مطالعے کا مضمون نمبر 21
گیت نمبر 21: خدا کی بادشاہت کو پہلا درجہ دیتے رہیں
اُس شہر کا شدت سے اِنتظار کریں جو قائم رہے گا
”ہم . . . اُس شہر کا شدت سے اِنتظار کر رہے ہیں جو آئے گا۔“—عبر 13:14۔
غور کریں کہ . . .
ہمیں عبرانیوں 13 باب میں لکھی باتوں سے ابھی اور مستقبل میں کیسے فائدہ ہو سکتا ہے۔
1. یسوع نے پہلی صدی عیسوی میں یروشلم کے حوالے سے کیا پیشگوئی کی تھی؟
یسوع مسیح نے اپنی موت سے کچھ دن پہلے اپنے شاگردوں کے سامنے ایک پیشگوئی کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات کی۔ یہ پیشگوئی پہلی بار اُس وقت پوری ہوئی جب یروشلم اور اِس میں موجود ہیکل کو تباہ کر دیا گیا۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا کہ ایک وقت آئے گا جب وہ ”یروشلیم کو فوجوں“ سے گِھرا ہوا دیکھیں گے۔ (لُو 21:20) یسوع نے اُنہیں بتایا کہ جیسے ہی وہ اِن فوجوں کو دیکھیں، وہ فوراً کے فوراً یہودیہ سے بھاگ جائیں۔ یسوع کی یہ پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ رومی فوج نے یروشلم کو گھیر لیا تھا۔—لُو 21:21، 22۔
2. پولُس رسول نے یہودیہ اور یروشلم میں رہنے والے عبرانی مسیحیوں کو کیا نصیحت کی؟
2 رومی فوج کے یروشلم کو گھیرنے سے کچھ سال پہلے پولُس رسول نے یہودیہ اور یروشلم میں رہنے والے مسیحیوں کو ایک خط لکھا جس میں اُنہوں نے اِن مسیحیوں کو ایک بہت ہی اہم پیغام دیا۔ آج یہ خط ”عبرانیوں کے نام خط“ سے جانا جاتا ہے۔ اِس خط میں پولُس نے مسیحیوں کو کچھ ایسی نصیحتیں کیں جن کی مدد سے وہ خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کر سکتے تھے۔ لیکن بہت جلد کیسا وقت آنے والا تھا؟ جلد ہی یروشلم نے تباہ ہو جانا تھا۔ تو اِس مشکل وقت میں خود کو بچانے کے لیے اِن مسیحیوں کو اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑنے کو تیار رہنا تھا۔ پولُس نے شہر یروشلم کے بارے میں لکھا: ”یہاں ہمارا کوئی شہر نہیں ہے جو قائم رہے گا۔“ پھر اُنہوں نے آگے کہا: ”بلکہ ہم تو اُس شہر کا شدت سے اِنتظار کر رہے ہیں جو آئے گا۔“—عبر 13:14۔
3. وہ کون سا شہر ہے ”جس کی بنیادیں پائیدار ہیں“ اور ہمیں اُس کا اِنتظار کیوں کرنا چاہیے؟
3 یقیناً بہت سے لوگوں نے اُن مسیحیوں کو بےوقوف کہا ہوگا اور اُن کا مذاق اُڑایا ہوگا جنہوں نے یہودیہ اور یروشلم چھوڑنے کا فیصلہ کِیا تھا۔ آج لوگ ہمارا بھی مذاق اُڑاتے ہیں کیونکہ ہم پیسے اور آرامدہ زندگی کی خواہش نہیں کرتے اور دُنیا کے مسئلوں سے نجات پانے کے لیے اِنسانوں پر آس نہیں لگاتے۔ لیکن ہم ایسا کرنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت جلد خدا کی بادشاہت اِس بُری دُنیا کو تباہ کر دے گی۔ ہم ’اُس شہر کا اِنتظار کر رہے ہیں جس کی بنیادیں پائیدار ہیں‘ اور جو بہت جلد آئے گا۔ یہ شہر خدا کی بادشاہت ہے۔a (عبر 11:10؛ متی 6:33) اِس مضمون کے ہر ذیلی عنوان میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے: (1)پولُس نے یہوواہ کی پاک روح کی رہنمائی میں پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو جو نصیحت کی، اُس کی مدد سے وہ مسیحی”اُس شہر کا شدت سے اِنتظار“ کیسے کر پائے جس نے آنا تھا؟ (2)پولُس نے اُن مسیحیوں کو یروشلم پر آنے والی تباہی کے لیے کیسے تیار کِیا؟ اور (3)پولُس کی نصیحت سے آج ہمیں کیسے فائدہ ہوتا ہے؟
اُس پر بھروسا کریں جو آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا
4. شہر یروشلم مسیحیوں کے لیے اِتنا اہم کیوں تھا؟
4 یروشلم مسیحیوں کی نظر میں ایک بہت اہم شہر تھا۔ مسیحیوں کی سب سے پہلی کلیسیا 33ء میں اِسی شہر میں قائم ہوئی تھی۔ اور اِسی شہر میں بھائیوں کی گورننگ باڈی بھی تھی۔ اِس کے علاوہ بہت سے مسیحیوں کے گھر اور جائیدادیں بھی اِسی شہر میں تھیں۔ لیکن یسوع نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کِیا کہ اُنہیں یروشلم سے، یہاں تک کہ یہودیہ سے بھی نکل جانا ہوگا۔—متی 24:16۔
5. یروشلم کے ساتھ جو کچھ ہونے والا تھا، اُس کے لیے پولُس نے مسیحیوں کو کیسے تیار کِیا؟
5 پولُس چاہتے تھے کہ مسیحی شہر یروشلم کو چھوڑنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے اِن مسیحیوں کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ یہوواہ شہر یروشلم کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے۔ اُنہوں نے مسیحیوں کو یاد دِلایا کہ اب یہوواہ ہیکل کو، کاہنوں کی خدمت کو اور ہیکل میں پیش کی جانے والی قربانیوں کو قبول نہیں کرتا۔ (عبر 8:13) اِس شہر کے زیادہتر لوگوں نے مسیح کو قبول نہیں کِیا تھا۔ اب یروشلم میں موجود ہیکل یہوواہ کی پاک عبادت کا مرکز نہیں رہی تھی اور اِس نے بہت جلد تباہ ہو جانا تھا۔—لُو 13:34، 35۔
6. مسیحیوں کو اُس نصیحت کی ضرورت کیوں تھی جو پولُس نے اُنہیں عبرانیوں 13:5، 6 میں کی؟
6 جب پولُس نے عبرانی مسیحیوں کو خط لکھا تو اُس زمانے میں بہت سے لوگ شہر یروشلم میں رہنا پسند کرتے تھے اور وہاں گھومنے پھرنے کے لیے بھی جاتے تھے۔ اُس زمانے میں رہنے والے ایک رومی مصنف نے یروشلم کے بارے میں بتایا کہ یہ ”دُنیا کے مشرقی حصے کا سب سے جانا مانا شہر تھا۔“ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہودی ہر سال کئی بار یروشلم میں عیدیں منانے کے لیے جاتے تھے اور وہاں جا کر اپنا پیسہ پانی کی طرح بہاتے تھے۔ اِس وجہ سے اِس شہر کی مالی حالت بہت اچھی تھی۔ بےشک وہاں رہنے والے مسیحی بھی کافی پیسہ کما لیتے ہوں گے۔ شاید اِسی لیے پولُس نے اِن مسیحیوں سے کہا: ”آپ کی زندگی سے ظاہر ہو کہ آپ کو پیسے سے پیار نہیں ہے بلکہ آپ اُن چیزوں سے مطمئن ہیں جو آپ کے پاس ہیں۔“ اِس کے بعد پولُس نے اُس آیت کا حوالہ دیا جس میں یہوواہ نے اپنے ہر بندے کو یہ ضمانت دی ہے: ”مَیں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ مَیں تمہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔“ (عبرانیوں 13:5، 6 کو پڑھیں؛ اِست 31:6؛ زبور 118:6) یہودیہ اور یروشلم میں رہنے والے مسیحیوں کو بعد میں یہوواہ کے اِس وعدے کو یاد رکھنے کی بہت ضرورت تھی۔ کیوں؟ کیونکہ اِس خط کے ملنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد اِن مسیحیوں کو اپنا گھر، کاروبار، پیسے اور چیزوں کو چھوڑ دینا تھا اور اِس کے بعد ایک نئی جگہ پر ایک نئی زندگی شروع کرنی تھی۔ اور ایسا کرنا اُن کے لیے بالکل بھی آسان نہیں ہونا تھا۔
7. ہمیں ابھی یہوواہ پر اپنے بھروسے کو مضبوط کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
7 ہم کیا سیکھتے ہیں؟ بہت جلد ”بڑی مصیبت“ شروع ہو جائے گی اور پھر اِس بُری دُنیا کو تباہ کر دیا جائے گا۔ (متی 24:21) پہلی صدی عیسوی کے یروشلم کے مسیحیوں کی طرح ہمیں بھی یہوواہ کا وفادار رہنے اور آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ (لُو 21:34-36) بڑی مصیبت کے دوران شاید ہمیں اپنا گھر یا پھر سب کچھ چھوڑنا پڑے۔ ایسے وقت میں ہمیں اِس بات پر مکمل بھروسا کرنا ہوگا کہ یہوواہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ ہمارے پاس تو بڑی مصیبت کے شروع ہونے سے پہلے ہی یہ ثابت کرنے کا موقع ہے کہ ہم یہوواہ پر کتنا بھروسا کرتے ہیں۔ خود سے پوچھیں: ”کیا میرے کاموں اور فیصلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مَیں مالودولت پر نہیں بلکہ اپنے خدا پر بھروسا کرتا ہوں جس نے مجھ سے وعدہ کِیا ہے کہ وہ میرا خیال رکھے گا؟“ (1-تیم 6:17) بےشک پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں ”بڑی مصیبت“ کے دوران یہوواہ کا وفادار رہنے کی ہمت ملے گی۔ لیکن اُس دوران ہمیں اِتنا مشکل وقت دیکھنا پڑے گا جتنا پہلے کبھی کسی مسیحی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ تو ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ جب بڑی مصیبت شروع ہوگی تو اُس وقت ہمیں ٹھیک کیا کرنا ہوگا؟
پیشوائی کرنے والوں کی فرمانبرداری کریں
8. یسوع نے اپنے شاگردوں کو کیا ہدایتیں دیں؟
8 جب عبرانی مسیحیوں کو پولُس کا خط ملا تو اِس کے کچھ ہی سال بعد مسیحیوں نے دیکھا کہ رومی فوجیوں نے شہر یروشلم کو گھیر لیا ہے۔ مسیحیوں کے لیے یہ اِس بات کا نشان تھا کہ اب اُنہیں وہاں سے بھاگ جانا چاہیے کیونکہ یروشلم تباہ ہونے والا تھا۔ (متی 24:3؛ لُو 21:20، 24) لیکن اُنہیں بھاگ کر جانا کہاں تھا؟ یسوع مسیح نے اُنہیں صاف اور سادہ لفظوں میں بتایا تھا کہ ”جو لوگ یہودیہ میں ہوں، وہ پہاڑوں کی طرف بھاگیں۔“ (لُو 21:21) لیکن وہاں تو بہت سے پہاڑ تھے۔ تو پھر وہ مسیحی یہ کیسے پتہ لگا سکتے تھے کہ اُنہیں کن پہاڑوں پر بھاگ جانا چاہیے؟
9. مسیحیوں نے یہ کیوں سوچا ہوگا کہ اُنہیں کن پہاڑوں پر بھاگ جانا چاہیے؟ (نقشے کو بھی دیکھیں۔)
9 ذرا کچھ ایسے پہاڑوں پر غور کریں جن پر یروشلم اور یہودیہ میں رہنے والے مسیحی بھاگ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ سامریہ کے پہاڑوں، گلیل کے پہاڑوں، کوہِحرمون، لبنان کے پہاڑوں اور دریائےاُردن کے پار کے پہاڑوں پر بھاگ سکتے تھے۔ (نقشے کو دیکھیں۔) اِن پہاڑی علاقوں پر بنے کچھ شہروں کو دیکھ کر ایسا لگ سکتا تھا کہ وہاں جانا محفوظ رہتا۔ ذرا شہر گاملہ کے بارے میں سوچیں۔ یہ شہر ایک اُونچے پہاڑ پر بنا تھا جو بہت ہی ناہموار اور کُھردرا تھا۔ تو اِس شہر تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔ کچھ یہودیوں کو لگ رہا تھا کہ یہ شہر پناہ لینے کے لیے بہترین جگہ ثابت ہوگا۔ لیکن رومی فوج نے اُس شہر پر حملہ کر کے اُسے تباہ کر دیا اور وہاں رہنے والے بہت سے لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے۔b
ایسے بہت سے پہاڑی علاقے تھے جہاں پہلی صدی عیسوی کے مسیحی پناہ لینے کے لیے بھاگ سکتے تھے لیکن وہ اِتنے محفوظ نہیں تھے۔ (پیراگراف نمبر 9 کو دیکھیں۔)
10-11. (الف)یہوواہ نے مسیحیوں کی رہنمائی غالباً کیسے کی ہوگی؟ (عبرانیوں 13:7، 17) (ب)مسیحیوں کو اُن بھائیوں کی فرمانبرداری کرنے سے کیسے فائدہ ہوا جو اُس وقت اُن کی پیشوائی کر رہے تھے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
10 ایسا لگتا ہے کہ یہوواہ نے مسیحیوں کی رہنمائی اُن بھائیوں کے ذریعے کی جو کلیسیا میں پیشوائی کر رہے تھے۔ بعد میں یوسابیوس نام کے تاریخدان نے بتایا کہ خدا نے یروشلم کے کچھ بھائیوں پر ظاہر کِیا کہ مسیحیوں کو یروشلم چھوڑ کر شہر پیلا بھاگ جانا چاہیے جو پیریہ کے علاقے میں تھا۔ مسیحیوں کے لیے شہر پیلا سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔ اِس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ یروشلم سے زیادہ دُور نہیں تھا اِس لیے وہاں آسانی سے پہنچا جا سکتا تھا۔ اور دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ وہاں زیادہتر لوگ غیریہودی تھے جو فسادی یہودیوں کی طرح رومیوں کی مخالفت نہیں کر رہے تھے۔—نقشے کو دیکھیں۔
11 جو مسیحی پہاڑوں پر بھاگ گئے تھے، اُنہوں نے پولُس کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ’اُن لوگوں کی فرمانبرداری اور تابعداری کی جو اُن کی پیشوائی‘ کر رہے تھے۔ (عبرانیوں 13:7، 17 کو پڑھیں۔) اِس کے نتیجے میں اُن کی جانیں بچ گئیں۔ پوری اِنسانی تاریخ میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہوواہ اُن لوگوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا جو ’اُس شہر کا اِنتظار کرتے ہیں جس کی بنیادیں پائیدار ہیں‘ یعنی خدا کی بادشاہت کا۔—عبر 11:10۔
مسیحیوں کے لیے شہر پیلا میں بھاگ جانا نہ صرف محفوظ تھا بلکہ یہ شہر اُنہیں قریب بھی پڑتا تھا۔ (پیراگراف نمبر 10-11 کو دیکھیں۔)
12-13. یہوواہ نے مشکل وقت میں اپنے بندوں کی رہنمائی کیسے کی ہے؟
12 ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہوواہ اُن بھائیوں کے ذریعے اپنے بندوں کو خاص ہدایتیں دیتا ہے جو اُس کی تنظیم میں پیشوائی کر رہے ہیں۔ بائبل ایسے وفادار آدمیوں کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے جنہیں یہوواہ نے مشکل وقت میں اپنے بندوں کا خیال رکھنے اور اُن کی رہنمائی کرنے کے لیے مقرر کِیا۔ (اِست 31:23؛ زبور 77:20) اور آج ہم نے بھی اِس بات کے واضح ثبوت دیکھے ہیں کہ یہوواہ اُن بھائیوں کے ذریعے ہماری رہنمائی کر رہا ہے جو ہماری پیشوائی کرتے ہیں۔
13 مثال کے طور پر جب کورونا کی وبا پھیلی تو جو بھائی ہماری ”پیشوائی“ کر رہے تھے، اُنہوں نے اِس حوالے سے کچھ واضح ہدایتیں دیں۔ اِن بھائیوں نے بزرگوں کو ہدایت دی کہ کلیسیائیں کیسے آئندہ بھی مل کر یہوواہ کی عبادت کرنا جاری رکھ سکتی ہیں۔ وبا کے شروع ہونے کے کچھ ہی مہینوں بعد ہم نے 500 سے زیادہ زبانوں میں اپنا علاقائی اِجتماع کِیا۔ ہمارے بہن بھائیوں نے اِجتماع کے پروگرام کو اِنٹرنیٹ یا ٹیوی کے ذریعے دیکھا یا پھر اِسے ریڈیو پر سنا۔ ہمیں روحانی کھانا ملنا بند نہیں ہوا جس کی وجہ سے پوری دُنیا میں ہم سب بہن بھائیوں کو ایک جیسی ہدایتیں ملتی رہیں۔ ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ چاہے آگے چل کر ہمیں کسی بھی مشکل کا سامنا ہو، یہوواہ ہماری پیشوائی کرنے والے بھائیوں کی مدد کرتا رہے گا تاکہ وہ صحیح فیصلے لیں۔ لیکن بڑی مصیبت کے لیے خود کو تیار کرنے اور اُس مشکل وقت میں صحیح قدم اُٹھانے کے لیے ہمیں نہ صرف یہوواہ پر بھروسا کرنا اور اُس کے حکموں کو ماننا ہوگا بلکہ ہمیں اپنے اندر کچھ اَور خوبیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ یہ کون سی خوبیاں ہیں؟
ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کریں اور مہماننوازی کریں
14. یروشلم کی تباہی سے پہلے مسیحیوں کو عبرانیوں 13:1-3 کے مطابق کون سی خوبیاں ظاہر کرنے کی ضرورت تھی؟
14 جب بڑی مصیبت شروع ہوگی تو ہمیں ایک دوسرے کے لیے پہلے سے بھی کہیں زیادہ محبت دِکھانی ہوگی۔ اُس وقت ہمیں یروشلم اور یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں کی مثال پر عمل کرنا ہوگا۔ وہ مسیحی ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے محبت دِکھاتے تھے۔ (عبر 10:32-34) لیکن یروشلم کی تباہی سے کچھ سال پہلے تو اُنہیں اَور بھی زیادہ ”ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار“ کرنا تھا اور ایک دوسرے کی ”مہماننوازی“ کرنی تھی۔ (عبرانیوں 13:1-3 کو پڑھیں۔) تو جیسے جیسے ہم اِس دُنیا کے خاتمے کے قریب ہوتے جائیں گے، ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔
15. یروشلم اور یہودیہ سے بھاگ جانے کے بعد عبرانی مسیحیوں کو ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کرنے اور ایک دوسرے کی مہماننوازی کرنے کی ضرورت کیوں تھی؟
15 جب رومی فوج نے یروشلم کو گھیر لیا اور پھر وہ اچانک سے وہاں سے چلی گئی تو مسیحیوں کو اپنے ساتھ کچھ سامان لے کر وہاں سے بھاگ جانے کا موقع مل گیا۔ لیکن وہ اپنے ساتھ صرف تھوڑا سا ہی سامان لے کر بھاگے۔ (متی 24:17، 18) اُنہیں پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنی تھی اور جب اُنہوں نے شہر پیلا پہنچ جانا تھا تو وہاں ایک نئی زندگی شروع کرنے میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینا تھا۔ بےشک اُس وقت کئی موقعوں پر ایسی ’خاص ضرورتیں پیدا‘ ہوئی ہوں گی جن میں اِن مسیحیوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی مہماننوازی کرنے سے سچی محبت دِکھانے کا موقع ملا ہوگا۔—طِط 3:14۔
16. ہم اپنے ضرورتمند ہمایمانوں کے لیے محبت کیسے دِکھا سکتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
16 ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہم اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت کرتے ہیں اِس لیے جب اُنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم فوراً آگے بڑھ کر ایسا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے بہت سے بہن بھائیوں نے خوشی سے اپنے اُن پناہگزین بہن بھائیوں کی مدد کی جو جنگوں یا قدرتی آفت کا شکار ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے اِن ہمایمانوں کو رہنے کے لیے جگہ دی اور اُن کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں۔ یوکرین سے تعلق رکھنے والی ایک بہن کو جنگ کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ اُس نے کہا: ”ہم نے محسوس کِیا کہ یہوواہ ہمارے بہن بھائیوں کے ذریعے ہماری مدد اور رہنمائی کر رہا تھا۔ ہمارے بہن بھائیوں نے ہمیں بہت پیار دیا۔ اُنہوں نے یوکرین میں، ہنگری میں اور اب یہاں جرمنی میں ہمارا بہت اچھے سے خیال رکھا اور بہت مدد کی۔“ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے مہماننوازی دِکھاتے ہیں اور اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں تو ہم یہوواہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔—اَمثا 19:17؛ 2-کُر 1:3، 4۔
آج بھی ہمارے پناہگزین بہن بھائیوں کو ہمارے سہارے کی ضرورت ہے۔ (پیراگراف نمبر 16 کو دیکھیں۔)
17. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم ابھی ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کریں اور ایک دوسرے کے لیے مہماننوازی دِکھائیں؟
17 بڑی مصیبت کے دوران ہمیں اپنے ہمایمانوں کی اَور بھی زیادہ مدد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ (حبق 3:16-18) یہوواہ ابھی ہمیں ٹریننگ دے رہا ہے کہ ہم اپنے ہمایمانوں سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کریں اور اُن کے لیے مہماننوازی دِکھائیں۔ یہ ایسی اہم خوبیاں ہیں جنہیں بڑی مصیبت کے وقت ظاہر کرنا بہت ضروری ہوگا۔
مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟
18. ہم پہلی صدی عیسوی میں رہنے والے عبرانی مسیحیوں کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
18 تاریخ سے ثابت ہوا ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں جو مسیحی پہاڑوں پر بھاگ گئے تھے، وہ یروشلم پر آنے والی تباہی سے بچ گئے تھے۔ حالانکہ اُن مسیحیوں کو اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑنا پڑا لیکن یہوواہ نے اپنے اِن بندوں کو اُن کے حال پر نہیں چھوڑا۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ سچ ہے کہ ہم مستقبل میں ہونے والی ہر بات کے بارے میں نہیں جانتے لیکن ہم یسوع کی اِس آگاہی کے بارے میں ضرور جانتے ہیں کہ ہمیں فرمانبرداری کرنے کے لیے بالکل تیار رہنا چاہیے۔ (لُو 12:40) ہمیں اُن نصیحتوں پر بھی دھیان دینا اور عمل کرنا چاہیے جو پولُس نے عبرانیوں کے خط میں پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو کیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ نے ہمیں خود اِس بات کی ضمانت دی ہے کہ وہ ہمیں کبھی ترک نہیں کرے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔ (عبر 13:5، 6) دُعا ہے کہ ہم خدا کی بادشاہت کا شدت سے اِنتظار کرتے رہیں جو ہمیشہ تک قائم رہنے والا شہر ہے اور جس کے ذریعے ہمیں ہمیشہ تک برکتیں ملیں گی۔—متی 25:34۔
گیت نمبر 157: امن کا دَور آ گیا!
a بائبل میں بتائے گئے لوگوں کے زمانے میں ایک شہر پر اکثر ایک بادشاہ حکمرانی کرتا تھا۔ اِس طرح کے شہر کو ایک بادشاہت سمجھا جاتا تھا۔—پید 14:2۔
b ایسا 67ء میں ہوا۔ اُس وقت مسیحیوں کو یہودیہ اور یروشلم سے بھاگے ہوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا۔