اختیار کو قبول کریں
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏2008ء
مزید
خدا کی محبت میں قائم رہیں
خ‌م باب 4 ص.‏ 36-‏49
ایک باپ اپنے بچوں کو پاک کلام سے تعلیم دے رہا ہے۔‏

چوتھا باب

ہمیں اختیار والوں کا احترام کیوں کرنا چاہئے؟‏

‏”‏سب کی عزت کرو۔“‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏۔‏

۱، ۲.‏ (‏ا)‏ اختیار والوں کے سلسلے میں ہم سب نے کس کشمکش کا تجربہ کِیا ہے؟ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

ایک ماں اپنے بچے کو ایسا کام کرنے کو کہتی ہے جو اُسے اچھا نہیں لگتا۔ بچے کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کا کہنا نہیں ماننا چاہتا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُسے اپنی ماں کا کہنا ماننا چاہئے۔ یہ بچہ ایک ایسی کشمکش میں پڑ گیا ہے جس کا ہم سب نے تجربہ کِیا ہے۔‏

۲ آپ بھی جانتے ہوں گے کہ اکثر ہمیں اختیار رکھنے والوں کا کہنا ماننا آسان نہیں لگتا۔ ہم ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جس میں کم ہی لوگ اختیار والوں کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن بائبل میں ہمیں اختیار والوں کا احترام کرنے کو کہا گیا ہے۔ (‏امثال ۲۴:‏۲۱‏)‏ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہم خدا کی محبت میں قائم رہ سکیں گے۔ البتہ اِس سلسلے میں یہ سوال اُٹھتے ہیں:‏ ہمیں اختیار والوں کا احترام کرنا مشکل کیوں لگتا ہے؟ یہوواہ خدا ہمیں اختیار والوں کا احترام کرنے کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اِس حکم پر عمل کرنے میں کونسی خوبی ہمارے کام آئے گی؟ اور ہم اختیار والوں کے لئے احترام کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ آئیں اِن سوالوں پر غور کریں۔‏

اختیار والوں کا احترام کرنا مشکل کیوں ہے؟‏

۳، ۴.‏ (‏ا)‏ گُناہ کا آغاز کیسے ہوا؟ (‏ب)‏ ہمیں اختیار والوں کا کہنا ماننا مشکل کیوں لگتا ہے؟‏

۳ ہمیں اختیار والوں کا کہنا ماننا اِس لئے مشکل لگتا ہے کیونکہ ہم پیدائشی طور پر گُناہ کی طرف مائل ہیں۔ اِس کے علاوہ اختیار رکھنے والوں میں بھی خامیاں پائی جاتی ہیں جس وجہ سے ہمیں اُن کا احترام کرنا مشکل لگتا ہے۔ گُناہ کا آغاز تب ہوا جب آدم اور حوا نے باغِ‌عدن میں خدا کے اختیار کے خلاف بغاوت کی۔ چونکہ ہم سب اُن کی اولاد ہیں اِس لئے ہم پیدائش سے ہی اختیار والوں کے خلاف بغاوت کرنے کی طرف مائل ہیں۔—‏پیدایش ۲:‏۱۵-‏۱۷؛‏ ۳:‏۱-‏۷؛‏ زبور ۵۱:‏۵؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

۴ گُناہ کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ہمارے دل میں غرور اور گھمنڈ جیسی خامیاں آسانی سے جڑ پکڑتی ہیں جبکہ عاجزی اور حلم جیسی خوبیاں پیدا کرنے کے لئے ہمیں محنت کرنی پڑتی ہے۔ چاہے ہم خدا کی خدمت کتنے سالوں سے کیوں نہ کر رہے ہوں لیکن کسی بھی وقت ہمارے دل میں غرور اُبھر سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں قورح کی مثال پر غور کریں۔ وہ کٹھن حالات کے باوجود بڑے عرصے سے یہوواہ خدا کا وفادار رہا۔ لیکن پھر اُس کے دل میں غرور اُبھر آیا اور وہ موسیٰ کے اختیار کا لالچ کرنے لگا۔ اِس لئے اُس نے بنی‌اسرائیل کو موسیٰ کے خلاف بغاوت کرنے پر اُکسایا حالانکہ موسیٰ سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔ (‏گنتی ۱۲:‏۳؛ ۱۶:‏۱-‏۳)‏ ذرا عزیاہ بادشاہ کی مثال پر بھی غور کریں۔ غرور میں آکر اُس نے یہوواہ خدا کی ہیکل میں ایسا کام انجام دیا جسے صرف کاہنوں کو کرنے کی اجازت تھی۔ (‏۲-‏تواریخ ۲۶:‏۱۶-‏۲۱‏)‏ قورح اور عزیاہ کو بغاوت کے لئے کڑی سزا ملی۔ اُن کی بُری مثال سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے دل سے غرور کو دُور کرنا چاہئے۔ پھر اختیار والوں کا کہنا ماننا ہمارے لئے زیادہ آسان ہو جائے گا۔‏

۵.‏ اختیار والوں نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیسے کِیا ہے؟‏

۵ اختیار والوں کا احترام کرنا اِس لئے بھی مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ اکثر وہ ظالم اور بے‌رحم ہوتے ہیں۔ دراصل انسان کی تاریخ اختیار کے غلط استعمال کی داستان ہے۔ (‏واعظ ۸:‏۹‏)‏ مثال کے طور پر جب یہوواہ خدا نے ساؤل کو بادشاہ بنایا تو وہ نیک اور حلیم تھا۔ لیکن بعد میں اُس کے دل میں غرور اور حسد پیدا ہو گئے اور وہ داؤد کو ستانے لگا۔ (‏۱-‏سموئیل ۹:‏۲۰، ۲۱؛‏ ۱۰:‏۲۰-‏۲۲؛‏ ۱۸:‏۷-‏۱۱‏)‏ جب داؤد اسرائیل کا بادشاہ بنا تو اُس نے بڑی ایمانداری سے حکمرانی کی۔ لیکن بعد میں اُس نے اپنے اختیار کو غلط طور پر استعمال کِیا۔ اُس نے اوریاہ کی بیوی کے ساتھ زِنا کِیا اور پھر اُس نیک آدمی کو میدانِ‌جنگ میں قتل کروا دیا۔ (‏۲-‏سموئیل ۱۱:‏۱-‏۱۷‏)‏ اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان گُناہ کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے اکثر اپنے اختیار کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر اُس وقت سچ ہے جب انسان خدا کے اختیار کا احترام نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر بہت صدیوں کے دوران کیتھولک چرچ کے پیشواؤں نے بڑے پیمانے پر لوگوں پر اذیت ڈھائی۔ اِس کے بارے میں برطانیہ کے ایک سیاستدان نے کہا:‏ ”‏اختیار رکھنے سے انسان بگڑ جاتا ہے۔ اُسے جتنا اختیار سونپا جاتا ہے اُتنا ہی وہ بگڑ جاتا ہے۔“‏ اِس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اختیار والوں کا احترام کیوں کرنا چاہئے؟‏

ہمیں اختیار والوں کا احترام کیوں کرنا چاہئے؟‏

۶، ۷.‏ (‏ا)‏ اگر ہم یہوواہ خدا سے گہری محبت رکھتے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ (‏ب)‏ فرمانبردار ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۶ اختیار والوں کا احترام کرنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا سے، اپنے پڑوسی سے اور خود سے محبت رکھتے ہیں۔ چونکہ ہم یہوواہ خدا سے گہری محبت رکھتے ہیں اِس لئے ہم اُس کے دل کو شاد کرنا چاہتے ہیں۔ (‏امثال ۲۷:‏۱۱؛‏ مرقس ۱۲:‏۲۹، ۳۰‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ شیطان نے باغِ‌عدن میں اِس بات پر شک ڈالا کہ یہوواہ خدا حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ زیادہ‌تر انسانوں نے شیطان کا ساتھ دیا ہے اور یہوواہ خدا کی حکمرانی کو رد کر دیا ہے۔ لیکن ہم خوشی سے یہوواہ خدا کی حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ مکاشفہ ۴:‏۱۱ کے الفاظ نے ہمارے دل کو چُھو لیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ صاف ظاہر ہے کہ یہوواہ خدا ہی کائنات پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ہم دل سے اُس کی حکمرانی کو قبول کرتے ہیں اور زندگی کے ہر پہلو میں اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔‏

۷ اگر ہم خدا کے اختیار کا احترام کرتے ہیں تو ہم اُس کے فرمانبردار رہیں گے۔ ہم اِس لئے یہوواہ خدا کے فرمانبردار ہیں کیونکہ ہم اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ لیکن کئی ایسی صورتحال ہیں جن میں ہمیں خدا کی فرمانبرداری کرنا آسان نہیں لگتا۔ تب ہم شاید اُس لڑکے کی طرح ہوں جو اپنی ماں کا کہنا نہیں ماننا چاہتا ہے۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ ہم مشکل صورتحال میں بھی اختیار والوں کے فرمانبردار رہیں۔ یسوع مسیح نے اِس سلسلے میں بہت اچھی مثال قائم کی۔ اُس نے ایسی صورت میں بھی اپنے آسمانی باپ کی فرمانبرداری کی جب ایسا کرنا اُس کے لئے بہت مشکل تھا۔ اُس نے خدا سے کہا:‏ ”‏میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔“‏—‏لوقا ۲۲:‏۴۲‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا کے اختیار کو تسلیم کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟ (‏ب)‏ یہوواہ خدا اِس بات کو کتنی اہمیت دیتا ہے کہ ہم اُس کے نمائندوں کا احترام کریں؟ (‏ج)‏ اگر ہمیں اصلاح قبول کرنا مشکل لگتا ہے تو ہمیں خدا کے کلام کے کن اصولوں پر غور کرنا چاہئے؟ (‏صفحہ ۴۶ اور ۴۷ پر بکس کو دیکھیں۔)‏

۸ یہوواہ خدا ہمیں نہ صرف اپنے کلام کے ذریعے بلکہ اپنے انسانی نمائندوں کے ذریعے بھی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اِس لئے یہوواہ خدا کے اختیار کو تسلیم کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اُن لوگوں کا احترام کریں جن کو اُس نے اختیار دیا ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف بغاوت کرنا خدا کے خلاف بغاوت کرنے کے برابر ہے۔ اِس لئے جب ایسے لوگ خدا کے کلام کی بِنا پر ہماری اصلاح کرتے ہیں تو ہمیں اُن کی بات مان لینی چاہئے۔ یاد رکھیں کہ جب بنی‌اسرائیل نے موسیٰ کے خلاف بغاوت کی تو یہوواہ خدا کے نزدیک وہ دراصل اُس کے خلاف بغاوت کر رہے تھے۔—‏گنتی ۱۴:‏۲۶، ۲۷۔‏

۹.‏ اختیار والوں کا احترام کرنے سے ہم اپنے پڑوسی کے لئے محبت کیوں ظاہر کرتے ہیں؟ تمثیل دے کر واضح کریں۔‏

۹ ہم اِس لئے بھی اختیار والوں کا احترام کرتے ہیں کیونکہ ہم اپنے پڑوسی سے محبت رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک تمثیل پر غور کریں۔ فرض کریں کہ آپ ایک فوجی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ لشکر صرف اِس صورت میں کامیاب رہے گا جب ہر فوجی اپنے سے بڑے افسروں کا احترام کرے گا، اُن کے ساتھ تعاون کرے گا اور اُن کا فرمانبردار رہے گا۔ اگر آپ اپنے افسروں کے خلاف بغاوت کریں گے تو آپ پورے لشکر کو خطرے میں ڈال رہے ہوں گے۔ یہ سچ ہے کہ فوجی لشکر، دُنیا میں بڑی تباہی مچاتے ہیں۔ البتہ یہوواہ خدا کے لشکر اُس کے خادموں کی بھلائی کے لئے کارروائی کرتے ہیں۔ بائبل میں یہوواہ خدا کو ”‏ربُ‌الافواج“‏ کا لقب دیا گیا ہے۔ (‏۱-‏سموئیل ۱:‏۳‏)‏ خدا کے لشکر میں کروڑوں طاقتور فرشتے ہیں۔ کبھی‌کبھار وہ اپنے انسانی خادموں کو بھی فوج یا لشکر سے تشبیہ دیتا ہے۔ (‏زبور ۶۸:‏۱۱؛‏ حزقی‌ایل ۳۷:‏۱-‏۱۰)‏ اگر ہم اُن لوگوں کے خلاف بغاوت کریں گے جن کو خدا نے اختیار سونپا ہے تو ہم اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ مثال کے طور پر جب ایک مسیحی کلیسیا کے بزرگوں کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو پوری کلیسیا نقصان اُٹھاتی ہے۔ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۱۴،‏ ۲۵، ۲۶‏)‏ اِسی طرح جب ایک بچہ اپنے ماں‌باپ کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو سارا خاندان نقصان اُٹھاتا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختیار والوں کا احترام کرنے اور اُن کے ساتھ تعاون کرنے سے ہم اپنے پڑوسی کے لئے محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏

۱۰، ۱۱.‏ اختیار والوں کا احترام کرنے سے ہمیں کونسے فائدے ہوتے ہیں؟‏

۱۰ اختیار والوں کا احترام کرنے سے ہمیں خود بھی فائدہ ہوتا ہے۔ بائبل میں نہ صرف اختیار والوں کا حکم ماننے کو کہا گیا ہے بلکہ ساتھ میں اِس کے فائدے بھی بتائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بائبل میں بچوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ والدین کا کہنا مانیں تاکہ اُن کا بھلا ہو اور اُن کی عمر دراز ہو۔ (‏استثنا ۵:‏۱۶؛‏ افسیوں ۶:‏۲، ۳‏)‏ ہمیں کلیسیا کے بزرگوں کا احترام کرنے کو کہا گیا ہے کیونکہ اِس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۷،‏ ۱۷‏)‏ اس کے علاوہ بائبل میں ہمیں حکومت کے اہلکاروں کا حکم ماننے کو بھی کہا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہم سزا سے بچے رہیں گے۔—‏رومیوں ۱۳:‏۴‏۔‏

۱۱ جب ہم جان لیتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں اختیار والوں کے فرمانبردار رہنے کو کیوں کہتا ہے تو ہمارے لئے اُن کا احترام کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ آئیں دیکھیں کہ ہم اختیار والوں کے لئے احترام کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم زندگی کے تین پہلوؤں پر غور کریں گے۔‏

خاندان میں احترام ظاہر کریں

۱۲.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا نے شوہر کیلئے کونسی ذمہ‌داری مقرر کی ہے؟ (‏ب)‏ شوہر کو اِس ذمہ‌داری کو کیسے پورا کرنا چاہئے؟‏

۱۲ یہوواہ خدا خاندان کا بانی ہے۔ اُسے ابتری اور بدنظمی پسند نہیں ہیں اِس لئے اُس نے خاندان کے ہر فرد کے لئے ذمہ‌داریاں مقرر کی ہیں۔ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۳۳‏)‏ اُس نے شوہر کو خاندان کے سربراہ کے طور پر مقرر کِیا ہے۔ شوہر کا سربراہ مسیح ہے۔ لہٰذا شوہر کو اپنے خاندان کے ساتھ اِسی طرح پیش آنا چاہئے جیسے مسیح کلیسیا کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اِس طرح وہ مسیح کے لئے احترام دکھاتا ہے۔ (‏افسیوں ۵:‏۲۳‏)‏ شوہر کو اپنی ذمہ‌داری سے جان نہیں چھڑانی چاہئے اور نہ ہی اپنے خاندان پر سختی کرنی چاہئے۔ اِس کی بجائے اُسے اپنی ذمہ‌داری کو پورا کرنا چاہئے اور اپنے خاندان کے ساتھ نرمی اور پیار سے پیش آنا چاہئے۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کا اختیار یہوواہ خدا کے اختیار سے کم ہے۔ لہٰذا اُسے اپنے خاندان سے کسی ایسی بات کی توقع نہیں کرنی چاہئے جو یہوواہ خدا کے حکموں کے خلاف ہو۔‏

مسیحی باپ اپنے بچوں کے ساتھ اِس طرح سے پیش آتا ہے جس طرح مسیح کلیسیا کے ساتھ پیش آتا ہے

۱۳.‏ بیوی یہوواہ خدا کی خوشنودی کیسے حاصل کر سکتی ہے؟‏

۱۳ بیوی اپنے شوہر کی مددگار ہے۔ بیوی کو بھی خاندان میں اختیار سونپا گیا ہے کیونکہ بائبل میں بچوں کو کہا گیا ہے کہ وہ ’‏اپنی ماں کے فرمانبردار رہیں۔‘‏ (‏افسیوں ۶:‏۱‏)‏ البتہ اُس کا اختیار شوہر کے اختیار سے کم ہے۔ بیوی اپنے شوہر کی حمایت کرنے سے اُس کے لئے احترام ظاہر کرتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کو یہ احساس نہیں دلائے گی کہ وہ خاندان کی سربراہی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ اپنی بات منانے کے لئے شوہر پر دباؤ نہیں ڈالے گی اور نہ ہی اُس کی جگہ خاندان کی سربراہی کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر شوہر کوئی ایسا فیصلہ کرے جو بیوی کو پسند نہیں ہے تو بیوی احترام سے اپنی رائے پیش کر سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ اُس کے ساتھ تعاون کرے گی۔ اگر ایک مسیحی عورت کا شوہر یہوواہ خدا کا خادم نہیں ہے تو یہ اُس عورت کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ لیکن اگر وہ پھر بھی اپنے شوہر کے تابع رہے گی تو شاید اُس کا شوہر بھی یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگے۔—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱‏۔‏

ایک باپ بڑے پیار سے اپنے بچے کی اِصلاح کر رہا ہے۔‏

۱۴.‏ بچے یہوواہ خدا اور اپنے والدین کو کیسے خوش کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ جب بچے ماں‌باپ کا کہنا مانتے ہیں تو یہوواہ خدا خوش ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کے ماں‌باپ بھی خوش ہوتے ہیں اور اُن کی نیک‌نامی ہوتی ہے۔ (‏امثال ۱۰:‏۱‏)‏ آجکل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ماں یا باپ اکیلے میں بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ اَور بھی ضروری ہے کہ بچے اپنی ماں یا اپنے باپ کے فرمانبردار ہوں، اُس کے ساتھ تعاون کریں اور اُس کی مدد کریں۔ جب خاندان کے تمام افراد اُس ذمہ‌داری کو پورا کرتے ہیں جو خدا نے اُن کے لئے مقرر کی ہے تو گھریلو ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے اور خاندان کے بانی یہوواہ خدا کی بڑائی ہوتی ہے۔—‏افسیوں ۳:‏۱۴، ۱۵‏۔‏

کلیسیا میں احترام ظاہر کریں

۱۵.‏ (‏ا)‏ ہم کلیسیا میں کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ خدا کے اختیار کا احترام کرتے ہیں؟ (‏ب)‏ بائبل کے کونسے اصول کلیسیا کے بزرگوں کے فرمانبردار رہنے میں ہماری مدد کریں گے؟ (‏صفحہ ۴۸ اور ۴۹ پر بکس کو دیکھیں۔)‏

۱۵ یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو کلیسیا کے حکمران کے طور پر مقرر کِیا ہے۔ (‏کلسیوں ۱:‏۱۳‏)‏ یسوع مسیح نے ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ جماعت کو یہ ذمہ‌داری سونپی ہے کہ وہ خدا کے خادموں کو روحانی خوراک فراہم کرے۔ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ جماعت کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ پہلی صدی کی گورننگ باڈی کی طرح آج بھی خطوں اور اپنے نمائندوں کے ذریعے کلیسیا کے بزرگوں کو ہدایات فراہم کرتی ہے۔‏ لہٰذا جب ہم بزرگوں کے اختیار کا احترام کرتے ہیں تو ہم اصل میں یہوواہ خدا کے فرمانبردار ہوتے ہیں۔—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۷‏۔‏

۱۶.‏ بزرگ کس لحاظ سے خدا کی پاک روح کے ذریعے مقرر کئے جاتے ہیں؟‏

۱۶ ہم سب کی طرح کلیسیا کے بزرگ اور خادم غلطیاں کرتے ہیں اور اُن میں بھی خامیاں ہیں۔ اِس کے باوجود خدا نے کلیسیا کو ”‏انعام“‏ کے طور پر بزرگ دئے ہیں تاکہ کلیسیا روحانی طور پر مضبوط رہے۔ (‏افسیوں ۴:‏۸‏)‏ بزرگ خدا کی پاک روح کے ذریعے مقرر کئے جاتے ہیں۔ (‏اعمال ۲۰:‏۲۸‏)‏ آئیں دیکھیں کہ اِس کا کیا مطلب ہے۔ نگہبان کے طور پر مقرر ہونے کے لئے اِن آدمیوں کو بائبل میں بتائی گئی شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے اور بائبل خدا کی پاک روح کے ذریعے لکھی گئی تھی۔ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۷،‏ ۱۲؛‏ ططس ۱:‏۵-‏۹‏)‏ اِس کے علاوہ جب بزرگ اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ آیا ایک بھائی نگہبان کے طور پر مقرر ہونے کی شرائط پر پورا اُترتا ہے یا نہیں تو وہ خدا کی پاک روح کی مدد کے لئے دُعا کرتے ہیں۔‏

۱۷.‏ کلیسیا میں بعض کام انجام دیتے وقت عورتیں کیوں سر ڈھانپتی ہیں؟‏

۱۷ کبھی‌کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کلیسیا میں ایک کام انجام دینے کے لئے (‏مثلاً مُنادی کا اجلاس منعقد کرنے کے لئے)‏ کوئی بزرگ یا خادم حاضر نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں کوئی دوسرا بپتسمہ‌یافتہ بھائی یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ اگر کوئی بھائی موجود نہیں ہے تو ایک لائق بہن بھی ایسے کام انجام دے سکتی ہے۔ البتہ جب ایک عورت کوئی ایسا کام انجام دیتی ہے جو دراصل بپتسمہ‌یافتہ بھائیوں کی ذمہ‌داری ہے تو وہ اپنا سر ڈھانپے گی۔‏a (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳-‏۱۰‏)‏ اِس کا مطلب نہیں کہ کلیسیا میں عورتوں کی اہمیت کم ہے بلکہ سر ڈھانپنے سے مسیحی عورتیں اِس بات کے لئے احترام ظاہر کرتی ہیں کہ یہوواہ خدا نے کلیسیا اور خاندان میں مردوں کو اختیار سونپا ہے۔‏

حکومت کے لئے احترام ظاہر کریں

۱۸، ۱۹.‏ (‏ا)‏ ہم رومیوں ۱۳:‏۱-‏۷ میں پائے جانے والے اصولوں کو کیسے عمل میں لا سکتے ہیں؟ (‏ب)‏ ہم حکومت کے اہلکاروں کے لئے احترام کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ سچے مسیحی رومیوں ۱۳:‏۱-‏۷ میں پائے جانے والے اصولوں پر ایمانداری سے عمل کرتے ہیں۔ یہوواہ خدا انسانوں کو اِس لئے حکومت کرنے دیتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے لئے سہولتوں کا انتظام کریں اور ایک حد تک امن کو برقرار رکھیں۔ ہم حکومت کے قوانین پر عمل کرنے سے اختیار والوں کے لئے احترام ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ دستاویزات لکھواتے اور فارم پُر کرتے وقت ہم صحیح معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ہم زندگی کے تمام پہلوؤں میں حکومت کے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت کوئی ایسا حکم جاری کرے جو خدا کے حکموں کے خلاف ہو تو ہم یسوع مسیح کے رسولوں کی طرح یہ کہیں گے کہ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“‏—‏اعمال ۵:‏۲۸، ۲۹‏؛ صفحہ ۴۲ پر بکس ”‏مجھے کس کا فرمانبردار ہونا چاہئے؟“‏ کو دیکھیں۔‏

مجھے کس کا فرمانبردار ہونا چاہئے؟‏

اصول:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ ہمارا حاکم ہے۔ [‏یہوواہ]‏ ہمارا شریعت دینے والا ہے۔ [‏یہوواہ]‏ ہمارا بادشاہ ہے۔“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۲‏۔‏

خود سے پوچھیں:‏

  • اگر کوئی مجھے خدا کے حکموں کی خلاف‌ورزی کرنے کو کہے تو مَیں کیا کروں گا؟—‏متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹؛‏ ۲۶:‏۵۲؛‏ یوحنا ۱۸:‏۳۶‏۔‏

  • اگر کوئی مجھے خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش کرے تو مَیں کیا کروں گا؟—‏اعمال ۵:‏۲۷-‏۲۹؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴، ۲۵‏۔‏

  • کن باتوں پر غور کرنے سے ہمارے لئے اختیار والوں کا کہنا ماننا زیادہ آسان ہو جائے گا؟—‏رومیوں ۱۳:‏۱-‏۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳؛‏ افسیوں ۶:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۹ حکومت کے لئے احترام ظاہر کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اُس کے اہلکاروں سے احترام سے پیش آئیں۔ پولس رسول کو بادشاہ اگرپا اور گورنر فیستُس کے سامنے پیش کِیا گیا۔ حالانکہ یہ اہلکار بدکار تھے لیکن پھر بھی پولس رسول نے اُن سے بڑے احترام سے بات کی۔ (‏اعمال ۲۶:‏۲،‏ ۲۵‏)‏ ہم بھی پولس رسول کی اِس مثال پر عمل کرتے ہیں، چاہے ہمارا واسطہ کسی پولیس والے سے پڑے یا کسی سیاست‌دان سے۔ اِس کے علاوہ مسیحی بچے اپنے اساتذہ اور سکول کے ملازموں کا احترام کرتے ہیں۔ ہم اُن لوگوں کے ساتھ بھی احترام سے پیش آتے ہیں جو یہوواہ کے گواہوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔—‏رومیوں ۱۲:‏۱۷، ۱۸؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏۔‏

۲۰، ۲۱.‏ سب لوگوں کے ساتھ احترام سے پیش آنے کے کونسے اچھے نتیجے ہوتے ہیں؟‏

۲۰ پطرس رسول نے لکھا:‏ ”‏سب کی عزت کرو۔“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏)‏ اور واقعی، ہمیں سب لوگوں کے ساتھ احترام سے پیش آنا چاہئے۔ جب لوگ اِس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ہم دل سے اُن کا احترام کرتے ہیں تو وہ بہت متاثر ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آجکل کم ہی لوگ دوسروں کا احترام کرتے ہیں۔ لہٰذا دوسروں کا احترام کرنے سے ہم یسوع مسیح کی اِس ہدایت پر عمل کر رہے ہوں گے:‏ ”‏تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔“‏—‏متی ۵:‏۱۶‏۔‏

۲۱ اِس تاریک دُنیا میں لوگ خدا کے کلام کی روشنی کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ہم خاندان میں، کلیسیا میں اور سرکاری اہلکاروں کے لئے احترام ظاہر کرتے ہیں تو بعض لوگ ہمارے ساتھ روشنی کی راہ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسروں کا احترام کرنے سے ہم یہوواہ خدا کو خوش کرتے ہیں اور اُس کی محبت میں قائم رہتے ہیں۔ بھلا ہمارے لئے اِس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے؟‏

a صفحہ ۲۰۹ تا ۲۱۲ پر کچھ ایسی صورتحال کا ذکر ہوا ہے جن پر یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔‏

‏”‏مشورت کو سُن اور تربیت‌پذیر ہو“‏

بائبل میں شیطان کو ’‏ہوا کی عملداری کا حاکم‘‏ کہا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اُس کی ”‏روح .‏ .‏ .‏ نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے۔“‏ (‏افسیوں ۲:‏۲‏)‏ واقعی، شیطان لوگوں کو بغاوت کرنے پر اُکساتا ہے اور وہ بہت کامیاب بھی رہا ہے۔ آجکل بہت سے لوگ کسی کے اختیار کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسی سوچ بعض مسیحیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک بزرگ بہن‌بھائیوں کو پُرتشدد اور بے‌حیا فلمیں دیکھنے کے خطروں سے آگاہ کرتا ہے تو شاید اُن میں سے بعض اُس کی بات کو رد کر دیں یا پھر اِسے بُرا مان لیں۔ لیکن ہم سب کو امثال ۱۹:‏۲۰ کے الفاظ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، جس میں لکھا ہے:‏ ”‏مشورت کو سُن اور تربیت‌پذیر ہو تاکہ تُو آخرکار دانا ہو جائے۔“‏

ہمیں مشورت اور اصلاح کو قبول کرنا اِس قدر مشکل کیوں لگتا ہے؟ آئیں دیکھیں کہ اصلاح پانے پر بعض لوگ کونسے اعتراض کرتے ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ خدا کے کلام میں اِس سلسلے میں کونسے اصول پائے جاتے ہیں۔‏

  • ”‏اُس کی بات مجھے اچھی نہیں لگی۔“‏ شاید ہم سوچیں کہ اُس شخص کی مشورت ہم پر لاگو نہیں ہوتی کیونکہ وہ ہماری صورتحال کو نہیں سمجھتا۔ اِس لئے شاید ہم اُس کی مشورت کو فوراً رد کر دیں۔ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۵‏)‏ لیکن یاد رکھیں کہ ہم سب خطاکار ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ غلطی پر ہیں؟ (‏امثال ۱۹:‏۳‏)‏ خود سے پوچھیں کہ ”‏کیا مجھے اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہئے؟“‏ شاید آپ کو واقعی اِس مشورت کی ضرورت تھی۔ اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کو یہ مشورت کیوں دی گئی۔ خدا کے کلام میں ہمیں تاکید کی گئی ہے:‏ ”‏تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ۔ اُسے جانے نہ دے۔ اُس کی حفاظت کر کیونکہ وہ تیری حیات ہے۔“‏—‏امثال ۴:‏۱۳‏۔‏

  • ”‏اُس نے بڑے سخت لہجے میں مجھ سے بات کی۔“‏ یہ سچ ہے کہ خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ اصلاح نرمی سے کی جانی چاہئے۔ (‏گلتیوں ۶:‏۱‏)‏ لیکن بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”‏سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔“‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ جس طرح ہم سے غلطیاں ہو جاتی ہیں اِس طرح اُن لوگوں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں جو ہماری اصلاح کرتے ہیں۔ اِس لئے ہمیں اِس بات کی توقع نہیں کرنی چاہئے کہ ہماری اصلاح کرتے وقت وہ ہمیشہ صحیح لہجہ اپنائیں گے۔ (‏یعقوب ۳:‏۲‏)‏ یہوواہ خدا خطاکار انسانوں کے ذریعے ہماری اصلاح کرتا ہے۔ اِس لئے ہمیں اِس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ ہماری اصلاح کس انداز میں کی گئی ہے بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنے کی مشورت دی گئی ہے۔ پھر ہمیں دُعا کر کے اِس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ہم اِس مشورت پر عمل کیسے کر سکتے ہیں۔‏

  • ”‏وہ کون ہوتا ہے میری غلطی نکالنے والا؟“‏ اگر ہم سوچیں کہ اصلاح کرنے والے کی خامیوں کی وجہ سے ہمیں اُس کی مشورت کو قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو ہمیں اُوپر بتائے گئے نکتوں پر غور کرنا چاہئے۔ اگر ہمارا خیال ہے کہ ہماری عمر، ہمارے تجربے اور کلیسیا میں ہماری ذمہ‌داریوں کی وجہ سے ہماری اصلاح نہیں کی جانی چاہئے تو ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ بنی‌اسرائیل کے بادشاہ بڑی ذمہ‌داری رکھتے تھے لیکن اُنہیں بھی نبیوں اور کاہنوں کی طرف سے اصلاح کو قبول کرنا پڑتا تھا۔ (‏۲-‏سموئیل ۱۲:‏۱-‏۱۳؛‏ ۲-‏تواریخ ۲۶:‏۱۶-‏۲۰‏)‏ یہوواہ خدا کی تنظیم میں جن آدمیوں کو بزرگوں کے طور پر مقرر کِیا جاتا ہے، وہ ہم سب کی طرح خطاکار ہیں۔ جو مسیحی خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں وہ اِن بزرگوں کی اصلاح کو قبول کرتے ہیں۔ اگر ہم تجربہ‌کار ہیں اور بہت سی ذمہ‌داریاں رکھتے ہیں تو ہمیں اصلاح کو قبول کرنے کی مثال قائم کرنی چاہئے۔ یوں ہم نرم‌مزاجی، سمجھداری اور فروتنی ظاہر کریں گے۔—‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۲، ۳؛‏ ططس ۳:‏۲‏۔‏

وقتاًفوقتاً ہم سب کو اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس لئے ہمیں اِس بات کا عزم کر لینا چاہئے کہ ہم اصلاح کو قبول کر کے اِس پر عمل کریں گے۔ ہمیں یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ وہ ہماری اصلاح کرواتا ہے۔ اِس طرح وہ ہمارے لئے اپنی محبت ظاہر کرتا ہے اور ہم اُس کی محبت میں قائم رہتے ہیں۔—‏عبرانیوں ۱۲:‏۶-‏۱۱‏۔‏

‏”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو“‏

بنی‌اسرائیل بیابان میں پھر رہے تھے۔ اِس خطرناک ماحول میں موسیٰ اُن کی پیشوائی کر رہا تھا۔ لیکن وہ اکیلے لاکھوں لوگوں کی راہنمائی نہیں کر سکتا تھا۔ اِس لئے اُس نے ”‏سب اسرائیلیوں میں سے لائق اشخاص چنے اور اُن کو ہزارہزار اور سوسو اور پچاس‌پچاس اور دس‌دس آدمیوں کے اُوپر حاکم مقرر کِیا۔“‏—‏خروج ۱۸:‏۲۵۔‏

آج بھی یہوواہ خدا کی تنظیم کا کچھ اِسی طرح سے انتظام کِیا گیا ہے۔ کلیسیا میں مُنادی کے ہر گروپ کا نگہبان ہوتا ہے۔ ہر کلیسیا میں بزرگ مقرر کئے جاتے ہیں۔ حلقے کا نگہبان ایک مخصوص علاقے کی کلیسیاؤں کا دورہ کرتا ہے۔ صوبائی نگہبان کئی حلقوں کی نگرانی کرتا ہے۔ ایک مُلک پر یا تو مُلک کی کمیٹی یا پھر برانچ کی کمیٹی مقرر ہوتی ہے۔ اِس انتظام کی وجہ سے کلیسیا کے بزرگ اُن بھیڑوں کا اچھا خیال رکھ سکتے ہیں جو اُن کی نگرانی میں ہیں۔ کلیسیا کی نگہبانی کرتے وقت بزرگ یاد رکھتے ہیں کہ وہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے جواب‌دہ ہیں۔—‏اعمال ۲۰:‏۲۸‏۔‏

تمام مسیحیوں کو یہوواہ خدا کی تنظیم کے نگہبانوں کے فرمانبردار اور تابع رہنا چاہئے۔ ہم دیترفیس کی طرح نہیں بننا چاہتے ہیں جو بزرگوں کا احترام نہیں کرتا تھا۔ (‏۳-‏یوحنا ۹، ۱۰‏)‏ اِس کی بجائے ہم پولس رسول کے اِن الفاظ پر عمل کرنا چاہتے ہیں:‏ ”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے اُن کی طرح جاگتے رہتے ہیں جنہیں حساب دینا پڑے گا تاکہ وہ خوشی سے یہ کام کریں نہ کہ رنج سے کیونکہ اِس صورت میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۷‏)‏ بعض مسیحی صرف اُس صورت میں بزرگوں کے فرمانبردار ہوتے ہیں جب وہ اِن کی ہدایت سے متفق ہوتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اُن کی بات سے اتفاق نہیں کرتے یا پھر یہ نہیں سمجھتے کہ بزرگوں نے ایک ہدایت کیوں دی تو وہ اُن کے فرمانبردار نہیں ہوتے۔ لیکن بزرگوں کے تابع رہنے کا مطلب ہے کہ ہم اُس وقت بھی اُن کے فرمانبردار رہیں جب ہم اُن کی بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ ہم سب کو خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏کیا مَیں یہوواہ خدا کی تنظیم کے نگہبانوں کا فرمانبردار اور تابع ہوں؟“‏

خدا کے کلام میں تفصیل سے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ کلیسیا کا انتظام کیسے کِیا جانا چاہئے۔ لیکن بائبل میں یہ اصول دیا گیا ہے کہ ”‏سب باتیں شایستگی اور قرینہ [‏یعنی ترتیب]‏ کے ساتھ عمل میں آئیں۔“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۴۰‏)‏ یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی بائبل کے اِس اصول پر عمل کرتی ہے۔ اِس لئے وہ کلیسیاؤں کے بندوبست کے سلسلے میں ہدایات اور راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ کلیسیا کے خادم اور بزرگ اِن ہدایات پر عمل کرکے دوسروں کے لئے اچھی مثال قائم کرتے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ”‏حلیم اور تربیت‌پذیر“‏ ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے نگہبانوں کے فرمانبردار ہیں۔ (‏یعقوب ۳:‏۱۷‏)‏ اِس کے نتیجے میں ہر گروپ، کلیسیا، حلقے، صوبے اور مُلک کے تمام مسیحی متحد ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں اور یوں اُس کے نام کی بڑائی ہوتی ہے۔—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۳۳‏۔‏

عبرانیوں ۱۳:‏۱۷ میں پولس رسول کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم نگہبانوں کی فرمانبرداری نہیں کریں گے تو یہ کلیسیا کے لئے بہت نقصان‌دہ ثابت ہوگا۔ اگر کلیسیا کے رُکن نگہبانوں کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے یا پھر بغاوت کریں گے تو نگہبان اپنے شرف کو بوجھ سمجھیں گے۔ ایسی صورت میں نگہبان اپنی ذمہ‌داریاں ”‏رنج سے“‏ پوری کریں گے۔ اِس کے نتیجے میں ہمیں ”‏کچھ فائدہ نہیں“‏ ہوگا بلکہ کلیسیا نقصان اُٹھائے گی۔ اس کے علاوہ جو شخص غرور میں آ کر نگہبانوں کے اختیار کو تسلیم نہیں کرتا وہ خود بھی نقصان اُٹھاتا ہے کیونکہ وہ یہوواہ خدا سے دُور ہو جاتا ہے۔ (‏زبور ۱۳۸:‏۶‏)‏ لہٰذا آئیں ہم یہوواہ خدا کی تنظیم کے نگہبانوں کے فرمانبردار اور تابع رہنے کی ٹھان لیں۔‏

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں