”کلام پر عمل کرنے والے“ شادمان لوگ
”اُس کلام کو حلیمی سے قبول کر لو جو دل میں بویا گیا اور تمہاری روحوں کو نجات دے سکتا ہے۔ لیکن کلام پر عمل کر نے والو بنو نہ محض سننے والے۔“—یعقوب ۱:۲۱، ۲۲۔
۱. ۱۹۹۶ کے لئے ہماری سالانہ آیت کو کیسا خیال کِیا جانا چاہئے؟
”کلام پر عمل کرنے والے بنو۔“ یہ سادہ بیان ایک پُرزور پیغام لئے ہوئے ہے۔ یہ بائبل میں، ”یعقوب کے خط“ سے لیا گیا ہے، اور ۱۹۹۶ کے دوران یہوؔواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہالوں میں بطور سالانہ آیت آویزاں رہے گا۔
۲، ۳. یہ کیوں موزوں تھا کہ یعقوؔب اپنے نام کا حامل خط لکھے؟
۲ یعقوؔب، خداوند یسوؔع کا سوتیلا بھائی، ابتدائی مسیحی کلیسیا میں بہت ممتاز تھا۔ یسوؔع کی قیامت کے بعد ایک موقع پر، ہمارا خداوند بذاتِخود یعقوؔب پر اور پھر دیگر تمام رسولوں پر ظاہر ہوا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۷) بعدازاں، جب پطرؔس رسول کو معجزانہ طور پر قید سے رہا کرایا گیا تو اُس نے مسیحیوں کے جمعشُدہ گروپ کو بتایا: ”یعقوؔب اور بھائیوں کو اس بات کی خبر کر دینا۔“ (اعمال ۱۲:۱۷) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود ایک رسول نہ ہونے کے باوجود بھی، یعقوؔب نے یرؔوشلیم میں جمع ہونے والی مجلسِعاملہ کی صدارت کی جب رسولوں اور بزرگوں نے فیصلہ کِیا کہ غیرقوم سے مسیحی بننے والوں کو ختنہ کروانے کی ضرورت نہیں۔ یعقوؔب نے معاملات کا نچوڑ بیان کِیا، اور روحالقدس سے تصدیقشُدہ فیصلے کو تمام کلیسیاؤں تک پہنچا دیا گیا۔—اعمال ۱۵:۱-۲۹۔
۳ ظاہر ہے کہ یعقوؔب کے پُختہ دلائل میں بہت وزن تھا۔ تاہم، اُس نے فروتنی سے تسلیم کِیا کہ وہ تو خود محض ”خدا کا اور خداوند یسوؔع مسیح کا بندہ“ تھا۔ (یعقوب ۱:۱) اُس کا الہامی خط آجکل کے مسیحیوں کے لئے ٹھوس مشورت اور حوصلہافزائی کا خزانہ لئے ہوئے ہے۔ یہ جنرل سیسٹیئسؔ گیلس کی طرف سے یرؔوشلیم پر پہلے رومی حملے سے تقریباً چار سال پہلے، ”آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں“ خوشخبری کی وسیع پیمانے پر منادی کر دئے جانے کے بعد مکمل ہو گیا تھا۔ (کلسیوں ۱:۲۳) وہ تشویشناک ایّام تھے، اور یہوؔواہ کے خادم پوری طرح باخبر تھے کہ یہودی قوم پر اُسکی سزا نازل ہونے والی تھی۔
۴. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ ابتدائی مسیحی خدا کے کلام پر گہرا اعتماد رکھتے تھے؟
۴ اُن مسیحیوں کے پاس پہلے ہی سے مکمل عبرانی صحائف اور یونانی صحائف کا زیادہتر حصہ موجود تھا۔ جیسےکہ ابتدائی تحریروں کے بیشمار اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے، مسیحی بائبل مصنّفین واضح طور پر خدا کے کلام پر بہت زیادہ اعتماد رکھتے تھے۔ اسی طرح، آجکل ہمیں خدا کے کلام کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے اور اسے اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ برداشت کرنے کے لئے، ہمیں اُس روحانی قوت اور حوصلے کی ضرورت ہے جو پاک صحائف فراہم کرتے ہیں۔—زبور ۱۱۹:۹۷؛ ۱-تیمتھیس ۴:۱۳۔
۵. آجکل ہمیں خاص راہنمائی کی ضرورت کیوں ہے، اور یہ ہمیں کہاں سے ملے گی؟
۵ آجکل نوعِانسانی ایسی ”بڑی مصیبت“ کے دہانے پر کھڑی ہے جو ”دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔“ (متی ۲۴:۲۱) ہماری بقا کا دارومدار الہٰی راہنمائی حاصل کرنے پر ہے۔ ہم اسے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ اپنے دلوں کو خدا کی روح سے الہامشُدہ کلام کی تعلیمات سے اثرپذیر ہونے دینے سے۔ یہ ہمارے ماضی کے یہوؔواہ کے وفادار خادموں کی مانند، ”کلام پر عمل کرنے والے“ بننے کا باعث ہوگا۔ ہمیں مستعدی سے خدا کے کلام کی پڑھائی اور مطالعہ کرنا چاہئے اور اسے یہوؔواہ کی حمد کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔—۲-تیمتھیس ۲:۱۵؛ ۳:۱۶، ۱۷۔
خوشی کے ساتھ صبر
۶. ہمیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنے سے خوشی کیوں حاصل ہونی چاہئے؟
۶ اپنے خط کے آغاز میں، یعقوؔب، خدا کی روح کے دوسرے پھل، خوشی کا ذکر کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ”اَے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔“ (یعقوب ۱:۲-۴؛ گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) یہ کسطرح کہا جا سکتا ہے کہ متعدد آزمائشوں کا مقابلہ کرنا ”کمال خوشی“ کی بات ہے؟ یسوؔع نے بھی اپنے پہاڑی وعظ میں کہا تھا: ”جب میرے سبب سے لوگ تمکو لعنطعن کرینگے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تم مبارک ہوگے۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔“ (متی ۵:۱۱، ۱۲) جب ہم ابدی زندگی کے نشانے کی طرف بڑھنے کے لئے جانفشانی کرتے ہیں تو ہماری کوششوں پر یہوؔواہ کی برکت کو دیکھنے سے پُرمسرت اطمینان حاصل ہوتا ہے۔—یوحنا ۱۷:۳؛ ۲-تیمتھیس ۴:۷، ۸؛ عبرانیوں ۱۱:۸-۱۰، ۲۶، ۳۵۔
۷. (ا) برداشت کرنے کے لئے ہماری مدد کیسے ہو سکتی ہے؟ (ب) اؔیوب کی مانند، ہم کیسے اجر پا سکتے ہیں؟
۷ خود یسوؔع مسیح نے بھی ”اُس خوشی کے لئے جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی“ صبر کِیا۔ (عبرانیوں ۱۲:۱، ۲) یسوؔع کے جرأتمندانہ نمونے پر اشتیاق کے ساتھ غور کرنے سے، ہم بھی صبر کر سکتے ہیں! اپنے خط کے اختتام پر جیسےکہ یعقوؔب بیان کرتا ہے، یہوؔواہ راستی برقرار رکھنے والوں کو بکثرت اجر دیتا ہے۔ ”دیکھو صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔“ یعقوؔب کہتا ہے۔ ”تم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور خداوند کی طرف سے جو اسکا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کر لیا جس سے خداوند کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۵:۱۱) یاد کریں کہ اؔیوب کی راستی کا صلہ کیسے دیا گیا جب اُسے اچھی صحت اور عزیزواقارب کے ساتھ ایک بھرپور، خوشحال زندگی سے لطف اُٹھانے کے لئے بحال کر دیا گیا تھا۔ راستی میں برداشت آپ کے لئے، اب یہوؔواہ کی خدمت کرنے کی خوشی کی انتہا کے طور پر، خدا کی نئی دُنیا کی موعودہ فردوس میں ایسی ہی شادمانی لا سکتا ہے۔
حکمت تلاش کرنا
۸. ہم سچی، عملی حکمت کیسے حاصل کر سکتے ہیں، اور دُعا اِس میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟
۸ خدا کے کلام کا ہمارا مستعد مطالعہ، اس کے عملی اطلاق کے ساتھ، ہمیں شیطان کے دم توڑتے ہوئے نظام کی بدعنوانی کے درمیان آزمائشوں کی برداشت کرنے کے قابل بناتے ہوئے، خدائی حکمت پر منتج ہوتا ہے۔ ہم ایسی حکمت حاصل کرنے کی بابت کیسے پُراعتماد ہو سکتے ہیں؟ یعقوؔب ہمیں بتاتا ہے: ”اگر تم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔ اُس کو دی جائے گی۔ مگر ایمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔“ (یعقوب ۱:۵، ۶) ہمیں سنجیدگی سے، غیرمتزلزل اعتماد کے ساتھ دُعا کرنی چاہئے کہ یہوؔواہ ہماری دُعائیں سنے گا اور وہ اپنے مقررہ وقت اور طریقے سے اُن کا جواب دے گا۔
۹. یعقوب خدائی حکمت اور اسکے اطلاق کو کیسے بیان کرتا ہے؟
۹ خدائی حکمت یہوؔواہ کی طرف سے بخشش ہے۔ ایسی بخششوں کو بیان کرتے ہوئے، یعقوؔب کہتا ہے: ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اُوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔“ بعدازاں اپنے خط میں، یعقوؔب حقیقی حکمت حاصل کرنے کے نتیجے کی وضاحت کرتا ہے جب وہ کہتا ہے: ”تم میں دانا اور فہیم کون ہے؟ جو ایسا ہو وہ اپنے کاموں کو نیک چالچلن کے وسیلہ سے اُس حلم کے ساتھ ظاہر کرے جو حکمت سے پیدا ہوتا ہے۔ . . . جو حکمت اُوپر سے آتی ہے اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے۔ پھر ملنسار حلیم اور تربیتپذیر۔ رحم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی۔ بےطرفدار اور بےریا ہوتی ہے۔“—یعقوب ۱:۱۷؛ ۳:۱۳-۱۷۔
۱۰. جھوٹا مذہب سچے مذہب سے کیسے فرق ہے؟
۱۰ جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت میں، خواہ مسیحی دُنیا میں یا دیگر ممالک میں، حمد کے چند گیت گانا، رٹی ہوئی دُعاؤں کو سننا، اور شاید ایک تقریر سننا پرستاروں کی اکثر عادت ہوتی ہے۔ اُمیدافزا پیغام کے اعلان کرنے کی حوصلہافزائی نہیں کی جاتی، کیونکہ زیادہتر مذاہب کو مستقبل کے لئے کوئی روشن امکان دکھائی نہیں دیتا۔ خدا کی مسیحائی بادشاہت کی شاندار اُمید کا یا تو کبھی ذکر ہی نہیں کِیا جاتا یا پھر مکمل طور پر غلط سمجھی جاتی ہے۔ مسیحی دُنیا کے پیروکاروں کی بابت یہوؔواہ نبوّتی طور پر فرماتا ہے: ”میرے لوگوں نے دو بُرائیاں کیں۔ اُنہوں نے مجھ آبِحیات کے چشمہ کو ترک کر دیا اور اپنے لئے حوض کھودے ہیں۔ شکستہ حوض جن میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔“ (یرمیاہ ۲:۱۳) اُنکے پاس سچائی کے پانی نہیں ہیں۔ آسمانی حکمت کم ہو رہی ہے۔
۱۱، ۱۲. (ا) الہٰی حکمت کو ہمیں کیسے تحریک دینی چاہئے؟ (ب) الہٰی حکمت ہمیں کس چیز کی بابت آگاہ کرتی ہے؟
۱۱ آجکل یہوؔواہ کے گواہوں میں یہ کسقدر مختلف ہے! خداداد زبردست توانائی کے ساتھ، وہ زمین کو اُس کی آنے والی بادشاہت کی خوشخبری سے معمور کر رہے ہیں۔ جس حکمت کی وہ بات کرتے ہیں وہ پوری طرح خدا کے کلام پر مبنی ہے۔ (مقابلہ کریں امثال ۱:۲۰؛ یسعیاہ ۴۰:۲۹-۳۱) یقیناً، وہ ہمارے خدا اور خالق کے عظیمالشان مقاصد کا اعلان کرنے میں حقیقی علم اور فہم کا عملی استعمال کرتے ہیں۔ ہماری یہ خواہش ہونی چاہئے کہ کلیسیا میں سب ”کمال روحانی حکمت اور سمجھ کے ساتھ اُس کی مرضی کے علم سے معمور ہو“ جائیں۔ (کلسیوں ۱:۹) اس بنیاد کے ساتھ، جوان اور بوڑھے دونوں ہمیشہ ”کلام پر عمل کرنے والے“ بننے کی تحریک پائینگے۔
۱۲ ”جو حکمت اُوپر سے آتی ہے“ وہ ہمیں اُن گناہوں کی بابت آگاہ کرتی ہے جو الہٰی ناپسندیدگی پر منتج ہو سکتے ہیں۔ ”اے میرے پیارے بھائیو! یہ بات تم جانتے ہو،“ یعقوؔب کہتا ہے۔ ”ہر آدمی سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر کرنے میں دھیما ہو۔ کیونکہ انسان کا قہر خدا کی راستبازی کا کام نہیں کرتا۔“ جیہاں، ہمیں الہٰی مشورت کو سننے میں اور اسکا اطلاق کرنے میں لازماً تیز، آمادہ ہونا چاہئے۔ تاہم، ہمیں ”چھوٹا سا عضو“ یعنی زبان کے غلط استعمال سے بچنا چاہئے۔ شیخیخوری، غیردانشمندانہ فضولگوئی، یا خودرائے گفتگو کے ذریعے، زبان ایک علامتی ’بڑے جنگل‘ کو آگ لگا سکتی ہے۔ اسلئے ہمیں اپنے تمام تعلقات میں خوشگواری اور ضبطِنفس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔—یعقوب ۱:۱۹، ۲۰؛ ۳:۵۔
۱۳. یہ کیوں اہم ہے کہ اُس ”کلام“ کو قبول کریں جو ”بویا گیا ہے“؟
۱۳ ”اسلئے،“ یعقوؔب لکھتا ہے، ”ساری نجاست اور بدی کے فضلہ کو دُور کرکے اُس کلام کو حلیمی سے قبول کر لو جو دل میں بویا گیا اور تمہاری روحوں کو نجات دے سکتا ہے۔“ (یعقوب ۱:۲۱) یہ حریص دُنیا، اپنی دکھاوے والی، مادہپرستانہ، پہلے مَیں والی طرزِزندگی اور گھٹیا اخلاقیات سمیت ختم ہونے والی ہے۔ ”لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہیگا۔“ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) پھر یہ کتنا اہم ہے کہ ہم ”اُس کلام کو . . . جو دل میں بویا گیا“ قبول کریں! خدا کے کلام سے مہیاکردہ حکمت اس دم توڑتی ہوئی دُنیا کی بدکاری کے مقابلے میں بالکل فرق ہے۔ ہم اس بدکاری میں سے کچھ بھی نہیں چاہتے۔ (۱-پطرس ۲:۱، ۲) ہمیں سچائی کی محبت اور ہمارے دلوں میں بوئے گئے مضبوط ایمان کی ضرورت ہے، اس طرح ہم یہوؔواہ کی راست راہوں سے کبھی بھی نہ ہٹنے کے لئے پُرعزم ہوں گے۔ لیکن کیا خدا کے کلام کو سننا کافی ہے؟
”خدا کے کلام پر عمل کرنے والے“ بننا
۱۴. ہم کیسے کلام کے ”سننے والے“ اور ”عمل کرنے والے“ دونوں بن سکتے ہیں؟
۱۴ یعقوب ۱:۲۲ میں، ہم پڑھتے ہیں: ”کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔“ ”کلام پر عمل کرنے والے بنو“! یعقوؔب کے خط میں یقیناً اس موضوع کو اُجاگر کِیا گیا ہے۔ ہمیں ضرور سننا، پھر ”یوں ہی“ کرنا چاہئے! (پیدایش ۶:۲۲) آجکل بہتیرے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی وعظ کو سننا یا کبھیکبھار کسی رسمی عبادت میں شریک ہونا ہی کافی ہے لیکن وہ اسے اس حد تک محدود رکھتے ہیں۔ شاید وہ سوچیں کہ جب تک وہ اپنے معیاروں کے مطابق ’نیک زندگی‘ بسر کرتے رہتے ہیں وہی کافی ہوگی۔ تاہم، یسوؔع مسیح نے بیان کِیا: ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔“ (متی ۱۶:۲۴) خدا کی مرضی بجا لانے کے یسوؔع کے نمونے کی پیروی کرنے کے لئے واضح طور پر سچے مسیحیوں سے خودایثارانہ کارروائی اور برداشت کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔ اُنکے لئے، خدا کی مرضی آج بھی ویسے ہی ہے جیسے پہلی صدی میں تھی جب قیامتیافتہ یسوؔع نے حکم دیا: ”جاؤ اور سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔“ (متی ۲۸:۱۹) اس سلسلے میں آپ کیا کر رہے ہیں؟
۱۵. (ا) اس بات کو ظاہر کرتے ہوئے کہ ہم کیسے ”کلام پر عمل کرنے“ والوں کے طور پر خوش ہو سکتے ہیں یعقوؔب کونسی تمثیل پیش کرتا ہے؟ (ب) محض رسمی عبادت کافی کیوں نہیں ہے؟
۱۵ اگر ہم خدا کے کلام کا بغور جائزہ لیتے رہیں تو یہ ایک ایسا آئینہ ہو سکتا ہے جو ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس قسم کے شخص ہیں۔ یعقوؔب کہتا ہے: ”جو شخص آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اسلئے برکت پائیگا کہ سنکر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔“ (یعقوب ۱:۲۳-۲۵) جیہاں، وہ ’کلام پر عمل کرنے والا‘ مبارک شخص ہوگا۔ مزیدبرآں، اپنی مسیحی زندگیوں کے ہر پہلو میں ”عمل کرنے والے“ ہونا لازمی ہے۔ ہمیں کبھی بھی خود کو یہ سوچنے سے دھوکا نہیں دینا چاہئے کہ رسمی عبادت ہی کافی ہے۔ یعقوؔب ہمیں سچی پرستش کے اُن بعض پہلوؤں کا مشاہدہ کرنے کی مشورت دیتا ہے جنہیں سرگرم مسیحی بھی نظرانداز کر سکتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے: ”ہمارے خدا اور باپ کے نزدیک خالص اور بےعیب دینداری یہ ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت اُنکی خبر لیں اور اپنے آپ کو دُنیا سے بیداغ رکھیں۔“—یعقوب ۱:۲۷۔
۱۶. کن طریقوں سے اؔبرہام ”خداوند کا دوست“ بنا، اور ہم کیسے اُسکی دوستی حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۶ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ’مَیں خدا پر ایمان رکھتا ہوں،‘ اور معاملات کو اسی حد تک چھوڑ دیں۔ جیسےکہ یعقوب ۲:۱۹ کہتی ہے: ”تُو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ خدا ایک ہی ہے خیر۔ اچھا کرتا ہے۔ شیاطین بھی ایمان رکھتے اور تھرتھراتے ہیں۔“ یعقوؔب زور دیتا ہے کہ ”ایمان بھی اگر اُسکے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات سے مُردہ ہے،“ اور یہ کہتے ہوئے، اؔبرہام کا حوالہ دیتا ہے: ”ایمان نے اُسکے اعمال کے ساتھ مِل کر اثر کِیا اور اعمال سے ایمان کامل ہوا۔“ (یعقوب ۲:۱۷، ۲۰-۲۲) اؔبرہام کے کاموں میں اپنے رشتہداروں کو آرام پہنچانا، مہمانوازی دکھانا، اضحاؔق کو قربان کرنے کی تیاری کرنا، اور ”پایدار شہر“ یعنی مستقبل کی مسیحائی بادشاہت کی بابت خدا کے وعدے پر غیرمتزلزل ایمان کا ’اعلانیہ اقرار‘ کرنا شامل تھا۔ (پیدایش ۱۴:۱۶؛ ۱۸:۱-۵؛ ۲۲:۱-۱۸؛ عبرانیوں ۱۱:۸-۱۰، ۱۳، ۱۴؛ ۱۳:۲) موزوں طور پر، اؔبرہام ”خدا کا دوست کہلایا۔“ (یعقوب ۲:۲۳) جب ہم اپنے ایمان اور آنے والی راستبازی کی بادشاہت پر اُمید کا مستعدی سے اعلان کرتے ہیں تو ہم بھی ’یہوواہ کے دوستوں‘ کے طور پر شمار ہو سکتے ہیں۔
۱۷. راؔحب کیوں ”راستباز ٹھہرائی“ گئی اور اُسے کیسے اجر دیا گیا تھا؟ (ب) بائبل اُن لوگوں کی کونسی طویل فہرست مہیا کرتی ہے جو ’کلام پر عمل کرنے والے بنے‘؟ (پ) اؔیوب کو کیسے اجر دیا گیا، اور کیوں؟
۱۷ وہ جو ”کلام پر عمل کرنے والے“ بنتے ہیں وہ ”ایمان ہی سے نہیں بلکہ اعمال سے راستباز ٹھہرائے“ جاتے ہیں۔ (یعقوب ۲:۲۴) راؔحب ایک ایسی عورت تھی جس نے اُس ”کلام“ پر اپنے ایمان میں اعمال کا اضافہ کِیا جو وہ یہوؔواہ کے زبردست کاموں کے سلسلے میں سُن چکی تھی۔ اُس نے اسرائیلی جاسوسوں کو چھپایا اور فرار ہونے میں اُنکی مدد کی، اور پھر بچانے کے لئے اپنے باپ کے گھرانے کو اکٹھا کِیا۔ قیامت میں، وہ یہ جان کر کتنی خوش ہوگی کہ اُس کا ایمان، اعمال کی پُشتپناہی کے ساتھ، اُس کے اُمہاتِمسیحا میں سے ایک بننے کا باعث ہوا! (یشوع ۲:۱۱؛ ۶:۲۵؛ متی ۱:۵) عبرانیوں ۱۱ باب اُن کی فہرست فراہم کرتا ہے جو اپنے ایمان کا مظاہرہ کرنے میں ’عمل کرنے والے بنے،‘ اور اُنہیں بکثرت اجر دیا جائیگا۔ نہ ہی ہمیں اؔیوب کو بھولنا چاہئے، جس نے سخت آزمائش کے تحت کہا: ”خداوند کا نام مبارک ہو۔“ جیساکہ ہم پہلے غور کر چکے ہیں، اُس کا ایمان اور اعمال عظیم اجر پر منتج ہوئے۔ (ایوب ۱:۲۱؛ ۳۱:۶؛ ۴۲:۱۰؛ یعقوب ۵:۱۱) اسی طرح، آجکل ”کلام پر عمل کرنے والوں“ کے طور پر ہمارا صبر یہوؔواہ کی خوشنودی کا باعث ہوگا۔
۱۸، ۱۹. طویل استبداد کا شکار ہونے والے بھائی کیسے ”کلام پر عمل کرنے والے بن“ گئے ہیں، اور اُنکی کارگزاری کونسی برکت لائی ہے؟
۱۸ اُن لوگوں میں جنہوں نے سالہاسال صبر کِیا ہے مشرقی یورپ کے ہمارے بھائی بھی شامل ہیں۔ اب جبکہ بہت سی پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں، یہ اپنے نئے ماحول میں واقعی ”کلام پر عمل کرنے والے“ بن گئے ہیں۔ ہمسایہ ممالک سے مشنری اور پائنیر تعلیم دینے اور منظم کرنے میں مدد دینے کے لئے وہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ دی واچٹاور سوسائٹی کی فنلینڈؔ برانچ اور دیگر قریبی برانچوں نے اپنے ماہر معمار بھیجے ہیں، اور فیاضدل عالمی برادری نے نئے برانچ دفاتر اور کنگڈم ہالوں کی تعمیر کی مالی کفالت کی ہے۔—مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۸:۱۴، ۱۵۔
۱۹ طویل استبداد کے شکار اُن بھائیوں نے میدان میں کتنی گرمجوشی سے جوابیعمل دکھایا ہے! گویا کہ وہ اُن مواقع سے نقصان کی تلافی کرنے کے لئے ’محنت اور جانفشانی کر رہے ہیں‘ جو ”مصیبتانگیز وقت“ میں دستیاب نہ تھے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۰؛ ۲-تیمتھیس ۴:۲) مثال کے طور پر، اؔلبانیہ میں، اس گزشتہ اپریل، جہاں بہت ظالمانہ دباؤ تھا، بادشاہتی خبر بعنوان ”زندگی مسائل سے اسقدر کیوں بھری پڑی ہے“ تین ہی دن میں تقسیم کر دی گئی۔ یہ یسوؔع کی موت کی یادگاری کے بعد شاندار کارروائی تھی، جس پر ۳۴۹۱ اشخاص—اُنکے ۵۳۸ سرگرم پبلشروں سے کہیں زیادہ—حاضر ہوئے۔
۲۰. حالیہ میموریل حاضریاں کیا ظاہر کرتی ہیں، اور کیسے بہتیروں کی مدد ہو سکتی ہے؟
۲۰ دیگر ممالک نے بھی میموریل کی حاضریوں میں نمایاں کردار ادا کِیا ہے جو حالیہ سالوں میں ۱۰،۰۰۰،۰۰۰ سے بڑھ گئی ہیں۔ بہتیری جگہوں پر نئے اشخاص، میموریل پر حاضر ہونے اور منانے سے پُختہ ایمان کے ساتھ، ’کلام پر عمل کرنے والے بن رہے‘ ہیں۔ کیا ہم اس استحقاق کے لائق ٹھہرنے کے لئے اَور زیادہ نئے ساتھیوں کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں؟
۲۱. اپنی سالانہ آیت کے مطابق، ہمیں کونسی روش اختیار کرنی چاہئے، اور کس نصبالعین کے ساتھ؟
۲۱ پہلی صدی میں، اور اُس وقت سے لیکر اب تک، اُن سرگرم مسیحیوں کی طرح، آئیے ابدی زندگی کے ”اُس انعام کو حاصل“ کرنے میں جانفشانی کرنے کا پُختہ عزم کریں، خواہ وہ آسمانی بادشاہت میں ہو یا اسکے زمینی قلمرو میں۔ (فلپیوں ۳:۱۲-۱۴) اُس نشانے کو حاصل کرنے کے لئے ہماری ہر کوشش قابلِقدر ہے۔ یہ سننے والے بنے رہنے کا وقت نہیں ہے بلکہ یہ ’مضبوط ہونے اور کام کرنے‘ کا اہمترین زمانہ ہے۔ (حجی ۲:۴؛ عبرانیوں ۶:۱۱، ۱۲) ’کلام کے بوئے جانے کو قبول کرنے سے‘ دُعا ہے کہ ہم اب اور ہمیشہ تک ’کلام پر عمل کرنے والے‘ شادمان لوگ بنیں۔ (۱۶ ۱۲/۱۵ w۹۵)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ ہم کیسے خوشی کے ساتھ برداشت کر سکتے ہیں؟
▫ ”حکمت جو اُوپر سے آتی ہے“ وہ کیا ہے، اور ہم کیسے اسکی جستجو میں رہ سکتے ہیں؟
▫ ہم ”کلام پر عمل کرنے والے“ کیوں بنیں ”نہ کہ محض سننے والے“؟
▫ ”کلام پر عمل کرنے والے“ بننے کے لئے کن رپورٹوں کو ہمیں تحریک دینی چاہئے؟
[تصویر]
اؔیوب کو عزیزواقارب کے ساتھ ایک بھرپور، خوشحال زندگی سے لطفاندوز ہو نے کے لئے بحال کر دینے سے اُسے راستی کا اجر دیا گیا تھا