یہوواہ کے گواہوں کی آن لائن لائبریری
یہوواہ کے گواہوں کی
آن لائن لائبریری
اُردو
  • بائبل
  • مطبوعات
  • اِجلاس
  • مرنے کے بعد اِنسانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‏
    پاک کلام کی تعلیم حاصل کریں
    • باب نمبر 6

      مرنے کے بعد اِنسانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‏

      1-‏3.‏ (‏الف)‏ کسی کی موت پر لوگوں کے ذہن میں کون سے سوال آ سکتے ہیں؟ (‏ب)‏ کچھ مذاہب میں اِن سوالوں کے کیا جواب دیے جاتے ہیں؟‏

      پاک کلام میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ ایک دن آئے گا جب ’‏موت نہیں رہے گی۔‘‏ (‏مکاشفہ 21:‏4‏)‏ باب نمبر 5 میں ہم نے سیکھا کہ یسوع مسیح کے فدیے کی بدولت ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اِنسان ابھی بھی مرتے ہیں۔ (‏واعظ 9:‏5‏)‏ اِس وجہ سے شاید ہمارے ذہن میں یہ سوال آئے کہ ”‏جب اِنسان مر جاتا ہے تو اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟“‏

      2 ہم اِس سوال کا جواب خاص طور پر اُس وقت جاننا چاہتے ہیں جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے۔ شاید ہم سوچیں:‏ ”‏وہ کہاں چلا گیا ہے؟ کیا وہ ہمیں دیکھ رہا ہے؟ کیا وہ ہماری مدد کر سکتا ہے؟ کیا ہم اُس سے پھر کبھی مل پائیں گے؟“‏

      3 فرق فرق مذاہب میں اِن سوالوں کے فرق فرق جواب دیے جاتے ہیں۔ کچھ مذاہب میں سکھایا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اچھے لوگ آسمان پر جاتے ہیں اور بُرے لوگوں کو دوزخ کی آگ میں جلایا جاتا ہے۔ کچھ مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ جب اِنسان مر جاتا ہے تو اُس کی روح اُس میں سے نکل جاتی ہے اور اُس کے خاندان کے اُن افراد کی روحوں کے ساتھ رہنے لگتی ہے جو فوت ہو چُکے ہیں۔ کچھ مذاہب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اِنسان کا حساب کتاب ہوتا ہے اور پھر وہ اِنسان یا جانور کے روپ میں دوبارہ جنم لیتا ہے۔‏

      4.‏ زیادہ‌تر مذاہب میں موت کے بارے میں کون سی بات سکھائی جاتی ہے؟‏

      4 یہ تمام مذاہب موت کے بارے میں فرق فرق تعلیم دیتے ہیں۔ مگر ایک بات ایسی ہے جو اِن سب میں سکھائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اِنسان کے جسم میں کوئی شے ہوتی ہے جو اُس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟‏

      مرنے کے بعد اِنسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‏

      5، 6.‏ مرنے کے بعد اِنسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‏

      5 یہوواہ خدا جانتا ہے کہ جب اِنسان مر جاتا ہے تو اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب ایک شخص مر جاتا ہے تو اُس کا وجود بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ موت اور زندگی ایک دوسرے کے اُلٹ ہیں۔ لہٰذا اِنسان کے مرنے کے بعد اُس کی روح کسی اَور جہان میں زندہ نہیں رہتی اور اُس کی یادداشت اور احساسات ختم ہو جاتے ہیں۔‏a مُردے نہ تو دیکھ سکتے ہیں، نہ سُن سکتے ہیں اور نہ ہی سوچ سکتے ہیں۔‏

      6 سلیمان بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“‏ وہ نہ تو کسی سے محبت کر سکتے ہیں اور نہ ہی نفرت۔ ”‏پاتال [‏”‏قبر،“‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏]‏ میں .‏ .‏ .‏ نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“‏ ‏(‏واعظ 9:‏5، 6،‏ 10 کو پڑھیں۔)‏ زبور 146:‏4 میں لکھا ہے کہ جب ایک شخص مر جاتا ہے تو ”‏اُس کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔“‏

      یسوع مسیح نے موت کے بارے میں کیا کہا؟‏

      میاں بیوی باغ میں بیٹھے ہیں اور ایک پھول کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔‏

      یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو زمین پر ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے بنایا تھا۔‏

      7.‏ یسوع مسیح نے موت کے بارے میں کیا کہا؟‏

      7 جب یسوع مسیح کے دوست لعزر فوت ہو گئے تو یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏ہمارے دوست لعزر سو گئے ہیں۔“‏ اُن کے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ لعزر آرام کر رہے ہیں بلکہ اُنہوں نے واضح طور پر کہا:‏ ”‏لعزر فوت ہو گئے ہیں۔“‏ (‏یوحنا 11:‏11-‏14‏)‏ یوں یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ موت نیند کی طرح ہے۔ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ لعزر آسمان پر تھے یا اپنے خاندان کے اُن افراد کے ساتھ تھے جو فوت ہو چُکے تھے۔ اُنہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ لعزر کو دوزخ کی آگ میں تڑپایا جا رہا تھا یا وہ اِنسان یا جانور کے روپ میں دوبارہ جنم لینے والے تھے۔ لہٰذا لعزر کی حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے کوئی گہری نیند سو رہا ہو۔ پاک کلام کی دوسری آیتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موت گہری نیند کی طرح ہے۔ مثال کے طور پر پاک کلام میں لکھا ہے کہ جب ستفنُس کو قتل کِیا گیا تو ”‏وہ موت کی نیند سو گئے۔“‏ (‏اعمال 7:‏60‏)‏ پولُس رسول نے بھی لکھا کہ کچھ مسیحی ”‏موت کی نیند سو گئے ہیں۔“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏6‏۔‏

      8.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا نے اِنسان کو مرنے کے لیے نہیں بنایا تھا؟‏

      8 کیا خدا نے آدم اور حوا کو مرنے کے لیے بنایا تھا؟ جی نہیں۔ یہوواہ خدا نے اُنہیں اِس لیے بنایا تھا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں اور کبھی بیمار نہ ہوں۔ جب یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو بنایا تو اُس نے ’‏ابدیت کو اُن کے دل میں جاگزین کِیا‘‏ یعنی اُن کے دل میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش رکھی۔ ‏(‏واعظ 3:‏11‏)‏ جس طرح والدین کبھی نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے بیمار ہوں اور مر جائیں اُسی طرح یہوواہ خدا بھی نہیں چاہتا کہ اِنسان بیمار ہوں اور مر جائیں۔ لیکن اگر خدا نے ہمیں ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے بنایا تھا تو ہم مرتے کیوں ہیں؟‏

      اِنسان کیوں مرتے ہیں؟‏

      9.‏ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو جو حکم دیا، اُس پر عمل کرنا مشکل کیوں نہیں تھا؟‏

      9 باغِ‌عدن میں یہوواہ خدا نے آدم سے کہا:‏ ”‏تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے‌روک‌ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“‏ (‏پیدایش 2:‏9،‏ 16، 17‏)‏ یہ حکم بالکل واضح تھا اور اِس پر عمل کرنا مشکل نہیں تھا۔ یہوواہ خدا آدم اور حوا کو یہ بتانے کا حق رکھتا تھا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یہوواہ خدا کی بات ماننے سے وہ یہ ظاہر کرتے کہ وہ اُس کے اِختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی ظاہر کرتے کہ وہ یہوواہ خدا کی تمام نعمتوں کے لیے اُس کے شکرگزار ہیں۔‏

      10، 11.‏ (‏الف)‏ شیطان نے آدم اور حوا کو کیسے گمراہ کِیا؟ (‏ب)‏ آدم اور حوا کے پاس خدا کی نافرمانی کرنے کا کوئی جواز کیوں نہیں تھا؟‏

      10 افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے خدا کی بات نہیں مانی۔ شیطان نے حوا سے کہا:‏ ”‏کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟“‏ حوا نے شیطان کو جواب دیا:‏ ”‏باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تُم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چُھونا ورنہ مر جاؤ گے۔“‏—‏پیدایش 3:‏1-‏3‏۔‏

      11 اِس پر شیطان نے کہا:‏ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔“‏ (‏پیدایش 3:‏4-‏6‏)‏ شیطان حوا کے ذہن میں یہ بات ڈالنا چاہتا تھا کہ وہ خود یہ فیصلہ کر سکتی ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اُس نے حوا سے یہ جھوٹ بھی بولا کہ اگر وہ خدا کی نافرمانی کریں گی تو وہ مریں گی نہیں۔ لہٰذا حوا نے وہ پھل کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا۔ آدم اور حوا جانتے تھے کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں وہ پھل کھانے سے منع کِیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے وہ پھل کھایا اور یوں خدا کے حکم کو توڑ دیا۔ اِس طرح اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے شفیق خدا کا احترام نہیں کرتے۔ اُن کے پاس اپنی اِس حرکت کا کوئی جواز نہیں تھا۔‏

      12.‏ یہ اِتنے دُکھ کی بات کیوں ہے کہ آدم اور حوا نے یہوواہ خدا کی نافرمانی کی؟‏

      12 یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے اپنے خالق کا احترام نہیں کِیا!‏ فرض کریں کہ آپ کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ آپ نے بڑی محنت سے اُن کی پرورش کی ہے۔ لیکن پھر وہ آپ کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں اور آپ کا حکم ماننے کی بجائے اپنی من‌مانی کرتے ہیں۔ اُن کی اِس حرکت پر آپ کیسا محسوس کریں گے؟ یقیناً آپ کا دل دُکھ سے بھر جائے گا۔‏

      آدم

      آدم خاک سے بنے تھے اور خاک ہی میں لوٹ گئے۔‏

      13.‏ یہوواہ خدا کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ’‏تُو خاک میں پھر لوٹ جائے گا‘‏؟‏

      13 خدا کی نافرمانی کرنے سے آدم اور حوا نے ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع گنوا دیا۔ یہوواہ خدا نے آدم سے کہا تھا:‏ ”‏تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔“‏ ‏(‏پیدایش 3:‏19 کو پڑھیں۔)‏ اِس کا مطلب تھا کہ آدم پھر سے خاک بن جائیں گے جیسے وہ پیدا ہونے سے پہلے تھے۔ (‏پیدایش 2:‏7‏)‏ گُناہ کرنے کے بعد آخرکار آدم مر گئے اور اُن کا وجود بالکل ختم ہو گیا۔‏

      14.‏ اِنسان کیوں مرتے ہیں؟‏

      14 اگر آدم اور حوا نے خدا کی بات مانی ہوتی تو وہ آج بھی زندہ ہوتے۔ لیکن خدا کی نافرمانی کر کے اُنہوں نے گُناہ کِیا اور آخرکار مر گئے۔ گُناہ ایک خطرناک بیماری کی طرح ہے جو ہمیں آدم اور حوا سے ورثے میں ملی ہے۔ ہم سب پیدائش سے ہی گُناہ‌گار ہیں اور اِسی وجہ سے ہم مرتے ہیں۔ (‏رومیوں 5:‏12‏)‏ لیکن خدا نے اِنسانوں کو اِس مقصد سے نہیں بنایا تھا۔ خدا کبھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اِنسان مریں۔ پاک کلام میں موت کو ایک ”‏دُشمن“‏ کہا گیا ہے۔—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏26‏۔‏

      سچائی ہمیں آزاد کرتی ہے

      15.‏ مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان کر ہم جھوٹے عقیدوں کی غلامی سے کیسے آزاد ہو جاتے ہیں؟‏

      15 مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان کر ہم بہت سے جھوٹے عقیدوں کی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ مُردے درد یا غم محسوس نہیں کر سکتے۔ نہ تو وہ ہم سے بات کر سکتے ہیں اور نہ ہم اُن سے بات کر سکتے ہیں۔ نہ تو وہ ہماری مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہم اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اِس لیے ہمیں اُن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بہت سے مذاہب میں سکھایا جاتا ہے کہ مُردے کسی اَور جہان میں زندہ ہیں اور ہم مذہبی پیشواؤں کو پیسے دے کر اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ مگر جب ہم مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان جاتے ہیں تو ہم ایسے جھوٹے عقیدوں کی وجہ سے گمراہ نہیں ہوتے۔‏

      16.‏ بہت سے مذاہب میں مُردوں کی حالت کے بارے میں کیا تعلیم دی جاتی ہے؟‏

      16 شیطان جھوٹے مذاہب کے ذریعے ہمیں اِس بات کا یقین دِلانا چاہتا ہے کہ مُردے کسی اَور جہان میں زندہ ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ اِنسان کے جسم میں کوئی شے ہوتی ہے جو اُس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ کیا آپ کے مذہب کی بھی یہی تعلیم ہے یا کیا آپ کے مذہب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ مُردوں کی حالت کے بارے میں بائبل میں کیا بتایا گیا ہے؟ شیطان جھوٹے عقیدوں کے ذریعے لوگوں کو یہوواہ خدا سے دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏

      17.‏ اِس عقیدے سے یہوواہ خدا کی توہین کیسے ہوتی ہے کہ اِنسانوں کو آگ میں تڑپایا جائے گا؟‏

      17 بہت سے مذاہب میں موت کے بارے میں بہت عجیب باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ مذاہب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ بُرے لوگوں کو ہمیشہ تک دوزخ کی آگ میں تڑپایا جائے گا۔ اِس عقیدے سے یہوواہ خدا کی توہین ہوتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا اِنسانوں کو آگ میں تڑپائے۔ ‏(‏1-‏یوحنا 4:‏8 کو پڑھیں۔)‏ آپ ایک ایسے شخص کو کیسا خیال کریں گے جو ایک بچے کو سزا دینے کے لیے اُس کا ہاتھ آگ میں جلا دے؟ بِلاشُبہ آپ اُسے بہت ظالم سمجھیں گے اور اُس سے کبھی دوستی نہیں کرنا چاہیں گے۔ شیطان چاہتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے بارے میں بھی ایسا ہی سمجھیں۔‏

      18.‏ ہمیں مُردوں سے کیوں نہیں ڈرنا چاہیے؟‏

      18 کچھ مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ مرنے کے بعد اِنسان کی روح زندہ رہتی ہے۔ یہ مذاہب سکھاتے ہیں کہ ہمیں اِن روحوں کا احترام کرنا چاہیے اور اِن سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ روحیں یا تو دوست بن کر ہماری مدد کر سکتی ہیں یا پھر دُشمن بن کر ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ اِس جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں۔ وہ مُردوں سے ڈرتے ہیں اِس لیے وہ یہوواہ خدا کی بجائے مُردوں کی عبادت کرتے ہیں اور اُنہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ مُردے کچھ بھی محسوس نہیں کر سکتے اِس لیے ہمیں اُن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہوواہ خدا ہمارا خالق ہے۔ صرف وہی سچا خدا ہے اور ہمیں اُسی کی عبادت کرنی چاہیے۔—‏مکاشفہ 4:‏11‏۔‏

      19.‏ مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

      19 مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان کر ہم جھوٹے عقیدوں کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم اُن شان‌دار وعدوں کے متعلق بھی جان پاتے ہیں جو یہوواہ خدا نے مستقبل کے سلسلے میں کیے ہیں۔‏

      20.‏ اگلے باب میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

      20 صدیوں پہلے خدا کے بندے ایوب نے کہا:‏ ”‏اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“‏ (‏ایوب 14:‏14‏)‏ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مُردہ شخص دوبارہ زندہ ہو جائے؟‏ پاک کلام میں اِس سوال کا بڑا دلچسپ جواب دیا گیا ہے۔ اگلے باب میں اِسی موضوع پر بات کی جائے گی۔‏

      a کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ مرنے کے بعد اِنسان کی جان یا روح زندہ رہتی ہے۔ مزید معلومات کے لیے کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 17 اور 18 کو دیکھیں۔‏

      خلاصہ

      پہلی سچائی‏:‏ مرنے کے بعد اِنسان کا وجود ختم ہو جاتا ہے

      ‏”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“‏—‏واعظ 9:‏5‏۔‏

      مرنے کے بعد اِنسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‏

      • زبور 146:‏3، 4؛‏ واعظ 9:‏6،‏ 10

        جب اِنسان مر جاتا ہے تو وہ نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سُن سکتا ہے اور نہ ہی سوچ سکتا ہے۔‏

      • یوحنا 11:‏11-‏14

        یسوع مسیح نے کہا کہ موت نیند کی طرح ہے۔‏

      دوسری سچائی‏:‏ یہوواہ خدا کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اِنسان مریں

      ‏”‏تُو .‏ .‏ .‏ نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا [‏پھل]‏ کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“‏—‏پیدایش 2:‏16، 17‏۔‏

      ہم کیوں مرتے ہیں؟‏

      • پیدایش 3:‏1-‏6

        شیطان نے حوا سے جھوٹ بولا کہ اگر وہ خدا کی نافرمانی کریں گی تو وہ نہیں مریں گی۔ لیکن خدا کی نافرمانی کرنے سے آدم اور حوا گُناہ‌گار بن گئے اور آخرکار مر گئے۔‏

      • پیدایش 3:‏19

        مرنے کے بعد آدم کا وجود بالکل ختم ہو گیا۔‏

      • رومیوں 5:‏12

        گُناہ ایک خطرناک بیماری کی طرح ہے جو ہمیں آدم اور حوا سے ورثے میں ملی ہے۔ ہم پیدائشی طور پر گُناہ‌گار ہیں اِس لیے ہم مرتے ہیں۔‏

      • 1-‏کُرنتھیوں 15:‏26

        پاک کلام میں موت کو ایک دُشمن کہا گیا ہے۔‏

      تیسری سچائی‏:‏ موت کے بارے میں سچائی ہمیں جھوٹے عقیدوں سے آزاد کرتی ہے

      ‏”‏اگر اِنسان مر جائے تو کیا وہ پھر سے جی سکے گا؟ .‏ .‏ .‏ مَیں اپنی مخلصی کا منتظر رہوں گا۔“‏—‏ایوب 14:‏14‏، نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

      موت کے بارے میں سچائی ہمیں جھوٹے عقیدوں سے آزاد کیسے کرتی ہے؟‏

      • 1-‏یوحنا 4:‏8

        دوزخ کے عقیدے سے یہوواہ خدا کی توہین ہوتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں کو آگ میں تڑپائے۔‏

      • مکاشفہ 4:‏11

        بہت سے لوگ مُردوں سے ڈرتے ہیں اِس لیے وہ یہوواہ خدا کی بجائے اُن کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن سچا خدا، یہوواہ ہے اِس لیے ہمیں صرف اُسی کی عبادت کرنی چاہیے۔‏

  • مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا
    پاک کلام کی تعلیم حاصل کریں
    • باب نمبر 7

      مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا

      1-‏3.‏ (‏الف)‏ ہم سب کس کی قید میں ہیں؟ (‏ب)‏ یہوواہ خدا ہمیں رِہائی کیسے دِلائے گا؟‏

      ذرا تصور کریں کہ آپ کو ایک ایسے جُرم کے لیے عمرقید کی سزا سنائی گئی ہے جو آپ نے کِیا ہی نہیں۔ آپ کو اپنی رِہائی کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ آپ کو اپنا مستقبل بالکل تاریک نظر آ رہا ہے۔ آپ اِس صورتحال کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن جب آپ بالکل نااُمید ہو جاتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص آپ کو رِہائی دِلا سکتا ہے اور اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ آپ کی مدد کرے گا۔ ایسی صورت میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟‏

      2 ہم سب موت کی قید میں ہیں۔ ہم جتنی بھی کوشش کر لیں، اِس قید سے رِہا نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہوواہ خدا ہمیں موت سے رِہائی دِلانے کی طاقت رکھتا ہے۔ اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ”‏آخری دُشمن یعنی موت‏“‏ کو ختم کر دے گا۔—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏26‏۔‏

      3 ذرا سوچیں کہ اُس وقت آپ کتنا سکون محسوس کریں گے جب آپ کو موت کا ڈر نہیں ہوگا۔ لیکن یہوواہ خدا صرف موت کو ختم نہیں کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کو زندہ بھی کرے گا جو مر چُکے ہیں۔ پاک کلام میں اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ ”‏مُردے جی اُٹھیں گے۔“‏ (‏یسعیاہ 26:‏19‏)‏ یہ جان کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏

      کسی عزیز کی موت کا دُکھ

      4.‏ (‏الف)‏ ہم اپنے کسی عزیز کی موت پر تسلی کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟ (‏ب)‏ یسوع مسیح کے کچھ دوستوں کے نام کیا تھے؟‏

      4 جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہمیں بہت زیادہ دُکھ ہوتا ہے۔ ہم خود کو بے‌بس محسوس کرتے ہیں۔ ہم اُس شخص کو زندہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن پاک کلام سے ہمیں حقیقی تسلی ملتی ہے۔ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏3، 4 کو پڑھیں۔)‏ آئیں، ایک واقعے پر غور کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ہمارے عزیزوں کو زندہ کرنے کی کتنی خواہش رکھتے ہیں۔ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو وہ اکثر لعزر اور اُن کی بہنوں مارتھا اور مریم سے ملنے جاتے تھے۔ اُن تینوں کی یسوع مسیح کے ساتھ بڑی اچھی دوستی تھی۔ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏یسوع کو مارتھا، مریم اور لعزر سے بہت پیار تھا۔“‏ لیکن پھر ایک دن لعزر فوت ہو گئے۔—‏یوحنا 11:‏3-‏5‏۔‏

      5، 6.‏ (‏الف)‏ جب یسوع مسیح نے لعزر کے گھر والوں اور عزیزوں کو روتے دیکھا تو اُنہوں نے کیا کِیا؟ (‏ب)‏ ہمیں اِس بات سے کیا تسلی ملتی ہے کہ یسوع مسیح ہمارے درد کو سمجھتے ہیں؟‏

      5 لعزر کی موت پر یسوع مسیح مارتھا اور مریم کو تسلی دینے کے لیے گئے۔ جب مارتھا کو پتہ چلا کہ یسوع مسیح پہنچنے والے ہیں تو وہ اُن سے ملنے شہر سے باہر گئیں۔ وہ یسوع مسیح کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ لیکن اُنہوں نے یسوع مسیح سے کہا:‏ ”‏اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مرتا۔“‏ دراصل مارتھا نے سوچا کہ یسوع مسیح کو آنے میں بہت دیر ہو گئی ہے۔ اِس کے بعد یسوع مسیح نے مریم کو روتے ہوئے دیکھا۔ جب یسوع مسیح نے وہاں موجود لوگوں کو غم‌زدہ دیکھا تو اُنہیں بہت دُکھ ہوا اور اُن کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے‏۔ (‏یوحنا 11:‏21،‏ 33،‏ 35‏)‏ یسوع مسیح نے اُس درد کو محسوس کِیا جو کسی عزیز کی موت پر ہوتا ہے۔‏

      6 یہ جان کر ہمیں بہت تسلی ملتی ہے کہ یسوع مسیح ہمارے درد کو سمجھتے ہیں۔ یسوع مسیح بالکل اپنے باپ کی طرح ہیں۔ (‏یوحنا 14:‏9‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا بھی ہمارے درد کو محسوس کرتا ہے۔ وہ موت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ بہت جلد اِسے ختم کرے گا۔‏

      ‏”‏لعزر، باہر آ جائیں!‏“‏

      7، 8.‏ (‏الف)‏ مارتھا کیوں نہیں چاہتی تھیں کہ لعزر کی قبر سے پتھر ہٹایا جائے؟ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے کیا کِیا؟‏

      7 جب یسوع مسیح لعزر کی قبر پر پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا کہ قبر کا مُنہ ایک پتھر سے بند ہے۔ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏پتھر کو ہٹائیں۔“‏ لیکن مارتھا ایسا نہیں چاہتی تھیں کیونکہ لعزر کی لاش کو قبر میں رکھے ہوئے چار دن ہو چُکے تھے۔ (‏یوحنا 11:‏39‏)‏ وہ نہیں جانتی تھیں کہ یسوع مسیح کیا کرنے والے ہیں۔‏

      یسوع مسیح نے لعزر کو زندہ کر دیا ہے اِس لیے اُن کے رشتے‌دار بہت خوش ہیں۔‏

      ذرا تصور کریں کہ جب لعزر کو زندہ کِیا گیا تو اُن کے گھر والے اور دوست کتنے خوش ہوئے ہوں گے!‏—‏یوحنا 11:‏38-‏44‏۔‏

      8 پھر یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏لعزر، باہر آ جائیں!‏“‏ اِس کے بعد مارتھا اور مریم نے ایک حیران‌کُن منظر دیکھا۔ ”‏وہ آدمی جو مر چُکا تھا، قبر سے نکل آیا۔ اُس کے ہاتھوں اور پیروں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔“‏ (‏یوحنا 11:‏43، 44‏)‏ لعزر زندہ ہو گئے تھے۔ وہ پھر سے اپنے گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ تھے۔ اُن کے عزیز اُنہیں چُھو سکتے تھے، اُنہیں گلے لگا سکتے تھے اور اُن سے بات کر سکتے تھے۔ یسوع مسیح نے لعزر کو زندہ کر دیا تھا۔ یہ بہت شان‌دار معجزہ تھا!‏

      ‏”‏بچی، مَیں تُم سے کہتا ہوں اُٹھ جاؤ“‏

      9، 10.‏ (‏الف)‏ یسوع مسیح کو مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت کس نے دی؟ (‏ب)‏ جن لوگوں کو زندہ کِیا گیا، اُن کے بارے میں پڑھ کر ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

      9 کیا یسوع مسیح نے لوگوں کو اپنی طاقت سے زندہ کِیا؟ جی نہیں۔ لعزر کو زندہ کرنے سے پہلے یسوع مسیح نے یہوواہ خدا سے دُعا کی اور یہوواہ خدا نے اُنہیں لعزر کو زندہ کرنے کی طاقت دی۔ ‏(‏یوحنا 11:‏41، 42 کو پڑھیں۔)‏ یسوع مسیح نے صرف لعزر کو ہی زندہ نہیں کیا۔ پاک کلام میں ایک 12 سالہ لڑکی کا ذکر کِیا گیا ہے جو بہت بیمار تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اِکلوتی بیٹی تھی۔ اُس لڑکی کے باپ کا نام یائیر تھا۔ یائیر بہت پریشان تھے۔ اُنہوں نے یسوع مسیح سے اِلتجا کی کہ وہ اُن کی بیٹی کو ٹھیک کر دیں۔ جب یائیر یسوع مسیح سے بات کر رہے تھے تو کچھ آدمیوں نے آ کر اُن سے کہا:‏ ”‏آپ کی بیٹی مر گئی ہے۔ اب اُستاد کو تکلیف دینے کا کیا فائدہ؟“‏ لیکن یسوع مسیح نے یائیر سے کہا:‏ ”‏پریشان نہ ہوں بلکہ ایمان رکھیں تو آپ کی بیٹی بچ جائے گی۔“‏ پھر وہ یائیر کے ساتھ اُن کے گھر گئے۔ جب وہ گھر کے قریب پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ رو رہے ہیں اور ماتم کر رہے ہیں۔ اِس پر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏روئیں مت، بچی مری نہیں بلکہ سو رہی ہے۔“‏ لڑکی کے ماں باپ یسوع مسیح کی اِس بات پر بہت حیران ہوئے ہوں گے۔ پھر یسوع مسیح نے سب لوگوں کو باہر جانے کو کہا اور لڑکی کے ماں باپ کو لے کر اُس کمرے میں گئے جہاں لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ یسوع مسیح نے بڑی شفقت سے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور کہا:‏ ”‏بچی، مَیں تُم سے کہتا ہوں اُٹھ جاؤ۔“‏ ذرا تصور کریں کہ جب وہ لڑکی اُٹھ کر چلنے پھرنے لگی تو اُس کے ماں باپ کتنے خوش ہوئے ہوں گے!‏ یسوع مسیح نے اُن کی بیٹی کو زندہ کر دیا تھا۔ (‏مرقس 5:‏22-‏24،‏ 35-‏42؛‏ لُوقا 8:‏49-‏56‏)‏ اُس دن کے بعد سے وہ جب بھی اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوں گے تو اُنہیں یاد آتا ہوگا کہ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے ذریعے اُن کے لیے کتنا بڑا کام کِیا ہے۔‏a

      10 یسوع مسیح نے جن لوگوں کو زندہ کِیا، وہ بعد میں دوبارہ مر گئے۔ لیکن اِن لوگوں کے بارے میں پڑھ کر ہمیں ایک شان‌دار اُمید ملتی ہے۔ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنا چاہتا ہے اور وہ ایسا ضرور کرے گا۔‏

      یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنا چاہتا ہے

      پطرس رسول نے ڈورکس کو زندہ کر دیا ہے اور لوگ یہ منظر دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔‏

      پطرس رسول نے ڈورکس نامی ایک مسیحی عورت کو زندہ کِیا۔—‏اعمال 9:‏36-‏42

      ایک بیوہ اپنے بیٹے کو گلے لگا رہی ہے جسے ایلیاہ نبی نے زندہ کر دیا ہے۔‏

      ایلیاہ نے ایک بیوہ کے بیٹے کو زندہ کِیا۔—‏1-‏سلاطین 17:‏17-‏24‏۔‏

      11.‏ واعظ 9:‏5 سے ہمیں لعزر کی حالت کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

      11 پاک کلام میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“‏ مرنے کے بعد لعزر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ (‏واعظ 9:‏5‏)‏ جیسا کہ یسوع مسیح نے کہا تھا، لعزر کی حالت ویسی ہی تھی جیسی اُس شخص کی ہوتی ہے جو سو رہا ہو۔ (‏یوحنا 11:‏11‏)‏ جب لعزر قبر میں تھے تو وہ ”‏کچھ بھی نہیں جانتے“‏ تھے۔‏

      12.‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ لعزر کو واقعی زندہ کِیا گیا؟‏

      12 جب یسوع مسیح نے لعزر کو زندہ کِیا تو بہت سے لوگوں نے اِس واقعے کو دیکھا۔ یسوع مسیح کے دُشمنوں نے بھی یہ تسلیم کِیا کہ یسوع مسیح نے یہ معجزہ کِیا ہے۔ (‏یوحنا 11:‏47‏)‏ لعزر خود اِس بات کا جیتا جاگتا ثبوت تھے کہ اُنہیں زندہ کِیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ بہت سے لوگ لعزر سے ملنے گئے اور اِس بات پر ایمان لے آئے کہ یسوع مسیح کو خدا نے بھیجا ہے۔ یسوع مسیح کے دُشمنوں کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی۔ اِس لیے اُنہوں نے یسوع مسیح اور لعزر کو مار ڈالنے کی سازش کی۔—‏یوحنا 11:‏53؛‏ 12:‏9-‏11‏۔‏

      13.‏ ہم اِس بات پر یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا؟‏

      13 یسوع مسیح نے کہا کہ اُن سب لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا ”‏جو یادگاری قبروں میں ہیں۔“‏ (‏یوحنا 5:‏28‏، فٹ‌نوٹ)‏ اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ خدا اُن سب لوگوں کو زندہ کرے گا جنہیں وہ یاد رکھتا ہے۔ لیکن کسی شخص کو زندہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہوواہ خدا کو اُس شخص کے بارے میں ہر بات یاد ہو۔ کیا یہوواہ خدا کسی شخص کے بارے میں ہر بات یاد رکھ سکتا ہے؟ بے‌شک۔ اِس کائنات میں اربوں ستارے ہیں۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا ہر ستارے کا نام جانتا ہے۔ ‏(‏یسعیاہ 40:‏26 کو پڑھیں۔)‏ اگر وہ ہر ستارے کا نام یاد رکھ سکتا ہے تو وہ اُن لوگوں کے بارے میں ہر تفصیل بھی یاد رکھ سکتا ہے جنہیں وہ زندہ کرے گا۔ اور چونکہ یہوواہ خدا نے سب چیزیں بنائی ہیں اِس لیے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ لوگوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔‏

      14، 15.‏ ایوب کے الفاظ سے ہمیں مُردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

      14 خدا کے وفادار بندے ایوب اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ اُنہوں نے یہ سوال اُٹھایا:‏ ”‏اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“‏ (‏ایوب 14:‏13، 14‏)‏ پھر اُنہوں نے یہوواہ خدا سے کہا:‏ ”‏تُو مجھے پکارے گا اور مَیں تجھے جواب دوں گا۔ تجھے اپنے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیز کی دلی آرزو ہوگی۔“‏ (‏ایوب 14:‏15‏، ترجمہ نئی دُنیا‏)‏ ایوب جانتے تھے کہ یہوواہ خدا اُس وقت کا اِنتظار کر رہا ہے جب وہ مُردوں کو زندہ کرے گا۔‏

      15 آپ کو یہ جان کر کیسا محسوس ہوتا ہے کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا؟ شاید آپ سوچیں:‏ ”‏کیا میرے اُن عزیزوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا جو فوت ہو چُکے ہیں؟“‏ ہمیں اِس بات سے بہت تسلی ملتی ہے کہ یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا اور وہ کہاں پر رہیں گے؟ آئیں، دیکھیں کہ اِس سلسلے میں پاک کلام میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

      وہ ”‏اُس کی آواز سنیں گے اور نکل آئیں گے“‏

      16.‏ جن لوگوں کو زمین پر زندہ کِیا جائے گا، اُن کی زندگی کیسی ہوگی؟‏

      16 ماضی میں جن لوگوں کو زندہ کِیا گیا، وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ دوبارہ سے زمین پر رہنے لگے۔ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن اُس وقت جن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا، وہ ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں گے اور کبھی نہیں مریں گے۔ اُس وقت زمین کے حالات بھی بالکل فرق ہوں گے۔ جنگیں، جُرم اور بیماریاں بالکل ختم ہو جائیں گی۔‏

      17.‏ کن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا؟‏

      17 کن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا؟ یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏سب لوگ جو یادگاری قبروں میں ہیں، اُس کی آواز سنیں گے اور نکل آئیں گے۔“‏ (‏یوحنا 5:‏28، 29‏، فٹ‌نوٹ)‏ مکاشفہ 20:‏13 میں لکھا ہے:‏ ”‏سمندر نے اُن مُردوں کو رِہا کر دیا جو اُس میں تھے اور موت اور قبر نے اُن مُردوں کو رِہا کر دیا جو اُن میں تھے۔“‏ لہٰذا اربوں لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ پولُس رسول نے کہا کہ ”‏خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔“‏ ‏(‏اعمال 24:‏15 کو پڑھیں۔)‏ اِس بات کا کیا مطلب ہے؟‏

      فردوس کا ایک منظر جس میں مُردے زندہ ہو گئے ہیں اور اپنے عزیزوں سے مل رہے ہیں۔‏

      فردوس میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا اور وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ رہیں گے۔‏

      18.‏ ”‏نیکوں“‏ میں کون لوگ شامل ہیں؟‏

      18 ”‏نیکوں“‏ میں یہوواہ خدا کے وہ وفادار بندے شامل ہیں جو یسوع مسیح کے آنے سے پہلے زمین پر رہتے تھے، مثلاً نوح، ابراہام، سارہ، موسیٰ، رُوت اور آستر وغیرہ۔ آپ ایسے کچھ لوگوں کے متعلق عبرانیوں 11 باب میں پڑھ سکتے ہیں۔ اِن لوگوں کو زمین پر زندہ کِیا جائے گا۔ کیا خدا کے اُن وفادار بندوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا جو ہمارے زمانے میں مرتے ہیں؟ چونکہ وہ لوگ بھی ”‏نیکوں“‏ میں شامل ہیں اِس لیے اُنہیں بھی زندہ کِیا جائے گا۔‏

      19.‏ (‏الف)‏ ”‏بدوں“‏ میں کون لوگ شامل ہیں؟ (‏ب)‏ یہوواہ خدا اُنہیں کون سا موقع دے گا؟‏

      19 ”‏بدوں“‏ میں وہ اربوں لوگ شامل ہیں جنہیں کبھی یہوواہ خدا کے بارے میں جاننے کا موقع نہیں ملا۔ اگرچہ وہ مر چُکے ہیں تو بھی یہوواہ خدا اُنہیں بھولا نہیں ہے۔ وہ اُنہیں زندہ کرے گا اور اُنہیں یہ موقع دے گا کہ وہ اُس کے بارے میں علم حاصل کریں اور اُس کی عبادت کریں۔‏

      20.‏ سب لوگوں کو زندہ کیوں نہیں کِیا جائے گا؟‏

      20 کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُن تمام لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا جو مر چُکے ہیں؟ جی نہیں۔ یسوع مسیح نے کہا کہ کچھ لوگوں کو زندہ نہیں کِیا جائے گا۔ (‏لُوقا 12:‏5‏)‏ اِس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ ایک شخص کو زندہ کِیا جائے یا نہیں؟ اِس بات کا فیصلہ یہوواہ خدا ہی کرے گا۔ لیکن اُس نے یسوع مسیح کو بھی ”‏زندوں اور مُردوں کا منصف مقرر کِیا ہے۔“‏ (‏اعمال 10:‏42‏)‏ اُن لوگوں کو زندہ نہیں کِیا جائے گا جن کے بارے میں یہ فیصلہ کِیا جائے گا کہ وہ بُرے تھے اور اپنی روِش کو بدلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 19 کو دیکھیں۔‏

      کیا کچھ لوگ آسمان پر بھی جائیں گے؟‏

      21، 22.‏ (‏الف)‏ جن لوگوں کو آسمان پر زندہ کِیا جاتا ہے، اُنہیں کس جسم کے ساتھ زندہ کِیا جاتا ہے؟ (‏ب)‏ سب سے پہلے کس کو آسمان پر جانے کے لیے زندہ کِیا گیا؟‏

      21 پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ آسمان پر رہیں گے۔ جب کسی شخص کو آسمان پر زندہ کِیا جاتا ہے تو اُسے اِنسانی جسم کے ساتھ نہیں بلکہ روحانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا جاتا ہے۔‏

      22 یسوع مسیح وہ پہلے شخص تھے جنہیں روحانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا گیا۔ (‏یوحنا 3:‏13‏)‏ جب یسوع مسیح کو قتل کِیا گیا تو اِس کے تین دن بعد یہوواہ خدا نے اُنہیں زندہ کر دیا۔ (‏زبور 16:‏10؛‏ اعمال 13:‏34، 35‏)‏ لیکن یسوع مسیح کو اِنسانی جسم کے ساتھ زندہ نہیں کِیا گیا۔ پطرس رسول نے کہا کہ یسوع مسیح کو ”‏اِنسان کے طور پر مارا گیا لیکن روح کے طور پر زندہ کِیا گیا۔“‏ (‏1-‏پطرس 3:‏18‏)‏ زندہ ہونے کے بعد یسوع مسیح ایک طاقت‌ور ہستی کے طور پر آسمان پر گئے۔ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏3-‏6‏)‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ایسے اَور بھی لوگ ہیں جنہیں یسوع مسیح کی طرح روح کے طور پر زندہ کِیا جائے گا۔‏

      23، 24.‏ (‏الف)‏ یسوع مسیح نے کن کو ’‏چھوٹا گلّہ‘‏ کہا؟ (‏ب)‏ ”‏چھوٹے گلّے“‏ میں کتنے لوگ ہیں؟‏

      23 اپنی موت سے کچھ دیر پہلے یسوع مسیح نے اپنے وفادار شاگردوں سے کہا:‏ ”‏مَیں آپ کے لیے جگہ تیار کرنے جا رہا ہوں۔“‏ (‏یوحنا 14:‏2‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ یسوع مسیح کے کچھ پیروکاروں کو اُن کے ساتھ آسمان پر رہنے کے لیے زندہ کِیا جائے گا۔ اُن کی تعداد کیا ہوگی؟ یسوع مسیح نے اُنہیں ’‏چھوٹا گلّہ‘‏ کہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ (‏لُوقا 12:‏32‏)‏ یوحنا رسول نے ایک رُویا میں دیکھا کہ یسوع مسیح آسمان پر ’‏کوہِ‌صیون پر کھڑے ہیں اور اُن کے ساتھ 1،44،000 (‏ایک لاکھ چوالیس ہزار)‏ لوگ ہیں۔‘‏ (‏مکاشفہ 14:‏1‏)‏ لہٰذا ”‏چھوٹے گلّے“‏ میں 1 لاکھ 44 ہزار لوگ ہیں۔‏

      24 اِن لوگوں کو کب زندہ کِیا جائے گا؟ پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ اِنہیں اُس وقت زندہ کِیا جائے گا جب یسوع مسیح آسمان پر حکمرانی شروع کر دیں گے۔ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏23‏)‏ آج ہم اُس دَور میں رہ رہے ہیں جب یسوع مسیح حکمرانی کر رہے ہیں۔ 1 لاکھ 44 ہزار میں سے زیادہ‌تر لوگوں کو آسمان پر زندہ کِیا جا چُکا ہے۔ اِن میں سے جو لوگ ابھی زمین پر ہیں، اُنہیں مرنے کے بعد فوراً آسمان پر زندہ کر دیا جاتا ہے۔ لیکن زیادہ‌تر اِنسانوں کو مستقبل میں زندہ کِیا جائے گا تاکہ وہ زمین پر فردوس میں رہ سکیں‏۔‏

      25.‏ ہم اگلے باب میں کیا سیکھیں گے؟‏

      25 بہت جلد یہوواہ خدا اِنسانوں کو موت سے رِہائی دِلائے گا۔ تب موت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ ‏(‏یسعیاہ 25:‏8 کو پڑھیں۔)‏ لیکن جو لوگ آسمان پر جاتے ہیں، وہ وہاں کیا کریں گے؟ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ وہ یسوع مسیح کے ساتھ مل کر بادشاہت کریں گے۔ ہم اگلے باب میں اِس بادشاہت کے بارے میں مزید سیکھیں گے۔‏

      a پاک کلام میں کچھ اَور لوگوں کا بھی ذکر ملتا ہے جنہیں زندہ کِیا گیا۔ اِن میں نوجوان اور بوڑھے، مرد اور عورتیں، اِسرائیلی اور غیراِسرائیلی شامل تھے۔ آپ اِن کے بارے میں اِن آیتوں میں پڑھ سکتے ہیں:‏ 1-‏سلاطین 17:‏17-‏24؛‏ 2-‏سلاطین 4:‏32-‏37؛‏ 13:‏20، 21؛‏ متی 28:‏5-‏7؛‏ لُوقا 7:‏11-‏17؛‏ 8:‏40-‏56؛‏ اعمال 9:‏36-‏42؛‏ 20:‏7-‏12‏۔‏

      خلاصہ

      پہلی سچائی‏:‏ یہوواہ خدا موت کو ختم کر دے گا

      ‏”‏آخری دُشمن یعنی موت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏26‏۔‏

      جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہم پاک کلام سے تسلی کیسے پا سکتے ہیں؟‏

      • 2-‏کُرنتھیوں 1:‏3، 4

        اپنے کسی عزیز کی موت پر ہم خود کو بے‌بس محسوس کرتے ہیں۔ اُس وقت ہمیں پاک کلام سے حقیقی تسلی مل سکتی ہے۔‏

      • یسعیاہ 25:‏8؛‏ 26:‏19

        یہوواہ خدا موت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں کو بھی زندہ کر دے گا جو مر چُکے ہیں۔‏

      دوسری سچائی‏:‏ ہم مُردوں کے زندہ ہونے پر ایمان رکھ سکتے ہیں

      ‏”‏بچی، مَیں تُم سے کہتا ہوں اُٹھ جاؤ۔“‏—‏مرقس 5:‏41‏۔‏

      ہم مُردوں کے زندہ ہونے پر ایمان کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

      • یوحنا 11:‏1-‏44

        یسوع مسیح نے لعزر کو زندہ کِیا۔‏

      • مرقس 5:‏22-‏24،‏ 35-‏42

        یسوع مسیح نے ایک بچی کو زندہ کِیا۔‏

      • یوحنا 11:‏41، 42

        یسوع مسیح نے یہوواہ خدا کی طاقت سے مُردوں کو زندہ کِیا۔‏

      • یوحنا 12:‏9-‏11

        بہت سے لوگوں نے یسوع مسیح کو مُردوں کو زندہ کرتے ہوئے دیکھا۔ یسوع مسیح کے دُشمنوں کو بھی پتہ تھا کہ وہ مُردوں کو زندہ کر سکتے ہیں۔‏

      تیسری سچائی‏:‏ یہوواہ خدا اربوں لوگوں کو زندہ کرے گا

      ‏”‏تُو مجھے پکارے گا اور مَیں تجھے جواب دوں گا۔ تجھے اپنے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیز کی دلی آرزو ہوگی۔“‏—‏ایوب 14:‏13-‏15‏، ترجمہ نئی دُنیا۔‏

      کن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا؟‏

      • یوحنا 5:‏28، 29

        اُن سب لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا جنہیں یہوواہ خدا یاد رکھتا ہے۔‏

      • اعمال 24:‏15

        نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کِیا جائے گا۔‏

      • یسعیاہ 40:‏26

        یہوواہ خدا ہر ستارے کا نام یاد رکھ سکتا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں کے بارے میں ہر تفصیل بھی یاد رکھ سکتا ہے جو مر چُکے ہیں۔‏

      چوتھی سچائی‏:‏ کچھ لوگوں کو آسمان پر رہنے کے لیے زندہ کِیا جاتا ہے

      ‏”‏مَیں آپ کے لیے جگہ تیار کرنے جا رہا ہوں۔“‏—‏یوحنا 14:‏2‏۔‏

      کن لوگوں کو آسمان پر رہنے کے لیے زندہ کِیا جاتا ہے؟‏

      • 1-‏پطرس 3:‏18

        سب سے پہلے یسوع مسیح کو آسمان پر رہنے کے لیے زندہ کِیا گیا۔‏

      • لُوقا 12:‏32

        یسوع مسیح نے کہا کہ اُن کے کچھ شاگردوں کو آسمان پر رہنے کے لیے زندہ کِیا جائے گا۔‏

      • مکاشفہ 14:‏1

        یہوواہ خدا نے 1 لاکھ 44 ہزار لوگوں کو آسمان پر رہنے کے لیے چُنا ہے۔‏

اُردو زبان میں مطبوعات (‏2024-‏2000)‏
لاگ آؤٹ
لاگ اِن
  • اُردو
  • شیئر کریں
  • ترجیحات
  • Copyright © 2025 Watch Tower Bible and Tract Society of Pennsylvania
  • اِستعمال کی شرائط
  • رازداری کی پالیسی
  • رازداری کی سیٹنگز
  • JW.ORG
  • لاگ اِن
شیئر کریں