مطالعے کا مضمون نمبر 49
کیا یہوواہ میری دُعاؤں کا جواب دے گا؟
”تب تُم میرا نام لو گے اور مجھ سے دُعا کرو گے اور مَیں تمہاری سنوں گا۔“—یرم 29:12۔
گیت نمبر 41: سُن میری دُعا
مضمون پر ایک نظرa
1-2. ہمیں ایسا کیوں لگ سکتا ہے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دے رہا؟
”یہوواہ میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مُرادیں پوری کرے گا۔“ (زبور 37:4) یہ کتنا ہی زبردست وعدہ ہے! لیکن کیا ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہوواہ فوراً ہمیں وہ سب کچھ دے دے گا جو ہم اُس سے مانگتے ہیں؟ ہمیں خود سے یہ سوال کیوں پوچھنا چاہیے؟ ذرا اِن صورتحال پر غور کریں: فرض کریں کہ ایک بہن بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول میں جانے کے لیے یہوواہ سے دُعا کرتی ہے۔ لیکن کئی سال گزر جانے کے بعد بھی اُسے سکول میں آنے کی دعوت نہیں ملتی۔ ایک بھائی کو بہت خطرناک بیماری ہے اور وہ یہوواہ سے دُعا کرتا ہے کہ وہ اُس کی بیماری ٹھیک کر دے تاکہ وہ کلیسیا میں اَور بڑھ چڑھ کر کام کر سکے۔ لیکن اُس کی صحت ٹھیک نہیں ہوتی۔ والدین یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں کہ اُن کا بچہ اُس کے قریب رہے۔ لیکن اُن کا بچہ یہوواہ کی خدمت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
2 شاید آپ نے بھی دُعا میں یہوواہ سے کچھ مانگا ہو لیکن آپ کو ابھی تک وہ ملا نہ ہو۔ اِس وجہ سے شاید آپ کو یہ لگنے لگے کہ یہوواہ صرف دوسروں کی دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ یا شاید آپ یہ سوچنے لگے ہوں کہ آپ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے اِس لیے یہوواہ آپ کی دُعا کا جواب نہیں دے رہا۔ جُولیا نام کی بہن کو بھی ایسا ہی لگنے لگا۔b بہن جُولیا اور اُن کے شوہر نے دُعا میں یہوواہ کو بتایا تھا کہ وہ بیتایل جانا چاہتے ہیں۔ بہن جُولیا نے کہا: ”مجھے پکا یقین تھا کہ ہمیں فوراً ہی بیتایل میں بُلا لیا جائے گا۔“ لیکن اِنتظار کے مہینے سالوں میں بدل گئے اور اُنہیں بیتایل نہیں بُلایا گیا۔ بہن جُولیا نے کہا: ”مَیں بہت دُکھی تھی اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مَیں سوچنے لگی کہ کیا مَیں نے یہوواہ کو ناراض کر دیا ہے۔ مَیں نے یہوواہ سے بیتایل جانے کے حوالے سے کتنی دُعائیں کی تھیں۔ اُس نے میری دُعا کا جواب کیوں نہیں دیا؟“
3. اِس مضمون میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟
3 کبھی کبھار شاید ہم یہ سوچنے لگیں کہ کیا یہوواہ ہماری دُعائیں سنتا بھی ہے؟ پُرانے زمانے میں بھی خدا کے کچھ بندوں کے ذہن میں یہی بات آئی تھی۔ (ایو 30:20؛ زبور 22:2؛ حبق 1:2) کیا چیز اِس بات پر آپ کے یقین کو بڑھا سکتی ہے کہ یہوواہ آپ کی دُعاؤں کو سنے گا؟ (زبور 65:2) اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اِن سوالوں کا جواب حاصل کرنا ہوگا: (1)ہمیں دُعاؤں کے حوالے سے کیا یاد رکھنا چاہیے؟ (2)دُعاؤں کے حوالے سے یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ (3)ہمیں اپنی کچھ دُعاؤں کو بدلنا کیوں پڑ سکتا ہے؟
ہمیں دُعاؤں کے حوالے سے کیا یاد رکھنا چاہیے؟
4. یرمیاہ 29:12 کے مطابق یہوواہ نے کیا کرنے کا وعدہ کیا ہے؟
4 یہوواہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہماری دُعائیں سنے گا۔ (یرمیاہ 29:12 کو پڑھیں۔) یہوواہ کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے۔ اِس لیے وہ کبھی بھی اُن کی دُعائیں نظرانداز نہیں کرتا۔ (زبور 10:17؛ 37:28)لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں وہ سب کچھ مل جائے گا جو ہم یہوواہ سے مانگتے ہیں۔ شاید کچھ چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں نئی دُنیا کا اِنتظار کرنا پڑے۔
5. یہوواہ ہماری دُعائیں سنتے وقت کس چیز پر غور کرتا ہے؟ وضاحت کریں۔
5 یہوواہ ہماری دُعائیں سنتے وقت اِس بات پر غور کرتا ہے کہ کیا اِن کا اُس کے مقصد سے تعلق ہے۔ (یسع 55:8، 9) یہوواہ کے مقصد میں یہ بات شامل ہے کہ پوری زمین پر ایسے لوگ ہوں جو خوشی سے اُسے اپنا حکمران مان کر اُس کے تابع رہیں۔ لیکن شیطان نے یہ دعویٰ کِیا ہے کہ اِنسان اُسی وقت خوش رہ سکتے ہیں جب وہ خود ایک دوسرے پر حکمرانی کریں گے۔ (پید 3:1-5) شیطان کے اِس دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یہوواہ نے ابھی اِنسانوں کو حکمرانی کرنے کی اِجازت دی ہوئی ہے۔ لیکن اِنسانوں کی حکمرانی کی وجہ سے ہمیں آج بہت سے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (واعظ 8:9) ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ اِن سب مسئلوں کو فیالحال حل نہیں کرے گا کیونکہ اگر وہ ایسا کر دے گا تو شاید کچھ لوگوں کہ یہ لگنے لگے کہ اِنسان صحیح طرح حکمرانی کر رہا ہے اور وہ سب مسئلوں کو حل کر سکتا ہے۔
6. ہمیں اِس بات پر پکا یقین کیوں ہونا چاہیے کہ یہوواہ جو کرتا ہے، وہ بالکل صحیح ہوتا ہے اور وہ محبت کی بِنا پر ہر کام کرتا ہے؟
6 شاید یہوواہ ایک جیسی دُعاؤں کا جواب فرق فرق طریقے سے دے۔ مثال کے طور پر جب بادشاہ حِزقیاہ بہت بیمار تھے تو اُنہوں نے یہوواہ سے اِلتجا کی کہ وہ اُنہیں ٹھیک کر دے۔ یہوواہ نے اُن کے دُعا کا جواب دیا اور اُنہیں ٹھیک کر دیا۔ (2-سلا 20:1-6) لیکن جب پولُس رسول نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ اُس تکلیف کو ہٹا لے جو ”ایک کانٹے کی طرح[اُن کے]جسم میں چبھتی رہتی ہے“ یعنی شاید وہ یہوواہ سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اُن کی بیماری کو ٹھیک کر دے تو یہوواہ نے ایسا نہیں کیا۔ (2-کُر 12:7-9) ذرا یعقوب اور پطرس کی مثال پر بھی غور کریں۔ اُن دونوں کو بادشاہ ہیرودیس کی طرف سے جان کا خطرہ تھا۔ کلیسیا نے پطرس اور شاید یعقوب کے لیے بھی دُعا کی تھی۔ لیکن یعقوب کو قتل کر دیا گیا جبکہ پطرس کو ایک فرشتے نے بچا لیا۔ (اعما 12:1-11) شاید ہم سوچیں: ”یہوواہ نے پطرس کی جان بچا لی لیکن یعقوب کو کیوں مرنے دیا؟“ بائبل میں اِس بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔c لیکن ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ”[یہوواہ]کی سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔“ (اِست 32:4) ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہوواہ پطرس اور یعقوب دونوں سے ہی خوش تھا۔ (مُکا 21:14) کبھی کبھار شاید یہوواہ ہماری دُعا کا جواب اُس طریقے سے نہ دے جس کی ہم توقع کر رہے ہوں۔ لیکن ہمیں اِس بات پر پورا بھروسا ہے کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ بالکل صحیح ہوتا ہے اور وہ محبت کی بِنا پر ہر کام کرتا ہے۔ اِس لیے ہم اُس کے کاموں پر سوال نہیں اُٹھاتے۔—ایو 33:13۔
7. ہمیں کیا کرنے سے بچنا چاہیے اور کیوں؟
7 ہمیں اپنی صورتحال کا موازنہ دوسروں سے نہیں کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر شاید ہم یہوواہ سے دُعا میں کسی چیز کے لیے درخواست کریں۔ لیکن ہمیں وہ چیز نہ ملے۔ بعد میں ہمیں پتہ چلے کہ کسی اَور نے بھی یہوواہ سے ویسی ہی درخواست کی ہے اور یہوواہ نے اُس کی دُعا کا جواب دیا ہے۔ اینا نام کی بہن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اُن کے شوہر کو کینسر تھا اور بہن اینا نے یہوواہ سے دُعا کی تھی کہ وہ اُن کے شوہر کو ٹھیک کر دے۔ اُسی دوران کلیسیا کی دو بوڑھی بہنیں بھی کینسر سے لڑ رہی تھیں۔ بہن اینا نے دل کی گہرائی سے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ اُن کے شوہر اور اُن دونوں بہنوں کو ٹھیک کر دے۔ وہ بہنیں تو ٹھیک ہو گئیں لیکن بہن اینا کے شوہر فوت ہو گئے۔ شروع میں بہن اینا سوچنے لگیں کہ اگر یہوواہ نے اُن کی دُعا کا جواب دے کر اُن دونوں بہنوں کو ٹھیک کر دیا ہے تو اُس نے اُن کے شوہر کو ٹھیک کیوں نہیں کیا۔ بےشک ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ دونوں بہنیں کیسے ٹھیک ہو گئیں۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہوواہ ہماری سب تکلیفوں کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ وہ اپنے اُن بندوں کو زندہ کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے جو فوت ہو گئے ہیں۔—ایو 14:15۔
8. (الف)یسعیاہ 43:2 کے مطابق یہوواہ ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟ (ب)مشکلوں سے گزرتے وقت دُعا ہماری مدد کیسے کرتی ہے؟ (ویڈیو ”دُعا مشکل وقت میں ہمیں سہارا دیتی ہے“ کو دیکھیں۔)
8 یہوواہ ہمیشہ ہماری مدد کرتا ہے۔ یہوواہ ہمارا شفیق آسمانی باپ ہے اور وہ ہمیں تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ (یسع 63:9) لیکن وہ سیلاب یا آگ کے شعلے جیسی ہماری ہر مشکل کو حل نہیں کرتا۔ مگر اُس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن سے گزرنے میں ہماری مدد کرے گا۔ (یسعیاہ 43:2 کو پڑھیں۔) وہ اِس بات کا پورا خیال رکھے گا کہ کوئی بھی چیز ہمیں اُس سے دُور نہ کر سکے۔ یہوواہ ہمیں اپنی پاک روح کے ذریعے بھی مشکلوں کو برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ (لُو 11:13؛ فلِ 4:13) ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ مشکلوں کو برداشت کرنے اور اپنا وفادار رہنے کے لیے یہوواہ ہمیں وہ سب کچھ دے گا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔d
دُعاؤں کے حوالے سے یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
9. یعقوب 1:6، 7 کے مطابق ہمیں اِس بات پر بھروسا کیوں رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہماری مدد کرے گا؟
9 یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُس پر بھروسا رکھیں۔ (عبر 11:6)کبھی کبھار شاید ہماری مشکلیں ایسی ہوں جن سے نمٹنا ہمیں آسان نہ لگے۔ شاید ہم اِس بات پر شک کرنے لگیں کہ یہوواہ ہماری مدد کرے گا۔ لیکن بائبل میں ہمیں اِس بات کا یقین دِلایا گیا ہے کہ خدا کی طاقت سے ہم ”دیوار پھاند“ سکتے ہیں۔ (زبور 18:29) اِس لیے ہمیں اپنے دل میں شک کا بیج نہیں بڑھنے دینا چاہیے بلکہ پورے ایمان کے ساتھ یہوواہ سے دُعا کرنی چاہیے۔ ہمیں اِس بات پر بھروسا رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب دے گا۔—یعقوب 1:6، 7 کو پڑھیں۔
10. مثال دے کر بتائیں کہ ہم دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ خود کوئی قدم کیسے اُٹھا سکتے ہیں۔
10 یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی کوئی قدم اُٹھائیں۔ مثال کے طور پر شاید ایک بھائی یہوواہ سے دُعا کرے کہ اُسے اپنے کام سے چھٹی مل جائے تاکہ وہ علاقائی اِجتماع پر جا سکے۔ یہوواہ اِس دُعا کا جواب کس طرح دے سکتا ہے؟ شاید وہ اِس بھائی کو دلیری دے تاکہ وہ جا کر اپنے باس یا ٹھیکےدار سے بات کر سکے۔ لیکن دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ اُس بھائی کو خود بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید اُسے بار بار جا کر اپنے باس یا ٹھیکےدار سے بات کرنی پڑے یا ہو سکتا ہے اُسے کسی اَور دن کام کرنا پڑے۔ اور اگر ضروری ہو تو وہ اپنے باس سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اُس کی چھٹیوں کے پیسے کاٹ لے۔
11. ہمیں ایک معاملے کے بارے میں بار بار دُعا کیوں کرنی چاہیے؟
11 یہوواہ چاہتا کہ ہم ایک معاملے کے بارے میں بار بار دُعا کریں۔ (1-تھس 5:17) یسوع نے جو بات کہی، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری کچھ دُعاؤں کا جواب ہمیں فوراً نہیں مل جائے گا۔ (لُو 11:9) اِس لیے ہمت نہ ہاریں۔ دل کی گہرائی سے اور بار بار یہوواہ سے دُعا کریں۔ (لُو 18:1-7) جب ہم کسی معاملے کے بارے میں دُعا کرتے رہتے ہیں تو ہم یہوواہ کو یہ دِکھا رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے لیے وہ معاملہ بہت اہم ہے۔ ہم یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ اِس بات پر ہمارا پکا ایمان ہے کہ یہوواہ ہماری مدد کر سکتا ہے۔
ہمیں اپنی کچھ دُعاؤں کو بدلنے کی ضرورت کیوں پڑ سکتی ہے؟
12. (الف)ہمیں اپنی دُعاؤں کے حوالے سے خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں اور کیوں؟ (ب)ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اپنی دُعاؤں میں یہوواہ کے لیے احترام دِکھائیں؟ (بکس ”کیا میری دُعاؤں سے یہوواہ کے لیے احترام ظاہر ہوتا ہے؟“ کو دیکھیں۔)
12 ہم دُعا میں یہوواہ سے جو مانگ رہے ہیں، اگر ہمیں وہ نہیں ملتا تو ہمیں خود سے تین سوال پوچھنے چاہئیں۔ پہلا سوال یہ ہے: ”کیا مَیں صحیح چیز کے لیے دُعا کر رہا ہوں؟“ اکثر ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں پتہ کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ لیکن شاید ہم یہوواہ سے دُعا میں جو چیزیں مانگ رہے ہیں، اُن کا ہمیں زیادہ فائدہ نہ ہو۔ اگر ہم کسی مسئلے کے بارے میں یہوواہ سے دُعا کر رہے ہیں تو شاید اِس کا بہتر حل وہ نہ ہو جو ہم نے سوچا ہوا ہے۔ اور کبھی کبھار شاید ہماری دُعائیں یہوواہ کی مرضی کے مطابق نہ ہوں۔ (1-یوح 5:14) ذرا اُن والدین کی مثال پر غور کریں جن کا ذکر پیراگراف نمبر 1 میں کِیا گیا ہے۔ اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی تھی کہ اُن کا بچہ کبھی بھی اُس سے دُور نہ ہو۔ اِس بارے میں دُعا کرنا بالکل صحیح ہے۔ لیکن یہوواہ ہم میں سے کسی کو بھی اُس کی عبادت کرنے کے لیے مجبور نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم سب اور ہمارے بچے بھی اُس کی عبادت کرنے کا فیصلہ خود کریں۔ (اِست 10:12، 13؛ 30:19، 20) اِس لیے ماں باپ دُعا میں یہوواہ سے مدد مانگ سکتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کے دل تک پہنچ سکیں تاکہ اُس کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت پیدا ہو اور وہ اُس کا دوست بن جائے۔—اَمثا 22:6؛ اِفِس 6:4۔
13. عبرانیوں 4:16 کے مطابق یہوواہ ہماری مدد کب کرے گا؟ وضاحت کریں۔
13 ہم خود سے دوسرا سوال یہ پوچھ سکتے ہیں: ”کیا یہوواہ کی نظر میں یہ میری دُعا کا جواب دینے کا صحیح وقت ہے؟“ شاید ہمیں لگ رہا ہو کہ ہمیں اپنی دُعاؤں کا جواب فوراً مِل جانا چاہیے۔ لیکن یہوواہ جانتا ہے کہ ہماری مدد کرنے کا صحیح وقت کیا ہے۔ (عبرانیوں 4:16 کو پڑھیں۔) جب ہمیں وہ نہیں ملتا جو ہم یہوواہ سے مانگ رہے ہوتے ہیں تو شاید ہمیں لگنے لگے کہ یہوواہ کا جواب ”نہ“ ہے۔ لیکن شاید یہوواہ کا جواب ہو: ”ابھی نہیں۔“ ذرا پھر سے اُس بھائی کے بارے میں سوچیں جس نے یہوواہ سے دُعا کی تھی کہ وہ اُس کی خطرناک بیماری ٹھیک کر دے۔ اگر یہوواہ معجزہ کر کے اُس کی بیماری ٹھیک کر دیتا تو شیطان یہ اِلزام لگانے لگتا کہ وہ بھائی یہوواہ کی خدمت صرف اِس لیے کر رہا ہے کیونکہ یہوواہ نے اُسے ٹھیک کر دیا ہے۔ (ایو 1:9-11؛ 2:4) اِس کے علاوہ یہوواہ نے سب بیماریوں کو ختم کرنے کا ایک وقت طے کِیا ہوا ہے۔ (یسع 33:24؛ مُکا 21:3، 4) اور جب تک وہ وقت نہیں آتا ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ یہوواہ معجزہ کر کے ہماری بیماری کو ختم کر دے۔ اِس لیے بھائی یہوواہ سے یہ دُعا کر سکتا ہے کہ وہ اُسے ہمت اور ذہنی سکون دے تاکہ وہ اپنی بیماری سے لڑ سکے اور وفاداری سے اُس کی خدمت کرتا رہے۔—زبور 29:11۔
14. بہن جولیا کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟
14 ذرا پھر سے بہن جولیا کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے بیتایل جانے کے حوالے سے یہوواہ سے دُعا کی تھی۔ پانچ سال بعد وہ یہ سمجھ پائیں کہ یہوواہ نے اُن کی دُعا کا جواب دیا ہے لیکن ایک فرق طریقے سے۔ بہن جولیا نے کہا: ”یہوواہ نے اِس عرصے کے دوران مجھے بہت کچھ سکھایا اور میری مدد کی تاکہ مَیں ایک بہتر مسیحی بن سکوں۔ مجھے اُس پر اپنے بھروسے کو بڑھانے کی ضرورت تھی۔ مجھے اَور اچھی طرح بائبل کا ذاتی مطالعہ کرنا تھا اور یہ سمجھنا تھا کہ چاہے مَیں جہاں بھی یہوواہ کی خدمت کروں، مجھے خوشی مِل سکتی ہے۔“ بعد میں بہن جولیا کے شوہر کو حلقے کا نگہبان بنا دیا گیا۔ اُس وقت کے بارے میں سوچتے ہوئے بہن جولیا نے کہا: ”یہوواہ نے میری دُعاؤں کا جواب دیا ہے لیکن اُس طریقے سے نہیں جس کی مَیں توقع کر رہی تھی۔ مجھے یہ سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا کہ یہوواہ نے کتنے خوبصورت طریقے سے میری دُعا کا جواب دیا ہے۔ مَیں یہوواہ کی بہت شکرگزار ہوں کہ مجھے یہ موقع ملا کہ مَیں اُس کی محبت اور مہربانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں۔“
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہوواہ نے آپ کی دُعا کا جواب نہیں دیا تو اپنی دُعا کو تھوڑا بدلنے کے بارے میں سوچیں۔ (پیراگراف نمبر 15 کو دیکھیں)e
15. یہ ضروری کیوں نہیں ہے کہ ہم دُعا میں ہر بار کسی خاص چیز کا ہی ذکر کریں؟ (تصویروں کو بھی دیکھیں۔)
15 ہم خود سے تیسرا سوال یہ پوچھ سکتے ہیں: ”کیا مجھے کسی اَور چیز کے لیے دُعا کرنی چاہیے؟“ یہ اچھا ہوتا ہے کہ ہم دُعا میں کسی خاص چیز کا ذکر کریں۔ لیکن اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے تو ہر بار ایسا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ ذرا اُس بہن کی مثال پر غور کریں جس نے بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول میں جانے کے حوالے سے یہوواہ سے دُعا کی تھی۔ وہ اِس سکول میں اِس لیے جانا چاہتی تھی تاکہ وہ کسی ایسی جگہ جا کر یہوواہ کی خدمت کر سکے جہاں زیادہ مبشروں کی ضرورت ہے۔ اِس لیے وہ اِس سکول میں جانے کے حوالے سے دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اَور کام بھی کر سکتی ہے۔ وہ یہوواہ سے یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ وہ اُس کی یہ سمجھنے میں مدد کرے کہ وہ اَور کن طریقوں سے اُس کی خدمت کر سکتی ہے۔ (اعما 16:9، 10) پھر وہ یہوواہ سے دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی کوئی قدم اُٹھا سکتی ہے۔ وہ حلقے کے نگہبان سے پوچھ سکتی ہے کہ کیا آس پاس کی کسی کلیسیا میں پہلکاروں کی ضرورت ہے۔ یا وہ ہماری برانچ کو خط لکھ کر پوچھ سکتی ہے کہ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں زیادہ مبشروں کی ضرورت ہے۔
16. ہم کس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟
16 ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب بڑے ہی پیار سے اور صحیح طریقے سے دے گا۔ (زبور 4:3؛ یسع 30:18) کبھی کبھار شاید ہمیں ہماری دُعاؤں کا جواب ویسے نہ ملے جس کی ہم توقع کر رہے ہوں۔ لیکن یہوواہ کبھی بھی ہماری دُعاؤں کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ (زبور 9:10) وہ ہم سے بہت پیار کرتا ہے اور وہ ہمیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ اِس لیے ’ہر وقت اُس پر توکل کریں‘ اور دل کھول کر اُس سے دُعا کرتے رہیں۔—زبور 62:8۔
گیت نمبر 43: شکرگزاری کی دُعا
a اِس مضمون میں بتایا جائے گا کہ ہم اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب بڑے پیار اور صحیح طریقے سے دے گا۔
b کچھ نام فرضی ہیں۔
c ”مینارِنگہبانی،“ فروری 2022ء میں مضمون ”کیا آپ کو بھروسا ہے کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے؟“ کے پیراگراف نمبر 3-6 کو دیکھیں۔
d اِس بارے میں اَور جاننے کے لیے کہ یہوواہ مشکل حالات میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے، jw.org پر ویڈیو ”دُعا مشکل وقت میں ہمیں سہارا دیتی ہے“ کو دیکھیں۔
e تصویر کی وضاحت: دو بہنیں بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول کا فارم بھر نے سے پہلے دُعا کر رہی ہیں۔ بعد میں اُن میں سے ایک کو سکول بلا لیا جاتا ہے لیکن دوسری کو نہیں۔ جس بہن کو سکول میں نہیں بُلایا جاتا، وہ حد سے زیادہ مایوس ہونے کی بجائے یہوواہ سے دُعا کرتی ہے کہ وہ اُس کی یہ دیکھنے میں مدد کرے کہ وہ اَور کن طریقوں سے اُس کی خدمت کر سکتی ہے۔ پھر وہ ہماری برانچ کو خط لکھتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ جا کر خدمت کرنے کے لیے تیار ہے جہاں زیادہ مبشروں کی ضرورت ہے۔