ہمت نہ ہاریں!
”ہم نیک کام کر نے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹینگے۔“—گلتیوں ۶:۹۔
۱، ۲. (ا) کن طریقوں سے ایک شیرببر شکار کرتا ہے؟ (ب) اِبلیس بالخصوص کسے شکار کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے؟
ایک شیرببر مختلف طریقوں سے شکار کرتا ہے۔ بعضاوقات تو یہ پانی کے گڑھوں یا عام استعمال ہونے والے راستوں پر اپنے شکار کی گھات میں بیٹھے گا۔ لیکن بعضاوقات، کتاب پورٹریٹس اِن دی وائلڈ کہتی ہے، ایک شیرببر ”مثال کے طور پر ایک بیانے والی خوابیدہ مادہ زیبرا پر حملہآور ہوتے ہوئے—محض ایک حالت سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔“
۲ ہمارا ”مخالف اِبلیس“ پطرؔس رسول بیان کرتا ہے، ”گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔“ (۱-پطرس ۵:۸) یہ جانتے ہوئے کہ اُس کا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے، شیطان انسانوں کو یہوؔواہ کی خدمت کرنے سے روکنے کیلئے اُن پر ہمیشہ کی طرح کہیں زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ تاہم، ”یہ گرجنے والا شیرببر“ خاص طور پر یہوؔواہ کے خادموں کو شکار کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۱۲، ۱۷) اُس کے شکار کرنے کے طریقے حیوانی سلطنت میں اُسکے ہمزاد جیسے ہیں۔
۳، ۴. (ا) یہوؔواہ کے خادموں کو شکار کرنے میں شیطان کونسے طریقے استعمال کرتا ہے؟ (ب) چونکہ یہ ”تشویشناک ایّام ہیں جن سے نپٹنا مشکل ہے،“ اسلئے کونسے سوالات اُٹھائے جاتے ہیں؟
۳ بعضاوقات شیطان ہماری راستی کو توڑنے کی غرض سے—اذیت یا مخالفت کے ذریعے وار کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ہم یہوؔواہ کی خدمت کرنا بند کر دیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲) لیکن، دیگر اوقات پر شیرببر کی مانند، اِبلیس محض ایک حالت سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ وہ اُس وقت تک انتظار کرتا ہے جب تک ہم بےحوصلہ نہیں ہو جاتے یا تھک نہیں جاتے، اور پھر وہ ہمیں ہمت ہارنے پر مجبور کرنے کیلئے ہماری کمزور جذباتی حالت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں اُس کا آسانی سے شکار نہیں بننا چاہئے!
۴ تاہم، ہم تمام انسانی تاریخ کے انتہائی مشکل دَور میں رہ رہے ہیں۔ ان ”تشویشناک ایّام میں جن سے نپٹنا مشکل ہے،“ ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے بہتیرے بعضاوقات بےحوصلہ یا تھکا ہوا محسوس کریں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱، اینڈبلیو) توپھر، ہم اسقدر تھک جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں مبادا کہ ہم اِبلیس کا آسانی سے شکار بن جائیں؟ جیہاں، ہم پولسؔ رسول کی الہامی مشورت پر کیسے دھیان دے سکتے ہیں: ”ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹیں گے“؟—گلتیوں ۶:۹۔
جب دوسرے ہمیں مایوس کرتے ہیں
۵. کونسی چیز داؔؤد کو تھکا دینے کا باعث بنی لیکن اُس نے کیا نہیں کِیا تھا؟
۵ بائبل وقتوں میں، یہوؔواہ کے نہایت وفادار خادموں نے بھی ہو سکتا ہے کہ دباؤ محسوس کِیا ہو۔ ”مَیں کراہتے کراہتے تھک گیا ہوں،“ زبورنویس داؔؤد نے لکھا۔ ”مَیں اپنا پلنگ آنسوؤں سے بھگوتا ہوں۔ ہر رات میرا بستر تیرتا ہے۔ میری آنکھ غم کے مارے بیٹھی جاتی ہے۔“ داؔؤد نے کیوں ایسا محسوس کِیا؟ ”میرے سب مخالفوں کے سبب سے دھندلانے لگی،“ وہ وضاحت کرتا ہے۔ دوسروں کے تکلیفدہ کاموں نے داؔؤد کے دل کو اسقدر دُکھ پہنچایا کہ اُس کے بہت زیادہ آنسو بہنے لگے۔ ساتھی انسانوں نے جوکچھ اُس کے ساتھ کِیا تھا، اسکے باوجود، داؔؤد نے یہوؔواہ سے مُنہ نہ موڑا۔—زبور ۶:۶-۹۔
۶. (ا) ہم دوسروں کے الفاظ اور افعال سے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟ (ب) بعض خود کو اِبلیس کیلئے آسانی سے شکار ہو جانے والا کیسے بناتے ہیں؟
۶ اسی طرح، ہو سکتا ہے کہ دوسروں کے الفاظ یا افعال ہمارے لئے گہرے دلی رنج کے ساتھ تھک جانے کا باعث بنیں۔ ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں،“ امثال ۱۲:۱۸ کہتی ہے۔ جب بےتامل بولنے والا ایک مسیحی بھائی یا بہن ہے تو ’زخم‘ زیادہ گہرا ہو سکتا ہے۔ شاید آزردگی کو دل میں رکھتے ہوئے، ہو سکتا ہے کہ انسانی میلان ناراض ہونے کا ہو۔ یہ خاص طور پر اُس وقت سچ ہوتا ہے جب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ غیرمشفقانہ یا غیرمنصفانہ برتاؤ کِیا گیا ہے۔ شاید ہم دُکھ پہنچانے والے کیساتھ باتچیت کرنا مشکل پائیں؛ ہو سکتا ہے کہ ہم جانبوجھ کر اُس مرد یا عورت سے کنارہکشی کریں۔ آزردگی کے دباؤ میں آکر، بعض بےحوصلہ ہو گئے ہیں اور مسیحی اجلاسوں پر آنا بند کر دیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ اسطرح ”اِبلیس کو موقع“ دیتے ہیں کہ آسان شکار کے طور پر اُن سے فائدہ اُٹھائے۔—افسیوں ۴:۲۷۔
۷. (ا) جب دوسرے ہمیں مایوس کرتے یا دُکھ پہنچاتے ہیں تو ہم اِبلیس کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ (ب) ہمیں آزردگی کو کیوں ختم کر دینا چاہئے؟
۷ جب دوسرے ہمیں مایوس کرتے یا دُکھ پہنچاتے ہیں تو ہم اِبلیس کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ آزردگی کو دِل میں نہ رکھیں۔ اسکی بجائے، جتنی جلدی ممکن ہو صلح کرنے یا معاملات کو سلجھانے میں پہل کریں۔ (افسیوں ۴:۲۶) کلسیوں ۳:۱۳ ہمیں تاکید کرتی ہے: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے . . . کے قصور معاف کرے۔“ معافی بالخصوص اُس وقت موزوں ہوتی ہے جب وہ شخص جس نے تکلیف پہنچائی ہے اپنی غلطی کو تسلیم کرتا اور حقیقی طور پر پشیمان ہوتا ہے۔ (مقابلہ کریں زبور ۳۲:۳-۵ اور امثال ۲۸:۱۳۔) اگرچہ، یہ ہماری مدد کرتا ہے اگر ہم اس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ معاف کرنے کا مطلب اُن غلطیوں کو کم کرنا یا نظرانداز کرنا نہیں جو دوسروں سے سرزد ہوئی ہیں۔ معاف کرنے میں آزردگی کو ختم کرنا شامل ہے۔ آزردہخاطر رہنا ایک بھاری بوجھ ہے۔ ہماری خوشی کو چھینتے ہوئے، یہ ہمارے خیالات کو آلودہ کر سکتی ہے۔ یہ ہماری صحت پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس، معافی، جہاں موزوں ہو، ہمارے اپنے فائدے کیلئے کام کرتی ہے۔ دُعا ہے کہ داؔؤد کی طرح ہم، کبھی بھی بےدل نہ ہوں اور انسانوں نے جوکچھ ہمیں کہا یا ہمارے ساتھ کِیا ہے اُس کی وجہ سے یہوؔواہ سے دُور نہ ہو جائیں!
جب ہم غلطی کرتے ہیں
۸. (ا) کبھیکبھار کیوں بعض لوگ خاص طور پر خطاوار محسوس کرتے ہیں؟ (ب) احساسِجُرم میں اسقدر پھنس جانا کہ ہم اپنے آپ سے ہمت ہار جائیں اس میں کونسا خطرہ ہے؟
۸ ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں،“ یعقوب ۳:۲ کہتی ہے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو خطاوار محسوس کرنا محض فطرتی امر ہے۔ (زبور ۳۸:۳-۸) خطا کے احساسات خاص طور پر اُس وقت زیادہ ہو سکتے ہیں جب ہم جسم کی کمزوری کے خلاف نبردآزما ہیں اور وقتاًفوقتاً رُکاوٹوں کا تجربہ کرتے ہیں۔a ایک مسیحی بہن جس نے ایسی جدوجہد کا سامنا کِیا بیان کرتی ہے: ”اس بات سے ناواقف کہ آیا مَیں ناقابلِمعافی گناہ کی مُرتکب ہوں یا نہیں، مَیں زندہ رہنا نہیں چاہتی تھی۔ مَیں نے محسوس کِیا کہ مَیں یہوؔواہ کی خدمت میں بھی جانفشانی نہیں کر سکتی کیونکہ غالباً اب میرے لئے بہت دیر ہو چکی ہے۔“ جب ہم خطا سے اسقدر مغلوب ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے سلسلے میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں تو ہم اِبلیس کو موقع دیتے ہیں—اور شاید وہ فوراً اس سے فائدہ اُٹھائے! (۲-کرنتھیوں ۲:۵-۷، ۱۱) جس چیز کی ضرورت ہے وہ شاید خطا کے سلسلے میں زیادہ متوازن نظریہ ہے۔
۹. ہمیں خدا کے رحم پر بھروسہ کیوں رکھنا چاہئے؟
۹ جب ہم گناہ کرتے ہیں تو کسی حد تک احساسِخطا موزوں ہے۔ تاہم، بعضاوقات، خطا کے احساسات باقی رہتے ہیں کیونکہ ایک مسیحی محسوس کرتا ہے کہ وہ کبھی بھی خدا کے رحم کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ تاہم، بائبل پُرتپاک طور پر ہمیں یقیندہانی کراتی ہے: ”اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔“ (۱-یوحنا ۱:۹) کیا یہ یقین رکھنے کی کوئی قابلِاعتماد وجہ ہے کہ خدا ہمارے معاملہ میں ایسا نہیں کریگا؟ یاد رکھیں، اپنے کلام میں، یہوؔواہ فرماتا ہے کہ وہ ”معاف کرنے کو تیار“ ہے۔ (زبور ۸۶:۵؛ ۱۳۰:۳، ۴) چونکہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا، جیسے اُس کا کلام وعدہ کرتا ہے وہ کریگا، بشرطیکہ ہم تائب دل کیساتھ اُس کی حضوری میں آئیں۔—ططس ۱:۲۔
۱۰. ایک اوائلی مینارِنگہبانی نے جسم کی کمزوری کے خلاف نبردآزما ہونے کی بابت کونسی پُرجوش یقیندہانی شائع کی تھی؟
۱۰ اگر آپ ایک کمزوری کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اُس میں دوبارہ مبتلا ہو جاتے ہیں تو آپکو کیا کرنا چاہئے؟ ہمت نہ ہاریں! اُس میں دوبارہ مبتلا ہو جانا ضروری طور پر اُس ترقی کو ختم نہیں کر دیتا جو آپ پہلے سے کر چکے ہیں۔ اس جریدے کے فروری ۱۵، ۱۹۵۴ کے (انگریزی) شمارے نے یہ پُرجوش یقیندہانی پیش کی: ”[ہو سکتا ہے] کہ کسی بُری عادت کی وجہ سے جوکہ ہماری گزشتہ طرزِزندگی میں اتنی بُری حد تک سرایت کر گئی ہے کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ہم نے بارہا خود کو ٹھوکر کھاتے اور ناکام ہوتے دیکھا ہو۔ . . . مایوس نہ ہوں۔ یہ نتیجہ اخذ نہ کریں کہ آپ نے ناقابلِمعافی گناہ کِیا ہے۔ یہی تو شیطان چاہیگا کہ آپ اس طرح سے سوچنے لگیں۔ یہ حقیقت کہ آپ اپنے طور پر رنجیدہ اور پریشان محسوس کرتے ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ بہت آگے نہیں نکل گئے ہیں۔ اُسکی طرف سے معافی اور گناہوں سے پاک ہونے اور مدد حاصل کرنے کی جستجو میں فروتنی اور اشتیاق کیساتھ خدا کی طرف رجوع کرنے میں کبھی نہ تھکیں۔ اُس کے پاس اُسی طرح جائیں جیسے مشکل کے وقت ایک بچہ اپنے باپ کے پاس جاتا ہے، قطعنظر اس سے کہ کتنی ہی بار اُسی کمزوری کی وجہ سے، اور یہوؔواہ اپنے غیرمستحق فضل کی وجہ سے رحمانہ طور پر آپکی مدد کریگا اور اگر آپ مخلص ہیں تو وہ آپ کو پاک ضمیر کا احساس عطا کریگا۔“
جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم کافی نہیں کر رہے
۱۱. (ا) بادشاہتی منادی کے کام میں حصہ لینے کی بابت ہمیں کیسا محسوس کرنا چاہئے؟ (ب) بعض مسیحی خدمتگزاری میں شرکت کرنے کی بابت کن احساسات کیساتھ جدوجہد کرتے ہیں؟
۱۱ ایک مسیحی کی زندگی میں بادشاہتی منادی کا کام ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس میں حصہ لینا خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ (زبور ۴۰:۸) تاہم، بعض مسیحی خدمتگزاری میں زیادہ کام کرنے کے قابل نہ ہونے کی بابت خطاوار محسوس کرتے ہیں۔ ایسی خطا بھی ہماری خوشی کو چھین سکتی ہے اور ہمارے ہمت ہارنے کا باعث بن سکتی ہے، یہ تصور کرتے ہوئے کہ یہوؔواہ محسوس کرتا ہے کہ ہم کبھی بھی کافی کام نہیں کرتے۔ ذرا اُن احساسات پر غور کریں جنکے ساتھ بعض نبردآزما ہوتے ہیں۔
”کیا آپ جانتے ہیں کہ غربت کتنا وقت ضائع کر نے والی ہے؟“ ایک مسیحی بہن نے لکھا جو اپنے شوہر کے ساتھ تین بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ ”جہاں سے بھی مَیں بچا سکتی ہوں مجھے بچانا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے استعمالشُدہ اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں، کلیرنس سیلز میں تلاش کرنے یا کپڑے سینے میں وقت صرف کرنا۔ مَیں ہر ہفتے ایک یا دو گھنٹے [ڈسکاونٹ فوڈ] کوپنز—کاٹ کر نکالنے، اُنہیں پُر کر نے اور پھر اُن سے خریداری کرنے میں صرف کرتی ہوں۔ بعضاوقات مَیں یہ سب کچھ کر تے ہوئے بڑی خطاوار محسوس کرتی ہوں، یہ سوچتے ہوئے کہ مجھے یہ وقت میدانی خدمت میں صرف کرنا چاہئے تھا۔“
”مَیں نے سوچا کہ شاید مَیں یہوؔواہ سے کافی محبت نہیں رکھتی،“ چار بچوں اور ایک بےایمان شوہر والی ایک بہن نے بتایا۔ ”پس مَیں نے یہوؔواہ کیلئے اپنی خدمت میں جدوجہد شروع کر دی۔ مَیں نے واقعی سخت محنت کی لیکن مَیں کبھی بھی یہ محسوس نہیں کرتی تھی کہ یہ کافی تھا۔ آپ دیکھیں دراصل میرے اندر عزتِنفس کا احساس نہیں تھا اسلئے مَیں سوچ نہیں سکتی تھی کہ کیسے یہوؔواہ اُس کیلئے میری خدمت کو کبھی قبول کر سکتا ہے۔“
ایک مسیحی بہن نے جس نے کُلوقتی خدمت کو ترک کرنا ضروری محسوس کِیا یوں کہا: ”مَیں اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ مَیں کُل وقت کیلئے یہوؔواہ کی خدمت کر نے کے اپنے عہد میں ناکام ہو رہی تھی۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ مَیں کتنی مایوس تھی! اسکی بابت سوچ کر مَیں اب بھی رونے لگتی ہوں۔“
۱۲. بعض مسیحی خدمتگزاری میں زیادہ کام کرنے کے قابل نہ ہونے کی بابت کیوں اتنا قصوروار محسوس کرتے ہیں؟
۱۲ جس قدر ممکن ہو اُس حد تک یہوؔواہ کی خدمت کرنے کی خواہش رکھنا محض ایک فطری عمل ہے۔ (زبور ۸۶:۱۲) تاہم، بعض اس کی بابت قصوروار محسوس کیوں کرتے ہیں کہ وہ زیادہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں؟ بعض کے سلسلے میں، یہ شاید زندگی میں ناخوشگوار تجربات کے باعث ناکارہ ہونے کے عام احساس کیساتھ وابستہ دکھائی دیتا ہے۔ دیگر معاملات میں، ہو سکتا ہے کہ نامناسب احساسِجُرم جوکچھ یہوؔواہ ہم سے توقع کرتا ہے اُسکی بابت غیرحقیقتپسندانہ نظریہ رکھنے کے نتیجے میں ہو۔ ”مَیں محسوس کرتی تھی کہ جب تک آپ تھک نہیں جاتے، آپ کافی نہیں کر رہے ہوتے،“ ایک مسیحی بہن اعتراف کرتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، اُس نے اپنے لئے انتہائی بلند معیار قائم کر لئے—اور جب وہ اُن پر پورا اُترنے میں ناکام ہو گئی تو وہ اَور زیادہ احساسِجُرم کا شکار ہو گئی۔
۱۳. یہوؔواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟
۱۳ یہوؔواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟ سادہ الفاظ میں، یہوؔواہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ جس حد تک ہمارے حالات اجازت دیتے ہیں، ہم پورے دلوجان سے اُسکی خدمت کریں۔ (کلسیوں ۳:۲۳) تاہم، ہو سکتا ہے کہ جوکچھ ہم کرنا پسند کرینگے اور جوکچھ ہم حقیقتپسندانہ طور پر کر سکتے ہیں اس میں بہت زیادہ فرق ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ہم عمر، صحت، جسمانی قوتِبرداشت، یا خاندانی ذمہداریوں جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہوں۔ تاہم، جب ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں تو یقین کر لیں کہ یہوؔواہ کیلئے ہماری خدمت دلوجان سے ہے—کسی دوسرے شخص کی پورے دلوجان سے نہ زیادہ ہے نہ کم ہے جسکی صحت اور حالات اُسے کُلوقتی خدمتگزاری میں جانے کی اجازت دیتے ہیں۔—متی ۱۳:۱۸-۲۳۔
۱۴. اگر آپ کو اس بات کا تعیّن کرنے میں مدد کی ضرورت ہے کہ آپ اپنی ذات سے حقیقتپسندانہ طور پر کیا توقع رکھ سکتے ہیں تو آپ اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؟
۱۴ توپھر، آپ اپنی ذات سے حقیقتپسندانہ طور پر جو توقع رکھ سکتے ہیں اُسکا تعیّن آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ آپ اس معاملے پر ایک قابلِبھروسہ، پُختہ مسیحی دوست، شاید ایک بزرگ یا ایک تجربہکار بہن کیساتھ باتچیت کرنا چاہیں، جو آپکی صلاحیتوں، آپکی حدبندیوں اور آپکی خاندانی ذمہداریوں کی بابت جانتی ہے۔ (امثال ۱۵:۲۲) یاد رکھیں کہ خدا کی نظر میں بطور ایک شخص آپ کی اہمیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ آپ میدانی خدمتگزاری میں کسقدر کرتے ہیں۔ یہوؔواہ کے تمام خادم اُس کیلئے گرانقدر ہیں۔ (حجی ۲:۷؛ ملاکی ۳:۱۶، ۱۷) جو آپ منادی کے کام میں کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ جو کچھ دوسرے کرتے ہیں اُسکی نسبت کم یا زیادہ ہو لیکن جبتک یہ آپکی طرف سے بہترین کی نمائندگی کرتا ہے ، یہوؔواہ خوش ہے، اور اسلئے آپکو خطاوار محسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔—گلتیوں ۶:۴۔
جب ہم سے زیادہ طلب کِیا جاتا ہے
۱۵. کن طریقوں سے کلیسیا کے بزرگوں سے زیادہ طلب کِیا جاتا ہے؟
۱۵ ”جسے بہت دِیا گیا،“ یسوؔع نے کہا، ”اُس سے بہت طلب کِیا جائیگا۔“ (لوقا ۱۲:۴۸) یقینی طور پر جو کلیسیا کے بزرگوں کے طور پر خدمت انجام دیتے ہیں اُن سے ’زیادہ طلب کِیا جاتا ہے۔‘ پولسؔ کی طرح وہ کلیسیا کی خاطر خود کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۱۵) اُنہیں تقاریر تیار کرنی پڑتی ہیں، گلّہبانی کیلئے ملاقاتیں کرنی پڑتی ہیں، عدالتی معاملات نپٹانے پڑتے ہیں—خود اپنی خاندانی ذمہداریوں کو نظرانداز کئے بغیر یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۴، ۵) بعض بزرگ کنگڈم ہال تعمیر کرنے، ہسپتال رابطہ کمیٹیوں میں کام کرنے اور اسمبلیوں اور کنونشنوں کے لئے رضاکارانہ خدمت انجام دینے میں بھی مصروف ہوتے ہیں۔ یہ محنتی، عقیدتمند اشخاص ایسی بھاری ذمہداریوں کے بوجھ تلے دب جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۱۶. (ا) یترؔو نے موسیٰؔ کو کونسا عملی حل پیش کِیا تھا؟ (ب) کونسی خوبی ایک بزرگ کو دوسروں کو موزوں ذمہداریوں میں شریک کرنے کے قابل بنائے گی؟
۱۶ جب ایک حلیم اور بُردبار شخص موسیٰؔ دوسروں کے مسائل نپٹانے میں خود کو تھکا رہا تھا تو اُسکے خُسر، یترؔو، نے ایک عملی حل پیش کِیا: دیگر لائق اشخاص کیساتھ کچھ ذمہداری بانٹ لو۔ (خروج ۱۸:۱۷-۲۶؛ گنتی ۱۲:۳) ”خاکساروں کیساتھ حکمت ہے،“ امثال ۱۱:۲ بیان کرتی ہے۔ بُردبار ہونے کا مطلب اپنی حدبندیوں کو پہچاننا اور قبول کرنا ہے۔ ایک بُردبار شخص دوسروں کو اختیارات سونپنے سے ہچکچاتا نہیں، نہ ہی اُسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ موزوں ذمہداریوں میں دیگر لائق اشخاص کو شریک کرنے سے وہ کسی حد تک اپنا اختیار کھو بیٹھتا ہے۔b (گنتی ۱۱:۱۶، ۱۷، ۲۶-۲۹) اسکی بجائے، وہ اُنہیں ترقی کرنے میں مدد دینے کا متمنی ہے۔—۱-تیمتھیس ۴:۱۵۔
۱۷. (ا) کلیسیا کے اراکین کس طرح بزرگوں کے بوجھ کو کم کر سکتے ہیں؟ (ب) بزرگوں کی بیویاں کیا قربانیاں دیتی ہیں، اور ہم کیسے اُن پر ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم انہیں معمولی خیال نہیں کرتے؟
۱۷ بزرگوں کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے کلیسیا کے اراکین بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ بزرگوں کو اپنے ذاتی خاندانوں کی بھی نگہداشت کرنی ہے، دوسرے لوگ بزرگوں سے وقت اور توجہ کے سلسلے میں نامعقول تقاضے نہیں کرینگے۔ نہ ہی وہ بزرگوں کی بیویوں کی طرف سے کی جانے والی اُن رضاکارانہ قربانیوں کو معمولی خیال کرینگے جبکہ وہ بےلوث طور پر اپنے شوہروں کو کلیسیا کیساتھ وقت گزارنے دیتی ہیں۔ تین بچوں والی ایک ماں نے جسکا شوہر ایک بزرگ کے طور پر خدمت انجام دیتا ہے بیان کِیا: ”ایک چیز جس کی بابت مَیں کبھی شکایت نہیں کرتی وہ اضافی بوجھ ہے جو مجھے گھر کے اندر اُٹھانا پڑتا ہے تاکہ میرا شوہر ایک بزرگ کے طور پر خدمت کر سکے۔ مَیں جانتی ہوں کہ اُس کے خدمت کرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان پر یہوؔواہ کی بڑی برکت ہے، اور جوکچھ وہ کرتا ہے مَیں اُس پر کڑھتی نہیں۔ تاہم، حقیقتپسندانہ طور پر، اکثر مجھے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں بھی مجھے معمول سے زیادہ کچھ کرنا پڑتا ہے کیونکہ میرا شوہر مصروف ہوتا ہے۔“ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بہن نے محسوس کِیا ہے کہ بعض نے، اُسکے زیادہ بوجھ اُٹھانے کی قدر کرنے کی بجائے، بےحس کلمات ادا کئے ہیں، جیسےکہ ”آپ پائینر خدمت کیوں نہیں کرتیں؟“ (امثال ۱۲:۱۸) یہ کتنا اچھا ہوگا کہ دوسرے جوکچھ کر رہے ہیں اس کیلئے اُنکی تعریف کی جائے بجائے اسکے کہ جوکچھ وہ کرنے کے قابل نہیں ہیں اس کیلئے اُن پر تنقید کی جائے!—امثال ۱۶:۲۴؛ ۲۵:۱۱۔
جس وجہ سے ابھی خاتمہ نہیں آیا
۱۸، ۱۹. (ا) زندگی کی دوڑ میں دوڑ بند کر دینے کا وقت یہ کیوں نہیں ہے؟ (ب) پولسؔ رسول نے یرؔوشلیم کے مسیحیوں کو کونسی بروقت نصیحت کی؟
۱۸ جب ایک دوڑنے والا جانتا ہے کہ وہ ایک لمبی دوڑ کے اختتام پر ہے تو وہ ہمت نہیں ہارتا۔ اُس کا بدن شاید برداشت کی انتہا تک پہنچ گیا ہو—تھک گیا ہو، زیادہ گرم ہو گیا ہو اور پانی کی کمی ہو گئی ہو—لیکن اختتام کے اِتنا قریب پہنچ کر یہ دوڑ بند کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اسی طرح، مسیحیوں کے طور پر ہم زندگی کے انعام کی دوڑ میں ہیں اور ہم آخری حد کے بالکل قریب ہیں۔ اب ہمارے لئے دوڑ بند کرنے کا وقت نہیں ہے!—مقابلہ کریں ۱-کرنتھیوں ۹:۲۴؛ فلپیوں ۲:۱۶؛ ۳:۱۳، ۱۴۔
۱۹ پہلی صدی کے مسیحیوں کو بھی اسی طرح کی حالت کا سامنا تھا۔ تقریباً ۶۱ س.ع. میں، پولسؔ رسول نے یرؔوشلیم کے مسیحیوں کو لکھا۔ وقت ختم ہو رہا تھا—کجرو ”نسل،“ برگشتہ یہودی نظامالعمل کا خاتمہ ”ہونے والا“ تھا۔ خاص طور پر یرؔوشلیم میں رہنے والے مسیحیوں کو ہوشیار اور وفادار رہنے کی ضرورت تھی؛ جب وہ شہر کو فوجوں سے گھیرا ہوا دیکھیں گے تو اُنہیں اس سے بھاگ جانے کی ضرورت ہوگی۔ (لوقا ۲۱:۲۰-۲۴، ۳۲) لہٰذا، پولسؔ کی الہامی نصیحت بروقت تھی: ’تُم بےدل ہو کر ہمت نہ ہارو۔‘ (عبرانیوں ۱۲:۳) پولسؔ نے یہاں دو واضح فعل: ”بےدل“ (کامنو) اور ”ہمت ہارنا“ (ایکلیاومائی) استعمال کئے۔ ایک بائبل مفکر کے مطابق، یہ یونانی الفاظ ”اؔرسطو نے اُن دوڑنے والوں کے سلسلے میں استعمال کئے جو آخری حد پار کرنے کے بعد سستاتے اور نڈھال ہو جاتے ہیں۔ [پولسؔ کے خط] کے قارئین ابھی تک دوڑ میں تھے۔ اُنہیں قبلازوقت چھوڑنا نہیں چاہئے۔ اُنہیں تھکن کی وجہ سے خود کو بےہمت اور نڈھال ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ایک بار پھر مشکل کا سامنا کرتے وقت ثابت قدمی کا تقاضا کِیا گیا ہے۔“
۲۰. پولسؔ کی نصیحت آجکل ہمارے لئے کیوں بروقت ہے؟
۲۰ پولسؔ کی نصیحت آجکل ہمارے لئے کیسی بروقت ہے! بڑھتے ہوئے دباؤں کے مقابلے میں، ایسے اوقات ہو سکتے ہیں جب ہم ایک سخت تھکے ہوئے دوڑنے والے کی مانند محسوس کرتے ہیں جس کی ٹانگیں جواب دینے والی ہیں۔ لیکن منزل کے اتنے قریب پہنچ کر، ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے! (۲-تواریخ ۲۹:۱۱)ہمارا مخالف، ”گرجنے والا شیرببر“ ہم سے یہی کرانا چاہیگا۔ شکر ہے کہ یہوؔواہ نے ایسے انتظامات کئے ہیں جو ”تھکے ہوئے کو زور“ بخشتے ہیں۔ (یسعیاہ ۴۰:۲۹) یہ کیا ہیں اور ہم اُن سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں اس پر اگلے مضمون میں بحث کی جائیگی۔ (۹ ۱۲/۰۱ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a مثال کے طور پر، بعض شاید شخصیت کی ایک گہری پُختہ خصلت، جیسےکہ بہت زیادہ غصہ، یا جلق کے مسئلے پر قابو پانا چاہیں۔—دیکھیں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کے شائعکردہ، مئی ۲۲، ۱۹۸۸، صفحات ۱۹-۲۱؛ نومبر ۸، ۱۹۸۱، صفحات ۱۶-۲۰ کے جاگو! (انگریزی)؛ اور کوسچنز ینگ پیپل آسک—آنسرز دیٹ ورک۔
b دیکھیں اکتوبر ۱۵، ۱۹۹۲، کے مینارِنگہبانی (انگریزی)، کے شمارے کے صفحات ۲۰-۲۳ کے مضمون ”بزرگو—تفویض کرو!“
آپ کا جواب کیا ہے؟
▫ جب دوسرے ہمیں مایوس کرتے یا دُکھ پہنچاتے ہیں تو ہم ہمت ہارنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
▫ خطا کی بابت کونسا متوازن نظریہ ہمیں ہمت ہارنے سے روکے گا؟
▫ یہوؔواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟
▫ کسطرح بُردباری کلیسیا کے بزرگوں کو تھک جانے سے بچنے میں مدد دیگی؟
▫ عبرانیوں ۱۲:۳ میں پولسؔ کی نصیحت آجکل ہمارے لئے کیوں بروقت ہے؟