یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • م95 1/‏9 ص.‏ 27-‏32
  • مسیحی عورتیں عزت‌واحترام کی مستحق ہیں

اِس حصے میں کوئی ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔

ہم معذرت خواہ ہیں کہ ویڈیو لوڈ نہیں ہو سکی۔

  • مسیحی عورتیں عزت‌واحترام کی مستحق ہیں
  • مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
  • ذیلی عنوان
  • ملتا جلتا مواد
  • جس طرح یسوؔع عورتوں کے ساتھ پیش آیا
  • عورتوں کے متعلق یسوؔع کی تعلیمات
  • ‏”‏اسکی عزت کرو“‏
  • عورتیں خدا کے سائے میں
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—2012ء
  • عورتوں کے بارے میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کا نظریہ
    جاگو!‏—‏2008ء
  • خواتین کیلئے مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے؟‏
    جاگو!‏—‏1998ء
  • خدا کے ابتدائی خادموں کے درمیان عورتوں کا باوقار کردار
    مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
مزید
مینارِنگہبانی یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے—‏1995ء
م95 1/‏9 ص.‏ 27-‏32

مسیحی عورتیں عزت‌واحترام کی مستحق ہیں

‏”‏اے شوہرو!‏ تم بھی بیویوں کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُسکی عزت کرو۔“‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۷‏۔‏

۱، ۲.‏ (‏ا)‏ کنویں پر سامری عورت کے ساتھ یسوؔع کی بات‌چیت نے کس تشویش کو ابھارا اور کیوں؟ (‏نیز فٹ‌نوٹ دیکھیں۔)‏ (‏ب)‏ سامری عورت کو منادی کرنے سے، یسوؔع نے کس چیز کا مظاہرہ کیا؟‏

۳۰ س.‏ع.‏کے اختتام پر سُوخار شہر کے نزدیک پُرانے کنویں پر ایک دوپہر یسوؔع نے آشکارا کِیا کہ عورتوں کیساتھ جسطرح پیش آنا چاہئے اس نے اسکی بابت کیسا محسوس کِیا۔ اس نے سامریہ کے پہاڑی ملک میں لمبا سفر کرکے صبح گزاری تھی اور کنویں پر تھکاماندہ، بھوکا، اور پیاسا پہنچا تھا۔ جب وہ کنویں کے نزدیک بیٹھا تھا تو ایک سامری عورت پانی بھرنے کیلئے وہاں آئی۔ ”‏مجھے پانی پلا،“‏ یسوؔع نے اس سے کہا۔ اس عورت نے یقیناً اسے عجیب نظروں سے دیکھا ہوگا۔ اس نے پوچھا:‏ ”‏تُو یہودی ہوکر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟“‏ بعدازاں، جب اسکے شاگرد اشیائے خوردونوش خرید کر واپس لوٹے تو انہیں حیرانی ہوئی کہ یسوؔع کیوں ”‏عورت سے باتیں کر رہا ہے۔“‏—‏یوحنا ۴:‏۴-‏۹،‏ ۲۷‏۔‏

۲ کس چیز نے اس عورت کے سوال اور شاگردوں کی تشویش کو اُبھارا؟ وہ ایک سامری تھی اور یہودی سامریوں سے کسی قِسم کا کوئی برتاؤ نہیں رکھتے تھے۔ (‏یوحنا ۸:‏۴۸‏)‏ لیکن ظاہری طور پر تشویش کی ایک اور بھی وجہ تھی۔ اس وقت، ربّیوں کی روایت نے عورتوں کے ساتھ سرِعام بات‌چیت کرنے سے مردوں کی حوصلہ‌شکنی کی تھی۔‏a تاہم، یسوؔع نے اس مخلص عورت کو اعلانیہ منادی کی، یہانتک کہ اس پر ظاہر کیا کہ وہ مسیحا تھا۔ (‏یوحنا ۴:‏۲۵، ۲۶‏)‏ یسوؔع نے یوں ظاہر کیا کہ وہ غیرصحیفائی روایات کی پابندی نہیں کرے گا، بشمول انکے جو عورتوں کی تحقیر کرتی تھیں۔ (‏مرقس ۷:‏۹-‏۱۳‏)‏ اس کے برعکس، یسوؔع نے جو کچھ کیا اور جس بات کی اس نے تعلیم دی، اس سے یسوؔع نے ظاہر کیا کہ عورتوں کے ساتھ عزت‌واحترام سے پیش آنا چاہئے۔‏

جس طرح یسوؔع عورتوں کے ساتھ پیش آیا

۳، ۴.‏ (‏ا)‏ جس عورت نے یسوؔع کی پوشاک کو چھوا اس کی جانب اس نے کیسا ردعمل دکھایا؟ (‏ب)‏ یسوؔع نے آدمیوں، خاصکر نگہبانوں کے لئے کیسے عمدہ نمونہ قائم کیا؟‏

۳ جس طریقے سے یسوؔع عورتوں کے ساتھ پیش آیا اس سے لوگوں کے لئے اس کی نہایت دردمندی ظاہر ہوئی۔ ایک موقع پر ایک عورت نے جو ۱۲ برس سے جریانِ‌خون کے باعث تکلیف اُٹھا رہی تھی بِھیڑ میں یسوؔع کو ڈھونڈا۔ اس کی حالت نے اسے رسمی طور پر ناپاک کر دیا تھا، لہٰذا اسے وہاں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ (‏احبار ۱۵:‏۲۵-‏۲۷)‏ لیکن وہ اسقدر مایوس تھی کہ وہ چوری چھپے یسوؔع کے پیچھے ہو لی۔ جب اس نے اس کی پوشاک کو چھوا تو اس نے فوراً شفا پائی!‏ اگرچہ وہ یاؔئر کے گھر جا رہا تھا، جس کی بیٹی سخت بیمار تھی تو بھی یسوؔع رُک گیا۔ یہ محسوس کرنے سے کہ اس میں سے قوت نکلی ہے، جس نے اسے چھوا تھا اسے دیکھنے کے لئے اس نے اردگرد دیکھا۔ آخرکار، وہ عورت ڈرتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کے حضور گِر پڑی۔ کیا یسوؔع بِھیڑ میں ہونے کی وجہ سے یا اس کی اجازت کے بغیر اسکی پوشاک کو چھونے سے اسے ڈانٹے گا؟ اس کے برعکس، اس عورت نے اسے بہت ہی پُرتپاک اور مہربان پایا۔ ”‏بیٹی،“‏ اس نے کہا، ”‏تیرے ایمان سے تجھے شفا ملی۔“‏ صرف یہی ایک وقت تھا کہ یسوؔع نے کسی عورت کو بطور ”‏بیٹی“‏ کے مخاطب کیا۔ اس لفظ نے اسکے دل کو کسقدر تسلی دی ہوگی۔—‏متی ۹:‏۱۸-‏۲۲؛‏ مرقس ۵:‏۲۱-‏۳۴‏۔‏

۴ یسوؔع نے شریعت کی پابندی سے پار دیکھا۔ اس نے اس کے پیچھے حقیقی مفہوم کو اور رحم اور دردمندی کی ضرورت کو دیکھا۔ (‏مقابلہ کریں متی ۲۳:‏۲۳‏۔)‏ یسوؔع نے بیمار عورت کے قطعاً مایوس‌کُن حالات کو دیکھا اور غور کیا کہ اس نے ایمان سے تحریک پائی تھی۔ یوں اس نے مسیحی مردوں، خاصکر نگہبانوں کے لئے اچھا نمونہ قائم کیا۔ اگر ایک مسیحی بہن ذاتی مسائل یا خاصکر کسی مشکل یا نبردآزما صورتحال کا سامنا کر رہی ہے تو بزرگوں کو فوری الفاظ یا افعال کے پار دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور حالات اور محرکات کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ ایسی بصیرت ظاہر کر سکتی ہے کہ مشورت اور اصلاح کی بجائے صبر، مفاہمت، اور دردمندی کی ضرورت ہے۔—‏امثال ۱۰:‏۱۹؛‏ ۱۶:‏۲۳؛‏ ۱۹:‏۱۱‏۔‏

۵.‏ (‏ا)‏ کس طریقے سے ربّیوں کی روایات نے عورتوں پر پابندی لگائی تھی؟ (‏فٹ‌نوٹ دیکھیں۔)‏ (‏ب)‏ قیامت‌یافتہ یسوؔع کو دیکھنے اور اس کی بابت گواہی دینے والے پہلے لوگ کون تھے؟‏

۵ جب یسوؔع زمین پر تھا تو ربّیوں کی روایات میں جکڑی، عورتوں پر قانونی گواہوں کی حیثیت سے خدمت انجام دینے پر پابندی تھی۔‏b غور کریں کہ جب یسوؔع ۱۶ نیسان ۳۳ س.‏ع.‏ کی صبح مُردوں میں سے جی اُٹھا تو اسکے تھوڑی دیر بعد کیا ہوا۔ قیامت‌یافتہ یسوؔع کو سب سے پہلے دیکھنے والا اور دوسرے شاگردوں کو یہ گواہی دینے والا کون ہوگا کہ ان کا خداوند جی اُٹھا تھا؟ یہ وہ عورتیں ہی تھیں جو اسکے مرنے تک مصلوب کئے جانے کے مقام پر تھیں۔—‏متی ۲۷:‏۵۵، ۵۶،‏ ۶۱‏۔‏

۶، ۷.‏ (‏ا)‏ قبر پر آنے والی عورتوں کو یسوؔع نے کیا بتایا؟ (‏ب)‏ عورتوں کی گواہی پر یسوؔع کے مرد شاگردوں نے پہلے‌پہل کیسا ردعمل دکھایا، اور اس سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟‏

۶ ہفتہ کے پہلے دن سویرے ہی، مریمؔ مگدلینی اور دوسری عورتیں یسوؔع کے بدن پر لگانے کیلئے خوشبودار مصالحے لیکر قبر پر گئیں۔ قبر کو خالی پانے پر، پطرؔس اور یوؔحنا کو بتانے کیلئے مریمؔ دوڑ کرگئی۔ دیگر عورتیں وہیں پر کھڑی رہیں۔ جلد ہی، ایک فرشتہ ان پر ظاہر ہوا اور انہیں بتایا کہ یسوؔع جی اُٹھا ہے۔ ”‏جلد جاکر اس کے شاگردوں سے کہو،“‏ فرشتے نے ہدایت دی۔ یہ عورتیں خبر دینے کے لئے ابھی جلدی کر رہی تھیں کہ یسوؔع بذاتِ‌خود ان پر ظاہر ہوا۔ ”‏جاؤ میرے بھائیوں سے کہو،“‏ اس نے انہیں حکم دیا۔ (‏متی ۲۸:‏۱-‏۱۰؛‏ مرقس ۱۶:‏۱، ۲؛‏ یوحنا ۲۰:‏۱، ۲‏)‏ فرشتے کی ملاقات سے بے‌خبر اور غم پر قابو پا لینے پر، مریمؔ مگدلینی خالی قبر پر لوٹ آئی۔ وہاں یسوؔع اس پر ظاہر ہوا، اور اس کے بعد جب آخرکار اس نے اسے پہچان لیا تو اس نے کہا:‏ ”‏میرے بھائیوں کے پاس جا کر ان سے کہہ مَیں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اُوپر جاتا ہوں۔“‏—‏یوحنا ۲۰:‏۱۱-‏۱۸‏؛ مقابلہ کریں متی ۲۸:‏۹، ۱۰‏۔‏

۷ پطرؔس، یوؔحنا، یا کسی دوسرے مرد شاگرد پر یسوؔع ظاہر ہو سکتا تھا۔ اس کی بجائے، اس نے انہیں اپنی قیامت کے اوّلین چشم‌دید گواہ بناتے ہوئے اور اسکی بابت اس کے شاگردوں کو گواہی دینے کا انہیں حکم دیتے ہوئے ان عورتوں پر کرم‌فرمائی کرنے کا انتخاب کیا۔ ان آدمیوں نے پہلے‌پہل کیسا ردعمل دکھایا؟ ریکارڈ بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ باتیں انہیں کہانی سی معلوم ہوئیں اور انہوں نے انکا یقین نہ کیا۔“‏ (‏لوقا ۲۴:‏۱۱‏)‏ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ انہیں گواہی قبول کرنا مشکل لگا کیونکہ یہ عورتوں نے دی تھی؟ اگر ایسا ہے تو وقت آنے پر انہوں نے کافی شہادت حاصل کر لی کہ یسوؔع مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ (‏لوقا ۲۴:‏۱۳-‏۴۶؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳-‏۸‏)‏ آجکل، مسیحی آدمی دانشمندی سے کام کرتے ہیں جب وہ اپنی روحانی بہنوں کے مشاہدات کا لحاظ رکھتے ہیں۔—‏مقابلہ کریں پیدایش ۲۱:‏۱۲‏۔‏

۸.‏ جس طریقے سے یسوؔع عورتوں کے ساتھ پیش آیا اس سے اس نے کیا آشکارا کیا؟‏

۸ جس طریقے سے یسوؔع ان عورتوں کیساتھ پیش آیا اس پر غور کرنا واقعی دل کو گرما دیتا ہے۔ عورتوں کیساتھ تعلقات میں ہمہ‌وقت دردمند اور مکمل طور پر متوازن ہوتے ہوئے، اس نے نہ تو انہیں سر پر چڑھایا، نہ ہی انہیں حقیر جانا۔ (‏یوحنا ۲:‏۳-‏۵‏)‏ اس نے ربّیوں کی روایات کو رد کیا جنہوں نے انکا وقار چھین لیا تھا اور جنہوں نے خدا کا کلام باطل کر دیا۔ (‏مقابلہ کریں متی ۱۵:‏۳-‏۹‏۔)‏ عورتوں کیساتھ عزت‌واحترام کیساتھ پیش آنے سے یسوؔع نے براہِ‌راست آشکارا کِیا کہ یہوؔواہ خدا ان سے پیش آنے کی بابت کیسا محسوس کرتا ہے۔ (‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ یسوؔع نے نقل کرنے کے لئے مسیحی مردوں کے واسطے ایک شاندار نمونہ قائم کیا۔‏

عورتوں کے متعلق یسوؔع کی تعلیمات

۹، ۱۰.‏ عورتوں کے متعلق، یسوؔع نے ربّیوں کی روایات کی کیسے تردید کی، اور طلاق کی بابت فریسیوں کے سوال اُٹھانے کے بعد اس نے کیا کہا؟‏

۹ یسوؔع نے ربّیوں کی روایات کی تردید کی اور نہ صرف اپنے کاموں سے بلکہ اپنی تعلیمات سے بھی عورتوں کی توقیر کی۔ مثال کے طور پر، اس نے طلاق اور زناکاری کے متعلق جو تعلیم دی اس پر غور کریں۔‏

۱۰ طلاق کے متعلق یسوؔع سے یہ سوال پوچھا گیا:‏ ”‏کیا ہر ایک سبب سے اپنی بیوی کو چھوڑ دینا روا ہے؟“‏ مرقسؔ کے بیان کے مطابق یسوؔع نے کہا:‏ ”‏جو کوئی اپنی بیوی کو [‏حرامکاری کے سوا]‏ چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ اس پہلی کے برخلاف زنا کرتا ہے اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے۔“‏ (‏مرقس ۱۰:‏۱۰-‏۱۲؛‏ متی ۱۹:‏۳،‏ ۹‏)‏ سادگی سے بیان‌کردہ ان الفاظ نے عورتوں کے وقار کا احترام ظاہر کیا۔ کس طرح؟‏

۱۱.‏ یسوؔع کے الفاظ ”‏حرامکاری کے سوا“‏ شادی کے بندھن کی بابت کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۱ اوّل، (‏متی کے انجیلی بیان میں پائے جانے والے)‏ ”‏حرامکاری کے سوا“‏ الفاظ کے ذریعے، یسوؔع نے ظاہر کیا کہ شادی کے بندھن کو معمولی خیال نہیں کیا جانا یا آسانی سے توڑا نہیں جانا چاہئے۔ ربّیوں کی عام تعلیم نے بیوی کے کھانا خراب کر دینے یا ایک اجنبی سے بات کرنے جیسی چھوٹی بنیادوں پر طلاق کی اجازت دے رکھی تھی۔ اگر ایک شوہر کو ایسی عورت مل جاتی جو اسے اور زیادہ جاذبِ‌نظر لگتی تو ایسی صورت میں بھی طلاق کی اجازت پائی جاتی تھی!‏ ایک بائبل اسکالر نے نوٹ کیا:‏ ”‏جب یسوؔع نے کلام کِیا تو وہ .‏ .‏ .‏ شادی کو اس کے مقام پر بحال کرنے کی جستجو کے ذریعے عورتوں کی حمایت کر رہا تھا۔“‏ واقعی، شادی کو ایک دائمی بندھن ہونا تھا جس میں عورت تحفظ محسوس کر سکے۔—‏مرقس ۱۰:‏۶-‏۹‏۔‏

۱۲.‏ ”‏اسکے .‏ .‏ .‏ برخلاف زنا کرتا ہے،“‏ کے الفاظ سے یسوؔع کونسا نظریہ متعارف کرا رہا تھا؟‏

۱۲ دوئم، ”‏اسکے .‏ .‏ .‏ برخلاف زنا کرتا ہے،“‏ کے اظہار سے یسوؔع نے ایک نظریہ متعارف کرایا جو ربّیوں کی عدالت میں تسلیم نہیں کیا جاتا تھا—‏شوہر کا اپنی بیوی کے خلاف زناکاری کا مرتکب ہونے کا خیال۔ دی ایکسپوزیٹرز بائبل کومینٹری وضاحت کرتی ہے:‏ ”‏ربّیوں کی یہودیت میں بے‌وفائی کے ذریعے ایک عورت اپنے شوہر کے خلاف زناکاری کی مرتکب ہو سکتی تھی؛ اور ایک آدمی دوسرے آدمی کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے سے اس کے خلاف زناکاری کا مرتکب ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک آدمی خواہ اُس نے کچھ بھی کیا ہو، اپنی بیوی کے خلاف کبھی بھی زناکاری نہیں کر سکتا تھا۔ یسوؔع نے شوہر کو اسی اخلاقی فرض کے تحت لانے سے جس کے تحت بیوی تھی عورت کا مرتبہ اور وقار بلند کیا۔“‏

۱۳.‏ طلاق کے سلسلے میں، یسوؔع نے کس طرح ظاہر کیا کہ مسیحی نظام کے تحت آدمیوں اور عورتوں دونوں کے لئے ایک ہی معیار ہوگا؟‏

۱۳ سوئم، ”‏اپنے شوہر کو چھوڑ دے،“‏ کے جزوِجملہ سے یسوؔع نے ایک بے‌وفا شوہر کو طلاق دینے کے عورت کے حق کو تسلیم کیا—‏ایک دستور جس سے بظاہر واقفیت تو تھی مگر اس دور میں یہ یہودی شریعت کے تحت عام نہ تھا۔‏c یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”‏ایک عورت کو اس کی مرضی یا اس کی مرضی کے بغیر طلاق دی جا سکتی تھی لیکن شوہر کو صرف اسکی مرضی پر۔“‏ تاہم، یسوؔع کے مطابق، مسیحی نظام کے تحت اس معیار کا اطلاق آدمیوں اور عورتوں دونوں پر ہوگا۔‏

۱۴.‏ اپنی تعلیم سے یسوؔع نے کیا ظاہر کیا؟‏

۱۴ یسوؔع کی تعلیمات نے واضح طور پر عورتوں کی فلاح کیلئے گہری فکر کو آشکارا کیا۔ اسلئے اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں کہ کیوں بعض عورتوں نے یسوؔع کی ایسی محبت کو محسوس کیا کہ انہوں نے اپنے مال سے اس کی ضروریات کو پورا کیا۔ (‏لوقا ۸:‏۱-‏۳‏)‏ ”‏میری تعلیم میری نہیں،“‏ یسوؔع نے کہا، ”‏بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔“‏ (‏یوحنا ۷:‏۱۶‏)‏ جو کچھ یسوؔع نے سکھایا اس سے اس نے عورتوں کیلئے یہوؔواہ کے ذاتی پاس‌ولحاظ کو منعکس کِیا۔‏

‏”‏اسکی عزت کرو“‏

۱۵.‏ جس طریقے سے شوہروں کو اپنی بیویوں سے پیش آنا چاہئے پطرؔس رسول نے اسکی بابت کیا لکھا؟‏

۱۵ پطرؔس رسول نے عورتوں کیساتھ یسوؔع کے طرزِعمل کو براہِ‌راست دیکھا۔ کوئی ۳۰ سال بعد، پطرؔس نے بیویوں کو محبت‌آمیز نصیحت کی اور پھر لکھا:‏ ”‏اے شوہرو!‏ تم بھی بیویوں کیساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُسکی عزت کرو اور یوں سمجھو کہ ہم دونوں زندگی کی نعمت کے وارث ہیں تاکہ تمہاری دعائیں رک نہ جائیں۔“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۷‏)‏ پطرؔس کا ان الفاظ سے کیا مطلب تھا کہ ”‏اُسکی عزت کرو“‏؟‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ جس یونانی اسم کا ترجمہ ”‏عزت“‏ کیا گیا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ (‏ب)‏ تبدیلئ‌ہیئت کے دوران یہوؔواہ نے یسوؔع کی کیسے عزت کی، اور ہم اس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۶ ایک لغت‌نویس کے مطابق، جس یونانی اسم کا ترجمہ ”‏عزت“‏ (‏دِیمے)‏ کیا گیا ہے اس کا مطلب ”‏قیمت، قدر، اعزاز، احترام“‏ ہے۔ اس یونانی لفظ کی اصطلا‌حوں کا ترجمہ ”‏تحائف“‏ اور ”‏قیمتی“‏ کیا گیا ہے۔ (‏اعمال ۲۸:‏۱۰‏، این‌ڈبلیو؛ ۱-‏پطرس ۲:‏۷‏)‏ اگر ہم ۲-‏پطرس ۱:‏۱۷ میں پطرؔس کے اسی لفظ کی قِسم کے استعمال کا جائزہ لیں تو کسی کی عزت کرنے کا جو مطلب ہوتا ہے اس پر ہم بصیرت حاصل کرتے ہیں۔ وہاں اس نے یسوؔع کی تبدیلئ‌ہیئت کے حوالے سے بات کی:‏ ”‏اس نے خدا باپ سے اس وقت عزت اور جلال پایا جب اس افضل جلال میں سے اسے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔“‏ یسوؔع کی تبدیلئ‌ہیئت پر، یہوؔواہ نے یسوؔع کی بابت اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے سے اپنے بیٹے کی عزت کی، اور خدا نے دوسروں کے سنتے ہوئے ایسا کیا۔ (‏متی ۱۷:‏۱-‏۵‏)‏ تو پھر، وہ آدمی جو اپنی بیوی کی عزت کرتا ہے اسے ذلیل یا نیچا نہیں دکھاتا۔ اس کے برعکس، وہ اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے—‏خلوت اور جلوت میں—‏مظاہرہ کرتا ہے کہ وہ اس کی توقیر کرتا ہے۔—‏امثال ۳۱:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏مسیحی بیوی کی عزت کیوں واجب ہے؟ (‏ب)‏ کسی آدمی کو کیوں محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ عورت کی نسبت خدا کی نظروں میں اس کی قدروقیمت زیادہ ہے؟‏

۱۷ پطرؔس کہتا ہے، مسیحی شوہروں کو اپنی بیویوں کی ایسی عزت ’‏کرنی‘‏ چاہئے۔ اسے کرم‌فرمائی کے طور پر نہیں بلکہ اپنی بیویوں کے واجب حق کے طور پر دیا جانا ہے۔ بیویاں ایسی عزت کی حقدار کیوں ہیں؟ پطرؔس وضاحت کرتا ہے کیونکہ ”‏[‏تم]‏ دونوں زندگی کی نعمت کے وارث [‏ہو]‏۔“‏ پہلی صدی س.‏ع.‏ میں وہ آدمی اور عورتیں جنہوں نے پطرؔس کے خط کو حاصل کیا وہ تمام مسیح کے ساتھ ہم‌میراث ہونے کے لئے بلا‌ئے گئے تھے۔ (‏رومیوں ۸:‏۱۶، ۱۷؛‏ گلتیوں ۳:‏۲۸‏)‏ ان کے پاس کلیسیا میں یکساں ذمہ‌داریاں نہ تھیں، لیکن وہ آسمان میں مسیح کے ساتھ بالآخر حکمرانی کرنے میں شریک ہونگی۔ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۶‏)‏ آجکل، بھی جب خدا کے لوگ زیادہ‌تر زمینی اُمید رکھتے ہیں تو ایسا محسوس کرنا ایک مسیحی کے لئے سنگین غلطی ہوگی کہ کلیسیا میں استحقاقات رکھنے کی وجہ سے، وہ عورتوں کی نسبت خدا کی نظروں میں زیادہ قدروقیمت رکھتا ہے۔ (‏مقابلہ کریں لوقا ۱۷:‏۱۰‏۔)‏ خدا کے حضور آدمی اور عورتیں مساوی روحانی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ یسوؔع کی قربانی والی موت نے آدمی اور عورتوں دونوں کے لئے یکساں موقع کھولا—‏جو کہ ابدی زندگی کے پیشِ‌نظرگناہ اور موت کی سزا سے چھڑایا جانا ہے۔—‏رومیوں ۶:‏۲۳‏۔‏

۱۸.‏ ایک مسیحی شوہر کو اپنی بیوی کی عزت کرنے کے لئے پطرؔس کونسی زبردست وجہ دیتا ہے؟‏

۱۸ ۱-‏پطرس ایک زبردست وجہ فراہم کرتا ہے کہ کیوں شوہر کو اپنی بیوی کی عزت کرنی چاہئے، ”‏تاکہ [‏اسکی]‏ دُعائیں رُک نہ جائیں۔“‏ یہ اظہار ”‏رُک .‏ .‏ .‏ جائیں“‏ یونانی فعل (‏اینکوپتو)‏ سے مشتق ہے جس کا لفظی مطلب ”‏قطع کر لینا“‏ ہے۔ وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف نیو ٹسٹامنٹ ورڈز کے مطابق، یہ ”‏سڑک کو تباہ کرنے یا عین راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے راہ میں روکنے والے اشخاص کے متعلق استعمال ہوتا تھا۔“‏ لہٰذا، وہ شوہر جو اپنی بیوی کو عزت دینے میں قاصر رہتا ہے یہ دریافت کر سکتا ہے کہ اس کی دعاؤں اور خدا کی طرف سے شنوائی میں رکاوٹ ہے۔ وہ آدمی خدا تک رسائی کرنے کے نااہل محسوس کر سکتا ہے، یا ہو سکتا ہے کہ یہوؔواہ سننے کی طرف مائل ہی نہ ہو۔ واضح طور پر، جس طریقے سے آدمی عورتوں سے پیش آتے ہیں یہوؔواہ اس کی بابت نہایت فکرمند ہے۔—‏مقابلہ کریں نوحہ ۳:‏۴۴‏۔‏

۱۹.‏ کلیسیا میں آدمی اور عورتیں باہمی احترام کیساتھ کسطرح اکٹھے خدمت کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ عزت کرنے کا فرض صرف شوہروں پر ہی عائد نہیں ہوتا۔ جبکہ شوہر کو اپنی بیوی سے محبت اور وقار کے ساتھ پیش آنے سے اسکی عزت کرنی چاہئے، ایک بیوی کو اطاعت‌شعاری اور گہرا احترام دکھانے سے اپنے شوہر کی عزت کرنی چاہئے۔ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱-‏۶‏)‏ تاہم، پولسؔ مسیحیوں کو ’‏ایک دوسرے کی عزت کرنے‘‏ کی فہمائش کرتا ہے۔ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۰‏)‏ یہ باہمی احترام کے ساتھ اکٹھے خدمت کرنے کی خاطر کلیسیا کے مردوں اور عورتوں کے لئے تقاضا ہے۔ جب ایسا جذبہ عام ہوتا ہے تو مسیحی عورتیں اس انداز سے بات نہیں کریں گی جو پیشوائی کرنے والوں کے اختیار کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، وہ بزرگوں کی حمایت کریں گی اور ان کے ساتھ تعاون کرینگی۔ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۳۴، ۳۵؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۱۷‏)‏ جہاں تک مسیحی نگہبانوں کا تعلق ہے تو وہ ”‏بڑی عمر والی عورتوں کو ماں جانکر اور جوان عورتوں کو کمال پاکیزگی سے بہن جانکر“‏ ان سے پیش آئیں گے۔ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۱، ۲‏)‏ دانشمندی کے ساتھ، بزرگ اپنی مسیحی بہنوں کی بات پر بامروت ہوکر دھیان دیں گے۔ لہٰذا، جب ایک بہن تھیوکریٹک سربراہی کے لئے اپنا احترام دکھاتی اور احتراماً سوال پوچھتی ہے یا پھر کسی بات کی نشاندہی کرتی ہے جو توجہ کا تقاضا کرتی ہے تو بزرگ بخوشی اس کے سوال یا مسئلے پر غوروفکر کریں گے۔‏

۲۰.‏ صحیفائی ریکارڈ کے مطابق، عورتوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟‏

۲۰ عدؔن میں گناہ کی ابتدا سے لیکر، بہتیری تہذیبوں میں عورتیں رسوائی کے درجہ تک گِر گئی ہیں۔ لیکن یہوؔواہ نے ان کے لئے اس قِسم کے سلوک کا تجربہ کرنے کا ابتدا میں ارادہ نہیں کیا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عورتوں کے سلسلے میں کونسے ثقافتی نظریات عام ہیں، عبرانی اور مسیحی یونانی صحائف دونوں کا ریکارڈ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ خداپرست عورتوں کے ساتھ عزت‌واحترام سے پیش آنا چاہئے۔ یہ انکا خداداد حق ہے۔ (‏۱۵ ۷/۱۵ w۹۵)‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

a دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا وضاحت کرتا ہے:‏ ”‏عورتیں مرد مہمانوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتی تھیں، اور عورتوں کے ساتھ بات‌چیت کرنے سے آدمیوں کی حوصلہ‌شکنی کی جاتی تھی۔ .‏ .‏ .‏ عوامی جگہ پر ایک عورت کیساتھ گفتگو کرنا خاص طور پر شرمناک تھا۔“‏ یہودی مشنہ، ربّیوں کی تعلیمات کا مجموعہ، تجویز پیش کرتی ہے:‏ ”‏صنف‌نازک کیساتھ زیادہ بات‌چیت مت کرو۔ .‏ .‏ .‏ وہ جو صنف‌نازک کیساتھ زیادہ بات کرتا ہے اپنے اوپر بلا لاتا اور شریعت کے مطالعہ سے غفلت برتتا ہے اور آخرکار گیہینّا کا وارث ہوگا۔“‏—‏ایبوتھ ۱:‏۵۔‏

b کتاب مسیح کے زمانہ میں فلسطین (‏انگریزی)‏ بیان کرتی ہے:‏ ”‏بعض معاملات میں تو عورت کا درجہ تقریباً غلام کے برابر ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر، اپنے شوہر کی موت کی تصدیق کرنے کے سوا وہ عدالت میں گواہی نہیں دے سکتی تھی۔“‏ احبار ۵:‏۱ کا حوالہ دیتے ہوئے دی مشنہ واضح کرتی ہے:‏ ”‏’‏ایک حلفیہ شہادت‘‏ [‏کے متعلق شریعت]‏ کا اطلاق مردوں پر ہوتا ہے لیکن عورتوں پر نہیں۔“‏—‏شیباؤتھ ۴:‏۱۔‏

c پہلی صدی کا یہودی مؤرخ جوؔزیفس رپورٹ دیتا ہے کہ ہیرؔودیس بادشاہ کی بہن سلوؔمی نے اپنے شوہر کو ”‏اپنی شادی ختم کرنے کی دستاویز“‏ بھیجی، ”‏جو یہودی شرع کی مطابقت میں نہ تھی۔ کیونکہ (‏صرف)‏ آدمی ہی کو ہماری طرف سے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔“‏—‏جیوئش اینٹی‌کیوٹیز ۲۵۹ ،xv [‏۱۰ ،vii]‏۔‏

آپ کا جواب کیا ہے؟‏

▫ کونسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ یسوؔع عورتوں کے ساتھ عزت‌واحترام کے ساتھ پیش آیا؟‏

▫ یسوؔع کی تعلیمات نے عورتوں کے وقار کے لئے احترام کس طرح ظاہر کیا؟‏

▫ ایک شوہر کو اپنی مسیحی بیوی کی عزت کیوں کرنی چاہئے؟‏

▫ تمام مسیحی عزت دکھانے کی کونسی ذمہ‌داری رکھتے ہیں؟‏

‏[‏تصویر]‏

ان کے لئے خوشی کی بات کہ وہ خداپرست عورتیں ہی تھیں جنہوں‌نے قیامت‌یافتہ یسوؔع کو سب سے پہلے دیکھا جس نے اپنے بھائیوں کو ان سے گواہی دلوائی

    اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
    لاگ آؤٹ
    لاگ اِن
    • اُردو
    • شیئر کریں
    • ترجیحات
    • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
    • اِستعمال کی شرائط
    • رازداری کی پالیسی
    • رازداری کی سیٹنگز
    • JW.ORG
    • لاگ اِن
    شیئر کریں