یہوؔواہ میں خوش رہو!
”خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پِھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔“—فلپیوں ۴:۴۔
۱. جب پولسؔ نے کہا کہ مسیحیوں کو ہمیشہ خوش رہنا چاہئے تو اُس کا جو مطلب تھا اُس سے ہم حیران کیوں ہو سکتے ہیں؟
آجکل، خوش ہونے کی وجوہات شاید شاذونادر ہی دکھائی دیں۔ خاکی انسان حتیٰکہ سچے مسیحی بھی، غم کا باعث بننے والی حالتوں—بےروزگاری، خراب صحت، عزیزوں کی موت، شخصیتی مسائل یا خاندان کے بےایمان ممبروں یا پُرانے دوستوں کی طرف سے مخالفت—سے دوچار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں پولسؔ کی اس نصیحت کو کیسے سمجھنا چاہئے کہ ”ہر وقت خوش رہو“؟ ایسے ناخوشگوار اور صبرآزما حالات کے پیشِنظر جن کا ہم سب کو مقابلہ کرنا ضرور ہے، کیا یہ ممکن بھی ہے؟ ان الفاظ کے سیاقوسباق پر گفتگو معاملے کو واضح کرنے میں مدد کریگی۔
خوش رہیں—کیوں اور کیسے؟
۲، ۳. جیسا کہ یسوؔع اور قدیم اسرائیلیوں کے معاملات میں ظاہر کِیا گیا، خوشی کی اہمیت کیا ہے؟
۲ ”خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پِھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔“ یہ ہمیں کوئی ۲۴ صدیاں قبل اسرائیل سے مخاطب کئے گئے الفاظ کی یاد دلا سکتا ہے: ”خداوند کی شادمانی تمہاری پناہگاہ ہے،“ یا موفٹ ترجمے کے مطابق: ”خدا میں خوش رہنا تیرا زور ہے۔“ (نحمیاہ ۸:۱۰) خوشی قوت عطا کرتی ہے اور ایک پناہگاہ کی مانند ہے جس میں کوئی شخص اطمینان اور تحفظ کیلئے بھاگ جاتا ہے۔ خوشی تو برداشت کرنے کے لئے کامل انسان یسوؔع کی مدد کرنے میں بھی آلۂکار تھی۔ ”اُس خوشی کے لئے جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کرکے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔“ (عبرانیوں ۱۲:۲) ظاہر ہے کہ مشکلات کے باوجود خوش رہنے کے لائق ہونا نجات کیلئے نہایت اہم ہے۔
۳ ملکِموعود میں داخل ہونے سے پہلے، اسرائیلیوں کو حکم دیا گیا تھا: ”تُو اور لاوی اور جو مسافر تیرے درمیان رہتے ہوں سب کے سب مِل کر اُن سب نعمتوں کے لئے جنکو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو اور تیرے گھرانے کو بخشا ہو خوشی کرنا۔“ خوشی سے یہوؔواہ کی خدمت کرنے میں قاصر رہ جانے کے نتائج بہت سنگین ہونگے۔ ”یہ سب لعنتیں تجھ پر آئینگی اور تیرے پیچھے پڑی رہینگی اور تجھ کو لگیں گی جب تک تیرا ناس نہ ہو جائے۔ . . . چونکہ تُو باوجود سب چیزوں کی فراوانی کے فرحت اور خوشدلی سے خداوند اپنے خدا کی عبادت نہیں کریگا۔“—استثنا ۲۶:۱۱؛ ۲۸:۴۵-۴۷۔
۴. ہم خوش رہنے میں قاصر کیوں رہ سکتے ہیں؟
۴ اسلئے، یہ اشد ضروری ہے کہ آجکل کا بقیہ اور اُنکے ساتھی ”دوسری بھیڑیں“ خوشی کریں! (یوحنا ۱۰:۱۶، اینڈبلیو) پولسؔ نے اپنی مشورت ”پھر کہتا ہوں“ کو دہرانے سے اُس تمام نیکی کیلئے خوشی کرنے کی اہمیت پر زور دیا جو یہوؔواہ نے ہماری خاطر کی ہے۔ کیا ہم خوش ہوتے ہیں؟ یا ہم زندگی کے روزمرہ کے معمول میں اسقدر کھو جاتے ہیں کہ ہم بعض اوقات خوش ہونے کی اپنی بہت سی وجوہات کو بھول ہی جاتے ہیں؟ کیا مشکلات کا اتنا انبار لگ جاتا ہے کہ وہ بادشاہت اور اسکی برکات پر ہمارے غوروخوض کرنے کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں؟ کیا ہم دوسری چیزوں—خدا کے قوانین کی نافرمانی کرنا، الہٰی اصولوں کو نظرانداز کرنا یا مسیحی فرائض سے غفلت برتنا—کو ہم سے ہماری خوشی چھین لینے کی اجازت دے دیتے ہیں؟
۵. ایک نامعقول شخص خوش رہنا مشکل کیوں پاتا ہے؟
۵ ”اپنی معقولیت سب آدمیوں پر ظاہر ہو نے دو۔ خداوند قریب ہے۔“ (فلپیوں ۴:۵، اینڈبلیو) ایک نامعقول شخص میں توازن کی کمی ہوتی ہے۔ وہ غیرضروری طور پر اپنے جسم کو بیجا دباؤ یا پریشانی سے مغلوب کر لینے سے مناسب طور پر اپنی صحت کی دیکھبھال کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔ شاید اُس نے اپنی حدود کو تسلیم کرنا اور اُنکے مطابق زندگی بسر کرنا نہیں سیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے لئے نہایت بلند نشانے قائم کر لے اور پھر لاگت سے قطعنظر اُن تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی حدود کو سُست پڑ جانے یا کاہل بن جانے کے ایک عُذر کے طور پر استعمال کر لے۔ توازن کی کمی رکھتے اور نامعقول ہوتے ہوئے وہ خوش رہنے کو مشکل پاتا ہے۔
۶. (ا) ساتھی مسیحیوں کو ہمارے اندر کس چیز کو دیکھنا چاہئے اور محض کب ایسا معاملہ ہوگا؟ (ب) ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴ اور رومیوں ۱۴:۴ میں پولسؔ کے الفاظ معقول ہونے میں کس طرح ہماری مدد کرتے ہیں؟
۶ اگر مخالفین ہمیں متعصّب سمجھیں تو بھی ساتھی مسیحیوں کو ہمیشہ ہماری معقولیت دیکھنے کے قابل ہونا چاہئے۔ اور وہ ایسا کرینگے اگر ہم متوازن ہیں اور نہ تو خود سے اور نہ ہی دوسروں سے کاملیت کی توقع کرتے ہیں۔ سب سے بڑھکر، ہمیں دوسروں پر ایسے بوجھ ڈالنے سے اجتناب کرنا چاہئے جو کہ خدا کے کلام کے تقاضے سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ پولسؔ رسول نے کہا: ”یہ نہیں کہ ہم ایمان کے بارے میں تم پر حکومت جتاتے ہیں بلکہ خوشی میں تمہارے مددگار ہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۴) سابقہ فریسی ہونے کے طور پر، پولسؔ خوب جانتا تھا کہ اختیار والوں کی طرف سے وضعکردہ اور عائدکردہ بےلوچ قوانین خوشی کا گلا گھونٹ دیتے ہیں جبکہ ساتھی کارندوں کے پیشکردہ مفید مشورے اس میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو کہ ”خداوند قریب ہے“ معقول شخص کو یاد دلانا چاہئے کہ ہمیں ’دوسرے کے نوکر پر الزام‘ نہیں لگانا ہے۔ ’اُسکا قائم رہنا یا گر پڑنا اُسکے مالک ہی سے متعلق ہے۔‘—رومیوں ۱۴:۴۔
۷، ۸. مسیحیوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کی توقع کیوں رکھنی چاہئے، لیکن پھر بھی اُنکے لئے خوش رہنا کس طرح ممکن ہے؟
۷ ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔“ (فلپیوں ۴:۶) ہم آجکل ایسے ”بُرے دنوں“ کا تجربہ کر رہے ہیں جنکی بابت پولسؔ نے لکھا۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) لہٰذا مسیحیوں کو مشکلات سے دوچار ہونے کی توقع رکھنی چاہئے۔ پولسؔ کے الفاظ ”ہر وقت خوش رہو“ اس امکان کو ختم نہیں کر دیتے کہ ایک وفادار مسیحی کبھیکبھار نااُمیدی یا حوصلہشکنی کے اوقات میں پڑ سکتا ہے۔ پولسؔ کے اپنے معاملے میں اُس نے حقیقتپسندی سے تسلیم کِیا: ”ہم ہر طرف سے مصیبت تو اُٹھاتے ہیں لیکن لاچار نہیں ہوتے۔ حیران تو ہوتے ہیں مگر نااُمید نہیں ہوتے۔ ستائے تو جاتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جاتے۔ گرائے تو جاتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہوتے۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۸، ۹) تاہم، ایک مسیحی کی خوشی پریشانی اور غم کے عارضی اوقات کی تکلیف کو کم کرتی اور بالآخر ختم کر دیتی ہے۔ خوش رہنے کی کئی وجوہات کو کبھی نظرانداز نہ کرتے ہوئے، یہ آگے بڑھتے رہنے کیلئے ضروری قوت عطا کرتی ہے۔
۸ جب مسائل اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اُنکی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو تو ایک مسرور مسیحی فروتنی کے ساتھ دعا کے ذریعے یہوؔواہ کی مدد کیلئے درخواست کرتا ہے۔ وہ سخت پریشانی میں دب نہیں جاتا۔ مسئلے کو حل کرنے کیلئے معقول طور پر جو کچھ وہ خود کر سکتا ہے اسے کرنے کے بعد وہ اس دعوت کے مطابق انجام کو یہوؔواہ کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتا ہے: ”اپنا بوجھ خداوند پر ڈالدے۔ وہ تجھے سنبھالیگا۔“ اسی دوران میں وہ مسیحی شخص یہوؔواہ کی تمام نیکی کیلئے شکر بجا لانا جاری رکھتا ہے۔—زبور ۵۵:۲۲؛ نیز دیکھیں متی ۶:۲۵-۳۴۔
۹. سچائی کا علم ذہنی سکون کیسے عطا کرتا ہے اور ایک مسیحی پر یہ کونسا اچھا اثر ڈالتا ہے؟
۹ ”خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔“ (فلپیوں ۴:۷) بائبل سچائی کا علم ایک مسیحی کے ذہن کو دروغگوئی سے آزاد کرتا اور سوچ کے صحتمند نمونوں کو فروغ دینے میں اُس کی مدد کرتا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۱:۱۳) یوں غلط یا غیردانشمندانہ طرزِعمل سے بچنے میں اُسکی مدد ہوتی ہے جو دوسروں کے ساتھ پُرامن تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ناانصافی اور بدکاری سے مایوس ہونے کی بجائے وہ بادشاہت کے ذریعے نوعِانسانی کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے یہوؔواہ پر اپنا بھروسہ رکھتا ہے۔ ایسا ذہنی سکون اُسکے دل کی حفاظت کرتا، اُس کے محرکات کو پاکوصاف رکھتا اور اُس کی سوچ کو راستی کی راہ میں لے چلتا ہے۔ اس کے بدلے میں، پاکوصاف محرکات اور راست سوچ اس بدنظم دنیا کی طرف سے لائے گئے مسائل اور بوجھوں کے باوجود خوش رہنے کیلئے بیشمار وجوہات فراہم کرتے ہیں۔
۱۰. صرف کس چیز کی بابت سوچنے اور گفتگو کرنے سے سچی خوشی کا تجربہ کِیا جا سکتا ہے؟
۱۰ ”غرض اَے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔“ (فلپیوں ۴:۸) ایک مسیحی بُری چیزوں کی بابت بات کرنے یا سوچنے میں کوئی خوشی نہیں پاتا۔ یہ خودبخود ہی ایسی بہت سی تفریح کو ختم کر ڈالتا ہے جو دنیا مہیا کرتی ہے۔ کوئی بھی شخص اگر وہ اپنے دلودماغ کو جھوٹ، احمقانہ ٹھٹھابازی اور ایسے معاملات سے بھرتا ہے جو ناراست، بداخلاق، نیکی سے عاری، نفرتانگیز اور گھناؤنے ہیں تو وہ مسیحی خوشی کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہوئے، کوئی بھی اپنے دلودماغ کو غلاظت کیساتھ بھرنے سے حقیقی خوشی حاصل نہیں کر سکتا۔ شیطان کی بدعنوان دنیا میں یہ جاننا کس قدر تقویتبخش ہے کہ مسیحیوں کے پاس سوچنے اور گفتگو کرنے کیلئے بہت سی اچھی چیزیں ہیں!
خوش رہنے کی بیشمار وجوہات
۱۱. (ا) کس بات کو کبھی بھی معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے اور کیوں نہیں؟ (ب) بینالاقوامی کنونشن پر حاضری نے ایک مندوب اور اُسکی بیوی پر کیا اثر کِیا؟
۱۱ خوش رہنے کی وجوہات کے متعلق بات کرتے ہوئے، آئیں اپنی بینالاقوامی برادری کو نہ بھولیں۔ (۱-پطرس ۲:۱۷) جبکہ دنیا کے قومی اور نسلیاتی گروہ ایک دوسرے کیلئے شدید نفرت ظاہر کرتے ہیں، خدا کے لوگ محبت میں ایک دوسرے کے قریبتر ہوتے جاتے ہیں۔ بینالاقوامی کنونشنوں پر اُنکا اتحاد خاص طور پر نمایاں ہوتا ہے۔ ۱۹۹۳ میں کیاِیو، یوکرین میں منعقد ہونے والے ایک کنونشن کی بابت ریاستہائے متحدہ کے ایک مندوب نے لکھا: ”خوشی کے آنسو، درخشاں آنکھیں، خانداننما بغلگیریوں کا مسلسل تانتا اور رنگین چھتریاں اور رومالوں کو ہلاتے ہوئے گروہوں کی طرف سے گراؤنڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھیجے جانے والے پیغاماتِتہنیت تھیوکریٹک اتحاد کی واضح شہادت تھے۔ عالمگیر برادری کی صورت میں یہوؔواہ نے جو کچھ معجزانہ طور پر سرانجام دیا تھا اُس پر ہمارے دلوں کو بڑا فخر محسوس ہوا۔ اس نے میرے اور میری بیوی کے دل پر گہرا اثر کِیا اور ہمارے ایمان میں نئی وسعتوں کا اضافہ کر دیا۔“
۱۲. عین ہماری آنکھوں کے سامنے یسعیاہ ۶۰:۲۲ کیسے پوری ہوئی ہے؟
۱۲ آجکل مسیحیوں کیلئے عین اپنی آنکھوں کے سامنے بائبل پیشینگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنا کتنا ایمانافزا ہے! مثال کے طور پر، یسعیاہ ۶۰:۲۲ کے الفاظ پر غور کریں: ”سب سے چھوٹا ایک ہزار ہو جائیگا اور سب سے حقیر ایک زبردست قوم۔ میں خداوند عین وقت پر یہ سب کچھ جلد کرونگا۔“ ۱۹۱۴ میں بادشاہت کی پیدائش کے وقت پر صرف ۵،۱۰۰—سب سے چھوٹا—گرمجوشی سے منادی کر رہے تھے۔ لیکن گزشتہ پانچ سالوں کے دوران عالمگیر برادری کی وسعت میں ہر ہفتے ۵،۶۲۸ نئے بپتسمہیافتہ گواہوں کی اوسط شرح سے اضافہ ہو رہا ہے! ۱۹۹۳ میں، ۴۷،۰۹،۸۸۹ سرگرم خادموں کی انتہائی تعداد حاصل ہوئی۔ ذرا سوچیں! اس کا مطلب ہے کہ ۱۹۱۴ کا ”سب سے چھوٹا“ حقیقت میں ”ایک ہزار“ بننے کے قریب ہے!
۱۳. (ا) ۱۹۱۴ سے لیکر کیا واقع ہوتا رہا ہے؟ (ب) ۲-کرنتھیوں ۹:۷ میں پولسؔ کے الفاظ کے اصول کو یہوؔواہ کے گواہ کسطرح سمجھتے ہیں؟
۱۳ ۱۹۱۴ سے مسیحائی بادشاہ اپنے دشمنوں کے درمیان حکمرانی کر رہا ہے۔ اُس کی حکمرانی کی حمایت رضامند انسانی پیروکاروں نے کی ہے جو عالمگیر منادی کے کام اور ایک بینالاقوامی تعمیراتی مہم کو جاری رکھنے کیلئے وقت، توانائی اور پیسہ فراہم کرتے ہیں۔ (زبور ۱۱۰:۲، ۳) یہوؔواہ کے گواہ خوش ہیں کہ ان کارگزاریوں کو تکمیل تک پہنچتے ہوئے دیکھنے کیلئے عطیات دئے گئے ہیں، اگرچہ اُنکے اجلاسوں پر شاذونادر ہی پیسے کا ذکر ہوتا ہے۔a (مقابلہ کریں ۱-تواریخ ۲۹:۹۔) سچے مسیحیوں کو دینے کیلئے اُکساہٹ کی ضرورت نہیں ہے؛ وہ جس حد تک اُنکے حالات اجازت دیتے ہیں یعنی ہر ایک ”جس قدر [اُس] نے اپنے دل میں ٹھہرایا . . . نہ دریغ کرکے نہ لاچاری سے،“ اپنے بادشاہ کی حمایت کرنے کو ایک شرف خیال کرتے ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۹:۷۔
۱۴. ۱۹۱۹ سے لیکر کونسی حالت خدا کے لوگوں کے درمیان واضح ہو گئی ہے، جس نے اُنہیں خوش رہنے کی کونسی وجہ دی ہے؟
۱۴ خدا کے لوگوں کے درمیان سچی پرستش کی پہلے سے بیانکردہ بحالی ایک روحانی فردوس کے وجود میں آنے پر منتج ہوئی ہے۔ ۱۹۱۹ سے اس نے بتدریج اپنی حدود کو وسیع کر لیا ہے۔ (زبور ۱۴:۷؛ یسعیاہ ۵۲:۹، ۱۰) نتیجہ؟ سچے مسیحی ”خوشی اور شادمانی“ کا تجربہ کرتے ہیں۔ (یسعیاہ ۵۱:۱۱) ناکامل انسانوں کے ذریعے خدا کی روحالقدس جو کچھ انجام دینے کے لائق ہے اس سے حاصل ہونے والا اچھا نتیجہ اُسکا ثبوت ہے۔ تمام نیکنامی اور تعظیم یہوؔواہ ہی کو جاتی ہے، لیکن خدا کے ساتھ کام کرنے والے ہونے سے بڑھکر اور کونسا شرف ہو سکتا ہے؟ (۱-کرنتھیوں ۳:۹) یہوؔواہ اتنا طاقتور ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو پتھروں سے سچائی کے پیغام کا چرچا کروائے۔ تاہم، اُس نے مناسب سمجھا کہ اس طریقکار کی جانب رجوع نہ کِیا جائے بلکہ اسکے برعکس رضامند خاکی مخلوقات کو تحریک دی جائے کہ اس کی مرضی پوری کرے۔—لوقا ۱۹:۴۰۔
۱۵. (ا) کن جدید واقعات کی ہم دلچسپی کے ساتھ سمجھ حاصل کرتے ہیں؟ (ب) خوشی کے ساتھ ہم کس واقعہ کے منتظر ہیں؟
۱۵ احترام سے معمور ہو کر، یہوؔواہ کے خادم نمایاں بائبل پیشینگوئیوں سے متعلق دنیا کے واقعات پر نگاہ رکھتے ہیں۔ قومیں پائیدار امن حاصل کرنے کیلئے سخت کوشش کر رہی ہیں—لیکن بےسود۔ واقعات اُنہیں مجبور کر رہے ہیں کہ دنیا کے مصیبتزدہ مقامات پر کارروائی کرنے کیلئے اقوامِمتحدہ کی تنظیم پر بھروسہ کریں۔ (مکاشفہ ۱۳:۱۵-۱۷) اسی دوران میں، پہلے ہی سے خدا کے لوگ رُونما ہونے والے خوشکُن واقعات میں سے سب سے بڑے واقعہ کے بڑی اُمید کے ساتھ منتظر ہیں، ایسا واقعہ جو ہر روز قریب آ رہا ہے۔ ”آؤ ہم خوشی کریں اور نہایت شادمان ہوں اور اُسکی تمجید کریں۔ اسلئے کہ برہ کی شادی آ پہنچی اور اُسکی بیوی نے اپنے آپ کو تیار کر لیا۔“—مکاشفہ ۱۹:۷۔
منادی—ایک بوجھ یا خوشی؟
۱۶. واضح کریں کہ ایک مسیحی نے جو کچھ سیکھا ہے اُس پر عمل کرنے سے قاصر رہنا کیسے اُس سے اُسکی خوشی کو چھین سکتا ہے۔
۱۶ ”جو باتیں تمنے مجھ سے سیکھیں اور حاصل کیں اور سُنیں اور مجھ میں دیکھیں اُن پر عمل کِیا کرو تو خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے تمہارے ساتھ رہیگا۔“ (فلپیوں ۴:۹) جو کچھ اُنہوں نے سیکھا ہے اُس پر عمل کرنے سے، مسیحی خدا کی برکت حاصل کرنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ اُن اہمترین باتوں میں سے ایک جو اُنہوں نے سیکھی ہے وہ دوسروں کو خوشخبری کی منادی کرنے کی ضرورت ہے۔ بےشک، کون ہے جو ذہنی سکون سے لطفاندوز ہو سکتا یا خوش ہو سکتا ہے اگر وہ معلومات کو ایسے خلوصدل لوگوں سے روکے رکھتا ہے جنکی زندگیوں کا انحصار انکے سننے پر ہی ہے؟—حزقیایل ۳:۱۷-۲۱؛ ۱-کرنتھیوں ۹:۱۶؛ ۱-تیمتھیس ۴:۱۶۔
۱۷. ہماری منادی کی کارگزاری کو ہمیشہ خوشی کا ذریعہ کیوں ہونا چاہئے؟
۱۷ یہوؔواہ کی بابت سیکھنے کیلئے آمادہ بھیڑ خصلت لوگوں کو تلاش کرنا کتنی خوشی کی بات ہے! یقیناً، وہ جو درست محرک کے ساتھ خدمت کر رہے ہیں بادشاہتی خدمت کو ہمیشہ خوشی کا ایک ذریعہ پائینگے۔ یہ اس لئے ہے کہ یہوؔواہ کا ایک گواہ ہونے کی بنیادی وجہ اُس کے نام کی تمجید کرنا اور حاکمِاعلیٰ کے طور پر اُسکے مرتبے کو سربلند رکھنا ہے۔ (۱-تواریخ ۱۶:۳۱) جو شخص اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے وہ اُس وقت بھی خوش ہوگا جب لوگ اُس خوشخبری کو ردّ کرینگے جسے وہ لاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن بےایمانوں کو منادی کرنا ختم ہو جائیگا؛ یہوؔواہ کے نام کی تمجید کرنا ابد تک جاری رہیگا۔
۱۸. یہوؔواہ کی مرضی کو پورا کرنے کیلئے کونسی چیز ایک مسیحی کو متحرک کرتی ہے؟
۱۸ سچا مذہب ایسے لوگوں کو تحریک دیتا ہے جو ایسے کام کرنے کے لئے اس پر عمل کرتے ہیں جنکا یہوؔواہ تقاضا کرتا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں، بلکہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ (زبور ۴۰:۸؛ یوحنا ۴:۳۴) بہتیرے لوگ اس کو سمجھنا مشکل پاتے ہیں۔ ایک عورت نے اپنے گھر آنے والی گواہ خاتون سے ایک مرتبہ کہا: ”آپ کو پتہ ہے کہ آپ تعریف کی مستحق ہیں۔ جس طرح آپ کر رہی ہیں میں تو کبھی بھی اپنے مذہب کی بابت منادی کرنے کے لئے گھرباگھر نہیں جاتی۔“ گواہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ”میں آپ کے احساس کو سمجھ سکتی ہوں۔ یہوؔواہ کی گواہ بننے سے پہلے، مذہب کی بابت گفتگو کرنے کے لئے آپ مجھے دوسرے لوگوں کے پاس بھیج نہیں سکتی تھیں۔ لیکن اب میں جانا چاہتی ہوں۔“ عورت نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر یہ رائے دی: ”ظاہر ہے کہ آپ کے مذہب کے پاس پیش کرنے کیلئے کوئی ایسی چیز ہے جو میرے مذہب کے پاس نہیں۔ شاید مجھے تحقیق کرنی چاہئے۔“
۱۹. پہلے کی نسبت اب خوش ہونے کا وقت کیوں ہے؟
۱۹ ۱۹۹۴ کی سالانہ آیت ہمارے کنگڈم ہالوں میں نمایاں طور پر آویزاں کی گئی ہے جو ہر وقت ہمیں یاد دلاتی ہے: ”اپنے سارے دل سے یہوؔواہ پر توکل کر۔“ (امثال ۳:۵، اینڈبلیو) اپنا توکل اپنے قلعے، یہوؔواہ پر رکھنے کے قابل ہونے کی نسبت جس میں ہم پناہ لیتے ہیں خوش ہونے کی کوئی اَور بڑی وجہ ہو سکتی ہے؟ زبور ۶۴:۱۰ وضاحت کرتی ہے: ”صادق خداوند میں شادمان ہوگا اور اُس پر توکل کریگا۔“ یہ پسوپیش کرنے یا ہمت ہارنے کا وقت نہیں ہے۔ گزرنے والا ہر مہینہ ہمیں اُس حقیقت کے قریبتر لے جاتا ہے جس کو دیکھنے کی آرزو یہوؔواہ کے خادموں نے ہابلؔ کے دنوں سے کی ہے۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ پہلے ہمارے پاس خوش رہنے کی اتنی زیادہ وجوہات نہیں تھیں، اب وقت ہے کہ ہم اپنے سارے دل سے یہوؔواہ پر توکل کریں!
[فٹنوٹ]
a کنونشنوں پر اور کلیسیاؤں کے اندر مہینے میں ایک بار، حاصل ہونے والے رضاکارانہ عطیات اور اخراجات کی رقم بتانے والی ایک مختصر رپورٹ کو پڑھا جاتا ہے۔ تاہم کبھیکبھار یہ سمجھانے کیلئے خطوط ارسال کئے جاتے ہیں کہ ان عطیات کو کیسے استعمال کِیا جا رہا ہے۔ یوں ہر ایک کو یہوؔواہ کے گواہوں کے عالمگیر کام کی مالی حالت کی بابت آگاہ کِیا جاتا ہے۔ (۱۳ ۹/۱ w۹۴)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ نحمیاہ ۸:۱۰ کے مطابق، ہمیں خوش کیوں رہنا چاہئے؟
▫ استثنا ۲۶:۱۱ اور ۲۸:۴۵-۴۷ خوش ہونے کی اہمیت کو کسطرح واضح کرتی ہیں؟
▫ ہمیشہ خوش رہنے میں فلپیوں ۴:۴-۹ کیسے ہماری مدد کر سکتی ہیں؟
▫ ۱۹۹۴ کی سالانہ آیت خوش رہنے کیلئے ہمیں کونسی وجہ فراہم کرتی ہے؟
[تصویر]
روسی اور جرمن گواہ ایک بینالاقوامی برادری کا حصہ ہو نے سے خوش ہیں
[تصویر]
دوسروں کو سچائی میں شریک کرنا خوشی کا ذریعہ ہے