کیوں فروتنی سے ملبس ہوں؟
امریکی مصنف ایڈگر ایلن پو نے اپنے چند دوستوں کے سامنے اپنی نئی کہانی کو ابھی پڑھنا ختم ہی کیا تھا۔ انہوں نے مذاقاً کہا کہ اس نے ہیرو کا نام بہت زیادہ استعمال کیا تھا۔ پو نے کیسا ردعمل دکھایا تھا؟ ایک دوست یاد دلاتا ہے: ”اس کی متکبر طبع ایسی کھلمکھلا نکتہچینی کو برداشت نہ کر سکی، لہذا غصے میں آ کر، اس سے پہلے کہ اسکے دوست اسے روک سکتے، اس نے کہانی کے ہر ورق کو جلتی آگ میں پھینک دیا۔“ کہانی ضائع ہو چکی تھی جو ”بے حد دلچسپ اور اس کی حسبعادت . . . یاسوملال سے قطعی طور پر مبرا تھی۔“ شاید فروتنی نے اس کو بچا لیا ہوتا۔
اگرچہ تکبر لوگوں سے نادانی کی باتیں کرواتا ہے، یہ دنیا میں بڑا عام ہے۔ تاہم، یہوواہ کے خادموں کو مختلف ہونا چاہیے۔ انہیں فروتنی کے عمدہ لباس سے ملبس ہونا چاہیے۔
فروتنی کیا ہے؟
کُلسّے کے قدیم شہر میں ساتھی ایمانداروں کو لکھتے ہوئے پولس رسول نے فروتنی کے خوبصورت مسیحی لباس کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے تاکید کی: ”پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔“ کلسیوں۳:۱۲۔
جی ہاں، فروتنی ”ذہن کی انکساری“ ہے۔ یہ ”ذہن کی عاجزی، غرور کی کمی، حلم“ ہے۔ ایک فروتن شخص ”منکسرالمزاج ہوتا ہے نہ کہ مغرور۔“ وہ ”دل سے یا مہذبانہ طور پر مؤدب“ ہوتا ہے۔ (دی ورلڈ بک ڈکشنری، جلد۱، صفحہ ۱۰۳۰) فروتنی بزدلی یا کمزوری نہیں ہے۔ درحقیقت، غرور کمزوری کو منعکس کرتا ہے، جبکہ فروتنی دکھانے کے لیے اکثر جرأت اور طاقت درکار ہوتی ہے۔
صحائف میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”اپنے آپ کو فروتن بناؤ“ کیا گیا ہے اس کا لفظی مطلب ”اپنے آپکو دبا دینا“ ہے۔ پس، دانشمند امثالنویس نے صلاح دی تھی: ”اے میرے بیٹے، . . . اگر تو اپنے ہی منہ کی باتوں سے پکڑا گیا ہے، . . . تو اپنے آپکو بچالے، اس لیے کہ تو اپنے پڑوسی کے ہاتھ میں پھنس گیا ہے: جا اپنے آپکو فروتن بنا [اپنے آپ کو دبا کر] اور اپنے پڑوسی سے خوب اصرار کر۔“ (امثال ۶:۱-۳، NW) یعنی غرور کو دور کریں، اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں، اور معاملے کو سلجھائیں۔
اسے اصلی ہونا چاہیے
سب لوگ جو فروتن دکھائی دیتے ہیں ان میں اصلی فروتنی نہیں ہوتی۔ بظاہر فروتن دکھائی دینے والے افراد حقیقت میں مغرور ہو سکتے ہیں اور اپنا مقصد حاصل کیے بغیر نہیں رکیں گے۔ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کو متأثر کرنے کے لیے جعلی فروتنی کا لبادہ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پولس رسول کو بعض ایسے ”نقلی فروتنی“ ظاہر کرنے والے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا، اور اس نے ظاہر کیا ایسا کرنے والا کوئی بھی شخص درحقیقت ”اپنی جسمانی عقل پر بیفائدہ پھول“ گیا تھا۔ ایسے شخص نے غلط طور پر سوچ لیا تھا کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ آیا وہ بعض چیزیں کھاتا، پیتا، یا انہیں چھوتا یا مذہبی دنوں کو مانتا تھا یا نہیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ پارسا اور فروتن دکھائی دیتا ہوگا مگر اسکی جعلی فروتنی بیکار تھی۔ (کلسیوں ۲:۱۸، ۲۳) دراصل، یہ اس کے لیے یہ سوچنے کا سبب بنا کہ زندگی کا انعام ان لوگوں کو دیا گیا تھا جنہوں نے جسمانی چیزوں کو ترک کر دیا تھا۔ اس نے ایک پراسرار قسم کی مادہپرستی کو جنم دیا کیونکہ زاہدانہ ممانعتوں نے جسمانی چیزوں پر توجہ مرکوز کی جن کے حقیر جاننے کا اس نے دعویٰ کیا تھا۔
دوسری جانب، اصلی فروتنی ایک شخص کو لباس، آرایشوزیبایش، اور اسلوبزندگی میں خودبینی ظاہر کرنے سے روکتی ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) فروتنی کے لباس میں ملبوس ایک شخص اپنی یا اپنی قابلیتوں کی طرف بےجا توجہ مبذول نہیں کراتا۔ بلکہ، فروتنی اس کی مدد کرتی ہے کہ دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئے اور خود کو ویسا ہی سمجھے جیسا کہ خدا اسے سمجھتا ہے۔ اور یہ کس طرح ہے؟
یہوواہ کا نظریہ
جب سموئیل نبی اسرائیل کی قوم کے لیے ایک نئے بادشاہ کو مسح کرنے والا تھا تو اس نے سوچا کہ یسی کا بیٹا الیاب ہی یہوواہ کا انتخاب تھا۔ مگر خدا نے سموئیل کو بتایا: ”تو اسکے چہرہ اور اسکے قد کی بلندی کو نہ دیکھ اس لیے کہ میں نے اسے ناپسند کیا ہے۔ کیونکہ خدا انسان کی مانند نظر نہیں کرتا اس لیے کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [یہوواہ] دل پر نظر کرتا ہے۔“ یسی کے بیٹوں میں سے سات رد کر دیے گئے۔ داؤد خدا کا انتخاب تھا جو ایمانداری اور فروتنی والا انسان ثابت ہوا تھا۔ ۱-سموئیل ۱۳:۱۴، ۱۶:۴-۱۳۔
فروتنی کا لباس ہمیں مغرور، شوخچشم اور خدا کا ناپسندیدہ بننے سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ ”مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ (یعقوب ۴:۶) اس کا نظریہ زبورنویس کے الفاظ میں ظاہر کیا گیا ہے: ”یہوواہ اگرچہ بلندوبالا ہے تو بھی فروتن کا خیال رکھتا ہے لیکن مغرور کو دور ہی سے پہچان لیتا ہے۔“ (زبور ۱۳۸:۶، ۱-پطرس ۵:۵، ۶، NW) خدا اپنے خادموں سے جو توقع کرتا ہے وہ اس سوال سے عیاں ہے جو میکاہ ۶:۸ میں پیش کیا گیا ہے: ”[یہوواہ] تجھ سے اس کے سوا اور کیا مانگ رہا ہے کہ تو انصاف کرے اور مہربانی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور انکساری سے چلے۔“ (NW)
خدا اور مسیح نے ظاہر کی
تعجب نہیں کہ یہوواہ ہم سے فروتنی دکھانے کی توقع کرتا ہے! یہ اس کی اپنی صفات میں سے ایک ہے۔ جب خدا نے داؤد کو اس کے دشمنوں سے چھڑایا تو اس نے یہ گیت گایا تھا: ”تو [یہوواہ] مجھے نجات کی سپر بخشے گا، . . . اور تیری ہی فروتنی مجھے بزرگ بنائے گی۔“ (زبور ۱۸:۳۵، NW، ۲-سموئیل ۲۲:۱، ۳۶) اگرچہ یہوواہ بلندترین آسمانوں میں ہے تو بھی وہ ”فروتنی سے زمین پر نظر کرتا ہے وہ مسکین کو خاک سے، اور محتاج کو مزبلہ پر سے اٹھا لیتا ہے تاکہ اسے امرا کے ساتھ بٹھائے۔“ (زبور ۱۱۳: ۵-۸) خدا گنہگار بنیآدم کے ساتھ رحم سے پیش آنے سے فروتنی دکھاتا ہے۔ گنہگاروں کے ساتھ اس کا برتاؤ اور گناہوں کے لیے اپنے بیٹے کو بطور قربانی دے دینا اسکی فروتنی، محبت، اور دیگر صفات کے اظہارات ہیں۔ رومیوں ۵:۸، ۸:۲۰، ۲۱۔
یسوع مسیح جو ”دل کا فروتن اور حلیم“ تھا اس نے فروتنی کی عظیمترین انسانی مثال قائم کی تھی۔ (متی ۱۱:۲۹) اس نے اپنے شاگردوں کو بتایا: ”جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔“ (متی ۲۳:۱۲) یہ محض قائل کرنے والا طرزبیاں نہ تھا۔ اپنے مرنے سے پہلے کی رات کو یسوع نے اپنے رسولوں کے پاؤں دھوئے تھے اور ایسی خدمت انجام دی جو دستور کے مطابق نوکر انجام دیتے تھے۔ (یوحنا ۱۳:۲-۵، ۱۲-۱۷) یسوع نے زمین پر آنے سے پہلے خدا کی خدمت فروتنی سے کی تھی اور آسمان میں بلندوبالا مرتبہ کی جانب اپنے مردوں میں سے جی اٹھنے کے وقت سے فروتنی دکھائی ہے۔ پس پولس نے ساتھی ایمانداروں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ”دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھیں“ اور یسوع مسیح والا فروتن مزاج رکھیں۔ فلپیوں ۲:۳، ۵-۱۱۔
چونکہ خدا اور مسیح فروتنی دکھاتے ہیں، ضرور ہے کہ الہیٰ خوشنودی کے خواہشمند لوگ اس خوبی کو ظاہر کریں۔ اگر ہم بعض اوقات متکبر رہے ہیں تو یہ دانشمندی کی بات ہو گی کہ خود کو فروتن بنائیں اور خدا سے معافی کے لیے دعا کریں۔ (مقابلہ کریں ۲-تواریخ ۳۲:۲۴-۲۶۔) اور اپنی بابت نمائشی خیال باندھنے کی بجائے، ہمیں پولس کی صلاح پر عمل کرنے کی ضرورت ہے: ”اونچے اونچے خیال نہ باندھو بلکہ ادنیٰ [چیزوں] کی طرف متوجہ ہو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۶) تاہم، فروتنی ہم کو اور دوسروں کو کیسے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟
فروتنی کے فوائد
فروتنی کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ہمیں شیخی بگھارنے سے روکتی ہے۔ یوں ہم دوسروں کو جھنجھلاہٹ سے بچاتے ہیں اور ذاتی الجھن سے بچتے ہیں اگر وہ ہماری کامرانیوں کے گرویدہ نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنے آپ پر نہیں بلکہ یہوواہ پر فخر کرنا چاہیے۔ ۱-کرنتھیوں ۱:۳۱۔
فروتنی ہمیں خدائی راہنمائی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہوواہ نے ایک فرشتہ کو رویا کے ساتھ دانیایل کے پاس اس لیے بھیجا کیونکہ اس نبی نے خود کو خدا کے سامنے فروتن بنایا تھا جب وہ راہنمائی اور سمجھ کے لیے جستجو کر رہا تھا۔ (دانیایل ۱۰:۱۲) جب عزرا بہت سے سونے اور چاندی کے ساتھ یروشلیم میں ہیکل کو سجانے کے لیے یہوواہ کی امت کو بابل سے لے جانے کو تھا تو اس نے روزہ کی منادی کرائی تاکہ وہ خود کو خدا کے سامنے فروتن بنا سکیں۔ نتیجہ؟ یہوواہ نے خطرناک سفر کے دوران انہیں دشمن کے حملے سے محفوظ رکھا تھا۔ (عزرا ۸:۱-۱۴، ۲۱-۳۲) دانیایل اور عزرا کی طرح، آیئے ہم فروتنی دکھائیں اور اپنی ذاتی طاقت اور حکمت سے خداداد فرائض کو پورا کرنے کی بجائے یہوواہ کی ہدایت کے طالب ہوں۔
اگر ہم فروتنی کے لباس سے ملبس ہیں تو ہم دوسروں کا احترام کریں گے۔ مثال کے طور پر، فروتن بچے اپنے والدین کی عزت اور فرمانبرداری کرتے ہیں۔ فروتن مسیحی بھی دیگر اقوام، نسلوں، اور پسمنظر رکھنے والے اپنے ہمایمانوں کی عزت کرتے ہیں کیونکہ فروتنی ہمیں غیرطرفدار بناتی ہے۔ اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵، ۱۷:۲۶۔
فروتنی محبت اور صلح کو بڑھاتی ہے۔ ایک فروتن شخص اپنے مفروضہ حقوق کو منوانے کی کوشش میں ہمایمانوں کے ساتھ لڑائی نہیں کرتا۔ پولس نے صرف وہ کام کیے جو تعمیری تھے اور جو ایک بھائی کے ضمیر کو پریشان نہیں کریں گے۔ (رومیوں ۱۴:۱۹-۲۱، ۱-کرنتھیوں ۸:۹-۱۳، ۱۰:۲۳-۳۳) فروتنی دوسروں کو ہمارے خلاف ان کے گناہوں کے لیے معاف کر دینے سے محبت اور صلح کو ترقی دینے میں بھی ہماری مدد کرتی ہے۔ (متی ۶: ۱۲-۱۵، ۱۸:۲۱، ۲۲) یہ ہمیں آمادہ کرتی ہے کہ ناراض شخص کے پاس جائیں، اپنی غلطی کو تسلیم کریں، اس سے معافی مانگیں اور جو بھی زیادتی ہم سے ہو گئی ہے اس کو دور کرنے کے لیے جو کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں، کریں۔ (متی ۵:۲۳، ۲۴، لوقا ۱۹:۸) اگر کوئی ناراض شخص ہمارے پاس آتا ہے تو فروتنی ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ معاملات کو محبت کی روح سے صلحجوئی کے ساتھ طے کریں۔ متی ۱۸:۱۵، لوقا ۱۷:۳۔
نجات کا انحصار فروتنی دکھانے پر ہے۔ مثال کے طور پر، خدا کی بابت یہ کہا گیا ہے: ”[فروتن] لوگوں کو تو بچائیگا۔ پر تیری آنکھیں مغروروں پر لگی ہیں تاکہ تو انہیں نیچا کرے۔“ (۲-سموئیل ۲۲:۲۸) جب بادشاہ یسوع مسیح ”سچائی اور [فروتنی] اور صداقت کی خاطر سوار ہوتا ہے“ تو وہ ان لوگوں کو بچائیگا جو اپنے آپکو اس کے اور اسکے باپ کے حضور فروتن بناتے ہیں۔ (زبور ۴۵:۴) فروتنی دکھانے والے لوگ ان الفاظ میں تسلی پا سکتے ہیں: ”اے ملک کے سب حلیم لوگو جو [یہوواہ] کے احکام پر چلتے ہو اسکے طالب ہو! راستبازی کو ڈھونڈو۔ [حلم] تلاش کرو۔ شاید [یہوواہ] کے غضب کے دن تم کو پناہ ملے۔“ صفنیاہ ۲:۳۔
فروتنی اور خدا کی تنظیم
فروتنی خدا کے لوگوں کو اس کی تنظیم کی قدر کرنے اور راستی برقرار رکھنے والوں کے طور پر اس کے ساتھ رہنے کی طرف لے جاتی ہے۔ (مقابلہ کریں یوحنا ۶:۶۶-۶۹۔) اگر ہمیں کوئی خدمتی شرف نہیں دیا گیا جس کے حاصل کرنے کی ہمیں امید تھی تو فروتنی ہماری مدد کرتی ہے کہ کلیسیا کے اندر ذمہداری اٹھانے والوں کے ساتھ تعاون کریں۔ اور ہمارا عاجزانہ تعاون ایک اچھا نمونہ قائم کرتا ہے۔
دوسری جانب، فروتنی ہمیں یہوواہ کے لوگوں کے درمیان اپنی خدمتی رعایتوں کے سلسلے میں بےجا غرور دکھانے سے روکتی ہے۔ یہ ہمیں خدا کی تنظیم کے اندر اس کام کے لیے واہ واہ چاہنے سے روکتی ہے جس کے کرنے کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ اسکے علاوہ، اگر ہم بزرگوں کے طور پر خدمت انجام دے رہے ہیں تو فروتنی ہمیں خدا کے گلہ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے میں مدد دیتی ہے۔ اعمال ۲۰:۲۸، ۲۹، ۱-پطرس ۳:۸۔
فروتنی اور تنبیہ
فروتنی کا لباس تنبیہ قبول کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ فروتن لوگ یہوداہ کے بادشاہ عزیاہ کی مانند نہیں جس کا دل اس قدر متکبر ہو گیا تھا کہ اس نے کہانتی فرائض پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ اس نے ”یہوواہ کے خلاف بیوفائی کی اور بخور کی قربانگاہ پر بخور جلانے کے لیے ہیکل میں آیا۔“ کاہنوں کی طرف سے اس کی درستی ہونے پر جب عزیاہ کا غصہ بھڑکا تو اسے کوڑھ لگ گیا۔ فروتنی کی کمی کے لیے کتنی قیمت چکانی پڑی! (۲-تواریخ ۲۶:۱۶-۲۱، امثال ۱۶:۱۸) عزیاہ کی مانند کبھی نہ بنیں اور غرور کو کبھی موقع نہ دیں کہ آپکو خدا کی طرف سے اپنے کلام اور تنظیم کے ذریعے تنبیہ قبول کرنے سے باز رکھے۔
اس سلسلے میں پولس نے ممسوح عبرانی مسیحیوں سے کہا تھا: ”تم اس نصیحت کو بھول گئے ہو جو تمہیں فرزندوں کی طرح کی جاتی ہے کہ اے میرے بیٹے! [یہوواہ] کی تنبیہ کو ناچیز نہ جان اور جب وہ تجھے ملامت کرے تو بیدل نہ ہو کیونکہ جس سے [یہوواہ] محبت رکھتا ہے اسے تنبیہ بھی کرتا ہے اور جسکو بیٹا بنا لیتا ہے اسکے کوڑے بھی لگاتا ہے۔“. . . بالفعل ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث ہوتی ہے مگر جو اسکو سہتے سہتے پختہ ہو گئے ہیں انکو بعد میں چین کیساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔“ (عبرانیوں ۱۲:۵-۱۱) یہ بھی یاد رکھیں کہ ”تربیت کی ملامت حیات کی راہ ہے۔“ امثال ۶:۲۳۔
فروتنی سے ملبس رہیں
یہ کتنا اہم ہے کہ مسیحی ہمیشہ فروتنی کا لباس پہنیں! یہ ہمیں بادشاہتی منادوں کے طور پر ان لوگوں کی تلاش میں جو ”ہمیشہ کی زندگی کی طرف مائل ہیں“ گھرباگھر کی گواہی دینے میں ثابت قدم رہنے پر آمادہ کرتی ہے۔ (اعمال ۱۳:۴۸، ۲۰:۲۰، NW) یقیناً، فروتنی ہر اعتبار سے خدا کی فرمانبرداری کرتے رہنے میں ہماری مدد کرتی ہے، اگرچہ مغرور مخالفین ہماری راست روش سے نفرت کرتے ہیں۔ زبور ۳۴:۲۱۔
چونکہ فروتنی ہمیں ”اپنے سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر نے“ کی ترغیب دیتی ہے اس لیے وہ ہماری راہوں کو سیدھا رکھتا ہے۔ (امثال ۳:۵، ۶) درحقیقت، فقط اسی خوبی سے خود کو ملبس کرکے ہی ہم خدا کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں اور اسکی خوشنودی اور برکت سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے کہ شاگرد یعقوب نے لکھا: ”[یہوواہ] کے سامنے فروتنی کرو۔ وہ تمہیں سربلند کریگا۔“ (یعقوب ۴:۱۰) پس آئیے ہم یہوواہ کے بنائے ہوئے فروتنی کے اس خوبصورت لباس سے ملبس رہیں۔ (۲۷ ۷/۱۵ w۹۱)